حدیث کی تقسیم رباعی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قدما، خبر کے قرائن سے استدلال کرتے ہوئے، روایات کو دو قسموں صحیح و ضعیف یا مقبول و مردود میں تقسیم کرتے تھے، مگر پہلی مرتبہ علامہ حسن بن مطہر حلی (متوفی۶۷۷ھ) یا سید بن طاؤس (متوفی۶۷۳ھ) (جو دونوں متاخرین میں شمار ہوتے ہیں) نے احادیث کو چار قسموں صحیح، حسن، موثق و ضعیف میں تقسیم کیا۔
[۱] مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۳۷- ۱۳۸۔



شیخ عاملیؒ کا تقسیمِ رباعی کے حوالے سے نقطہ نظر

[ترمیم]

شیخ بہاء الدین عاملی اس حوالے سے کہتے ہیں:
احادیث کی یہ تقسیمِ رباعی قدماء کے درمیان (جیسا کہ ان کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے) معروف نہیں تھی اور ان کے مابین متعارف یہ تھا کہ صحیح کا ہر ایسی حدیث پر اطلاق کرتے تھے جو ان کے نزدیک قابل اعتماد ہوتی تھی یا اس میں ایسے قرائن ہوتے تھے جن کی وجہ سے اس پر اعتماد یا اطمینان قائم ہو جاتا تھا۔
[۲] مشرق الشمسين، ص ۳۔
قدما کی زیادہ توجہ روایات کے متن پر ہوتی تھی اور وہ کتاب، سنت اور عقل ۔۔۔۔ کے ساتھ موافقت کی بنیاد پر روایات کو صحیح قرار دیتے تھے، خواہ ان روایات کی سند میں ضعف ہی کیوں نہ موجود ہوتا اور اگر کوئی روایت ان قرائن سے فاقد ہوتی تو اسے ضعیف اور مردود قرار دیا جاتا تھا۔ مگر چونکہ متاخرین کے زمانے میں ان قرائن میں سے سب کے سب یا بعض ضائع ہو گئے تھے تو اس لیے انہوں نے روایات کی سند پر توجہ مرکوز کر لی اور راویوں کی صفات جیسے عدالت، وثاقت اور امامی ہونے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے روایات کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔

حدیث کی چار اقسام

[ترمیم]

روایات کی بنیادی ترین تقسیم اور سب سے کارآمد اصطلاح یہی تقسیم رباعی ہے، اس لیے ان کی تعریف کا آغاز کرتے ہیں:

۱- صحيح

[ترمیم]

صحیح وہ روایت ہے کہ جس کی سند تمام طبقات میں عادل اور امامی راویوں کے واسطے سے معصومؑ تک متصل ہو۔
[۳] البدايه فى علم الدريه، ص ۱۹۔
[۴] الوجيزه فى علم الدرايه، ص ۵۔
[۵] مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۴۵- ۱۴۔


صحیح روایت کی شرائط

[ترمیم]

شیعہ محدثین کی مورد قبول اس تعریف سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ صحیح روایت کی درج ذیل شرائط ہیں:
۱۔ معصومؑ تک پہنچے؛ لہٰذا سند کے اتصال اور راویوں کی عدالت اور امامی ہونے کے باوجود غیر معصوم تک پہنچنے والی روایت خواہ صحابہ سے ہی کیوں نہ نقل ہوئی ہو؛ کو اصطلاح میں صحیح نہیں کہا جائے گا۔
۲۔ تمام طبقات میں راویوں کا دو صفات عدالت اور امامی ہونے سے متصف ہونا؛

اہل سنت محدثین کے نقطہ نظر سے صحیح کی تعریف

[ترمیم]

اہل سنت محدثین ایسی روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ جس کی سند عادل اور ضابط راویوں کے توسط سے متصل ہو اور شذوذ و علت سے پاک ہو۔
[۶] نخبه الفكر، ص ۱۲۔
[۷] فتح المغيث، ج ۱، ص ۱۸۔
[۸] تدريب الراوى، ج ۱، ص ۴۳۔


اہل سنت کی نگاہ میں حدیث کے صحیح ہونے کی شرائط

[ترمیم]

اہل سنت کی نگاہ میں صحیح کی تعریف میں تین وجودی شرائط اور دو عدمی شرائط کا لحاظ رکھا جاتا ہے:
تین وجودی شرائط یہ ہیں: ۱- اتصال سند؛ ۲- راویوں کی عدالت؛ ۳- راویوں کا ضابط ہونا؛
دو عدمی شرائط یہ ہیں: ۱- روایت کا شاذ نہ ہونا؛ ۲- روایت میں علت کا فقدان؛

شذوذ و علت سے مقصود

[ترمیم]

شذوذ سے مقصود یہ ہے کہ روایت صرف ایک عادل سے نقل ہوئی ہو اور مشہور نہ ہو؛ اسے روایتِ شاذہ کہتے ہیں؛ چونکہ یہ مشہور کے مقابلے میں ہے۔ علت سے مقصود ارسال جیسی مشکلات بھی ہیں اور وہ مسائل بھی ہیں جو پیچیدہ اور مخفی ہیں اور صرف حدیث شناس ہی ان کی شناخت حاصل کر سکتے ہیں؛ کیونکہ ایسی خبر بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے۔

۲- حسن

[ترمیم]

حسن وہ روایت ہے کہ جس میں صحیح روایت کی تمام شرائط موجود ہوں؛ سوائے یہ کہ راویوں کے سلسلے میں ایک یا چند راویوں کی عدالت کے حوالے سے علم رجال کی معتبر کتب میں تصریح نہ ہو اور صرف ان کی مدح اور تعریف پر اکتفا کیا گیا ہو۔
[۹] الوجيزه فى علم الدرايه، ص ۵۔
[۱۰] الدردايه فى علم الدرايه، ص ۲۱۔
[۱۱] مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۶۰- ۱۔


