سنن الہی کی شناخت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
سنن الہی جنہیں معاشروں پر حاکم
الہی قوانین بھی کہا جاتا ہے قرآنی موضوعات میں سے ایک موضوع ہے جو انسانی معاشروں سے متعلق ہے۔ ان قوانین کا مطالعہ کر کے معاشرے کی نجات یا ہلاکت کے اصل سبب کو جانا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے سے معاشروں کی تباہی کا سبب بننے والے عوامل کے خلاف بروقت اقدام کیا جا سکتا ہے۔ انسانی معاشرے پر ان الہی قوانین کو
قرآن کریم نے متعدد آیات میں ذکر کیا ہے۔ ان آیات کریمہ سے سننِ الہی کو پہچاننے کے لیے علماء نے مختلف ضوابط پیش کیے ہیں اور مختلف اسلوبوں کی نشاندہی کی ہے جن کے ذریعے سے ہم ان قوانین و سنن سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔
[ترمیم]
ایک
انسانی معاشرہ پر قوانین اور مختلف سنتیں کیسے حاکم ہوتے ہیں اور ان معاشروں پر کیسے قانون گزاری کی جاتی ہے؟ یہ ایک بنیادی اور اساسی بحث ہے۔ اس بحث کے مقدمات اور مبادی فلسفی ہیں جس سے معاشرے کی شناخت سے مربوط مباحث کی تحقیق کی جاتی ہے اور مختلف قسم کے اجتماعی مسائل کا عمیق جائزہ لیا جا سکتا ہے کیونکہ بہت سے اجتماعی مسائل اسی بحث پر استوار ہیں۔ اس بحث کی اہمیت درج ذیل فوائد سے مزید اجاگر ہو جاتی ہے:
۱۔ ان قوانین کو معلوم کرنے سے ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ ہم تاریخ کے آئینے میں جھانک کر گذشتہ معاشروں کا عمیق مطالعہ کریں اور ان کی کامیابی یا بربادی کا راز جان کر تدبیر کریں۔
۲۔ یہ قوانینِ الہی ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک
معاشرہ مستقبل میں کن کن مسائل کا شکار ہو سکتا ہے اور معاشرے کے اندر مختلف ابھرے ہوئے احتماعی نوعیت کے مسائل کا صحیح حل کیا ہے۔
۳۔ ان قوانین کا جاننا اور گذشتہ قوموں کے آئینے میں ان کے نتائج کا جائزہ لینا انسان کو ابھرتا ہے کہ وہ مکمل آمادگی اور ہوش مندی کے ساتھ پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے صف بستہ ہو جائے اور دور اندیشی و کامل بصیرت سے فائدہ اٹھتے ہوئے ان دیکھی مشکلات کی روک تھام بروقت کرے اور خراب صورتحال میں طبقِ قوانین ایسا عمل انتخاب کرے جس سے در پیش مشکلات کو برطرف کیا جا سکے۔
۴۔ انسانی عمل ان قوانین کے جاری ہونے کا سبب بنتا ہے اور نتائج انہی قوانین کے جاری ہونے کی صورت میں سامنے آتے ہیں، مثلا اگر ایمان اور اطاعت کو انجام دیا جائے تو الہی قوانین
برکت،
رحمت اور
نعمت کی صورت میں جاری ہوں گے اور اگر عصیان و
کفر و
تکذیب کو انجام دیا جائے تو قانونِ عذاب، ہلاکت اور بربادی طاری ہو گا۔
[ترمیم]
قضایا شخصیہ یا جزئیہ کا دائرہ کار ایک قوم یا ایک فرد تک محدود ہوتا ہے جبکہ سنن الہی تمام انسانی معاشروں پر حاکم اور شامل ہیں جس سے مستثنی نہ ماضی کی کوئی قوم ہو سکتی ہے اور نہ
حال اور
مستقبل کی۔ اسی طرح یہ قوانین اعتباری یا وضعی نہیں ہیں بلکہ کائنات کے محکم اور ٹھوس ایسے قوانین ہیں جو قابل تغیر و تبدل نہیں۔ قرآن کریم کی نظر میں اجتماعی قوانین یا سنن الہی سے مراد وہ تکوینی اور حقیقی قوانین ہیں جو واقعیت اور حقیقت رکھتے ہیں اور
نفس الامر سے مربوط ہیں، نہ کہ یہ قوانین اعتباری اور وضعی ہیں جسے ایک اعتبار کرنے والے نے اعتبار کیا ہو اور اس کے ماوراء اس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔
بالفاظ دیگر ان حقیقی تکوینی قوانین سے کوئی مستثنی نہیں ہو سکتا اور یہ استثناء پذیر نہیں ہیں کیونکہ یہ
علت اور معلول کی سنخ سے ہیں۔ اسی طرح یہ قضایا شخصیہ اور
