قرآن کریم میں مشترک لفظی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فقہ اللغۃ اور علم اصول کى اصطلاحات مىں سے ایک اصطلاح مشترک ہے جس كا تعلق کلماتِ قرآن کو جاننے اور ان کے معانی کی پہچان سے ہے۔

فہرست مندرجات

۱ - قرآن کریم میں مشترک لفظی
       ۱.۱ - مشترک لفظی کی تعریف
              ۱.۱.۱ - تعریف میں شرائط و قیود میں اختلاف
              ۱.۱.۲ - شرائط و قیود میں اختلاف کی وجہ
              ۱.۱.۳ - چند اہم نکات
       ۱.۲ - عہد رسالت میں قرآن میں مشترک لفظی کا ہونا
       ۱.۳ - مشترک لفظی قدماء کی نظر میں
              ۱.۳.۱ - وجوه و نظائر
              ۱.۳.۲ - مشترک لفظی قدماء کے کلام میں
              ۱.۳.۳ - مشترک لفظی کے مفہوم میں وسعت
              ۱.۳.۴ - ابتدائی علماء کا افراط و تفریط کا شکار ہونا
۲ - مشترک لفظی کی اقسام
       ۲.۱ - مشترک لفظی کی پیدائش کے اسباب
              ۲.۱.۱ - پہلا سبب
              ۲.۱.۲ - دوسرا سبب
              ۲.۱.۳ - تیسرا سبب
۳ - مشترک لفظی کا نسبی ہونا
       ۳.۱ - مشترک لفظی کا باقی نہ رہنا
       ۳.۲ - مشترک لفظی قرآن کریم میں
              ۳.۲.۱ - پہلا قول اور اس کی تین دلیلیں
              ۳.۲.۲ - دوسرا نظریہ اور قولِ اول کی ادلہ کا جواب
۴ - مشترک لفظی کا ایک سے زائد معنی میں استعمال
       ۴.۱ - پہلا نظریہ
       ۴.۲ - دوسرا نظریہ
              ۴.۲.۱ - شبہ اور اس کا جواب
              ۴.۲.۲ - زرکشی کا قول اور اس کا رد
۵ - مشترک لفظی کا حکم
       ۵.۱ - قاعدہ شرعی معنی کو مقدم کرنا، ایک شبہ اور جواب
۶ - حوالہ جات
۷ - مأخذ

قرآن کریم میں مشترک لفظی

[ترمیم]

لغت میں مشترک کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:
۱۔ مشترک لفظی
۲۔ مشترک معنوی
ان سطور میں ہم مشترک لفظی سے بحث کریں گے اور اس کے متعلق دیکھیں گے کہ یہ کہاں سے وجود میں آیا اور اس کے بارے میں اہل لغت، علماء اصول اور ماہرین علومِ قرآنی کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ مشترک لفظی كو فقہ اللغۃ كے علاوہ اصول فقہ اور منطق میں مباحث الفاظ کے ذیل میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اسی طرح علم بیان ميں مشترک لفظی سے (مبحثِ کنایہ و تعریض اور علم بدیع میں (مبحثِ توریہ و استخدام ) كے ذیل میں بحث کی جاتی ہے۔
علوم قرآن كى متعدد ابحاث دىگر علوم سے بطور قرض لی گئی ہیں ۔ ان ابحاث میں سے ایک بحث مشترک لفظى ہے۔ علومِ قرآن كے ماہرىن نے اس بحث كا شمار اس علم كے اہم مباحث میں کیا ہے اور قرآنى آىات پر اس کى تطبىق کى ہے۔ قرآنی كلمات میں مشترک لفظى كا ہونا اس بحث سے تعلق رکھتا ہے کہ آیا کلامِ عرب میں مشترک لفظی موجود ہے یا نہیں؟ كلام عرب میں اس موضوع پر اختلاف پایا جاتا ہے اور اس اختلاف کے واضح اثرات قرآنی کلمات اور ان سے لیے جانے والے معنی پر دکھائی دیتے ہیں۔

← مشترک لفظى کى تعریف


مشترک لفظی کی تعریفیں مختلف اسلوبوں میں كى گئى ہیں جن کا لب لباب یہ بنتا ہے کہ اہل زبان کے نزدیک جب ایک لفظ دو ىا دو سے زائد مختلف معانى پر برابر دلالت کرے تو اس كو مشترک لفظى کہتے ہیں۔ مشترک لفظى مىں ایک لفظ بیک وقت کم سے کم دو مختلف معنى پر دلالت كرتا ہے اور لفظ کى دلالت کے اعتبار سے ایک معنی دوسرے معنى پر ترجیح نہیں ركھتا۔

←← تعریف میں شرائط و قیود میں اختلاف


مشترک لفظی کی تعریف میں کون کون سی شرائط اور قیود بائی جاتی ہیں؟ اس بارے میں علماء و محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض علماء نے مشترک لفظی میں معنى کے متعدد ہونے کے ساتھ ساتھ وضع کے متعدد ہونے کی قید کو بھی معتبر قرار دیا ہے۔ وضع کے متعدد ہونے سے مراد یہ ہے کہ لفظ ہر معنی کے لیے جدا طور پر وضع کیا گیا ہو۔ نیز مشترک لفظى ہونے کے لیے ضرورى ہے کہ اس کے متعدد معانى کے درمیان علاقہ یعنى كسى قسم کا تعلق اور قدرِ جامع نہ پایا جائے ورنہ وہ مشترک لفظى نہیں کہلائے گا بلکہ حقیقت و مجاز یا مشترک معنوی یا منقول میں ڈھل جائے گا۔ اسی طرح بعض نے ذکر کیا ہے کہ مشترک لفظى میں لفظ کے متعدد معانى مىں کسى ایک معنى کو دوسرے معنى پر زمانے کے اعتبار سے کسى قسم کی ترجیح و تقدم یا فوقیت و برتری حاصل نہیں۔ اگر لفظ کے متعدد معانى ہوں اور وہ لفظ ایک معنى کے لیے دوسرے معنى کى نسبت پہلے وضع ہوا ہو تو مشترک لفظی نہیں بلکہ منقول کہلائے گا۔ پس مشتركِ لفظى اور منقول مىں فرق ملحوظ ركھنا ضرورى ہے اور وہ یہ ہے کہ لفظِ مشترک میں متعدد معانى میں کسى ایک معنى كو پہل حاصل نہیں جبکہ منقول میں لفظ ایک معنى كے ليے پہلے اور اس کے بعد دوسرے معنى کے لىے وضع ہوا۔

←← شرائط و قیود میں اختلاف کی وجہ


مشترک لفظى کى تعریف میں مختلف قیود اور شرائط میں اختلاف کی بنیادی وجہ محققین کا مختلف علوم میں دورانِ بحث متعدد احتمالات کو مدنظر رکھنا ہے۔ ان اختلافات کا راہِ حل يہ ہے کہ علوم کے اندر جب علمی ابحاث كو ملاحظہ کیا جاتا ہے اور مشترک لفظی میں طرح طرح کے احتمالات دیئے جاتے ہیں ان احتمالات کی تنقیح کى جائے اور ان كو برطرف کر کے مشترک لفظى کى تعریف کی جائے۔ اس دوران ضرورى ہے کہ درج ذیل نكات کی خصوصی رعایت کی جائے:
۱۔ ماہرینِ لغت تعریف میں جن اوصاف کى رعايت کريں ضرورى ہے کہ وہ اہل زبان اور عوام الناس میں رائج اور متعارف ہوں۔ یہ تب ممکن ہے جب اہل زبان کے لفظى استعمالات کى وسیع معلومات اور ان کا احاظہ ہو۔
۲۔ تعریف میں جن قیود کا تذکرہ کیا جائے ضرورى ہے کہ وہ علمى حیثیت رکھتی ہوں اور ثمر آور ہوں۔
۳۔ ضرورى ہے کہ تعريف میں موجود قیود واضح، روشن اور تحقيقِ علمى کے عىن مطابق ہوں۔

