روز قیامت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قیامت وہ دن ہے جب تمام مخلوقات کو
اللہ تعالی کے حضور
حساب کتاب کے لیے لایا جاۓ گا۔ نیک متقی مومن افراد کو صلہ کے طور پر
جنت اور
فاسق و فاجر اور کفار و مشرکین کو سزا کے طور پر
جہنم میں ڈالا جاۓ گا۔ لفظ قیامت
قرآن کریم میں متعدد بار ذکر ہوا ہے۔
[ترمیم]
قیامت کا
لفظ قرآن کریم میں ۷۰ (ستّر) مرتبہ وارد ہوا ہے۔ روزِ قیامت کو قیامت کا نام دینے کی وجہ لوگوں قیام کرا کر اور اٹھا کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کرنا ہے۔ اس اہم خصوصیت کی وجہ سے اس دن کو قیامت کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
قیامت وہ دن ہے جس دن تمام مُردوں کو اللہ تعالی کے حکم سے
زندہ کیا جاۓ گا اور ان کو قبروں سے نکال کر
محشر کے میدان میں جمع کیا جائے گا تاکہ ان کے اعمال کے مطابق ان کو سزا یا
جزا دی جاۓ۔
[ترمیم]
روز قیامت کو اس لیے
قیامت کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن لوگوں کو اٹھایا جاۓ گا اور
اللہ تعالی کے حضور پیش کیا جاۓ گا۔ لوگوں کے
قِیَامٌ اِلَی اللہِ کی وجہ سے روز قیامت کو قیامت کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ؛ جس دن سب لوگ تمام جہانوں کے
رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔
آيت اللہ
ناصر مکارم شیرازی فرماتے ہیں کہ روز قیامت کا فارسی میں معادل لفظ روزِ رستاخیز ہے، رست کے معنی مر جانے والے کے ہیں اور خیز یعنی اٹھانا، رستاخیز یعنی مردوں کو اٹھایا جانا۔
اردو میں روز قیامت کے لیے جدا طور پر نام موجود نہیں بلکہ یہی قرآنی لفظ اردو زبان میں رائج ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں روز قیامت کو متعدد ناموں سے یاد کیا گیا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
۱۔
یوم البعث: بعث کے متعدد معنی ہیں جن میں سے ایک معنی بھڑکانا یا برانگیختہ کرنا ہے۔ روز قیامت کو یوم البعث اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس دن مردوں کو قبروں سے اٹھایا جاۓ گا فرشتے ان کو برانگیختہ کیے ہوۓ میدان محشر میں لے جا رہے ہوں گے اور اس جہت سے کہ وہ
جنت میں جائیں گے یا جہنم میں ان مراحل کو بعث کہا گیا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ فَهَذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَكِنَّكُمْ كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ؛ اور جنہیں علم اور
ایمان دیا گیا تھا وہ کہیں گے: نوشتہ خدا کے مطابق یقینا تم قیامت تک رہے ہو اور یہی قیامت کا دن ہے لیکن تم جانتے نہیں تھے۔
۲۔
یوم التغابن: تغابن
عربی زبان کا لفظ ہے جو
غَبَن سے ماخوذ ہے۔ اس کے معنی دھوکہ دینے کے ہیں۔ غابن اس شخص کو کہتے ہیں جو دھوکہ دہی سے کم قیمت چیز کو بڑھا چڑھا کر مہنگے داموں بیچتا ہے۔ روز قیامت کو یوم التغابن اس جہت سے کہا گیا ہے کہ اس دن انسان کے نفع اور گھاٹے والے تمام سودے سامنے آ جائیں گے اور تب معلوم ہو گا کہ جو دھوکہ دے کر خود کو سمجھدار سمجھتا تھا وہی خود کو دھوکہ دے کر گھاٹے کا سودا کرنے والا ہے۔
۳۔
یوم التلاق: روز قیامت کے قرآنی ناموں میں سے ایک نام یوم التلاق یعنی ملاقات کا دن ہے۔ مفسرین نے اس نام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوۓ بیان کیا ہے کہ چونکہ اس دن تمام انسان فرشتوں کا سامنا کریں گے، اول سے آخر تک کے تمام انسان ایک دوسرے کو دیکھیں گے۔ مومنین اپنے حقیقی پیشوا اور کفار اپنے جعلی اور گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ملیں گے اور اہل زمین اہل آسمان سے ملاقات کریں گے۔ اس لیے اس دن کو یوم التلاق کہا گیا ہے۔ قرآن کریم میں
اللہ تعالی کا ارشاد فرمانا ہے:
رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ؛ وہ بلند درجات کا
مالک اور صاحب عرش ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنے حکم سے
روح نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات کے دن کے بارے میں متنبہ کرے۔
۴۔
یوم التناد: تناد سے مراد ندا دینا ہے۔ روز قیامت کو یوم التناد اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس دن جہنمی صدائیں اور فریادیں بلند کریں گے اور بہشتیوں کو پکاریں گے اور ان سے کھانے پینے کے لیے مانگیں گے۔ بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ روز قیامت کو یوم التناد اس لیے کہا گیا ہے کہ
روز محشر لوگ ایک دوسرے سے مدد طلب کرنے کے لیے ایک دوسرے کو پکار رہے ہوں گے۔ مومنین اپنا
نامہ اعمال دیکھ کر خوشی سے چلا اٹھیں گے اور ایک دوسرے کو کہیں گے کہ دیکھو! میرا نامہ اعمال کیسا ہے۔ اسی طرح سے
کافر اپنا نامہ عمل دیکھ کر
خوف اور ڈر کے مارے چیخ اٹھیں گے اور فریاد کریں گے کہ کاش يہ نامہ عمل ان کو نہ دیا گیا ہوتا۔
قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:
وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ؛ اور اے میری قوم! مجھے تمہارے بارے میں فریاد کے دن (قیامت) کا خوف ہے۔
اس کے علاہ قیامت کے ناموں میں سے
یوم الحساب، یوم الجمع، اور یوم الحسرت مشہور ترین ہیں۔
[ترمیم]
اہل حکمت کے نظریہ کے مطابق
قیامت کی دو اقسام ہیں:
قیامت صغری اور
قیامت کبری اس کی وضاحت میں حکماء نے بیان کیا ہے کہ مرنے کے بعد ہر انسان کے لیے دو عالم ہیں:
۱. ان میں سے پہلا عالم
برزخ ہے جسے قیامت صغری کہا جا سکتا ہے جوکہ انسان کے مرتے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔
۲. اس کے بعد دوسرا عالم قیامت کبری ہے جس کے واقع ہونے کا علم فقط
اللہ تعالی کو ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم کے مطابق قیامت کا وقت صرف اللہ تعالی کے علم میں ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ذات نہیں جانتی کہ قیامت کب واقع ہو گی۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللّهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ؛ یہ آپ سے (قيامت کے بارے میں) اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں ہوں، کہدیجئے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔۔
روز قیامت پوری کائنات دگرگوں ہو کر رہ جاۓ گی اس طرح سے کہ
سورج،
زمین اور ستاروں کی حالت تبدیل ہو کر رہ جاۓ گی۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُواْ للّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ؛ یہ (انتقام) اس دن ہو گا جب یہ زمین کسی اور زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب خدائے
واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے۔۔
[ترمیم]
[ترمیم]
کتاب فرہنگ شیعہ، جمعی از نویسندگان، ص۴۸۳۔