فطرت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فطرت خاص نوعیت کی خلقت اور اللہ تعالی کی طرف انسان کی رہنمائی و ہدایت کو کہتے ہیں۔

فہرست مندرجات

۱ - فطرت کی تعریف
۲ - فطرت سے مراد
۳ - قرآن کریم میں فطرت
۴ - فطرت کے مترادفات صبغۃ اور حنیف
۵ - عالم الذر میں میثاق
۶ - طبع اور غریزہ کا معنی
۷ - فطری معرفت
۸ - وجدانیات
۹ - فطری خدا شناسی
۱۰ - قرآن کریم میں فطری توحید
۱۱ - فطرت کا اثبات
       ۱۱.۱ - فلسفی دلیل
              ۱۱.۱.۱ - پہلی دلیل
              ۱۱.۱.۲ - دوسری دلیل
       ۱۱.۲ - شہود کے دلائل
              ۱۱.۲.۱ - اندرونی تجربہ
              ۱۱.۲.۲ - امام صادقؑ کا کشتی ٹوٹنے سے استدلال
              ۱۱.۲.۳ - کمال مطلق کی طرف میلان
       ۱۱.۳ - اہم نکتہ
۱۲ - انسان میں خدا کی جستجو کی فطرت کے دلائل
       ۱۲.۱ - آیت فطرت
       ۱۲.۲ - آیت میثاق
       ۱۲.۳ - دیگر آیات
       ۱۲.۴ - نہج البلاغہ میں شواہد
       ۱۲.۵ - متعدد احادیث مبارک
۱۳ - خدا شناسی کے فطری ہونے کے دلائل
       ۱۳.۱ - تاریخی حقیقت
       ۱۳.۲ - آثار قدیمہ سے شواہد
       ۱۳.۳ - نفسیاتی مکاشفات
       ۱۳.۴ - دین کے خلاف تبلیغات کی ناکامی
       ۱۳.۵ - شخصی شواہد
       ۱۳.۶ - دانشوروں اور محققین کی گواہی
۱۴ - فطرت کے ظاہر میں رکاوٹیں
       ۱۴.۱ - انسان کی روح کا گناہوں سے آلودہ ہونا
       ۱۴.۲ - نا مناسب ماحول
       ۱۴.۳ - دین کے مفاہیم کو درست بیان نہ کرنا
۱۵ - حوالہ جات
۱۶ - مأخذ

فطرت کی تعریف

[ترمیم]

فطرت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے حروف اصلی (ف، ط، ر) ہیں۔ عربی لغت میں فطرت کا معنی شگافتہ کرنے، شق کرنے اور بغیر کسی سابقہ کے شیء کو خلق کرنے یا خلقت کا آغاز کرنے کے ہیں۔ قرآن کریم میں کلمہ فطرت ہر دو معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سورہ ابراہیم میں فطرت بغیر کسی نمونے اور سابقہ کے خلق کرنے کے معنی میں آیا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: قالَتْ رُسُلُهُمْ أَ فِي اللَّهِ شَكٌّ فاطِرِ السَّماواتِ وَ الْأَرْض‌؛ ان کے رسولوں نے کہا کیا تمہیں اللہ میں شک ہے جوکہ آسمانوں اور زمین کا بغیر کسی نمونے کے خلق کرنے والا ہے۔ سورہ انفطار میں فطرت بمعنی شگاف اور شق کرنے کے معنی میں آیا ہے، جیساکہ اللہ سبحانہ فرماتا ہے:إِذَا السَّماءُ انْفَطَرَت‌ۡ؛ جب آسمان پھٹ جائے گا۔)

فطرت سے مراد

[ترمیم]

فطرت مصدر نوعی ہے جوکہ فِعۡلَة کے وزن پر ہے۔ عربی زبان میں مصدر نوعی فعل کی نوعیت اور انداز کو بیان کرنے کے لیے لایا جاتا ہے، مثلا عربی میں کلمہ سَیۡر کا مطلب چلنا ہے لیکن سِیۡرۃ جوکہ فِعۡلۃ کے وزن پر ہے کا مطلب خاص انداز اور خاص ہیئت میں چلنا ہو گا۔ اسی طرح سے فطرت ہے جوکہ فعل کی حالت کو بیان کر رہا ہے۔ اس طور پر فطرت سرشت، طبیعت اور خاص خلقت کے معنی میں بھی آتا ہے۔

فطرت اور فطریات کے عنوان سے متعدد اصطلاحات موجود ہیں لیکن اس مقالہ میں ہماری فطرت سے مراد انسان کی خاص نوعیت کی خلقت ہے۔ عموما یہ جملہ بولا جاتا ہے کہ انسان فطرت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اس دنیا میں آیا تو ایسا نہیں تھا کہ انسان ایک سفید تختی یا ایک خمیر کی مانند ہو کہ کوئی بھی شکل اختیار کر سکتا لے۔ بلکہ انسان کی خلقت اور پیدائش کے ساتھ ہی انسان میں خاص خداداد صلاحیتیں اور استعداد تھیں جوکہ خلقت میں اس کے ہمراہ عنایت کی گئی ہیں اور انسان کی طولِ زندگی میں ان صلاحیتوں کی بدولت انتخاب کا اختیار رکھتا ہے اور یہی خداداد صلاحیتیں انسان کے افعال کو جہت دیتی ہیں۔ توحید کے فطری ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان انبیاء علیہم السلام کے مدمقابل کاملا خالی النفس اور لا اقتضاء نہیں ہے بلکہ انسان کی سرشت میں فطرت اور باطن میں تقاضا موجود ہے جس کی بناء پر وہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات پر لبیک کہتا ہے۔ انبیاءِ الہی نے جن الہی تعلیمات کو بشر کے سامنے پیش کیا بشر اپنی سرشت کے مطابق انہی کی جستجو میں تھا۔
[۷] مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۳، ص۶۰۲۔
اگر ہم انسان کی اصل خلقت میں خاص خصوصیات کے سلسلہ کے وجود کے قائل ہو جائیں تو یہ مفہوم فطرت سے عبارت ہو گا۔ فطرتِ انسان یعنی انسان کی خلقت اور وجود میں خاص خصوصیات کا ہونا ہے۔ قرآنی نظریہ کے مطابق انسان کی سرشت میں خاص خصوصیات پنہاں ہیں جن کو انسان کی انسانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فطرت انسان کی اللہ تعالی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

قرآن کریم میں فطرت

[ترمیم]

کلمہِ فطرت قرآن کریم میں انسان اور اس کا دین کے ساتھ ربط و تعلق کے لیے استعمال ہوا ہے۔

فطرت کے مترادفات صبغۃ اور حنیف

[ترمیم]

قرآن کریم میں کلمہِ فطرت کے نزدیک ترین اور مترادف کلمات صِبۡغَۃ اور حَنِیۡف ہیں۔ اس اعتبار سے دینِ الہی کو فطرت اللہ، صِبۡغَۃ اللہ اور آئینِ حنیف یا دین حنیف بھی کہا جاتا ہے۔

عالم الذر میں میثاق

[ترمیم]

عالم الذر میں اللہ تعالی نے اولادِ آدم سے اس دینِ فطری کا عہد و پیمان لیا جسے میثاقِ ذر اور دین حنیف بھی کہتے ہیں۔