←← چند اہم نکات


مشترک لفظی کی تعريف کرتے ہوئے درج ذیل نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱۔ ہمارے لیے یہ مشخص نہیں ہے کہ واضع نے ایک لفظ کو کب، کس زمانے میں اور لغت میں کس معنی کے لیے ایجاد و وضع کیا تھا جس کی وجہ سے وضع ایک مبہم اور نا قابل تحقیق مفہوم کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ لہذا مشترک لفظی کی تعریف میں کسی بھی مناسب قید کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ کسی قید کو ہم معتبر قرار دے سکتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس تنہا راستہ یہی رہ جاتا ہے کہ ہم اہل زبان کے استعمالات کے ذریعے مشترک لفظی کو پہچانیں اور [[|استعمال لفظاستعمالِ لفظ]] کو ملاک تعريف قرار دیں۔
۲۔ ايسی قیود سے اجتناب کیا جائے جن کا کوئی علمی فائدہ نہیں ہے، جیسے لفظ کا ایک قبیلہ سے ہونا یا ایک لفظ کا مختلف معانی کے لیے ایک ہی زمانے میں وضع ہونا کوئی علمی فائدہ نہیں رکھتا۔کیونکہ اہل زبان ایک لفظ کو متعدد معانی میں ان قیود کے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ اہل زبان کے پیش نظر یہ نہیں ہوتا کہ یہ لفظ ایک قبیلہ سے ہے یا نہیں ہے؟! یا لفظ جو متعدد معانی کے لیے ایجاد ہوا ہے اس میں ایک زمانے کو مدنظر رکھا گیا ہے یا نہیں؟! وہ ان قیود کو نظر انداز کر کے ایک لفظ کو متعدد معانی میں استعمال کرتے ہیں اور اس نوعیت کے فرق اور تفاوت کو خاطر میں نہیں لاتے۔

مشترک لفظی میں واحد قید جس کا احتمال دینا مناسب اور فائدہ مند ہے وہ لفظ کے متعدد معانی کے درمیان علاقہ یا قدر مشترک کے نہ ہونے کا اعتبار ہے۔ کیونکہ اہل زبان کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی کہ لفظ کے متعدد معانی کے درمیان کوئی تعلق یا علاقہ یا قدرِ مشترک ہے یا نہیں بلکہ وہ اس طرف متوجہ ہوئے بغیر لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں لفظِ مشترک کو حقیقت و مجاز سے جدا کرنے کے لیے اس قید کا اعتبار کرنا فائدہ مند ہے۔ چنانچہ اہل زبان کے درمیان استعمال ہونے والے الفاظ کو مدنظر رکھیں تو ہم تعلق اور قدرِ مشترک کے ہونے یا نہ ہونے کو اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ اگر لفظ کے متعدد معانی میں تعلق ہو تو وہ حقیقت و مجاز کا مصداق قرار پائيں گے اور اگر متعدد معانی کے درمیان قدرِ مشترک ہو تو اس کو ہم مشترک معنوی سے تعبیر کریں گے۔ اگر متعدد معانی کے درمیان کسی قسم کا تعلق اور قدرِ مشترک نہ ہو تو اس کو مشترک لفظی سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس بناء پر مشترک لفظی سے مراد وہ لفظ ہے جو مختلف موارد میں متعدد معانی میں استعمال ہو اور اہل زبان ان معانی کے درمیان کسی قسم کا تعلق یا قدرِ مشترک کو ملاحظہ نہیں کرتے۔
[۴] کیہان اندیشہ، ش‌۵۶، ص‌۱۴۹۔


← عہد رسالت میں قرآن میں مشترک لفظی کا ہونا


صدرِ اسلام میں ہی مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرا دیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں مشترک لفظی موجود ہے، جیساکہ رسول اللہ (صلی‌الله‌علیہ وآلہ) سے منقول ہے: القرآن ذَلولٌ ذو وجوهٍ فاحمِلوه علی أحسن الوجوه؛ قرآن (کے معانی) ایسے دسترس میں قرار دیئے گئے ہیں جس کی کئی وجوہ و معانی بنتے ہیں، پس تم لوگ اس کو سب سے بہترین وجہ و معنی پر حمل کرو۔ نیز وارد ہوا ہے کہ امام علی علیہ السلام نے اپنے زمانہِ خلافت میں جب جناب عبد اللہ ابن عباس کو خوارج کی طرف بھیجا تو آپؑ نے ان سے فرمایا: لاتُخاصمْهم بالقرآن، فإنّ القرآنَ حمّالٌ ذو‌وجوه تقول ویقولون؛ (اے ابن عباس) تم ان سے قرآن کے ذریعے بحث نہ کرنا کیونکہ قرآن مختلف معانی کا حامل ہوتا ہے اور بہت سی وجوہ رکھتا ہے، تم اپنی کہتے رہو گے اور وہ اپنی کہتے رہیں گے۔ علامہ مجلسی نے نقل کیا ہے کہ قرآن کریم متفق اللفظ ہے لیکن اس کے معانی مختلف ہیں۔

← مشترک لفظی قدماء کی نظر میں


قدماء کے نزدیک مشترک لفظی ایک مفہومِ عام ہے جو وجوہ اور نظائر کے مترادف شمار ہوتا ہے۔ ان کے نزديک مشترک لفظی میں لفظ کے اعتبار سے اتفاق و اتحاد اور معنی کے اعتبار تعدد اور اختلاف پایا جاتا ہے ۔ فرق نہیں پڑتا يہ لفظی اتفاق اور معنی میں اختلاف مفرد و مرکب میں ہو یا موضوع و مستعمل میں، اصیل و دخیل میں ہو یا حقیقت و مجاز میں، مشترک لفظی میں ہو یا معنوی میں۔ قدماء کے نزديک مشترک کا معنی ان کتابوں کے ناموں سے بھی سامنے آ جاتا ہے جو الوجوہ و النظائر یا ما‌ اتفقت الفاظہ و اختلفت معانیہ کے عناوین سے لکھی گئی ہیں۔ یا مشترک کی وہ تعریفیں جو ہماری دسترس میں ہیں یہ بہترین مؤید بن جاتی ہیں جن کے ذریعے قدماء کے نزدیک مشترک لفظی کے معنی کی جامعیت اور وسعت کا علم ہو جاتا ہے۔

←← وجوه و نظائر


وجوہ و نظائر دو کلمے ہیں جو مرکب صورت میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں ابو الفرج جوزی (متوفی ۵۹۷ ھ) لکھتے ہیں:أَن معنی الْوُجُوه والنظائر أَن تکون الْکلِمَة وَاحِدَة، ذکرت فِي مَوَاضِع من الْقُرْآن علی لفظ وَاحِد، وحرکة وَاحِدَة، وَأُرِيد بِکل مَکان معنی غير الآخر ۔۔ فَإِذن النَّظَائِر: اسْم للألفاظ، وَالْوُجُوه: اسْم للمعاني، فَهَذَا الأَصْل فِي وضع کتب الْوُجُوه والنظائر، وَالَّذِي أَرَادَ الْعلمَاء بِوَضْع کتب الْوُجُوه والنظائر أَن يعرفوا السَّامع لهَذِهِ النَّظَائِر أَن مَعَانِيهَا تخْتَلف، وَأَنه لَيْسَ المُرَاد بِهَذِهِ اللَّفْظَة مَا أُرِيد بِالْأُخْرَی؛ وجوہ و نظائر کا معنی یہ ہے کہ ایک کلمہ قرآن کی مختلف جگہوں میں لفظِ واحد کے طور پر ذکر کیا گیا ہو اور کی حرکات بھی ایک ہوں، لیکن ہر جگہ اس لفظ کا معنی دوسری جگہ سے مختلف ہو ۔۔۔ پس نظائر سے مراد الفاظ ہیں اور وجوہ سے مراد معانی۔ چنانچہ وجوہ و نظائر کی کتب میں یہ اصل ہے، اور وجوہ و نظائر کے عنوان سے لکھی گئی کتابوں میں علماء کے پیش نظر یہ تھا کہ ان نظائر و الفاظ کے سننے والے کو سمجھا دیں کہ ان کے معنی مختلف و متعدد ہیں اور اس لفظ کا ایک جگہ جو معنی ہے دوسری جگہ اس لفظ کا وہ معنی مراد نہیں ہے۔
بعض ماہرین لغت جیسے زرکشی ان دونوں الفاظ میں جدائی اور علیحدگی کے قائل ہیں، جیساکہ وہ بیان کرتے ہیں: وجوہ لفظِ مشترک ہے جو چند معانی میں استعمال ہوتا ہے، جیسے لفظِ امت ہے، اور نظائر مثلا الفاظ متواطی۔ ان کی لفظِ متواطئ سے مراد مشترک معنوی ہے۔ بعض کے نزديک زرکشی کے کلام میں متواطی سے مراد مترادف ہے جوکہ درست نہیں ہے کیونکہ وجوہ و نظائر کے ناموں سے جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں مترادف کلمات سے بحث نہیں کی گئی ہے بلکہ اس سے بحث کی گئی ہے کہ ایک لفظ مختلف جگہوں میں مختلف معانی کا حامل ہوتا ہے۔ چاہے وہ لفظ جو مختلف جگہ پر مختلف معنی میں استعمال ہو رہا ہے وہ مشترک لفظی ہے یا مشترک معنوی ہے یا حقیقت و مجاز کے باب سے ہے۔ کیونکہ قدماء کے نزديک متأخرین کے معنی میں مشترک لفظی سے بحث نہیں کی جاتی تھی۔ بلکہ قدماء مطلق طور پر ایک لفظ کو مختلف موارد میں متعدد معانی میں استعمال ہونے کو ملاحظہ کرتے تھے۔

