محمد بن عباس خوارزمی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ابوبکر محمد بن عباس خوارزمی ، چوتھی صدی کے ایک
ادیب ،
کاتب اور
شاعر ہیں۔
[ترمیم]
زیادہ تر مصادر میں وہ ابوبکر خوارزمی کے نام سے معروف ہیں۔
اور ان کا لقب طبری و طبرخَزمی ہے۔
[ترمیم]
آپ کی تاریخ ولادت کو
سنہ ۳۲۳
اور سنہ ۳۱۶
یا چوتھی صدی کے پہلے عشرے کے اواخر اور دوسرے عشرے کے اوائل (صدقی، ص ۱۰۷) کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے۔ ان کی جائے ولادت کے بارے میں بھی اختلاف ہے
مگر
ثعالبی جو خوارزمی کا شاگرد تھا؛ نے لکھا ہے کہ ان کی جائے ولادت
خوارزم ہے۔
[ترمیم]
خوارزمی کے خاندان کے بارے میں بھی کچھ معلومات موجود ہیں؛ منجملہ یہ کہ ان کا خانوادہ دولت مند تھا
اور ان کے ماموں
محمدبن جریر طبری ہیں
[ترمیم]
بعض نے اس طبری کو وہی
تفسیر و
تاریخ کا مصنف متوفی ۳۱۰ھ
اور بعض نے انہیں شیعہ طبری کتاب
المُسْتَرشِد اور
الایضاح فی الامامة (متوفی قرن چہارم) کا مؤلف قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
خوارزمی نے
جوانی میں اپنے وطن سے
ہجرت کی
اور کچھ عرصہ
بغداد میں مقیم رہے اور
ابوعلی اسماعیلبن محمد صفّار اور
قاضی ابوبکر احمدبن کامل سنجری سے تعلیم حاصل کی۔
سنہ ۳۴۶ھ سے قبل
شام گئے اور کچھ عرصہ
حلب میں رہائش پذیر رہے
اور
سیف الدّولہ ہمدانی کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔
پھر
بخارا گئے اور ابوعلی بلعمی وزیر (متوفی ۳۸۳) کے مصاحب بن گئے اور ان کی تعریف میں اشعار کہے
مگر کچھ مدت کے بعد دونوں کے تعلقات خراب ہو گئے۔
[ترمیم]
اس کے بعد خوارزمی
نیشاپور چلے گئے اور وہاں جا کر
وزیر کی
ہجو کہی۔
وہ نیشاپور میں امیر ابونصراحمدبن علی میکالی کے ساتھ ملحق ہو گئے اور اس
شہر کے طاقتور لوگوں کے ہم نشین ہو گئے۔
[ترمیم]
تاہم نیشاپور میں قیام اور میکالی کے
خاندان کی ہمراہی سے خوارزمی کی تمنائیں پوری نہ ہو سکیں۔ لہٰذا وہ وہاں سے سنہ ۳۵۳ھ میں
سجستان چلے گئے اور وہاں کے والی ابو الحسین طاہر کی مدح میں اشعار کہے اور اس سے انعام دریافت کیا؛
مگر یہ صورتحال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی اور خوارزمی کو
زندان میں ڈال دیا گیا اور آزادی ملنے کے بعد وہ
طبرستان چلا گئے اور سنہ ۳۵۶ھ میں نیشاپور واپس آ گئے۔
[ترمیم]
وہ ان سفروں میں اپنی آرزوئیں پوری نہ کرسکے؛ اس لیے
آل بویہ سے تعلقات قائم کیے اور رکن الدولہ آل بویہ کے لشکر کے افسر اور قومس میں اس کے
والی کے ساتھ دوستی کی بنیاد رکھی۔
اسی طرح ابنعمید سرود کیلئے اشعار کہے
اور رکنالدولہ کی وفات کے بعد اس کے سوگ میں
مرثیہ کہا۔
سنہ ۳۶۶ میں ابنعمید کی وفات کے بعد خوارزمی آلبویه کے دانشور وزیر صاحب بن عَبّاد کے ساتھ ملحق ہو گیا۔ خوارزمی کی صاحب بن عباد کے ساتھ پہلی ملاقات کے بارے میں کچھ حکایتیں نقل ہوئی ہیں۔
خوارزمی عضدالدولہ آلبویہ کی ملاقات کیلئے دو مرتبہ شیراز گیا اور یہ ملاقات سنہ ۳۷۱ھ میں عضد الدولہ کے شیراز کو ترک کرنے سے پہلے ہوئی۔
