احادیث سے امامت کا اثبات
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امامت دین اسلام کا ایک رکن اور
مذہب شیعہ کا ایک اصول ہے کہ جس کی تمام اسلامی فرقوں میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔ معروف
حدیث نبوی میں ارشاد ہوتا ہے: من مات و لم یعرف امام زمانه، مات میتة جاهلیة؛ جو مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے، وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔
اہل بیت کی امامت کے اثبات کیلئے بہت سے عقلی و نقلی دلائل قائم کیے گئے ہیں۔ امیر المومنین کی
ولایت و امامت کے اثبات پر منجملہ دلائل میں سے ایک وہ متعدد معتبر احادیث ہیں جنہیں شیعہ و
اہل سنت مصادر میں نقل کیا گیا ہے کہ اختصار کے پیش نظر ان میں سے صرف چالیس
صحیح روایات کے ذکر پر اکتفا کریں گے۔
البتہ اس امر میں کوئی تردید نہیں کہ صحیح السند روایات جو اہل بیتؑ کے طریق سے ان ذوات کی ولایت کے اثبات میں وارد ہوئی ہیں وہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں ہیں اور حتی اس حوالے سے خصوصی کتب تحریر کی گئی ہیں؛ جیسے مرحوم
خزار قمی کی کتاب
کفایة الاثر، اور
شیخ حر عاملی کی تالیف
اثبات الهداة وغیرہ۔
[ترمیم]
• آئمہ امیر المومنینؑ اور امام حسینؑ کی نسل سے ہیں:
شیخ صدوق (متوفی۳۸۱ہجری) ایک حدیث میں صحیح سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ
رسول خداؐ نے اپنے بعد آنے والے اپنے جانشین کا تعارف کروا دیا ہے:
"حدثنی ابی (رضیاللهعنه)، قال: حدثنا سعد بن عبدالله، قال: حدثنا احمد بن محمد بن عیسی، عن الحسین بن سعید، عن حماد بن عیسی، عن ابراهیم بن عمر الیمانی، عن ابی الطفیل، عن ابی جعفر محمد بن علی الباقر (علیهماالسّلام)، عن آبائه (علیهمالسّلام)، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) لِاَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَؑ : اکْتُبْ مَا اُمْلِی عَلَیْکَ. قَالَ: یَا نَبِیَّ اللَّهِ اَتَخَافُ عَلَیَّ النِّسْیَانَ؟ فَقَالَ: لَسْتُ اَخَافُ عَلَیْکَ النِّسْیَانَ وَقَدْ دَعَوْتُ اللَّهَ لَکَ اَنْ یُحَفِّظَکَ وَلَا یُنْسِیَکَ وَلَکِنِ اکْتُبْ لِشُرَکَائِکَ.
قَالَ: قُلْتُ: وَمَنْ شُرَکَائِی یَا نَبِیَّ اللَّهِ؟ قَالَ: الْاَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِکَ بِهِمْ تُسْقَی اُمَّتِی الْغَیْثَ وَبِهِمْ یُسْتَجَابُ دُعَاؤُهُمْ وَبِهِمْ یَصْرِفُ اللَّهُ عَنْهُمُ الْبَلَاءَ وَبِهِمْ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ مِنَ السَّمَاءِ وَهَذَا اَوَّلُهُمْ.
وَاَوْمَاَ بِیَدِهِ اِلَی الْحَسَنِؑ ثُمَّ اَوْمَاَ بِیَدِهِ اِلَی الْحُسَیْنِؑ ثُمَّ قَالَ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): الْاَئِمَّةُ مِنْ وُلْدِهِ".
رسول خداؐ نے امیر المومنین سے فرمایا کہ جو کچھ میں لکھوا رہا ہوں، اس کو لکھ لو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کو خدشہ ہے کہ میں فراموش کر دوں گا؟! فرمایا: تمہارے فراموش کرنے کا خدشہ نہیں ہے؛ کیونکہ خدا سے دعا کی ہے کہ تجھے حافظہ دے اور فراموش نہ کرو؛ مگر اپنے شرکا کیلئے لکھو: امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے شرکا کون ہیں؟! فرمایا: آئمہؑ تیری اولاد میں سے کہ امت جن کے وجود کی برکت سے بارش سے سیراب ہو گی اور اس کی دعائیں مستجاب ہوں گی اور ان کے وسیلے سے خدا میری امت سے بلاؤں کو دور کرے گا اور ان کے وسیلے سے آسمان سے رحمت نازل ہو گی اور یہ ان میں پہلے ہیں۔ اپنے ہاتھ سے حسنؑ کی طرف اشارہ کیا پھر امام حسینؑ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: آئمہ اس کی اولاد میں سے ہیں۔
شیخ طوسی نے بھی
امالی اسی روایت کو نقل کیا ہے۔
یہ روایت سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور دلالت کے اعتبار سے واضح و صریح ہے۔
قال النجاشی: شیخ القمیین فی عصره ومتقدمهم، وفقیههم، وثقتهم...
وقال الشیخ: کان فقیها، جلیلا، ثقة۔
قال النجاشی: شیخ هذه الطائفة وفقیهها ووجهها....
وقال الشیخ: جلیل القدر، ثقة۔
وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
الحسین بن سعید بن حماد: قال الشیخ: من موالی علی بن الحسین علیه السلام، ثقة. صاحب المصنفات الاهوازی، ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة فی حدیثه، صدوقا.
وقال الشیخ: ثقة۔
ابراهیم بن عمر الیمانی... قال النجاشی: شیخ من اصحابنا ثقة۔
امام صادقؑ نے مشہور حدیث ثقلین جو ان کے طریق سے منقول ہے، میں اس کی توثیق کی ہے۔
"قال الوحید فی التعلیقة فی الخصال - بعد ذکر حدیث - قال معروف بن خربوذ، فعرضت هذا الکلام علی ابی جعفرؑ ، فقالؑ : صدق ابو الطفیل - رحمه الله -: وفی هذا شهادة علی حسن حاله ورجوعه، لو صح کونه کیسانیا (انتهی). اقول: الحدیث رواه الصدوق - قدس سره - فی باب الاثنین، تحت عنوان السؤال عن الثقلین یوم القیامة، وقد رواه بعدة طرق... وبعض طرق الروایة صحیح۔
[ترمیم]
•
امام حسینؑ امام کے فرزند اور اپنے بعد آنے والے نو آئمہ کے پدر ہیں:
شیخ صدوقؒ نے
الخصال میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ نے امام حسینؑ کو امام کا فرزند اور آئمہ کا پدر کہہ کر متعارف کروایا:
"۳۸- حَدَّثَنَا اَبِی رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ اَبِی خَلَفٍ قَالَ حَدَّثَنِی یَعْقُوبُ بْنُ یَزِیدَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِیسَی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْکَانَ عَنْ اَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ قَیْسٍ الْهِلَالِیِّ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِیِّ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ:
دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ ص واِذَا الْحُسَیْنُ عَلَی فَخِذَیْهِ وهُوَ یُقَبِّلُ عَیْنَیْهِ ویَلْثِمُ فَاهُ وهُوَ یَقُولُ اَنْتَ سَیِّدٌ ابْنُ سَیِّدٍ اَنْتَ اِمَامٌ ابْنُ اِمَامٍ اَبُو الْاَئِمَّةِ اَنْتَ حُجَّةٌ ابْنُ حُجَّةٍ اَبُو حُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ تَاسِعُهُمْ قَائِمُهُمْ".
سلیم بن قیس هلالی سلمان فارسی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا: میں رسول خداؐ کے پاس تھا، میں نے دیھا حسین بن علی آپؐ کے زانو پر بیٹھے ہوئے ہیں، پیغمبرؐ آپ کی دونوں آنکھوں کے مابین اور منہ پر بوسہ دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں: تو سردار، سردار کا بیٹا ہے اور تو امام ، امام کا فرزند اور امام کا باپ ہے۔ تو خدا کی حجت ہے اور اپنی نسل سے آنے والی خدا کی نو حجتوں کا باپ ہے کہ جن میں سے نویں قائم ہیں۔
اسی روایت کو
شیخ مفید (رضواناللهتعالیعلیه) نے کتاب
الاختصاص میں ذیل کی سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
"ابو جعفر محمد بن احمد العلوی قال: حدثنی احمد بن علی بن ابراهیم بنهاشم عن ابیه، عن جده ابراهیم بنهاشم، عن حماد بن عیسی، عن ابیه، عن الصادقؑ قال: قال سلمان الفارسی (رحمةاللهعلیه): رایت الحسین بن علی صلوات الله علیهما فی حجر النبی صلی الله علیه وآله..
یہی روایت اسی سند و متن کے ساتھ کتاب
الامامة و التبصرة اور کفایةالاثر میں بھی منقول ہے۔
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور اس کی دلالت بھی واضح و آشکار ہے۔
قال النجاشی: شیخ القمیین فی عصره ومتقدمهم، وفقیههم، وثقتهم...
وقال الشیخ: کان فقیها، جلیلا، ثقة۔
قال النجاشی: شیخ هذه الطائفة وفقیهها ووجهها....
وقال الشیخ: جلیل القدر، ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة صدوقا...
وقال الشیخ: کثیر الروایة، ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة فی حدیثه، صدوقا.
وقال الشیخ: ثقة۔
قال النجاشی: ثقة، عین.
وقال الشیخ: عبدالله بن مسکان ثقة۔
قال النجاشی: عظیم المنزلة فی اصحابنا، لقی علی بن الحسین، وابا جعفر، وابا عبدالله (علیهمالسّلام) وروی عنهم، وکانت له عندهم منزلة وقدم.
قال الشیخ: ثقة، جلیل القدر، عظیم المنزلة فی اصحابنا۔
[ترمیم]
• جس کا بھی میں سرپرست ہوں، علیؑ اس کا سرپرست ہے:
حدیث شریف غدیر، امیر المومنینؑ کی جانشینی ثابت کرنے کیلئے اہل تشیع کی برترین دلیل ہے جو شیعہ و سنی کتب میں سینکڑوں صحیح اسناد کی حامل ہے۔ شیخ صدوقؒ نے اس روایت کو اپنی کتاب خصال میں صحیح سند کے ساتھ تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے:
"حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ اَبِی الْخَطَّابِ وَیَعْقُوبَ بْنِ یَزِیدَ جَمِیعاً عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ اُسَیْدٍ الْغِفَارِیِّ قَالَ:
لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) مِنْ حِجَّةِ الْوَدَاعِ وَنَحْنُ مَعَهُ اَقْبَلَ حَتَّی انْتَهَی اِلَی الْجُحْفَةِ فَاَمَرَ اَصْحَابَهُ بِالنُّزُولِ فَنَزَلَ الْقَوْمُ مَنَازِلَهُمْ ثُمَ نُودِیَ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّی بِاَصْحَابِهِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ اَقْبَلَ بِوَجْهِهِ اِلَیْهِمْ فَقَالَ لَهُمْ:
اِنَّهُ قَدْ نَبَّاَنِی اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ اَنِّی مَیِّتٌ وَاَنَّکُمْ مَیِّتُونَ وَکَاَنِّی قَدْ دُعِیتُ فَاَجَبْتُ وَاَنِّی مَسْئُولٌ عَمَّا اُرْسِلْتُ بِهِ اِلَیْکُمْ وَعَمَّا خَلَّفْتُ فِیکُمْ مِنْ کِتَابِ اللَّهِ وَحُجَّتِهِ وَاَنَّکُمْ مَسْئُولُونَ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُونَ لِرَبِّکُمْ قَالُوا نَقُولُ قَدْ بَلَّغْتَ ونَصَحْتَ وَجَاهَدْتَ فَجَزَاکَ اللَّهُ عَنَّا اَفْضَلَ الْجَزَاءِ.
ثُمَّ قَالَ لَهُمْ اَ لَسْتُمْ تَشْهَدُونَ اَنْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ وَاَنِّی رَسُولُ اللَّهِ اِلَیْکُمْ وَاَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَاَنَّ النَّارَ حَقٌّ وَاَنَّ الْبَعْثَ بَعْدَ الْمَوْتِ حَقٌّ فَقَالُوا نَشْهَدُ بِذَلِکَ قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ عَلَی مَا یَقُولُونَ اَلَا وَاِنِّی اُشْهِدُکُمْ اَنِّی اَشْهَدُ اَنَّ اللَّهَ مَوْلَایَ وَاَنَا مَوْلَی کُلِّ مُسْلِمٍ وَاَنَا اَوْلی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ فَهَلْ تُقِرُّونَ لِی بِذَلِکَ وَتَشْهَدُونَ لِی بِهِ؟
فَقَالُوا نَعَمْ نَشْهَدُ لَکَ بِذَلِکَ.
فَقَالَ: اَلَا مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَاِنَّ عَلِیّاً مَوْلَاهُ وَهُوَ هَذَا ثُمَّ اَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ علیه السلام.
فَرَفَعَهَا مَعَ یَدِهِ حَتَّی بَدَتْ آبَاطُهُمَا.
ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ اَلَا وَاِنِّی فَرَطُکُمْ وَاَنْتُمْ وَارِدُونَ عَلَیَّ الْحَوْضَ حَوْضِی غَداً وَهُوَ حَوْضٌ عَرْضُهُ مَا بَیْنَ بُصْرَی وَصَنْعَاءَ فِیهِ اَقْدَاحٌ مِنْ فِضَّةٍ عَدَدَ نُجُومِ السَّمَاءِ اَلَا وَاِنِّی سَائِلُکُمْ غَداً مَا ذَا صَنَعْتُمْ فِیمَا اَشْهَدْتُ اللَّهَ بِهِ عَلَیْکُمْ فِی یَوْمِکُمْ هَذَا اِذَا وَرَدْتُمْ عَلَیَّ حَوْضِی وَمَا ذَا صَنَعْتُمْ بِالثَّقَلَیْنِ مِنْ بَعْدِی فَانْظُرُوا کَیْفَ تَکُونُونَ خَلَفْتُمُونِی فِیهِمَا حِینَ تَلْقَوْنِی.
قَالُوا: وَمَا هَذَانِ الثَّقَلَانِ یَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: اَمَّا الثَّقَلُ الْاَکْبَرُ فَکِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ سَبَبٌ مَمْدُودٌ مِنَ اللَّهِ وَمِنِّی فِی اَیْدِیکُمْ طَرَفُهُ بِیَدِ اللَّهِ وَالطَّرَفُ الْآخَرُ بِاَیْدِیکُمْ فِیهِ عِلْمُ مَا مَضَی وَمَا بَقِیَ اِلَی اَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ وَاَمَّا الثَّقَلُ الْاَصْغَرُ فَهُوَ حَلِیفُ الْقُرْآنِ وَهُوَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ وَعِتْرَتُهُ (علیهمالسّلام) وَاِنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الْحَوْضَ.
قَالَ مَعْرُوفُ بْنُ خَرَّبُوذَ: فَعَرَضْتُ هَذَا الْکَلَامَ عَلَی اَبِی جَعْفَرٍؑ فَقَالَ: صَدَقَ اَبُو الطُّفَیْلِ رَحِمَهُ اللَّهُ هَذَا الْکَلَامُ وَجَدْنَاهُ فِی کِتَابِ عَلِیٍّؑ وَعَرَفْنَاهُ.
وَحَدَّثَنَا اَبِی رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ.
وَحَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَسْرُورٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ.
وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَی بْنِ الْمُتَوَکِّلِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ السَّعْدَآبَادِیُّ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِیِّ عَنْ اَبِیهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ عَنْ اَبِی الطُّفَیْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ عَنْ حُذَیْفَةَ بْنِ اَسِیدٍ الْغِفَارِیِّ بِمِثْلِ هَذَا الْحَدِیثِ سَوَاء۔
ابوالطفیل
حذیفہ بن اسید غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ
حجۃ الوداع سے واپسی کے سفر پر تھے جبکہ ہم بھی ساتھ تھے، یہاں تک کہ
جحفہ کے پاس پہنچ گئے، پھر اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ پڑاؤ ڈالو، لوگ ٹھہر گئے، اس وقت نماز کیلئے پکارا گیا اور اپنے اصحاب کے ساتھ مل کر دو رکعت نماز ادا کی۔
پھر ان کی طرف اپنا چہرہ مبارک کیا اور فرمایا:
بے شک خداوند لطیف خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ میں موت کی آغوش میں چلا جاؤں گا اور تمہیں بھی موت آ جائے گی اور گویا کہ مجھے دعوت دی گئی اور میں نے اس دعوت کو قبول کر لیا ہے اور مجھ سے اس چیز کے بارے میں بھی سوال ہو گا کہ جس کے ساتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہوں اور اس چیز کے بارے بھی سوال ہو گا جو تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ یعنی کتاب خدا اور اس کی حجت؛ تم سے بھی سوال ہو گا۔ تم اپنے پروردگار کو کیا کہوں گے؟! کہنے لگے: ہم کہیں گے کہ آپؐ نے پیغام پہنچا دیا، نصیحت کر دی اور انتہائی جدو جہد کی، پس خدا آپ کو بہترین پاداش دے۔ پھر پیغمبر خداؐ نے انہیں فرمایا: کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور یہ کہ میں خدا کا رسول ہوں اور یہ کہ
بہشت حق ہے اور یہ کہ جہنم کی آگ حق ہے اور یہ کہ موت کے بعد کی زندگی حق ہے؟! کہنے لگے: ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔
پیغمبرؐ نے فرمایا: خدایا! جو یہ کہہ رہے ہیں، اس پر گواہ رہ۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں تم کو گواہ بنا رہا ہوں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا میرا مولا ہے اور میں ہر مسلمان کا مولا ہوں اور میں مومنین پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں، کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس کی گواہی دیتے ہو؟! کہنے لگے: ہاں، ہم آپ کے بارے میں اس کی شہادت دیتے ہیں۔
پھر فرمایا: آگاہ ہو جاؤ کہ جس جس کا میں مولا ہوں، علیؑ اس کے مولا ہیں اور وہ یہ ہیں، پھر علی کا ہاتھ پکڑا اور اپنے ہاتھ کے ساتھ اسے اتنا بلند کیا یہاں تک کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی آشکار ہو گئی۔ پھر کہا: خدایا! ہر اس کو دوست رکھ جو اس کو دوست رھے اور دشمن رکھ ہر اس کو جو اسے دشمن رکھے، مدد کر ہر اس کی جو اس کی مدد کرے اور خوار کرے ہر اس کو جو اس کو خوار کرے، آگاہ ہو جاؤ کہ میں موت کی طرف تم سے سبقت کروں گا اور تم حوض
کوثر پر میرے پاس لائے جاؤ گے، میرے حوض کی وسعت بصرہ و صنعا کے مابین وسعت جیسی ہو گی، اس میں چاندی کے پیالے آسمانی ستاروں کی تعداد کے برابر ہوں گے، آگاہ ہو جاؤ، فردا جب میرے حوض پر وارد ہو گے تو تم سے پوچھوں گا اس چیز کے بارے میں کہ جس کے متعلق آج گواہی لے رہا ہوں کہ تم نے میرے بعد ’’ثقلین (دو گراں بہا چیزوں)‘‘ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟! جب میرے ساتھ ملاقات کرو تو مجھے بتانا کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا ہے؟!
کہنے لگے: یا رسول اللہ! یہ دو گراں بہا چیزیں کیا ہیں؟! فرمایا: سب سے بڑی گراں بہا چیز خدا کی کتاب ہے جو خدا اور میری طرف سے تمہارے ہاتھوں میں دراز کیا ہوا سبب اور واسطہ ہے، اس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے، گزشتہ اور
قیامت کے دن تک آنے والے حالات کا علم اس میں ہے؛ اور اس سے چھوٹی گراں بہا چیز جو قرآن کے ساتھ ہے، وہ علی بن ابی طالب اور ان کی عترت علیھم السلام ہیں؛ اور یہ دونوں امانتیں ایک دوسرے جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گی۔
معروف بن خرّبوذ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلام
امام باقرؑ کے سامنے پیش کیا، فرمایا:
ابو الطفیل نے سچ کہا، خدا اس پر رحمت کرے اور ہم نے اسے ’’کتاب علیؑ‘‘ میں اسی طرح پایا ہے اور جانا ہے۔
یہ روایت بھی سند و دلالت کے اعتبار سے صحیح ہے۔
محمد بن الحسن بن احمد: قال النجاشی: شیخ القمیین وفقیههم، ومتقدمهم ووجههم ثقة ثقة، عین...
