امام حسن عسکریؑ کی امامت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
آپ ابومحمد
حسن بن
علی بن
محمد بن
علی بن
موسی بن
جعفر بن
محمد بن
علی بن
حسین بن
علی بن
ابوطالب،
اہل تشیع کے بارہویں امام ہیں۔
[ترمیم]
امام حسن عسکریؑ کی تاریخ
ولادت اور تاریخ
شہادت کے بارےے میں مورخین کے اندر اختلاف ہے۔ تاہم مشہور یہ ہے کہ
ماہ ربیع الثانی سنہ ۲۳۲ ھجری میں پیدا ہوئے اور یکم
ربیع الاول سنہ ۲۶۰ ہجری میں
معتمد عباسی کے حکم پر مسموم ہوئے اور اسی ماہ کی آٹھ تاریخ کو
شہادت ہوئی۔ آپؑ کے پانچ سالہ فرزند
امام زمانؑ نے نماز جنازہ ادا کی اور پھر آپ کو
سامرا میں اپنے والد بزرگوار کے
مرقد میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
[ترمیم]
آپ کے والد بزرگوار دسویں امام
حضرت ہادیؑ ہیں اور
والدہ امّ ولد اور پرہیزگار و شائستہ خاتون تھیں جن کا نام ’’حدیث‘‘ مراجعہ یا ’’سلیل‘‘ ہے البتہ بعض نے انہیں «سوسن» کے نام سے یاد کیا ہے
[ترمیم]
مشہور ترین
لقب حضرت عسکری ہے۔ عسکر سامرا کے ایک محلے کا نام ہے اور
عباسی خلیفہ کے حکم پر امامؑ جبری طور پر وہاں ساکن تھے، اس لیے آپ کا لقب عسکری ہو گیا۔
امام عسکریؑ کی دو کنیتیں ہیں: «ابومحمد» جو حضرتؑ کی مخصوص کنیت ہے اور «ابن الرضا» کہ جو آپؑ کے والد بزرگوار اور جد
امام جوادؑ کو بھی کہا جاتا تھا۔
[ترمیم]
امام نے اپنی زندگی کے ۲۲ سال اپنے والد بزرگوار کے ساتھ بسر کیے اور اپنے والد کی شہادت کے بعد سنہ ۲۵۴ہجری میں
امامت کے منصب پر فائز ہوئے، آپ کی امامت چھ سال سے زیادہ نہ رہی مگر اس مختصر مدت میں اہم واقعات رونما ہوئے۔
آپ کی امامت کی اہمیت اس وقت آشکار ہوتی ہے کہ جب
غیبت کے مسئلے اور اس کی اہمیت کو ہم سجھتے ہیں؛ کیونکہ حضرت کو اس مختصر عرصے میں
شیعہ کو مرحلہ حضور سے مرحلہ غیبت کی طرف منتقل کرنے کے ضروری مقدمات فراہم کرنا تھے۔
[ترمیم]
امام حسن عسکریؑ اپنی امامت کے دوران تین عباسی خلفا کے ہم عصر تھے:
معتز عباسی (۲۵۲ـ ۲۵۵ہجری)،
مهتدی (۲۵۵ـ۲۵۶ہجری) اور
معتمد (۲۵۶ـ ۲۷۹ہجری)۔
[ترمیم]
شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام حسن عسکریؑ کا
امام مہدیؑ موعود کے سوا کوئی اور بیٹا نہیں تھا۔
مفید نے کتاب
الارشاد میں لکھا ہے: «حسن بن علی عسکریؑ کا صاحب الزمان، کے سوا کوئی اور بیٹا نہیں تھا۔
[ترمیم]
امام ہادیؑ کے بعد تمام
فضائل و
کمالات از قبیل
علم،
عصمت،
زہد،
عقلانیت،
تدبر،
[۴] و...
