وضع الفاظ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



وضعِ الفاظ سے مراد یہ ہے کہ لفظ کا معنی سے کس نوعیت کا ربط و تعلق ہے اور لفظ کیسے معنی پر دلالت کرتا ہے۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

لغت میں وضع کا مطلب قرار دینا اور رکھنا کے معنی میں آتا ہے۔ یہی سے کسی معنی کے لیے لفظ کو قرار دینا وضع کہلانے لگا۔ اصطلاح میں اسی لغوی معنی کی رعایت کرتے ہوئے واضع نے جب کسی خاص معنی کے لیے لفظ کو قرار دینا تو اس کو وضع کہا جانے لگا۔ پس وضعِ الفاظ سے مراد معانی کے لیے لفظ کو وضع یا ایجاد کرنا ہے۔

لفظ اور معنی میں ربط و تعلق

[ترمیم]

لفظ اور معنی کے درمیان ربط اور تعلق کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اگر یہ ربط و تعلق نہ ہوتا تو لفظ کا تصور کرنے سے کبھی معنی ذہن میں نہ آتا۔ پس لفظ اور معنی میں ایسا شدید تعلق اور ربط موجود ہے کہ جیسے ہی لفظ کا تصور کرتے ہیں تو معنی کا تصور ذہن میں ابھر آتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لفظ کا معنی کے ساتھ کس نوعیت کا تعلق ہے؟ اس بارے میں دو اہم نظریے موجود ہیں:
۱. لفظ اور معنی مین ذاتی نوعیت کا ربط ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ لفظ کی معنی پر دلالت ذاتی ہے۔ ذاتِ لفظ کا تقاضا ہے کہ وہ معنی پر دلالت کرے، لفظ اپنی ذات سے باہر کسی شیء کا محتاج نہیں ہے کہ وہ خارج شیء معنی پر دلالت کرنے کا سبب بنے، مثلا آگ اور حرارت میں ذاتِ آگ کا تقاضا ہے کہ وہ حرارت پر دلالت کرے۔ اس صورت میں لفظ وضع کا محتاج نہیں ہو گا کہ پہلے لفظ کو معنی کے لیے وضع کیا جائے اور اس کے بعد معنی پر دلالت کرے! بلکہ چونکہ لفظ کی دلالت ذاتی ہے اس لیے لفظ بذاتِ خود معنی پر دلالت کرتا ہے۔

۲. لفظ اور معنی میں ربط اعتباری یعنی غیر ذاتی ہے۔ اس صورت میں لفظ کو پہلے معنی کے لیے وضع کیا جائے گا یا کثرتِ استعمال کی وجہ سے لفظ کسی خاص معنی میں استعمال ہونا شروع ہو گا۔ جب وضع کا مرحلہ طے ہو تو لفظ معنی پر دلالت کرے گا۔ پس یہاں ذاتِ لفظ سے دلالت وجود میں نہیں آ رہی بلکہ لفظ کی ذات سے باہر ایک واضع ہے جس نے لفظ کو وضع کیا ہے اور یہی واضع سبب بن رہا ہے کہ لفظ معنی پر دلالت کرے۔ اکثر اصولیوں نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے۔

لفظ کیسے معنی پر دلالت کرتا ہے؟

[ترمیم]