طبع اور غریزہ کا معنی

[ترمیم]

عمومًا ذاتی خصوصیات، سرشت اور جمادات کی نوع خلقت و موادِ خلقت کو طبع اور طبیعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ حیوانات کی ذاتی خصوصیات کو غریزہ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

فطری معرفت

[ترمیم]

کیا انسان فطری شناخت اور معرفت سے بہرہ مند ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق انسان کا ضمیر اس کے آغاز پیدائش سے ہر شیء سے خالی تھا جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: وَ اللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهاتِكُمْ لا تَعْلَمُونَ شَيْئاً؛ اور اللہ نے جب تمہیں تمہاری ماؤں کے شکم سے نکالا تو تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ دوسری طرف سے قرآن کریم نے رسالتِ دین کو تَذَکُّر یعنی یاد دہانی شمار کیا ہے اور وحیِ الہٰی کو ذکر کہا ہے۔ قرآن کریم میں تذکرِ فطری سے مراد تذکّر افلاطونی نہیں ہے۔ معرفتِ فطری سے مراد یہ ہے کہ بعض نوعِ شناخت اور معرفت تعلیم اور استدلال کی محتاج نہیں ہے۔ یہ شناخت فطری اور بدیہی ہے۔

وجدانیات

[ترمیم]

علم منطق میں وجدانیات کی اصطلاح سے بحث کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا لازم ہے کہ احساس فطری اور ادراک فطری میں فرق ہے۔ ہم جسے فطری شمار کر رہے ہیں اور وہ انسان کے ادراک سے تعلق نہیں رکھتا کو اہل منطق نے وجدانیات کا نام دیا ہے۔ اہل منطق کی نظر میں وجدانیات باطنی حس سے درک کرنے کو کہتے ہیں۔
[۲۱] سبحانی، جعفر، مدخل مسائل جدید در علم کلام، ص۱۷۷۔
[۲۲] جوادی آملی، عبد الله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۳۰۔
فطری امور یگانگت اور یکسانیت رکھتے ہیں جوکہ تاریخی اور جغرافیائی شرائط و اصول کے تابع نہیں ہیں۔ یہ فطری امور انسان کے باطن کی گہرائیوں میں موجود ہوتے ہیں اور کسی بیرونی تعلیم و تدریس کے مختاج نہیں ہوتے۔ فطری امور چونکہ انسان کے باطن اور حقیقت کے ساتھ گوند دیئے گئے ہیں جیساکہ آٹے کو گوندا جاتا ہے اس لیے یہ انسان کے باطن سے کامل طور پر جدا نہیں ہو سکتے۔
[۲۳] جوادی آملی، عبد الله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۳۰۔
[۲۴] امام خمینی، روح‌ الله، چہل حدیث، ص۱۸۱۔


فطری خدا شناسی

[ترمیم]

ماوراء طبیعت کی طرف توجہ کرنا اور مبدأ پر ایمان لانا انسان کی فطری خصوصیات میں سے ہے اور انسان کے باطن میں محکم طور پر موجود ہے۔ نفسیات دانوں نے انسان کے اندار چار اعلی خصوصیات کا سراغ لگایا ہے جوکہ درج ذیل ہیں:
۱. حقیقت اور واقعیت کو جاننے کی کوشش
۲. خوبصورتی اور جمال کو چاہنا
۳. خیر و فضیلت کو کمال شمار کرنا
۴. عشق و محبت اور پرستش کرنا
اس آخری خصوصیت کو قرآن کریم نے فِطۡرَتَ اللہِ کا عنوان دیا ہے اور ہر توحید پرست کو انسان کے دینِ فطری و آئینِ فطری کے عنوان سے تعبیر کیا ہے۔ نیز بیرونی کوششیں بھی گواہی دیتی ہیں کہ یہ خصوصیات تمام انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔
[۲۷] فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، ج۳، ص۳۲۱۔


قرآن کریم میں فطری توحید

[ترمیم]

قرآن کریم نے توحید کو فطری قرار دیا ہے اور متعدد آیات میں مشرکین کو مخاطب کر کے پوچھا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین کو خلق کرنے والا کون ہے؟ تو وہ بے اختیار کہہ اٹھیں گے کہ اللہ۔ اگر ان مشرکین سے پوچھا جائے کہ تمہیں خلق کرنے والا کون ہے تو وہ کہیں گے: اللہ۔ کہہ دیجیے کہ بتاؤں زمین اور اور جو کچھ زمین پر ہے وہ کس کی ملکیت ہے اگر تم جانتے ہو، وہ کہیں گے: اللہ۔ اس لیے جان لینا چاہیے کہ خدا شناسی انسان کے فطری امور میں سے ہے اور انسان کے لیے بدیہی، واضح آشکار اور روشن ہے جس کے لیے استدلال اور دلائل کی ضرورت نہیں ہے اور نہ وہ دلائل کی محتاج ہے۔
[۳۲] امام خمینی، روح‌ الله، چہل حدیث، ص۱۸۱-۱۸۵۔


فطرت کا اثبات

[ترمیم]

قرآن کریم اور روایات مبارکہ پر مشتمل دلیل نقلی کے علاوہ ہمارے پاس فلسفی و شہودی دلائل کی مانند متعدد دلائل ہیں ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ انسان کے لیے خدا شناسی فطری امور میں سے ہے اور اس کی فطرت میں خدا شناسی پائی جاتا ہے۔ ان گوناگوں دلائل میں سے چند دلائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

← فلسفی دلیل


انسان ایک مجرد موجود ہے اور ہر مجرد موجود اپنی علت اور خالق کو حضوری صورت میں درک کرتا ہے۔ پس نتیجہ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان فطرتًا خدا شناس ہے۔ انسان کا مجرد ہونا اس معنی میں ہے کہ جو چیز انسان کی انسانیت اور اس کی حقیقی و واقعی ہویت کو تشکیل دیتی ہے کہ جسے روح سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یا خود یا میں سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ انسان کا مجرد وجود ہے جوکہ غیر مادی ہے اور مادہ کی خصوصیات سے خالی ہے۔ اگرچے انسان مادی وسائل و آلاتِ جسمانی رکھتا ہے، مثلا انسان کی آنکھ، کان وغیرہ جن سے انسان اپنی مادی زندگی میں کثرت سے استفادہ کرتا ہے۔ انسان کا نفسِ مجرد اس کے جسم پر اثر انداز ہوتا ہے اور جسم کے تاثرات نفس پر مترتب ہوتے ہیں۔ اس روح سے مراد وہی حقیقت ہے کبھی خوش ہوتی ہے تو کبھی غمگین ہوتی ہے۔ اسی طرح تفکر، غور و فکر ، نتیجہ لینا اور ارادہ کرنا وغیرہ انسان کی روحی سے ظاہر ہونے والے آثار ہیں۔ روح کے مجرد ہونے پر ہمارے مختلف عقلی اور نقلی دلائل موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف تجربے روح کے مجرد ہونے پر بطور شاہد پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل بعض کتب میں وارد ہوئی ہے۔ نمونے کے طور دو دلیلوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:

←← پہلی دلیل


پہلی دلیل انسان کی شخصیت کا ثابت ہونا ہے۔ انسان جب ’’میں‘‘ یا ’’خود‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو حقیقت میں یہ روح کی طرف اشارہ ہے۔ انسان اپنی پوری زندگی میں لفظِ میں اور خود کو ایک معنی میں استعمال کرتا ہے۔ باوجود اس کے کہ چند سالوں بعد انسان کا پورا بدن آہستہ آہستہ تبدیل ہو جاتا ہے اور نئے سیلز آ کر گذشتہ سیلوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔ انسان کے بدن میں بہت زیادہ تبدیلیاں اور تغیرات برپا ہوتے رہتے ہیں، بلکہ بعض اوقات انسان کا بدن کٹ جاتا ہے یا اس کو فالج ہو جاتا ہے لیکن ان سب حوادث اور تغیرات کے باوجود بھی انسان اپنے آپ کی طرف لفظِ ’’میں‘‘ یا ’’خود‘‘ کہہ کر اشارہ کرتا ہے اور اسی معنی میں ان الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جیساکہ پہلے اپنی حقیقت کی طرف اشارہ کیا کرتا تھا۔ اس مجرد حقیقت کی طرف میں کہہ کر اشارہ کرنا دلیل ہے کہ وہ جس کو پائیدار اور نا قابل تغیر سمجھ رہا ہے وہ اپنی حقیقت ہے۔ جبکہ جسم مادی یا اس کے کسی حصے کی طرف میں کہہ کر اشارہ نہیں کرتا۔ پس انسان کی شخصیت اور حقیقت کا تبدیل نہ ہونا اور جسم کا تغیرات سے دوچار ہونا دلیل ہے کہ جو موجود یکساں طور پر طولِ عمر انسان کے ساتھ رہتا ہے وہ غیر مادی یعنی مجرد ہے۔

←← دوسری دلیل


روحِ انسانی میں مادہ کی خصوصیات کا نہ پایا جانا، یعنی مادہ اور مادیات کی خصوصیات جدا نوعیت کی ہیں، مثلا جگہ کا محتاج ہونا، تقسیم ہونے کی قابلیت کا ہونا وغیرہ۔ لیکن انسانی روح ان مادی خاصیتوں سے خالی اور مبرّا ہے۔ ہم جب اپنے آپ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اپنے بارے میں یہ علم حضوری حاصل ہوتا ہے کہ ہم خود کسی جہت میں تقسیم نہیں ہوتے اور مکان و محل سے بے نیاز ہیں۔ ہم روح کو بدن یا بدن سے باہر کسی جگہ میں مقید اور متعین نہیں کر سکتے کہ ہم کہیں کہ روح اس بدن کے اندر ہے یا روح فلاں جگہ میں ہے۔ اسی طرح ہم روح کو دو حصوں میں تقسیم نہیں کر سکتے۔ البتہ اگر جسم اور مادی کسی شیء کو تصور کریں تو فورا ہم اس کو تقسیم کے قابل قرار دیں گے۔ روح سے آشکار ہونے والی خصوصیات غم، خوشی، تفکر اور اراده وغیرہ ہیں جوکہ مادی کسی خصوصیت کی حامل نہیں ہے۔ روح مجرد اور غیر مادی ہے۔

دوسرے مقدمہ کی وضاحت میں ہم یہ فلسفی دلیل پیش کر سکتے ہیں: ہر مجرد موجود اپنی علت اور اپنے خالق کو علم حضوری کی صورت میں درک کرتا ہے۔ لہذا یہ کہا جائے گا کہ فلسفی اعتبار سے ہر معلول اپنی علت کے ساتھ عین ربط رکھتا ہے اور علت کے مستقل ہونے اور موجود ہونے کی وجہ سے معلول کا وجود اور استقلال ہے ہے۔ معلول بذات خود کوئی استقلال نہیں رکھتا بلکہ جو کچھ ہے وہ علت کی وجہ سے ہے۔ معلول کا علت سے تعلق اور ربط کو تشبیہ سے بیان کیا جائے تو ان دونوں میں وہی تعلق اور ربط ہے جو نور یا سورج کی شعاع کا نور کے منبع یعنی سورج کے ساتھ ہے۔ اگر سورج کی شعاع کا تعلق منبع نور یا سورج سے ٹوٹ جائے تو وہ شعاع معدوم ہو جائے گی۔ اسی طرح سے معلولِ مجرد ایک لحظہ کے لیے اپنی علت سے غائب نہیں رہ کستا اور ہمیشہ اپنی علت کے محضر میں حاضر ہے اور اپنی حد تک اپنی علت کا علم رکھتا ہے۔ علامہ طباطبائی نہایۃ الحکمۃ میں تحریر کرتے ہیں: وکذلک العلة حاضرة بوجودها لمعلولها الرابط لها القائم بها المستقل باستقلالها، فهی معلومة لمعلولها علما حضوریا اذا کانا مجردین و هو المطلوب، ان دونوں مقدموں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان فطرتًا اللہ تعالی کی معرفت اور شناخت رکھتا ہے۔

← شہود کے دلائل


کشف و شہود سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ ہر انسان فطری طور پر اللہ تعالی کی شناخت رکھتا ہے۔ ذیل میں ہم شہودی دلائل میں سے فقط دو دلائل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:

←← اندرونی تجربہ


فطریات کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کا اندرونی تجربہ کے قابل ہونا ہے، مثلا اگر ہم بیرونی اشیاء کی طرف توجہ کیے بغیر اپنے باطن کا جائزہ لیں تو ہم اپنے اندر کا تجربہ کر پائیں گے اور اندرونی تجربہ کے نتیجہ میں ہم اپنے باطن میں یہ احساس پائیں گے کہ ہم باطن کی گہرائی میں خوبصورتی و جمال، کمال اور حقیقت کی تلاش کی طرف رجحان اور میلان رکھتے ہیں جوکہ فطری میلانات و رجحانات کہلاتے ہیں۔ اسی طرح خدا شناسی اور خدا کی جستجو کا فطری ہونا قابل تجربہ ہے۔ انسان اپنے باطن میں دقت اور تأمل کرے تو اس کو معلوم ہو گا اس کو جہاں اپنے ہونے کا علم ہے وہاں اس کا وجودی ربط اللہ تعالی کے ساتھ بھی ہے۔ اس پہچان کے ساتھ وہ اللہ کے بارے میں علم حضوری حاصل کر سکتا ہے۔ کیونکہ ہم اپنے ہونے کا علم حضوری حاصل ہے اور اسی کے ذریعے ہم بآسانی اپنے آپ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اگر ہم اسی علم کو پروان چڑھائیں اور مزید عمق میں جائیں تو ہمیں اللہ تعالی کے بارے میں علم حضوری حاصل ہو گا، جیساکہ امام علیؑ سے منقول ہے: مَنْ‌ عَرَفَ‌ نَفْسَهُ‌ عَرَفَ رَبَّه‌؛ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