←← مشترک لفظی قدماء کے کلام میں


قدماء کے کلام میں مشترک لفظی کی اصطلاح موجود نہیں ہے۔ وہ مشترک لفظی کی بجائے وجوہ و نظائر یا متفق اللفظ و مختلف المعنی کی تعبیر استعمال کرتے تھے۔ تحقیق کے مطابق پہلی شخصیت جس نے مشترک لفظی کی تعبیر ان اصطلاحی معنی میں استعمال کی وہ ابن فارس ہے۔ ابن فارس نے معنی مشترک کا عنوان قائم کر کے مشترک کے معنی اس طرح سے ذکر کیے ہیں: وہ لفظ جس میں دو یا دو سے زائد معنی کا احتمال دیا جائے، جیساکہ فرمانِ الہی ہے: فَاقذِ فیهِ فِی الیَمِّ فَلیُلقِهِ الیَمُّ بِالسّاحِلِ اس آیت میں فَلْیُلْقِه کے معنی میں دو احتمال ہیں: یا تو خبر کا معنی کريں گے، گویا اس کا معنی یہ ہو گا: وہ (موسی ع) کو صندوق میں ڈال کر سمندر میں بہا دے تاکہ سمندر انہیں ساحل پر لا پھينکے، یا امر کا احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ سمندر کو حکم ہے کہ وہ اس کو ساحل پر پھينک دے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے: ذَرنی و مَن خَلَقتُ وحیدا اس آیت میں وحیداً میں دو معنی کا احتمال ہے: ۱) خلقت میں یگانہ و منفرد، ۲) مال اور فرزند میں یگانہ و منفرد۔

←← مشترک لفظی کے مفہوم میں وسعت


قدماء مشترک لفظی کے مفہوم میں جامعیت و وسعت کے قائل تھے اس لیے وہ اکثر لغاتِ عرب اور ڈکشنری کے کلمات کو مشترک قرار دیتے تھے اور تمام حروف، ان کے اشتقاقی صیغے اور نحوی آثار کو مشترک سے تعبیر کرتے۔ نحو، بلاغت اور اصول فقہ کی کتابوں میں انہوں نے لغاتِ عرب کے متعدد معانی ذکر کیے ہیں، مثلا وہ لفظِ شَنِفَت و شَفِنْت يا لَجِز و لَزِج کو ایک لغت اور مقلوب قرار دیتے اور مشترک شمار کرتے تھے۔ قدماء نے لغاتِ عرب اور ڈکشنری کے کلمات کے دسیوں معانی ذکر کیے ہیں، مثلا حوب کے ۳۰ معنی اور عجوز کے ۱۰۰ معنی نقل کیے ہیں۔ وجوہ و نظائر کے عنوان سے لکھی گئی کتابوں میں تقریبا ۵۴۰ الفاظِ مشترک ذکر کیے گئے ہیں۔
[۲۱] الاشتراک اللفظی، ص‌۲۴۹‌- ‌۲۶۶۔


←← ابتدائی علماء کا افراط و تفریط کا شکار ہونا


قدماء نے افراط کا شکار ہوتے ہوئے قرآن کے بہت سے الفاظ کو مشترک اور ذو وجوہ قرار دیا ہے اور قرآنی الفاظ کے متعدد و کثیر معانی کے قائل ہو گئے۔ البتہ اس طرزِ تفکر کے حامی حضرات آج بھی کہیں کہیں دکھائی دے دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں بعض علماء و اعلام تفريط کا شکار ہوئے۔ خصوصا تيسری صدی ہجری میں بعض علماءِ اسلام نے عقلی و عرفانی نکتہ نظر سے قرآن کے الفاظِ مشترک کا جائزہ لیا اور تفریط کا شکار ہوتے ہوئے مشترک لفظی کی حدود میں متعدد قیود کا اضافہ کر کے اس کا دائرہ تنگ کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشترک لفظی کے استعمال کا کوئی مورد باقی نہیں بچا۔ لہذا وہ کلی طور پر کلامِ عرب میں مشترک لفظی کے وجود کے منکر ہو گئے اور ان تمام موارد جن میں مشترک لفظی کا احتمال دیا جا سکتا تھا کی تاویل کر کے اسے مشترک معنوی یا حقیقت و مجاز قرار دے دیا۔
[۲۲] الاشتراک اللفظی، ص‌۳۷‌ ‌۴۳۔

قدماء میں سے ترمذی (متوفی ‌۲۸۵‌ ھ)، ابن‌دُرُسْتُوَیْه (متوفی ‌۳۴۷‌ ھ)، ابو علی فارسی (متوفی ‌۳۷۷‌ ھ)، ابن‌ فارس (متوفی ‌۳۹۵‌ ھ)، ابو ہلال عسکری (متوفی ‌۳۹۵‌ ھ)، راغب اصفہانی (متوفی ‌۴۲۵‌ ھ) زمخشری (متوفی ‌۵۳۸ ھ) و ابن‌جوزی (متوفی ‌۵۹۷‌ ھ) اور معاصرین میں سے حسن مصطفوی اور منجد وہ اہم شخصیات ہیں جنہوں نے مشترک لفظی کا تقریبا انکار کیا ہے۔ قرآن میں مشترک لفظی ہونے کے اعتبار سے اہم ترین کتب جو ہم تک پہنچی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
الاشباہ و النظائر فی القرآن الکریم مقاتل‌ بن‌ سلیمان (متوفی ‌۱۵۰‌ ھ)، الوجوه و النظائر ہارون‌ بن‌ موسی (متوفی ‌۱۷۰ ھ)، التصاریف یحیی‌ بن‌ سلام (متوفی ‌۲۰۰‌ ھ)، ما اتفق لفظہ واختلف معناہ من القرآن المجید مبرد (متوفی ‌۲۸۶‌ ھ)، تحصیل نظائر القرآن ترمذی (متوفی ‌حدود ۳۲۰‌ ھ)، الاشباه و النظائر فی الالفاظ القرآنیۃ ثعالبی (متوفی ‌۴۲۹‌ ھ)، وجوہ القرآن اسماعیل‌ بن‌ احمد نیشابوری، الوجوہ و النظائر حسین دامغانی (متوفی ‌۴۷۸‌ ھ)، نزہت الاعین ابن‌جوزی (متوفی ‌۵۹۷‌ ھ)، وجوہ القرآن حُبَیش تفلیسی (متوفی ‌۶۲۹‌ ھ)، بصائر ذوی التمییز فیروز آبادی (متوفی ۸۱۷‌ ھ)، کشف‌ السرائر عن معنی الوجوہ و الاشباہ والنظائر شمس‌ الدین بلییسی (متوفی ‌۸۸۷‌ ھ)، حسن البیان فی نظم مشترک القرآن عبدالہادی ابیاری (متوفی ‌۱۳۰۵‌ ھ)، المشترک اللفظی فی الحقل القرآنی عبد العال سالم مکرم (معاصر) اور کتاب الاشتراک اللفظی فی القرآن الکریم محمد نورالدین منجد (معاصر)۔
[۲۳] الاشتراک اللفظی، ص‌۷۵‌-‌۸۲‌۔


