خطاب مستعملپی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںوہ خطاب جو کسی فائدہ کا حامل ہو یا خاص معنی رکھتا ہو کو خطابِ مستعمل کہتے ہیں۔ اصطلاح کی وضاحت[ترمیم]خطابِ مستعمل خطاب مہمل کے مقابلے میں ہے۔ اس خطاب کو خطابِ مستعمل کہتے ہیں جس میں کسی معنی کو پہنچایا گیا ہو یا اس کو وضع کرنے کا کوئی فائدہ ہو ۔ سید مرتضی کی نظر میں[ترمیم]سید مرتضی علی الہدی نے خطاب مستعمل کی اس طرح تعریف بیان کی ہے: خطاب مستعمل کے فوائد[ترمیم]خطابِ مستعمل دو انواع میں سے دوسری نوع کی سید مرتضی نے مزید تین صورتیں بیان کی ہیں۔ یہ تین صورتیں حقیقت میں خطابِ مستعمل کے فوائد کو ذکر کرتی ہیں اور تمیز و جدائی کا فائدہ ان سے آشکار ہوتا ہے۔ یہ درج ذیل تین صورتیں بنتی ہیں: ۱. وہ خطاب جو انواع میں سے کسی ایک نوع کو بیان کرے تاکہ دیگر انواع سے وہ جدا اور نمایاں ہو جائے ، مثلا: رنگ ، مکان، کائنات، اعتقاد و ارادہ وغیرہ۔ ۲. وہ خطاب جو اجناس میں سے کسی جنس کو بیان کرے تاکہ ایک جنس دیگر اجناس سے جدا اور نمایاں ہو جائے، مثلا: جوہر، زندگی۔ ۳. وہ خطاب جو ذوات میں سے کسی ذات کو بیان کرے، مثلا: عالم، قادر، کالا رنگ ، سفید رنگ وغیرہ۔ حوالہ جات[ترمیم]
مأخذ[ترمیم]فرہنگ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص ۴۵۳، برگرفتہ از مقالہ خطاب مستعمل۔ اس صفحے کے زمرہ جات : اصول فقہ | اصولی اصطلاحات | اوامر اور نواہی | خطاب کی اقسام | خطابات | مباحث الفاظ
|