البتہ انسان کے لیے خدا شناسی کا فطری ہونا بعض دیگر فطریات کی مانند بالقوۃ اور ضعیف ہے جوکہ خاص شرائط کے مہیا ہونے کی صورت میں بالفعل اور قوی و محکم ہو سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مختلف غرائز جیسے جنسی غریزہ انسان میں بالقوۃ ہے اور خاص شرائط میں موجودگی میں بالفعل اور قوی ہو جاتا ہے اور بعض شرائط کی موجودگی میں یہ غریزہ خاموش ہو جاتا یا دب جاتا ہے۔ خدا شناسی کی فطرت کے مورد میں بھی ایسا ہی ہے کیونکہ انسان کا دنیا و مادہ اور اپنے جسم کے ساتھ ربط و تعلق قوی ہو جائے تو یہ حجاب بن جاتا ہے اور یہ حجاب بالقوۃ فطرت کے فعلی ہونے میں مانع بن جاتا اور اس فطرت کو پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے نہیں دیتا۔
[۳۵] شیرازی، ملا صدر الدین، الحکمۃ المتعالیۃ، ج۹، ص۱۲۴۔
بعض اوقات انسان اس حد تک غافل ہو جاتا ہے کہ وہ فطرت ہی کا انکار کر بیٹھتا ہے۔ اگر انسان سے اختیاری یا اضطراری طور پر دنیا اور مادی و جسمانی وابستگیوں سے کنارہ کش ہو جائے تو وہ اللہ تعالی کو پہچاننا شروع کر دے گا۔ اگر کوئی شرعی ضوابط کے مطابق ریاضت کرے اور عرفانِ حقیقی کے دستورات کے مطابق اپنے باطن اور اندرون کا تصفیہ کرے اور اختیار کے ساتھ دنیا و علائقِ دنیا سے واپستگی کو اپنے آپ سے جدا کر لے اور مادی اسباب سے تمام امیدیں منقطع کر لے اور مادی اسباب سے نا امید ہو جائے تو بے اختیار تمام حجاب اس کی فطرت سے برطرف ہو جائیں گے اور فطرتِ اصیل اور خدا شناسی سے تمام پردے اور حجاب اٹھ جائیں گے اور اس کا ذاتِ مبدأ سے وجودی ارتباط آشکار اور نمایاں ہو جائے گا۔ پس اللہ تعالی کی شہودی معرفت کا رجحان اور شناخت بہترین دلیل ہے۔ چونکہ یہ شناخت غیر اکتسابی ہے پس یہ فطری شناخت کہلائے گی۔

←← امام صادقؑ کا کشتی ٹوٹنے سے استدلال


ایک شخص امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ اللہ تعالی کے وجود کے بارے میں بحث مباحثہ اور مجادلہ و نزاع نے مجھے حیرت و سرگرداں اور مشوش کر دیا ہے، لہٰذا آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ امام صادقؑ نے فرمایا: کیا تم کبھی کشتی میں سوار ہوئے ہو؟ اس نے جواب دیا: کیوں نہیں! ، امامؑ نے فرمایا: کیا کبھی ایسے حالات پیش آئے کہ تمہاری کشتی ٹوٹ گئی ہو اور نجات کی کوئی راہ نہ دکھائی دے رہی ہو؟ اس نے کہا: جی بالکل، امامؑ نے فرمایا: کیا اس وقت تمہارے دل میں امید کی کوئی کرن باقی نہیں تھی کہ کوئی تمہیں نجات دے سکتا ہے؟ اس نے جواب دیا: کیوں نہیں! میرے دل میں اس وقت یہ احساس تھا کہ کوئی مجھے نجات دینے پر قادر ہے، امامؑ نے فرمایا: وہی وجودِ خداوندی ہے کہ جب کوئی نجات دہندہ باقی نہ بچے اس وقت اللہ تعالی کی ذات تمہیں نجات دینے پر قادر ہے۔ یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ کہ اگر انسان اپنے باطن کا دنیا کی تمام وابستگیوں اور تمام تعلقات سے کنارہ کش ہونے کا تصور کرے حتی اگر وہ منکرِ خدا ہو تو بھی اس وقت وہ اپنے اندر توحید کے فطری ہونے اور اللہ تعالی کی فطری شناخت کا احساس کر لے گا اور خدا سے تعلق کو آشکار کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
[۳۸] جوادی آملی، عبد الله، ده مقالہ پیرامون مبدا و معاد، ص۷۵- ۷۶۔


←← کمال مطلق کی طرف میلان


دوسری شہودی دلیل یہ ہے کہ انسان کمالِ مطلق کی طرف میلان و رجحان رکھتا ہے۔ ہم بآسانی اس میلان کو اپنے نفس میں تجربہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ احساس ہر وقت ہماری زندگی میں ہمارے ہمراہ ہے کہ ہم کمال کی طرف رجحان اور رغبت رکھتے ہیں اور انسان اسی راہ میں تمام عملی تحرکات اور فعالیتیں انجام دیتا ہے۔ عموما انسان اپنی زندگی میں مادی اشیاء سے مانوسیت کی بناء پر محدود اشیاء کا احاطہ کر کے ان میں کمال کو مشاہدہ کرتا ہے اور ان محدود اشیاء کے کمال کو ہی اپنا ہدف و غایت بنا لیتا ہے۔ لیکن جب وہ ان محدود اشیاء اور ان کے کمال کو پا لیتا ہے تو اس وقت متوجہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر کمال کی جستجو اور کمال کی طرف رجحان کا مادہ ابھی تک تشنہ ہے اور اس محدود کمال کو پا لینے کے باوجود وہ اپنے اندر اطمینان اور آرام و سکون حاصل نہیں کر سکا۔ اس طرح سے وہ بالاتر مرحلہ اور بلند تر مرتبہ کے کمال کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کو اپنا ہدف غائی اور مقصود قرار دیتا ہے اور جب اس ہدف و کمال کو پا لیتا ہے تو متوجہ ہوتا ہے کہ اس کے کمال کو چاہنے کی خواہش ابھی بھی پوری نہیں ہوئی اور تشنگی اور بھوک اپھی باقی ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ اس سے بالاتر کمال کو حاصل کرنے کا خواہش مند ہو جاتا ہے اور اس کو اپنا ہدفِ غائی قرار دیتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہاں سے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ انسان کمال مطلق اور تمام کمالات کے منبع و مبدأ یعنی ذات الہٰی کی طرف مائل اور راغب ہے۔ وہ جب تک اس کمال پا نہیں لیتا اس وقت تک اطمینان اور آرام کو حاصل نہیں کر سکتا اور مزید کمال کی تلاش میں سرگرداں رہے گا۔ پس انسان فطرتًا اس سرجشمہ کی طرف مائل اور راغب ہے اور جب تک یہاں تک نہیں پہنچے گا اس وقت تک اس ہدف غائی اور مقصدِ حقیقی کا طالب رہے گا۔ یہ ممکن ہے کہ انسان مصداق میں اشتباہ کر بیٹھے لیکن اپنی فطری رجحان اور میلان میں اشتباہ نہیں کرتا کیوکہ اس کا سبب خلقت میں اس رجحان و میلان کے رکھ دینے کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ ہدفِ اصلی یعنی اللہ تعالی کی طرف رغبت و رجحان غیر کسبی ہے جو خلقت میں انسان اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ یہاں سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان فطرت میں خدا کی جستجو کرنے والا ہے۔
[۳۹] خمینی، روح‌الله، شرح چہل حدیث، حدیث فطرت۔
[۴۰] شاه آبادی، محمد علی، رشحات البحار، ص۳۵- ۳۷۔
انسان کا دل جب اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے تو اس کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے، یعنی اس دل کو جو سابقہ خدا شناسی کرائی گئی تھی وہ اسی کے پیچھے پیچھے اللہ تعالی کی جستجو کرتا ہے۔ خدا کی جستجو کے اس احساس سے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ اللہ تعالی کی معرفت اور شناخت فطری ہے۔
[۴۱] مصباح یزدی، محمد تقی، معارف قرآن، ج۱-۳، ص۳۴۔