قضایا جزئیہ کے قانون شمار نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں یہ قوانینِ الہیہ اور سنن تکرارا ذکر کیے گئے ہیں جن کی تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ ہم تین چیزوں کو خصوصی طور پر مدنظر رکھیں:
۱۔ یہ قوانین علت معلول کے ضابطے کے تحت آتے ہیں اور ان کی کوئی نہ کوئی علت بنتی ہے۔
۲۔یہ ہدف رکھتے ہیں۔
۳۔ یہ اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کا انفرادی اور شخصی طرزِ زندگی سے تعلق نہیں۔
[ترمیم]
اگر ہم قرآن کریم سے ان قوانین کو جاننے کی کوشش کریں اور قرآنی کلمات و قرآنی اسلوب کے سہارے ان قوانین کی شناخت کریں تو ہمیں متعدد کلمات نظر آتے ہیں جو ان الہی سنتوں اور قوانین کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہی کلمات میں سے ایک لفظ سنت ہے۔ قرآن کریم میں ۱۱ آیات میں لفظ
سنت آیا ہے۔ ان آیات کریمہ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے:
۱۔
سُنَّتُ الاَوَّلین، پہلے والوں کی سنت۔
۲۔
سُنَّةَ اللّهِ فِی الَّذینَ خَلَوا مِن قَبلُ؛ اس قبل گزر جانے والوں میں
اللہ کی سنت۔
۳۔
لِسُنَّتِنا؛ ہماری سنت کی وجہ سے۔
۴۔
سُنَّتَ اللّهِ الَّتی قَد خَلَت؛ اللہ کی وہ سنت جو اس سے پہلے گزر چکی ہے۔
۵۔
سُنَّةَ مَن قَد اَرسَلنا قَبلَکَ مِن رُسُلِنا؛ ہم نے اپںے رسولوں میں سے جو
رسول آپ سے پہلے بھیجے ان کی سنت۔
۶۔
سُنَنَ الَّذِینَ مِن قَبلِکُم؛ ان لوگوں کی سنتیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔
۷۔
فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّهِ تَبدیلاً؛ پس ہر گزر آپ اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔
۸۔
قَد خَلَت مِن قَبلِکُم سُنَنٌ؛ تمہارے پہلے بھی یہ سنتیں گزر چکی ہیں۔
ان آیات میں دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ ان آیات کریمہ میں کلمہِ سنت کا معنی رائج اور معمول کے عین مطابق برپا اور جاری ہونے والا طریقہ کار ہے جو اکثر و بیشتر طور پر اسی طرح جاری ہوتا ہے یا ہمیشگی رکھتا ہے اور ہمیشہ اسی طرح سے لاگو اور جاری ہوتا ہے۔
معاشرے کی سنت یا
قانون سے مراد یہ ہے کہ جاری ہونے والا طریقہ یا ضابطہ معاشرے کی رہنمائی کے لیے ایجاد کیا گیا ہے۔
ایک معاشرے ان قوانین کے مطابق چلتا ہے اور یہ الہی قوانین امتوں کے لیے اس راستہ اور مسیر کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کی اتباع اور پیروی لازم ہے۔
[ترمیم]
سننِ الہی کو اگر ہم قرآن کریم سے پہچاننا چاہیں تو ہمارے سامنے آیات کریمہ سے مختلف اسلوب سامنے آتے ہیں جن پر دقت کر کے ہم ان قوانین کو جان سکتے ہیں۔ اس طرف توجہ رہے کہ ان قوانین کا معاشرے کے ساتھ جو تعلق اور ربط ہے وہ علت اور معلول کا ہے۔ معاشرہ چار ناچار انہی قوانین اور سنن کے مطابق چلے گا۔ البتہ ان قوانین کو دعوت دینے والا خود معاشرہ ہے جو اپنے اختیاری عمل سے ان قوانین کو دعوت دیتا ہے۔ جب علت وجود میں آ جائے تو معلول کو اس سے جدا نہیں کر سکتے۔ پس معاشرہ جب ان قوانین کو دعوت دے دے تو یہ قوانین حتمی طور پر جاری ہو کر رہتے ہیں۔
ان قوانین کو قرآن کریم کی آیات سے کبھی
تنقیح مناط کے قاعدہ سے اخذ کیا جاتا ہے اور کبھی
اطلاق اور عمومیت کو ملاحظہ کرتے ہوئے لیا جاتا ہے۔
قرآن کریم نے ان قوانین کا تعارف جن اقوام کے ذیل میں ذکر کیا ہے ان میں سے بعض اقوام ایسی ہیں جن میں جاری ہونے والے سنن و قوانین کو عمومیت و شمولیت دینے کے لے ہم تنقیح مناط کے ضابطے سے استفادہ کرتے ہیں اور پھر اس کو تمام بشریت کے لیے ثابت کیا جاتا ہے، مثلا ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