وقال الشیخ: جلیل القدر، عارف بالرجال، موثوق به... جلیل القدر، بصیر بالفقه، ثقة۔
محمد بن الحسن بن فروخ: قال النجاشی: کان وجها فی اصحابنا القمیین، ثقة، عظیم القدر، راجحا، قلیل السقط فی الروایة۔
مقال النجاشی: جلیل من اصحابنا، عظیم القدر، کثیر الروایة، ثقة، عین، حسن التصانیف، مسکون الی روایته...
وقال الشیخ: کوفی، ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة صدوقا...
وقال الشیخ: کثیر الروایة، ثقة۔
قال النجاشی: جلیل القدر، عظیم المنزلة فینا وعند المخالفین...
وقال الشیخ: وکان من اوثق الناس عند الخاصة والعامة، وانسکهم نسکا، واورعهم واعبدهم۔
عبدالله بن سنان بن طریف: قال النجاشی: کوفی، ثقة، من اصحابنا، جلیل لا یطعن علیه فی شئ.... روی هذه الکتب عنه جماعات من اصحابنا لعظمه فی الطائفة، وثقته وجلالته.
وقال الشیخ: عبدالله بن سنان، ثقة۔
کشی اپنی کتاب رجال میں
برید بن معاویه کے حالات میں وضاحت کرتے ہیں کہ وہ ان افراد میں سے ہیں کہ جن کی صداقت پر تمام شیعوں کا اجماع ہے:
اجماع العصابة علی تصدیق جماعة من اصحاب ابی جعفرؑ واصحاب ابی عبد اللّهؑ وانقیادهم لهم بالفقه، وعدّه منهم معروف بن خرّبوذ۔
امام صادقؑ نے اسی روایت کے آخر میں اس کی تصدیق کی ہے، لہٰذا اس کی توثیقات نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
[ترمیم]
• رسول خداؐ نے مجھے
غدیر خم کے موقع پر خدا کے حکم سے امامت کے منصب پر فائز کیا:
شیخ کلینیؒ نے کتاب شریف
کافی میں صحیح سند کے ساتھ ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کے مطابق سب سے پہلے
ابوبکر کی بیعت کرنے والا
شیطان تھا۔ پھر امیر المومنینؑ نے حدیث غدیر سے استناد کرتے ہوئے خود کو اللہ کی جانب سے مقرر کردہ کہا ہے۔
"۵۴۱- عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِیسَی عَنْ اِبْرَاهِیمَ بْنِ عُمَرَ الْیَمَانِیِّ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ قَیْسٍ الْهِلَالِیِّ قَالَ: سَمِعْتُ سَلْمَانَ الْفَارِسِیَّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ یَقُولُ:
لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صوصَنَعَ النَّاسُ مَا صَنَعُوا وخَاصَمَ اَبُو بَکْرٍ وعُمَرُ واَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ الْاَنْصَارَ فَخَصَمُوهُمْ بِحُجَّةِ عَلِیٍّ ع قَالُوا: یَا مَعْشَرَ الْاَنْصَارِ قُرَیْشٌ اَحَقُّ بِالْاَمْرِ مِنْکُمْ لِاَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صمِنْ قُرَیْشٍ والْمُهَاجِرِینَ مِنْهُمْ اِنَّ اللَّهَ تَعَالَی بَدَاَ بِهِمْ فِی کِتَابِهِ وفَضَّلَهُمْ وقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صالْاَئِمَّةُ مِنْ قُرَیْشٍ.
قَالَ سَلْمَانُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ فَاَتَیْتُ عَلِیّاً ع وهُوَ یُغَسِّلُ رَسُولَ اللَّهِ صفَاَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعَ النَّاسُ وقُلْتُ اِنَّ اَبَا بَکْرٍ السَّاعَةَ عَلَی مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ فواللَّهِ مَا یَرْضَی اَنْ یُبَایِعُوهُ بِیَدٍ وَاحِدَةٍ اِنَّهُمْ لَیُبَایِعُونَهُ بِیَدَیْهِ جَمِیعاً بِیَمِینِهِ وشِمَالِهِ.
فَقَالَ لِی یَا سَلْمَانُ! هَلْ تَدْرِی مَنْ اَوَّلُ مَنْ بَایَعَهُ عَلَی مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صقُلْتُ لَا اَدْرِی اِلَّا اَنِّی رَاَیْتُ فِی ظُلَّةِ بَنِی سَاعِدَةَ حِینَ خَصَمَتِ الْاَنْصَارُ وکَانَ اَوَّلَ مَنْ بَایَعَهُ بَشِیرُ بْنُ سَعْدٍ واَبُو عُبَیْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ سَالِمٌ
قَالَ لَسْتُ اَسْاَلُکَ عَنْ هَذَا ولَکِنْ تَدْرِی اَوَّلَ مَنْ بَایَعَهُ حِینَ صَعِدَ عَلَی مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ ص؟
قُلْتُ لَا ولَکِنِّی رَاَیْتُ شَیْخاً کَبِیراً مُتَوَکِّئاً عَلَی عَصَاهُ بَیْنَ عَیْنَیْهِ سَجَّادَةٌ شَدِیدُ التَّشْمِیرِ صَعِدَ اِلَیْهِ اَوَّلَ مَنْ صَعِدَ وهُوَ یَبْکِی ویَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَمْ یُمِتْنِی مِنَ الدُّنْیَا حَتَّی رَاَیْتُکَ فِی هَذَا الْمَکَانِ ابْسُطْ یَدَکَ فَبَسَطَ یَدَهُ فَبَایَعَهُ ثُمَّ نَزَلَ فَخَرَجَ مِنَ الْمَسْجِدِ
فَقَالَ عَلِیٌّ ع هَلْ تَدْرِی مَنْ هُوَ؟ قُلْتُ لَا ولَقَدْ سَاءَتْنِی مَقَالَتُهُ کَاَنَّهُ شَامِتٌ بِمَوْتِ النَّبِیِّ ص.
فَقَالَ: ذَاکَ اِبْلِیسُ لَعَنَهُ اللَّهُ.
اَخْبَرَنِی رَسُولُ اللَّهِ صاَنَّ اِبْلِیسَ ورُؤَسَاءَ اَصْحَابِهِ شَهِدُوا نَصْبَ رَسُولِ اللَّهِ صاِیَّایَ لِلنَّاسِ بِغَدِیرِ خُمٍّ بِاَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ فَاَخْبَرَهُمْ اَنِّی اَوْلَی بِهِمْ مِنْ اَنْفُسِهِمْ واَمَرَهُمْ اَنْ یُبَلِّغَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ.
فَاَقْبَلَ اِلَی اِبْلِیسَ اَبَالِسَتُهُ ومَرَدَةُ اَصْحَابِهِ فَقَالُوا اِنَّ هَذِهِ اُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ ومَعْصُومَةٌ ومَا لَکَ ولَا لَنَا عَلَیْهِمْ سَبِیلٌ قَدْ اُعْلِمُوا اِمَامَهُمْ ومَفْزَعَهُمْ بَعْدَ نَبِیِّهِمْ فَانْطَلَقَ اِبْلِیسُ لَعَنَهُ اللَّهُ کَئِیباً حَزِیناً.
وَ اَخْبَرَنِی رَسُولُ اللَّهِ صاَنَّهُ لَوْ قُبِضَ اَنَّ النَّاسَ یُبَایِعُونَ اَبَا بَکْرٍ فِی ظُلَّةِ بَنِی سَاعِدَةَ بَعْدَ مَا یَخْتَصِمُونَ ثُمَّ یَاْتُونَ الْمَسْجِدَ فَیَکُونُ اَوَّلَ مَنْ یُبَایِعُهُ عَلَی مِنْبَرِی اِبْلِیسُ لَعَنَهُ اللَّهُ فِی صُورَةِ رَجُلٍ شَیْخٍ مُشَمِّرٍ یَقُولُ کَذَا وکَذَا ثُمَّ یَخْرُجُ فَیَجْمَعُ شَیَاطِینَهُ واَبَالِسَتَهُ فَیَنْخُرُ ویَکْسَعُ ویَقُولُ کَلَّا زَعَمْتُمْ اَنْ لَیْسَ لِی عَلَیْهِمْ سَبِیلٌ فَکَیْفَ رَاَیْتُمْ مَا صَنَعْتُ بِهِمْ حَتَّی تَرَکُوا اَمْرَ اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ وطَاعَتَهُ ومَا اَمَرَهُمْ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ص۔
سلیم بن قیس هلالی کہتے ہیں: میں نے سلمان فارسی سے سنا کہ جب پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم دنیا سے رخصت ہوئے اور لوگوں نے جو کچھ کیا، ابو بکر و
عمر اور
ابو عبیدۃ بن جراح نے
انصار کے سامنے علیؑ والی دلیل کے ساتھ حجت قائم کی، پس کہنے لگے: اے انصار!
قریش امامت کیلئے تم سے زیادہ سزاوار ہیں؛ کیونکہ رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم قریش سے تھے اور مہاجرین بھی قریش میں سے ہیں؛ خدا نے قرآن میں ان سے آغاز کیا ہے اور انہیں برتری بخشی ہے اور پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا ہے:
آئمہؑ قریش میں سے ہیں۔
سلمان نے کہا: میں امیر المومنین کے پاس رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو غسل دینے میں مشغول تھا اور آپؑ کو اس واقعے سے آگاہ کیا اور کہا: اب ابوبکر پیغمبرؐ کے منبر پر بیٹھ چکے ہیں اور خدا کی قسم، وہ راضی نہیں ہے کہ لوگ ایک ہاتھ سے اس کی بیعت کریں اور لوگ دونوں ہاتھوں سے اس کی بیعت کر رہے ہیں۔
علیؑ نے فرمایا: اے سلمان! کیا تم جانتے ہو کہ کس نے سب سے پہلے پیغمبرؐ کے منبر پر اس کی بیعت کی ہے؟!
میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا، صرف یہ دیکھا کہ بنی ساعدہ کے سقیفہ میں انصار کے ساتھ بحث و جدال کے موقع پر سب سے پہلے اس کی بیعت
بشیر بن سعد اور ابوعبیدة بن جرّاح نے پھر پھر عمر اور سالم نے۔
امامؑ نے فرمایا: میں اس کے بارے میں تم سے نہیں پوچھا، (پوچھا یہ ہے کہ) کیا جانتے ہو کہ پیغمبرؐ کے منبر پر بیٹھتے وقت سب سے پہلے اس کی بیعت کرنے والا کون تھا؟!
میں نے عرض کیا: نہیں؛ مگر ایک بڑی عمر کے بوڑھے کو دیکھا کہ جس نے اپنی عصا کا سہارا لے رکھا تھا اور اس کی دونوں آنکھوں کے مابین زیادہ سجدے کرنے کا نشان تھا، وہ پہلا شخص تھا جو منبر کی سیڑھی پر کھڑا ہوا اور روتے ہوئے کہہ رہا تھا: اس خدا کی تعریف کہ جس نے مجھے دنیا سے نہیں اٹھایا اور میں نے تجھے اس مقام پر دیکھ لیا، اپنا ہاتھ آگے کرو۔ ابوبکر نے ہاتھ آگے کیا اور بوڑھے شخص نے اس کی بیعت کر لی اور پھر منبر سے نیچے اتر آیا اور
مسجد سے باہر چلا گیا۔
امیر المومنینؑ نے فرمایا: تم نے پہچانا کہ وہ کون تھا؟! میں نے کہا: نہیں؛ مگر اس کی بات مجھے بری لگی؛ کیونکہ گویا پیغمبرؐ کی رحلت پر خوشی کر رہا ہو۔ امامؑ نے فرمایا: وہ
شیطان لعنۃ اللہ علیہ تھا۔
رسول خداؐ نے مجھے خبر دی تھی کہ شیطان اور اس کے ساتھ پریشان تھے کہ پیغمبر اکرمؐ نے مجھے غدیر خم کے دن خداوند عزوجل کے امر سے لوگوں پر خود ان کے نفع کیلئے امام و خلیفہ مقرر کر دیا ہے اور انہیں خبر دی کہ میں ان پر خود ان کی اپنی جانوں سے زیادہ سزاوار رکھتا ہوں اور انہیں حکم دیا کہ حاضرین، غائبین تک ہنچا دیں تو ابلیس کے سب شیاطین و سرکردہ افراد جمع ہو گئے اور کہا: بے شک یہ امت، مرحومہ و معصومہ ہے، تمہیں اور ہمیں ان پر کوئی تسلط نہیں ہے، بے شک انہوں نے پیغمبر کے بعد اپنی پناہ گاہ اور پیشوا کو جان لیا ہے۔ اس وقت شیطان لعنۃ اللہ علیہ افسردہ اور غمگین ہو کر ان سے دور ہو گیا۔
رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے مجھے خبر دی تھی کہ جب آپ اس جہان سے رخصت ہوں گے تو لوگ
سقیفہ بنی ساعدہ میں ایک دوسرے کے خلاف حجت قائم کرنے کے بعد ابوبکر کی بیعت کر لیں گے اور وہاں سے مسجد کی طرف آئیں گےے اور سب سے پہلے منبر کے اوپر ابوبکر کی بیعت کرنے والا شیطان ہے جو ایک بوڑھے عبادت گزار کے بھیس میں وہاں آئے گا اور یہ باتیں کرے گا، پھر وہاں سے چلا جائے گا اور اپنے شیاطین و پیروکاروں کو جمع کر کے اچھل کود کرے گا اور ناک سے پھنکارے گا اور انہیں کہے گا: ہرگز نہیں، تم نے گمان کیا کہ میرا ان پر تسلط نہیں ہے، اب تم نے دیکھ لیا کہ میں نے ان کے ساتھ کیا کام کیا، یہاں تک کہ آخرکارانہوں نے میری پیروی کی اور خدائے عزوجل اور پیغمبرؐ کے اوامر کو چھوڑ دیا۔
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
ابراهیم بنهاشم اور ان کی وثاقت کے اثبات کیلئے مفصل تحقیقات کی گئی ہیں کہ ہم اختصار کی وجہ سے حضرت
آیت اللہ العظمیٰ خوئی کا کلام نقل کرتے ہیں۔ آپ نے ابراہیم بن ہاشم کے حالات میں لکھا ہے:
"اقول: لا ینبغی الشک فی وثاقة ابراهیم بنهاشم، ویدل علی ذلک عدة امور:
۱. انه روی عنه ابنه علی فی تفسیره کثیرا، وقد التزم فی اول کتابه بان ما یذکره فیه قد انتهی الیه بواسطة الثقات. وتقدم ذکر ذلک فی (المدخل) المقدمة الثالثة.
۲. ان السید ابن طاووس ادعی الاتفاق علی وثاقته، حیث قال عند ذکره روایة عن امالی الصدوق فی سندها ابراهیم بنهاشم: " ورواة الحدیث ثقات بالاتفاق ". فلاح السائل: الفصل التاسع عشر، الصفحة ۱۵۸.
۳. انه اول من نشر حدیث الکوفیین بقم. والقمیون قد اعتمدوا علی روایاته، وفیهم من هو مستصعب فی امر الحدیث، فلو کان فیه شائبة الغمز لم یکن یتسالم علی اخذ الروایة عنه، وقبول قوله".
میں کہتا ہوں: شائسہ نہیں کہ ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت میں تردید کی جائے، اس مطلب کے اثبات کی چند ادلہ ہیں:
۱. علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں بہت سی روایات ان سے نقل کی ہیں؛ جبکہ کتاب کے اول میں وہ اس بات کے ملتزم ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں جو کچھ نقل کیا ہے ، ثقہ افراد کے واسطے سے ان تک پہنچا ہے۔ اس مطلب کی بحث کتاب المدخل کے تیسرے مقدمے میں گزر چکی ہے۔
۲.
سید بن طاؤس نے ان کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے؛ چنانچہ ایک روایت جس کی سند میں ابراہیم بن ہاشم موجود ہیں؛ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ: اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۳. آپ وہ پہلے شخص ہیں کہ اہل کوفہ کی احادیث کو قوم میں نشر کیا ہے اور قمیوں نے ان کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ قمیوں کے مابین ایسے لوگ موجود تھےجو روایت کے بارے میں سخت گیر تھے۔ اگر ان میں اشکال کا احتمال ہوتا تو تمام قمی ان کی روایات کو اخذ کرنے اور قبول کرنے پر اتفاق نہ کرتے ۔
آیت اللہ خوئی کے کلام کی وضاحت میں ہم کہیں گے:
قمی، روایت کے نقل میں اس حد تک وسواس رکھتے تھے کہ اگر کوئی
قم شہر میں ضعیف روایت نقل کرتا تو اسے فورا شہر سے باہر نکال دیتے تھے اور شہر بدر کر دیتے تھے؛ چنانچہ
سھل بن زیاد اور ۔۔۔ کو جلا وطن کر دیا۔ قمی محدثین کے مابین ضعیف راوی سے روایت کو نقل کرنا ناقابل معافی جرم شمار ہوتا ہے۔
ابراهیم بن هاشم، اس مکتب کے بانی اور حدیث کی قم میں اشاعت کرنے والے پہلے فرد ہیں اور ان کے معزز بیٹے علی بن ابرہیم نے اپنے پدر سے چھ ہزار سے زائد روایات نقل کی ہیں۔ اس بنا پر مذکورہ دعویٰ کے برخلاف ابراہیم بن ہاشم صریح توثیق کے حامل ہیں اور کم از کم سید بن طاؤس جیسی شخصیت نے تمام علما کے ان کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے۔
ٰ
قال النجاشی: وکان ثقة فی حدیثه، صدوقا.
وقال الشیخ: ثقة۔
ابراهیم بن عمر الیمانی... قال النجاشی: شیخ من اصحابنا ثقة۔
سلیم بن قیس هلالی، شیعوں کے پہلے پانچ امام کے خاص صحابی ہیں۔ آیت اللہ خوئی نے ان کے حالات میں لکھا ہے:
سلیم بن قیس: قال النجاشی فی زمرة من ذکره من سلفنا الصالح فی الطبقة الاولی: (سلیم بن قیس الهلالی له کتاب، یکنی ابا صادق).
پھر آیت اللہ خوئیؒ نے ان کے بارے میں چند نکات بیان کیے ہیں:
الاولی: ان سلیم بن قیس - فی نفسه - ثقة جلیل القدر عظیم الشان، ویکفی فی ذلک شهادة البرقی بانه من الاولیاء من اصحاب امیرالمؤمنین علیه السلام، المؤیدة بما ذکره النعمانی فی شان کتابه، وقد اورده العلامة فی القسم الاول وحکم بعدالته.
سلیم بن قیس هلالی فی نفسه، ثقہ، جلیل القدر اور عالی مقام ہیں۔ اس مطلب کے اثبات کیلئے برقی کی یہ شہادت کہ وہ امیر المومنینؑ کے اصحاب کا دوست تھا؛ کافی ہے۔ کتاب سلیم کے بارے میں نعمانی کے کلام سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔
علامہ حلی نے بھی انہیں پہلی قسم میں ذکر کیا ہے اور ان کی عدالت کا حکم لگایا ہے۔ .
اہل سنت کی تاریخ کے بزرگ عالم
حاکم نیشاپوری نے ایک روایت نقل کی ہے، جو پوری وضاحت کے ساتھ اس روایت کا مقصود واضح کرتی ہے:
حَدَّثَنَا مُکْرَمُ بْنُ اَحْمَدَ الْقَاضِی، ثنا اَحْمَدُ بْنُ عَلِیٍّ الاَبَّارُ، ثنا اِسْحَاقُ بْنُ سَعِیدِ بْنِ اَرْکُونُ الدِّمَشْقِیُّ، ثنا خُلَیْدُ بْنُ دَعْلَجٍ اَبُو عَمْرٍو السَّدُوسِیُّ، اَظُنُّهُ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " النُّجُومُ اَمَانٌ لاَهْلِ الاَرْضِ مِنَ الْغَرَقِ، وَاَهْلُ بَیْتِی اَمَانٌ لاُمَّتِی مِنَ الاخْتِلافِ، فَاِذَا خَالَفَتْهَا قَبِیلَةٌ مِنَ الْعَرَبِ اخْتَلَفُوا فَصَارُوا حِزْبَ اِبْلِیسَ ".
رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا: ستارے اہل زمین کو غرق ہونے سے امان میں رکھتے ہیں۔ میرے اہل بیت، میری امت کو اختلاف سے امان دیں گے؛ پس جب کوئی عرب قبیلہ ان کی مخالفت کرے تو وہ اختلاف کا شکار ہو جائے گا اور شیطان کے حزب سے ہو گا۔
هَذَا حَدِیثٌ صَحِیحُ الاِسْنَادِ، وَلَمْ یُخَرِّجَاهُ.
