انسانی معاشرہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
انسانی معاشرہ انسانوں سے تشکیل پانے والے ایسے مجموعہ کو کہتے ہیں جو باہمی طور پر یکساں
زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی ضرورتِ زندگی کو پورا کرنے میں اور زندگی کے مختلف امور کی انجام دہی میں ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ
عقائد و نظریات، مشترک
آداب و عادات اور یکساں اہداف کے مالک ہوتے ہیں۔
[ترمیم]
تمام جانداروں میں
انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو فطرتًا اجتماعی وجود رکھتا ہے۔ اس حقیقت کو
قرآن کریم نے متعدد آیات میں بیان کیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
یـاَیُّهَا النّاسُ اِنّا خَلَقناکُم مِن ذَکَرٍ واُنثی وجَعَلناکُم شُعوبـًا وقَبائِلَ لِتَعارَفوا...؛ اے لوگو! ہم نے تمہیں مذکر اور مؤنث میں
خلق کیا ہے اور ہم نے تمہیں
شعوب اور
قبائل میں قرار دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔
اسی طرح معیشت اور مختلف طبقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمانِ الہی ہوتا ہے:
أَ هُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنا بَيْنَهُمْ مَعيشَتَهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً سُخْرِيًّا وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون؛ کیا وہ آپ کے
ربّ کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟ ہم ہیں جنہوں نے دنیاوی زندگی میں ان کے درمیان ان کی
معیشت کو تقسیم کیا اور ان میں سے بعض کو دیگر بعض پر درجات بنا کر فوقیت دی تاکہ ان میں سے بعض دیگر بعض کو ماتحت لا کر کام لیں اور آپ کے ربّ کی
رحمت اس سے بہت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
سورہ آل عمران میں مذکر و مؤنث کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
بَعضُکُم مِن بَعضٍ؛ تم میں سے بعض دیگر بعض سے
دیگر قرآنی آیات میں بھی اس موضوع کے متعلق الہی معارف ذکر ہوئے ہیں۔
انسانوں کا دیگر افرادِ انسان کے ساتھ باہمی روابط کا قیام اور طبیعت کے ساتھ مختلف قسم کے اعمال کی انجام دہی اور رفتار و سلوک کا مجموعہ معاشرہ کہلاتا ہے۔
[ترمیم]
معاشرے کو
عربی زبان میں
مُجۡتَمَع اور
فارسی میں جامعہ کہتے ہیں جوکہ لغوی طور پر اسم فاعل ہے۔ لفظ مجتمع اور جامعہ ہر دو کے اصلی حروف ج-م-ع ہیں۔ جمع کے لغوی معنی جمع کرنا، اکٹھا کرنا، مہیا و فراہم کرنا اور اشیاء کا آپس میں ایک دوسرے میں ضم ہونا اور ملنا کے ہیں۔
لفظِ جمع سمیٹ کر اکٹھا کر دینا، جمع کر دینا اور فراہم کرنا کے معنی میں متعدد آیات کریمہ میں وارد ہوا ہے، مثلا ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وجُمِعَ الشَّمسُ والقَمَر؛ اور
سورج و
چاند جمع کر کے ملا دیئے جائیں گے،
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
یَومَ یَجمَعُکُم لِیَومِ الجَمعِ؛ وہ دن جب وہ تمہیں جمع ہونے کے دن کے لیے جمع کر دے گا،
نیز فرمانِ الہی ہوتا ہے:
اِنَّ عَلَینا جَمعَهُ وقُرءانَه؛ بے شک ہمارے اوپر اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھنا ہے۔
یہ کلمہ عربی زبان میں قدیم زمانے سے استعمال ہو رہا ہے۔ اس لفظ کا اصطلاحی اور رائج معنی کا اس سے کوئی ربط اور تعلق نہیں ہے۔ قرآن کریم میں لفظ جامعہ یا مجتمع موجودہ رائج اصطلاحی معنی میں وارد نہیں ہوا۔
اجتماعی اور معاشرتی محققین اور دانشوروں کے درمیان جامعہ یا معاشرہ کی اصطلاح مبہم ترین اور
کلی و جامع ترین الفاظ میں سے ہے۔ یہ ابہام اس وقت مزید وسعت پیدا کر لیتا ہے جب یہ کلمہ
ملت،
امت اور اس طرح کے دیگر معانی میں آتا ہے۔ یہاں تک کہ
تمدن کی اصطلاح نے بھی اسی طرح سے وسعت اور عمومیت پیدا کی اور زمانے کے گزرنے کے ساتھ اس کے
مترادف استعمال ہونے لگا۔ بعض علماءِ
عمرانیات قائل ہیں کہ ان کا اطلاق بڑے معاشروں پر ہوتا ہے جبکہ وہ چھوٹے چھوٹے معاشرے جو مدنیت کے مرحلہ تک نہیں پہنچے ان کو جماعت، گروہ، دستہ وغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس بناء پر معاشرہ کی ایک جامع و مانع
تعریف کرنا انتہائی دشوار اور مشکل ہے۔ اگرچے یہ لفظ کثرت سے اپنے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کی ایک متفق تعریف ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔
[ترمیم]
علماء عمرانیات نے معاشرہ کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں جو ان سے وابستہ
مذہب و مکتب کے تناظر میں کی گئی ہیں۔ ان میں سے ہر تعریف میں متعدد عناصر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جبکہ بعض میں عمومی منفعت کو ہدف قرار دیتے ہوئے بطور عنصر تاکید کی گئی ہے۔
بعض علماء نے معاشرے کی تعریف میں روش و
سنت، عادات، رسومات، طرزِ زندگی اور مشترکہ
ثقافت کو اساسی عناصر قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض دیگر نے ایک معاشرے میں افراد کا ایک دوسرے سے مضبوط ربط و تعلق جسے وحدتِ جزئی جسمی سے تعبیر کیا جاتا ہے کو اہمیت کا حامل عنصر قرار دیا ہے، نیز اس کے علاوہ ہوش و حواس رکھنے والے موجودات کے درمیان نفسیاتی و اخلاقی امور، مقبول اور جامعیت رکھنے والی حکومت، ہدف، سرزمین، مشترکہ ثقافت، باہمی مربوط زندگی اور فنون وحرفت کو انتہائی اہم عناصر قرار دیا ہے۔
بعض محققین نے معاشرے کو بعض امتیازات و اہداف تک براہ راست یا بالواسطہ رسائی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کا ارادی طور پر ایک جگہ جمع ہونے سے تعبیر کیا ہے۔
اگر کلی طور دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے سے مراد انسانوں سے تشکیل پانے والا ایسا مجموعہ ہے جو جبری طور پر احتیاج و ضرورت کے تحت اور
عقائد و افکار و نظریات کے خاص سلسلہ کی تاثیر کی وجہ سے ایک دوسرے سے محکم طور پر جڑتے ہیں اور ایک مشترکہ زندگی میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔
مختلف قسم کے گوناگوں مشترکہ روابط اور باہمی مضبوط و پائیدار تعلقات لوگوں کو باہمی طور پر آپس میں جوڑ دیتے ہیں۔
اسی طرح لوگوں میں ایک ہدف کا ہونا انہیں آپس میں اکٹھا اور انہیں باہمی طور جمع کر دیتا ہے۔
بعض محققین نے معاشرے کا مطالعہ خاص علمی اصولوں کے تناظر میں کیا جس کے نتیجے میں نئی علمی ابحاث سامنے آئیں اور مختلف زوایوں سے معاشرے کا جائزہ لیا جانے لگا۔ ان محققین کے علمی آثار میں انسانوں کے درمیان جنم والے باہمی روابط کا جائزہ لیا گیا ہے، فرق نہیں پڑتا کہ یہ روابط طبیعت کے اعتبار سے قائم ہوئے یا اجتماعی جہات سے، جیساکہ
خواجہ نصیر الدین طوسی (۵۹۸ ـ ۶۷۲ ق) ہیں جوکہ پہلے
حکیم ہیں جنہوں نے
اصالتِ معاشرہ کی بحث کو فلسفی نظر سے مطرح کیا۔
مختلف تعریفوں میں معاشرے کی جو ساخت و خدوخال بیان کیے گئے ہیں اور معاشرے کی تشکیل میں دخیل بنیادی اجزاء و عناصر کا تعارف کروایا گیا ہے اس پر متعدد
آیات کریمہ بھی دلالت کرتی ہیں اور ان مفاہیم و خصوصیات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف کلمات ہیں جن سے معاشرہ کا قرآنی تصور ہمارے سامنے آتا ہے، مثلا
فِئَةٌ، قَرۡنٌ، قَرْیَةٌ ، شُعُوب، رَهط، أُمَّة، قَوْمٌ ، حِزْبٌ، طَائِفَة ، قَبِیْلَة، مَعْشَر، مَدِیْنَة۔ اسی طرح وہ آیات جو خاندان، گھرانے، ایک وسیع و عریض سر زمین پر بسنے والے افراد اور ایک
دین کے پیرو ہونے کو بیان کرتی ہیں ان سے بھی معاشرے کا قرآنی مفہوم سمجھا جا سکتا ہے۔ ان آیات کریمہ سے معاشرے کے مفہوم کا تشکیکی اور مختلف مراتب کا حامل ہونا بھی سامنے آتا ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم کی متعدد آیات ہیں جو معاشرے میں موجود اجتماعی روابط اور باہمی تعلقات کو بیان کرتی ہیں، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا ...؛ اے ایمان لانے والو!
صبر کرو اور
استقامت سے کام لو اور مورچوں میں جمے رہو۔
قرآن کریم کی کثیر آیات میں معاشروں کے اجتماعی مسائل، ان کی روش و سنت اور ان کی مختلف حوادث پر مشتمل
تاریخ کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر و بیشتر آیات کریمہ یا تو اجتماعی احکام کو بیان کرتی ہیں یا ان
احکام کے بیان کے نتیجہ میں انسانوں کے درمیان محکم اور قوی اجتماعی روابط جنم لیتے ہیں۔ نیز جہاں ان آیات کریمہ کے معارف و معانی استفادہ کرتے ہوئے بعض اجتماعی مباحث میں موجود بعض مشکلات اور ابہام کو حل کیا جاتا ہے وہاں معاشرے کی حقیقت و ہویت کی اصالت اور عدمِ اصالت کا مسئلہ فرعی مسائل کی صورت میں ان آیات سے روشن ہوتا ہے۔ اگر ہم قرآن کریم میں معاشرے سے تعلق رکھنے والے کلمات کا کلی طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قرآن نے معاشرے کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ و کلمات کو استعمال کیا ہے۔ یہ الفاظ اگرچے لغوی طور پر جدا خاص معنی رکھتے ہیں اور خاص واقعیت سے
حکایت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کلمات ایک معاشرہ، گروہ اور ایک جمعیت پر
دلالت کرتے ہیں۔ انہی کلمات میں سے بعض کا مختصر تعارف بیش خدمت ہے:
اجتماعی امور اور معاشرے کو بیان کرنے کے لیے قرآن کریم نے وسیع پیمانے پر جن الفاظ کا استعمال کیا ہے ان میں سے ایک کلمہِ امّت ہے۔ یہ لفظ
أُمّ سے مشتق ہے جس کا اطلاق ایسے گروہ پر ہوتا ہے جو اختیاری یا جبری طور پر ایک دین، ایک زمانہ، ایک علاقہ و جگہ سے تعلق رکھتا ہے۔
لفظِ امت قرآن کریم میں ۶۴ مرتبہ تکرار ہوا ہے۔ ۵۱ موارد میں لفظِ امت
مفرد اور ۱۳ جگہوں پر جمع کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔ یہ کلمہ اکثر و بیشتر موارد میں انسانی معاشرے، دین اور
آئین کے ماتحت گروہ یا وہ جماعت جو ایک زمانے میں ایک جگہ پر باہمی ربط و تعلق رکھتے ہوئے مشترک پہلو کی حامل ہے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ قرآنی آیات ان گروہوں کے درمیان اللہ تعالی کی
ربوبیت میں ایک ہدف اور دقیق طور پر زندگی کے معین و منظم برنامہ کے ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جیساکہ ارشادِ رب العزت ہوتا ہے:
ولَو شاءَ اللّهُ لَجَعَلَکُم اُمَّةً واحِدَةً؛ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت قرار دے دیتا۔
ایک اور جگہ ارشادِ خداوندی ہوتا ہے:
تِلکَ اُمَّةٌ قَد خَلَت لَها ما کَسَبَت ولَکُم ما کَسَبتُم؛ وہ امت گزر گئی ہے جس کے لیے بس وہی ہے جو اس نے کسب کیا اور تمہارے لیے وہ کچھ ہے جو تم نے کسب کیا ہے۔
نیز ارشاد ہوتا ہے:
ولِکُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ فَاِذا جاءَ اَجَلُهُم لا یَستَاخِرونَ سَاعَةً ولا یَستَقدِمون؛ اور ہر امت کے لیے ایک اجل ہے، پس جب ان کی اجل آ جائے تو وہ ایک لحظہ کے لیے نہ تاخیر کر سکتے ہیں اور نہ پہلے سبقت حاصل کر سکتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
ولَقَد بَعَثنا فی کُلِّ اُمَّةٍ رَسولاً اَنِ اعبُدُوا اللّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت؛ اور ہم نے ہر
امت میں رسول مبعوث کیا کہ تم اللہ کی
عبادت کرو اور
طاغوت سے اجتناب کرو۔
نیز ارشاد باری تعالی ہوتا ہت:
رَبَّنا واجعَلنا مُسلِمَینِ لَکَ ومِن ذُرِّیَّتِنا اُمَّةً مُسلِمَةً لَکَ؛ اے ہمارے رب! تو ہمیں اپنے سامنے سر تسلیم خم (مسلمین) قرار دیے اور ہماری ذریّت سے ایک ایسی امت قرار دے جو تیرے سامنے تسلیم ہو۔
