یحیی حرانی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بعض نے یحیی حرانی کو شہدائے کربلا میں سے قرار دیا ہے۔


یحیی کے نام پر تحقیق

[ترمیم]

ان کا نام یحیی حزانی بھی نقل ہوا ہے۔
[۱] تاریخ زندگانی امام حسین علیه‌السلام، عماد زاده، ج۲، ص۲۶۰۔


یحیی کا وطن

[ترمیم]

ان کا نام قدیم مصادر میں دیکھنے کو نہیں ملتا ہے مگر روضہ الشہداء کے مؤلف کے بقول یحیی حران کے ساکن اور یہودی تھے بعض نے انہیں صائبی بھی قرار دیا ہے۔
[۲] الامام الحسین و اصحابه، قزوینی، فضل علی، ج۱، ص۴۰۷۔


← حّران کا علاقہ


حرّان کا نام دراصل ھاران حضرت لوطؑ کے والد کے نام پر تھا اور پھر حرام میں تبدیل ہو گیا۔ نیز حران پہلا شہر تھا جسے بابل کے بعد تعمیر کیا گیا۔

یحیی حرانی کی شہادت کا واقعہ

[ترمیم]

جب اسرائے کربلا کا کاروان کوفہ سے شام کے سفر کے دوران اس مقام پر پہنچا تو یحیی جو پہاڑ پر ایک قلعے میں رہتے تھے؛ اس کاروان اور کٹے ہوئے سروں کو دیکھنے کیلئے وہاں پر آئے، انہوں نے امام حسینؑ کے سر مبارک کو دیکھا کہ جس کے لبوں میں جنبش تھی۔ جب نزدیک گئے اور کان دھرے تو یہ سنا:
«وَ سَیْعلَمُ الَّذینَ ظَلمُوا أَیَّ مُنْقَلَبٍ یَنْقَلِبُونَ» اور ظالم عنقریب جان لیں گے کہ کون سی جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔
یہ آیت سن کر وہ حیرت زدہ ہو گئے اور پوچھا: یہ سر کس کا ہے؟! اس کے ماں باپ کا کیا نام ہے؟! جواب دیا گیا: اس کا پدر علیؑ اور ماں فاطمہ بنت رسول خدا ہیں۔
یحیی نے کہا: اگر ان کا دین برحق نہ ہوتا تو یہ کرامت ان سے ظاہر نہ ہوتی۔ پھر شہادتین کہنے کے بعد مسلمان ہو گیا اور اپنے عمامے کے ٹکڑے کر کے خواتین کو حجاب کیلئے دئیے۔ اپنی پوشاک بمعہ ہزار درہم امام سجادؑ کی خدمت میں بھجوائے۔
محافظوں نے انہیں مارنا پیٹنا شروع کر دیا اور کہا: کیوں ان لوگوں کی حمایت کر رہے ہو جن پر خلیفہ نے عتاب کیا ہے؟! یہاں سے چلا جا ورنہ تمہیں مار ڈالیں گے! یحیی کے پورے وجود میں اہل بیت کی محبت سرایت کر چکی تھی، اس نے اپنے خدام کو حکم دیا کہ تلوار لاؤ اور تکبیر کہہ کر سپاہیوں پر حملہ کر دیا۔
ان کے پانچ افراد کو ہلاک کر کے آخر کار خود بھی شہید ہو گیا۔

یحیی حرانی کا مقبرہ

[ترمیم]

ملا حسین واعظ کاشفی کے بقول ان کا مقبرہ کہ جسے یحیی شہید کی تربت کہتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حران کے دروازے پر موجود اس قبر پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
[۵] روضة الشهداء، واعظ كاشفي، ج۱، ص۳۶۷۔
[۶] ناسخ التواریخ، سپهرکاشانی، محمدتقي، ج۳، ص۱۱۵۔
[۷] الامام الحسین و اصحابه، قزوینی، فضل علی، ج۱، ص۴۰۷۔

از وضع کنونی این مقبره اطلاعی در دست نیست.

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. تاریخ زندگانی امام حسین علیه‌السلام، عماد زاده، ج۲، ص۲۶۰۔
۲. الامام الحسین و اصحابه، قزوینی، فضل علی، ج۱، ص۴۰۷۔
۳. الانساب، سمعانی، ج۴، ص۱۰۷.۔    
۴. سوره شعراء، آیه۲۲۷۔    
۵. روضة الشهداء، واعظ كاشفي، ج۱، ص۳۶۷۔
۶. ناسخ التواریخ، سپهرکاشانی، محمدتقي، ج۳، ص۱۱۵۔
۷. الامام الحسین و اصحابه، قزوینی، فضل علی، ج۱، ص۴۰۷۔


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ص۳۹۶-۳۹۷۔    






جعبه ابزار