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے؛ مگر بخاری و مسلم نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔ ۔
ان دو روایات کے مطابق کہ جن میں سے ایک شیعہ کتب میں اور دوسری ہمارے مخالفین کی کتاب میں منقول ہے؛ جنہوں نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اہل بیتؑ سے راستہ جدا کیا اور ان کی مخالفت کی، درحقیقت وہ شیطان کا حزب ہو چکے ہیں۔ اب اگر یہ دو روایات آیت ولایت کے ساتھ رکھی جائیں تو ہر دو کا معنی دقیق تر صورت میں متعین ہو جاتا ہے:
"اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللَّهُ ورَسُولُهُ والَّذِینَ ءَامَنُواْ الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَوةَ ویُؤْتُونَ الزَّکَوةَ وهُمْ رَاکِعُونَ • وَ مَن یَتَوَلَّ اللَّهَ ورَسُولَهُ والَّذِینَ ءَامَنُواْ فَاِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَلِبُونَ؛
ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کو اپنا ولی بنائے گا تو(وہ اللہ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور) اللہ کی جماعت ہی غالب آنے والی ہے۔
[ترمیم]
• خدا نے ہمیں اپنی تمام مخلوقات پر حجت قرار دیا ہے:
شیخ صدوقؒ معتبر اور صاحب شرف کتاب
کمال الدین کہ جسے
امام زمانہؑ کے حکم سے لکھا ہے، میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس کے مطابق امیر المومنینؑ نے اپنی عصمت و امامت کو الہٰی قرار دیا ہے:
"۶۳-حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ سَعِیدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِیسَی عَنْ اِبْرَاهِیمَ بْنِ عُمَرَ الْیَمَانِیِّ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ قَیْسٍ الْهِلَالِیِّ عَنْ اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍؑ قَالَ:
اِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وتَعَالَی طَهَّرَنَا وعَصَمَنَا وجَعَلَنَا شُهَدَاءَ عَلَی خَلْقِهِ وحُجَجاً فِی اَرْضِهِ وجَعَلَنَا مَعَ الْقُرْآنِ وجَعَلَ الْقُرْآنَ مَعَنَا لَا نُفَارِقُهُ ولَا یُفَارِقُنَا.
سلیم بن قیس هلالی نے امیر المومنینؑ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: بے شک خدائے تبارک و تعالیٰ نے ہمیں پاکیزہ و معصوم قرار دیا ہے اور ہمیں اپنی خلق پر گواہ اور حجت قرار دیا ہے، ہمیں قرآن کے ساتھ اور قرآن کو ہمارے ساتھ قرار دے، نہ ہم قرآن سے جدا ہوں گے اور نہ قرآن ہم سے جدا ہو گا۔
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور اس کی دلالت بھی واضح و آشکار ہے۔
محمد بن الحسن بن احمد: قال النجاشی: شیخ القمیین وفقیههم، ومتقدمهم ووجههم ثقة ثقة، عین...
وقال الشیخ: جلیل القدر، عارف بالرجال، موثوق به... جلیل القدر، بصیر بالفقه، ثقة۔
قال النجاشی: کان وجها فی اصحابنا القمیین، ثقة، عظیم القدر، راجحا، قلیل السقط فی الروایة۔
قال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
قال الشیخ: من موالی علی بن الحسین علیه السلام، ثقة.
صاحب المصنفات الاهوازی، ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة فی حدیثه، صدوقا.
وقال الشیخ: ثقة۔
سلیم بن قیس هلالی، شیعوں کے پہلے پانچ امام کے خاص صحابی ہیں۔ آیت اللہ خوئی نے ان کے حالات میں لکھا ہے:
سلیم بن قیس: قال النجاشی فی زمرة من ذکره من سلفنا الصالح فی الطبقة الاولی: (سلیم بن قیس الهلالی له کتاب، یکنی ابا صادق).
پھر آیت اللہ خوئیؒ نے ان کے بارے میں چند نکات بیان کیے ہیں:
الاولی: ان سلیم بن قیس - فی نفسه - ثقة جلیل القدر عظیم الشان، ویکفی فی ذلک شهادة البرقی بانه من الاولیاء من اصحاب امیرالمؤمنین علیه السلام، المؤیدة بما ذکره النعمانی فی شان کتابه، وقد اورده العلامة فی القسم الاول وحکم بعدالته.
سلیم بن قیس هلالی فی نفسه، ثقہ، جلیل القدر اور عالی مقام ہیں۔ اس مطلب کے اثبات کیلئے برقی کی یہ شہادت کہ وہ امیر المومنینؑ کے اصحاب کا دوست تھا؛ کافی ہے۔ کتاب سلیم کے بارے میں نعمانی کے کلام سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔
علامہ حلی نے بھی انہیں پہلی قسم میں ذکر کیا ہے اور ان کی عدالت کا حکم لگایا ہے۔
شیخ کلینیؒ نے کتاب شریف کافی میں یہی روایت اس سند کیساتھ نقل کی ہے:
عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِیسَی عَنْ اِبْرَاهِیمَ بْنِ عُمَرَ الْیَمَانِیِّ عَنْ سُلَیْمِ بْنِ قَیْسٍ الْهِلَالِیِّ عَنْ اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) قَالَ: اِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی طَهَّرَنَا... ۔
[ترمیم]
• میں، حسن، حسین اور اس کے نو فرزند حدیث ثقلین کا مقصود ہیں:
شیخ صدوق نے کتاب
عیون اخبار الرضاؑ، میں حدیث شریف ثقلین، کے ضمن میں ائمہؑ کے نام امیر المومنینؑ کی زبانی بھی نقل کیے ہیں:
"۲۵ حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ زِیَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ اَبِیهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ عَنْ غِیَاثِ بْنِ اِبْرَاهِیمَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیهِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیهِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ اَبِیهِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّؑ قَالَ: سُئِلَ اَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَؑ عَنْ مَعْنَی قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) اِنِّی مُخَلِّفٌ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ کِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِی مَنِ الْعِتْرَةُ؟ فَقَالَ:
اَنَا وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَالْاَئِمَّةُ التِّسْعَةُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ تَاسِعُهُمْ مَهْدِیُّهُمْ وَقَائِمُهُمْ لَا یُفَارِقُونَ کِتَابَ اللَّهِ وَلَا یُفَارِقُهُمْ حَتَّی یَرِدُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) حَوْضَه".
امام صادقؑ نے فرمایا: امیر المومنینؑ سے پوچھا گیا کہ حضرت رسول خداؐ کے اس قول کا کیا معنی ہے کہ فرمایا: «انّی مخلّف فیکم الثقلین کتاب اللَّه و عترتی»
عترت کون ہیں؟! حضرت نے فرمایا: عترت سے مقصود میں، حسنین اور اولاد حسینؑ میں سے نو افراد ہیں، نویں فرد مہدی اور عترت کے قائم ہیں، یہ قرآن سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کے کنارے پیغمبرؐ کی خدمت میں پہنچیں گے۔
یہ روایت بھی سند و دلالت کے اعتبار سے صحیح ہے۔
روایت کی سند میں پہلا راوی
احمد بن زیاد همدانی شیخ صدوق (رحمةاللهعلیه) کے استاد ہیں۔ شیخ صدوقؒ نے اپنے استاد کی چند مقامات پر توثیق کی ہے، احمد بن زیاد ھمدانی کی تائید میں ان کے کلام کا متن
امام زمانہؑ کی غیبت پر مبنی روایت کے ذیل میں ہے:
قال مصنف هذا الکتاب رضی الله عنه: لم اسمع هذا الحدیث الا من احمد بن زیاد ابن جعفر الهمدانی رضی الله عنه بهمدان عند منصرفی من حج بیت الله الحرام، وکان رجلا ثقة دینا فاضلا (رحمةاللهعلیه) ورضوانه.
اس کتاب کے مصنف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس روایت کو احمد بن زیاد ابن جعفر ہمدانی سے ہمدان میں سنا کہ جب وہ خانہ خدا کی زیارت سے واپس آ رہے تھے، وہ ایک ثقہ، دیندار اور فاضل شخص تھے؛ خدا ان پر رحمت کرے!
شیخ صدوق کی توثیق کے بعد ضرورت نہیں ہے کہ دوسروں کا کلام اس بارے میں ذکر کریں۔
قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
حضرت آیت الله خوئی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
اقول: لا ینبغی الشک فی وثاقة ابراهیم بنهاشم، ویدل علی ذلک عدة امور:
۱. انه روی عنه ابنه علی فی تفسیره کثیرا، وقد التزم فی اول کتابه بان ما یذکره فیه قد انتهی الیه بواسطة الثقات. وتقدم ذکر ذلک فی (المدخل) المقدمة الثالثة.
۲. ان السید ابن طاووس ادعی الاتفاق علی وثاقته، حیث قال عند ذکره روایة عن امالی الصدوق فی سندها ابراهیم بنهاشم: " ورواة الحدیث ثقات بالاتفاق ". فلاح السائل: الفصل التاسع عشر، الصفحة ۱۵۸.
۳. انه اول من نشر حدیث الکوفیین بقم. والقمیون قد اعتمدوا علی روایاته، وفیهم من هو مستصعب فی امر الحدیث، فلو کان فیه شائبة الغمز لم یکن یتسالم علی اخذ الروایة عنه، وقبول قوله.
میں کہتا ہوں: شائستہ نہیں ہے کہ ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت میں تردید ہو؛ اس مطلب کے اثبات پر چند مطالب دلالت کرتے ہیں:
۱. علی بن ابراهیم نے اپنی تفسیر میں متعدد روایات نقل کی ہیں؛ حالانکہ وہ کتاب کے مقدمے میں ملتزم ہوئے ہیں کہ جو کچھ اس کتاب میں منقول ہے، ثقہ افراد کے واسطے سے ان تک پہنچا ہے۔ اس مطلب کی بحث کتاب المدخل مقدمہ سوم میں گزر چکی ہے۔
۲. سید بن طاووس نے ان کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے؛ چنانچہ اس روایت کہ جس کی سند میں ابراہیم بن ہاشم موجود ہوں، علما متفق ہیں کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۳. وہ پہلی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے کوفہ اہل کوفہ کی حدیث کو قم میں نشر کیا اور قمیوں نے ان کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ قمیوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو روایت کے بارے میں سخت گیر تھے، اگر اس میں اشکال کا احتمال ہوتا تو تمام اہل قم اس کی روایت اخذ کرنے پر متفق نہ ہوتے۔
قال النجاشی: جلیل القدر، عظیم المنزلة فینا وعند المخالفین...
وقال الشیخ: وکان من اوثق الناس عند الخاصة والعامة، وانسکهم نسکا، واورعهم واعبدهم۔
قال النجاشی: بصری، سکن الکوفة، ثقة. روی عن ابی عبدالله وابی الحسن علیهما السلام۔
[ترمیم]
• رسول خداؐ، نے اپنے بعد وصیت و امامت کو امیر المومنینؑ کے حوالے کیا:
شیخ کلینیؒ نے کتاب کافی میں صحیح سند کے ساتھ محمد بن علی المعروف
محمد حنفیه کے
امام زین العابدینؑ کے ساتھ مناظرے کو نقل کیا ہے کہ جس سے ان ذوات کی الہٰی امامت ثابت ہوتی ہے اور امام زین العابدینؑ کا معجزہ بھی!
"۵- مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ اَبِی عُبَیْدَةَ وزُرَارَةَ جَمِیعاً عَنْ اَبِیجَعْفَرٍ ع قَالَ: لَمَّا قُتِلَ الْحُسَیْنُ ع اَرْسَلَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِیَّةِ اِلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ ع فَخَلَا بِهِ فَقَالَ لَهُ یَا ابْنَ اَخِی قَدْ عَلِمْتَ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صدَفَعَ الْوَصِیَّةَ والْاِمَامَةَ مِنْ بَعْدِهِ اِلَی اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ع ثُمَّ اِلَی الْحَسَنِ ع ثُمَّ اِلَی الْحُسَیْنِ ع وقَدْ قُتِلَ اَبُوکَ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وصَلَّی عَلَی رُوحِهِ ولَمْ یُوصِ واَنَا عَمُّکَ وصِنْوُ اَبِیکَ ووِلَادَتِی مِنْ عَلِیٍّ ع فِی سِنِّی وقَدِیمِی اَحَقُّ بِهَا مِنْکَ فِی حَدَاثَتِکَ فَلَا تُنَازِعْنِی فِی الْوَصِیَّةِ والْاِمَامَةِ ولَا تُحَاجَّنِی
فَقَالَ لَهُ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ ع یَا عَمِّ اتَّقِ اللَّهَ ولَا تَدَّعِ مَا لَیْسَ لَکَ بِحَقٍ اِنِّی اَعِظُکَ اَنْ تَکُونَ مِنَ الْجاهِلِینَ اِنَّ اَبِی یَا عَمِّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِ اَوْصَی اِلَیَّ قَبْلَ اَنْ یَتَوَجَّهَ اِلَی الْعِرَاقِ وعَهِدَ اِلَیَّ فِی ذَلِکَ قَبْلَ اَنْ یُسْتَشْهَدَ بِسَاعَةٍ وهَذَا سِلَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صعِنْدِی فَلَا تَتَعَرَّضْ لِهَذَا فَاِنِّی اَخَافُ عَلَیْکَ نَقْصَ الْعُمُرِ وتَشَتُّتَ الْحَالِ اِنَّ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ جَعَلَ الْوَصِیَّةَ والْاِمَامَةَ فِی عَقِبِ الْحُسَیْنِ ع فَاِذَا اَرَدْتَ اَنْ تَعْلَمَ ذَلِکَ فَانْطَلِقْ بِنَا اِلَی الْحَجَرِ الْاَسْوَدِ حَتَّی نَتَحَاکَمَ اِلَیْهِ ونَسْاَلَهُ عَنْ ذَلِکَ
قَالَ اَبُو جَعْفَرٍ ع وکَانَ الْکَلَامُ بَیْنَهُمَا بِمَکَّةَ فَانْطَلَقَا حَتَّی اَتَیَا الْحَجَرَ الْاَسْوَدَ فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّةِ ابْدَاْ اَنْتَ فَابْتَهِلْ اِلَی اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ وسَلْهُ اَنْ یُنْطِقَ لَکَ الْحَجَرَ ثُمَّ سَلْ فَابْتَهَلَ مُحَمَّدٌ فِی الدُّعَاءِ وسَاَلَ اللَّهَ ثُمَّ دَعَا الْحَجَرَ فَلَمْ یُجِبْهُ
فَقَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ ع یَا عَمِّ لَوْ کُنْتَ وَصِیّاً واِمَاماً لَاَجَابَکَ قَالَ لَهُ مُحَمَّدٌ فَادْعُ اللَّهَ اَنْتَ یَا ابْنَ اَخِی وسَلْهُ فَدَعَا اللَّهَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ ع بِمَا اَرَادَ ثُمَّ قَالَ اَسْاَلُکَ بِالَّذِی جَعَلَ فِیکَ مِیثَاقَ الْاَنْبِیَاءِ ومِیثَاقَ الْاَوْصِیَاءِ ومِیثَاقَ النَّاسِ اَجْمَعِینَ لَمَّا اَخْبَرْتَنَا مَنِ الْوَصِیُّ والْاِمَامُ بَعْدَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ع قَالَ فَتَحَرَّکَ الْحَجَرُ حَتَّی کَادَ اَنْ یَزُولَ عَنْ مَوْضِعِهِ ثُمَّ اَنْطَقَهُ اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِینٍ فَقَالَ:
اللَّهُمَّ اِنَّ الْوَصِیَّةَ والْاِمَامَةَ بَعْدَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ع اِلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ وابْنِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صقَالَ فَانْصَرَفَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ وهُوَ یَتَوَلَّی عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ ع۔
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
قال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
وقال الشیخ: علی بن رئاب الکوفی: له اصل کبیر، وهو ثقة جلیل القدر۔
زیاد بن عیسی: قال النجاشی: کوفی، مولی، ثقة...
وقال سعد بن عبدالله الاشعری: کوفی، ثقة، صحیح.
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه ومتقدمهم، وکان قارئا فقیها متکلما شاعرا ادیبا، قد اجتمعت فیه خلال الفضل والدین، صادقا فیما یرویه.
