سورہ ابراہیم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



سورہ ابراہیم قرآن کریم کی چودہویں (۱۴) سورہ ہے جس کی آیات کے عدد میں قراء نے اختلاف کیا ہے۔ بصرہ کے قراء کے قائل ہیں کہ اس سورہ کی ۵۱ آیات ہیں جبکہ کوفہ کے قراء قائل ہیں کہ اس کی ۵۲ آیات ہیں، مدینہ کے قراء کے نزدیک اس کی ۵۴ آیات اور شام کے قراء کے نزدیک اس سورہ کی ۵۵ آیات ہیں۔ بعض دیگر قراء نے اس سورہ کی ۵۰ آیات ذکر کی ہیں۔ علم فقہ میں باب الصلاۃ کے ذیل میں اس سورہ کے آیات کے عدد سے بحث کی گئی جاتی ہے۔


اجمالی تعارف

[ترمیم]

مشہور و محکم قول کے مطابق سورہ ابراہیم ترتیب نزولی کے اعتبار سے ۷۲ نمبر سورہ ہے جس کے ۸۳۱ کلمات اور ۳۴۳۴ حرف ہیں۔
[۱] رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۸۴۔
[۲] رامیار، محمود، تاریخ قرآن،ص۶۱۱۔
[۳] رامیار، محمود، تاریخ قرآن،ص۶۱۲۔
[۵] طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۳، ص۳۰۱۔
[۶] آلوسی، محمود، روح المعانی، ج۱۳، ص۱۷۹۔
[۷] سیوطی، عبد الرحمن، الاتقان، ج۱، ص۲۳۵۔


سوره ابراہیم کی وجہ تسمیہ

[ترمیم]

اس سوره کو ابراہیم کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ اس سورہ میں حضرت ابراہیمؑ کی داستان بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے اسم، ان کے خانہ کعبہ تعمیر کرنے کی داستان اور مختلف دعاؤں کا ذکر ہے۔ اسی وجہ سے اس سورہ کو ابراہیم کے نام سے موسوم کیا گیا۔ علامہ صاوی تفسیر الجلالین کے حاشیہ پر سورہ ابراہیم کی وجہ تسمیہ پر وارد ہونے والے ایک اشکال کا جواب دیتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کے نام توفیقی ہیں۔
[۸] صاوی، احمد، حاشیہ علی تفسیر الجلالین، ج۲، ص۲۷۹۔
مفسرین کے نزدیک سورہ ابراہیم مکی سورہ ہے، سواۓ اس سورہ کی آیت نمبر ۲۸ اور ۲۹ کہ ان دو آیات کو مدنی آیات قرار دیا گیا ہے۔ ابن عباس اور قتادہ کی روایت کے مطابق یہ سورہ جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکینِ مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
[۹] طوسی، محمد بن حسن، التبیان، ج۱، ص۲۶۹۔
[۱۰] طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان،ج۳، ص۳۰۱۔
[۱۱] قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ج۱۰، ص۳۳۸۔
[۱۲] سیوطی، عبد الرحمن، الدّر المنثور، ج۴، ص۶۹۔


سوره ابراہیم کب نازل ہوئی؟

[ترمیم]

مفسرین کے درمیان سورہ ابراہیم کے سالِ نزول کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مجاہد کی روایت کی بناء پر سورہ ابراہیم سورہ نوح کے بعد اور سورہ سجدہ سے پہلے نازل ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود کی روایت کی مطابق یہ سورہ ص سے پہلے اور سورہ ملائکہ (سورہ فاطر) کے بعد نازل ہوئی۔ ابی بن کعب کی روایت کے مطابق یہ سوره سجدہ کے بعد اور سورہ ملائکہ (فاطر) سے پہلے نازل ہوئی۔
[۱۳] ابن ندیم، الفہرست، ج۱، ص۲۸-۲۹۔
[۱۴] ابن ندیم، الفہرست، ج۱، ص۳۰۔
قرآن کریم کے موجودہ مصحف میں سورہ ابراہیم سورہ رعد کے بعد اور سورہ حجر سے پہلے آتی ہے۔

