مکتبِ دیوبند اور سلفیت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



مکتبِ دیوبند یا اہل سنت کا حنفی مذہب فرقہ برطانیہ کی استعماری حکومت کے خلاف جدوجہد ، دینِ اسلام کے احیا اور دینی حیات کی تجدید کیلئے وجود میں آیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس کا مرکزی دفتر مدرسہ دار العلوم حقانی میں منتقل ہو گیا۔ اس مدرسے نے سلفی جہادیوں کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ مکتبِ دیوبند ابتدا سے ہی فرقہ وارانہ اور بعض اوقات بنیاد پرستانہ رجحانات کا بانی ہے کہ جسے چند مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور آج یہ ایک سلفی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس مکتب کو سعودی عرب ، امریکا اور برطانیہ کی جانب سے مختلف علاقوں کا امن و امان تباہ کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ مکتب منظم انداز میں مالی حمایت سے برخوردار ہے۔


دیوبند کی بنیاد

[ترمیم]

دار العلوم دیوبند کی تاسیس «میروت» (۱۸۵۷ء/۱۲۳۶شمسی) کے قیام کے صرف دس سال بعد عمل میں آئی؛ یہ قیام مسلمانوں اور ہندوؤں کی جانب سے مشرقی ہندوستان پر کمپنی کی حکومت کے خلاف کیا گیا مگر انگریزوں کے نوکروں نے اسے کچل دیا اور جن مسلمانوں نے اسے برپا کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا، انہیں اس قیام کے دوران یا قتل کر دیا گیا یا پھر جلا وطن کر دیا گیا۔ اسی طرح انگریزوں نے بڑے پیمانے پر حکومت مخالف افراد کی زمینیں اور اموال بھی ضبط کر لیے تھے۔ لہٰذا اس قیام کے نتیجے میں مسلمان علما کو سخت نقصان پہنچا اور وہ پراکندہ ہو گئے۔
اس قیام کے بعد مدرسہ دار العلوم دیوبند کو صورتحال کنٹرول کرنے اور سرسید احمد خان کے افکار کا مقابلہ کرنے کی غرض سے علما کی ایک چھوٹی سی جماعت نے بنایا۔

دیوبندیت اور علی گڑھ کا امتیاز

[ترمیم]

سرسید احمد خان کے افکار کی رو سے برطانیہ کے زیر تسلط ہندوستان ’’دار الاسلام‘‘ ہے نہ کہ دار الحرب؛ لہٰذا مسلمان آرام و سکون سے یہاں زندگی بسر کر سکتے ہیں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کے حوالے سے ان پر کوئی شرعی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؛ کیونکہ انگریز مسلمانوں کے دینی اعمال کی انجام دہی کی مخالفت نہیں کرتے اور مسلمان ہندوستان میں اقلیت ہیں۔ اگر ہندوؤں کی اکثریت ان پر غالب ہو گئی تو انگریزوں کی نسبت زیادہ برا سلوک کرے گی۔
سر سید کے افکار کی رو سے ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں اور یہ نقطہ نظر بیسویں صدی میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ تاہم دار العلوم دیوبند کے علما و اساتذہ اس نظریے کے حامی نہیں تھے۔ انہوں نے سرسید احمد خان کے برخلاف ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ملت قرار دیا اور برصغیر کیلئے اصل خطرہ ہندوؤں کی بجائے انگریزوں کو قرار دیا۔ یہ بنیادی تفکر تھا کہ جس کی رو سے دیوبند اور علی گڑھ کا مکتب ایک دوسرے سے متمایز ہوتے ہیں۔

سلفی دیوبندی جماعت

[ترمیم]