اہل سنت محدثین کے نزدیک حسن کی تعریف

[ترمیم]

ترمذی متوفی ۲۷۹ھ سے پہلے تک اہل سنت محدثین حدیث کو دو قسموں صحیح اور ضعیف میں تقسیم کرتے تھے، مگر ترمذی نے یہ تجویز پیش کی کہ صحیح اور ضعیف کے مابین واسطہ کے عنوان سے حسن کی اصطلاح کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ یہ تجویز عملی طور پر اہل سنت محدثین نے قبول کر لی اور اس دن سے آج تک احادیث، اہل سنت کے نقطہ نظر سے تین اقسام صحیح، حسن اور ضعیف میں تقسیم ہوتی ہیں۔
[۱۲] علوم الحديث و مصطلحه، ص ۱۵۸۔
حسن سے مقصود وہ روایت ہے کہ جس کی سند عادل اور خفیف الضبط کے طریق سے متصل ہو اور شذوذ و علت سے خالی ہو۔ تمام الضبط کے مقابلے میں خفیف الضبط سے مراد وہ شخص ہے جس کے ضبط میں تھوڑا خلل واقع ہو گیا ہو، نہ یہ کہ بطور کلی ضابط نہ ہو۔
[۱۳] مقدمه ابن صلاح (علوم الحديث )، ص ۳۱- ۳۲۔
[۱۴] تدريب الراوى، ج ۱، ص ۱۲۶- ۱۲۹۔


۳- موثق

[ترمیم]

موثق وہ روایت ہے کہ معصوم تک سند کے اتصال اور تمام طبقات میں راویوں کی عدالت یا وثاقت کے باوجود اس کا ایک یا چند راوی غیر امامی ہوں۔
[۱۵] البدايه فى علم الدرايه، ص ۲۳۔
[۱۶] مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۶۸۔

درحقیقت ایسی حدیث کے راوی اخلاقی اعتبار سے ہر نقص و عیب سے عاری ہیں مگر ان کا عقیدہ فاسد ہے۔ اس اصطلاح کی بنا پر وہ تمام روایات جو اہل سنت راویوں سے یا شیعہ غیر امامیہ رواۃ سے نقل ہوئی ہوں؛ وہ موثق ہوں گی۔

۴ – ضعيف

[ترمیم]

صحیح، حسن اور موثق کی تعریفات کو دیکھتے ہوئے حدیث ضعیف اسے کہا جائے گا کہ جس پر مذکورہ بالا تعریفات میں سے کوئی تعریف صادق نہ آئے۔
[۱۷] مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۷۷- ۱۷۸۔
دوسرے لفظوں میں جو حدیث اتصالِ سند کی حامل نہ ہو یا جس کے راوی عدالت یا وثاقت کے اوصاف نہ رکھتے ہوں، وہ ضعیف ہو گی۔ اہل سنت کی نگاہ سے بھی ضعیف کا مفہوم روشن ہے؛ چونکہ ہر حدیث کہ جس پر صحیح و حسن کی تعریف منطبق نہ ہو؛ ضعیف ہو گی۔ اس بنا پر جن روایات کی سند میں اتصال نہ ہو یا راویوں میں عدالت یا وثاقت نہ ہو؛ وہ ضعیف ہو گی۔ ضعیف کا مفہوم اہل سنت کی نگاہ میں بھی واضح ہے؛ کیونکہ جس حدیث پر بھی صحیح و حسن کی تعریف منطبق نہ ہو، وہ ضعیف ہو گی۔ اس بنا پر جو روایات سند کا اتصال یا راویوں کی عدالت نہ رکھتی ہوں؛ وہ شیعہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے؛ اور اگر ان کا متن شذوذ یا علت کا حامل ہو تو وہ اہل سنت محدثین کے نزدیک ضعیف ہوں گی۔
[۱۸] مقدمه ابن صلاح، ص ۴۱۔
[۱۹] تدريب الراوى، ج ۱، ص ۱۴۴- ۱۴۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۳۷- ۱۳۸۔
۲. مشرق الشمسين، ص ۳۔
۳. البدايه فى علم الدريه، ص ۱۹۔
۴. الوجيزه فى علم الدرايه، ص ۵۔
۵. مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۴۵- ۱۴۔
۶. نخبه الفكر، ص ۱۲۔
۷. فتح المغيث، ج ۱، ص ۱۸۔
۸. تدريب الراوى، ج ۱، ص ۴۳۔
۹. الوجيزه فى علم الدرايه، ص ۵۔
۱۰. الدردايه فى علم الدرايه، ص ۲۱۔
۱۱. مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۶۰- ۱۔
۱۲. علوم الحديث و مصطلحه، ص ۱۵۸۔
۱۳. مقدمه ابن صلاح (علوم الحديث )، ص ۳۱- ۳۲۔
۱۴. تدريب الراوى، ج ۱، ص ۱۲۶- ۱۲۹۔
۱۵. البدايه فى علم الدرايه، ص ۲۳۔
۱۶. مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۶۸۔
۱۷. مقباس الهدايه، ج ۱، ص ۱۷۷- ۱۷۸۔
۱۸. مقدمه ابن صلاح، ص ۴۱۔
۱۹. تدريب الراوى، ج ۱، ص ۱۴۴- ۱۴۵۔


ماخذ

[ترمیم]

مرکز تعلیمات اسلامی۔    






جعبه ابزار