← اہم نکتہ


اس طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ اگرچے اللہ تعالی کی معرفت اور شناخت کے احساس کا اصل سبب یہی فطرت ہے لیکن انسان اس کے باوجود انسان عقل، غور و فکر اور رسول اللہ ﷺ اور تذکر سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہے۔
[۴۲] مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۶، ص۹۰۸۔
[۴۳] مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقائد، ص۶۳۔
اس اعتبار سے قرآن کریم تفکر، تدبر اور تعقل کی شدید تاکید کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے وجود اقدس کے بغیر انسان پر حجت کے تمام ہونے کو ناکافی قرار دیتا ہے۔ فکری کمزوری اور عقلی ضعف ان اسباب میں سے ہے جن کا نتیجہ فطرت تک نہ پہنچنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

انسان میں خدا کی جستجو کی فطرت کے دلائل

[ترمیم]

قرآن کریم کی متعدد آیات اور کثیر احادیث مبارکہ انسان کے اندر اللہ تعالی کی طرف فطری میلان اور جستجو کی طرف اشارہ کرتی ہیں:

← آیت فطرت


الف - قرآن کریم میں فطرت کے کلمہ پر مشتمل ایک آیت ہے جسے آیتِ فطرت کہا جاتا ہے، اس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: فَاَقِمْ وَجْهَکَ لِلدِّینِ حَنیفًا فِطْرَتَ اللّهِ الَّتی فَطَرَ النّاسَ عَلَیْها لا تَبْدیلَ لِخَلْقِ اللّهِ ذلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَ لکِنَّ اَکْثَرَ النّاسِ لا یَعْلَمُونَ؛ پس آپ اپنا تمام رخ مخلصانہ طور پر دین کی طرف قائم کر دیں، اللہ کی وہ فطرت اس نے جس پر انسان کو خلق کیا، اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں، یہ دین قیم ہے لیکن اکثر لوگ علم نہیں رکھتے۔ اس آیت کریمہ میں بشر کی فطرت میں اللہ تعالی کی جستجو کی خصوصیت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ کے مطابق توحید اور خدا جوئی انسان کی خلقت کا جزء ہے اور انسان کی طبیعت کا تقاضا ہے کہ وہ مبدأ غیبی جس کے ہاتھ میں انسان کا وجود، بقاء اور اس کی سعادت ہے کے سامنے خضوع و خشوع کا اظہار کرے اور کائنات میں جاری حقیقی و تکوینی قوانین کے ساتھ اپنی زندگی کے امور کو سازگار کرے۔ قرآن کریم اور تمام آسمانی کتب اس دین فطری کی تاکید کرتی ہیں اور اللہ تعالی کے سامنے خاضع و خاشع ہونے اور اپنی زندگی کے امور کو اس کے قوانین سے ہمآہنگ و سازگار کرنے پر زور دیتی ہیں۔ اسی طرح اس آیت کریمہ کے مطابق انسان اپنی جس خلقت اور آفرینش کے ہمراہ ہے اور جس نوع پر اللہ تعالی نے انسان کو خلق کیا ہے وہ کاملًا دین کے مساوی و برابر ہے۔
[۴۸] جوادی آملی، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۲۸۔
وہ دین جسے اللہ تعالی ہم سے چاہتا ہے اس کی تشریع تکوین پر مشتمل ہے۔ بالفاظِ دیگر دین اسلام میں شریعت کے تمام ضابطے تکوینی اساس پر قائم ہیں اور انسان کی تکوینی خلقت کے پیشن نظر اللہ تعالی نے تشکیل دیئے ہیں۔

← آیت میثاق


ب - قرآن کریم میں بنی آدم سے میثاق لینے کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔ اس آیت کریمہ کو آیتِ میثاق کہا جاتا ہے جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنی آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرّیَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلی‌ اَنْفُسِهِمْ اَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ قالُوا بَلی‌ شَهِدْنا اَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیامَةِ اِنّا کُنّا عَنْ هذا غافِلین اَوْ تَقُولُوا اِنَّما اَشْرَکَ آباؤُنا مِنْ قَبْلُ وَ کُنّا ذُرّیَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ اَ فَتُهْلِکُنا بِما فَعَلَ الْمُبْطِلُون؛ اور اس وقت کو یاد کرو جب آپ کے ربّ نے بنی آدم سے ان کی پشتوں سے ان کی ذریت کو نکالا اور انہیں ان کے نفس پر گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں، انہوں نے کہا: کیوں نہیں ہم گواہی دیتے ہیں، (یہ گواہی اس لیے لی) کہ روزِ قیامت تم یہ نہ کہو کہ ہم اس سے غافل تھے یا یہ کہو کہ اس سے پہلے ہمارے آباء و اجداد شرک کیا کرتے تھے اور ان کے بعد ہم ان کی اولاد تھے، تو کیا (اے رب) تو ہمیں اہل باطل کے اعمال کی وجہ سے ہلاک کر دے گا۔ اس آیت کا ظاہر یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں پر اتمام حجت کے لیے اپنی ربوبیت کا ان عہد و میثاق لیا تاکہ قیامت مین کافر کسی قسم کا عذر پیش نہ کر سکیں اور بہانے نہ تراش سکیں۔ آئمہ اہل بیتؑ سے وارد ہونے والی احادیث میں اس آیت کریمہ کے ذیل میں جو وارد ہوا ہے اس سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ آیتِ میثاق آیت فطرت کے مساوی ہے اور انسانی سرشت میں اللہ کی جستجو اور اس کی طرف فطری میلان پر دلالت کر رہی ہے۔ معروف صحابی زرارۃ بن اعین امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کرتے ہیں جس میں اس آیت کریمہ کی تفسیر انسانوں کے دل میں اللہ تعالی معرفت قرار دینے کی صورت میں کی گئی ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں: قال ثبت المعرفه فی قلوبهم؛ امامؑ نے فرمایا: ان کے قلوب میں اس کی معرفت ثبت کر دی گئی ہے۔اسی طرح ایک اور روایت میں امام باقرؑ سے آیت فطرت کی تفسیر میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: فطرهم علی معرفته انه ربهم...؛ اللہ نے انہیں اپنی معرفت پر خلق کیا کہ وہ ان کا ربّ ہے۔ ان دو احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیتِ میثاق کا معنی آیت فطرت ہے اور آیتِ میثاق میں وارد ہونے والی تعبیرات سے مقصود انسان کا فطری طور پر اپنے خالق کی معرفت کا ہونا ہے۔ نیز دیگر احادیث جو اہل بیتؑ سے وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں۔
[۵۳] کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۲، ص۱۰، حدیث ۲۔