خوارزمی کا آلبویه سے تعلق
سامانیوں کو پسند نہیں آیا، اس لیے انہوں نے خوارزمی کو دھمکی دی کہ ان کے دربار سے ملحق ہو جائیں
اور یہ امر خوارزمی کے
خوف کا باعث بنا۔
[ترمیم]
جب خوارزمی کا دوست ابوالحسن مُزَنی سامانیوں کا وزیر بن گیا تو اس نے خوارزمی کو ایک خط لکھ کر نیشاپور مدعو کیا اور خوارزمی نے بھی یہ دعوت قبول کر لی
اور اپنے دروس کی مجالس کو بخارا اور
نسا میں منتقل کر دیا۔
خوارزمی کے درس میں بہت سے شاگرد حاضر ہوتے تھے۔
یہ خوشگوار حالات سنہ ۳۸۲ھ تک چلتے رہے۔
[ترمیم]
اس سال
بدیع الزمان ہمدانی نیشاپور آیا اور خوارزمی کے دشمنوں اور حاسدین کو اس سے انتقام جوئی کا موقع مل گیا؛ یہاں تک کہ خوارزمی نے ناراض ہو کر گلے شکوے کیے۔
اسی سال خوارزمی اور بدیع الزمان ہمدانی کے مابین ادبی مناظرہ ہوا۔
ثعالبی
نے کہا ہے کہ بعض نے بدیعالزمان کو فاتح قرار دیا اور بعض نے خوارزمی کو۔
اس
مناظرے کے خوارزمی پر ناخوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔
[ترمیم]
خوارزمی کی وفات سنہ ۳۸۳ہجری کے ماہ
شوال یا ماہ
رمضان میں ہوئی۔ اس کی تاریخ وفات کے بارے میں ثعالبی کے قول کو ترجیح حاصل ہے؛ کیونکہ وہ خوارزمی کا ہم نشین اور
شاگرد تھا۔
[ترمیم]
خوارزمی کے بلند علمی و ادبی مقام کا اس کے شاگردوں سے پتہ چلتا ہے کہ جن میں سے قابل ذکر یہ ہیں:
ابو منصور عبد الملک ثعالبی نیشابوری ،
ابو المظفر ھروی محمدبن آدم ،
ابو الفتح لغوی محمد بن احمد ،
ابو نصر احمدبن علی زوزنی ،
ابو نصر احمدبن حسین بیهقی ،
ابو الفضل احمدبن محمد عروضی ، و
حسن بن احمد طبسی نیشابوری ۔
خوارزمی نے اپنے بعض شاگردوں کو خطوط بھی لکھے ہیں کہ جن میں سے بعض شاگرد
فقیہ ، مصنف اور شاعر تھے۔
[ترمیم]
خوارزمی کی تالیفات یہ ہیں:
۱)
کتاب الامثال جس کا ذکر
ابوالحسن بیهقی کی
غررالامثال اور
خَفاجی کی
شفاءالغلیل میں ملتا ہے۔
اس کتاب کی
محمدحسین اعرجی نے تصحیح کی اور یہ سنہ ۱۳۷۳شمسی/۱۹۹۳ء کو
الجزائر میں شائع ہوئی ہے۔
۲)
المکارم و المفاخر جو بعض کے نزدیک خوارزمی کی تالیف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ کتاب
زکریا قزوینی کی کتاب
مفیدالعلوم کا ایک حصہ ہے؛ کیونکہ اسلوب تحریر خوارزمی کے اسلوب تحریر سے مختلف ہے۔
اس کتاب کو عزّت عطار نے بمطابق سنہ ۱۳۵۴
قاہره میں شائع کیا ہے۔
۳)
شرح دیوانالمتنبی ۔
۴)
امالی الخوارزمی کہ جس کی طرف
میدانی نے اشارہ کیا ہے۔
۵)
المناقب؛ اس کتاب کا نام
شروانی کی کتاب
حدیقة الافراح میں ملتا ہے۔
۶)
رسائل ابیبکر الخوارزمی ، یہ
کتاب نسیب اور هیبةالخازن کے مقدمے کے ساتھ سنہ ۱۳۵۹شمسی/۱۹۷۰ء کو
بیروت میں شائع ہوئی ہے۔
۷)
دیوان ابیبکر الخوارزمی جو
حامد صدقی کی شرح و توضیحات کے ساتھ سنہ ۱۳۷۶شمسی کو
تہران میں شائع ہوئی ہے۔
۸) وہ کتاب جسے
ابوالطیب محمدبن علی کاتب بیهقی کیلئے لکھا ہے
مگر مصادر میں اس کا نام ذکر نہیں ہوا ہے۔
۹) رسائل ابیبکر الخوارزمی (بیروت ۱۹۷۰)۔
[ترمیم]
(۱) ابنابیالحدید، شرح نهجالبلاغة، چاپ محمدابوالفضل ابراهیم، قاهره، ۱۳۸۵/۱۹۶۵۔