[ترمیم]
• آئمہؑ خدا کی طرف سے پیشوا ہیں اور حق کے ساتھ ہدایت و حکم کرتے ہیں اور خدا کی حجتیں اور اس کی طرف بلانے والے ہیں؛
شیخ کینیؒ نے کتاب شریف کافی میں ایک روایت کو صحیح اعلائی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ اس میں امام صادقؑ نے امام کے امتیازات اور فضائل بیان کیے ہیں کہ تمام شیعہ عقائد منجملہ مطلق عصمت، الہٰی انتخاب وغیرہ کو ثابت کرتے ہیں:
"مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ اِسْحَاقَ بْنِ غَالِبٍ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع فِی خُطْبَةٍ لَهُ یَذْکُرُ فِیهَا حَالَ الْاَئِمَّةِ ع وصِفَاتِهِمْ:
اِنَّ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ اَوْضَحَ بِاَئِمَّةِ الْهُدَی مِنْ اَهْلِ بَیْتِ نَبِیِّنَا عَنْ دِینِهِ واَبْلَجَ بِهِمْ عَنْ سَبِیلِ مِنْهَاجِهِ وفَتَحَ بِهِمْ عَنْ بَاطِنِ یَنَابِیعِ عِلْمِهِ فَمَنْ عَرَفَ مِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ صوَاجِبَ حَقِّ اِمَامِهِ وَجَدَ طَعْمَ حَلَاوَةِ اِیمَانِهِ وعَلِمَ فَضْلَ طُلَاوَةِ اِسْلَامِهِ لِاَنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وتَعَالَی نَصَبَ الْاِمَامَ عَلَماً لِخَلْقِهِ وجَعَلَهُ حُجَّةً عَلَی اَهْلِ مَوَادِّهِ وعَالَمِهِ واَلْبَسَهُ اللَّهُ تَاجَ الْوَقَارِ وغَشَّاهُ مِنْ نُورِ الْجَبَّارِ یُمَدُّ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَاءِ لَا یَنْقَطِعُ عَنْهُ مَوَادُّهُ ولَا یُنَالُ مَا عِنْدَ اللَّهِ اِلَّا بِجِهَةِ اَسْبَابِهِ ولَا یَقْبَلُ اللَّهُ اَعْمَالَ الْعِبَادِ اِلَّا بِمَعْرِفَتِهِ فَهُوَ عَالِمٌ بِمَا یَرِدُ عَلَیْهِ مِنْ مُلْتَبِسَاتِ الدُّجَی ومُعَمَّیَاتِ السُّنَنِ ومُشَبِّهَاتِ الْفِتَنِ،
فَلَمْ یَزَلِ اللَّهُ تَبَارَکَ وتَعَالَی یَخْتَارُهُمْ لِخَلْقِهِ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ ع مِنْ عَقِبِ کُلِّ اِمَامٍ یَصْطَفِیهِمْ لِذَلِکَ ویَجْتَبِیهِمْ ویَرْضَی بِهِمْ لِخَلْقِهِ ویَرْتَضِیهِمْ کُلَّمَا مَضَی مِنْهُمْ اِمَامٌ نَصَبَ لِخَلْقِهِ مِنْ عَقِبِهِ اِمَاماً عَلَماً بَیِّناً وهَادِیاً نَیِّراً واِمَاماً قَیِّماً وحُجَّةً عَالِماً اَئِمَّةً مِنَ اللَّهِ {یَهْدُونَ بِالْحَقِّ وبِهِ یَعْدِلُونَ} حُجَجُ اللَّهِ ودُعَاتُهُ ورُعَاتُهُ عَلَی خَلْقِهِ یَدِینُ بِهَدْیِهِمُ الْعِبَادُ وتَسْتَهِلُّ بِنُورِهِمُ الْبِلَادُ ویَنْمُو بِبَرَکَتِهِمُ التِّلَادُ جَعَلَهُمُ اللَّهُ حَیَاةً لِلْاَنَامِ ومَصَابِیحَ لِلظَّلَامِ ومَفَاتِیحَ لِلْکَلَامِ ودَعَائِمَ لِلْاِسْلَامِ جَرَتْ بِذَلِکَ فِیهِمْ مَقَادِیرُ اللَّهِ عَلَی مَحْتُومِهَا،
فَالْاِمَامُ هُوَ الْمُنْتَجَبُ الْمُرْتَضَی والْهَادِی الْمُنْتَجَی والْقَائِمُ الْمُرْتَجَی اصْطَفَاهُ اللَّهُ بِذَلِکَ واصْطَنَعَهُ عَلَی عَیْنِهِ فِی الذَّرِّ حِینَ ذَرَاَهُ وفِی الْبَرِیَّةِ حِینَ بَرَاَهُ ظِلًّا قَبْلَ خَلْقِ نَسَمَةٍ عَنْ یَمِینِ عَرْشِهِ مَحْبُوّاً بِالْحِکْمَةِفِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَهُ اخْتَارَهُ بِعِلْمِهِ وانْتَجَبَهُ لِطُهْرِهِ بَقِیَّةً مِنْ آدَمَ ع وخِیَرَةً مِنْ ذُرِّیَّةِ نُوحٍ ومُصْطَفًی مِنْ آلِ اِبْرَاهِیمَ وسُلَالَةً مِنْ اِسْمَاعِیلَ وصَفْوَةً مِنْ عِتْرَةِ مُحَمَّدٍ صلَمْ یَزَلْ مَرْعِیّاً بِعَیْنِ اللَّهِ یَحْفَظُهُ ویَکْلَؤُهُ بِسِتْرِهِ مَطْرُوداً عَنْهُ حَبَائِلُ اِبْلِیسَ وجُنُودِهِ مَدْفُوعاً عَنْهُ وُقُوبُ الْغَوَاسِقِ ونُفُوثُ کُلِّ فَاسِقٍ مَصْرُوفاً عَنْهُ قَوَارِفُ السُّوءِ مُبْرَاً مِنَ الْعَاهَاتِ مَحْجُوباً عَنِ الْآفَاتِ مَعْصُوماً مِنَ الزَّلَّاتِ مَصُوناً عَنِ الْفَوَاحِشِ کُلِّهَا مَعْرُوفاً بِالْحِلْمِ والْبِرِّ فِی یَفَاعِهِ مَنْسُوباً اِلَی الْعَفَافِ والْعِلْمِ والْفَضْلِ عِنْدَ انْتِهَائِهِ مُسْنَداً اِلَیْهِ اَمْرُ وَالِدِهِ صَامِتاً عَنِ الْمَنْطِقِ فِی حَیَاتِهِ،
فَاِذَا انْقَضَتْ مُدَّةُ وَالِدِهِ اِلَی اَنِ انْتَهَتْ بِهِ مَقَادِیرُ اللَّهِ اِلَی مَشِیئَتِهِ وجَاءَتِ الْاِرَادَةُ مِنَ اللَّهِ فِیهِ اِلَی مَحَبَّتِهِ وبَلَغَ مُنْتَهَی مُدَّةِ وَالِدِهِ ع فَمَضَی وصَارَ اَمْرُ اللَّهِ اِلَیْهِ مِنْ بَعْدِهِ وقَلَّدَهُ دِینَهُ وجَعَلَهُ الْحُجَّةَ عَلَی عِبَادِهِ وقَیِّمَهُ فِی بِلَادِهِ واَیَّدَهُ بِرُوحِهِ وآتَاهُ عِلْمَهُ واَنْبَاَهُ فَصْلَ بَیَانِهِ واسْتَوْدَعَهُ سِرَّهُ وانْتَدَبَهُ لِعَظِیمِ اَمْرِهِ واَنْبَاَهُ فَضْلَ بَیَانِ عِلْمِهِ ونَصَبَهُ عَلَماً لِخَلْقِهِ وجَعَلَهُ حُجَّةً عَلَی اَهْلِ عَالَمِهِ وضِیَاءً لِاَهْلِ دِینِهِ والْقَیِّمَ عَلَی عِبَادِهِ رَضِیَ اللَّهُ بِهِ اِمَاماً لَهُمُ اسْتَوْدَعَهُ سِرَّهُ واسْتَحْفَظَهُ عِلْمَهُ واسْتَخْبَاَهُ حِکْمَتَهُ واسْتَرْعَاهُ لِدِینِهِ وانْتَدَبَهُ لِعَظِیمِ اَمْرِهِ واَحْیَا بِهِ مَنَاهِجَ سَبِیلِهِ وفَرَائِضَهُ وحُدُودَهُ فَقَامَ بِالْعَدْلِ عِنْدَ تَحَیُّرِ اَهْلِ الْجَهْلِ وتَحْیِیرِ اَهْلِ الْجَدَلِ بِالنُّورِ السَّاطِعِ والشِّفَاءِ النَّافِعِ بِالْحَقِّ الْاَبْلَجِ والْبَیَانِ اللَّائِحِ مِنْ کُلِّ مَخْرَجٍ عَلَی طَرِیقِ الْمَنْهَجِ الَّذِی مَضَی عَلَیْهِ الصَّادِقُونَ مِنْ آبَائِهِ ع فَلَیْسَ یَجْهَلُ حَقَّ هَذَا الْعَالِمِ اِلَّا شَقِیٌّ ولَا یَجْحَدُهُ اِلَّا غَوِیٌّ ولَا یَصُدُّ عَنْهُ اِلَّا جَرِیٌّ عَلَی اللَّهِ جَلَّ وعَلَا".
اس روایت کی سند بھی سو فیصد صحیح ہے۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث...
وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
وقال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
قال النجاشی: عربی صلیب ثقة۔
[ترمیم]
• ہر مسلمان کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ رسول خدا کے بعد امیر المومنینؑ امام ہیں، پھر امام حسنؑ اور ۔۔۔۔ ؛
مرحوم
خزاز قمی نے معتبر کتاب
کفایة الاثر میں ایک روایت صحیح سند کے ساتھ امام صادقؑ سے نقل کی ہے کہ جس میں حضرتؑ نے شیعہ اصول عقائد منجملہ امامت کو تفصیل سے اس میں بیان کیا ہے:
"حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ قَالَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَی قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ عَنْ یَعْقُوبَ بْنِ یَزِیدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ:
کُنْتُ عِنْدَ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ علیه السلام: اِذْ دَخَلَ عَلَیْهِ مُعَاوِیَةُ بْنُ وَهْبٍ وعَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ اَعْیَنَ...
ثُمَّ قَالَ علیه السلام: اِنَّ اَفْضَلَ الْفَرَائِضِ واَوْجَبَهَا عَلَی الْاِنْسَانِ مَعْرِفَةُ الرَّبِّ والْاِقْرَارُ لَهُ بِالْعُبُودِیَّةِ وحَدُّ الْمَعْرِفَةِ اَنَّهُ لَا اِلَهَ غَیْرُهُ ولَا شَبِیهَ لَهُ ولَا نَظِیرَ لَهُ واَنَّهُ یَعْرِفُ اَنَّهُ قَدِیمٌ مُثْبَتٌ بِوُجُودٍ غَیْرُ فَقِیدٍ مَوْصُوفٌ مِنْ غَیْرِ شَبِیهٍ ولَا مُبْطِلٍ لَیْسَ کَمِثْلِهِ شَیْ ءٌ وهُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ.
وَ بَعْدَهُ مَعْرِفَةُ الرَّسُولِ والشَّهَادَةُ لَهُ بِالنُّبُوَّةِ واَدْنَی مَعْرِفَةِ الرَّسُولِ الْاِقْرَارُ بِهِ بِنُبُوَّتِهِ واَنَّ مَا اَتَی بِهِ مِنْ کِتَابٍ اَوْ اَمْرٍ اَوْ نَهْیٍ فَذَلِکَ عَنِ اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ
وَ بَعْدَهُ مَعْرِفَةُ الْاِمَامِ الَّذِی بِهِ یَاْتَمُّ بِنَعْتِهِ وصِفَتِهِ واسْمِهِ فِی حَالِ الْعُسْرِ والْیُسْرِ واَدْنَی مَعْرِفَةِ الْاِمَامِ اَنَّهُ عِدْلُ النَّبِیِّ اِلَّا دَرَجَةَ النُّبُوَّةِ ووَارِثُهُ واَنَّ طَاعَتَهُ طَاعَةُ اللَّهِ وطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ والتَّسْلِیمُ لَهُ فِی کُلِّ اَمْرٍ والرَّدُّ اِلَیْهِ والْاَخْذُ بِقَوْلِهِ
وَ یَعْلَمُ اَنَّ الْاِمَامَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ ثُمَّ الْحَسَنُ ثُمَّ الْحُسَیْنُ ثُمَّ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ ثُمَّ اَنَا ثُمَّ مِنْ بَعْدِی مُوسَی ابْنِی ثُمَّ مِنْ بَعْدِهِ وَلَدُهُ عَلِیٌّ وبَعْدَ عَلِیٍّ مُحَمَّدٌ ابْنُهُ وبَعْدَ مُحَمَّدٍ عَلِیٌّ ابْنُهُ وبَعْدَ عَلِیٍّ الْحَسَنُ ابْنُهُ والْحُجَّةُ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ..
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
حسین بن علی بن الحسین بن موسی؛ قال النجاشی: ثقة.
وقال الشیخ فی رجاله ثقة۔
هارون بن موسی بن احمد؛ قال النجاشی: ابو محمد التلعکبری، من بنی شیبان: کان وجها فی اصحابنا ثقة، معتمدا لا یطعن علیه...
وقال الشیخ جلیل القدر، عظیم المنزلة، واسع الروایة، عدیم النظر، ثقة. روی جمیع الاصول والمصنفات۔
محمد بن الحسن بن احمد: قال النجاشی: شیخ القمیین وفقیههم، ومتقدمهم ووجههم ثقة ثقة، عین...
وقال الشیخ: جلیل القدر، عارف بالرجال، موثوق به... جلیل القدر، بصیر بالفقه، ثقة۔
محمد بن حسن صفار؛ قال النجاشی: کان وجها فی اصحابنا القمیین، ثقة، عظیم القدر، راجحا، قلیل السقط فی الروایة۔
یعقوب بن یزید؛ قال النجاشی: وکان ثقة صدوقا...
وقال الشیخ: کثیر الروایة، ثقة۔
محمد بن ابیعمیر؛ قال النجاشی: جلیل القدر، عظیم المنزلة فینا وعند المخالفین...
وقال الشیخ: وکان من اوثق الناس عند الخاصة والعامة، وانسکهم نسکا، واورعهم واعبدهم۔
هشام بن سالم؛ قال النجاشی: ثقة ثقة۔
[ترمیم]
• آیت «اولی الامر» کا نزول امیر المؤمنینؑ ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ... کی شان میں؛
مرحوم شیخ کلینیؒ نے کتاب کافی میں
روایتِ ثقلین کو ابو بصیر کے طریق سے امام صادقؑ سے چھ اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے:
"عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ یُونُسَ وَعَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِیَادٍ اَبِی سَعِیدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ یُونُسَ عَنِ ابْنِ مُسْکَانَ عَنْ اَبِی بَصِیرٍ قَالَ:
سَاَلْتُ اَبَا عَبْدِ اللَّهِؑ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ {اَطِیعُوا اللَّهَ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ}
فَقَالَ: نَزَلَتْ فِی عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ (علیهمالسّلام) فَقُلْتُ لَهُ: اِنَّ النَّاسَ یَقُولُونَ فَمَا لَهُ لَمْ یُسَمِّ عَلِیّاً وَاَهْلَ بَیْتِهِ (علیهمالسّلام) فِی کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: فَقَالَ: قُولُوا لَهُمْ اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) نَزَلَتْ عَلَیْهِ الصَّلَاةُ وَلَمْ یُسَمِّ اللَّهُ لَهُمْ ثَلَاثاً وَلَا اَرْبَعاً حَتَّی کَانَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) هُوَ الَّذِی فَسَّرَ ذَلِکَ لَهُمْ وَنَزَلَتْ عَلَیْهِ الزَّکَاةُ وَلَمْ یُسَمِّ لَهُمْ مِنْ کُلِّ اَرْبَعِینَ دِرْهَماً دِرْهَمٌ حَتَّی کَانَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) هُوَ الَّذِی فَسَّرَ ذَلِکَ لَهُمْ وَنَزَلَ الْحَجُّ فَلَمْ یَقُلْ لَهُمْ طُوفُوا اُسْبُوعاً حَتَّی کَانَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) هُوَ الَّذِی فَسَّرَ ذَلِکَ لَهُمْ وَنَزَلَتْ «اَطِیعُوا اللَّهَ وَاَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ»
وَنَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فِی عَلِیٍّ «مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ».
وَقَالَ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) اُوصِیکُمْ بِکِتَابِ اللَّهِ وَاَهْلِ بَیْتِی فَاِنِّی سَاَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ اَنْ لَا یُفَرِّقَ بَیْنَهُمَا حَتَّی یُورِدَهُمَا عَلَیَّ الْحَوْضَ فَاَعْطَانِی ذَلِکَ وَقَالَ: لَا تُعَلِّمُوهُمْ فَهُمْ اَعْلَمُ مِنْکُمْ وَقَالَ: اِنَّهُمْ لَنْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ بَابِ هُدًی وَلَنْ یُدْخِلُوکُمْ فِی بَابِ ضَلَالَةٍ فَلَوْ سَکَتَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فَلَمْ یُبَیِّنْ مَنْ اَهْلُ بَیْتِهِ لَادَّعَاهَا آلُ فُلَانٍ وَآلُ فُلَانٍ وَلَکِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اَنْزَلَهُ فِی کِتَابِهِ تَصْدِیقاً لِنَبِیِّهِ صلی الله علیه واله {اِنَّما یُرِیدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً} فَکَانَ عَلِیٌّ وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ وَفَاطِمَةُؑ فَاَدْخَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) تَحْتَ الْکِسَاءِ فِی بَیْتِ اُمِّ سَلَمَةَ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ اِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ اَهْلًا وَثَقَلًا وَهَؤُلَاءِ اَهْلُ بَیْتِی وَثَقَلِی» فَقَالَتْ اُمُّ سَلَمَةَ: اَ لَسْتُ مِنْ اَهْلِکَ فَقَالَ اِنَّکِ اِلَی خَیْرٍ وَلَکِنَّ هَؤُلَاءِ اَهْلِی وَثِقْلِی.
فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) کَانَ عَلِیٌّ اَوْلَی النَّاسِ بِالنَّاسِ لِکَثْرَةِ مَا بَلَّغَ فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) وَاِقَامَتِهِ لِلنَّاسِ وَاَخْذِهِ بِیَدِهِ فَلَمَّا مَضَی عَلِیٌّ لَمْ یَکُنْ یَسْتَطِیعُ عَلِیٌّ وَلَمْ یَکُنْ لِیَفْعَلَ اَنْ یُدْخِلَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وَلَا الْعَبَّاسَ بْنَ عَلِیٍّ وَلَا وَاحِداً مِنْ وُلْدِهِ اِذاً لَقَالَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ اِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی اَنْزَلَ فِینَا کَمَا اَنْزَلَ فِیکَ فَاَمَرَ بِطَاعَتِنَا کَمَا اَمَرَ بِطَاعَتِکَ وَبَلَّغَ فِینَا رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) کَمَا بَلَّغَ فِیکَ وَاَذْهَبَ عَنَّا الرِّجْسَ کَمَا اَذْهَبَهُ عَنْکَ فَلَمَّا مَضَی عَلِیٌّؑ کَانَ الْحَسَنُؑ اَوْلَی بِهَا لِکِبَرِهِ فَلَمَّا تُوُفِّیَ لَمْ یَسْتَطِعْ اَنْ یُدْخِلَ وُلْدَهُ وَلَمْ یَکُنْ لِیَفْعَلَ ذَلِکَ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ: {وَاُولُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ اَوْلی بِبَعْضٍ فِی کِتابِ اللَّهِ} فَیَجْعَلَهَا فِی وُلْدِهِ اِذاً لَقَالَ الْحُسَیْنُ اَمَرَ اللَّهُ بِطَاعَتِی کَمَا اَمَرَ بِطَاعَتِکَ وَطَاعَةِ اَبِیکَ وَبَلَّغَ فِیَّ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) کَمَا بَلَّغَ فِیکَ وَفِی اَبِیکَ وَاَذْهَبَ اللَّهُ عَنِّی الرِّجْسَ کَمَا اَذْهَبَ عَنْکَ وَعَنْ اَبِیکَ فَلَمَّا صَارَتْ اِلَی الْحُسَیْنِؑ لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنْ اَهْلِ بَیْتِهِ یَسْتَطِیعُ اَنْ یَدَّعِیَ عَلَیْهِ کَمَا کَانَ هُوَ یَدَّعِی عَلَی اَخِیهِ وَعَلَی اَبِیهِ لَوْ اَرَادَا اَنْ یَصْرِفَا الْاَمْرَ عَنْهُ وَلَمْ یَکُونَا لِیَفْعَلَا ثُمَّ صَارَتْ حِینَ اَفْضَتْ اِلَی الْحُسَیْنِؑ فَجَرَی تَاْوِیلُ هَذِهِ الْآیَةِ {وَاُولُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ اَوْلی بِبَعْضٍ فِی کِتابِ اللَّهِ} ثُمَّ صَارَتْ مِنْ بَعْدِ الْحُسَیْنِ لِعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ ثُمَّ صَارَتْ مِنْ بَعْدِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ اِلَی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ علیهم السلام وَقَالَ الرِّجْسُ هُوَ الشَّکُّ وَاللَّهِ لَا نَشُکُّ فِی رَبِّنَا اَبَداً".
مذکورہ بالا روایت میں متن کیلئے دو اسناد ذکر کی گئی ہیں اور روایت کے آخر میں مرحوم شیخ کلینیؒ نے چار دیگر اسناد کو بھی ابوبصیر کی روایت کیلئے ذکر کرتے ہوئے کہا ہے:
"مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ وَالْحُسَیْنُ بْنُ سَعِیدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَیْدٍ عَنْ یَحْیَی بْنِ عِمْرَانَ الْحَلَبِیِّ عَنْ اَیُّوبَ بْنِ الْحُرِّ وَعِمْرَانَ بْنِ عَلِیٍّ الْحَلَبِیِّ عَنْ اَبِی بَصِیرٍ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِؑ مِثْلَ ذَلِکَ۔
ملاحظہ کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا روایت ابو بصیر سے چھ معتبر اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
روایت کی چار آخری اسناد کی تشخیص کو قارئین کیلئے آسان کرنے کی خاطر ہم مجبور ہیں کہ مذکورہ بالا عبارت میں وارد ہونے والی اسناد کو علیٰحدہ طور پر ذکر کریں؛ کیونکہ اگر کوئی علم رجال کے فنون میں ماہر نہ ہو تو اس کیلئے اسناد کی تشخیص نا ممکن ہو جائے گی:
• روایت کی تیسری سند یہ ہے:
محمد بن یحیی، عن احمد بن محمد بن عیسی، عن الحسین بن سعید، عن النضر بن سوید، عن یحیی بن عمران، عن ایوب بن الحر، عن ابو بصیر الاسدی عن ابی عبدالله علیه السلام.
• روایت کی چوتھی سند یہ ہے:
محمد بن یحیی، عن احمد بن محمد بن عیسی، عن محمد خالد، عن النضر بن سوید....
• روایت کی پانچویں سند یہ ہے:
محمد بن یحیی، عن احمد بن محمد بن عیسی، عن محمد خالد، عن النضر بن سوید، عن یحیی بن عمران الحلبی، عن عمران بن علی الحلبی، عن ابو بصیر الاسدی عن ابی عبدالله علیه السلام.
• روایت کی چھٹی سند یہ ہے:
محمد بن یحیی، عن احمد بن محمد بن عیسی، عن الحسین بن سعید، عن النضر بن سوید، عن یحیی بن عمران الحلبی، عن عمران بن علی الحلبی، عن ابو بصیر الاسدی عن ابی عبدالله علیه السلام.
جیسے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا روایت ابو بصیر سے چھ معتبر اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
اس روایت کی صحت کے اثبات کیلئے اختصار کی رعایت کے پیش نظر اس حصے میں پہلی اور چھٹی سند کا رجالی اعتبار سے جائزہ لیں گے:
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
محمد بن عیسی بن عبید بن یقطین؛ قال النجاشی: ابو جعفر: جلیل فی اصحابنا، ثقة، عین، کثیر الروایة، حسن التصانیف۔
البته شیخ طوسیؒ نے اہل قم کے قول کے مطابق اس کی تضعیف کی ہے کہ جس کا آیت اللہ خوئی نے مکمل طور پر جواب دیا ہے۔
قال النجاشی: کان وجها فی اصحابنا متقدما، عظیم المنزلة.
قال النجاشی: ثقة، عین...
وقال الشیخ: عبدالله بن مسکان ثقة۔
قال النجاشی: " یحیی بن القاسم، ابو بصیر الاسدی، وقیل ابو محمد: ثقة، وجیه.
روایت کی پہلی سند پر تحقیق اور اس کی صحت کے اثبات کے بعد اب آخری سند کا رجالی اعتبار سے جائزہ لیں گے۔ اس سند میں درج ذیل افراد موجود ہیں:
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
احمد بن محمد بن عیسی الاشعری؛ وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
الحسین بن سعید بن حماد: قال الشیخ: من موالی علی بن الحسین علیه السلام، ثقة. صاحب المصنفات الاهوازی، ثقة۔
قال النجاشی کوفی، ثقة، صحیح الحدیث...