مشترک لفظی کی اقسام

[ترمیم]

مشترک لفظی کو مختلف جہات سے تقسیم کیا گیا ہے؛ مشترک لفظی کے معانی کے اعتبار سے اس کو دو قسموں متضاد و متباین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ متضاد جیسے کلمہِ عَسْعَسَ ہے کہ اس کے دو متضاد معنی ذکر کیے گئے ہیں: ۱۔ آگے آنا، ۲۔ پیچھے ہٹنا۔ اسی طرح تباین ہے، جیسے کلمہِ عین ہے کہ اس کے متعدد متباین معنی ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں: ۱۔ آنکھ، ۲۔ جاسوس، ۳۔ فوارہ، ۴۔ سونے کے ناموں میں سے ایک نام وغیرہ۔
بعض محققین نے ایک متن یا ایک آیت میں لفظِ مشترک کی معنی مراد پر دلالت کے اعتبار سے تین قسمیں ظاہر، مُؤوّل اور مجمل ذکر کی ہیں۔ ظاہر سے مراد وہ لفظ مشترک ہے جس کا معنی ایک متن میں واضح، روشن اور دیگر معانی کی نسبت راجح ہو اور وہ معنی مرادِ متکلم بھی ہو۔ مؤوّل سے مراد وہ لفظ مشترک ہے جس کا معنی ایک متن میں مرجوح ہو اور مرادِ متکلم پر اس کی دلالت ضعیف تر ہو نہ کہ راجح و ظاہر یو۔ جبکہ مجمل اس لفظ کو کہتے ہیں جس کے کم سے کم ایک متن میں دو معنی ہوں اور دونوں کا برابر احتمال پایا جاتا ہو اور متن میں ایسے قرائن بھی موجود نہ ہوں جن کی بناء پر دونوں میں سے ایک معنی کو ترجیح دی جا سکے۔ اس بناء پر لفظِ مجمل کو ہمیشہ مبہم قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح زرکشی نے متن میں علم بدیع کی اقسام میں سے دو قسمیں ایہام ( توریہ ) اور استخدام کو فقہ اللغہ اور علم بدیع کی اصطلاحات کے باہمی امتزاج سے حکایت کرتے ہوئے لفظِ مشترک کی دلالت کے باب سے قرار دیا ہے۔

← مشترک لفظی کی پیدائش کے اسباب


مشترک لفظی کے وجود کے متعدد اسباب و عوامل ذکر کیے گئے ہیں جن میں سے اہم ترین سبب معنی کا ترقی پانا، اشتقاقی طور پر مشترک ہونا اور وضع میں موافق ہونا ہے۔

←← پہلا سبب


بیشتر الفاظِ مشترک کے وجود کا سبب معنی میں ترقی اور مدلول کا متعدد ہونا ہے۔
[۲۷] الاشتراک اللفظی، ص‌۴۳۔
آغاز میں ایک لفظ کا اپنے اصلی معنی کی بجائے دوسرے معنی میں استعمال ہونا مجازی طور پر تھا۔ ایک لفظ معنیِ مجازی میں اس وقت استعمال ہوتا ہے جب معنی حقیقی اور معنی مجازی کے درمیان کوئی تعلق پایا جائے۔ دونوں معنی میں اس تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے لفظ کو کثرت سے مجازی معنی میں استعمال کیا جانے لگا یہاں تک کہ ایک مدت گزرنے کے بعد کثرتِ استعمال کی بناء پر لفظ اس معنیِ مجازی میں حقیقت بن گیا اور اس طرح لفظ کی دلالت اس معنی پر دونوں معانی میں بغیر ربط و تعلق کے ہونے لگی اور اس طرح لفظ دوسرے معنی میں بھی حقیقت بن گیا۔ یہاں سے لغت میں ایک لفظ کے دو معانی نے جنم لیا اور مشترک لفظی حاصل ہوا۔
[۲۸] کیہان اندیشہ، ش ‌۵۶، ص‌۱۵۲۔

مثال کے طور پر آپ لفظِ عین لے لیں۔ اس لفظ کا بالفرض حقیقی معنی آنکھ کے ہیں۔ لفظِ عین کا استعمال آنکھ کی بجائے چشمہ پر مجازًا کیا جائے چونکہ دونوں معنی میں ربط اور تعلق پانی کے جاری ہونے کا ہے؛ پانی کے چشمے سے بھی پانی ابھر کر نکلتا ہے اور آنکھ سے بھی پانی ابھر کر بہہ جاتا ہے، اس تعلق اور ربط کی وجہ سے لفظِ عین کا استعمال آنکھ کے ساتھ ساتھ مجازی معنی یعنی چشمہ پر بھی ہونے لگا۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں معنی میں تعلق اور ربط کو فراموش کر دیا گیا اور آہستہ آہستہ لفظِ عین کی دلالت چشمہ بر بغیر کسی ربط و تعلق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونے لگی۔ پس جب عین بغیر کسی علاقہ اور قرینہ کے چشمہ پر بولا جانے لگا تو یہاں سے لفظِ عین چشمہ کے معنی میں حقیقت بن گیا۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اگر لغت کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں کثیر ایسے الفاظ نظر آ جائیں گے جو آغاز میں مجاز کہلاتے تھے لیکن آہستہ آہستہ مجاز سے حقیقت میں تبدیل ہو گئے اور مشترک لفظی کی پیدائش اور وجود کا سبب قرار پائے۔
[۲۹] الاشتراک اللفظی، ص‌۴۳۔


←← دوسرا سبب


دوسرا سبب ایک لفظ کے حروف یا مخارج کے قریب ہونے کی بیناء پر معنی میں وسعت آنا ہے۔ عموما یہ ان الفاظ میں ہوتا ہے جو حروف میں ایک دوسرے کے قریب یا مخرج اور ادائیگی میں ایک دوسرے کے نزدیک ہوں۔ جب دو الفاظ کے حروف ایک دوسرے سے قریب ہونے یا قریب المخرج ہونے کی بناء پر ایک کا معنی دوسرے لفظ کے معنی میں سرایت کر جاتا ہے۔ اہل زبان مشباہت رکھنے والے حروف یا قریب المخرج حروف کو جب سنتے ہیں تو سننے سمجھنے میں بعض اوقات اشتباہ کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ عمل جب معاشرے میں پھیل جائے تو آہستہ آہستہ ایک لفظ کا معنی دوسرے لفظ کے معنی میں سرایت کر جاتا ہے۔، مثلا لفظِ خبیث کے معانی میں سے ایک معنی پلید و آلودہ کے ہیں۔ اسی طرح دوسرا لفظ خبیت ہے جس کا مطلب ٹوٹا ہوا، شکستہ اور پلید کے ہیں۔ اصل میں خبیث اور خبیت کے حروف باہمی طور پر قریب ہیں اور ادائیگی میں بھی معمولی سا فاصلہ ہے۔ لہذا لفظِ خبیث کا معنی سرایت کر کے لفظِ خبیت کے معنی میں سرایت کر گیا اور اس طرح لفظِ خبیت کے معانی میں اضافہ ہو گیا اور متعدد معانی ایک لفظ سے سمجھے جانے لگے۔
[۳۰] کیہان اندیشہ، ش‌۵۶، ص‌۱۵۳۔


←← تیسرا سبب


مشترک لفظی کا تیسرا سبب لفظ کی اشتقاقی و صرفی بناوٹ ہے جو سبب بنتی ہے کہ ایک لفظ متعدد معنی کو شامل ہو جائے؛ مثلا لفظِ نَوَی کو ملاحظہ کیجیے جوکہ نَواۃ (کھجور کی گٹھلی) کی جمع بھی ہے اور نیت کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور نیت کے معنی سے فعل ماضی بھی قرار پاتا ہے۔
[۳۱] الاشتراک اللفظی، ص‌۴۹۔