سوہ ابراہیم کے اہم مطالب

[ترمیم]

سوره ابراہیم کا بنیادی موضوع توحید، قیامت اور حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں کعبہ کی تعمیر ہے۔ اس سورہ میں متعدد پیغمبروں اور ان کی قوموں کا تذکرہ وارد ہوا ہے، جیسے قوم نوح، قوم عاد و ثمود۔ اس سورہ میں حضرت موسیؑ اور بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ اس سورہ میں حضرت موسیؑ اور حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ خصوصی طور پر تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے اور حضرت ابراہیمؑ کا سر زمین مکہ یعنی وادٍ غَیۡرِ ذِی زَرۡعٍ سے کوچ کرنے کو بیان کیا گیا ہے۔

سوره ابراہیم کے پڑھنے کا مستحب ہونا

[ترمیم]

روایات کے مطابق جمعہ کے دن دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے جس میں سورہ ابراہیم اور سورہ حجر پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ وارد ہوا ہے کہ جو شخص روز جمعہ يہ نماز پڑھے گا وہ غربت، جنون اور مصیبت و بلاء سے محفوظ رہے گا۔
[۱۵] شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ص۳۱۹۔


منابع

[ترمیم]

(۱) آلوسی، محمود، روح المعانی، بیروت، ۱۳۵۵ق/۱۹۳۶م۔
(۲) ابن ندیم، الفہرست۔
(۳) سیوطی، الاتقان، بہ کوشش ابو الفضل ابراہیم، قاہره، ۱۹۶۷م۔
(۴) سیوطی، الدّر المنثور، قم، ۱۴۰۴ق۔
(۵) صاوی، احمد، حاشیہ علی تفسیر الجلالین، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔
(۶) طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، صیدا، ۱۳۳۳ق۔
(۷) طوسی، محمد بن حسن، التبیان، بہ کوشش احمد حبیب قصیر العاملی، بیروت، داراحیاء التراث العربی۔
(۸) قرطبی، محمدبن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بہ کوشش ابواسحاق ابراہیم اطیفش، بیروت، ۱۹۶۵م۔
(۹)رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، ۱۳۶۲ش۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۸۴۔
۲. رامیار، محمود، تاریخ قرآن،ص۶۱۱۔
۳. رامیار، محمود، تاریخ قرآن،ص۶۱۲۔
۴. طوسی، محمد بن حسن، التبیان، ج۶، ص۲۶۹۔    
۵. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۳، ص۳۰۱۔
۶. آلوسی، محمود، روح المعانی، ج۱۳، ص۱۷۹۔
۷. سیوطی، عبد الرحمن، الاتقان، ج۱، ص۲۳۵۔
۸. صاوی، احمد، حاشیہ علی تفسیر الجلالین، ج۲، ص۲۷۹۔
۹. طوسی، محمد بن حسن، التبیان، ج۱، ص۲۶۹۔
۱۰. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان،ج۳، ص۳۰۱۔
۱۱. قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، ج۱۰، ص۳۳۸۔
۱۲. سیوطی، عبد الرحمن، الدّر المنثور، ج۴، ص۶۹۔
۱۳. ابن ندیم، الفہرست، ج۱، ص۲۸-۲۹۔
۱۴. ابن ندیم، الفہرست، ج۱، ص۳۰۔
۱۵. شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، ص۳۱۹۔
۱۶. حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج۷، ص۳۷۱۔    


مأخذ

[ترمیم]
دانشنامہ بزرگ اسلامی، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، اس تحریر کو مقالہ سورہ ابراہیم سے لیا گیا ہے۔    
فرہنگ فقہ فارسی مطابق با مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۱،ص۲۳۲۔    






جعبه ابزار