ابراہیم بن حصین اسدی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ابراہیم بن حصین اسدی امام حسینؑ کے ساتھیوں میں سے ہیں کہ جن کی کربلا میں شہادت ہوئی۔


امام حسینؑ کی ابراہیم سے طلبِ نصرت

[ترمیم]

ابو اسحاق،
[۲] کرباسی، محمدصادق، دائرة المعارف الحسینیه، ج۶، ص۵۴۔
ابراہیم بن حصین اسدی امام حسینؑ کے دلیر ساتھیوں میں سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں کہ ایک نقل کے مطابق حضرت ابا عبد اللہ علیہ السلام نے تنہائی کے وقت ان سے امداد طلب کی اور اچانک ان کا نام پکارا۔
[۴] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدّارین، ص۱۰۲۔
[۵] نمازی شاهرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج ۱، ص ۱۴۰، تهران، ابن المؤلف، چاپ اول۔


ابراہیم کا میدان میں رجز

[ترمیم]

عاشور کے دن ابراہیم امامؑ کے پاس گئے اور میدان جانے کی اجازت طلب کی۔ آپ امام حسینؑ سے اجازت طلب کرنے کے بعد میدان گئے اور ذیل کا رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی فوج پر حملہ آور ہو گئے:
أَضْرِبُ مِنْکُمْ مَفْصِلًا وَساقاً
لِیُهْرَقَ الْیَوْمَ دَمی‌ اهْراقاً
وَیُرْزقُ الْمَوْتَ أَبااسْحاقاً
أَعْنی‌ بَنی‌ الْفاجِرَةِ الْفُسَّاقاً
شمشیر کے ساتھ تمہارے جوڑوں اور پنڈلیوں پر وار کروں گا یہاں تک کہ آج ہی میرا خون بہا دیا جائے؛ اے ابو اسحاق! موت کو زنا زادوں اور گنہگاروں کا مقدر بنا دے!
پھر شیر کی مانند حملہ کیا اور پچاس یا ۸۴ اشخاص کو ہلاک کیا
۔ اعیان الشیعہ میں لکھا ہے: بہت سے افراد کو مارنے کے بعد شہید ہوئے۔ کتاب فرسان الهیجاء میں لکھتے ہیں: پچاس سے چوراسی افراد کو قتل کرنے کے بعد شہید ہوئے

ابراہیم کے اشعار

[ترمیم]

برخی متأخران اشعار زیر را به وی نسبت داده‌اند:
اقْدِمْ حُسَیْنُ الْیَوْمَ تَلْقی احْمَدا • ثُمَّ اباکَ الطَّاهِرَ الْمُؤَیَّدا
وَالْحَسَنَ الْمَسْمُومَ ذاکَ الاسْعَدا • وَذا الْجَناحَیْنِ حَلیفَ الشُّهَدا
وَحَمْزَة اللَّیث الْکَمِیَّ السَّیِّدا
فی‌ جَنَّةِ الْفِرْدَوْسِ فازُوا سُعَدا
[۹] دربندی، ملا آقا فاضل، اکسیر العبادات فی اسرار الشهادات، ج۲، ص۳۴۲۔
[۱۱] موسوی دهسرخی، محمود، رمز المصیبة، ج۲، ص۱۳۸۔
[۱۲] کرباسی، محمدصادق، دائرة المعارف الحسینیه، ج۵، ص۱۲۱-۱۲۲۔
[۱۳] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدّارین، ص۱۰۲۔

اے حسین، آگے بڑھو کہ آج اپنے جد پیغمبرؐ جو پاک و مؤید ہیں، اپنے مسموم بھائی حسنؑ، دو پروں کے مالک جعفر طیار جو شہدا کے ہم قسم و پیمان تھے اور اسی طرح حمزہ شجاع شیر کے ساتھ فردوس میں ملاقات کرو گے اور سب فلاح پا گئے اور سعادت مند ہوئے!
اگرچہ ان دونوں کا ماخذ مقتل ابی مخنف ہے؛ تاہم موجودہ مقتل میں ان اشعار کی ابراہیم بن حسین کی طرف نسبت ہے اور منقول ہے: ابراہیم بن حسین میدان گئے اور انہوں نے یہ شعر پڑھتے ہوئے دشمن پر حملہ کیا اور پچاس لوگوں کو قتل کرنے کے بعد شہید ہوئے۔
[۱۴] ابی‌ مخنف، مقتل الحسین علیه‌السلام، ص۱۰۹۔

اس بنا پر احتمال ہے کہ کربلا میں دو ابراہیم موجود تھے؛ ان میں سے ایک حسینؑ کے فرزند اور دوسرے حصین کے بیٹے تھے یا یہ کہ حسین، حصین کی تصحیف ہے۔ واللہ العالم

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۲، ص۱۳۶۔    
۲. کرباسی، محمدصادق، دائرة المعارف الحسینیه، ج۶، ص۵۴۔
۳. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۳۰۔    
۴. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدّارین، ص۱۰۲۔
۵. نمازی شاهرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ج ۱، ص ۱۴۰، تهران، ابن المؤلف، چاپ اول۔
۶. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، ج۳، ص۲۵۳۔    
۷. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۲، ص۱۳۶۔    
۸. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۳۰۔    
۹. دربندی، ملا آقا فاضل، اکسیر العبادات فی اسرار الشهادات، ج۲، ص۳۴۲۔
۱۰. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۳۰-۳۱۔    
۱۱. موسوی دهسرخی، محمود، رمز المصیبة، ج۲، ص۱۳۸۔
۱۲. کرباسی، محمدصادق، دائرة المعارف الحسینیه، ج۵، ص۱۲۱-۱۲۲۔
۱۳. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدّارین، ص۱۰۲۔
۱۴. ابی‌ مخنف، مقتل الحسین علیه‌السلام، ص۱۰۹۔


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، ص۶۱-۶۳۔    
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «یاران امام حسین (علیه‌السلام)»، تاریخ نظرثانی ۱۳۹۵/۳/۳۰۔    






جعبه ابزار