← دیگر آیات


آیت فطرت اور آیت میثاق کے علاوہ بھی متعدد قرآنی آیات ہیں جن سے فطرت کی بحث کا استفادہ کیا جا سکتا ہے، جیسے سوره ابراہیم، سوره لقمان اور سوره بقره میں وارد ہونے والی آیات کریمہ۔ اسی طرح تذکر کے معنی کو بیان کرنے والی آیات جیسے: سوره مدثر، سوره غاشیہ سوره ذاریات اور ان کی مانند دیگر آیات ہیں۔ قرآن کریم میں نسیان کو بیان کرنے والے آیات جیسے سوره حشر، سوره عنکبوت، سوره لقمان سوره نحل اور سوره آل‌ عمران میں وارد ہونے والی آیات ہیں۔

← نہج البلاغہ میں شواہد


ج - نہج البلاغہ میں مختلف خطبات و مکتوبات میں فطرت کے ان خاص معنی کے شواہد وافر طور پر مل جاتے ہیں، مثلا نہج البلاغہ میں وارد ہوا ہے: لَمَّا بَدَّلَ أَكْثَرُ خَلْقِهِ عَهْدَ اللَّهِ إِلَيْهِمْ فَجَهِلُوا حَقَّهُ وَاتَّخَذُوا الْأَنْدَادَ مَعَهُ ... فَبَعَثَ فِيهِمْ رُسُلَهُ وَوَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِيَاءَهُ لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ وَيُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِهِ وَيَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بِالتَّبْلِيغِ وَيُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُول؛ جب اکثر لوگوں نے اللہ کا عہد بدل دیا تو وہ اس کے حق سے بے خبر و جاہل ہو گئے اور اوروں کو اس کا شریک بنانے لگے ...‌ پھر اللہ نے ان میں اپنے رسولوں کو مبعوث کیا اور ان کی طرف لگاتار اپنے انبیاء بھیجے تاکہ وہ انہیں اس کے میثاقِ فطرت کو ادا کرنے پر ابھاریں اور انہیں اس کی بھولی ہوئیں نعمتیں یاد دلائیں اور تبلیغ کے ذریعے ان پر حجت قائم کریں اور ان کی عقلوں میں دفن شدہ معلومات کو ان کے لیے ابھاریں۔ نہج البلاغہ کے اس خطبہ میں لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السلام انسان کے وجود میں اللہ تعالی کی جستجو کرنے کا انگیزا نہیں ڈالتے تھے بلکہ انبیاءؑ انسان کے فطری میثاق جس سے انسان غافل ہو چکا ہے کو پورا کرنے کی طرف ابھارتے تھے اور انہیں یاد دلاتے تھے کہ ان کے باطن اور قلوب میں میثاق اور رغبتِ الہی موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانوں کے قلوب اللہ تعالی کی معرفت اور اس کی طرف رجحان و میلان سے کاملا خالی تھے، پھر انبیاءؑ آئے اور انہوں نے اپنی دعوت و تبلیغ سے ان کے اندر یہ مادہ پیدا کیا اور ان کو اللہ تعالی کی تلاش و جستجو اور میلان و رغبت کی طرف ابھارا!! بلکہ اللہ تعالی کی توحید اور اس کی نعمت کے عطا کرنے کا احساس انسان کے باطن کی گہرائیوں میں میثاقِ فطرت کی صورت میں موجود ہے۔

← متعدد احادیث مبارک


د - آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے متعدد ایسی احادیث وارد ہوئی ہیں جن کے مصادیق میں سے ایک بشر کی فطرتِ الہی کا ہونا وارد ہوا ہے۔ بعض روایات میں فطرت کی تفسیر معرفت سے کی گئی ہے۔
[۶۶] کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۲، ص۱۲- ۱۳، حدیث ۱۴۔
امام خمینی نے اپنی کتاب شرح چہل حدیث ایک روایت نقل کی ہے جو حسن درجہ کی ہے جوکہ علم درایت کی رو سے قبول ہے میں توحید کو فطرت کے مصادیق میں سے ایک مصداق شمار کیا گیا ہے۔
بعض روایات میں فطرت کی تفسیر دین اسلام کی گئی ہے۔
[۷۱] کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۲، ص۱۲، حدیث۲۔
شرحِ چہل حدیث میں امام خمینی نے صحیح السند روایت نقل کی ہے اور اسی کی مانند دیگر احادیث کے مطابق فطرت کی تفسیر نبوت و امامت سے کی گئی ہے اور نبوت و امامت کو انسانی فطرت میں سے قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں فطرت کی تفسیر ولایت اور بعض میں اللہ تعالی کی توحیدِ خالقیت اور توحید ربوبیت کے طور پر کی گئی ہے۔ ان احادیث مبارکہ کا مطالعہ کر کے اگر ہم ایک کلی معنی لینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس طرح سے خلق کیا ہے کہ انسان اللہ تعالی کی خالقیت و ربوبیت اور نبوت و امامت و ولایت سے بیگانہ اور جاہل نہیں ہے بلکہ اس کے باطن کی گہرائی میں اللہ تعالی نے ان کی معرفت اور ان کی طرف رجحان کو رکھ دیا ہے۔ اس لیے اگر انسان کی نشوونما خاص شرائط کے ساتھ ہو تو یہی فطرتِ الہٰی عملا اور بالفعل ظاہر ہو جائے گی۔ اگرچے دیکھنے میں یہ احادیث مختلف اور فطرت کے عنوان سے کبھی خالقیتِ الہٰی اور کبھی ربوبیتِ الہٰی اور کبھی ولایت یا نبوت و امامت کو بیان کر رہی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ احادیث مبارکہ فطرت کے مصادیق میں سے ایک یا بعض مصادیق کو بیان کر رہی ہیں۔ لہٰذا ان سب روایات آپس میں قابل جمع ہیں اور کسی قسم کا ٹکراؤ نہیں رکھتیں اور یہ یہ سب امور انسان کی خلقت میں پنہاں ہیں۔
[۷۷] خمینی، روح‌ الله، شرح چہل حدیث، ص۱۷۹- ۱۸۷۔


خدا شناسی کے فطری ہونے کے دلائل

[ترمیم]

خدا شناسی کا فطری امور میں سے ہونا مختلف دلائل اور شواہد سے ثابت ہوتا ہے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:

← تاریخی حقیقت


معاشرہ شناسی اور تاریخ میں ثابت شدہ بات ہے کہ تمام انسانی معاشرے کسی نہ کسی نوع کے دین سے وابستہ اور پیوست رہے ہیں۔
[۷۸] ویل دورانت، تاریخ تمدن، ج۱، ص۸۷-۸۹۔


← آثار قدیمہ سے شواہد


دنیا بھر میں انسان کے قدیمی ترین ملنے والے آثار میں واضح طور پر ایسی اشیاء کا سراغ ملتا ہے جو نشاہدہی کرتی ہیں کہ انسانی معاشرے اور انسانوں کا اللہ تعالی پر اور قیامت پر اعتقاد قائم تھا۔ مُردوں کے ساتھ انسان کی ذاتی و شخصی کا اور زندگی اور سفر میں استعمال ہونے والی چیزوں کا دفنانا اور مُردوں کو مومیائی کرنا اور ان کی محل نما قبریں بنانا جیساکہ اہرام مصر کی صورت میں آج ہمارے سامنے آثار موجود ہیں قدیمی انسان کے قیامت پر اعتقاد کو بیان کرتا ہے۔