ولَو اَنَّهُم اَقاموا التَّورةَ والاِنجیلَ وَمَا اُنزِلَ اِلَیهِم مِن رَبِّهِم لاََکَلوا مِن فَوقِهِم ومِن تَحتِ اَرجُلِهِم؛ اور اگر وہ
تورات اور
انجیل اور ان کے رب کی طرف سے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے کو قائم کرتے تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔
بعض اوقات آیت کریمہ میں اطلاق یا جو عموم پایا جاتا ہے اس سے استفادہ کرتے ہوئے ان الہی قوانین سے آگاہ ہوا جاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
ومَن یَتَّقِ اللّهَ یَجعَل لَهُ مَخرَجـا؛ اور جس نے اللہ کا
تقوی اختیار کیا وہ اس کے لیے نکلنے کی راہ ایجاد کر دے گا۔
ان الہی قوانین کی مدد سے ہمارے ہاتھ میں جو کچھ آتا ہے اس میں اور وہ جو انسانی زحمت و کوشش سے ہماری دسترس میں آتا ہے کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان قوانین میں کسی قسم کے اشتباہ یا خطاء کا امکان موجود نہیں ہے۔
دنیا میں مختلف گروہ اور گوناگوں کثیر معاشرے تکوینی طور پر ایک دوسرے سے اختلاف اور فرق رکھنے کے باوجود بعض جہات سے مشترک ہیں۔ انسانی معاشرے جس طرح سے تکوینی طور قوانین کے دوش پر قائم ہیں اور ان کی حاکمیت اور تسلط میں زندگی بسر کر رہے ہیں اسی طرح تشریعی قوانین کا سبب اخلاق اور حقوق میں مشترک ہونا ہے۔ پس ایسا ممکن ہے کہ تمام معاشرے ایک ثقافت اور اہمیت کا حامل نظام رکھتے ہوں اور ایک
اخلاق و حقوق کے مالک ہوں۔ قرآن کریم قائل ہے کہ انسانی معاشرے یکساں تکوینی قوانین اور اسی طرح تشریعی قوانین میں مشترک ہیں۔
اسی جہت سے قرآن کریم نے متعدد قرآنی قصص ذکر کیے ہیں تاکہ امتیں یہ عبرت حاصل کریں کہ قوموں پر جاری ہونے والے قوانین ایک قوم کے ساتھ مختص نیہں ہیں بلکہ وہ تمام معاشرے کو مشترکہ طور پر شامل ہیں بلکہ وہ تمام معاشروں میں تکراری طور پر رونما ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
لَقَد کانَ فی قَصَصِهِم عِبرَةٌ لاُِولِی الاَلبـابِ؛ ان لوگوں کے قصہ میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے۔
اسی طرح سے ان آیات سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں جن میں یہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ گذشتہ قوموں کے آثار میں چلو پھرو اور ان کھنڈرات میں چلنے پھرنے کے لیے سفر کرو تاکہ ان قوموں کے حالات اور سرگذشت کو جان سکو اور دیکھو کہ جن قوانین کے زیر تحت زندگی بسر کرتے رہے اور جن قوانین کے تحت انہوں نے نجات یا ہلاکت کو پایا وہ تمام معاشروں کو مشترک ہیں، مثلا قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
قُل سیروا فِی الاَرضِ فَانظُروا کَیفَ کانَ عـقِبَةُ المُجرِمین؛ کہہ دیجیے، زمین میں چلو پھرو، پھر دقت سے دیکھو کہ مجرمین کا کیسا انجام ہوا،
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اَوَ لَم یَسیروا فِی الاَرضِ فَیَنظُروا کَیفَ کانَ عـقِبَةُ الَّذینَ مِن قَبلِهِم...؛ کیا وہ زمین چلتے پھرتے ہیں کہ دقت سے جائزہ لیں کہ ان سے پہلے والوں کا کیسا انجام ہوا تھا۔
پس قرآن کریم کی نظر میں امت اور معاشرے اپنے
امت اور معاشرہ ہونے کے اعتبار سے نہ کہ معاشرے کے افراد ہونے کی جہت سے مشترکہ سر نوشت اور تاریخ رکھتے ہیں۔ یہ مشترکہ تاریخ و سرنوشت
انسانی معاشرے کے قوانین و سنن کے معنی میں ہے، جیسے قومِ بنی اسرائیل کی تاریخ کو اس جہت سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
ویکی فقہ اردو کی جانب سے یہ مقالہ تشکیل دیا گیا ہے۔