سورہ مومنون میں ارشاد ہوتا ہے:
ما تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَها وَما يَسْتَأْخِرُون؛ کوئی بھی امت اپنے وقتِ اجل سے نہ سبقت کر سکتی ہے اور نہ تاخیر کر سکتی ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
مِنهُم اُمَّةٌ مُقتَصِدَةٌ وکَثیرٌ مِنهُم ساءَ ما یَعمَلون؛ ان میں سے ایک امت معتدل و میانہ رو ہے اور ان میں سے کثیر اپنے اعمال کی بدولت بدکردار ہیں۔
قرآن کریم میں لفظ امت انسانوں کے علاوہ دیگر ہوائی اور زمینی جانداروں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وَمَا مِنۡ دابَّةٍ فِی الاَرضِ ولا طـئِرٍ یَطیرُ بِجَناحَیهِ اِلاّ اُمَمٌ اَمثالُکُم؛ اور زمین پر چلنے والے جاندار اور اپنے دونوں پروں سے اڑنے والے تمام پرندے بھی تمہاری طرح امتیں ہیں۔
قرآن کریم میں امت بمعنی ایک مقررہ معین مدت کے معنی میں بھی وارد ہوا ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
ولـَئِن اَخَّرنا عَنهُمُ العَذابَ اِلی اُمَّةٍ مَعدودَةٍ؛ اور اگر ہم ان سے ایک معین مدت تک عذاب کو ٹال دیں۔
اسی طرح ایک اور جگہ امت بمعنی
مدت استعمال ہوا ہے، جیساکہ فرمانِ الہی ہوتا ہے:
وادَّکَرَ بَعدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُکُم بِتَاویلِهِ فَاَرسِلون؛ اور اسے وہ بات بہت مدت بعد یاد آئی، میں تمہیں اس کی تأویل( تعبیرِ خواب) بتاتا ہوں، پس مجھے اس (یوسفؑ) کے پاس بھیج دو۔
قرآن کریم میں لفظِ قریہ کی دلالت ایک مشترک جگہ پر ہے، ارشادِ الہی ہوتا ہے:
وکَم قَصَمۡنَا مِن قَریَةٍ کانَت ظالِمَةً واَنشَانا بَعدَها قَومـًا ءاخَرین؛ اور ہم نے کتنی ایسی بستیوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا جنہوں نے
ظلم کیا اور ہم نے ان کے بعد دوسری قوم کو
خلق کیا۔
قرآن کریم میں لفظِ قرن ایک زمانے میں زندگی بسر کرنے والوں کے لیے استعمال ہوا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وکَم اَهلَکنا قَبلَهُم مِن قَرنٍ؛ اور ان سے پہلے کتنی ہم عصر قومیں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا۔
لفظِ قرن قرآن کریم کی متعدد آیات میں معاشرے، یا
قوم یا ہم عصر زندگی بسر کرنے والے بڑے گروہوں کے معنی میں وارد ہوا ہے۔
[ترمیم]
معاشرے کا وجود، اس کی ہویت اور معاشرے یا فرد کی اصالت سے بحث اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ ان کے بارے میں جو نظریہ یا رائے اختیار کی جائے کی اس کا اثر علومِ انسانی میں موجود دیگر نظری یا عملی افکار و آراء پر نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ معاشرے سے متعلق بہت سے مسائل جیسے معاشرہ کا کوئی اثر لینا، اجتماعی تغیرات، معاشرے میں برپا ہونے والی مختلف حوادث اور معاشرے کی مجبوریاں وغیرہ اور ان جیسے دیگر بہت سے مسائل ان مباحث سے واضح اور روشن ہوتے ہیں۔
اس اہمیت کے پیش نظر یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا
قرآن کریم نے انسانی افراد میں سے ہر فرد کو اصل قرار دیا ہے یا ایسا نہیں ہے بلکہ قرآن نے معاشرے کو اصل قرار دیا ہے اور اس کو افراد کے سلوک و عمل کا سبب قرار دیا ہے؟ کیا معاشرہ افراد سے جدا مستقل ایک وجود رکھتا ہے اور ایسے جامع اور وسیع قوانین کا حامل ہے جو ان قوانین پر بھی
حاکم اور بالاتری رکھتے ہیں جن کے تحت افراد فردی طور پر زندگی بسر کرتے ہیں اور باہمی روابط ایجاد کرتے ہیں؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ قرآن کریم فرد اور معاشرے کے درمیان کسی قسم کے فرق کا قائل نہیں ہے اور
وحدتِ نوعی اور افراد و معاشرے کے درمیان یگانگت و یکجہتی کو لازم قرار دیتا ہے؟
قرآن کریم نے معاشرہ اور امت کو فقط ایک کُل کے طور پر ملاحظہ نہیں کیا بلکہ اس کے
وجود میں آنے اور اجتماعی امور میں اس کے اجزاء، عناصر اور مختلف حصوں کو بھی موردِ توجہ قرار دیا ہے۔ حقیقت میں جہاں قرآن کریم معاشرے کے رشد و نمو کو بیان کرتا ہے وہاں معاشرے کے متوقف ہونے اور اس کی زوال پذیری کو بھی کو بھی بیان کرتا ہے۔ البتہ اس مقام پر بحث یہ ہے کہ معاشرے میں بسنے والے افراد کے درمیان کس نوعیت کی ترکیب پائی جاتی ہے؟ اس بارے میں ہمارے پاس کلی طور پر دو آراء سامنے آتی ہیں:
۱۔
فرد گرائی: معاشرہ افراد سے ہٹ کر جدا طور پر کوئی الگ وجود نہیں رکھتا۔ اسی طرح معاشرے کے افعال و آثار افراد سے جدا طور پر کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ اس نظریہ کو فرد گرائی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو معاشرے کے وجود کا قائل نہیں ہے اور معاشرہ شناسی کو معاشرے کی اجتماعی نفسیات کی طرف پلٹاتے ہیں اور اس کا اثر قرار دیتے ہیں۔
۲۔
معاشرہ گرائی: اس کے مقابلے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ خصوصی وجود کا حامل ہے اور افراد سے ہٹ کر ایک الگ وجود رکھتا ہے۔ اس نظریہ کو معاشرہ گرائی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس فکر کے حامل افراد معاشرے کی اجتماعی نفسیات کو معاشرہ شناسی کی طرف پلٹاتے ہیں۔
ہر دو طرزِ تفکر کے حامل مفکرین اپنے اپنے نظریہ کے صحیح اور درست ہونے کے لیے قرآن کریم کی متعدد
آیات سے تمسک کرتے ہیں۔
پہلے نظریے کے حامل محققین میں سے بعض معاشرے کو اعتباری اور بعض دیگر مرکبِ صناعی قرار دیتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں:
۱۔ پہلا گروہ: بعض محققین معاشرہ کو اعتباری قرار دیتے ہیں اور اس کے اصیل و حقیقی ہونے کی نفی کرتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں افراد اور ان کے رفتار و اعمال کے علاوہ کوئی چیز حقیقت نہیں رکھتی۔ جو چیز اصالت اور حقیقت رکھتی ہے وہ بذاتِ خود فرد ہے نہ کہ معاشرہ۔ چنانچہ اس طرزِ تفکر کے حامل افراد اجتماعی امور اور معاملات کو انسان کی روح میں تلاش کرتے ہیں اور معاشرے کے وجود کا کاملًا انکار کرتے ہیں۔ چاہے معاشرے کا فلسفی تصور ہو یا قرآنی تصور، وہ ہر دو تصور کی نفی کرتے ہیں۔
۲۔ دوسرا گروہ: بعض دیگر محققین معاشرے کو
مرکبِ صناعی قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں افراد کا وجود اور ان کا ایک دوسرے بر اثر انداز ہونا ایک حقیقت ہے کیونکہ افراد کے حاضر ہونے کے ساتھ ساتھ اگر ہم ان کے افعال اور مختلف کاموں کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ان کے یہ افعال فردی نوعیت کے نہیں ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان افعال سے کوئی معاشرہ نامی چیز وجود میں آ جاتی ہے۔ معاشرہ نامی کوئی شیء حقیقت نہیں رکھتی۔
فرد گرائی کے مقابلے میں معاشرہ گرائی آتا ہے۔ اس نظریہ کے حامل افراد میں بھی جزوی طور پر اختلافِ نظر پایا جاتا ہے:
۳۔ تیسرا گروہ: معاشرہ گرائی کے قائل بعض محققین معتقد ہیں کہ معاشرہ ایک
مرکبِ حقیقی ہے جو وجودِ افراد اور معاشرے کو تشکیل دینے والے عناصر کے علاوہ ایک جدید وجود و حقیقت ہے۔ بلا شک و شبہ افراد ایک حقیقت اور وجود رکھتے ہیں لیکن انہی افراد کے باہمی روابط،
اعمال اور ان اعمال و روابط کے اثرات و تاثیرات سے معاشرے کے نام سے ایک نیا جدید وجود سامنے آتا ہے جو افراد کے شعور و ارادہ و فکر و نظر سے ہٹ کر جدا طور پر ایک نئی
روح و جان اور شعور و
ارادہ کا مالک ہے۔
۴۔ چوتھا گروہ: بعض دیگر محققین قائل ہیں کہ معاشرہ اگرچے مرکبِ حقیقی ہے لیکن اس مرکب کا شمار
مرکبِ طبیعی میں نہیں ہوتا بلکہ یہ مرکبِ طبیعی سے بالاتر اور بلند تر ہے۔ اس نکتہِ نظر کے مطابق ہویتِ افراد کو معاشرے کی ہویت پر کسی قسم کی فوقیت اور تقدم حاصل نہیں ہے۔ روحِ فرد کے علاوہ ایک روحِ جمعی ہے۔ اس اعتبار سے ظرف خالی ہے جس میں فقط روحِ جمعی کو قبول کرنے کی استعداد و صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انسان کو اگر اجتماعی وجود سے قطع نظر ملاحظہ کریں تو معلوم ہو گا کہ انسان حیوانِ محض ہے جس میں انسانیت کی استعداد و صلاحیت پائی جاتی ہے۔ روحِ جمعی میں فقط انسان کی انسانیت پائی جاتی ہے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات اجتماع اور روحِ جمعی کے وجود پر دلالت کرتی ہیں۔ البتہ اس کا مطلب افراد کے فردی ارادہ کی نفی نہیں ہے۔ اسلامی دانشور جیسے خ
واجہ نصیر الدین طوسی (۵۹۸ - ۶۷۲ ھ) اور
ابن خلدون (م ۸۰۸ ھ) کی علمی عبارات میں ایسی مباحث دکھائی دیتی ہیں جو معاشرے کے وجود سے تعلق رکھتی ہیں۔
البتہ معاشرے کے وجود پر قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے براہ راست مباحث کا وجود بہت قلیل دکھائی دیتا ہے۔
ایسے میں
علامہ طباطبائی (۱۳۲۱ ـ ۱۴۰۲ ھ) نے معاشرے اور اس سے متعلق مباحث کو سنجیدہ لیا اور قرآنی آیات کے تناظر میں معاشرے کے خدوخال بیان کیے۔ ان کے بعد
شہید صدر (۱۳۵۳ ـ ۱۴۰۰ ھ)، شہید
مطہری (۱۲۹۸ ـ ۱۳۵۸ ش) اور آیت اللّه
مصباح یزدی آئے جنہوں نے اس میدان پر خصوصی توجہ دی اور علمی طور پر منظم طریقے سے معاشرے اور اس کے مباحث کو پیش کیا۔
مندرجہ بالا چار صورتوں میں سے پہلی دو صورتیں اگر ہم قبول کر لیں اور معاشرے کے وجود کا انکار کر دیں تو اس سے کثیر قرآنی آیات میں وارد ہونے والی مختلف تعبیرات کا انکار لازم آتا ہے۔
قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ ایسی تعبیرات استتعمال کی ہیں جو معاشرے کے وجود کی قبولیت پر دلالت کرتی ہیں، ان میں سے چند آیات کریمہ کو ہم اجمالی طور پر ملاحظہ کر سکتے ہیں:
- سورہ مائدہ میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
مِنهُم اُمَّةٌ مُقتَصِدَةٌ؛ ان میں سے بعض ایسی امت ہیں جو میانہ روی اختیار کرنے والے ہیں۔
- سورہ غافر میں وارد ہوا ہے:
وهَمَّت کُلُّ اُمَّةٍ بِرَسولِهِم لِيَأْخُذُوهُ؛ اور ہر امت نے اپنے
رسول کو پکڑنے کا عزم و ارادہ کیا۔
- سورہ اعراف میں وارد ہوا ہے:
ولِکُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ؛ اور ہر امت کا ایک وقتِ اجل ہے۔
- سورہ بقرہ میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہت:
وکَذلِکَ جَعَلناکُم اُمَّةً وسَطـًا؛ اور اسی طرح ہم نے تمہیں امتِ وسطی قرار دیا ہے۔
- سورہ بقرہ میں ایک اور مقام میں وارد ہوا ہے:
تِلکَ اُمَّةٌ قَد خَلَت لَها ما کَسَبَت؛ یہ وہ امت ہے جو گزر چکی ہے، ان کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے کسب کیا۔
اسی طرح کثیر آیات ہیں جن میں ایسی تعبیرات استعمال ہوئی ہیں جو معاشرے کے وجود پر دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے ان آیات میں وارد ہونے والی الفاظ کو
مجاز اور غیر حقیقی معنی پر
حمل کیا جائے!! ایسے میں ہم علمی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کلام سے معنی لیں گے۔ علمی قواعد ثابت کرتے ہیں کہ کلام میں ہمیشہ معنی حقیقی مراد لیا جائے گا، البتہ اگر
کلام میں قرینہ موجود ہے جو معنی حقیقی لینے سے مانع ہے اور معنی مجاز پر دلالت کر رہا ہے تو اس صورت میں ہم مجازی معنی مراد لیں گے۔
علامہ طباطبائی نے کثیر آیات سے استفادہ کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم امت کے لیے مختلف امور کو معتبر قرار دیتا ہے، مثلا قرآن کریم امت کے وجود کو ثابت کرتا ہے، اسی طرح اس کے لیے اَجَل، کتاب، شعور، فہم، عمل،
اطاعت اور
معصیت کو معتبر قرار دیتا ہے۔
