امارہ معتبر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
وہ ظنی طریق جس کے معتبر ہونے کی
دلیل شارع کی جانب سے موجود ہو کو امارہ معتبر کہتے ہیں۔
[ترمیم]
امارہ معتبر کے مقابلے میں
امارہ غیر معتبر آتا ہے۔ وہ امارہ جس کی
حجیت اور اعتبار
دلیل قطعی کے ذریعے سے شارع کی جانب سے موجود ہو کو امارہ معتبر کہتے ہیں، مثلا
ثقہ سے مروی
خبر واحد،
ظواہرکتاب و
سنت۔
[ترمیم]
امارہ ایک ظنی دلیل ہے جس کی حجیت
ذاتی نہیں ہے۔ عقلی قاعدہ ہے کہ
کُلُّ مَا بِالۡعَرَضِ لَا بُدَّ أَنۡ یَنۡتَهِیَ إِلَی مَا بِالذَّاتِ؛ ہر وہ جو
بالعرض ہے ضروری ہے کہ وہ
مَا بِالذَّات پر منتہی ہو۔ یعنی ہر وہ چیز جو ذاتی حجیت نہیں رکھتی ضروری ہے کہ وہ ایسی چیز پر اعتماد کیے ہوئے ہو جس کی حجیت ذاتی ہے۔ دلیلِ ظنی کی حجیت ذاتی نہیں ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کی ججیت پر
دلیل قطعی موجود ہو جس کی وجہ سے اس دلیل ظنی کا اعتبار پیدا ہو۔
قطع چونکہ ذاتًا حجیت رکھتا ہے اس بناء پر جو چیز دلیل قطعی سے ثابت ہو جائے شارع اس کو حجت قرار دیتا ہے اور شارع کی اتباع اور تعبد کرتے ہوئے اس امارہ خاص کو حجت قرار دیا جائے گا جسے اصطلاح میں امارہ معتبر کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے علماء اصول امارہِ معتبر یعنی ظن خاص کو طریق علمی نام دیا ہے۔ کیونکہ
ظن اگرچے خود
علم کا فائدہ نہیں دیتا لیکن علم کی طرف منسوب ہے اور علمی اساس و پشتوانہ رکھتا ہے اس لیے اس کو
طریق علمی کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
مشہور علماء کی نظر میں امارہ معتبر
قطع طریقی کا قائم مقام بنتا ہے۔ البتہ
قطع موضوعی سے یہ قائم مقام نہیں بن سکتا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۲۴۳، یہ تحریر مقالہ اماره معتبر سے مأخوذ ہے۔