بعض کے نزدیک مشترک لفظی کی پیدائش کا سبب وضع میں موافقت اور ایک ہونا ہے؛ لیکن اس نظریہ کے قائل کلامِ عرب سے کوئی شاہد و مثال پیش نہیں کر سکے۔ وضع میں توافق سے مراد یہ ہے کہ ایک لفظ کو ایک قوم و قبیلہ ایک معنی میں اور دوسرا قوم و قبیلہ اسی لفظ کو دوسرے میں ایجاد اور استعمال کرتا ہے؛ مثلا لفظِ امت لغتِ قریش میں امام و پیشوا کے معنی میں آتا ہے اور لغتِ ازدشنوءہ میں سنین و سال کے معنی میں آتا ہے۔ البتہ اس مورد میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ لفظ کا دوسرے معنی میں استعمال مجاز ہو۔
[۳۲] الاشتراک اللفظی، ص‌۱۰۳‌- ‌۱۰۴۔


مشترک لفظی کا نسبی ہونا

[ترمیم]

گذشتہ سطور کے مطابق مشترک لفظی کا معیار یہ ہے کہ اہل زبان کسی تعلق اور ربط کی بناء پر یا معانی کے درمیان قدرِ مشترک کے وجود کی وجہ سے ایک لفظ کو متعدد معانی میں استعمال کرتے ہیں اور آہستہ آستہ اہل زبان کی توجہ دو معنی میں ربط و تعلق یا قدرِ مشترک سے ہٹ گئی اور وہ بغیر کسی تعلق اور قدرِ مشترک کے لفظ کو دوسرے معنی میں استعمال کرنے لگے۔ اس اعتبار سے حقیقت و مجاز اور مشترک معنوی پر اس کا اثر نمایاں ہوا اور ایک لفظ کا کسی معنی مں کثرت سے استعمال ہونے اور دو معانی میں تعلق و قدرِ مشترک کو فراموش کرنا مشترک لفظی کا سبب بن گیا۔ اس بناء پر مشترک لفظی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس میں بڑھوتری آہستہ آہستہ ہو رہی ہنے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک لفظ جو حقیقت و مجاز یا مشترک معنوی کی بناء پر متعدد معانی میں استعمال ہوتا تھا ضروری نہیں ہے کہ وہ اب بھی اسی طرح سے استعمال ہوتا ہو۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک لفظ ماضی میں مجاز کہلاتا ہو لیکن آج وہ وہی لفظ اس معنی مجازی کو مشترک لفظی کے ذریعے حقیقت میں تبدیل کر چکا ہو۔

← مشترک لفظی کا باقی نہ رہنا


جس طرح ایک لفظ جس کا ایک معنی تھا وہ متعدد معنی میں مشترک ہو سکتا ہے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک لفظ کے متعدد معانی ہیں لیکن وہ ایک کے علاوہ دیگر معانی کو ترک کر چکا ہو، مثلا ایک لفظ کے دو الگ معنی ہوں جن میں سے ایک معنی کو وہ ترک کر چکا ہے اور اب وہ ترک شدہ معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس لفظ کا ایک معنی رہ جائے ما جس میں وہ استعمال ہوتا ہے۔ اس مورد میں لفظ مشترک دنیائے مشترک سے نکل کر ایک معنی کے ساتھ خاص ہو جائے گا اور مشترک لفظی نہیں کہلائے گا۔
یہاں سے ثابت ہوا کہ کہ مشترک لفظی ایک ثابت اور غیر متغیر وصف کا حامل نہیں ہے بلکہ ایک زبان والوں کے درمیان ایک لفظ زمانے کے گزرنے یا ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ کے اعتبار سے معنی میں تغیر و تبدل اختیار کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ لفظ دیگر معانی کو اختیار کر کے مشترک لفظی بن جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر معانی میں استعمال کو ترک کر کے ایک معنی کے ساتھ مختص ہو جائے۔

← مشترک لفظی قرآن کریم میں


سوال یہ پیدا ہے کہ کیا ابتداء میں اساسی و بنیادی طور پر مشترک لفظی پایا جالتا ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں دو طرزِ تفکر موجود ہیں:
۱۔ بعض مطلق طور پر قائل ہیں کہ کلامِ عرب خصوصا قرآن کریم میں مشترک لفظی وجود نہیں رکھتا۔
۲۔ کلامِ عرب میں مشترک لفظی موجود ہے۔

←← پہلا قول اور اس کی تین دلیلیں


پہلا قول یہ ہے کہ کلامِ عرب بالخصوص قرآن کریم میں مشترک لفظی موجود نہیں ہے۔ اس موقف پر متعدد دلیلیں پیش کی جاتی ہیں جن میں سے تین اہم دلیلیں پیش خدمت ہیں:
اول: لفظ کو ایک معنی کے لیے وضع کرنے کی غرض مرادِ متکلم کو سمجھانا ہے اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ لفظ ایک معنی کے لیے وضع ہو۔ جبکہ ایک لفظ کا ایک سے زائد معنی میں وضع ہونا مرادِ متکلم میں ابہام کا باعث بنتا ہے اور اس طرح سے وضع کے ماوراء جو غرض و ہدف تھا وہ ناقص اور ادھورا رہ جاتا ہے۔ بس یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک لفظ متعدد معنی کے لیے وضع کیا جا سکے۔
[۳۳] سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، المزھر فی علوم اللغۃ وانواعہا، ج‌۱، ص‌۳۸۵۔

دوم: لفظِ مشترک کا استعمال چاہے قرینہ کے ساتھ ہو یا بدونِ قرینہ ہر دو صورت میں فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر لفظ مشترک قرینہ کے ساتھ گفتگو میں استعمال کیا جائے تو گفتگو میں بے جا طولانیت کا باعث بنتا ہے جبکہ متکلم یہ قدرت رکھتا ہے کہ گفتگو میں لفظ مشترک اور قرینہ کی بجائے لفظِ مختص ذکر کرے جو قرینہ کا محتاج نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر بدون قرینہ استعمال کیا جائے تو گفتگو میں ابہام و اجمال کا باعث بنتا ہے اور ہر دو وجہ یعنی بے طولانیت اور گفتگو کا مبہم ہونا فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے۔ اس اعتبار سے کلامِ الہی کا لفظِ مشترک سے خالی ہونا ضروری ہے تاکہ اس میں اوجِ کمال کی فصاحت و بلاغت قرار پائے۔ اگر ہم قرآن کریم میں لفظِ مشترک کے ہونے کے قائل ہو جائیں تو پھر ہم قرآن کریم کو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ یا باکمال قرار نہیں دے سکتے کیونکہ لفظ مشترک کا لازمہ یا کلام کا بے جا طولانی ہونا ہے یا کلام کا مبہم اور مجمل ہونا اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم ان دونوں نقائص سے خالی ہے۔
سوم: وہ تمام موارد جن میں مشترک لفظی کا دعوی کیا گیا ہے ان اموارد میں ہم متعدد معانی کے درمیان تعلق و ربط یا قدرِ مشترک کو ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ مشترک لفظی یا تو حقیقت و مجاز کے ذیل میں آ جائے گا یا مشترک معنوی کے ذیل میں۔ کیونکہ مشترک لفظی کی تعریف میں دو معنی کے درمیان تعلق کا نہ ہونے یا قدرِ مشترک نہ ہونے کی قید و شرط لگائی گئی ہے۔ اب ہم معانی میں تعلق یا قدر مشترک قرار دیں تو وہ مشترک لفظی نہیں رہے گا۔