علامہ نے نمونے کے طور پر چند آیات کریمہ پیش کیں ہیں:
- سورہ اعراف میں وارد ہوا ہے:
ولِکُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ؛ ہر امت کے لیے اجل ہے۔
- سورہ جاثیہ میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وتَری کُلَّ اُمَّةٍ جاثِیَةً كُلُّ أُمَّةٍ تُدْعى إِلى كِتابِهَا؛ اور آپ ہر امت کو گھٹنوں کے بل گرا ہوا پائیں گے، ہر امت کو اس کی کتاب کی طرف بلایا جائے گا ۔
- سورہ انعام میں ارشادِ ربّ العزت ہوتا ہے:
زَیَّنّا لِکُلِّ اُمَّةٍ عَمَلَهُم؛ ہم نے ہر امت کے لیے ان کے اعمال مزین بنا دیئے ہیں۔
- سورہ مائدہ میں وارد ہوا ہے:
مِنهُم اُمَّةٌ مُقتَصِدَةٌ؛ ان میں سے ایک امت میانہ روی اختیار کرنے والی ہے۔
- سورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
مِن اَهلِ الکِتابِ اُمَّةٌ قائِمَةٌ یَتلونَ آیاتِ اللّهِ آناءَ الَّیلِ؛
اہل کتاب میں ایک ایسی امت ہے جو (حکمِ الہی) پر قائم ہے، رات کے وقت وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔
- سورہ غافر میں وارد ہوا ہے:
وهَمَّت کُلُّ اُمَّةٍ بِرَسولِهِم لِيَأْخُذُوهُ؛ اور ہر امت نے اپنے رسول کو پکڑنے کے (مذموم) ارادے کیے۔
- سورہ یونس میں
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
ولِکُلِّ اُمَّةٍ رَسولٌ؛ اور ہر امت کے لیے رسول ہے۔
شہید
باقر الصدر نے مذکورہ آیات کریمہ میں سے بعض آیات کو معاشرے پر حاکم
الہی سنن اور قوانین کے اثبات پیش کیا ہے۔ اس جہت سے شہید صدر علامہ طباطبائی کے ہم فکر تھے۔
[ترمیم]
معاشرے کے اصل و حقیقی ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ فرد کے وجود اور اس کے استقلال کی نفی کر دی جائے۔ قرآنی آیات پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرد بھی ایک مستقل شخصی عنوان رکھتا ہے اور ایک واقعیت اور حقیقت کا حامل ہے جس کو قرآن کریم نے متعدد آیات میں موردِ خطاب قرار دیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم نے فرد کے لیے بھی اجل، ہلاکت،
حیات و موت وغیرہ کو ثابت کیا ہے۔ اسی طرح سے مجموعہِ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ بھی فرد کی مانند ایک حقیقی وجود رکھتا ہے اور
شارع نے معاشرے کو حقیقی وجود کے اعتبار سے موردِ
خطاب قرار دیا ہے اور تاریخ میں گزری ہوئی امتوں کے حالات کو بعنوان امت اور ایک معاشرہ ذکر کیا ہے۔ پس قرآن کریم فرد کی زہدگی کی مانند معاشرے کی زندگی کا بھی قائل ہے۔
[ترمیم]
علامہ طباطبائی اور شہید مطہری معاشرے اور فرد ہر دو کے اصل اور حقیقی ہونے کے قائل ہیں اور اپنے اس موقف پر متعدد قرآنی آیات کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان بزرگان کے مقابلے میں آیت اللہ مصباح یزدی نے
فرد گرائی کے نظریہ کو اختیار کیا ہے اور قرآنی آیات کے تناظر میں معاشرہ اور فرد کی اصالت کے نظریہ کو مردود اور نا قابل قبول قرار دیا ہے۔ نیز معاشرے کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے جن قرآنی اور دیگر دلائل کو پیش کیا گیا ہے ان سب ادلہ کو آپ نے ناتمام اور ناقص قرار دیا ہے۔ شیخ مصباح یزدی کی نظر میں جو معاشرے کے لیے جن خصوصیات و آثار کیا جاتا ہے وہ معاشرے کی نہیں بلکہ وہ افراد کے مجموعے کے افعال و رفتار سے مربوط ہیں۔ پس معاشرے کے خواص و آثار حقیقت میں افراد کے مجموعی افعال و اعمال و رفتار کے خواص و آثار ہیں۔ نیز آپ نے انسان کے لیے دو روحیں اور دو جسم کہ ایک فرد کا روح و جسم اور دوسرا معاشرے کی روح و
جسم کے نظریہ کو بھی
باطل اور نا درست قرار دیا ہے۔
انسان کا
نفس چونکہ ایک بسیط وجود ہے جو بساطت کے باوجود مختلف مراتب اور متعدد قوی و استعداد کا مالک ہے۔ نفسِ انسانی کسی صورت ایک سے زائد نہیں، لہذا نفس نہ متعدد ہے اور نہ تعدد کو قبول کرتا ہے بلکہ نفس واحد اور بسیط ہے۔
اس معنی پر بہترین دلیل قرآن کریم کی وہ آیات ہیں جن میں تمام افعال و اعمال اور انہیں انجام دینے والوں کی طرف جمع مذکر کی ضمیر پلٹائی گئی ہے۔ اگر افراد سے مل کر ایک معاشرہ جدا حقیقت رکھتا اور معاشرے کے اجتماعی اعمال ہوتے تو جمع مذکر کی بجائے مفرد مؤنث کی ضمیر پلٹائی جاتی۔ یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ مختلف افراد سے جنم لینے والے افعال حقیقت میں امت کے ایک گروہ یا ایک جماعت کے اعمال ہیں جن کی طرف جمع مذکر کی ضمیر پلٹائی جاتی ہے نہ کہ مکمل ایک ملت بعنوان ایک وجودِ حقیقی مستقل!
آیت اللہ مصباح یزدی کے مقابلے میں یہ
دلیل پیش کی جاتی ہے کہ عقلی طور پر کوئی شیء مانع نہیں ہے کہ ہم خواص اور آثار کو معاشرے کی طرف بھی نسبت دیں اور افراد کی طرف بھی۔ اس کے جواب میں آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک اثر کو دو شیء یا دو فاعل کی طرف ایک ہی زمانے میں نسبت دینا عقلا ممنوع ہے؛ کیونکہ معاشرہ اور فرد ہر دو ایک دوسرے کے عرض میں ہیں اور ایک دوسرے کے مقابلے میں مستقل وجود رکھتے ہیں، ایسی صورت میں دو ہم عرض اور مستقل وجود کی جانب ایک ہی زمانے میں ایک اثر یا خاصیت کو نسبت دینا عقلًا محال ہے۔ البتہ اگر فرد اور معاشرہ ایک دوسرے کے طول میں قرار دیئے جائیں اور ایک وجودِ واحد کے مختلف مراتب، شؤون اور تجلیات قرار دیں تو ایسی صورت میں بلا شک و شبہ ممکن ہے کہ فرد و معاشرہ ہر دو ایک اثر کی علت شمار ہوں۔ پس فرد اور معاشرے کو ایک دوسرے کے طول میں قرار دینے سے ایک فعل یا ایک خاصیت کی نسبت ہر دو کی طرف دی جا سکتی ہے اور اس طرح سے فرد اور معاشرہ ہر دو ایک عمل یا ایک اثر کی علت بن سکتے ہیں۔
[ترمیم]
انسان ایک اجتماعی وجود ہے جو اجتماعی زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان ایک ایسی نوع ہے جو دیگر انسان سے باہمی ربطہ و تعلق ایجاد کر کے زندگی بسر کرتا ہے۔ کوئی گروہِ انسانی یا جماعت ایک دوسرے سے جدا اور مستقل نہیں رہ سکتے
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اجتماعی زندگی کی پیدائش کے اسباب اور معاشرہ شناسی دو الگ الگ عناوین ہیں یا دونوں ایک ہیں؟ بعض محققین کے نزدیک اجتماعی زندگی کا منشأ فلاسفہ کے دائرہِ کار کے مطابق اجتماعی ہے جوکہ معاشرے کی بیدائش کے
موضوع جوکہ معاشرہ شناسی کے عنوان سے زیرِ بحث لایا جاتا ہے سے جدا اور متفاوت ہے۔ اگرچے قلیل ایسے افراد ہیں جنہوں نے اجتماعی زندگی کے منشأ اور معاشرے کے منشأ میں فرق کیا ہے جبکہ اکثر و بیشتر نے ان دونوں امر میں اشتباہ کا شکار ہوئے اور انہیں ایک بحث سمجھیں ہیں۔ چنانچہ ایسے مفکرین قلیل ہیں جنہوں نے ان دونوں کے متعلق جدا جدا بحث کی ہے۔
اگر معاشرے کے منشأ کی تحقیق کی جائے تو ہم اس کو مادی اور معنوی دو لحاظ سے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اجتماعی علوم سے تعلق رکھنے والے کثیر محققین و دانش مند اس موضوع کے معنوی پہلو سے غافل رہے ہیں اور انہوں نے اس موضوع کی مادی اور صوری پہلو سے بحث پر اکتفا کیا ہے۔ قرآن کریم نے انسان کی اجتماعی زندگی کی بیدائش کے عوامل کا مادی اور معنوی ہر دو لحاظ سے عمیق جائزہ لیا ہے۔ انسان کی باہمی اجتماعی زندگی کا معنوی پہلو سے جائزہ لینے کا اصل محرک اور عامل آئیڈیالوجی ہے۔ اسلام میں اور اسی طرح تمام
آسمانی ادیان میں معنوی جبنہ کو ہر چیز سے زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے بشر کی اجتماعی زندگی کی پیدائش اور اس کے استمرار کا اہم ترین عامل معنوی اور غیر مادی لحاظ سے ایک ہونے کو قرار دیا ہے جس میں جغرافیائی حدود، زمانہ و عصر، قبائل و قومیں، نسل و نسب وغیرہ سمو جاتے ہیں اور یہی چیز افراد کے درمیان الفت کا سبب بنتی ہے، جیساکہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے:
فَاَلَّفَ بَینَ قُلوبِکُم فَاَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ اِخوانـًا؛ پس اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، پھر تم اس کی
نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی بن گئے۔
قرآن کریم کی نگاہ میں ایمان اور عقیدہ انسانی معاشروں میں اتحاد و یگانگت کا اہم ترین معیار ہے جس کے سامنے دیگر تمام اسباب و عوامل تحت الشعاع قرار پاتے ہیں۔ انسان میں جس قدر توحیدی روح قوی ہوتی جائے گی اجتماعی انسجام و ربط اتنا بڑھتا جلا جائے گا۔ انسان کے معنوی پہلو کو نظر انداز کرنے کا مطلب انسانی وجود اور انسانی معاشرے کی حقیقت کی نفی کرنا ہے۔
اگر معنوی پہلو کو ترک کر کے دیگر نظریات و افکار کے تناظر میں اجتماعی زندگی اور معاشرے کی پیدائش کے عوامل کا جائزہ لیں تو ہمیں بعض مفکرین اس نظریہ کے قائل دکھائی دیتے ہیں کہ اس کا منشأ و سبب طبیعتِ بشر ہے۔ یہ گروہِ مفکرین معتقد ہیں کہ اجتماعی زندگی کا اصل سبب افرادِ بشر کی سرشت اور باطن میں قرار شدہ طبیعت ہے۔
ارسطو (۳۸۴ ـ ۳۲۲ ق. م) انسان کو اس کی طبیعت اور سرشت کے مطابق اجتماعی حیوان قرار دیتا ہے کہ یہی طبیعت اور اندرونی عنصر خود انسان کے اندر اجتماعی زندگی گزارنے کے میلان کو جنم دیتا ہے۔ یعنی انسان کے وجود اور اس کی طبیعت میں اجتماعی زندگی گزارنے کا میلان موجود ہے۔
فارابی (۲۵۷ ـ ۳۳۸ ھ) اور خواجہ طوسی (۵۹۸ ـ ۶۷۲ ھ) بھی انسان کے مدنی الطبع ہونے کے قائل ہیں اور انسان کی سرشت میں اجتماعی زندگی بسر کرنے کے میلان و ضرورت کے ہونے کو قرار دیتے ہیں۔
تفسیر المنار میں ان آیات کریمہ
وَمَا کانَ النّاسُ اِلاّ اُمَّةً واحِدَةً؛ اور لوگ فقط ایک امت تھے،
اور
کانَ النّاسُ اُمَّةً واحِدَةً؛ لوگ ایک امت تھے،
کے ذیل میں یہ مطلب لیا ہے کہ
خلقت کا ایک امت کی صورت میں ہونے کا معنی یہ ہے کہ تنہا، دوسروں کے بغیر اور بدونِ معاشرہ زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہے۔ انسان جسمانی اور باطنی اعتبار سے یہ قوت نہیں رکھتا کہ وہ خود تنہا اپنی تمام ضروریات پوری کرے بلکہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کی مدد کا محتاج ہے۔ لہذا طبیعی امر ہے کہ انسان اس لحاظ سے اختلاف کا شکار ہو۔
شہید مطہری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ان آیات
اِنّا خَلَقناکُم مِن ذَکَرٍ واُنثی وجَعَلنـکُم شُعوبـًا وقَبائِلَ لِتَعارَفوا؛ ہم نے تمہیں مذکر اور مؤنث بنا کر خلق کیا اور ہم نے تمہیں شعوب اور قبائل میں قرار دیا تاکہ تم آپس میں پہچانے جاؤ،
وهُوَ الَّذی خَلَقَ مِنَ الماءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبـًا وصِهرًا؛ وہ وہی ہے جس نے پانی سے بشر کو خلق کیا اور اس کو نسب و سسرال میں ڈھالا
اور
نَحنُ قَسَمنا بَینَهُم مَعیشَتَهُم فِی الحَیوةِ الدُّنیا ورَفَعنا بَعضَهُم فَوقَ بَعضٍ دَرَجـتٍ لِیَتَّخِذَ بَعضُهُم بَعضـًا سُخریـًّا؛ ہم ہیں جو دنیاوی زندگی میں ان کے مابین ان کی معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم نے ان میں سے بعض کو دیگر بعض پر درجات بنا کر فوقیت دی تاکہ ان میں سے بعض دیگر بعض کو ماتحت لا کر کام میں لا سکیں،
سے انسان کا خلقت کے اعتبار سے اجتماعی ہونا ثابت ہوتا ہے اور انسان کی خلقت میں اجتماعی زندگی کو ایجاد کرنا رکھ دیا گیا ہت۔ انسان کا ضرورت پورا کرنے کے لیے دیگر افراد کا محتاج ہونے کی وجہ سے اختلاف اور افتراق جنم لیتا ہے تاکہ زندگی بسر کرنے کے لیے انسان اجتماعی روابط اور تعلق کو ایجاد کرے جوکہ اس کے لیے ایک امرِ طبیعی ہے۔
