تین طلاقیں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تین طلاقوں سے مراد یہ ہے وہ طلاقیں ہیں جو ایک خاتون کو اس کے شوہر نے دی ہوں۔ تین طلاقوں کے احکام علم فقہ میں بابِ طلاق میں بیان کیے جاتے ہیں۔


تین طلاقوں کی وضاحت

[ترمیم]

ایک شوہر سے کسی خاتون کو تین طلاقیں ملیں تو اس کو اصطلاح میں تین طلاقیں کہا جاتا ہے۔ تین طلاقوں سے یہ مراد نہیں ہے کہ کسی خاتون کا ایک مرد سے نکاح ہوا اور اس نے طلاق دی، پھر دوسرے مرد سے نکاح ہوا اس نے طلاق دی اور پھر تیسرے سے نکاح ہوا تو اس نے طلاق دی۔ بلکہ تین طلاقیں تب کہلائیں گے جب ایک ہی شوہر نے تین طلاقیں دی ہوں۔

← تین طلاقوں کے بعد شوہر کا حرام ہونا


اگر ایک مرد اپنی زوجہ کو شرائط کے مطابق تین مرتبہ طلاق دے دے تو وہ خاتون اس پر حرام ہو جاتی ہے اور یہ طلاقِ بائن کے موارد میں سے ایک مورد بن جائے گا۔ وہ خاتون اس وقت تک اس شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی جب تک وہ خاتون کسی اور مرد کے ساتھ نکاح اور ہمبستری نہ کرے اور وہ اسے طلاق دے تو پھر جدید عقد کے ذریعے اپنے سابقہ شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کر سکتی ہے۔ بالفاظِ دیگر تین طلاقوں کے بعد خاتون اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ ازدواجی تعلق حلالہ کے بعد قائم کر سکتی ہے۔ حلالہ کا حکم اسی مورد میں بیان کیا جاتا ہے۔

← وہ موارد جن میں تین طلاقوں کا ہونا کوئی اثر نہیں رکھتا


تین طلاقوں کے متحقق ہونے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ خاتون سے نزدیکی اختیار کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو، ہر دو مورد میں تین طلاقیں متحقق ہو جائیں گی۔ نیز مرد پہلی اور دوسری طلاق میں عدتِ طلاق میں اپنی زوجہ کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ اگر عدت تمام ہو جائے اور دورانِ عدت رجوع نہیں کیا اور عدت تمام ہونے کے بعد نئے عقدِ نکاح کے ذریعے ازدواجی تعلق قائم کیا اور اس کے بعد تیسری طلاق دی گئی ہو تو تین طلاقیں متحقق ہو جائیں گی اور تیسری طلاق کے احکام لاگو ہوں گے۔

← بعض قدماء کی تین طلاقوں کے حکم کے بارے میں رائے


بعض قدماء مثل شیخ صدوق کی یہ رائے نقل کی گئی ہے کہ عدت سے خاتون کا نکل آنا طلاق کو ساقط کر دیتا ہے اور مرد بغیر محلل کے نئے نکاح کے ذریعے ازدواجی تعلق قائم کر سکتا ہے۔ اس قول کے مطابق عدت سے نکل آنا طلاق کے اثر کو ختم کر دیتا ہے اس لیے محلل کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ قول چونکہ اجماع کے خلاف ہے اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی نصوص کے برخلاف ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔

← تین طلاقیں طلاقِ بائن کا سبب ہے


اگر کسی خاتون کو تین طلاقیں مل جائیں تو یہ طلاقِ بائن شمار ہو گی۔ اس صورت میں عدتِ طلاق میں شوہر کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ خاتون کا نان نفقہ اٹھائے۔ پہلی دو طلاقوں کی عدت میں چونکہ خاتون حکمِ زوجیت میں ہوتی ہے اس لیے اس کا نان نفقہ شوہر کی ذمہ داری ہے اور وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہیں جا سکتی ۔ لیکن تیسری طلاق کے بعد خاتون شوہر کی زوجیت سے باہر آ جاتی ہے اور خاتون پر عدت واجب ہے لیکن دورانِ عدت شوہر اس کی طرف رجوع نہیں کر سکتا۔

← ایک محفل میں تین طلاقیں برپا نہیں ہوتیں


ایک محفل یا ایک مجلس میں خاتون کو تین طلاقیں نہیں دی جا سکتیں۔ اگر ایک محفل میں شوہر تین مرتبہ یا اس سے مرتبہ صیغہ طلاق پڑھے تو بھی یہ پہلی طلاق شمار ہو گی، مثلا شوہر تین مرتبہ کہتا ہے: أنْتِ طالِقٌ ثَلاثاً، یہ ایک ہی طلاق شمار ہو گی۔ البتہ اس مسئلہ میں مختلف فقہی مکاتب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہی مکاتب جیسے حنفی حضرات قائل ہیں کہ اگر ایک محفل میں تین مرتبہ طلاق طلاق کہے تو تین طلاقیں متحقق ہو جائیں گے۔ مشہور قول کے مطابق یہ پہلی طلاق شمار ہو گی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خمینی، سید روح الله، تحریر الوسیلۃ، ج ۲، ص ۳۵۷۔    
۲. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام ج۳۲، ص۱۲۸۔    
۳. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۳۲، ص۱۲۹۔    
۴. خمینی، سید روح الله، تحریر الوسیلۃ، ج ۲، ص ۳۵۷۔    
۵. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام ج۳۲، ص۱۲۱۔    
۶. گلپائگانی، سید محمد رضا، مجمع المسائل ج۲، ص۲۶۰۔    
۷. ابن ادریس حلی، محمد بن احمد، السرائر، ج۲، ص۶۷۸۔    
۸. شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، ج۶، ص۱۷۔    
۹. فاضل ہندی، محمد اصفہانی، کشف اللثام والابہام عن قواعد الاحکام، ج۸، ص۴۰۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۴، ص۵۵۶-۵۵۷۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : طلاق | فقہ




جعبه ابزار