←← دوسرا نظریہ اور قولِ اول کی ادلہ کا جواب


دوسرا نظریہ تھا کہ کلامِ عرب میں لفظِ مشترک پایا جاتا ہے اور اسی طرح سے قرآن کریم میں بھی لفظِ مشترک موجود ہے۔ اس نظریہ کے حامل اپنے مخالفین کی پیش کردہ دلیلوں کو ردّ کرتے ہوئے بیان کرتے ہین:
اول: عموما لفظِ مشترک کو قرینہ کے ہمراہ استعمال میں لایا جاتا ہے اور قرینہ متعدد معانی میں سے ایک معنی کو مشخص کر دیتا ہے جس کو لفظ بول کر مراد لیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے اگر ہم جائزہ لیں تو لفظِ مشترک سے مرادِ متکلم میں کسی قسم کا ابہام لازم نہیں آتا۔
دوم: مشترک لفظی کے استعمال کے وقت قرینہ یا تو قرینہ حالیہ ہے یا قرینہ مقالیہ۔ کلام میں عمومًا قرینہ فقط مشترک لفظی کے معانی میں سے ایک معنی کی تعیین کے لیے نہیں لایا جاتا بلکہ وہ دیگر معانی کے حصول کا بھی فائدہ دیتا ہے۔ اس اعتبار سے لفظِ مشترک کا استعمال کلام میں بے جا طولانیت کا سببب نہیں بنتا بلکہ قرینہ کے ساتھ کلام کے محاسن کا موجب قرار پاتا ہے۔
سوم: ماہرین لغت یا عوامی حلقہِ اہل زبان ہر دو کی نظر میں مشترک معنوی اور حقیقت و مجاز میں متعدد معانی میں کوئی تعلق اور ربط یا کوئی قدرِ مشترک ہونا ضروری ہے جس کی وجہ سے لفظ کی ایک معنی کو اہلِ زبان سمجھ سکیں۔ اس بناء پر شخصی ذوق و استنباط کی بناء پر مشترک لفظی کو مشترک معنوی یا حقیقت و مجاز بر حمل نہیں کر سکتے۔ نیز بعض مخالفینِ مشترک لفظی کا یہ کہنا کہ ضروری ہے کہ لفظِ مشترک کے معانی کے درمیان بھی تعلق اور ربط یا قدرِ مشترک ہونا ضروری ہے تو یہ ایک بے بنیاد بات ہے جس پر نہ کوئی اجماع و اتفاق ہے اور نہ اہل زبان کے نزدیک یہ بات توجہ کے قابل ہے، مثلا بعض لفظِ قرء کا قدرِ مشترک وقت اور بعض دیگر جمع کو قرار دیتے ہیں۔ برای مثال برخی، قدر مشترک « قرء » را «وقت» و برخی دیگر «جمع» دانسته‌اند ؛ اسی طرح بعض نے عین کا حقیقی معنی آنکھ کو قرار دیا ہے اور اس کا اطلاق بقیہ معانی مثلا چشمہ، آنکھ کا زخم، سوراخ اور اس طرح کے بقیہ معانی پر مجاز قرار دیا ہے۔ ، حالانکہ عین بمعنی آنکھ اور بقیہ معانی میں اہل زبان کے نزدیک کسی قسم کا تعلق نہیں پایا جاتا اور نہ ہی وہ اس وصف کے ساتھ بقیہ معانی کو حقیقت و مجاز کے باب سے قرار دیتے ہیں۔

مشترک لفظی کا ایک سے زائد معنی میں استعمال

[ترمیم]

کلامِ عرب میں مشترک لفظی کا وجود ثابت ہونے کے بعد یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ ایک وقت میں لفظِ مشترک کو استعمال کر کے ایک سے زائد معنی مراد لیے جائیں؟ مثلا لفظِ عین بول کر آنکھ اور چشمہ ہر دو معنی مراد لے لیے جائیں؟ اس بارے میں دو نظریات پائے جاتے ہیں:
۱۔ ایسا ممکن ہے اور کلامِ عرب میں اس کا استعمال پایا جاتا ہے
۲۔ ایسا ممکن نہیں ہے ۔

← پہلا نظریہ


اس قول کے مطابق ایسا کیا جا سکتا ہے کہ لفظِ مشترک کو استعمال کر کے ایک سے زائد معنی مراد لیے جائیں، جیساکہ کلامِ عرب میں کئی شواہد اس کے موجود ہیں۔ حتی قرآن کریم میں ایسا وارد ہوا ہے جیساکہ سورہ حج آیت ۱۸ میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:اَلَم تَرَ اَنَّ اللّهَ یَسجُدُ لَهُ مَن فِی السَّماواتِ ومَن فِی الاَرضِ والشَّمسُ والقَمَرُ والنُّجومُ والجِبالُ والشَّجَرُ والدَّوابُّ و کثیرٌ مِنَ النّاسِ؛ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے، سورج و چاند و ستارے و درخت و چلنے پھرنے والے جاندار اور کثیر لوگ اللہ کے سامنے سجدے میں ہیں۔ لفظِ سجدہ پر غور کریں کہ اس آیت کریمہ میں ایک لفظ ایک استعمال میں دو مختلف معنی پر دلالت کر رہا ہے: ۱) زمین پر پیشانی رکھنا، ۲) سرتسلیم خم کرنا اور خاضع ہونا۔ نیز ہمارے ایسی روایات موجود ہیں جن میں قرآن کریم کی سات (۷) وجوہ یا سات باطن کا تذکرہ ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ایک لفظ کو استعمال کر کے ایک سے زائد معنی مراد لیے جا سکیں۔

← دوسرا نظریہ


اکثر علماء و محققین قائل ہیں کہ لفظِ مشترک کو ایک سے زائد معنی میں استعمال نہیں کر سکتے۔ ایسا ممکن نہیں کہ ہم ایک لفظ کو استعمال کریں اور اس سے ایک سے زائد معنی مراد لیں۔ اس کی وجہ درج ذیل نکات ہیں:
اول:عموما انسان ایک وقت میں ایک لفظ بول کر ایک سے زائد معنی مراد نہیں لیتا کیونکہ انسانی ذہنی ایک وقت میں ایک لفظ کے ذریعے دو یا دو سے زائد معنی کی طرف توجہ نہیں کر سکتا۔ لفظ کو استعمال کرتے ہوئے ذہن میں ایک معنی کا قصد کرنا ایک تصویر کو محفوظ کرنے کی مانند ہے۔ جس طرح ایک تصویر کے سامنے کھڑا ہوا شخص جب تک اس آئینے سے ہٹے گا نہیں اس وقت تک دوسری تصویر آئینہ میں نہیں ابھر سکے گی۔
دوم: کلامِ عرب اور آیات و روایات سے لفظِ مشترک کا ایک سے زائد معنی میں استعمال ہونے کا جو استدلال اور دعوی کیا گیا ہے اس میں بھی لفظ حقیقت میں ایک ہی معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہے کہ ایک سے زائد معنی پر لفظ دلالت کر رہا ہے، مثلا سورہ حج آیت ۱۸ میں لفظِ سجدہ سے دو جدا معنی مراد لیے گئے۔ جبکہ اگر ہم ان معانی پر غور کریں تو معلوم ہو گا سجدہ کا معنی انتہائی خضوع اور عاجزی کا اظہار ہے اور یہ معنی دیگر تمام معانی میں مشترک طور پر موجود ہے، چاہے فرشتہ کا سجدہ ہو یا انسان کا، نبات کا ہو یا جماد کا ہر قسم کے سجدہ میں عاجزی، انکساری و خضوع کا معنی پایا جاتا ہے۔ نیز زیرِ نظر آیت کریمہ میں سیاقِ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظِ سجدہ مشترک معنوی ہے نہ کہ مشترک لفظی۔
خلاصہِ کلام یہ ہے کہ علم بدیع میں جب توریہ اور استخدام کے اسلوب کو استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک لفظ سے ایک سے زائد معنی مرادِ جدی کے طور پر نہیں لیے جا سکتے۔ چنانچہ یہ کہا جائے کہ کلامِ عرب اور قرآنِ کریم میں ایک لفظ کو استعمال کر کے ایک سے زائد معنی مراد نہیں لیے گئے اور ایسا کرنا صحیح نہیں ہت۔
سوم: عموما ایک لفظ کا ایک سے زائد معنی میں استعمال محال سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ کہنا پڑے گا کہ ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں ہے کہ ہم قرآن کریم کے وجوہ اور بطون سے مراد متعدد معانی لیں جو ایک دوسرے کے عرض میں ہیں کہ لفظ بول کر مرادِ جدی کے طور پر ان متعدد معانی کو مراد لے لیا جائے !! ایسا درست نہیں ہے۔