معاشرے کی تشکیل کا سبب بیرونی عوامل کو قرار دینے والے محققین معتقد ہیں کہ انسان کی اجتماعی زندگی کا راز اندرونی عوامل کے علاوہ دیگر عوامل میں پنہاں ہونا چاہیے۔
افلاطون (۴۲۷ ـ ۳۴۸ ق م) اور
ابن سینا (۳۷۰ ـ ۴۲۸ ھ) نے معاشرے کے وجود کی علت و سبب انسان کا اپنی ضروریات و احتیاجات کو پورا کرنے کے لیے متعدد افراد و اشخاص کا محتاج ہونا قرار دیا ہے۔
شہرستانی نے بھی معاشروں کے ایجاد کا سبب انسان کی دیناوی اور اخروی زندگی کی ضروریات و احتیاجات کو قرار دیا ہے۔
مندرجہ بالا اقوال کے مقابلے میں بعض علماء و مفکرین قائل ہیں کہ معاشرے کے وجود و ایجاد کے اسباب اندرونی بھی ہوتے ہیں اور بیرونی بھی۔ پس اندرونی اور بیرونی ہر دو عامل معاشرے کو وجود دیتے ہیں۔
علامہ طباطبائی معتقد ہیں کہ انسان میں چونکہ حبِ ذات کا عنصر پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ذات سے محبت کرتا ہے اور جب وہ اپنے ہم نوع کو اپنا جیسا مشاہدہ کرتا ہے تو طبیعتًا اسے اپنے اندر انسیت اور مانوسیت کا احساس ہوتا ہے اور اس طرح اس اندرونی عنصر کی وجہ سے وہ اپنے ہم نوع انسانوں سے نزدیک ہوتا ہے اور ان کی طرف میلان پیدا کرتا ہے اور اس طرح یہ معاشرے کو عملی و فعلی جامہ پہنا دیتا ہے۔ اپن ہم نوع کے قریب ہونا اور باہمی طور پر جمع ہونا ایک دوسرے سے ایک نوعِ استفادہ ہے جوکہ اندرونی غریزے کے احساس کی وجہ سے انجام پاتا ہے۔ یہ غریزیہ جوکہ تمام انسانوں میں متشابہ طور پر موجود ہے معاشرہ کو نتیجہ کے طور پر وجود دیتا ہے۔
علامہ طباطبائی
سورہ روم آیت ۲۱
کے ذیل میں
جنسی غریزه سے بحث کرتے ہوئے اس حقیقت کی طرف اشاہ کرتے ہیں کہ انسانی وجود میں جنسی غریزہ ایک طبیعی عامل ہے جس کے بارے میں صحیح آگاہی اور درست راہ و طریق کی نشاندہی کر کے استفادہ کیا جاتا ہے اور اس طبیعی عامل سے بہرہ مند ہوا جاتا ہے۔ نیز علامہ طباطبائی اجتماعی جنبہ رکھنے کی جہت سے اجتماعی عواطف کو ایک مؤثر نقش قرار دیتے ہیں۔
اس سب گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے مطابق معاشرے اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کے اسباب کا جائزہ مادی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قرآن کریم کی نگاہ میں اجتماعی زندگی کی پیدائش اور استقرار کا پہلا عامل ابتدائی انسان کا ہم جنس ہونا اور ایک حیوانی غریزہ کے عنوان سے مشترکہ طور پر ایک دوسرے کی ضرورت کو محسوس کرنا ہے، نیز اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی پیدائش کی صورت میں خاندانی اور اجتماعی
عواطف و جذبات کا وجود اور ایک دوسرے کے ساتھ سببی و نسبی ربط و تعلق کا ایجاد ہونا انسانی معاشرے کی تشکیل کے طبیعی عوامل و اسباب ہیں۔
پس انسانوں کے ارتباط اور انسانی معاشرے کی تشکیل کا پہلا مرحلہ اور دائرہ گھرانے اور خاندان ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
ومِن ءایـتِهِ اَن خَلَقَ لَکُم مِن اَنفُسِکُم اَزوجـًا لِتَسکُنوا اِلَیها وجَعَلَ بَینَکُم مَوَدَّةً ورَحمَةً؛ اور اس کی آیات میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے ہی نفوس میں سے جوڑوں کو خلق کیا تاکہ تم ان سے سکون حاصل کر سکو اور اس نے تمہارے درمیان
محبت و مؤدت اور رحمت ایجاد کی ہے۔
پس یہ روابط سبب بنتے ہیں کہ انسانوں میں خاص نوعیت کی وابستگیاں جنم لیں، باہمی ربط و تعلق ایجاد ہو اور مختلف قبائل و متعدد شعوب وجود میں آئیں۔ اس کے بعد اجتماعی زندگی قبائلیت سے نکل مزید وسعت پیدا کرتے ہوئے ملت و رنگ و نسل میں اختلاف کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ان گروہوں میں سے ہر ایک گروہ کے افراد و اعضاء کے درمیان وجدت انہی دو عنصروں سے قائم ہوتی ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
واختِلـفُ اَلسِنَتِکُم واَلونِکُم؛ اور تمہاری زبانوں اور تمہاری رنگتوں کو مختلف برپا کیأ گیا۔
نیز انہی عوامل میں سے دوسرا ایک عامل ایک دوسرے کی مدد اور بھر پور تعاون کرنا ہے۔ بشر کے عملی تجربہ سے اجتماعی زندگی ابھر کر سامنے آتی ہے اور ایک قوی اور مستحکم اجتماعی زندگی کا باعث بنتی ہے۔
شہید مطہری نے معاشرے کے تشکیل اور اس کے وجود میں آنے کے بارے میں تمام اقوال کو تین حصوں
فطری، اضطراری اور اختیاری میں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ پہلے مجموعہِ اقوال کے مطابق وجودِ معاشرہ کا اصلی عامل و سبب انسان کی اندرونی طبیعت ہے۔
۲۔ دوسرے مجموعے کے مطابق اجتماعی امور اتفاقی ہیں اور عرضی و ثانوی ہدف و عنوان رکھتے ہیں نہ کہ اوّلی غایت و مقصد کے حامل ہیں۔
۳۔ تیسرے مجموعے کے مطابق اجتماعی ہونا فکری نتائج و غایات کے باب سے ہے نہ کہ طبیعی طور پر انسان اجتماعی ہے۔
اگر ہم مندرجہ بالا پیش کردہ آیات کریمہ کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قرآن کریم پہلے نظریے اور مجموعہِ اقوال کی تائید کرتا ہے اور انسان کو اس کی خلقت کے اعتبار سے اس کا اجتماعی ہونا قرار دتیا ہے۔
[ترمیم]
معاشرہ شناسی کی بنیادی ترین ابحاث میں سے ایک بحث معاشرے پر قوانین و سنن کے حاکم ہونے سے متعلق ہے۔ معاشرے کی شناخت کے ان مباحث میں فلسفی مبادی سے استفادہ کیا جاتا ہے اور ان فلسفی قواعد کی روشنی میں اجتماعی زندگی پر تحقیق و جستجو کی جاتی ہے۔ کثیر تعداد میں اجتماعی مسائل انہی ابحاث پر قائم ہیں۔ معاشرے کے قوانین سے آگاہی اور ان کو کشف کرنے سے بہت سی مفید اور اہم معلومات ہمارے ہاتھ میں آ جاتی ہیں۔ ان قوانین کو تسلیم کرنے کا لازمہ معاشرے اور تاریخ کو قبول کرنا ہے، کیونکہ معاشرہ کے وجود کو تسلیم کیا جائے تو اس پر قوانین کے مسلط ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق کی جا سکتی ہے۔ قوانینِ معاشرہ کے ذریعے سے انسانی معاشروں کی دقیق ترین تحلیل کی جا سکتی ہے اور یہ غیر متوقع اور ناگہانی مشکلات کی شناخت کی جا سکتی ہے اور ان اجتماعی مسائل و مشکلات کے مقابلے میں منظم پلاننگ اور برنامہ ریزی کی جا سکتی ہے۔
کلمہ
سنت قرآن کریم میں گیارہ (۱۱) مقامات پر آیات ہے:
۱۔
سُنَّتُ الاَوَّلین؛ پہلے والوں کی سنت،
۲۔
سُنَّةَ اللّهِ فِی الَّذینَ خَلَوا مِن قَبلُ؛ اللہ کی سنت ان سے پہلے والوں میں جاری ہوئی،
۳۔
لِسُنَّتِنا؛ ہماری سنت کی وجہ سے،
۴۔
سُنَّتَ اللّهِ الَّتی قَد خَلَت؛ اللہ کی وہ سنت جو پہلے والوں پر جاری ہوئی،
۵۔
سُنَّةَ مَن قَد اَرسَلنا قَبلَکَ مِن رُسُلِنا وَ لا تَجِدُ لِسُنَّتِنا تَحْويلا؛ یہ ہماری سنت ہے جو پہلے سے پہلے والے ان تمام رسولوں پر جاری ہوئی جنہیں ہم نے بھیجا اور آپ ہماری سنت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں پائیں گے،
۶۔
سُنَنَ الَّذِینَ مِن قَبلِکُم؛ تم سے پہلے والوں پر جاری ہونے والی سنن،
۷۔
فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّهِ تَبدیلاً؛ پس آپ اللہ کی سنت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے،
۸۔
قَد خَلَت مِن قَبلِکُم سُنَنٌ؛ تم لوگوں سے پہلے گزر جانے والی سنن،
کلمہ سنت اس معمول اور رائج طریقہ کے معنی میں آتا ہو جو اپنے طبع کے مطابق غالبا یا دائمی طور پر جاری رہنے والا ہو۔
معاشرے کی سنت یا قانون سے مراد صحیح طور پر جاری ہونے والا طریقہ ہے جو معاشرے کی رہنمائی کے لیے بنایا گیا ہے۔
معاشرہ انہی طریقوں پر چلتا ہے اور یہ وہ راہ اور طریق ہیں جن کی پیروی ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے ان قوانین کو گزشتہ قوموں میں بھی اسی طرح جاری کیا۔
جن قوانین کو ہم یہاں موردِ بحث قرار دے رہے ہیں ان کا تعلق
علت اور معلول میں قائم روابط سے ہے کہ اللہ تعالی نے معاشروں کے بننے اور ویران ہونے ہر دو اعتبار سے ان معاشروں پر
تکوینی حکم کے تحت ان قوانین اور سنن کو حاکم قرار دیا ہے۔
قرآن کریم نے معاشرے پر حاکم سنن و قوانین کا تذکرہ جن قوموں کے ذیل میں کیا ہے ان موارد میں سے بعض میں ہم
تنقیح المناط کا قاعدہ جاری کر کے ان سنن و قوانین کو عمومیت دے سکتے اور سب اقوام کے لیے ثابت کر سکتے ہیں، مثلا قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
ولَو اَنَّهُم اَقاموا التَّورةَ والاِنجیلَ وما اُنزِلَ اِلَیهِم مِن رَبِّهِم لاََکَلوا مِن فَوقِهِم ومِن تَحتِ اَرجُلِهِم؛ اور اگر وہ
تورات اور
انجیل اور جو کچھ ان کے
رب کی جانب سے ان پر نازل ہوا تھا پر قائم دائم رہتے تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی۔
بعض موارد مین ہم تنقیح المناط کے بغیر بھی عمومیت دے سکتے ہیں اور سب انسانوں کو شامل کر سکتے ہیں، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
ومَن یَتَّقِ اللّهَ یَجعَل لَهُ مَخرَجـا؛ اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کی راہ بنا دے گا۔
ان سنن و قوانین کا انسانی کاوشوں سے حاصل ہونے والے قوانین سے فرق اور تفاوت یہ ہے کہ ان قوانین میں کسی قسم کی خطاء نہیں ہوتی اور ان میں تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔
دنیا میں مختلف گروہ اور انواع اقسام کے متعدد مجموعے اور معاشرے موجود ہیں جو ایک دوسرے مختلف ہونے کے باوجود بعض پہلوؤں میں مشترک ہیں۔ ان معاشروں میں اس اعتبار سے اشتراک و اتحاد پایا جاتا ہے کہ یہ سب شناختِ معاشرے کے تکوینی قوانین میں مشترک ہیں اور اسی طرح تشریعی، اخلاقی اور حقوق کے قوانین میں مشترک ہیں۔ اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ثقافت، اخلاق اور حقوق سب ایک ہیں اور ان میں وحدت پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم بھی معاشرے کے درمیان مشترک تکوینی اور تشریعی قوانین کے باہمی ربط و تعلق کا قائل ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں دیگر قوموں سے عبرت لینے کی خاطر بہت سے قرآنی قصص بیان کیے ہیں۔ ان قرآنی قصص کا مطالعہ انہی قوانین و سنن کی جہت سے کیا جائے تو ہمیں متعدد قوانین کا وجود نظر آئے گا جو صرف ان قوموں یا ایک معاشرے کے ساتھ مختص نہیں تھے بلکہ وہ تمام معاشروں کو شامل ہیں اور یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ ہر معاشرے میں تکرارا آئیں، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
لَقَد کانَ فی قَصَصِهِم عِبرَةٌ لاُِولِی الاَلبـابِ؛ ان کے
قصص میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے۔
اسی طرح وہ آیات کریمہ جن میں زمین سیر و سیاحت کا بیان موجود ہے تاکہ انسان غور و فکر کر کے عبرت حاصل کرے ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم دیگر قوموں کے حالات و واقعات پر غور و فکر کر سکتے ہیں اور ان قوموں اور معاشروں میں مشترک قوانین کا پتہ لگا سکتے ہیں تاکہ ان قوانین سے استفادہ کریں، قرآن کریم میں ارشادِ الہی ہوتا ہے:
قُل سیروا فِی الاَرضِ فَانظُروا کَیفَ کانَ عـقِبَةُ المُجرِمین؛ کہہ دیجیے تم لوگ زمین میں چلو پھرو پھر دقت کرو مجرمین کا انجام کیسا ہوا۔
اور جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اَوَ لَم یَسیروا فِی الاَرضِ فَیَنظُروا کَیفَ کانَ عـقِبَةُ الَّذینَ مِن قَبلِهِم...؛ کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں ہیں تاکہ وہ دقت کریں کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیسا ہوا تھا!!