وقال الشیخ: له کتاب، وهو ثقة۔
قال النجاشی: ثقة ثقة، صحیح الحدیث۔
نجاشی نے
آل ابیشعبه کے پورے خاندان منجملہ عمران بن علی کی توثیق کی ہے:
قال النجاشی: " احمد بن عمر بن ابی شعبة الحلبی، ثقة، روی عن ابی الحسن الرضا علیه السلام، وعن ابیه علیه السلام، من قبل، وهو ابن عم عبید الله، وعبد الاعلی، وعمران، ومحمد الحلبیین. روی ابوهم عن ابی عبدالله علیه السلام، وکانوا ثقات۔
قال النجاشی: " یحیی بن القاسم، ابو بصیر الاسدی، وقیل ابو محمد: ثقة، وجیه.
[ترمیم]
•
بیت المعمور، میں نور کا ایک ورق موجود ہے کہ جس میں رسول خداؐ، آئمہؑ اور شیعوں کا نام درج ہے۔
شیخ صدوقؒ نے کتاب
علل الشرایع میں
رسول خداؐ کی معراج کی روایت کو نقل کیا ہے کہ ملائکہ نے نے جس کے ضمن میں اہل بیتؑ کی امامت کی شہادت دی ہے:
"۱ قَالَ الشَّیْخُ الْفَقِیهُ اَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ مُوسَی بْنِ بَابَوَیْهِ الْقُمِّیُّ مُصَنِّفُ هَذَا الْکِتَابِ حَدَّثَنَا اَبِی ومُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالا حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی بْنِ عُبَیْدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ ومُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنِ الصَّبَّاحِ السُّدِّیِّ وسَدِیرٍ الصَّیْرَفِیِّ ومُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ مُؤْمِنِ الطَّاقِ وعُمَرَ بْنِ اُذَیْنَةَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع
وَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ وسَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ اَبِی الْخَطَّابِ ویَعْقُوبُ بْنُ یَزِیدَ ومُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبَلَةَ عَنِ الصَّبَّاحِ الْمُزَنِیِّ وسَدِیرٍ الصَّیْرَفِیِّ ومُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ الْاَحْوَلِ وعُمَرَ بْنِ اُذَیْنَةَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع
... وقَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع اِنَّ اللَّهَ الْعَزِیزَ الْجَبَّارَ عَرَجَ بِنَبِیِّهِ صاِلَی سَمَائِهِ سَبْعاً...
ثُمَّ عُرِجَ اِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَنَفَرَتِ الْمَلَائِکَةُ اِلَی اَطْرَافِ السَّمَاءِ ثُمَّ خَرَّتْ سُجَّداً فَقَالَتْ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّنَا ورَبُّ الْمَلَائِکَةِ والرُّوحِ مَا اَشْبَهَ هَذَا النُّورَ بِنُورِ رَبِّنَا
فَقَالَ جَبْرَئِیلُ ع اللَّهُ اَکْبَرُ اللَّهُ اَکْبَرُ فَسَکَتَتِ الْمَلَائِکَةُ وفُتِحَتْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ واجْتَمَعَتِ الْمَلَائِکَةُ ثُمَّ جَاءَتْ فَسَلَّمَتْ عَلَی النَّبِیِّ صاَفْوَاجاً ثُمَّ قَالَتْ یَا مُحَمَّدُ کَیْفَ اَخُوکَ؟ قَالَ بِخَیْرٍ قَالَتْ فَاِنْ اَدْرَکْتَهُ فَاَقْرِئْهُ مِنَّا السَّلَامَ فَقَالَ النَّبِیُّ ص: اَ تَعْرِفُونَهُ فَقَالُوا کَیْفَ لَمْ نَعْرِفْهُ وقَدْ اَخَذَ اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ مِیثَاقَکَ ومِیثَاقَهُ مِنَّا واِنَّا لَنُصَلِّی عَلَیْکَ وعَلَیْهِ ثُمَّ زَادَهُ اَرْبَعِینَ نَوْعاً مِنْ اَنْوَاعِ النُّورِ لَا یُشْبِهُ شَیْ ءٌ مِنْهُ ذَلِکَ النُّورَ الْاَوَّلَ وزَادَهُ فِی مَحْمِلِهِ حَلَقاً وسَلَاسِلَ
ثُمَّ عُرِجَ بِهِ اِلَی السَّمَاءِ الثَّانِیَةِ فَلَمَّا قَرُبَ مِنْ بَابِ السَّمَاءِ تَنَافَرَتِ الْمَلَائِکَةُ اِلَی اَطْرَافِ السَّمَاءِ وخَرَّتْ سُجَّداً وقَالَتْ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ والرُّوحِ مَا اَشْبَهَ هَذَا النُّورَ بِنُورِ رَبِّنَا فَقَالَ جَبْرَئِیلُ ع اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ فَاجْتَمَعَتِ الْمَلَائِکَةُ وفُتِحَتْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ وقَالَتْ یَا جَبْرَئِیلُ مَنْ هَذَا الَّذِی مَعَکَ فَقَالَ هَذَا مُحَمَّدٌ صقَالُوا وقَدْ بُعِثَ قَالَ: نَعَمْ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صفَخَرَجُوا اِلَی شِبْهِ الْمَعَانِیقِ فَسَلَّمُوا عَلَیَّ وقَالُوا اَقْرِئْ اَخَاکَ السَّلَامَ فَقُلْتُ هَلْ تَعْرِفُونَهُ؟ قَالُوا: نَعَمْ وکَیْفَ لَا نَعْرِفُهُ وقَدْ اَخَذَ اللَّهُ مِیثَاقَکَ ومِیثَاقَهُ ومِیثَاقَ شِیعَتِهِ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ عَلَیْنَا واِنَّا لَنَتَصَفَّحُ وُجُوهَ شِیعَتِهِ فِی کُلِّ یَوْمٍ خَمْساً یَعْنُونَ فِی کُلِّ وَقْتِ صَلَاةٍ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صثُمَّ زَادَنِی رَبِّی تَعَالَی اَرْبَعِینَ نَوْعاً مِنْ اَنْوَاعِ النُّورِ لَا تُشْبِهُ الْاَنْوَارَ الْاُوَلَ وزَادَنِی حَلَقاً وسَلَاسِلَ
ثُمَّ عُرِجَ بِی اِلَی السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَنَفَرَتِ الْمَلَائِکَةُ اِلَی اَطْرَافِ السَّمَاءِ وخَرَّتْ سُجَّداً وقَالَتْ سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکَةِ والرُّوحِ مَا هَذَا النُّورُ الَّذِی یُشْبِهُ نُورَ رَبِّنَا
فَقَالَ جَبْرَئِیلُ ع اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ اَشْهَدُ اَنَ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ فَاجْتَمَعَتِ الْمَلَائِکَةُ وفُتِحَتْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ وقَالَتْ مَرْحَباً بِالْاَوَّلِ ومَرْحَباً بِالْآخِرِ ومَرْحَباً بِالْحَاشِرِ ومَرْحَباً بِالنَّاشِرِ مُحَمَّدٌ خَاتَمُ النَّبِیِّینَ وعَلِیٌّ خَیْرُ الْوَصِیِّینَ.
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صسَلَّمُوا عَلَیَّ وسَاَلُونِی عَنْ عَلِیٍّ اَخِی فَقُلْتُ: هُوَ فِی الْاَرْضِ خَلِیفَتِی اَ وتَعْرِفُونَهُ قَالُوا نَعَمْ وکَیْفَ لَا نَعْرِفُهُ وقَدْ نَحُجُّ الْبَیْتَ الْمَعْمُورَ فِی کُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً وعَلَیْهِ رَقٌّ اَبْیَضُ فِیهِ اسْمُ مُحَمَّدٍ صوعَلِیٍّ والْحَسَنِ والْحُسَیْنِ والْاَئِمَّةِ وشِیعَتِهِمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ واِنَّا لَنُبَارِکُ عَلَی رُءُوسِهِمْ بِاَیْدِینَا.
ثُمَّ زَادَنِی رَبِّی تَعَالَی اَرْبَعِینَ نَوْعاً مِنْ اَنْوَاعِ النُّورِ لَا تُشْبِهُ شَیْئاً مِنْ تِلْکَ الْاَنْوَارِ الْاُوَلِ وزَادَنِی حَلَقاً وسَلَاسِلَ.
ثُمَّ عُرِجَ بِی اِلَی السَّمَاءِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ تَقُلِ الْمَلَائِکَةُ شَیْئاً وسَمِعْتُ دَوِیّاً کَاَنَّهُ فِی الصُّدُورِ واجْتَمَعَتِ الْمَلَائِکَةُ فَفُتِحَتْ اَبْوَابُ السَّمَاءِ وخَرَجَتْ اِلَیَّ مَعَانِیقُ فَقَالَ جَبْرَئِیلُ ع حَیَّ عَلَی الصَّلَاةِ حَیَّ عَلَی الصَّلَاةِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ فَقَالَتِ الْمَلَائِکَةُ صَوْتَیْنِ مَقْرُونَیْنِ بِمُحَمَّدٍ تَقُومُ الصَّلَاةُ وبِعَلِیٍّ الْفَلَاحُ فَقَالَ جَبْرَئِیلُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ فَقَالَتِ الْمَلَائِکَةُ هِیَ لِشِیعَتِهِ اَقَامُوهَا اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ
ثُمَّ اجْتَمَعَتِ الْمَلَائِکَةُ فَقَالُوا لِلنَّبِیِّ اَیْنَ تَرَکْتَ اَخَاکَ وکَیْفَ هُوَ فَقَالَ لَهُمْ اَ تَعْرِفُونَهُ فَقَالُوا نَعَمْ نَعْرِفُهُ وشِیعَتَهُ وهُوَ نُورٌ حَوْلَ عَرْشِ اللَّهِ واِنَّ فِی الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ لَرَقّاً مِنْ نُورٍ فِیهِ کِتَابٌ مِنْ نُورٍ فِیهِ اسْمُ مُحَمَّدٍ وعَلِیٍّ والْحَسَنِ والْحُسَیْنِ والْاَئِمَّةِ وشِیعَتِهِمْ لَا یَزِیدُ فِیهِمْ رَجُلٌ ولَا یَنْقُصُ مِنْهُمْ رَجُلٌ اِنَّهُ لَمِیثَاقُنَا الَّذِی اُخِذَ عَلَیْنَا واِنَّهُ لَیُقْرَاُ عَلَیْنَا فِی کُلِّ یَوْمِ جُمُعَةٍ فَسَجَدْتُ لِلَّهِ شُکْراً...").
شیخ کلینی نے بھی اس روایت کو اسی متن اور اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
"۱- عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ عَنِ ابْنِ اَبِی عُمَیْرٍ عَنِ ابْنِ اُذَیْنَةَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ قَالَ: مَا تَرْوِی هَذِهِ النَّاصِبَةُ؟
اس روایت کی دس سے زائد اسناد ہیں جو سب کی سب صحیح ہیں۔ ان کے اکثر روات کا گزشتہ اسناد میں جائزہ لیا جا چکا ہے۔ یہاں پر فقط ان میں سے ایک سند کا جائزہ لیں گے:
محمد بن الحسن بن احمد: قال النجاشی: شیخ القمیین وفقیههم، ومتقدمهم ووجههم ثقة ثقة، عین...
وقال الشیخ: جلیل القدر، عارف بالرجال، موثوق به... جلیل القدر، بصیر بالفقه، ثقة۔
قال النجاشی: شیخ هذه الطائفة وفقیهها ووجهها....
وقال الشیخ: جلیل القدر، ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة صدوقا...
وقال الشیخ: کثیر الروایة، ثقة۔
محمد بن علی بن النعمان الاحول؛ وقال الشیخ: یلقب عندنا مؤمن الطاق، ویلقبه المخالفون بشیطان الطاق، وهو من اصحاب الامام جعفر الصادق علیه السلام، وکان ثقة، متکلما، حاذقا، حاضر الجواب۔
[ترمیم]
• تو میرا بھائی، رفیق، برگزیده، وصی اور میری امت میں میرا جانشین ہے۔
محمد بن حسن صفار نے کتاب
بصائر الدرجات میں متعدد روایات اہل بیتؑ کی امامت کے بارے میں نقل کی ہیں؛ منجملہ یہ تحریر کرتے ہیں:
"۱۹- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ عَنْ صَفْوَانَ عَنْ اَبِی الصَّبَّاحِ قَالَ: قُلْتُ لِاَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع بَلَغَنَا اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صقَالَ لِعَلِیٍّ ع اَنْتَ اَخِی وصَاحِبِی وصَفِیِّی ووَصِیِّی وَخَالِصِی مِنْ اَهْلِ بَیْتِی وَخَلِیفَتِی فِی اُمَّتِی وسَاُنَبِّئُکَ فِیمَا یَکُونُ فِیهَا مِنْ بَعْدِی یَا عَلِیُّ اِنِّی اَحْبَبْتُ لَکَ مَا اُحِبُّهُ لِنَفْسِی واَکْرَهُ لَکَ مَا اَکْرَهُهُ لَهَا فَقَالَ لِی اَبُو عَبْدِ اللَّهِ هَذَا مَکْتُوبٌ عِنْدِی فِی کِتَابِ عَلِیٍّ ولَکِنْ دَفَعْتُهُ اَمْسِ حِینَ کَانَ هَذَا الْخَوْفُ وهُوَ حِینَ صُلِبَ الْمُغِیرَةُ".
ابو الصباح کہتے ہیں: میں نے امام صادقؑ سے عرض کیا کہ ہمیں خبر ملی ہے کہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے امیر المومنینؑ سے فرمایا: تو میرا بھائی، ہمراہ، برگزیدہ، وصی، اہل بیتؑ میں سے میرا منتخب اور امت میں میرا جانشین ہے؛ تمہیں اپنے بعد ہونے والے واقعات کی خبر دیتا ہون؛ اے علی! جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تمہارے لیے بھی پسند کرتا ہوں، جو اپنے لیے ناپسند کرتا ہوں، تمہارے لیے بھی ناپسند کرتا ہوں؛ امام صادقؑ نے فرمایا: یہ مطلب ’’کتابِ علیؑ‘‘ میں لکھا ہے جو ہمارے پاس تھی مگر کل جب مغیرہ کو لٹکایا گیا ہے تو اسے مخفی کر دیا ہے۔
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
قال النجاشی: جلیل من ا صحابنا، عظیم القدر، کثیر الروایة، ثقة، عین، حسن التصانیف، مسکون الی روایته...
وقال الشیخ: کوفی، ثقة۔
قال النجاشی: کوفی، ثقة ثقة، عین...
وقال الشیخ: اوثق اهل زمانه عند اهل الحدیث واعبدهم۔
قال النجاشی: کان ابو عبداللهؑ یسمیه المیزان، لثقته. ذکره ابو العباس فی الرجال..
[ترمیم]
• خدا میرا پروردگار، محمد خدا کے رسولؐ اور علی حسن، حسین و... میرے آئمہؑ ہیں۔
شیخ کلینیؒ کتاب کافی میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس کے مطابق
امام کاظمؑ نے شیعوں کو نصیحت کی کہ اپنے سجدہ شکر میں ایسا ذکر پڑھیں کہ جس میں بارہ آئمہؑ کا تذکرہ موجود ہے:
"۱۷- عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: سَاَلْتُ اَبَا الْحَسَنِ الْمَاضِیَ ع عَمَّا اَقُولُ فِی سَجْدَةِ الشُّکْرِ فَقَدِ اخْتَلَفَ اَصْحَابُنَا فِیهِ:
فَقَالَ: قُلْ واَنْتَ سَاجِدٌ:
اللَّهُمَّ اِنِّی اُشْهِدُکَ واُشْهِدُ مَلَائِکَتَکَ واَنْبِیَاءَکَ ورُسُلَکَ وجَمِیعَ خَلْقِکَ اَنَّکَ اللَّهُ رَبِّی والْاِسْلَامَ دِینِی ومُحَمَّداً نَبِیِّی وعَلِیّاً وفُلَاناً وفُلَاناً اِلَی آخِرِهِمْ اَئِمَّتِی بِهِمْ اَتَوَلَّی ومِنْ عَدُوِّهِمْ اَتَبَرَّاُ
اللَّهُمَّ اِنِّی اَنْشُدُکَ دَمَ الْمَظْلُومِ ثَلَاثاً
اللَّهُمَّ اِنِّی اَنْشُدُکَ بِاِیوَائِکَ عَلَی نَفْسِکَ لِاَوْلِیَائِکَ لِتُظْفِرَنَّهُمْ بِعَدُوِّکَ وعَدُوِّهِمْ اَنْ تُصَلِّیَ عَلَی مُحَمَّدٍ وعَلَی الْمُسْتَحْفَظِینَ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ...".
شیخ صدوقؒ نے اسی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے کہ جس میں ہر امامؑ کا نام نقل کیا گیا ہے:
"۹۶۷ رَوَی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُنْدَبٍ عَنْ مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ ع اَنَّهُ قَالَ تَقُولُ فِی سَجْدَةِ الشُّکْرِ اللَّهُمَّ اِنِّی اُشْهِدُکَ واُشْهِدُ مَلَائِکَتَکَ واَنْبِیَاءَکَ ورُسُلَکَ وجَمِیعَ خَلْقِکَ اَنَّکَ اَنْتَ اللَّهُ رَبِّی والْاِسْلَامَ دِینِی ومُحَمَّداً نَبِیِّی وعَلِیّاً والْحَسَنَ والْحُسَیْنَ- وعَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ ومُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ وجَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ومُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ وعَلِیَّ بْنَ مُوسَی ومُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ- وعَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ والْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ والْحُجَّةَ بْنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍ اَئِمَّتِی بِهِمْ اَتَوَلَّی ومِنْ اَعْدَائِهِمْ اَتَبَرَّاُ.
اللَّهُمَّ اِنِّی اَنْشُدُک....
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
حضرت آیتالله خوئی ان کے حالات کے بارے میں لکھتے ہیں:
اقول: لا ینبغی الشک فی وثاقة ابراهیم بنهاشم، ویدل علی ذلک عدة امور:
۱. انه روی عنه ابنه علی فی تفسیره کثیرا، وقد التزم فی اول کتابه بان ما یذکره فیه قد انتهی الیه بواسطة الثقات. وتقدم ذکر ذلک فی (المدخل) المقدمة الثالثة.
۲. ان السید ابن طاووس ادعی الاتفاق علی وثاقته، حیث قال عند ذکره روایة عن امالی الصدوق فی سندها ابراهیم بنهاشم: " ورواة الحدیث ثقات بالاتفاق ". فلاح السائل: الفصل التاسع عشر، الصفحة ۱۵۸.
۳. انه اول من نشر حدیث الکوفیین بقم. والقمیون قد اعتمدوا علی روایاته، وفیهم من هو مستصعب فی امر الحدیث، فلو کان فیه شائبة الغمز لم یکن یتسالم علی اخذ الروایة عنه، وقبول قوله.