آج اہلسنت کا دیوبندی فرقہ عالم اسلام کا ایک اہم ترین مذہبی و فکری مکتب ہے۔ یہ مکتبہ فکر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں کافی حد تک مقبول ہوا اور اس وقت بین الاقوامی سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔
دیوبندی مکتب نے شروع سے بنیاد پرست اور فرقہ پرست گروہوں کو تشکیل دیا ہے۔ یہ سلسلہ چند ادوار میں تقسیم ہوتا ہے۔ ماضی میں دیوبندیت کے دیگر مکاتب اور مذہبی گروہوں میں صرف عقیدے کا اختلاف تھا لیکن اب افغانستان پر سنہ ۱۹۸۰ء میں روس کے قبضے کے بعد سے یہ سلفی جماعت تشدد کے راستے پر چل نکلی ہے اور بہت سے شدت پسند گروہوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے۔
سلفی دیوبندی مکتب نے سنی جہادی گروہوں کی حمایت کر کے روسی فوج کو افغانستان سے نکالنے میں بہت موثر کردار ادا کیا؛ تاہم بعد میں اسی جماعت کو سعودی عرب ، امریکہ ، برطانیہ اور حتی داعش جیسے مقامی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ ان طاقتوں نے شدت پسندی کی ترویج کی غرض سے دیوبندی مدارس تعمیر کروائے۔ آج یہ بیرونی آقا اس مکتب کو سلفی جہادی گروہوں کے قالب میں خطے بالخصوص افغانستان، شام اور عراق میں بد امنی پھیلانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے دیوبندی مکتب جو کبھی استعمار مخالف اور مغرب مخالف ہوتا تھا؛ آج اسے تکفیری اور شدت پسند گروہوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ طالبان، القاعده، لشکر طیبہ، سپاه صحابہ، لشکر جھنگوی، حرکۃ المجاهدین اور چند دیگر گروہوں کے اس طرح کے عقائد و افکار ہیں اور آج سلفی جہادی جماعتوں کے عنوان سے پیش پیش ہیں۔

دیو بندی فرقے کی طاقت

[ترمیم]

دیوبندی فرقہ حنفی مذہب کا حصہ اور زیادہ تر وہابی تفکر کا حامل ہے۔ یہ پاکستان کی آبادی کا بیس فیصد ہیں۔ اس کے باوجود یہ مکتب اہل سنت کے بریلوی مکتبہ فکر اور شیعہ اکثریت سے زیادہ منظم اور مالدار ہے؛ بالخصوص آخری چند دہائیوں میں انہوں نے پاکستان اور آزاد قبائلی علاقوں میں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی مدد سے متعدد دینی مدارس کی بنیاد رکھی ہے۔ بڑے مدارس کے دیوبند علما کی جانب سے زکوۃ کی جمع آوری سے بھی دینی مدارس کی تعداد میں چشم گیر اضافہ ہوا ہے اور ان کے مالی وسائل مستحکم ہوئے ہیں۔
دیوبندی مکتب اور اہل حدیث کی فقہ میں شیعہ اور بریلوی مکاتب کی طرح تقلید کا تصور نہیں ہے۔ ہر دیوبندی عالم اپنے فقہی اصولوں یعنی «قرآن، سنت، اجماع، قیاس اور اجتهاد» کی مدد سے اپنے خاص نقطہ نظر کو بیان کرتا ہے اور اسی وجہ سے دیوبندی مکتب بڑی حد تک اپنے اصلی تشخص یعنی سنیت سے دور ہو چکا ہے۔

مربوط مقالات

[ترمیم]

پاکستان کی دیوبندی شخصیات اور مراکز؛ دیوبندی؛ دیوبندیت کے دینی افکار؛ دیوبندی علما کے عقائد؛ دیوبندی مشہور شخصیات؛ دارالعلوم دیوبند؛ دیوبندیت کا وہابیت سے امتیاز

ماخذ

[ترمیم]

مجله مطالعات راهبردی جهان اسلام، زمستان ۱۳۹۶ - شماره ۷۲ (‌۲۸ صفحه - از ۱۴۹ تا ۱۷۶)، ماخوذ از مقالہ «ساختار دیوبندیه در شبه قاره هند»، تاریخ بازیابی ۱۴۰۰/۰۹/۱۴۔    






جعبه ابزار