امام عسکریؑ میں جمع تھے، اس لیے آپ
امامت کے مقام پر فائز ہونے کیلئے اپنے زمانے کے شائستہ ترین فرد تھے۔
ابوبصیر خادم نے امام کی
رومیوں ،
ترکوں اور
صقالبہ کے ساتھ بات چیت کا ماجرا مشاہدہ کیا اور اس پر تعجب کرتا ہے، مگر حضرت تمام زبانوں سے آشنائی کو اللہ کی عطا کردہ
فضیلت قرار دیتے ہیں تاکہ ان کا عام لوگوں سے یہ تفاوت
حجت خدا کی
معرفت کیلئے ایک علامت ہو۔
امام کے فضائل اس قدر زیادہ تھے کہ اہل بیتؑ کے دشمن بھی آپؑ کی عظمت و بزرگی کا
اعتراف کرتے تھے: «لم أرَ له ولیاً ولا عدواً إلاّ وهو یحسن القول فیه والثناء علیه»؛
دوست و
دشمن آپؑ کو اچھے الفاظ میں اور شائستگی کے ساتھ یاد کرتے تھے اور آپؑ کی تعریف کرتے تھے۔
الہٰی
معجزات اور محیر العقول کاموں کا آپؑ سے ظہور حضرتؑ کی
امامت پر ایک اور دلیل ہے کہ جن کاموں کو دوسرے انجام دینے سے عاجز تھے۔
امام کے منجملہ معجزات میں سے ایک اپنے اصحاب کو آئندہ کی پیشگوئیوں اور واقعات سے مطلع کرنا ہے: جیسے
معتز عباسی کے قتل کی خبر، اس کے قتل سے بیس روز قبل وغیرہ۔۔۔۔ ۔
بہت سے مقامات پر امام اپنی خدمت میں شرفیات ہونے والوں کی
مادی ،
روحانی اور علمی ضروریات کو بھی پورا کر دیتے تھے؛ حالانکہ مراجعہ کرنے والوں نے اپنی حاجت بیان بھی نہیں کی ہوتی تھی۔
امام کا ایک صحابی
ابو ہاشم کہتا ہے: میں کبھی
ابو الحسن اور
ابو محمد کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا مگر یہ کہ ان دونوں ذوات مقدسہ سے ان کی امامت پر کوئی نہ کوئی دلیل و برہان مشاہدہ کرتا تھا۔
پھر امامؑ کے ایک معجزے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: میں امام سے
سونے چاندی کا ایک ٹکڑا لینا چاہتا تھا تاکہ بطور تبرک اس سے ایک
انگوٹھی بناؤں، جب میں امام کے پاس گیا تو اپنی خواہش بھول گیا۔ خدا حافظی کے وقت امام نے مجھے ایک انگوٹھی دی اور کہا: تم چاندی لینا چاہتے تھے (تاکہ انگوٹھی بناؤ) میں نے تجھے انگوٹھی ہی دے دی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ سے وارد ہونے والی خاص روایات میں
پیغمبر اکرمؐ کے جانشینوں کی تعداد اور ان کا تعارف کروایا گیا ہے اور چونکہ ان روایات میں پیغمبرؐ کے بعد آنے والے خلفا کے نام صراحت کے ساتھ اور بلا ابہام ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا یہ امام عسکریؑ کی امامت کے اثبات کی ایک محکم دلیل ہے۔
اسی طرح وہ روایات جو امام زمانہؑ کے بارے میں ہیں اور ان میں حضرتؑ کا نام، والد کا نام،
کنیت اور
لقب مذکور ہیں، بارہویں امام کے والد کی حیثیت سے
امام عسکریؑ کے نام پر مشتمل ہونے کی وجہ سے آپؑ کی
امامت پر دلالت کرنے والی بہترین روایات میں سے ہیں۔
گیارہویں امام کی امامت پر سب سے اعلیٰ منقول دلیل
امام ہادیؑ کی روایات ہیں؛ جو دو اقسام پر مشتمل ہیں:
قسم اول: وہ روایات جنہیں امام ہادیؑ نے اپنے چاہنے والوں کی جانب سے اگلے امامؑ کے تعارف کی خواہش کے جواب میں لوگوں کے غلط تصور کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جو ان کے ایک اور فرزند محمد کو اگلا امام سمجھ رہے تھے، اس میں امام ہادیؑ نے امام حسن عسکریؑ کو شیعوں کے گیارہویں امامؑ کے طور پر متعارف کروایا۔
علی بن عمر نوفلی کہتے ہیں: امام ہادیؑ کے ہمراہ ان کے گھر کے صحن میں تھا کہ محمد ہمارے پاس سے گزرے۔ میں نے آپؑ سے عرض کیا: میں آپؑ پر قربان! کیا وہ آپؑ کے بعد امام ہیں؟! امامؑ نے جواب دیا: نہیں! میرے بعد تمہارا امام میرا فرزند حسن ہے۔
قسم ثانی: وہ روایات جو امام ہادیؑ کی
وصایا ، مکتوبات اور نصائح پر مشتمل ہیں کہ جن میں امام عسکریؑ کو اگلے امام کے عنوان سے متعارف کیا گیا ہے۔
امام ہادیؑ
ابوبکر فھفکی کے نام اپنے ایک خط میں اشارہ فرماتے ہیں کہ
آل محمد میں شائستہ ترین فرد میرے فرزند ابو محمد ہیں: وہ میرے بعد
خلیفہ ہیں اور
امامت میرے بعد ان تک پہنچے گی، میرے بعد جو ضرورت ہو، ان سے سوال کرو!