←← شبہ اور اس کا جواب


ممکن ہے یہاں کوئی کہے کہ ہر کلام یا لفظ ایک معنی ہوتا ہے اور ایک مرتبہ اس معنی کا لازمہ؛ وہ لازمہ ہمیشہ اس معنی کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے، لہذا جب ہم لفظ بول کر معنی مراد لیں گے تو ان لوازم پر بھی لفظ کی دلالت ہو جائے گی اور اس طرح ایک لفظ بول کر ایک سے زائد معانی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ لہذا روایات میں بطونِ قرآن سے بھی یہی مراد ہو سکتا ہے کہ لفظ کی دلالت ایک معنی پر ہو رہا ہے لیکن اسی وقت اس معنی کے دیگر لوازم پر بھی لفظ کی دلالت ہو رہی ہے۔ پس یہاں سے معلوم ہوا کہ ایک لفظ ایک استعمال میں ایک سے زائد معنی پر دلالت کر سکتا ہے۔
اس کے جواب میں عرض کیا جائے گا کہ اگر ہم روایات میں بطون سے مراد آیات کریمہ کے طول میں وارد ہونے والیے واقعی اور حقیقی معانی لیں اور مرادِ الہی کے لوازم مراد لیں تب بھی ہم ایک لفظ کی ایک استعمال میں ایک سے زائد معنی کو جائز قرار نہیں دے سکتے اور نہ معنی کے ساتھ لوازمِ معنی پر دلالت کو ایسا کرنے کی دلیل قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ دیکھنے میں آتا ہے کہ سامع اور مخاطب ایک وقت میں متکلم کے معنیِ مراد اور اس کے لوازم ہر دو پر توجہ نہیں کر پاتا۔ اگرچے کلامِ الہی کی جانب سے دیکھیں تو یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے ایک کلام کے ذریعے اصلِ معنی اور اس کے لوازم ہر دو مراد لیے ہوں لیکن کلامِ الہی کی دوسری جانب سامع اور مخاطب بشر ہے جو اپنی عادی زندگی میں ایسا نہیں کر پاتا کہ ایک کلام سن کر اس کلام کا اصلی معنی اور اس کے لوازم ہر دو کی طرف توجہ کرے ۔ پس جب بشر ایسا نہیں کر سکتا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یقینی طور پر متکلم کلام کرتے ہوئے سامع اور مخاطب کی استطاعت اور طاقت کو مدنظر رکھے گا۔ چنانچہ اللہ تعالی بشر کی وجہ سے ایک لفظ یا کلام کے ذریعے دو جدا معنی کا ارادہ نہیں کرے گا کیونکہ اگر وہ ایسا کرے تو بشر کی سمجھ سے بالاتر ہونے کی وجہ سے یہ کام عبث اور لغو قرار پائے گا اور حکیم ذات عبث و لغو کاموں سے پاک و منزّہ ہے۔
البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ کلامِ الہی کے لوازم نہیں ہیں؛ بلکہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ بلا شک و شبہ اللہ تعالی نے جب کلام کیا ہے تو اس کلام کے لوازم ہیں لیکن وقتِ خطاب یہ لوازم مراد نہیں لیے گئے۔ اس اعتبار سے وقتِ خطاب بشر سے ان لوازم کی طرف توجہ کرنا طلب نہیں کیا گیا کیونکہ یہ بشر کی استطاعت اور توان سے باہر ہے کہ وہ ایک وقت میں معنی اور اس کے لوازم ہر دو کی طرف توجہ کرے اور اللہ تعالی بشر کو تکلیف ما لا یطاق نہیں دیتا۔ یعنی جس کی طاقت بشر نہیں رکھتا اس کا حکم بھی اللہ تعالی نہیں دیتا اور اسے بشر سے طلب نہیں کرتا۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ وقتِ خطاب لفظ کو استعمال کرتے ہوئے معنی کی طرف بشر توجہ کرے اور اس کے کلام میں تدبر کرتے ہوئے کلام کے لوازم تک رسائی حاصل کرے کیونکہ بشر عادی زندگی میں کلام سنتے ساتھ معنی کی طرف توجہ کرتا ہے اور پھر معنی پر غور و فکر کر کے اس کے لوازم تک رسائی حاصل کرتا ہے۔

←← زرکشی کا قول اور اس کا رد


زرکشی نے اس بارے میں تحریر کیا ہے کہ اگر ہم لفظِ مشترک کا ایک سے زائد معنی میں استعمال ہونا جائز قرار نہ دیں تو ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن میں لفظِ مشترک دو بار خطاب ہوا ہے اور دو مرتبہ الگ الگ طور پر کلام کیا گیا ہے: ایک مرتبہ ایک معنی میں اور دوسری مرتبہ دوسرے معنی میں۔
لیکن یہ احتمال درست نہیں ہے کیونکہ قرآنی آیات موقع اور مناسب سے حکمتِ الہی کے تحت ایک مرتبہ نازل ہوئی ہیں اور ایک سے زائد مرتبہ آیاتِ قرآنی کا نازل ہونا محض ایک دعوی ہے جس پر نہ کوئی نقلی دلیل ہے اور نہ کوئی عقلی دلیل۔ دوسری طرف سے اگر ہم آیات کریمہ کے قرائنِ حالیہ و مقالیہ پر توجہ کریں تو معلوم ہو گا کہ آیات کے معنی واضح طور پر معنی کو معین و مشخص کر رہے ہیں۔ اگر بعض افراد آیاتِ کریمہ کے قرائن کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک آیت سے متعدد معانی مراد لیں تو ان کا متعدد معانی کا سمجھنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی کلام میں مراد بھی یہی متعدد معانی ہیں۔

مشترک لفظی کا حکم

[ترمیم]

قرآن کریم بشر کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے جس کا مقصد انسان کو گمراہی سے نکالنا اور صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا ہے۔ قرآن کریم انسان کو گمراہ یا شکوک و شبہات میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ایک بھی ایسی آیت موجود نہیں ہے جس میں اللہ تعالی نے معنیِ مبہم و مجمل مراد لیا ہو اور قرائن کے بغیر ایک کلام سے دو الگ الگ معنی مراد لیے ہوں !! لہذا اگر آیاتِ قرآنی میں لفظِ مشترک سے دوچار ہو جائیں جس میں ایک لفظ کو استعمال کر کے متعدد معانی کا احتمال سامنے آ رہا ہو تو ضروری ہے کہ قرائنِ حالیہ اور مقالیہ کو اختیار کرتے ہوئے کوشش کی جائے کہ کلام سے مرادِ واقعی کی صحیح تشخیص ہو سکے اور اس کو اختیار کیا جائے۔ ایسی صورت میں بھی لفظ کا ایک سے زائد معنی میں استعمال صحیح نہیں قرار پائے گا بلکہ جستجو اور تگ و دو کر کے قرائن کی مدد سے ایک معنیِ مراد کو معین کیا جائے گا۔