قرآن کریم کی نگاہ میں امت اور معاشرے اس اعتبار سے امت اور معاشرہ نہیں ہیں کہ ان میں افراد اور انسان بستے ہیں بلکہ اس اعتبار سے قرآن نے انہیں امت اور معاشرہ کہا ہے کیونکہ ان سب معاشروں پر حاکم قوانین اور
سنن الہی ایک ہیں اور یہ سب امتیں اور قومیں و معاشرے ان قوانین کے اعتبار سے مشترک ہیں، جیساکہ
بنی اسرائیل کی قوم کے ذیل میں ہمیں یہ دکھائی دیتا ہے۔
قرآن کریم میں معاشرے کے قوانین سے مراد وہ تکوینی اور حقیقی قوانین ہیں جو واقعیت اور حقیقت رکھتے ہیں اور نفس الامر سے مربوط ہیں، نہ کہ یہ قوانین اعتباری اور وضعی ہیں جسے ایک اعتبار کرنے والے نے اعتبار کیا ہو اور اس کے ماوراء اس کی کوئی حقیقت نہ ہو!
ان حقیقی تکوینی قوانین سے کوئی مستثنی نہیں ہو سکتا اور یہ استثناء پذیر نہیں ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ قواین علت اور معلول کے ربط کی سنخ سے ہیں، لہذا یہ قضایا شخصیہ اور قضایا جزئیہ کے قانون شمار نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں یہ قوانینِ الہیہ اور سنن تکرارا ذکر کیے گئے ہیں جن کی تشخیص کے لیے ضروری ہے کہ ہم تین چیزوں کو خصوصی طور پر مدنظر رکھیں:
۱۔ یہ قوانین علت معلول کے ضابطے کے تحت آتے ہیں اور ان کی کوئی نہ کوئی علت بنتی ہے۔
۲۔یہ ہدف رکھتے ہیں
۳۔ یہ اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں جن کا انفرادی اور شخصی طرزِ زندگی سے تعلق نہیں۔
شہید باقر الصدر نے متعدد آیات پر غور و فکر کرتے ہوئے ان قوانین کی تین خصوصیات ذکر کی ہیں جنہیں ان سنن کی اصلی اور حقیقی خصوصیت کہہ سکتے ہیں:
اس سے مراد یہ ہے کہ قوانین الہی تخلف پذیر نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ قوانین بعض قوموں پر جاری ہوں اور بعض میں نہیں۔ بلکہ یہ تمام اقوام اور انسانی معاشروں کو شامل ہیں۔ یہ انسانی گمان ہے کہ تاریخ میں جو کچھ واقع ہوا ہے وہ فقط ایک اتفاق ہے جبکہ حقیقت میں یہ سب حوادث انہی قوانین کے تابع ہیں۔ قرآن کریم میں
اطراد اور شمولیت کی اس خصوصیت کی طرف اس طرح سے اشارہ ہوتا ہے: لَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّهِ تَبدیلا؛ آپ ہر گز اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں پائیں گے۔
قرآن کریم کی مختلف آیات میں جو تعبیریں استعمال ہوئی ہیں اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہ کا ارادہ اور اس کی سنت ہر دو قاعدہ و قانونِ الہی ہیں اور اللہ تعالی کی توفیق سے وابستہ ہیں۔ اللہ سبحانہ ان قوانین و سنن کے ذریعے اپنی قدرت کو جاری فرماتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کائنات میں موجود علت و معلول اور سبب و مسبب کے نظام کا انکار کر دیں، بلکہ کائنات میں اسباب و مسببات اور علت و معلول کا سلسلہ قوانین اور سننِ الہی کے تابع ہے اور یہ سنن و قوانین اللہ سبحانہ کے ارادہ کے تابع ہیں۔
قوانین و سنن کے جبری طور پر جاری ہونے اور انسان کی
آزادی و اختیار کے درمیان ظاہرا
تضاد نظر آتا ہے لیکن قرآن کریم نے ان دونوں کے درمیان باہمی ربط اور تعلق قائم کیا ہے اور محسوس ہونے والے تضاد کو واضح طور پر دور کیا ہے۔ لہذا قرآن کریم کے مطابق
سنن الہی کے حتمی جاری ہونے اور جبری نفوذ کے درمیان اور انسان کی آزادی و اختیار کے درمیان کسی قسم کا ٹکراؤ اور منافات نہیں ہے۔ ان دونوں کا باہمی ربط اور تعلق بیان کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
اِنَّ اللّهَ لایُغَیِّرُ ما بِقَومٍ حَتّی یُغَیِّروا ما بِاَنفُسِهِم؛ بے شک اللہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا جب تک وہ اپںے اندر کو تبدیل نہ کریں۔
قرآن کریم کی آیات پر دقت کریں تو معلوم ہو گا کہ سننِ الہی انسان کی زندگی کے اجتماعی جوانب اور جہانِ بشر میں معاشروں کی اصلاح و بربادی سے منسلک مختلف خصوصیات کو بیان کرتے ہیں۔ یہ قوانینِ الہی اگرچے انسانی معاشروں کے اخروی انجام اور پاداش کو بیان کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ قوانین اللہ سبحانہ کی تدابیر ہیں جن کے ذریعے اس نے جہانِ انسانی کے معاشروں کی مصلحت کے مطابق رہنمائی اور ہدایت کی ہے۔ان قوانین و سنن میں سے بعض انسان کے اختیار، اس کی ذمہ داری، رسولوں کے مبعوث کرنے، امتوں کے ظاہر ہونے اور سقوط کر جانے، انسان اور اس کے معاشروں کی ہدایت و گمراہی، حق یا باطل کی پیروی، عذاب اور انواعِ عذاب مثل استدراج، مختلف قسم کے امتحان و ابتلاءات،
عبرت و تذکر، معاشروں کا پے در پے آزمائشوں میں مبتلا رہنا، اندرونی اور باطنی تبدیلی و تغیر اور زمین کا حقیقی وارث مؤمنین کا ہونا سے وابستہ ہیں۔
[ترمیم]
وہ مفکرین و محققین جو معاشرے کے مستقل اور واقعی وجود کے قائل ہیں ان کی نظر میں حیات و ممات اور زندگی و موت کی صفات انسانی معاشرے کے لیے بھی ثابت اور حقیقت رکھتی ہیں۔ جس طرح انسان کے لیے زندگی اور موت قانونِ الہی ہے اسی طرح
اللہ تعالی نے اقوام، جمعیت اور معاشروں کے لیے بھی زندگی اور موت کا قانون قرار دیا ہے۔ انسان کی انفرادی موت اور معاشرے کی ہلاکت و مردہ ہونے میں یہ فرق ہے کہ عمومًا قومیں اور ملتیں اس وقت ہلاک و برباد ہو جاتی ہیں جب وہ قومیں اجتماعی صورت میں حق و عدالت کی راہ سے روگردانی کرتے اور باطل سے تعلق کر کے دنیا پرستی اور
غفلت و شہوات کی لذتوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
قرآن کریم کی متعدد آیات اس حقیقت کی طرف نشاندہی کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
ولِکُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ؛ اور ہر امت کے لیے (وقت) اجل ہے۔
پس افرادِ بشر کی مانند ہر امت و ملت اور ان کے معاشروں کے لیے بھی وقتِ موت و اجل قرار دیا گیا ہے۔
ایک معاشرے کی زندگی کے رشد و کمال یا موت و ہلاکت کے اسباب و عوامل کی شناخت اس وقت ممکن ہے جب صحیح طرح سے انسان اور معاشرے کی شناخت کی جائے اور ان دونوں کی شناخت حقیقت میں جہان اور کائنات کی شناخت سے وابستہ ہے جسے جہان بینی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پس جہان بینی کے ذریعے
انسان اور معاشرے کی شناخت کا تعین ہوتا ہے اور ان دو کی معرفت سے ان اسباب تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے جو انسانی زندگی کے رشد و کمال یا اس کی ہلاکت سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاشروں کی ترقی و
کمال یا انحطاط و زوال کے اسباب کی عمیق معلومات اور دقیق ادراک کا براہِ راست تعلق افراد کی جہان بینی سے وابستہ ہے۔ جہان بینی کے مورد میں ہمیں مختلف قسم کے گوناگوں نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہر مکتبِ فکر نے اپنے انداز اور اپنی فکر کے مطابق جہان بینی کو پیش کیا ہے۔ اگر انسان اور جہان کی مادی تفسیر کی جائے تو انسان اور کائنات کا فقط مادی تعلق ہمارے سامنے اجاگر ہو گا اور اسی آئینے میں ہم معاشرے کی تفسیر کریں گے۔ لیکن اگر ہم الہی جہان بینی کے معتقد ہو جائیں تو پھر انسان اور جہان کی تفسیر کاملا مادی جہان بینی سے مختلف سامنے آئے گی اور انسان کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی وسعتیں اور انسان کی پیدائش سے موت تک کے تمام مراحل کا بیان جداگانہ طور پر اپھر کر نمایاں ہو جائے گا۔ پس الہی
جہان بینی اور اس کے تناظر میں انسان اور معاشرے کی تفسیر و تشریح کا مادی جہان بینی سے واضح اور نمایاں فرق ہے۔
قرآن کریم معاشرے کے انحطاط اور زوال کو افراد کی جہان بینی اور اندازِ تفکر کے اعتبار سے پیش کرتا ہے؛ مثلا وہ افراد جو مادی جہان بینی اور تفکرات کے قائل ہیں اور فقط مادی زندگی کو ترقی و کمال کا تنہا سبب قرار دیتے ہیں ان کا اندازِ تفکر اور ہدف و مقصد جداگانہ نظر آتا ہے، جیساکہ ایسی سوچ کے مالک افراد کا نمونہ قرآن کریم اس طرح سے ذکر کرتا ہے:
وقَد اَفلَحَ الیَومَ مَنِ استَعلی؛ آج غالب آنے والا کامیاب فلاح یافتہ ہو گا۔
قرآن کریم کی منطق میں اس نوعِ جہان بینی کا نتیجہ شکست اور نابودی ہے اور ایسا معاشرہ کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن کریم کے مطابق معاشرے کی فکری و اعتقادی ترقی اور علمی پیشرفت ہمیشہ حق سے جنم لیتی ہے اور حق کی اساس پر صحیح اور درست اعتقادات وجود میں آتے ہیں جو ایک معاشرے کو
فلاح اور کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔
قرآن کریم کی آیات کے مطابق ایک معاشرے کی ہلاکت کا مکانیزم اور اسٹریکچر اس طرح سے تشکیل پاتا ہے کہ اس معاشرے میں بدمعاش اور عیاش طبقات جنم لے لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ دنیا پرست عیاش طبقات معاشرے پر تسلط اور قدرت حاصل کر لیتے ہیں اور وسیع بیمانے پر فسق و فجور اور انحراف پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، اس طرح فسق و فجور آہستہ آہستہ معاشرے کے تمام جوانب اور اس میں بسنے والے افراد کو گھیرنے لیتا ہے جس کی وجہ سے ہر طرف ظلم و ستم اور انحراف و گمراہی نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ابنیاء و رسلؑ کی بعثت کا ایک اہم ہدف و غرض ظلم کا قلع قمع اور لوگوں کے درمیان عدالت کے میزان کو قائم کرنا قرار دیا ہے۔ پس جب معاشرہ حق اور عدالت کر راہ گم کر بیٹھتا ہے اور
باطل و عیاشی کی ظلمتوں میں ڈوب جاتا ہے تو معاشرہ اور اجتماعی زندگی فسق و فجور کی صفت سے آراستہ ہو جاتا ہے۔ فطرت و اولین خلقت سے انحراف کا نتیجہ ایک معاشرے کا مستحقِ عذاب ہونا اور ہلاکت و بربادی قرار پاتا ہے اور قومیں اور امتیں اس طرح اللہ تعالی کے قہر و غضب کی آماجگاہ بن جاتیں ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں معاشروں کی ہلاکت و بربادی کے اس مکانیزم کو بیان کیا گیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
فَقُطِعَ دابِرُ القَومِ الَّذینَ ظَـلَموا؛ پس
ظلم کرنے والی قوم کے پاؤں جڑوں سے کاٹ دیئے گئے۔
قرآن کریم نے مختلف اقوام اور انسانی معاشروں کے قصص و داستانوں کے ذیل میں اجتماعی زندگی پر حاکم الہی قوانین و
سنن کا تعارف کرایا ہے اور عبرت و ہدایت کے لیے ان قوموں کے حالات کی طرف انسان کو توجہ مبذول کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں ہمارے سامنے ایک معاشرے کے انحطاط اور زوال کے واضح اسباب روشن ہو جاتے ہیں جوکہ قرآن کریم میں اقوام کے قصص اور مختلف امتوں کے حالات و واقعات کے ضمن میں نظر آتے ہیں۔ قرآنی آیات میں ہمیں چار (۴) اسباب ایسے دکھائی دیتے ہیں جو براہ راست ایک معاشرے کی تباہی اور ہلاکت و موت سے وابستہ ہیں اور جس معاشرے میں یہ چار اسباب جنم لے لیں چار ناچار وہ معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال کا شکار ہو کر بربادی و
موت سے گلے لگا لیتا ہے۔ ذیل میں ہم ان چار اسباب کا سرسری مطالعہ کرتے ہیں:
قرآن کریم نے مختلف اسالیب اور