(۲) عبدالرحمانبن محمد انباری، نزهة الالبّاء فی طبقات الادباء، چاپ محمدابوالفضل ابراهیم، قاهره (تاریخ مقدمه ۱۳۸۶/ ۱۹۶۷)۔
(۳) ابنخلکان، وفیات۔
(۴) محمدبن طاهر ابنقیسرانی، المؤتلف و المختلف، المعروف بالانساب المتّفقة، چاپ کمال یوسف حوت، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔
(۵) ابراهیم احدب طرابلسی، کشف المعانی و البیان عن رسائل بدیعالزمان، بیروت۔
(۶) امین، اعیانالشیعة۔
(۷) یوسف بدیعی، الصبح المنبی عن حیثیة المتنبّی، چاپ مصطفی سقا، محمد شتا، عبده زیادة عبده، قاهره (۱۹۷۷)۔
(۸) بلاشر، ابوالطیب المتنبی دراسة فی التاریخ الادبی، ترجمه ابراهیم کیلانی، دمشق ۱۴۰۵/۱۹۸۵۔
(۹) ابوالحسن علی بیهقی، تاریخ بیهق، چاپ قاری سیدکلیماللّه حسینی، حیدرآباد هند ۱۹۶۸۔
(۱۰) محسن بن علی تنوخی، نشوار المحاضرة و اخبار المذاکرة، چاپ عبّود شالجی، بیروت ۱۳۹۳/۱۹۷۳۔
(۱۱) ابوحیّان توحیدی، اخلاق الوزیرین، چاپ محمدبن تاویت طنجی، دمشق ۱۳۸۵/۱۹۶۵۔
(۱۲) عبدالملک بن محمد ثعالبی، خاصالخاص، چاپ صادق نقوی، حیدرآباد دکن ۱۴۰۵/۱۹۸۴۔
(۱۳) عبدالملک بن محمد ثعالبی، یتیمة الدهر فی محاسن اهل العصر، چاپ مفید محمد قمیحه، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۱۴) علیبن عبدالعزیز جرجانی، الوساطة بین المتنبی و خصومه، چاپ محمدابوالفضل ابراهیم و علیمحمد بجاوی، قاهره ۱۳۷۰/۱۹۵۱۔
(۱۵) محمدبن عباس خوارزمی، الامثال، چاپ محمدحسین اعرجی، الجزایر، ۱۹۹۳۔
(۱۶) محمدبن عباس خوارزمی، رسائل ابیبکر الخوارزمی، چاپ نسیب وهیبه خازنی، بیروت ۱۹۷۰۔
(۱۷) محمدبن عباس خوارزمی، دیوان ابیبکر الخوارزمی، مع دراسة لعصره و جهاته و شعره، چاپ حامد صدقی، تهران ۱۳۷۶۔
(۱۸) راغب اصفهانی، محاضرات الادباء و محاورات الشعراء و البلغاء، چاپ ریاض عبدالحمید مراد، بیروت۱۴۲۷/۲۰۰۶۔
(۱۹) جعفربن احمد سراج قادری، مصارع الغشّاق، بیروت۔
(۲۰) یوسف الیان سرکیس، معجم المطبوعات العربیة و المعربّة، مصر ۱۳۴۶/۱۹۲۸، چاپ افست قم ۱۴۱۰۔
(۲۱) سمعانی، الانساب (چاپ اختصارات)۔
(۲۲) عبدالرحمان سیوطی، بغیة الوعاة فی طبقات اللغویین و النحاة، چاپ محمدابوالفضل ابراهیم، قاهره ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۲۳) احمدبن محمد شروانی، حدیقة الافراح لازالة الاتراح، بولاق ۱۲۸۲۔
(۲۴) مصطفی شکعه، بدیعالزمان الهمذانی، قاهره ۱۴۲۳/۲۰۰۳۔
(۲۵) نوراللّه شوشتری، مجالس المؤمنین، تهران ۱۳۵۴ش۔
(۲۶) مریم صادقی، «ابوبکر خوارزمی»، د بزرگ اسلامی، ج ۵، ۱۳۷۲ش۔
(۲۷) ابوهلال عسکری، دیوان المعانی، قاهره ۱۳۵۲، چاپ افست بغداد۔
(۲۸) علیبن یوسف قفطی، انباه الرواة علی انباه النحاة، چاپ محمدابوالفضل ابراهیم، قاهره ۱۳۶۹/۱۹۵۰۔
(۲۹) احمدبن محمد میدانی، مجمع الامثال، چاپ محمدابوالفضل ابراهیم، بیروت ۱۴۰۷/۱۹۸۷۔
(۳۰) ادوارد واندایک، اکتفاء القنوع بماهو مطبوع، مصر ۱۳۱۳/۱۸۹۶۔
(۳۱) یاقوت حموی، معجمالادباء، بیروت۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ، شماره۵۹۱۶ ۔