میں کہتا ہوں: شائستہ نہیں ہے کہ ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت میں تردید ہو؛ اس مطلب کے اثبات پر چند مطالب دلالت کرتے ہیں:
۱. علی بن ابراهیم نے اپنی تفسیر میں متعدد روایات نقل کی ہیں؛ حالانکہ وہ کتاب کے مقدمے میں ملتزم ہوئے ہیں کہ جو کچھ اس کتاب میں منقول ہے، ثقہ افراد کے واسطے سے ان تک پہنچا ہے۔ اس مطلب کی بحث کتاب المدخل مقدمہ سوم میں گزر چکی ہے۔
۲. سید بن طاووس نے ان کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے؛ چنانچہ اس روایت کہ جس کی سند میں ابراہیم بن ہاشم موجود ہوں، علما متفق ہیں کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۳. وہ پہلی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے کوفہ اہل کوفہ کی حدیث کو قم میں نشر کیا اور قمیوں نے ان کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ قمیوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو روایت کے بارے میں سخت گیر تھے، اگر اس میں اشکال کا احتمال ہوتا تو تمام اہل قم اس کی روایت اخذ کرنے پر متفق نہ ہوتے۔
قال الشیخ: کوفی ثقة۔
[ترمیم]
• میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ رسول خدا کے جانشین ہیں؛
شیخ کلینیؒ نے کتاب کافی میں صحیح السند روایت امام جوادؑ سے نقل کی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے تمام آئمہؑ کے نام ذکر کیے اور ان ذوات مقدسہ کی الہٰی امامت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے:
عِدَّةٌ مِنْ اَصْحَابِنَا عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْقِیِّ عَنْ اَبِی هَاشِمٍ دَاوُدَ بْنِ الْقَاسِمِ الْجَعْفَرِیِّ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ الثَّانِی ع قَالَ:
اَقْبَلَ اَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ع ومَعَهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ع وهُوَ مُتَّکِئٌ عَلَی یَدِ سَلْمَانَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَجَلَسَ اِذْ اَقْبَلَ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَیْئَةِ واللِّبَاسِ فَسَلَّمَ عَلَی اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ- فَرَدَّ عَلَیْهِ السَّلَامَ فَجَلَسَ ثُمَّ قَالَ یَا اَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ اَسْاَلُکَ عَنْ ثَلَاثِ مَسَائِلَ اِنْ اَخْبَرْتَنِی بِهِنَّ عَلِمْتُ اَنَّ الْقَوْمَ رَکِبُوا مِنْ اَمْرِکَ مَا قُضِیَ عَلَیْهِمْ واَنْ لَیْسُوا بِمَاْمُونِینَ فِی دُنْیَاهُمْ وآخِرَتِهِمْ واِنْ تَکُنِ الْاُخْرَی عَلِمْتُ اَنَّکَ وهُمْ شَرَعٌ سَوَاءٌ
فَقَالَ لَهُ اَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ع سَلْنِی عَمَّا بَدَا لَکَ قَالَ اَخْبِرْنِی عَنِ الرَّجُلِ اِذَا نَامَ اَیْنَ تَذْهَبُ رُوحُهُ وعَنِ الرَّجُلِ کَیْفَ یَذْکُرُ ویَنْسَی وعَنِ الرَّجُلِ کَیْفَ یُشْبِهُ وَلَدُهُ الْاَعْمَامَ والْاَخْوَالَ فَالْتَفَتَ اَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ ع اِلَی الْحَسَنِ فَقَالَ:
یَا اَبَا مُحَمَّدٍ اَجِبْهُ قَالَ فَاَجَابَهُ الْحَسَنُ ع فَقَالَ الرَّجُلُ اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ ولَمْ اَزَلْ اَشْهَدُ بِهَا واَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ ولَمْ اَزَلْ اَشْهَدُ بِذَلِکَ
وَ اَشْهَدُ اَنَّکَ وَصِیُّ رَسُولِ اللَّهِ صوالْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ واَشَارَ اِلَی اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ
وَ لَمْ اَزَلْ اَشْهَدُ بِهَا واَشْهَدُ اَنَّکَ وَصِیُّهُ والْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ واَشَارَ اِلَی الْحَسَنِ ع
وَ اَشْهَدُ اَنَّ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍّ وَصِیُّ اَخِیهِ والْقَائِمُ بِحُجَّتِهِ بَعْدَهُ
وَ اَشْهَدُ عَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ اَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ الْحُسَیْنِ بَعْدَهُ
وَ اَشْهَدُ عَلَی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ اَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ
وَ اَشْهَدُ عَلَی جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِاَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ مُحَمَّدٍ
وَ اَشْهَدُ عَلَی مُوسَی اَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ
وَ اَشْهَدُ عَلَی عَلِیِّ بْنِ مُوسَی اَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ
وَ اَشْهَدُ عَلَی مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ اَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ عَلِیِّ بْنِ مُوسَی
وَ اَشْهَدُ عَلَی عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ بِاَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ
وَ اَشْهَدُ عَلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ بِاَنَّهُ الْقَائِمُ بِاَمْرِ عَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدٍ
وَ اَشْهَدُ عَلَی رَجُلٍ مِنْ وُلْدِ الْحَسَنِ لَا یُکَنَّی ولَا یُسَمَّی حَتَّی یَظْهَرَ اَمْرُهُ فَیَمْلَاَهَا عَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ جَوْراً والسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ورَحْمَةُ اللَّهِ وبَرَکَاتُهُ.
ثُمَّ قَامَ فَمَضَی فَقَالَ اَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ یَا اَبَا مُحَمَّدٍ اتْبَعْهُ فَانْظُرْ اَیْنَ یَقْصِدُ فَخَرَجَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ع فَقَالَ مَا کَانَ اِلَّا اَنْ وَضَعَ رِجْلَهُ خَارِجاً مِنَ الْمَسْجِدِ فَمَا دَرَیْتُ اَیْنَ اَخَذَ مِنْ اَرْضِ اللَّهِ فَرَجَعْتُ اِلَی اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ ع فَاَعْلَمْتُهُ فَقَالَ یَا اَبَا مُحَمَّدٍ اَ تَعْرِفُهُ قُلْتُ اللَّهُ ورَسُولُهُ واَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ اَعْلَمُ قَالَ هُوَ الْخَضِرُ ع۔
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے۔
اس سند میں «عدة من اصحابنا» سے مقصود: علی بن ابراهیم و علی بن محمد بن عبد الله ابن اذینة و احمد بن عبد الله بن امیة و علی بن الحسن؛ ہیں کہ جن میں سے کسی کی وثاقت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
قال النجاشی: وکان ثقة فی نفسه.
داود بن قاسم ابوهاشم جعفری؛ قال النجاشی: کان عظیم المنزلة عند الائمة علیهم السلام، شریف القدر، ثقة.
وقال الشیخ: جلیل القدر عظیم المنزلة عند الائمة علیهم السلام.
[ترمیم]
•میرے بعد امام، میرے فرزند امام جوادؑ اور ۔۔۔ ہیں؛
شیخ صدوق نے کتاب شریف عیون اخبار الرضاؑ ، میں امام رضاؑ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپؑ
حضرت حجتؑ تک آنے والے اپنے ہر جانشین کا نام ذکر کرتے تھے اور پھر فرماتے ہیں کہ وہ دنیا کو
عدل و انصاف سے پر کر دیں گے:
"۳۵- حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ زِیَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِیُّ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ بْنِ هَاشِمٍ عَنْ اَبِیهِ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ صَالِحٍ الْهَرَوِیِّ قَالَ سَمِعْتُ دِعْبِلَ بْنَ عَلِیٍّ الْخُزَاعِیَّ یَقُولُ لَمَّا اَنْشَدْتُ مَوْلَایَ الرِّضَا ع قَصِیدَتِیَ الَّتِی اَوَّلُهَا مَدَارِسُ آیَاتٍ خَلَتْ مِنْ تِلَاوَةٍوَ مَنْزِلُ وَحْیٍ مُقْفِرُ الْعَرَصَاتِ فَلَمَّا انْتَهَیْتُ اِلَی قَوْلِی: خُرُوجُ اِمَامٍ لَا مَحَالَةَ خَارِجٌ یَقُومُ عَلَی اسْمِ اللَّهِ والْبَرَکَاتِ یمَیِّزُ فِینَا کُلَّ حَقٍّ وبَاطِلٍ وَ یُجْزِی عَلَی النَّعْمَاءِ والنَّقِمَاتِ بَکَی الرِّضَا ع بُکَاءً شَدِیداً ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَهُ اِلَیَّ فَقَالَ لِی یَا خُزَاعِیُّ نَطَقَ رُوحُ الْقُدُسِ عَلَی لِسَانِکَ بِهَذَیْنِ الْبَیْتَیْنِ فَهَلْ تَدْرِی مَنْ هَذَا الْاِمَامُ ومَتَی یَقُومُ فَقُلْتُ لَا یَا سَیِّدِی اِلَّا اَنِّی سَمِعْتُ بِخُرُوجِ اِمَامٍ مِنْکُمْ یُطَهِّرُ الْاَرْضَ مِنَ الْفَسَادِ ویَمْلَؤُهَا عَدْلًا.
فَقَالَ یَا دِعْبِلُ الْاِمَامُ بَعْدِی مُحَمَّدٌ ابْنِی وبَعْدَ مُحَمَّدٍ ابْنُهُ عَلِیٌّ وبَعْدَ عَلِیٍّ ابْنُهُ الْحَسَنُ وبَعْدَ الْحَسَنِ ابْنُهُ الْحُجَّةُ الْقَائِمُ الْمُنْتَظَرُ فِی غَیْبَتِهِ الْمُطَاعُ فِی ظُهُورِهِ لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا یَوْمٌ وَاحِدٌ لَطَوَّلَ اللَّهُ ذَلِکَ الْیَوْمَ حَتَّی یَخْرُجَ فَیَمْلَاَهَا عَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ جَوْراً وظُلْماً واَمَّا مَتَی فَاِخْبَارٌ عَنِ الْوَقْتِ
وَ لَقَدْ حَدَّثَنِی اَبِی عَنْ اَبِیهِ عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِیٍّ ع اَنَّ النَّبِیَّ صقِیلَ لَهُ یَا رَسُولَ اللَّهِ صمَتَی یَخْرُجُ الْقَائِمُ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ؟ فَقَالَ مَثَلُهُ مَثَلُ السَّاعَةِ «لا یُجَلِّیها لِوَقْتِها اِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّماواتِ والْاَرْضِ» لا تَاْتِیکُمْ اِلَّا بَغْتَةً.
دعبل خزاعی نے کہا: جب میں نے ان اشعار "مدارس آیات خلت من تلاوة و منزل وحی مقفر العرصات" سے شروع ہونے والا اپنا قصیدہ
امام رضاؑ کیلئے پڑھا، تو جب میں اس
شعر پر پہنچا:
"خروج امام لا محالة خارجیقوم علی اسم اللَّه والبرکات ••• یمیّز فینا کلّ حقّ وباطلویجزی علی النعماء والنقمات"
خدا کے سوا کسی کو اس کا وقت معلوم نہیں ہے، یہ بات آسمانوں اور زمین پر گراں ہے؛ وہ حضرتؑ اچانک تمہارے پاس آئیں گے۔
اس روایت کی سند صحیح ہے اور قطعا
حجت ہے۔
روایت کی سند میں پہلا راوی احمد بن زیاد همدانی شیخ صدوقؒ کے استاد ہیں۔ شیخ صدوقؒ نے اپنے استاد کی چند مقامات پر توثیق کی ہے، احمد بن زیاد ھمدانی کی تائید میں ان کے کلام کا متن امام زمانہؑ کی غیبت پر مبنی روایت کے ذیل میں ہے:
قال مصنف هذا الکتاب رضی الله عنه: لم اسمع هذا الحدیث الا من احمد بن زیاد ابن جعفر الهمدانی رضی الله عنه بهمدان عند منصرفی من حج بیت الله الحرام، وکان رجلا ثقة دینا فاضلاؒ ورضوانه... .
اس کتاب کے مصنف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس روایت کو احمد بن زیاد ابن جعفر ہمدانی سے ہمدان میں سنا کہ جب وہ خانہ خدا کی زیارت سے واپس آ رہے تھے، وہ ایک ثقہ، دیندار اور فاضل شخص تھے؛ خدا ان پر رحمت کرے!
شیخ صدوقؒ کی توثیق کے بعد ضرورت نہیں ہے کہ دوسروں کا کلام اس بارے میں ذکر کریں۔
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
حضرت آیتالله خوئی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
اقول: لا ینبغی الشک فی وثاقة ابراهیم بنهاشم، ویدل علی ذلک عدة امور:
۱. انه روی عنه ابنه علی فی تفسیره کثیرا، وقد التزم فی اول کتابه بان ما یذکره فیه قد انتهی الیه بواسطة الثقات. وتقدم ذکر ذلک فی (المدخل) المقدمة الثالثة.
۲. ان السید ابن طاووس ادعی الاتفاق علی وثاقته، حیث قال عند ذکره روایة عن امالی الصدوق فی سندها ابراهیم بنهاشم: " ورواة الحدیث ثقات بالاتفاق ". فلاح السائل: الفصل التاسع عشر، الصفحة ۱۵۸.
۳. انه اول من نشر حدیث الکوفیین بقم. والقمیون قد اعتمدوا علی روایاته، وفیهم من هو مستصعب فی امر الحدیث، فلو کان فیه شائبة الغمز لم یکن یتسالم علی اخذ الروایة عنه، وقبول قوله.
میں کہتا ہوں: شائستہ نہیں ہے کہ ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت میں تردید ہو؛ اس مطلب کے اثبات پر چند مطالب دلالت کرتے ہیں:
۱. علی بن ابراهیم نے اپنی تفسیر میں متعدد روایات نقل کی ہیں؛ حالانکہ وہ کتاب کے مقدمے میں ملتزم ہوئے ہیں کہ جو کچھ اس کتاب میں منقول ہے، ثقہ افراد کے واسطے سے ان تک پہنچا ہے۔ اس مطلب کی بحث کتاب المدخل مقدمہ سوم میں گزر چکی ہے۔
۲. سید بن طاووس نے ان کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے؛ چنانچہ اس روایت کہ جس کی سند میں ابراہیم بن ہاشم موجود ہوں، علما متفق ہیں کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۳. وہ پہلی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے کوفہ اہل کوفہ کی حدیث کو قم میں نشر کیا اور قمیوں نے ان کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ قمیوں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو روایت کے بارے میں سخت گیر تھے، اگر اس میں اشکال کا احتمال ہوتا تو تمام اہل قم اس کی روایت اخذ کرنے پر متفق نہ ہوتے۔ ۔
قال النجاشی: "عبد السلام بن صالح ابو الصلت الهروی، روی عن الرضا علیه السلام، ثقة، صحیح الحدیث۔
[ترمیم]
•خدا نے امیر المومنینؑ کی ولایت قبول کرنے کا حکم دیا ہے؛
شیخ کلینیؒ کتاب کافی میں نقل کرتے ہیں کہ امام باقرؑ نے امیر المومنینؑ کی امامت کے اثبات کیلئے قرآن اور حدیث غدیر سے استدلال کیا ہے:
"۴- عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ عَنِ ابْنِ اَبِی عُمَیْرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ اُذَیْنَةَ عَنْ زُرَارَةَ والْفُضَیْلِ بْنِ یَسَارٍ وبُکَیْرِ بْنِ اَعْیَنَ ومُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ وبُرَیْدِ بْنِ مُعَاوِیَةَ واَبِی الْجَارُودِ جَمِیعاً عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ: اَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ رَسُولَهُ بِوَلَایَةِ عَلِیٍّ واَنْزَلَ عَلَیْهِ {اِنَّما وَلِیُّکُمُ اللَّهُ ورَسُولُهُ والَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاةَ ویُؤْتُونَ الزَّکاةَ} وفَرَضَ وَلَایَةَ اُولِی الْاَمْرِ فَلَمْ یَدْرُوا مَا هِیَ فَاَمَرَ اللَّهُ مُحَمَّداً صاَنْ یُفَسِّرَ لَهُمُ الْوَلَایَةَ کَمَا فَسَّرَ لَهُمُ الصَّلَاةَ والزَّکَاةَ والصَّوْمَ والْحَجَّ فَلَمَّا اَتَاهُ ذَلِکَ مِنَ اللَّهِ ضَاقَ بِذَلِکَ صَدْرُ رَسُولِ اللَّهِ صوتَخَوَّفَ اَنْ یَرْتَدُّوا عَنْ دِینِهِمْ واَنْ یُکَذِّبُوهُ فَضَاقَ صَدْرُهُ ورَاجَعَ رَبَّهُ عَزَّ وجَلَّ فَاَوْحَی اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ اِلَیْهِ {یا اَیُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ واِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ واللَّهُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ} «۳» فَصَدَعَ بِاَمْرِ اللَّهِ تَعَالَی ذِکْرُهُ فَقَامَ بِوَلَایَةِ عَلِیٍّ ع یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ فَنَادَی الصَّلَاةَ جَامِعَةً «۴» واَمَرَ النَّاسَ اَنْ یُبَلِّغَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ.
قَالَ عُمَرُ بْنُ اُذَیْنَةَ قَالُوا جَمِیعاً غَیْرَ اَبِی الْجَارُودِ وقَالَ اَبُو جَعْفَرٍ ع وکَانَتِ الْفَرِیضَةُ تَنْزِلُ بَعْدَ الْفَرِیضَةِ الْاُخْرَی وکَانَتِ الْوَلَایَةُ آخِرَ الْفَرَائِضِ فَاَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وجَلَ {الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ واَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی}
قَالَ اَبُو جَعْفَرٍ ع یَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ لَا اُنْزِلُ عَلَیْکُمْ بَعْدَ هَذِهِ فَرِیضَةً قَدْ اَکْمَلْتُ لَکُمُ الْفَرَائِضَ".
اس روایت کی سند میں تمام افراد ثقہ اور قابل اطمینان ہیں۔
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
ابراهیم بنهاشم اور ان کی وثاقت کے اثبات کیلئے مفصل تحقیقات کی گئی ہیں کہ ہم اختصار کی وجہ سے حضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی کا کلام نقل کرتے ہیں۔ آپ نے ابراہیم بن ہاشم کے حالات میں لکھا ہے:
اقول: لا ینبغی الشک فی وثاقة ابراهیم بنهاشم، ویدل علی ذلک عدة امور:
۱. انه روی عنه ابنه علی فی تفسیره کثیرا، وقد التزم فی اول کتابه بان ما یذکره فیه قد انتهی الیه بواسطة الثقات. وتقدم ذکر ذلک فی (المدخل) المقدمة الثالثة.
۲. ان السید ابن طاووس ادعی الاتفاق علی وثاقته، حیث قال عند ذکره روایة عن امالی الصدوق فی سندها ابراهیم بنهاشم: " ورواة الحدیث ثقات بالاتفاق ". فلاح السائل: الفصل التاسع عشر، الصفحة ۱۵۸.
۳. انه اول من نشر حدیث الکوفیین بقم. والقمیون قد اعتمدوا علی روایاته، وفیهم من هو مستصعب فی امر الحدیث، فلو کان فیه شائبة الغمز لم یکن یتسالم علی اخذ الروایة عنه، وقبول قوله.
میں کہتا ہوں: شائسہ نہیں کہ ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت میں تردید کی جائے، اس مطلب کے اثبات کی چند ادلہ ہیں:
۱. علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں بہت سی روایات ان سے نقل کی ہیں؛ جبکہ کتاب کے اول میں وہ اس بات کے ملتزم ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں جو کچھ نقل کیا ہے ، ثقہ افراد کے واسطے سے ان تک پہنچا ہے۔ اس مطلب کی بحث کتاب المدخل کے تیسرے مقدمے میں گزر چکی ہے۔
۲. سید بن طاؤس نے ان کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے؛ چنانچہ ایک روایت جس کی سند میں ابراہیم بن ہاشم موجود ہیں؛ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ: اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۳. آپ وہ پہلے شخص ہیں کہ اہل کوفہ کی احادیث کو قوم میں نشر کیا ہے اور قمیوں نے ان کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ قمیوں کے مابین ایسے لوگ موجود تھےجو روایت کے بارے میں سخت گیر تھے۔ اگر ان میں اشکال کا احتمال ہوتا تو تمام قمی ان کی روایات کو اخذ کرنے اور قبول کرنے پر اتفاق نہ کرتے۔
قال النجاشی: جلیل القدر، عظیم المنزلة فینا وعند المخالفین...
وقال الشیخ: وکان من اوثق الناس عند الخاصة والعامة، وانسکهم نسکا، واورعهم واعبدهم۔
قال الشیخ: عمر بن اذینة ثقة.