انبیاءؑ کے قصص کے ذیل میں ان اسباب کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے سبب ایک معاشرے مکمل طور پر نابودی کا شکار ہوا اور ہلاکت سے دوچار ہونے والے قوانین و سنن کی دعوت کا باعث بنا۔ چار اسباب ایسے ہیں جو مشترکہ طور پر ہمیں ہر برباد اور تباہ ہونے والی قوم میں نظر آتے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
ظلم و ستم ان بنیادی عوامل میں سرفہرست ہے جسے قرآن کریم نے تکرارًا تاکید کے ساتھ انسانی معاشروں کی ہلاکت کی اصل وجہ اور اساسی سبب قرار دیا ہے۔ انسانی معاشروں کی تباہی اور زوال پذیری کی حقیقی علت ظلم و ستم کا رائج ہونا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وتِلکَ القُری اَهلَکنـهُم لَمّا ظَـلَموا؛ اور یہ وہ بستیاں ہیں جنہیں ہم نے اس لیے ہلاک کر دیا کیونکہ انہوں نے ظلم کیا۔
قرآن کریم کی منطق کے مطابق اگر اقوام اور معاشرے ظلم و ستم کی زندگی کو نشوونما دیتے ہیں اور تکامل و رشد کے اصلی راستے کی طرف متحرک نہیں ہوتے بلکہ منحرف اور گمراہ ہو جاتے ہیں تو اس صورت میں معاشرے تباہی و موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ قانون جاری ہونے کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان اور اس کے معاشروں کو خاص ہدف و مقصد کے لیے خلق کیا۔ اب جب انسانی معاشرے ہدفِ خلقت سے انحراف کریں گے تو ضروری ہے کہ ان معاشروں کی زندگی میں تکامل کا متحقق ہونا رکاوٹ ایجاد کرے اور ان کی زندگی کو ان سے سلب کرنے کا باعث بننا شروع ہو جائے۔ پس جب بھی
ہدف خلقت حاصل ہونا شروع ہو گا معاشرے تکامل کی طرف بڑھیں گے اور رشد و نشوونما پائیں گے لیکن جب وہ اپنی
فطرت سے منحرف ہوں گے تو تکامل کا عنصر ان کی زندگی میں رکاوٹ بن جائے گا۔ قرآن کریم میں اس حقیقت کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے:
واَمطَرنا عَلَیهِم مَطَرًا فانظُر کَیفَ کانَ عـقِبَةُ المُجرِمین؛ اور ہم نے اس قوم پر
بارش برسائی، پس دقت کرو مجرمین کا انجام کیسا ہوا۔
اس کے مدمقابل
ہدایت اور اصلاح کو معاشرے کی نجات اور حیات کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ زندگی کی لغت میں معاشروں کی نجات صلاح و ہدایت سے وابستہ ہے۔ حتی اگر ایک معاشرہ ظلم و ستم اور انحراف کا شکار تھا لیکن اس نے اپنے اندر اصلاح کو برپا کیا اور ہدایت کے مطابق اپنے اندر تبدیلی پیدا کر لی تو وہ معاشرہ ہلاکت و زوال پذیری سے نکل آئے گا اور نجات و حیات کی رونق اس میں لوٹ آئے گی۔
حقیقت میں
اصلاح کی راہ کو اختیار کرنا اللہ تعالی کی طرف سے مہلت اور فرصت ہے اور
زندگی کے ایام میں فوری پکڑ نہ ہونے کی ایک اہم حکمت اصلاح کی مہلت مہیا کرنا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وما کانَ رَبُّکَ لِیُهلِکَ القُری بِظُـلمٍ واَهلُها مُصلِحون؛ ۔
قرآن کریم واضح طور پر بیان کرتا ہے اگر ایمان اور تقوی کو معاشرے اختیار کریں تو آسمان و
زمین کی برکات حاصل کریں گے، جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
ولَو اَنَّ اَهلَ القُرَی ءامَنوا واتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَیهِم بَرَکـتٍ مِنَ السَّماءِ والاَرضِ؛ اور اگر بستیوں والے ایمان لے آئیں اور
تقوی اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکات کے دروازے کھول دیں گے۔
معاشروں اور امتوں پر آسمان و زمین کی برکات کا حقیقی سبب
ایمان و تقوی ہے۔
لیکن اگر ایمان و تقوی کو ترک کر کے ظالمانہ زندگی اختیار کی جائے اور باطل و گمراہی کو نشوونما دیا جائے تو قہرًا ہلاکت و بربادی سے دوچار ہونا پڑے گا۔
قرآن کریم کی متعدد آیات ذکر کرتی ہیں کہ آسمانی و دنیوی مصائب کے وجود کی وجہ زمین پر
معصیت و فساد کے پھیل جانا ہے۔ یہ ایک کائنات پر حاکم ایک الہی قانون اور ضابطہ ہے جسے قدرت نے انسانی معاشروں کی خلقت پر ثبت کر دیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:
وضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً قَریَةً کانَت ءامِنَةً مُطمَئِنَّةً یَاتیها رِزقُها رَغَدًا مِن کُلِّ مَکانٍ فَکَفَرَت بِاَنعُمِ اللّهِ فَاَذقَهَا اللّهُ لِباسَ الجوعِ والخَوفِ بِما کانوا یَصنَعون؛ اور اللہ ایک بستی (معاشرہ) کی مثال دیتا ہے جو امن و امان کے ساتھ مطمئن زندگی بسر کر رہا تھا، اس بستی کا
رزق ہر طرف سے بھر بھر کر آتا تھا، پھر انہوں نے اللہ کی نعمتوں کا کفر و انکار کیا، پس اللہ نے انہی کے کرتوتوں کی بناء پر انہیں بھوک و
خوف کا لباس اوڑھا دیا۔
تفسیر المنیر میں سورہ ہود آیت ۱۱۷
کے ذیل میں تحریر ہے کہ اللہ تعالی ایک معاشرے پر اس وقت عذاب نازل کرتا ہے جب وہ برائی کو گلے لگا لیتے ہیں اور ظلم و اذیت و معصیت کی راہ میں دوڑ دھوپ کرتے ہیں، جیساکہ
جناب شعیبؑ کی قوم نے کیا یا جناب ہودؑ کی قوم،
جناب لوطؑ کی قوم یا
فرعون وغیرہ کے حالات میں دکھائی دیتا ہے۔ اس مطلب کی تائید یہاں سے بھی حاصل ہوتی ہے کہ قومیں
کفر کے ساتھ باقی رہ جاتی ہیں لیکن ظلم کے ساتھ ہر گزر باقی نہیں بچتیں۔
علامہ طباطبائی سورہ توبہ آیت ۳۴
اور اس سے مشابہ معنی کی حامل دیگر آیات سے استفادہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک معاشرے کے انحطاط اور بربادی کی اہم ترین سبب ظلم و ستم اور حد تجاوز کرنا ہے۔ اکثر و بیشتر فساد کی بنیاد اور جڑ مالی اور اقتصادی جوانب ہوتی ہیں کیونکہ انسانی معاشرے میں مہم ترین چیز اس کا مالی اعتبار سے محکم ہونا ہے اور اسی پر انسان معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ جب انسان مالی اور اقتصادی میدان میں فساد برپا کرتا ہے تو اس کی وجہ سے فقر پھیل جاتا ہے اور کرپشن، خیانت، لوگوں کے اموال پر دست درازی، چوری ڈکیتی،
نفسِ محترمہ کا قتل اور
غصب و قبضے وغیرہ جیسے بھیانک اعمال معاشرے کو جکڑ لیتے ہیں۔ یہ سب جرائم مالی فساد اور اقتصادی انحراف کی وجہ سے ایک معاشرے میں پیدا ہوتے ہیں۔ مالی بے راہ روی اور عدم توازن کا دوسرا رخ اس وہ مترف غنی و ثروت مند طبقہ کی صورت میں سامنے آتا ہے جو عیاشی، کھانے پینے، اوڑھنے بچھونے، گھر بار بنانے، ہتک حرمت کرنے، شہوات و لذات میں سرشار ہونے اور عوام الناس کے جان، مال اور عزت و ناموس پر تسلط جمانے میں
اسراف و ظلم و زیادتی سے کام لیتے ہیں۔ یہ تمام مفاسد و مظالم مالی خرد برد اور اقتصادی فساد کے راستے سے ایک معاشرہ میں سرایت کرتے ہیں اور اس کو انحطاط، زوال اور رفتہ رفتہ ہلاکت و بربادی سے دوچار ہو جاتا ہے۔
ابن خلدون جوکہ ایک مؤرخ اور علوم اجتماعی کا دانشور شمار ہوتا ہے مختلف تاریخی ادوار اور اچھے و برے معاشروں کا دقیق جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ عیش و عشرت کے فساد کو جنم دینا، عیاشی میں گرفتار ہونا اور دنیاوی زیبائی و تجمل کا شکار ہونا عوام الناس و معاشرے کی تباہی اور نظامِ حکومت کے درہم برہم ہونے اصل اور حقیقی وجہ ہے۔
ایک معاشرے میں انتشار و ٹکراؤ بعض اوقات معاشرے میں نا امن حالات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے جس سے ہر طرف ظلم و ستم پھیل جاتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف بعض اوقات انتشار اور ٹکراؤ باطل کے کمزور ہونے کا سبب بنتا ہے۔ ان تمام موارد میں باہمی ٹکراؤ اور انتشار مطلوب و مقصود ہے جن موارد میں اس
تضاد اور باہمی ٹکراؤ کی وجہ سے ایک معاشرہ اپنے قدم مضبوط کرتا ہے اور انبیاء و رسلؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہدایت و تربیتِ الہی معاشرے میں سرایت کر جاتی ہے۔
قرآن کریم کی نگاہ میں معاشرے کی بقاء و نشوونما اور تاریخی تحرک کی شکل و صورت کے حصول کے لیے ایسا تضاد و ٹکراؤ قابل قبول ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعلی ہوتا ہے:
ولَولا دَفعُ اللّهِ النّاسَ بَعضَهُم بِبَعضٍ لَهُدِّمَت صَومِعُ وبِیَعٌ وصَلَوتٌ ومَسـجِدُ یُذکَرُ فِیهَا اسمُ اللّهِ کَثیرًا؛ اور اگر اللہ لوگوں میں بعض کو دیگر بعض کے ذریعے نہ روکتا تو راہبوں کی خانقاہیں، گرجا گھر، عبادت گاہیں اور وہ مساجد جن میں کثرت سے اللہ کے نام کا
ذکر ہوتا ہے منہدم و برباد کر دیئے جاتے۔
البتہ اگر مبارزہ، تضاد اور باہمی انتشار ایک معاشرے کی امنیت کے چلے جانے کا سبب بنے اور انسانی اہداف کے خاتمہ کا باعث بنے تو وہاں یہ انتشار و تفرقہ غرضِ خلقت سے ٹکرائے گا اور
طواغیت و ظالمین کی تدبیر قرار پائے گا۔ اس صورت کو قرآن کریم مذمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس انتشار و
تفرقہ بازی کا سبب ظلم و ستم اور حق کے مقابلے میں سرکشی و بغاوت و ہٹ دھرمی دکھانے کو قرار دیتا ہے۔
معاشرے کو کنٹرول کرنے کے لیے اور اسے طبیعی طور پر اصلاح کے راستے پر گامزن کرتے ہوئے تکامل کا سفر طے کرانے کے لیے مناسب، مفید اور اچھے کاموں کا جنم دینا ضروری ہے۔ اگر انسان کے لیے اندرونی اور بیرونی طور پر کوئی ایسا سلسلہ یا مناسب نظام مہیا نہ کیا جائے تو انسان نفسانی خواہشات کا شکار ہوتے برائیوں اور اخلاقی امراض کا شکار ہو جائے گا اور یہ جیز اس کو ظلم و ستم کی راہ پر گامزن کر دے گی اور انسانیت کے مسیر سے گمراہ کر دے گی۔ قرآن کریم نے دنیا میں معاشرے پر نازل ہونے والے عذاب اور ہلاکتوں کی ایک اہم وجہ و سبب معاشروں پر ظالمانہ طور طریقوں کی حاکمیت قرار دیا ہے، جیساکہ اللہ سبحانہ ارشاد فرماتا ہے:
وَ كَذلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذا أَخَذَ الْقُرى وَ هِيَ ظالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَليمٌ شَدِيۡد؛ اور اسی طرح آپ کے رب کی پکڑ ہے جب اس نے ظلم برپا کرنے والی بستیوں کی پکڑ کی، بے شک اس کی پکڑ شدید تکلیف دہ ہے۔
چنانچہ قرآن کریم نے انسان کے طبیعی
غرائز اور میلانات کو کنٹرول کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ قرار دیا ہے تاکہ انسان اپنے زندگی میں خصوصًا اجتماعی طور پر ظلم و ستم کر راہ اختیار کرنے سے محفوظ رہے اور معاشرہ طرح طرح کی قباحتوں، برائیوں اور ظلم و ستم کے جراثیم سے پاک و طاہر رہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
ولتَکُن مِنکُم اُمَّةٌ یَدعونَ اِلَی الخَیرِ ویَامُرونَ بِالمَعروفِ ویَنهَونَ عَنِ المُنکَرِ واُولـئِکَ هُمُ المُفلِحون؛ اور تم میں سے ایک
امت ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور معروف کا حکم دے اور
منکر سے منع کرے اور یہی لوگ فلاح یافتہ ہیں۔
اگر اس فریضہ کو ترک کر دیا جائے اور اس اہم ترین ذمہ داری سے ہاتھ اٹھا لیا جائے تو اس کے انتہائی مضر اور بھیانک نتائج معاشرے کو بھگتنا پڑتے ہیں اور بالآخر معاشرہ ظلم و ستم کی راہ اختیار کرنے اور برائیوں کی آماجگاہ بننے کی وجہ سے
عذابِ الہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ حتی اس وقت بھی عذاب معاشرے کو جکڑ لیتا ہے جب معاشرے میں اس نہی عن المنکر کرنے والا طبقہ انتہائی قلیل ہو کیونکہ یہ ایسی قدرت نہیں بن پاتی جس کی وجہ سے معاشرے سے منکرات کا خاتمہ ہو۔ سورہ ہود میں ارشاد ہوتا ہے:
فَلَولا کَانَ مِنَ القُرونِ مِن قَبلِکُم اولوا بَقِیَّةٍ یَنهَونَ عَنِ الفَسادِ فِی الاَرضِ اِلاّ قَلِیلاً مِمَّن اَنجَینا مِنهُم؛ پس آخر کیوں تم سے پہلے والے قوموں میں ایسے افراد باقی نہیں بچے جو زمین پر
فساد برپا کرنے سے روکتے سوائے ان میں سے ان قلیل افراد کہ جن کو ہم نے نجات عطا کی۔
ان آیات کریمہ سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ منکرات سے منع کرنا عذابِ الہی سے محفوظ رہنے کا اہم ترین سبب ہے۔ اسی طرح سورہ مائدہ آیت ۷۸-۷۹
میں ان لوگوں پر انبیاءؑ کی لسان اطہر سے
لعنت کی گئی ہے جنہوں نے منکرات سے روکنے اور اجتناب کرنے کا وظیفہ انجام نہیں دیا۔
قرآن کریم انفرادی اور اجتماعی ہر دو مورد میں
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق جب تک ایک شخص انفرادی سطح پر اخلاقی صفات سے مکمل طور پر آراستہ نہیں ہوتا اور منکرات سے اجتناب نہیں کرتا اس وقت تک وہ معاشرے کو چلانے اور اس پر حاکم بننے کے قابلیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر ایک شخص خو منکرات اور فساد کا شکار ہے تو اس کے ماتحت افراد بھی اسی انحراف اور نابودی کر طرف کھچتے چلے آئیں گے اور آہستہ آہستہ اجتماعی طور پر یہ برائیاں اور منکرات انجام پانا شروع ہو جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ معاشرہ فساد، ظلم و ستم اور فکری و عملی طور پر انحراف و گمراہی کا شکار ہو جائے گا اور اس پر عذابِ الہی حتمی قرار پا جائے گا۔ چنانچہ شریعت کی جانب سے نہی عن المنکر اہم ترین وظیفہ اور ذمہ داری ہے جس پر معاشرے کی اصلاح یا فساد موقوف ہے۔ قرآن کریم اس پہلو کو آشکار کرتے ہوئے بیان کرتا ہے:
وما اَرسَلنا فی قَریَةٍ مِن نَذیرٍ اِلاّ قالَ مُترَفوها اِنّا بِما اُرسِلتُم بِهِ کـفِرون؛ ہم نے کسی بستی میں کسی نذیر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس بستی کے عیاش و مترف طبقے نے کہا تمہیں جو کچھ دے کر بھیجا گیا ہے ہم اس کے منکر ہیں۔
پس جب بھی ایک معاشرہ ظلم و ستم کی راہ لے گا اور منکرات و برائیوں کو اپنے اوپر مسلط کر لے گا
فطرت اور اصلِ خلقت سے گمراہ و منحرف ہو جائے گا جس کے نتیجے میں وہ قہرِ الہی اور عذابِ الہی کا متسحق قرار پائے گا۔
فسق کا معنی
اطاعت سے خارج ہونے کے ہیں۔ عقل یا دین کے اعتبار سے مقرر کی گئی حدود نکل جانا فسق کہلاتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق اللہ تعالی کی نافرمانی کرنا اور اس کی اطاعت سے خارج ہونا
فسق کہلائے گا۔
فسق کا حکم اس وقت لگتا ہے جب ایک معاشرے کو اپنے مکلف ہونے کا علم ہو جائے اور اس کے سامنے ان کی تکلیف روشن ہو جائے۔ اس کے بعد ان کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت کر کے حیات و نجات حاصل کریں یا سرکشی و معصیت کر کے ہلاکت و بربادی کو دعوت دیں۔ قرآن کریم نے فسق و فجور کے عام ہونے کو عذاب الہی اور ایک معاشرے کی بربادی کے اہم اسباب میں سے قرار دیا ہے، جیساکہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
کَذلِکَ حَقَّت کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذینَ فَسَقوا اَنَّهُم لا یُؤمِنون؛ اس طرح آپ کے رب کا فیصلہ ان لوگوں کے لیے حتمی ہو گیا جنہوں نے فسق انجام دیا، وہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اللہ تعالی کی نافرمانی کر کے فاسق بننا خلقت کے اہداف سے انحراف اور ہلاکت و بربادی کو دعوت دینا ہے۔ قرآن کریم نے نے ابلیس کا یہی بنیادی جرم ذکر کیا ہے، جیساکہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
واِذ قُلنا لِلمَلـئِکَةِ اسجُدوا لِادَمَ فَسَجَدوا اِلاّ اِبلیسَ کانَ مِنَ الجِنِّ فَفَسَقَ عَن اَمرِ رَبِّهِ؛ اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو کہا: آدم کو
سجدہ کرو، پس سب نے سجدہ کیا سوائے
ابلیس کے، وہ جن میں سے تھا، اس نے اپنے ربّ کے امر سے فسق کیا۔
حقیقت میں انسان کے لیے ظلم و ستم اور گمراہی کا زمینہ فراہم کرنے کا سب اہم سبب جو عمل بنتا ہے وہ یہی فسق و فجور ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ تعالی سے دور ہو جاتا ہے اور ایک فاصلہ پیدا کر لیتا ہے۔ اللہ سبحانہ سے دوری کا نتیجہ ظلم و ستم اور برائیوں کی راہ ہموار ہونا نکلتا ہے جس کے بعد ظلم و معصیت انفرادی سطح سے نکل کر معاشرے کے اندر سرایت کرنے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ معاشرے پر مسلط اور حاکم ہو جاتی ہے۔ چونکہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی حاکمیت ان حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو معاشرے پر اقتدار سنبھال لیتے ہیں اس لیے پورا معاشرہ ان حکمرانوں کے تابع زندگی بسر کرتا ہے۔
ایک معاشرے میں
فاسق فاجر طبقہ طاقت حاصل کر لیتا ہے تو وہ معاشرے اور لوگوں کے درمیان فسق و فجور پھیلانے کا سبب بنتا ہے اور جب معاشرہ اس فسق و فجور میں جکڑا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالی کا عذاب انہیں تباہ برباد کر دیتا ہے۔
واِذا اَرَدنا اَن نُهلِکَ قَریَةً اَمَرنا مُترَفیها فَفَسَقوا فیها فَحَقَّ عَلَیهَا القَولُ فَدَمَّرنـها تَدمیرا؛ اور جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ ایک بستی (معاشرہ) کو ہلاک کریں تو ہم اس میں عیاش طبقہ کو حکم دیتے ہیں (کہ وہ مسلط ہو جائیں) پھر وہ اس میں فسق پھیلاتے ہیں، پھر اس پر عذاب حتمی ہو جاتا ہے اور پھر ہم اس کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔
حقیقت میں فسق ہر سطح پر ظلم و ستم کی راہ ہموار کرتا ہے اور جب ایک معاشرہ ظلم کی وجہ سے اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی بندگی سے باہر نکل جاتا ہے اور عدالت و اعتدال جوکہ ایک معاشرے کا اساسی ستون ہے متزلزل ہو جاتا ہے تو وہ معاشرہ خود اللہ تعالی کے عذاب کو دعوت دیتا ہے اور اس طرح یہ فاسق معاشرہ ہلاک ہو جاتا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
فَبَدَّلَ الَّذینَ ظَـلَموا قَولاً غَیرَ الَّذی قِیۡلَ لَهُم فَاَنزَلۡنَا عَلَی الَّذینَ ظَـلَموا رِجزًا مِنَ السَّماءِ بِما کانوا یَفسُقُونَ؛ پس ظالمین کو جس کا حکم دیا گیا تھا انہوں نے کسی اور
قول سے اسے بدل دیا، پھر ہم نے ان ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا جس کی وجہ ان کا فسق و فجور مبتلا رہنا تھا۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں متعدد ایسی آیات کریمہ ہیں جو مختلف اجتماعی حقائق کو بیان کرتی ہیں۔ اجتماعی مسائل جیسے جیسے پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان مسائل سے زیادہ سے زیادہ بحث کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ انہی مسائل اور اجتماعی جوانب میں سے ایک اجتماعی طبقات اور ان سے بحث ہے۔ ایک معاشرے میں بننے والے اجتماعی طبقات کی جڑیں اس کی تاریخ میں پیوست ہیں۔ ہر معاشرہ ایک تاریخی سابقہ رکھتا ہے۔ البتہ اس کے وجود کے اسباب کے بارے میں محققین میں اختلافِ نظر پایا جاتا ہے۔
دینی متون اور مضامین سے جو مطالب ہمارے سامنے آتے ہیں ان کے مطابق ایک معاشرہ آغاز میں اصطلاحی اور علمی معنی میں کسی اجتماعی طبقہ کا حامل نہیں ہوتا۔
زمانہ گزرتا ہے اور معاشرے کے اندر روحِ تکبر جنم لیتی ہے اور برتری و بالاتر کا احساس قوت پکڑتا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرے کے اندر طواغیت جنم لے لیتے ہیں اور وہ عوام الناس کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے رکھ دیتے ہیں جن میں ایک عالی، بالا اور برتر طبقہ بن جاتا ہے جو مادی امکانات حاصل کر کے لوگوں پر ایک قسم کا تسلط حاصل کر لیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا گروہ مستضعف، کمزور اور محروم طبقہ بن جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ ہوتا ہے:
اِنَّ فِرعَونَ عَلا فِی الاَرضِ وجَعَلَ اَهلَها شِیَعـًا یَستَضعِفُ طَـائِفَةً مِنهُم یُذَبِّحُ اَبناءَهُم ویَستَحیی نِساءَهُم اِنَّهُ کانَ مِنَ المُفسِدین؛ فرعون نے زمین پر برتری حاصل کر لی ہے اور اہلِ زمین کو گروہ میں تقسیم کر دیا ہے جن میں سے ایک گروہ کو کمزور و
مستضعف بنا دیا ہے جن کے بیٹوں کو وہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے
ذبح کرتا ہے اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا ہے بے شک وہ
فساد برپا کرنے والوں میں سے ہے۔
اس طرف توجہ رہے کہ ہر قسم کا مبارزہ یا طبقہ بندی معاشرے کے انحطاط اور تباہی کا سبب نہیں بنتی بلکہ بعض اوقات اس کے برعکس گروہوں کا تشکیل پانا معاشرے کی زندگی کا باعث بنتا ہے۔ پس اگر معاشرے کے افراد کا مختلف قوموں، گروہوں اور دستوں میں تقسیم ہونا اللہ اور اس کے انبیاءؑ کی آواز پر لبیک کہنے کی وجہ سے تو وہ معاشرے کی نشوونما، تکامل اور صالح افراد کی حاکمیت کا باعث بنتا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
لَولا دَفعُ اللّهِ النّاسَ بَعضَهُم بِبَعضٍ لَفَسَدَتِ الاَرضُ؛ اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کو دیگر بعض کے ذریعے دور نہ کرتا تو زمین فاسد ہو جاتی (اور رہنے کے قابل نہ رہتی)۔
لیکن اگر گروہ بندی اور مختلف طبقات میں تقسیم بندی انبیاء علیہم السلام کی بجائے مستکبرین، طواغیت اور فساد برپا کرنے والے والوں کے ہاتھوں سے ہو تو یہ معاشرے میں طاغوت کی حاکمیت کا باعث بنتا ہے اور معاشرے کو نابودی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
عموما ایک معاشرے کی شناخت اور پہچان کے لیے طبقہ کا جو مفہوم بیان کیا جاتا ہے وہ طبقہ کے اس مفہوم سے مختلف ہے جو قرآن کریم کی آیات کے تناظر میں نظر آتا ہے۔ قرآن کریم کی نظر میں طبقہ کا مفہوم اور ملاک و معیار دیگر مکاتب کے مقابلے میں قدرے مختلف ہے۔ قرآن کریم متعدد
آیات میں معاشروں کے اندر دو حرکت اور جریان کو تکرارًا تاکید کے ساتھ ذکر کرتا ہے، ایک تحرک
حق کی صفت کے ساتھ متصف ہے جس کا مقابل باطل کہلاتا ہے۔ ایک معاشرہ میں حق اور باطل کا جریان پورے معاشرے کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور حق و باطل کے کثیر مصادیق کی نشاندہی کا باعث بنتا ہے۔ ایک معاشرے میں حق و باطل کی صورت میں اجتماعی سطح پر جنم والے جریان اور اس کے نتیجے میں معاشرے کا حق و باطل میں تقسیم ہونے کا تذکرہ قرآن کریم میں مختلف داستانوں، قصص اور اقوام ملتوں کے حالات کے ذیل میں ذکر ہوا ہے۔ یہ دو طبقے آخر میں اجتماعی توحید یا توحیدی معاشرے اور اجتماعی شرک یا مشرکانہِ معاشرے پر منتہی ہوتے ہیں۔
حقیقت میں قرآن کریم کے مطابق معاشرے کے اندر اجتماعی طبقات کا
ملاک و معیار حق ہے جو الہی تحرک کے اوصاف اور خصوصیات کو بیان کرتا ہے۔ پس ایک معاشرہ اجتماعی طور پر حق اور باطل کی بنیاد پر تقسیم ہو کر دو طبقات کے وجود کا سبب بنتا ہے۔
[ترمیم]
قرآن کریم کے مطابق ایک معاشرہ آغاز میں دو طبقات میں تقسیم نہیں ہوتا۔ حتی