[ترمیم]
• الارشاد، مفید، محمد بن محمد نعمان۔
• اثبات الهداة بالنصوص والمعجزات، حر عاملی، محمد بن حسن، مکتبة المحلاتی، قم، ۱۴۲۵ہجری۔
• اعلام الوری واعلام الهدی، طبرسی، حسن بن فضل، دارالحجة للثقافه، قم، ۱۴۲۵ہجری۔
• اعلام الهدایه، نخبة التألیف، مرکز الطباع والنشر للمجمع العالمی لاهل البیت، قم، ۱۴۲۲ہجری۔
• کافی، کلینی، محمد بن یعقوب، دارالکتب الاسلامیه، تهران، ۱۳۸۴شمسی۔
• بحارالانوار، مجلسی، محمدباقر، مؤسسه الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ہجری۔
• خصال، صدوق، محمد بن علی، انتشارات جامعه مدرسین، قم، ۱۴۲۴ہجری۔
• دلائل الامامه، طبرسی، محمد بن جریر، دارالذخائر للمطبوعات، قم، ۱۳۸۳ہجری۔
• سیره پیشوایان، پیشوایی، مهدی، مؤسسه تحقیقاتی امام صادق (علیهالسلام)، قم، ۱۳۷۴شمسی۔
• کشف الغمه فی معرفة الأئمة، اربلی، عیسی بن ابوالفتح، مکتبة الحیدریه، قم، ۱۴۲۶ہجری۔
• کشف المراد، حلی، حسن بن یوسف، انتشارات جامعه مدرسین، قم، ۱۴۲۲ہجری۔
• کمال الدین وتمام النعمه، شیخ صدوق، محمد بن علی، المکتبة الحیدریه، قم، ۱۴۲۶ہجری۔
• مدینة المعاجز أو معاجز اهل البیت، بحرانی، سید هاشم، مؤسسه دارالحجّة للثقافه، قم، ۱۴۲۶ہجری۔
• مناقب آل ابوطالب، ابن شهر آشوب، محمد بن علی، انتشارات علامه، قم، ۱۳۷۹ہجری۔
• الارشاد، مفید، محمد بن محمد نعمان۔
• اثبات الهداة بالنصوص والمعجزات، حر عاملی، محمد بن حسن، مکتبة المحلاتی، قم، ۱۴۲۵ہجری۔
• اعلام الوری واعلام الهدی، طبرسی، حسن بن فضل، دارالحجة للثقافه، قم، ۱۴۲۵ہجری۔
• اعلام الهدایه، نخبة التألیف، مرکز الطباع والنشر للمجمع العالمی لاهل البیت، قم، ۱۴۲۲ہجری۔
• کافی، کلینی، محمد بن یعقوب، دارالکتب الاسلامیه، تهران، ۱۳۸۴شمسی۔
• بحارالانوار، مجلسی، محمدباقر، مؤسسه الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ہجری۔
• خصال، صدوق، محمد بن علی، انتشارات جامعه مدرسین، قم، ۱۴۲۴ہجری۔
• دلائل الامامه، طبرسی، محمد بن جریر، دارالذخائر للمطبوعات، قم، ۱۳۸۳ہجری۔
• سیره پیشوایان، پیشوایی، مهدی، مؤسسه تحقیقاتی امام صادق (علیهالسلام)، قم، ۱۳۷۴شمسی۔
• کشف الغمه فی معرفة الأئمة، اربلی، عیسی بن ابوالفتح، مکتبة الحیدریه، قم، ۱۴۲۶ہجری۔
• کشف المراد، حلی، حسن بن یوسف، انتشارات جامعه مدرسین، قم، ۱۴۲۲ہجری۔
• کمال الدین وتمام النعمه، شیخ صدوق، محمد بن علی، المکتبة الحیدریه، قم، ۱۴۲۶ہجری۔
• مدینة المعاجز أو معاجز اهل البیت، بحرانی، سید هاشم، مؤسسه دارالحجّة للثقافه، قم، ۱۴۲۶ہجری۔
• مناقب آل ابوطالب، ابن شهر آشوب، محمد بن علی، انتشارات علامه، قم، ۱۳۷۹ہجری۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه کلام اسلامی، مؤسسه امام صادق(ع)، ماخوذ از مقالہ «امام حسن عسگری علیهالسلام»، شماره۷۳۔