← قاعدہ شرعی معنی کو مقدم کرنا، ایک شبہ اور جواب


علماء اسلام نے ایسے موارد جن میں مشترک لفظی کا معنی پر قرینہ موجود نہیں کے لیے قواعد و اصول وضع کیے ہیں؛ جیسے اگر ایک لفظ دو معنی کے درمیان مشترک ہے، ایک معنی لغوی اور دوسرا معنی شرعی تو ایسی صورت میں معنی شرعی کو مقدم کرتے ہوئے لفظ سے مراد معنی شرعی لیا جائے گا؛ مثلا آیتِ کریمہ اَقیمُوا الصَّلوةَ میں لفظِ صلاۃ ہے۔ اس کا لغوی معنی دعا ہے اور شرعی معنی نماز ہے۔ اب یہ ایک لفظ دعا اور نماز کے معنی میں مشترک ہے، ایسی صورت میں اس قاعدہ کے مطابق لفظ سے معنی شرعی یعنی نماز مراد لے لیا جائے گا۔
[۵۶] دراسات فی القرآن، ص‌۲۱۶۔
یا ایسا نہیں ہے کہ بلکہ مشترک لفظی کے مختلف معانی میں سے ایک معنی پر کوئی لفظی یا غیر لفظی قرینہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس لفظ کو تمام معنی پر حمل کیا جائے اور اس سے ایک معنی مراد نہ لیا جائے؛ جیسے لفظِ جہاد قرآن کریم کی اس آیت میں ہے: ومَن جاهَدَ فَاِنَّما یُجاهِدُ لِنَفسِهِ، یہ لفظ جہاد بالنفس اور قتال ہر دو معنی میں مشترک ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ قاعدہِ کلی کہ شرعی معنی کو مقدم کیا جائے اس مشکل کا راہ حل اور معتبر نہیں ہے۔ اس کا صحیح حل یہ ہے کہ ایسے مورد میں ان تمام قرائن کو اختیار کیا جو اللہ تعالی کے کلام میں اس کی مراد کو سمجھنے میں دخیل اور مددگار ہیں اور ان کے ذریعے زحمت و محنت کر کے معنی کو سمجھا اور معین کیا جائے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا مورد نہیں ہے کہ ہم نے یہ قاعدہ جاری کیا ہو اور بغیر جستجو و تگ و دو کے اللہ تعالی کے پیش نظر حقیقی معنی کو لے لیا ہو۔ بلکہ اگر کسی جگہ یہ قاعدہ جاری کر کے مطلب لیا گیا ہے وہاں بھی ہم نے تتبّع و محنت و تگ و دو کے بعد مقصودِ الہی کو سمجھا ہے۔ نمونے کے طور پر مذکور بالا دو آیات کے سیاق سے استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ پہلے مورد میں لفظِ صلاۃ سے مراد نماز ہے جیساکہ سیاقِ آیت اس پر دلالت کر رہا ہے اور دوسرے مورد میں لفظِ جہاد سے مراد مطلق طور پر اللہ تعالی کی راہ میں انتھک محنت و کوشش ہے جیساکہ سیاقِ آیت کی اس پر دلالت ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. تہانوی، محمد علی، کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، ج‌۱، ص‌۲۰۲۔    
۲. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، المزھر فی علوم اللغۃ و انواعھا، ج‌۱، ص‌۲۹۲۔    
۳. مظفر، محمد رضا، منطق، ج ۱، ص۳۹۔    
۴. کیہان اندیشہ، ش‌۵۶، ص‌۱۴۹۔
۵. دارقطنی، علی بن عمر، سنن الدار قطنی، ج ۴، ص۸۲۔    
۶. زرکشی، محمد بن عبد الله، البرھان فی علوم القرآن، ج۲، ص۱۶۳۔    
۷. خطیب بغدادی، احمد بن علی، الفقیہ والمتفقہ، ج ۱، ص ۵۶۰۔    
۸. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، ج۱، ص۴۰۔    
۹. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۲، ص۲۴۵۔    
۱۰. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۹۳، ص‌۵۔    
۱۱. ابو الفرج جوزی، عبد الرحمن بن علی، نزھۃ الاعین النواظر فی علم الوجوہ والنظائر، ص ۸۳۔    
۱۲. زرکشی، محمد بن عبد الله، البرھان فی علوم القرآن، ج‌۲، ص‌۱۶۳۔    
۱۳. الغزالی، ابو حامد محمد، المستصفی فی علم الاصول، ص‌۲۶۔    
۱۴. طه/سوره ۲۰، آیت ۳۹۔    
۱۵. مدثّر/سوره ۷۴، آیت۱۱۔    
۱۶. ابن فارس، احمد بن فارس، الصاحبی فی فقہ اللغۃ و سنن العرب و کلامہا، ص‌۲۰۸-۲۰۷۔    
۱۷. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، المزھر فی علوم اللغۃ و انواعہا، ج‌۱، ص ‌۳۷۰۔    
۱۸. فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، ج‌۱، ص‌۵۸۔    
۱۹. فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، ج‌۲، ص‌۱۸۱۔    
۲۰. زبیدی، مرتضی، تاج العروس، ج‌۲، ص۲۳۰-۲۳۱۔    
۲۱. الاشتراک اللفظی، ص‌۲۴۹‌- ‌۲۶۶۔
۲۲. الاشتراک اللفظی، ص‌۳۷‌ ‌۴۳۔
۲۳. الاشتراک اللفظی، ص‌۷۵‌-‌۸۲‌۔
۲۴. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، المزہر فی علوم اللغۃ و انواعہا، ص‌ ۳۰۹ -۳۹۵۔    
۲۵. صبحی صالح، دراسات فی فقہ اللغۃ، ص‌ ۳۰۹۔    
۲۶. علامہ حلی، حسن بن یوسف، مبادی الوصول الی علم الاصول، ص ۷۲۔    
۲۷. الاشتراک اللفظی، ص‌۴۳۔
۲۸. کیہان اندیشہ، ش ‌۵۶، ص‌۱۵۲۔
۲۹. الاشتراک اللفظی، ص‌۴۳۔
۳۰. کیہان اندیشہ، ش‌۵۶، ص‌۱۵۳۔
۳۱. الاشتراک اللفظی، ص‌۴۹۔
۳۲. الاشتراک اللفظی، ص‌۱۰۳‌- ‌۱۰۴۔
۳۳. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، المزھر فی علوم اللغۃ وانواعہا، ج‌۱، ص‌۳۸۵۔
۳۴. تہانوی، محمد علی، کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، ج‌۱، ص‌۲۰۳۔    
۳۵. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج‌۱، ص‌۱۴۱۔    
۳۶. آخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الاصول، ج‌۱، ص‌۳۵۔    
۳۷. فخر الدین رازی، محمد بن عمر، المحصول، ج‌۱، ص‌۲۶۷‌- ‌۲۶۸۔    
۳۸. آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الاصول، ج‌۱، ص‌۳۵۔    
۳۹. آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایة الاصول، ج‌۱، ص‌۳۵۔    
۴۰. ابن عربی، محمد بن علی، احکام القرآن، ج‌۱، ص‌۲۵۰۔    
۴۱. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج‌۲، ص‌۹۷۔    
۴۲. طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج‌۲، ص‌۲۳۰۔    
۴۳. ابن فارس، احمد بن فارس، مقاییس اللغۃ، ج‌۴، ص‌۱۹۹‌- ‌۲۰۴۔    
۴۴. حجّ/سوره۲۲، آیت ۱۸۔    
۴۵. آخوند خراسانی، محمدکاظم، کفایۃ الاصول، ج‌۱، ص‌۳۸۔    
۴۶. انصاری، محمدعلی، الموسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ، ج‌۲، ص‌۴۶۰۔    
۴۷. آخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الاصول، ج۱، ص۳۸۔    
۴۸. مظفر، محمد رضا، اصول الفقہ، ج۱، ص۲۹۔    
۴۹. مومن قمی، محمد، تسدید الاصول، ج‌۱، ص‌۷۸۔    
۵۰. غزالی، ابو حامد محمد، المستصفی فی علم الاصول، ص‌۲۴۱۔    
۵۱. عراقی، ضیاء الدین، نہایۃ الافکار، ج‌۱، ص‌۱۱۷۔    
۵۲. زرکشی، محمد بن عبد الله، البرھان فی علوم القرآن، ج‌۲، ص‌۲۰۸۔    
۵۳. سیاس، محمد علی، تفسیر آیات الاحکام، ص۵۲۹۔    
۵۴. سرخسی، محمد بن احمد، اصول السرخسی، ج‌۱، ص‌۱۶۲‌- ‌۱۶۳۔    
۵۵. مزمّل/سوره۷۳، آیه۲۰۔    
۵۶. دراسات فی القرآن، ص‌۲۱۶۔
۵۷. عنکبوت/سوره۲۹، آیت ۶۔    
۵۸. ابن عاشور، التحریر و التنویر، ج‌۱، ص۹۶۔    


مأخذ

[ترمیم]
مرکز دائرة المعارف قرآن کریم، ماخوذ از مقالہ اشتراک لفظی۔    






جعبه ابزار