بعثتِ انبیاءؑ کی صورت میں دعوت اور
ہدایت پہنچانے کے مرحلہ میں بھی کوئی طبقہ وجود میں نہیں آتا۔ لیکن جب ہدایت کو پیش کرنے کے بعد قبولیت و اطاعت کا مرحلہ آتا ہے تو یہاں طبقات جنم لیتے ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اس مورد میں بیان کرتی ہیں کہ بعض ان میں سے ایمان لے آتے ہیں اور بعض ایمان کے منکر ہو جاتے ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَ مِنْهُمْ مَنْ لا يُؤْمِنُ بِهِ وَ رَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدين؛ اور ان میں سے کچھ ہیں جو اس پر ایمان لے آئے اور بعض ہیں جو اس پر
ایمان نہیں لائے اور آپ کے
ربّ کو فساد برپا کرنے والے کا بہت اچھی طرح سے علم ہے۔
باطل کے جریان کے اہم مصادیق میں ملأ اور
مترف ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق ایک معاشرے میں باطل کا جریان اجتماعی سطح پر پھیل جائے تو ملأ اور مترف وجود میں آتے ہیں۔ یہ مطلب قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ سے اجاگر ہوتا ہے۔
لغت میں
مَلَأٌ کا مطلب کسی
قوم کے رؤساء اور دنیاوی وسائل کے مالک با اثر لوگ ہیں جنہیں اشراف زادے کہا جاتا ہے۔
ایک معاشرہ میں حکومت قائم ہوتی ہے تو وسائل زندگی کو منظم کرنے کے لیے حکام اور وزراء یا سردار وغیرہ سامنے آتے ہیں جنہیں ملأ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ پس
مَلَأٌ سے مراد کسی بھی معاشرے میں وہ پُر اثر طبقہ ہے جس کے قبضہِ قدرت میں وسائل زندگانی ہوتے ہیں اور لوگ اپنے ضرورتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے مجبوراً ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
تفسیر المنار میں سورہ اعراف آیت ۵۹
میں وارد ہوا ہے کہ کسی بھی قوم میں امیر کبیر وسائلِ زندگی سے مالا لوگ جنہیں اشراف زادے کہتے ہیں کو
ملأ کہا جاتا ہے۔ ان کو دیکھنے سے انسان کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں کیونکہ اپنے لباس، رہن سہن اور مادی وسائل کی فراوانی کی وجہ سے دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈال دیتے ہیں۔
قرآن کریم میں یہ طبقہ عمومی طور پر انبیاءؑ کا مخالف اور ان کی
تکذیب کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
فَكَذَّبُوهُ فَأَنْجَيْناهُ وَ الَّذينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَ أَغْرَقْنَا الَّذينَ كَذَّبُوا بِآياتِنا؛ پس انہوں نے اس (نوحؑ) کی تکذیب کی، پھر ہم نے نوحؑ اور جو کشتی میں ان کے ساتھ تھے کو نجات دی اور جنہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا تھا ان کو ہم نے غرق کر دیا۔
معاشرے کے با اثر یہ لوگ عموما
عدل و انصاف اور حق کے قیام میں رکاوٹ بنتے ہیں اور طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر کے اہل حق کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے:
وقالَ موسی رَبَّنا اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ ومَلَاَهُ زینَةً واَمولاً فِی الحَیوةِ الدُّنیا رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبِیلِکَ رَبَّنَا اطمِس عَلی اَمولِهِم واشدُد عَلی قُلوبِهِم فَلایُؤمِنوا حَتّی یَرَوُا العَذابَ الاَلیم؛ اور
موسیؑ نے کہا اے ہمارے ربّ تو نے
فرعون اور اس کے ملأ کو زینت (دنیا) اور دنیاوی زندگی کے اموال عطا کیے ہیں، اے ہمارے رب ( یہ اموال آخر اس لیے تو نہیں دیئے گئے) تاکہ وہ تیری راہ سے لوگوں کو گمراہ کریں؟! اے ہمارے رب ان کے اموال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں (حق کے مقابلے میں) مزید شدید تر کر دے، کیونکہ یہ اس وقت تک ایمان لانے والے نہیں جب تک دردناک عذاب کو دیکھ نہ لیں۔ ۔
جب ایک معاشرے میں ملأ حق کے مقابل کھڑے ہو جائیں اور معاشرے پر باطل کے تسلط کا باعث بنیں تو وہ معاشرہ اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے زوال کا شکار ہو کر برباد و ہلاک ہو جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ایک جگہ لفظِ ملأ
جناب سلیمانؑ کے اطراف میں موجود با اثر لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوا۔
لیکن اس آیت کے علاوہ قرآن کریم میں تقریبا جہاں بھی ملأ کا تذکرہ آیا ہے وہاں یہ طبقہ حق کے مقابلے میں مستکبرین کا ناصر و مددگار اور ایک معاشرے کو تباہی میں نمایاں کردار ادا کرنے والا دکھائی دیتا ہے۔
قرآن کریم نے باطل کے جریان کی صورت میں پیدا ہونے والے دوسرے طبقہ کا تعارف مترف کے عنوان سے کرایا ہے۔ لغت میں
مُتۡرِف سے مراد ناز و نعم پلا بڑھا وہ عیاش و شہوت ران طبقہ ہے جو اموال کا بے دریغ استعمال کر کے عیاشی کی زندگی بسر کرتا ہے۔
قرآن کریم کے مطابق طبقہِ ملأ کے اوصاف میں سے ایک عیاشی و لہو و لعب کی زندگی ہے۔ یہ ناز و نعم میں ڈوبا ہوا طبقہ زندگی کے دن عیاشی اور شہوات کی لذتوں میں گم بسر کرتا ہے جس کی وجہ سے معاشروں میں جہاں بے راہ روی اور اخلاقی و قانونی فساد پھیلتا ہے وہاں پیسے کا بے محل اور بے دریغ استعمال معصیت، چوری ڈکیتی اور کرپشن و خیانت جیسے مظالم کے وجود کا سبب بنتا ہے۔ ایک معاشرے میں برائیوں اور منکرات کے فروغ اور
ظلم و ستم کی اجارہ داری کا بنیادی کردار یہی مترف و عیاش طبقہ ادا کرتا ہے جس کے بعد معاشرہ اجتماعی طور پر فسق و فجور اور ظلم و ستم کا شکار ہو جاتا ہے اور عذابِ الہی کا نشانہ بن کر ہلاکت و بربادی سے دوچار ہو جاتا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
واِذا اَرَدنا اَن نُهلِکَ قَریَةً اَمَرنا مُترَفیها فَفَسَقوا فیها؛ اور جب ہم
ارادہ کرتے ہیں کہ ایک بستی (معاشرہ) کو ہلاک کر دیں تو ہم اس کے مترف عیاش طبقہ کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں فسق و فجور برپا کرتا ہے۔
اللہ تعالی کی طرف سے حجت تمام ہونے اور ہادی و نذیر کے ذریعے سے ہدایت آشکار ہونے کے بعد معاشرے کو مہلت دی جاتی ہے اور ان عیاش و مترف طبقات کے پاس فرصت ہوتی ہے کہ وہ اپنے باطن میں تبدیل برپا کریں اور اپنے نفس کو لگام دے کر معاشرے سے منکرات اور مفاسد کو خاتمہ کریں۔ لیکن اگر وہ حق کو لبیک نہ کہیں اور معاشرے کو فاسد اور
فاسق اعمال سے آراستہ کیے رکھیں تو آہستہ آہستہ پورا معاشرہ ان امراض و منکرات کا شکار ہو کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی و بربادی کے اسباب مہیا کرتا ہے اور اس طرح سے معاشرہ زوال پذیر ہو کر عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔
[ترمیم]
آراء اہل المدینۃ الفاضلۃ، ابونصر الفارابی (م. ۳۳۹ ق.)؛ بہ کوشش پیرنصری، بیروت، دار المشرق، ۱۹۱۹ م؛ آناتومی جامعہ، فرامرز رفیع پور، تہران، انتشار، ۱۳۸۵ ش؛ اخلاق ناصری، نصیر الدین الطوسی (م. ۶۷۲ ق.)؛ تہران، خوارزمی، ۱۳۷۳ ش؛ ارتباط بین فرہنگہا، لاری، ریچارد، لیزا، ترجمہ: کیانی و میر حسینی، تہران، انتشارات باز، ۱۳۷۲ ش؛ استراتژی وحدت در اندیشہ سیاسی اسلام، سید احمد موثقی، قم، دفتر تبلیغات، ۱۳۷۰ ش؛ اصول فلسفہ و روش رئالیسم، محمد حسین طباطبائی (م. ۱۴۰۲ ق.)؛ به کوشش مطہری، قم، انتشارات اسلامی؛ انسان مسئول و تاریخ ساز از دیدگاه قرآن، سید محمد باقر صدر، ترجمہ: فولادوند، بنیاد قرآن؛ التبیان، الطوسی (م. ۴۶۰ ق.)؛ بہ کوشش العاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی؛ التحقیق، المصطفوی، تہران، وزارت ارشاد، ۱۳۷۴ ش؛ تفسیر المراغی، المراغی (م. ۱۳۷۱ ق.)؛ دارالفکر؛ تفسیر المعین، محمد بن مرتضی الکاشانی (م. ۱۱۱۵ ق.)؛ بہ کوشش درگاہی، قم، مکتبۃ النجفی، ۱۴۱۰ ق؛ تفسیر المنار، رشید رضا (م. ۱۳۵۴ ق.)؛ قاہرة، دار المنار، ۱۳۷۳ ق؛ التفسیر المنیر، وہبۃ الزحیلی، بیروت، دار الفکر المعاصر، ۱۴۱۱ ق؛ تفسیر نمونہ، مکارم شیرازی و دیگران، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۵ ش؛ جامع البیان، الطبری (م. ۳۱۰ ق.)؛ بہ کوشش صدقی جمیل، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ ق؛ جامعہ از دیدگاه نہج البلاغۃ، ولی اللّه برزگر، تہران، سازمان تبلیغات، ۱۳۷۲ ش؛ جامعہ شناسی، ساموئل کینگ، ترجمه ہمدانی، تہران، سیمرغ، ۱۳۵۵ ش؛ جامعہ شناسی طبقات اجتماعی، حسین ادیبی، دانشگاه تہران، ۱۳۵۴ ش؛ جامعہ و تاریخ از دیدگاه قرآن، محمد تقی مصباح، تہران، سازمان تبلیغات، ۱۳۷۸ ش؛ جامعہ و سنن اجتماعی در قرآن، محمد نجفی، تہران، وزارت ارشاد، ۱۳۷۱ ش؛ جمہور، افلاطون، ترجمہ: روحانی، تہران، علمی فرہنگی، ۱۳۷۹ ش؛ درآمدی بر دایره المعارف علوم اجتماعی، باقر ساروخانی، تہران، کیہان، ۱۳۷۰ ش؛ درآمدی به جامعہ شناسی اسلامی (تاریخچہ جامعہ شناسی)؛ دفتر ہمکاری حوزه و دانشگاه، سمت، ۱۳۷۳ ش؛ دو طبقہ اجتماعی در قرآن، داود سلیمانی، تہران، شیوه، ۱۳۸۰ ش؛ سنتہای اجتماعی و فلسفه تاریخ، سید محمد باقر صدر، ترجمہ منوچہری، رجاء، ۱۳۶۹ ش؛ سیاست، ارسطو، ترجمہ عنایت، تہران، آموزش انقلاب اسلامی، ۱۳۷۱ ش؛ الشفاء
الطبیعیات، منطق ، ابن سینا (م. ۴۲۸ ق.)؛ به کوشش الاب قنواتی و دیگران، قم، کتابخانہ نجفی، ۱۴۰۵ق؛ علوم سیاسی (فصلنامہ)؛ قم، دانشگاه باقر العلوم، دفتر تبلیغات؛ فرہنگ اصطلاحات اجتماعی و اقتصادی، توماس سووه، ترجمہ: ملکی، رواق، ۱۳۵۸ ش؛ فرہنگ علوم اجتماعی، آلن پیرو، ترجمه: ساروخانی، تہران، کیہان، ۱۳۶۶ ش؛ قرآن و جامعہ سازی، علی کمالی، اسوه، ۱۳۷۰ ش؛ الکافی، الکلینی (م. ۳۲۹ ق.)؛ بہ کوشش غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۵ ش؛ لسان العرب، ابن منظور (م. ۷۱۱ ق.)؛ به کوشش علی شیری، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ ق؛ لغت نامہ، دہخدا (م. ۱۳۳۴ ش.) و دیگران، تہران، مؤسسه لغت نامہ و دانشگاه تہران، ۱۳۷۳ ش؛ مبانی جامعہ شناسی، محمود محمدی عراقی و دیگران، تہران، سمت، ۱۳۷۳ ش؛ مجمع البحرین، الطریحی (م. ۱۰۸۵ ق.)؛ به کوشش احمد الحسینی، تہران، فرهنگ اسلامی، ۱۴۰۸ ق؛ مجمع البیان، الطبرسی (م. ۵۴۸ ق.)؛ بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۰۶ ق؛ مجموعہ آثار، مرتضی مطہری (م. ۱۳۵۸ ش.)؛ تہران، صدرا، ۱۳۷۷ ش؛ مسائل روان شناسی جمعی و روان شناسی اجتماعی، ژرژ گورویچ، ترجمہ کاردان، دانشگاه تہران، ۱۳۷۶ ش؛ مفردات، الراغب (م. ۴۲۵ ق.)؛ بہ کوشش صفوان داودی، دمشق، دار القلم، ۱۴۱۲ ق؛ مقدمۃ ابن خلدون، ابن خلدون (م. ۸۰۸ ق.)؛ بیروت، دار احیاء التراث العربی؛ الملل والنحل، الشہرستانی (م. ۵۴۸ ق.)؛ بہ کوشش سید کیلانی، بیروت، دار المعرفة، ۱۳۹۵ ق؛ من ہدی القرآن، سید محمد تقی مدرسی، تہران، دار محبی الحسین علیہ السلام؛ ۱۴۱۹ ق؛ المیزان، الطباطبائی (م. ۱۴۰۲ ق.)؛ بیروت، اعلمی، ۱۳۹۳ ق؛ واژه نامہ فلسفہ و علوم اجتماعی، جمیل صلیبا، ترجمہ: برک نیسی و سجادی، تہران، انتشار، ۱۳۷۰ ش۔
[ترمیم]
[ترمیم]
قرآن کریم کا موضوعی دانشنامہ، مقالہِ جامعہ سے یہ تحریر لی گئی ہے۔ بعض مطالب ویکی فقہ اردو سے منسلک محققین کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