← نفسیاتی مکاشفات


ماہر نفسیات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ مختلف قسم کے اشاروں اور دلائل سے ثابت ہوت اہے کہ انسان کی ذات میں عبادت کرنے اور کسی کی پرستش کرنا احساس اور رجحان پایا جاتا ہے۔

← دین کے خلاف تبلیغات کی ناکامی


انسان کی زندگی کے مختلف ادوار میں ایسے افراد اور جماعتیں دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے دین کے خلاف تبلیغات کیں اور اس کوشش میں رہیں کہ انسان سے دین اور دینداری چھین لیں اور کوئی شخص بھی دین اختیار نہ کرے۔ اس کے باوجود دین کی فروغ پاتا رہا ہے اور کسی جگہ دین تھما نہیں اور دین کے خلاف اٹھنے والی ہر لہر اور ہر فضاء ناکامی کا شکار ہوئی۔ جہانِ غرب کو لے لیجیے کہ وہاں کس قدر دین کے خلاف تبلیغات اور فضاء سازی کی گئی لیکن اس کے باوجود وہ دین کو غرب سے ختم نہیں کر سکے اور دین کے خلاف تمام تبلیغات ناکامی کا شکار ہوئیں۔

← شخصی شواہد


انسان جب کسی سختی یا خطرے سے دوچار ہوتا ہے اور خوف ہراس اس کو آ گھیرتا ہے اور ظاہری اسباب سے امید ختم ہو جاتی ہے تو اس وجود انسان اپنے وجود میں ایک قوت اور طاقت کا احساس کرتا ہے اور ایسی ذات کی طرف وہ توجہ کرتا ہے جو تمام چیزوں کا مبدأ ہے اور ہر زمان و مکان میں کمزور و ضعیف لوگوں کی پناہ گاہ ہے اور ان کے ہاتھوں کو تھام لینے والا ہے۔ تمام انسان اگر ظاہری طور بر اللہ سبحانہ کے وجود کو قبول نہ کریں تو اس کے باوجود بھی جب وہ سختی اور مشکل سے دوچار ہوتے ہیں اور زندگی کے بند موڑ پر پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت وہ اپنے اندر ایک امید اور احساس پاتے ہیں۔ امید کا وجود امید دہندہ جس سے امید باندھی گئی ہے کے وجود کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پس اگر امید ہے تو یقینا جس سے امید بندھی ہے وہ بھی موجود ہے۔ انسانی وجود میں یہ امور خدا شناسی اور توحید کے فطری ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
[۸۰] طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۲، ص۲۸۹۔


← دانشوروں اور محققین کی گواہی


دنیا میں عالمی شہرت یافتہ دانشور حضرات معترف ہیں کہ خدا شناسی انسان کے باطن کی گہرائی میں موجود ہے اور ان کے باطن سے اللہ سبحانہ کو پہچانے کا احساس ابھرتا ہے۔ مذہبی زندگی کا سرچشمہ دل ہے اور ہم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ فلسفی دستورات عمل اور عملی نمونے ترجمہ شدہ ہیں جن کی اصلی زبان کوئی اور ہے۔
[۸۱] فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، ج۲، ص۱۴۔
[۸۲] فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، ج۳، ص۳۲۱۔


فطرت کے ظاہر میں رکاوٹیں

[ترمیم]

انسان اگرچے فطرتًا خدا پرست اور خدا کی جستجو کرنے والا ہے لیکن بعض اوقات اس فطرت کے کھلنے اور پلنے بڑھنے میں کوئی چیز رکاوٹ بن جاتی ہے اور اس طرح اس فطرت کے موانع حائل ہو جاتے ہیں۔ موانعِ فطرت درج ذیل ہیں:

← انسان کی روح کا گناہوں سے آلودہ ہونا


گناہوں سے آلودگی انسان کے دل کو اللہ سبحانہ سے دور کر دیتی ہے اور طہارت و نظافت کو ختم کر کے سیاہی و نجاست کو پھیلا دیتی ہے۔ گناہگار و معصیت کار انسان فطرت کو کِھلنے نہیں دیتا۔ اسی طرح
اصولا آلودگی به گناهان، دل را از خدا دور می‌کند و پاکی و لطافت نخستین آن را از بین می‌برد. فطرت چنین انسانی نمی‌تواند شکوفا شود. هم چنین آلوده بودن محیط و غرق شدن جامعه در شهوت‌پرستی و هوای نفس، تحریک شهوات و تن‌پروری و حیوان صفتی از عوامل انحراف و یا بی‌اثر شدن فطرت الهی انسان است. استاد مطهری می‌نویسد:
«اینها با هر گونه احساس تعالی اعم از مذهبی یا اخلاقی یا علمی یا هنری، منافات دارد، آدم شهوت‌پرست ‌حتی احساس عزت و شرافت و سیادت و شهامت و شجاعت را از دست می‌دهد و اسیر شهوت می‌شود و جاذبه‌های معنوی او را نمی‌کشد همان‌طور که خداوند می‌فرماید: اِنَّ اللّهَ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفاسِقین؛
[۸۴] مرتضی مطهری، مجموعه آثار، ج ۶، ص۴۰۵، صدرا، تهران، چاپ ششم.
خداوند گروه فاسقین را هدایت نمی‌کند.»

← نا مناسب ماحول


معاشرے میں اس کا رسمی عقیدہ ماٹریل ازم کہلاتا ہے۔ فطرت کی آواز سننے اور اس کا صحیح جواب دینے کے اعتبار سے ان کی مثال بہتی نہر کے برخلاف حرکت کی سی ہے۔ ممکن ہے اس سے معاشرے میں اجتماعی حیثیت کو ختم ہو جائے۔

← دین کے مفاہیم کو درست بیان نہ کرنا


بیان نادرست مفاهیم دین، به صورت ایجاد تصور نامعقول و غیر علمی از خدا و صفات او یا ایجاد تعارض میان دین و سایر فطریات و تمایلات طبیعی بشر نیز از عوامل سرکوبی فطرت مذهبی است.
[۸۵] جوادی آملی، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۳۹۱- ۴۰۲، مرکز نشر اسراء، قم، چاپ نخست، ۱۳۷۸، (فطرت در قرآن).

متقابلا بعضی عوامل، فطرت و امور فطری را تقویت می‌کنند عواملی چون، پاک بودن از گناه و معنوی بودن جامعه و محیط و بیان عالمانه و صحیح مفاهیم دین، با وجود این عوامل، فطرت خداجوی انسان به راحتی انسان را هدایت می‌کند و او نیز به ندای فطرت پاسخ می‌دهد. ترویج فساد و لهو و لعب بین جوانان و.... . از سوی دشمنان به منظور خاموشی و یا انحراف همین فطرت پاک صورت می‌گیرد.