جب لفظ کو معنی کے لیے وضع کیا جائے تو لفظ کیسے معنی پر دلالت کرتا ہے؟ یعنی کس وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کا تصور کرتے ساتھ ہی معنی کا تصور ذہن میں آ جاتا ہے؟ اس بارے میں اصولیوں میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں بعض درج ذیل ہیں:
ا) نظریہِ اختصاص: اخوند خراسانی معتقد ہیں کہ لفظ اور معنی میں یہ شدید تعلق و ربط یا تو وضعِ تعیینی یا تخصیصی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے یا وضعِ تعینی یا تخصصی کے ذریعے۔ پس جب لفظ کو معنی سے خاص کیا جاتا ہے تو لفظ اور معنی میں ربط ایجاد ہو جاتا ہے جس کے سبب لفظ معنی پر دلالت کرتا ہے۔
ب) نظریہِ انسِ ذہنی: اس نظریہ کے تحت لفظ اور معنی میں ربط اور تعلق کا سبب ذہنی انس ہے۔ یعنی جب لفظ کو معنی کے لیے وضع کیا جاتا ہے تو لفظ اور معنی میں ایک خاص قسم کی سازگاری اور مناسبت ایجاد ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے جیسے لفظ سنتے ہیں تو معنی فورا ذہن میں آ جاتا ہے۔ پھر لفظ اور معنی میں اس قدر شدید تعلق قائم ہو جاتا ہے کہ معنی کا حُسن یا معنی کا قبح الفاظ میں سرایت کر جاتا ہے۔
ج) نظریہِ التزام یا تعہد: یہ محقق خوئی کا مختار ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ لفظ اور معنی میں ربط اور تعلق کا سبب تعہد اور اپنے لیے لازم قرار دینا ہے کہ اس معنی کے لیے ہمیشہ اس لفظ کو استعمال کروں گا۔ نظریہِ تعہد کے مطابق واضع اپنے ساتھ یہ عہد و پیمان باندھتا ہے کہ جب بھی وہ ذہن میں اس خاص معنی کو لائے گا یا اس خاص معنی کو بیان کرنا چاہے گا تو وہ اس خاص لفظ سے استفادہ کرے گا اور اس لفظ کو استعمال کر کے معنی بیان کرے گا۔
د) نظریہِ اعتبار: یہ جمہور اصولیوں کا نظریہ ہے کہ واضع نے جب لفظ کو ایک معنی کے لیے وضع کیا تو یہ وضع سبب بنا کہ لفظ اور معنی میں ایسا تعلق ایجاد ہو جائے کہ لفظ کے تصور کے ساتھ ہی معنی کا تصور ذہن میں آ حائے۔
ھ) نظریہِ قرِن اکید: یہ نظریہ شہید باقر الصدر کا مختار ہے۔ اس کے مطابق جب واضع ایک خاص معنی کے لیے لفظ کو ایجاد کرتا ہے تو فقط لفظ کا ایجاد ہو جانا دلالت کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ لفظ اور معنی تکرارًا اتنی مقدار تک ایک دوسرے کے ساتھ ہمراہ رہیں کہ دونوں میں ایسا ربط قائم ہو جائے کہ ایک تصور سے دوسرا کا تصور آ جائے۔ لفظ اور معنی کا آپس میں اتنی مقدار میں ملا ہوا ہونا سبب بنتا ہے کہ لفظ کے تصور سے معنی کا تصور آ جائے۔

مقامِ وضع اور مقامِ استعمال میں فرق

[ترمیم]

مقامِ وضع اور مقامِ استعمال میں اس طرح فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مقامِ وضع میں واضع ایک لفظ کو ایک معنی کے لیے ایجاد کرتا ہے اور نشاندہی کرتا ہے کہ یہ لفظ اس خاص معنی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ جبکہ مقامِ استعمال میں لفظ کو اس قصد و ارادہ کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے سے معنی سامع کے ذہن میں منتقل کیا جائے۔ پس مقامِ استعمال میں معنی کو سامع کے ذہن میں منتقل کرنا پیش نظر ہوتا ہے۔ مقامِ استعمال میں لفظ مثل آئینہ ہوتا ہے جس میں معنی کو ملاحظہ کیا ہے اور لفظ کے ذریعے سے معنی کو حاصل کیا جاتا ہے گویا کہ لفظ معنی میں فناء ہو گیا ہے۔ مقامِ استعمال کا مرحلہ ہمیشہ مقام وضع کے بعد ہے۔ لہذا جب لفظ ایک خاص معنی کے لیے وضع ہو جائے تو اس کے بعد یہ نوبت آتی ہے کہ اس کو استعمال کیا جائے۔
[۸] سیری کامل در اصول فقہ،فاضل لنکرانی، محمد، ج۲، ص ۳۹۰-۳۸۸۔
[۹] علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، مغنیۃ، محمد جواد، ص۲۳۔
[۱۰] فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولایی، عیسی، ص۳۷۴۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. کفایۃ الاصول، آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، ص۹۔    
۲. بحوث فی علم الاصول، ہاشمی شاہرودی، سید محمود، ج ۱، ص ۷۸۔    
۳. محاضرات فی اصول الفقہ، خوئی، ابو القاسم، ج۱، ص۳۲۔    
۴. بحوث فی علم الاصول، ہاشمی شاہرودی، سید محمود، ج ۱، ص ۸۱۔    
۵. دروس فی علم الاصول، شہید صدر، سید محمد باقر، ج ۱، ص ۱۸۷۔    
۶. اجود التقریرات، نائینی، محمد حسین، ج۱، ص۲۶۔    
۷. انوار الاصول، مکارم شیرازی، ناصر، ج۱، ص ۳۴-۳۳۔    
۸. سیری کامل در اصول فقہ،فاضل لنکرانی، محمد، ج۲، ص ۳۹۰-۳۸۸۔
۹. علم اصول الفقہ فی ثوبہ الجدید، مغنیۃ، محمد جواد، ص۲۳۔
۱۰. فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ولایی، عیسی، ص۳۷۴۔
۱۱. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج۱، ص۲۰۔    
۱۲. نہایۃ الافکار، عراقی، ضیاء الدین، ج۱، ص۲۵۔    
۱۳. الفصول الغرویۃ فی الاصول الفقہیۃ، اصفہانی، محمد حسین، ص۱۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۷۹۹، برگرفتہ از مقالہ وضع الفاظ۔    
بعض حوالہ جات اور تشریحی سطور ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کی گئی ہیں۔


اس صفحے کے زمرہ جات : اصولی اصطلاحات | مباحث الفاظ




جعبه ابزار