قال النجاشی: شیخ اصحابنا البصریین ووجههم۔
قال النجاشی: وجه من وجوه اصحابنا، وفقیه ایضا، له محل عند الائمة۔
[ترمیم]
• رسول خدا، نے کتاب خدا اور امیر المؤمنین کو اپنا جانشین قرار دیا؛
محمد بن حسن صفار نے بصائر الدرجات میں اور
حسن بن سلیمان نے
مختصر بصائر الدرجات میں
سعد بن عبد الله اشعری سے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ رسول خداؐ نے اپنے بعد قرآن، امیر المومنینؑ اور باقی آئمہؑ کو اپنے جانشینوں کے عنوان سے لوگوں میں چھوڑ کر گئے ہیں:
"۲- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی ویَعْقُوبُ بْنُ یَزِیدَ وغَیْرُهُمَا عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنِ اِسْحَاقَ بْنِ غَالِبٍ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ:
مَضَی رَسُولُ اللَّهِ ص وخَلَّفَ فِی اُمَّتِهِ کِتَابَ اللَّهِ ووَصِیَّهُ عَلِیَّ بْنَ اَبِی طَالِبٍ ع واَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ واِمَامَ الْمُتَّقِینَ وحَبْلَ اللَّهِ الْمَتِینَ والعروة (عُرْوَتَهُ) الْوُثْقَی الَّتِی لَا انْفِصامَ لَها وعَهْدَهُ الْمُؤَکَّدَ صَاحِبَانِ مُؤْتَلِفَانِ یَشْهَدُ کُلُّ وَاحِدٍ لِصَاحِبِهِ بِتَصْدِیقٍ یَنْطِقُ الْاِمَامُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ فِی الْکِتَابِ بِمَا اَوْجَبَ اللَّهُ فِیهِ عَلَی الْعِبَادِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ وطَاعَةِ الْاِمَامِ ووَلَایَتِهِ واَوْجَبَ حَقَّهُ الَّذِی اَرَاهُ اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ مِنِ اسْتِکْمَالِ دِینِهِ واِظْهَارِ اَمْرِهِ والِاحْتِجَاجَ بِحُجَّتِهِ والِاسْتِضَاءَةِ بِنُورِهِ فِی مَعَادِنِ اَهْلِ صَفْوَتِهِ ومُصْطَفَی اَهْلِ خِیَرَتِهِ قَدْ ذَخَرَ اللَّهُ بِاَئِمَّةِ الْهُدَی مِنْ اَهْلِ بَیْتِ نَبِیِّنَا عَنْ دِینِهِ واَبْلَجَ بِهِمْ عَنْ سَبِیلِ مَنَاهِجِهِ وفَتَحَ بِهِمْ عَنْ بَاطِنِ یَنَابِیعِ عِلْمِهِ فَمَنْ عَرَفَ مِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ صوَاجَبَ حَقِّ اِمَامِهِ وَجَدَ طَعْمَ حَلَاوَةِ اِیمَانِهِ وعَلِمَ فَضْلَ طَلَاقَةِ اِسْلَامِهِ لِاَنَّ اللَّهَ ورَسُولَهُ نَصَبَ الْاِمَامَ عَلَماً لِخَلْقِهِ وحُجَّةً عَلَی اَهْلِ عَالَمِهِ اَلْبَسَهُ اللَّهُ تَاجَ الْوَقَارِ وغَشَّاهُ مِنْ نُورِ الْجَبَّارِ یَمُدُّ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَاءِ لَا یَنْقَطِعُ عَنْهُ مَوَارِدُهُ ولَا یُنَالُ مَا عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَکَ وتَعَالَی اِلَّا بجهد (بِجِهَةِ) اَسْبَابِ سَبِیلِهِ ولَا یَقْبَلُ اللَّهُ اَعْمَالَ الْعِبَادِ اِلَّا بِمَعْرِفَتِهِ فَهُوَ عَالِمٌ بِمَا یَرِدُ مِنْ مُلْتَبِسَاتِ الْوَحْیِ ومُصِیبَاتِ السُّنَنِ ومُشْتَبِهَاتِ الْفِتَنِ ولَمْ یَکُنِ اللَّهُ لِیُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ اِذْ هَداهُمْ حَتَّی یُبَیِّنَ لَهُمْ ما یَتَّقُونَ وتَکُونُ الْحُجَّةُ مِنَ اللَّهِ عَلَی الْعِبَادِ بَالِغَةً".
اس روایت سے بہت سے نکات کا استفادہ ہوتا ہے؛ منجملہ:
۱. امیر المؤمنینؑ اور کتاب خدا دونوں رسول خداؐ کے جانشین ہیں؛
۲. علی بن ابی طالبؑ امیر المؤمنین، امام المتقین، حبل الله المتین، عروۃ الوثقی، خدا کا مؤکد عہد جیسے القاب کے حامل ہیں؛
۳. امیر المؤمنینؑ و قرآن دو ہمیشگی ہمراہ ہیں کہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں گے اور ایک دوسرے کی سچائی کے شاہد ہیں؛
۴. آئمہ اہل بیتؑ، دین کی علامات اور ہدایت کی راہیں لوگوں کو دکھائیں گے؛
۵. امام کی تقرری خدا کے ذمے ہے اور وہی ہے جو اہل بیت میں سے ایک امام کو لوگوں کی ہدایت کیلئے مقرر کرے گا؛
۶. ایمان کی حلاوت کو چکھنا، ان حضرات کی ولایت کو قبول کرنے سے وابستہ ہے اور جو اس کا انکار کرے، ہرگز ایمان کی حلاوت نہیں چکھے گا۔
۷. آئمہ اهل بیتؑ ہمیشہ آسمانوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور یہ رابطہ کسی وقت قطع نہیں ہو گا؛
۸. اللہ کی بہشت رضوان میں رسائی حاصل نہیں ہو گی؛ مگر اہل بیتؑ کے طریقے سے؛
۹. اہل بیتؑ میں سے کسی امام کی شناخت کے بغیر خدا کی بارگاہ میں کوئی اعمال و عبادات قبول نہیں ہوں گی؛
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور قطعا
معصوم سے صادر ہوئی ہے۔
قال النجاشی: وکان ثقة صدوقا...
وقال الشیخ: کثیر الروایة، ثقة۔
وقال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
قال النجاشی: عربی صلیب ثقة۔
[ترمیم]
• میرے بعد اہل بیتؑ کے آئمہؑ خدا کی جانب سے منتخب ہوتے ہیں؛ مگر لوگ ان کی تکذیب کریں گے؛
شیخ کلینیؒ نے صحیح سند کے ساتھ امام باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ حضرتؑ نے فرمایا: میرے بعد اہل بیتؑ میں سے آئمہؑ خدا کی جانب سے منتخب ہوں گے؛ مگر لوگ انہیں جھٹلائیں گے:
"۱- مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَالِبٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآیَةُ {یَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ اُناسٍ بِاِمامِهِمْ}
قَالَ الْمُسْلِمُونَ یَا رَسُولَ اللَّهِ اَ لَسْتَ اِمَامَ النَّاسِ کُلِّهِمْ اَجْمَعِینَ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صاَنَا رَسُولُ اللَّهِ اِلَی النَّاسِ اَجْمَعِینَ ولَکِنْ سَیَکُونُ مِنْ بَعْدِی اَئِمَّةٌ عَلَی النَّاسِ مِنَ اللَّهِ مِنْ اَهْلِ بَیْتِی یَقُومُونَ فِی النَّاسِ فَیُکَذَّبُونَ ویَظْلِمُهُمْ اَئِمَّةُ الْکُفْرِ والضَّلَالِ واَشْیَاعُهُمْ فَمَنْ وَالاهُمْ واتَّبَعَهُمْ وصَدَّقَهُمْ فَهُوَ مِنِّی ومَعِی وسَیَلْقَانِی اَلَا ومَنْ ظَلَمَهُمْ وکَذَّبَهُمْ فَلَیْسَ مِنِّی ولَا مَعِی واَنَا مِنْهُ بَرِی ءٌ"۔
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
احمد بن محمد بن عیسی الاشعری؛ وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
وقال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
قال النجاشی: ثقة ثقة.
جابر بن یزید، امام باقرؑ کے خاص اصحاب اور مخلص شیعہ ہیں، ان کی وثاقت کے بارے میں بھی بہت سی ابحاث ہوئی ہیں اور بعض نے اہل بیتؑ کے دشمنوں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان کے خلاف بھی باتیں کی ہیں کہ حضرت آیت اللہ خوئیؒ نے
معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواة، میں اسے تفصیل سے نقل و نقد کیا ہے:
"وعده المفید فی رسالته العددیة، ممن لا مطعن فیهم، ولا طریق لذم واحد منهم. وعده ابن شهرآشوب من خواص اصحاب الصادق علیه السلام. المناقب: الجزء ۴، فی فصل، فی تواریخه واحواله.
اقول: الذی ینبغی ان یقال: ان الرجل لابد من عده من الثقات الاجلاء لشهادة علی بن ابراهیم، والشیخ المفید فی رسالته العددیة وشهادة ابن الغضائری، علی ما حکاه العلامة، ولقول الصادقؑ فی صحیحة زیاد: انه کان یصدق علینا".
[ترمیم]
•
عمرو بن حریث کی جانب سے امام صادقؑ کی خدمت میں اپنے عقائد پیش کرنا؛
آئمہؑ کی خدمت میں عقائد پیش کرنا، ان ذوات مقدسہ کے زمانے میں ایک رائج طریقہ کار رہا ہے۔ متعدد روایات اس حوالے سے نقل ہوئی ہیں کہ شیعہ آتے تھے اور جس چیز کا عقیدہ رکھتے تھے، اسے امامؑ کے سامنے نقل کر دیتے تھھے اور امامؑ حقیقت کے حامل امور کی تصدیق اور نادرست کی تصحیح فرما دیتے تھے۔
شیخ کلینیؒ کتاب کافی میں نقل کرتے ہیں کہ عمرو بن حریث امام صادقؑ کی خدمت میں پہنچے اور اپنے عقائد پیش کیے۔ یہ عقائد دقیق طور پر وہی ہیں، جو آج کے شیعہ رکھتے ہیں:
"۱۴ - عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیه واَبُو عَلِیٍّ الاَشْعَرِیُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ جَمِیعاً عَنْ صَفْوَانَ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَیْثٍ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی اَبِی عَبْدِ اللَّه ع وهُوَ فِی مَنْزِلِ اَخِیه عَبْدِ اللَّه بْنِ مُحَمَّدٍ فَقُلْتُ لَه جُعِلْتُ فِدَاکَ مَا حَوَّلَکَ اِلَی هَذَا الْمَنْزِلِ قَالَ طَلَبُ النُّزْهَةِ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ الَا اَقُصُّ عَلَیْکَ دِینِی فَقَالَ بَلَی.
قُلْتُ اَدِینُ اللَّه بِشَهَادَةِ اَنْ لَا اِلَه اِلَّا اللَّه وَحْدَه لَا شَرِیکَ لَه واَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُه ورَسُولُه واَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَا رَیْبَ فِیهَا واَنَّ اللَّه یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُورِ واِقَامِ الصَّلَاةِ واِیتَاءِ الزَّکَاةِ وصَوْمِ شَهْرِ رَمَضَانَ وحِجِّ الْبَیْتِ.
والْوَلَایَةِ لِعَلِیٍّ اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّه صوالْوَلَایَةِ لِلْحَسَنِ والْحُسَیْنِ والْوَلَایَةِ لِعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ والْوَلَایَةِ لِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ ولَکَ مِنْ بَعْدِه صَلَوَاتُ اللَّه عَلَیْهِمْ اَجْمَعِینَ واَنَّکُمْ اَئِمَّتِی عَلَیْه اَحْیَا وعَلَیْه اَمُوتُ واَدِینُ اللَّه بِه.
فَقَالَ یَا عَمْرُو هَذَا واللَّه دِینُ اللَّه ودِینُ آبَائِیَ الَّذِی اَدِینُ اللَّه بِه فِی السِّرِّ والْعَلَانِیَةِ فَاتَّقِ اللَّه وکُفَّ لِسَانَکَ اِلَّا مِنْ خَیْرٍ ولَا تَقُلْ اِنِّی هَدَیْتُ نَفْسِی بَلِ اللَّه هَدَاکَ فَاَدِّ شُکْرَ مَا اَنْعَمَ اللَّه عَزَّ وجَلَّ بِه عَلَیْکَ.
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ و قابل اطمینان ہیں۔
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
وقال الشیخ: کان ثقة فی اصحابنا، فقیها، کثیر الحدیث صحیحه۔
قال الشیخ: " محمد بن ابی الصهبان، واسم ابی الصهبان: عبد الجبار له روایات... قمی، ثقة۔
قال النجاشی: کوفی، ثقة ثقة، عین، روی ابوه عن ابی عبد اللهؑ ، وروی هو عن الرضاؑ ، وکانت له عنده منزلة شریفة.
وقال الشیخ: اوثق اهل زمانه عند اهل الحدیث واعبدهم۔
عمرو بن حریث ابواحمد صیرفی؛ قال النجاشی: ثقة۔
[ترمیم]
•
منصور بن حازم کی جانب سے امام صادقؑ کی خدمت میں اپنے عقائد پیش کرنا؛
شیخ صدوقؒ کتاب علل الشرایع میں لکھتے ہیں:
"اَبِی عَنْ سَعْدٍ عَنِ ابْنِ یَزِیدَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَحْیَی عَنِ ابْنِ حَازِمٍ قَالَ قُلْتُ لِاَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع اِنِّی نَاظَرْتُ قَوْماً فَقُلْتُ اَ لَسْتُمْ تَعْلَمُونَ اَنَّ رَسُولَ اللَّهِ هُوَ الْحُجَّةُ مِنَ اللَّهِ عَلَی الْخَلْقِ فَحِینَ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صمَنْ کَانَ الْحُجَّةَ مِنْ بَعْدِهِ فَقَالُوا الْقُرْآنُ فَنَظَرْتُ فِی الْقُرْآنِ فَاِذَا هُوَ یُخَاصِمُ فِیهِ الْمُرْجِئُ والْحَرُورِیُّ والزِّنْدِیقُ الَّذِی لَا یُؤْمِنُ حَتَّی یَغْلِبَ الرَّجُلُ خَصْمَهُ فَعَرَفْتُ اَنَّ الْقُرْآنَ لَا یَکُونُ حُجَّةً اِلَّا بِقَیِّمٍ مَا قَالَ فِیهِ مِنْ شَیْ ءٍ کَانَ حَقّاً قُلْتُ فَمَنْ قَیِّمُ الْقُرْآنِ قَالُوا قَدْ کَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وفُلَانٌ وفُلَانٌ وفُلَانٌ یَعْلَمُ قُلْتُ کُلَّهُ قَالُوا لَا فَلَمْ اَجِدْ اَحَداً یُقَالُ اِنَّهُ یَعْرِفُ ذَلِکَ کُلَّهُ اِلَّا عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ ع واِذَا کَانَ الشَّیْ ءُ بَیْنَ الْقَوْمِ وقَالَ هَذَا لَا اَدْرِی وقَالَ هَذَا لَا اَدْرِی وقَالَ هَذَا لَا اَدْرِی وقَالَ هَذَا لَا اَدْرِی فَاَشْهَدُ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِی طَالِبٍ ع کَانَ قَیِّمَ الْقُرْآنِ وکَانَتْ طَاعَتُهُ مَفْرُوضَةً وکَانَ حُجَّةً بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صعَلَی النَّاسِ کُلِّهِمْ واَنَّهُ ع مَا قَالَ فِی الْقُرْآنِ فَهُوَ حَقٌّ فَقَالَ رَحِمَکَ اللَّهُ فَقَبَّلْتُ رَاْسَهُ،
وَ قُلْتُ اِنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِی طَالِبٍ ع لَمْ یَذْهَبْ حَتَّی تَرَکَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ کَمَا تَرَکَ رَسُولُ اللَّهِ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ واِنَّ الْحُجَّةَ مِنْ بَعْدِ عَلِیٍّ ع الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ع واَشْهَدُ عَلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ع اَنَّهُ کَانَ الْحُجَّةَ واَنَّ طَاعَتَهُ مُفْتَرَضَةٌ فَقَالَ رَحِمَکَ اللَّهُ فَقَبَّلْتُ رَاْسَهُ،
وَ قُلْتُ اَشْهَدُ عَلَی الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ ع اَنَّهُ لَمْ یَذْهَبْ حَتَّی تَرَکَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ کَمَا تَرَکَ رَسُولُ اللَّهِ صواَبُوهُ واَنَّ الْحُجَّةَ بَعْدَ الْحَسَنِ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ ع وکَانَتْ طَاعَتُهُ مُفْتَرَضَةً فَقَالَ رَحِمَکَ اللَّهُ فَقَبَّلْتُ رَاْسَهُ
وَ قُلْتُ واَشْهَدُ عَلَی الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ ع اَنَّهُ لَمْ یَذْهَبْ حَتَّی تَرَکَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ واَنَّ الْحُجَّةَ مِنْ بَعْدِهِ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ ع وکَانَتْ طَاعَتُهُ مُفْتَرَضَةً فَقَالَ رَحِمَکَ اللَّهُ فَقَبَّلْتُ رَاْسَهُ،
وَ قُلْتُ واَشْهَدُ عَلَی عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ اَنَّهُ لَمْ یَذْهَبْ حَتَّی تَرَکَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ واَنَّ الْحُجَّةَ مِنْ بَعْدِهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ اَبُو جَعْفَرٍ ع وکَانَتْ طَاعَتُهُ مُفْتَرَضَةً فَقَالَ رَحِمَکَ اللَّهُ،
قُلْتُ اَصْلَحَکَ اللَّهُ اَعْطِنِی رَاْسَکَ فَقَبَّلْتُ رَاْسَهُ فَضَحِکَ فَقُلْتُ: اَصْلَحَکَ اللَّهُ قَدْ عَلِمْتُ اَنَّ اَبَاکَ ع لَمْ یَذْهَبْ حَتَّی تَرَکَ حُجَّةً مِنْ بَعْدِهِ کَمَا تَرَکَ اَبُوهُ فَاَشْهَدُ بِاللَّهِ اَنَّکَ اَنْتَ الْحُجَّةُ مِنْ بَعْدِهِ واَنَّ طَاعَتَکَ مُفْتَرَضَةٌ فَقَالَ کُفَّ رَحِمَکَ اللَّهُ قُلْتُ اَعْطِنِی رَاْسَکَ اُقَبِّلْهُ فَضَحِکَ قَالَ سَلْنِی عَمَّا شِئْتَ فَلَا اُنْکِرُکَ بَعْدَ الْیَوْمِ اَبَداً"..
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
قال النجاشی: شیخ القمیین فی عصره ومتقدمهم، وفقیههم، وثقتهم...
وقال الشیخ: کان فقیها، جلیلا، ثقة۔
سعد بن عبد الله الاشعری؛ قال النجاشی: شیخ هذه الطائفة وفقیهها ووجهها....
وقال الشیخ: جلیل القدر، ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة صدوقا...
وقال الشیخ: کثیر الروایة، ثقة۔
قال النجاشی: کوفی، ثقة ثقة، عین، روی ابوه عن ابی عبد اللهؑ ، وروی هو عن الرضاؑ ، وکانت له عنده منزلة شریفة.
وقال الشیخ: اوثق اهل زمانه عند اهل الحدیث واعبدهم۔
قال النجاشی: کوفی، ثقة، عین، صدوق، من جملة اصحابنا وفقهائهم روی عن ابی عبد الله وابی الحسن موسی علیهماالسلام۔
[ترمیم]
•
خالد بجلی کی جانب سے امام صادقؑ کی خدمت میں اپنے عقائد پیش کرنا؛
مرحوم کشی نے اپنی رجال میں صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ خالد البجلی اپنے عقائد منجملہ امیر المومنینؑ سے امام صادقؑ تک آئمہؑ کی ولایت کو پیش کیا اور حضرتؑ نے ان تمام کو صحیح قرار دیا اور ان کی تصدیق کی:
"۷۹۶ جَعْفَرُ بْنُ اَحْمَدَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بَشِیرٍ، عَنْ اَبِی سَلَمَةَ الْجَمَّالِ، قَالَ: دَخَلَ خَالِدٌ الْبَجَلِیُّ عَلَی اَبِی عَبْدِ اللَّهِؑ واَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ جُعِلْتُ فِدَاکَ اِنِّی اُرِیدُ اَنْ اَصِفَ لَکَ دِینِیَ الَّذِی اَدِینُ اللَّهَ بِهِ! وقَدْ قَالَ لَهُ قَبْلَ ذَلِکَ اِنِّی اُرِیدُ اَنْ اَسْاَلَکَ فَقَالَ لَهُ سَلْنِی فَوَ اللَّهِ لَا تَسْاَلُنِی عَنْ شَیْ ءٍ اِلَّا حَدَّثْتُکَ بِهِ عَلَی حَدِّهِ لَا اَکْتُمُکَ، قَالَ اِنَّ اَوَّلَ مَا اَبْدَاُ اَنِّی اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَیْسَ اِلَهٌ غَیْرَهُ.