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج۵، ص۵۵۔    
۲. جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح فی اللغۃ و العلوم، ج۲، ص۷۸۱۔    
۳. طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج۳، ص۴۳۸۔    
۴. ابراہیم/سوره۱۴، آیت ۱۰۔    
۵. انفطار/سوره۸۲، آیت ۱۔    
۶. فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، ص۴۷۶۔    
۷. مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۳، ص۶۰۲۔
۸. مطہری، مرتضی، فطرت، ص۱۹۔    
۹. شمس/سوره۹۱، آیت ۸۔    
۱۰. روم/سوره۳۰، آیت ۳۰۔    
۱۱. ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج۳، ص۴۵۷۔    
۱۲. شہید مطہری، مرتضی، فطرت، ج۱، ص۱۴۔    
۱۳. روم/سوره۳۰،آیت ۳۰۔    
۱۴. بقره/سوره۲، آیت ۱۳۸۔    
۱۵. مطہری، مرتضی، فطرت، ج۱، ص۲۴۔    
۱۶. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۳، ص۲۷۶۔    
۱۷. نحل/سوره۱۶، آیت ۷۸۔    
۱۸. غاشیۃ/سوره۸۸، آیت ۲۱۔    
۱۹. غاشیۃ/سوره۸۸، آیت ۲۲۔    
۲۰. طلاق/سوره۶۵، آیت ۱۰۔    
۲۱. سبحانی، جعفر، مدخل مسائل جدید در علم کلام، ص۱۷۷۔
۲۲. جوادی آملی، عبد الله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۳۰۔
۲۳. جوادی آملی، عبد الله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۳۰۔
۲۴. امام خمینی، روح‌ الله، چہل حدیث، ص۱۸۱۔
۲۵. روم/سوره۳۰، آیت ۳۰۔    
۲۶. مکی عاملی، محمّد، الالہیات علی ہدی الکتاب والسُّنۃ والعقل، ج۱، ص۱۱۔    
۲۷. فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، ج۳، ص۳۲۱۔
۲۸. زخرف/سوره۴۳، آیت ۹۔    
۲۹. عنکبوت/سوره۲۹، آیت ۶۱۔    
۳۰. زخرف/سوره۴۳، آیت ۸۷۔    
۳۱. مؤمنون/سوره۲۳، آیت ۸۴-۸۹۔    
۳۲. امام خمینی، روح‌ الله، چہل حدیث، ص۱۸۱-۱۸۵۔
۳۳. طباطبائی، محمدحسین، نہایۃ الحکمۃ، ج۱، ص۳۱۸۔    
۳۴. تمیمی آمدی، عبد الواحد، غرر الحکم و درر الکلم، ج۱، ص۵۸۸۔    
۳۵. شیرازی، ملا صدر الدین، الحکمۃ المتعالیۃ، ج۹، ص۱۲۴۔
۳۶. مصباح یزدی، محمد تقی، معارف قرآن، ج ۱-۳، ص ۲۹۔    
۳۷. صدوق، محمد بن علی، التوحید، ص۲۳۱۔    
۳۸. جوادی آملی، عبد الله، ده مقالہ پیرامون مبدا و معاد، ص۷۵- ۷۶۔
۳۹. خمینی، روح‌الله، شرح چہل حدیث، حدیث فطرت۔
۴۰. شاه آبادی، محمد علی، رشحات البحار، ص۳۵- ۳۷۔
۴۱. مصباح یزدی، محمد تقی، معارف قرآن، ج۱-۳، ص۳۴۔
۴۲. مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، ج۶، ص۹۰۸۔
۴۳. مصباح یزدی، محمد تقی، آموزش عقائد، ص۶۳۔
۴۴. نساء/سوره۴، آیت ۱۶۵۔    
۴۵. نساء/سوره۴، آیت ۹۸۔    
۴۶. روم/سوره۳۰، آیت ۳۰۔    
۴۷. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۸، ص۲۹۹۔    
۴۸. جوادی آملی، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۲۸۔
۴۹. اعراف/سوره۷، آیت ۱۷۲- ۱۷۳۔    
۵۰. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۸۰، حدیث ۱۶۔    
۵۱. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۸۰، حدیث۱۳۔    
۵۲. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۷۸، حدیث۷۔    
۵۳. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۲، ص۱۰، حدیث ۲۔
۵۴. ابراہیم/سوره۱۴، آیت ۱۰۔    
۵۵. لقمان/سوره۳۱، آیت ۲۵۔    
۵۶. بقره/سوره۲، آیت ۱۳۸۔    
۵۷. مدثر/سوره۷۴، آیت ۵۴۔    
۵۸. غاشیہ/سوره۸۸، آیت ۲۱۔    
۵۹. ذاریات/سوره۵۱، آیت ۵۵۔    
۶۰. حشر/سوره۵۹، آیت ۱۹۔    
۶۱. عنکبوت/سوره۲۹، آیت ۶۵۔    
۶۲. لقمان/سوره۳۱، آیت ۳۳۔    
۶۳. نحل/سوره۱۶، آیت ۵۳۔    
۶۴. آل عمران/سوره۳، آیت ۱۷۷۔    
۶۵. امام علیؑ، نہج‌البلاغۃ، ص۴۳، خطبہ اول۔    
۶۶. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۲، ص۱۲- ۱۳، حدیث ۱۴۔
۶۷. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۳، ص۲۷۹، حدیث ۱۱، ۱۲، ۱۳۔    
۶۸. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۷۷، حدیث ۴، ۵، ۶۔    
۶۹. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۲، ص۱۲، حدیث ۳۔    
۷۰. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۷۸، حدیث۷۔    
۷۱. کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ج۲، ص۱۲، حدیث۲۔
۷۲. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۸۰، حدیث۱۸۔    
۷۳. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۷۷، حدیث۲۔    
۷۴. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۷۹، حدیث۱۱۔    
۷۵. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۷۸، حدیث۱۰۔    
۷۶. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۳، ص۲۷۸، حدیث۱۳۔    
۷۷. خمینی، روح‌ الله، شرح چہل حدیث، ص۱۷۹- ۱۸۷۔
۷۸. ویل دورانت، تاریخ تمدن، ج۱، ص۸۷-۸۹۔
۷۹. مطهری، مرتضی، فطرت، ص۲۱۰-۲۱۲.    
۸۰. طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۱۲، ص۲۸۹۔
۸۱. فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، ج۲، ص۱۴۔
۸۲. فروغی، محمد علی، سیر حکمت در اروپا، ج۳، ص۳۲۱۔
۸۳. منافقون/سوره۶۳، آیه۶.    
۸۴. مرتضی مطهری، مجموعه آثار، ج ۶، ص۴۰۵، صدرا، تهران، چاپ ششم.
۸۵. جوادی آملی، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن، ج۱۲، ص۳۹۱- ۴۰۲، مرکز نشر اسراء، قم، چاپ نخست، ۱۳۷۸، (فطرت در قرآن).


مأخذ

[ترمیم]

کتاب فرہنگ شيعہ، تاليف شده توسط جمعى از نويسندگان، ص۳۶۰-۳۶۳۔
پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، یہ تحریر مقالہ ادلہ ای بر فطرت خداجو‌ی انسان سے مأخوذ ہے، لنک کے مشاہدہ کی تاریخ:۱۳۹۶/۰۴/۱۲۔    






جعبه ابزار