قَالَ، فَقَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِؑ : کَذَلِکَ رَبُّنَا لَیْسَ مَعَهُ اِلَهٌ غَیْرُهُ، ثُمَّ قَالَ واَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ ورَسُولُهُ، قَالَ، فَقَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِؑ : کَذَلِکَ مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ مُقِرٌّ لَهُ بِالْعُبُودِیَّةِ ورَسُولُهُ اِلَی خَلْقِهِ، ثُمَّ قَالَ واَشْهَدُ اَنَّ عَلِیّاًؑ کَانَ لَهُ مِنَ الطَّاعَةِ الْمَفْرُوضَةِ عَلَی الْعِبَادِ مِثْلُ مَا کَانَ لِمُحَمَّدٍ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) عَلَی النَّاسِ، قَالَ: کَذَلِکَ کَانَؑ ، قَالَ واَشْهَدُ اَنَّهُ کَانَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ بَعْدَ عَلِیٍّ (عَلَیْهِمَا السَّلَامُ) مِنَ الطَّاعَةِ الْوَاجِبَةِ عَلَی الْخَلْقِ مِثْلُ مَا کَانَ لِمُحَمَّدٍ وعَلِیٍّ (صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیْهِمَا)، فَقَالَ: کَذَلِکَ کَانَ الْحَسَنُ، قَالَ واَشْهَدُ اَنَّهُ کَانَ لِلْحُسَیْنِ مِنَ الطَّاعَةِ الْوَاجِبَةِ عَلَی الْخَلْقِ بَعْدَ الْحَسَنِ مَا کَانَ لِمُحَمَّدٍ وعَلِیٍّ والْحَسَنِؑ قَالَ: فَکَذَلِکَ کَانَ الْحُسَیْنُ، قَالَ واَشْهَدُ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ الْحُسَیْنِ کَانَ لَهُ مِنَ الطَّاعَةِ الْوَاجِبَةِ عَلَی جَمِیعِ الْخَلْقِ کَمَا کَانَ لِلْحُسَیْنِؑ قَالَ، فَقَالَ: کَذَلِکَ کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ، قَالَ واَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیٍّ کَانَ لَهُ مِنَ الطَّاعَةِ الْوَاجِبَةِ عَلَی الْخَلْقِ مِثْلُ مَا کَانَ لِعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ، قَالَ فَقَالَ: کَذَلِکَ کَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ، قَالَ واَشْهَدُ اَنَّکَ اَوْرَثَکَ اللَّهُ ذَلِکَ کُلَّهُ، قَالَ، فَقَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِؑ : حَسْبُکَ اسْکُتِ الْآنَ فَقَدْ قُلْتَ حَقّاً، فَسَکَتَ، فَحَمِدَ اللَّهَ واَثْنَی عَلَیْهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِیّاً لَهُ عَقِبٌ وذُرِّیَّةٌ اِلَّا اَجْرَی لِآخِرِهِمْ مِثْلَ مَا اَجْرَی لِاَوَّلِهِمْ، واِنَّا لحق نَحْنُ ذُرِّیَّةُ مُحَمَّدٍ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) اَجْرَی لِآخِرِنَا مِثْلَ مَا اَجْرَی لِاَوَّلِنَا، ونَحْنُ عَلَی مِنْهَاجِ نَبِیِّنَاؑ لَنَا مِثْلُ مَا لَهُ مِنَ الطَّاعَةِ الْوَاجِبَةِ"..
یہ روایت سند اور دلالت دونوں اعتبار سے صحیح ہے۔
جعفر بن احمد بن ایوب؛ قال النجاشی: کان صحیح الحدیث والمذهب۔
قال النجاشی: من زهاد اصحابنا، وعبادهم، ونساکهم، وکان ثقة.
وقال الشیخ: ثقة، جلیل القدر له کتاب۔
قال النجاشی: سالم بن مکرم بن عبد الله ابو خدیجة ویقال ابو سلمة الکناسی... ثقة ثقة روی عن ابی عبد الله وابی الحسن علیهما السلام۔
[ترمیم]
• حضرت فاطمہؑ کی اولاد میں سے آئمہؑ انوارِ ہدایت؛
شیخ کلینیؒ نے کتاب کافی میں صحیح سند کے ساتھ روایت نقل کی ہے کہ امام صادقؑ نے قرآن کی کچھ آیات کی صدیقہ شہیدہؑ اور ان کے فرزندان کی شان میں تفسیر کی ہے:
"۵- عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ومُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِیَادٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَمُّونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْاَصَمِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ صَالِحِ بْنِ سَهْلٍ الْهَمْدَانِیِّ قَالَ قَالَ اَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فِی قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی {اللَّهُ نُورُ السَّماواتِ والْاَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ کَمِشْکاةٍ}
فَاطِمَةُ ع {فِیها مِصْباحٌ} الْحَسَنُ {الْمِصْباحُ فِی زُجاجَةٍ} الْحُسَیْنُ {الزُّجاجَةُ کَاَنَّها کَوْکَبٌ دُرِّیٌ} فَاطِمَةُ کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ بَیْنَ نِسَاءِ اَهْلِ الدُّنْیَا {یُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبارَکَةٍ} اِبْرَاهِیمُ ع {زَیْتُونَةٍ لا شَرْقِیَّةٍ ولا غَرْبِیَّةٍ} لَا یَهُودِیَّةٍ ولَا نَصْرَانِیَّةٍ {یَکادُ زَیْتُها یُضِی ءُ} یَکَادُ الْعِلْمُ یَنْفَجِرُ بِهَا {وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نارٌ نُورٌ عَلی نُورٍ} اِمَامٌ مِنْهَا بَعْدَ اِمَامٍ {یَهْدِی اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ یَشاءُ} یَهْدِی اللَّهُ لِلْاَئِمَّةِ مَنْ یَشَاءُ {وَ یَضْرِبُ اللَّهُ الْاَمْثالَ لِلنَّاسِ} قُلْتُ {اَوْ کَظُلُماتٍ} قَالَ الْاَوَّلُ وصَاحِبُهُ {یَغْشاهُ مَوْجٌ} الثَّالِثُ {مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ} ظُلُمَاتٌ الثَّانِی {بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ} مُعَاوِیَةُ لَعَنَهُ اللَّهُ وفِتَنُ بَنِی اُمَیَّةَ {اِذا اَخْرَجَ یَدَهُ} الْمُؤْمِنُ فِی ظُلْمَةِ فِتْنَتِهِمْ {لَمْ یَکَدْ یَراها ومَنْ لَمْ یَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُوراً} اِمَاماً مِنْ وُلْدِ فَاطِمَةَ ع {فَما لَهُ مِنْ نُورٍ} اِمَامٍ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وقَالَ فِی قَوْلِهِ {یَسْعی نُورُهُمْ بَیْنَ اَیْدِیهِمْ وبِاَیْمانِهِمْ} اَئِمَّةُ الْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ تَسْعَی بَیْنَ یَدَیِ الْمُؤْمِنِینَ وبِاَیْمَانِهِمْ حَتَّی یُنْزِلُوهُمْ مَنَازِلَ اَهْلِ الْجَنَّةِ.
عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ومُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِیَادٍ عَنْ مُوسَی بْنِ الْقَاسِمِ الْبَجَلِیِّ وَ مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنِ الْعَمْرَکِیِّ بْنِ عَلِیٍّ جَمِیعاً عَنْ عَلِیِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ اَخِیهِ مُوسَی ع مِثْلَهُ"۔
یہ روایت متعدد اسناد کی حامل ہے کہ ان میں سے ایک صحیح ہے کہ جس کا ہم جائزہ لیں گے:
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
قال النجاشی: شیخ من اصحابنا، ثقة۔
علی بن جعفر بن محمد؛ قال الشیخ: جلیل القدر، ثقة۔
[ترمیم]
• خدایا! امیر المومنینؑ جو رسول خداؐ کے جانشین ہیں؛ پر صلوات بھیج؛
"۶- مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ سَعِیدٍ عَنِ النَّضْرِ بْنِ سُوَیْدٍ عَنْ یَحْیَی الْحَلَبِیِّ عَنْ بُرَیْدِ بْنِ مُعَاوِیَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع فِی خُطْبَةِ یَوْمِ الْجُمُعَةِ الْخُطْبَةُ الْاُولَی:
الْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ ونَسْتَعِینُهُ ونَسْتَغْفِرُهُ ونَسْتَهْدِیهِ...
اِنَّ کِتَابَ اللَّهِ اَصْدَقُ الْحَدِیثِ واَحْسَنُ الْقِصَصِ وقَالَ اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ: «وَ اِذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ واَنْصِتُوا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ» فَاسْمَعُوا طَاعَةَ اللَّهِ واَنْصِتُوا ابْتِغَاءَ رَحْمَتِهِ ثُمَّ اقْرَاْ سُورَةً مِنَ الْقُرْآنِ وادْعُ رَبَّکَ وصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صوادْعُ لِلْمُؤْمِنِینَ والْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ تَجْلِسُ قَدْرَ مَا تَمَکَّنُ هُنَیْهَةً ثُمَّ تَقُومُ...
ثُمَّ تَقُولُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَوَصِیِّ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ثُمَّ تُسَمِّی الْاَئِمَّةَ حَتَّی تَنْتَهِیَ اِلَی صَاحِبِکَ ثُمَّ تَقُولُ افْتَحْ لَهُ فَتْحاً یَسِیراً وَانْصُرْهُ نَصْراً عَزِیزاً اللَّهُمَّ اَظْهِرْ بِهِ دِینَکَ وَسُنَّةَ نَبِیِّکَ حَتَّی لَا یَسْتَخْفِیَ بِشَیْ ءٍ مِنَ الْحَقِّ مَخَافَةَ اَحَدٍ مِنَ الْخَلْقِ.
اللَّهُمَّ اِنَّا نَرْغَبُ اِلَیْکَ فِی دَوْلَةٍ کَرِیمَةٍ تُعِزُّ بِهَا الْاِسْلَامَ وَاَهْلَهُ وَتُذِلُّ بِهَا النِّفَاقَ واَهْلَهُ وتَجْعَلُنَا فِیهَا مِنَ الدُّعَاةِ اِلَی طَاعَتِکَ والْقَادَةِ فِی سَبِیلِکَ وتَرْزُقُنَا بِهَا کَرَامَةَ الدُّنْیَا والْآخِرَةِ اللَّهُمَّ مَا حَمَّلْتَنَا مِنَ الْحَقِّ فَعَرِّفْنَاهُ ومَا قَصُرْنَا عَنْهُ فَعَلِّمْنَاهُ ثُمَّ یَدْعُو اللَّهَ عَلَی عَدُوِّهِ ویَسْاَلُ لِنَفْسِهِ واَصْحَابِهِ ثُمَّ یَرْفَعُونَ اَیْدِیَهُمْ فَیَسْاَلُونَ اللَّهَ حَوَائِجَهُمْ کُلَّهَا حَتَّی اِذَا فَرَغَ مِنْ ذَلِکَ قَالَ اللَّهُمَّ اسْتَجِبْ لَنَا ویَکُونُ آخِرَ کَلَامِهِ اَنْ یَقُولَ اِنَّ اللَّهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ والْاِحْسانِ واِیتاءِ ذِی الْقُرْبی ویَنْهی عَنِ الْفَحْشاءِ والْمُنْکَرِ والْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ ثُمَّ یَقُولُ اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِمَّنْ تَذَکَّرَ فَتَنْفَعَهُ الذِّکْری ثُمَّ یَنْزِلُ..
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
احمد بن محمد بن عیسی الاشعری؛ وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
الحسین بن سعید بن حماد: قال الشیخ: من موالی علی بن الحسین علیه السلام، ثقة. صاحب المصنفات الاهوازی، ثقة
۔
نضر بن سوید الصیرفی؛ قال النجاشی کوفی، ثقة، صحیح الحدیث...
وقال الشیخ: له کتاب، وهو ثقة۔
یحیی بن عمران الحلبی؛ قال النجاشی: ثقة ثقة، صحیح الحدیث۔
قال النجاشی: وجه من وجوه اصحابنا، وفقیه ایضا، له محل عند الائمة۔
محمد بن مسلم بن ریاح؛ قال النجاشی: وجه اصحابنا بالکوفة، فقیه، ورع، صحب ابا جعفر وابا عبد الله علیهما السلام، وروی عنهما، وکان من اوثق الناس۔
[ترمیم]
• حق اہل بیتؑ کے ساتھ ہے اور وہ اوصیاء و آئمہؑ ہیں، ان کی اطاعت کرو؛
"۸ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ الْوَلِیدِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ قَالَ حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی ومُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ بْنِ اَبِی الْخَطَّابِ والْهَیْثَمُ بْنُ اَبِی مَسْرُوقٍ النَّهْدِیُّ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ السَّرَّادِ عَنْ عَلِیِّ بْنِ رِئَابٍ عَنْ اَبِی حَمْزَةَ الثُّمَالِیِّ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ:
اِنَّ اَقْرَبَ النَّاسِ اِلَی اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ واَعْلَمَهُمْ بِهِ واَرْاَفَهُمْ بِالنَّاسِ مُحَمَّدٌ صوالْاَئِمَّةُ ع فَادْخُلُوا اَیْنَ دَخَلُوا وفَارِقُوا مَنْ فَارَقُوا. ـ عَنَی بِذَلِکَ حُسَیْناً ووُلْدَهُ ع ـ فَاِنَّ الْحَقَّ فِیهِمْ وهُمُ الْاَوْصِیَاءُ ومِنْهُمُ الْاَئِمَّةُ فَاَیْنَمَا رَاَیْتُمُوهُمْ فَاتَّبِعُوهُمْ واِنْ اَصْبَحْتُمْ یَوْماً لَا تَرَوْنَ مِنْهُمْ اَحَداً فَاسْتَغِیثُوا بِاللَّهِ عَزَّ وجَلَّ وانْظُرُوا السُّنَّةَ الَّتِی کُنْتُمْ عَلَیْهَا واتَّبِعُوهَا واَحِبُّوا مَنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ واَبْغِضُوا مَنْ کُنْتُمْ تُبْغِضُونَ فَمَا اَسْرَعَ مَا یَاْتِیکُمُ الْفَرَجُ.
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور اس کی دلالت بھی واضح و آشکار ہے۔
محمد بن الحسن بن احمد: قال النجاشی: شیخ القمیین وفقیههم، ومتقدمهم ووجههم ثقة ثقة، عین...
وقال الشیخ: جلیل القدر، عارف بالرجال، موثوق به... جلیل القدر، بصیر بالفقه، ثقة۔
محمد بن الحسن بن فروخ: قال النجاشی: کان وجها فی اصحابنا القمیین، ثقة، عظیم القدر، راجحا، قلیل السقط فی الروایة۔
مقال النجاشی: جلیل من اصحابنا، عظیم القدر، کثیر الروایة، ثقة، عین، حسن التصانیف، مسکون الی روایته...
وقال الشیخ: کوفی، ثقة۔
وقال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
وقال الشیخ: " علی بن رئاب الکوفی: له اصل کبیر، وهو ثقة جلیل القدر۔
۱۹۶۰ - ثابت بن دینار: ثابت بن ابی صفیة. قال الشیخ: ثقة.
قال النجاشی: کوفی، ثقة... وکان من خیار اصحابنا وثقاتهم، ومعتمدیهم، فی الروایة والحدیث.
وقال الصدوق فی المشیخة: وهو ثقة، عدل۔
[ترمیم]
• جو مر جائے اور اس کا ایسا امام نہ ہو کہ جس کا خدا نے انتخاب کیا ہے، وہ کافر و منافق مرا ہے؛
"۸- مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ یَحْیَی عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ رَزِینٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا جَعْفَرٍ ع یَقُولُ: کُلُّ مَنْ دَانَ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ بِعِبَادَةٍ یُجْهِدُ فِیهَا نَفْسَهُ ولَا اِمَامَ لَهُ مِنَ اللَّهِ فَسَعْیُهُ غَیْرُ مَقْبُولٍ وهُوَ ضَالٌّ مُتَحَیِّرٌ واللَّهُ شَانِئٌ لِاَعْمَالِهِ ومَثَلُهُ کَمَثَلِ شَاةٍ ضَلَّتْ عَنْ رَاعِیهَا وقَطِیعِهَا فَهَجَمَتْ ذَاهِبَةً وجَائِیَةً یَوْمَهَا فَلَمَّا جَنَّهَااللَّیْلُ بَصُرَتْ بِقَطِیعِ غَنَمٍ مَعَ رَاعِیهَا فَحَنَّتْ اِلَیْهَا واغْتَرَّتْ بِهَا فَبَاتَتْ مَعَهَا فِی مَرْبِضِهَا فَلَمَّا اَنْ سَاقَ الرَّاعِی قَطِیعَهُ اَنْکَرَتْ رَاعِیَهَا وقَطِیعَهَا فَهَجَمَتْ مُتَحَیِّرَةً تَطْلُبُ رَاعِیَهَا وقَطِیعَهَا فَبَصُرَتْ بِغَنَمٍ مَعَ رَاعِیهَا فَحَنَّتْ اِلَیْهَا واغْتَرَّتْ بِهَافَصَاحَ بِهَا الرَّاعِی الْحَقِی بِرَاعِیکِ وقَطِیعِکِ فَاَنْتِ تَائِهَةٌ مُتَحَیِّرَةٌ عَنْ رَاعِیکَ وقَطِیعِکَ فَهَجَمَتْ ذَعِرَةً مُتَحَیِّرَةً تَائِهَةً لَا رَاعِیَ لَهَا یُرْشِدُهَا اِلَی مَرْعَاهَا اَوْ یَرُدُّهَا فَبَیْنَا هِیَ کَذَلِکَ اِذَا اغْتَنَمَ الذِّئْبُ ضَیْعَتَهَا فَاَکَلَهَا وکَذَلِکَ
وَ اللَّهِ یَا مُحَمَّدُ مَنْ اَصْبَحَ مِنْ هَذِهِ الْاُمَّةِ لَا اِمَامَ لَهُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ ظَاهِرٌ عَادِلٌ اَصْبَحَ ضَالًّا تَائِهاً واِنْ مَاتَ عَلَی هَذِهِ الْحَالَةِ مَاتَ مِیتَةَ کُفْرٍ ونِفَاقٍ
وَ اعْلَمْ یَا مُحَمَّدُ اَنَّ اَئِمَّةَ الْجَوْرِ واَتْبَاعَهُمْ لَمَعْزُولُونَ عَنْ دِینِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا واَضَلُّوا فَاَعْمَالُهُمُ الَّتِی یَعْمَلُونَهَا کَرَمادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیحُ فِی یَوْمٍ عاصِفٍ لا یَقْدِرُونَ مِمَّا کَسَبُوا عَلی شَیْ ءٍ- ذلِکَ هُوَ الضَّلالُ الْبَعِیدُ".
یہ روایت سند اور دلالت دونوں اعتبار سے صحیح ہے۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
قال النجاشی: جلیل من ا صحابنا، عظیم القدر، کثیر الروایة، ثقة، عین، حسن التصانیف، مسکون الی روایته...
وقال الشیخ: کوفی، ثقة۔
قال النجاشی: کوفی، ثقة ثقة، عین...
وقال الشیخ: اوثق اهل زمانه عند اهل الحدیث واعبدهم۔
قال النجاشی: وکان ثقة وجها.
وقال الشیخ: ثقة، جلیل القدر.
محمد بن مسلم بن ریاح؛ قال النجاشی: وجه اصحابنا بالکوفة، فقیه، ورع، صحب ابا جعفر وابا عبد الله علیهما السلام، وروی عنهما، وکان من اوثق الناس۔
[ترمیم]
• ہم اہل بیتؑ میں سے ایک امام کی معرفت ہر مسلمان پر واجب ہے؛
"۳- مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ زُرَارَةَ قَالَ: قُلْتُ لِاَبِی جَعْفَرٍ ع اَخْبِرْنِی عَنْ مَعْرِفَةِ الْاِمَامِ مِنْکُمْ وَاجِبَةٌ عَلَی جَمِیعِ الْخَلْقِ؟
فَقَالَ: اِنَّ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ بَعَثَ مُحَمَّداً صاِلَی النَّاسِ اَجْمَعِینَ رَسُولًا وحُجَّةً لِلَّهِ عَلَی جَمِیعِ خَلْقِهِ فِی اَرْضِهِ فَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وبِمُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ واتَّبَعَهُ وصَدَّقَهُ فَاِنَّ مَعْرِفَةَ الْاِمَامِ مِنَّا وَاجِبَةٌ عَلَیْهِ ومَنْ لَمْ یُؤْمِنْ بِاللَّهِ وبِرَسُولِهِ ولَمْ یَتَّبِعْهُ ولَمْ یُصَدِّقْهُ ویَعْرِفْ حَقَّهُمَافَکَیْفَ یَجِبُ عَلَیْهِ مَعْرِفَةُ الْاِمَامِ وهُوَ لَا یُؤْمِنُ بِاللَّهِ ورَسُولِهِ ویَعْرِفُ حَقَّهُمَا
قَالَ قُلْتُ فَمَا تَقُولُ فِیمَنْ یُؤْمِنُ بِاللَّهِ ورَسُولِهِ ویُصَدِّقُ رَسُولَهُ فِی جَمِیعِ مَا اَنْزَلَ اللَّهُ یَجِبُ عَلَی اُولَئِکَ حَقُّ مَعْرِفَتِکُمْ؟
قَالَ نَعَمْ اَ لَیْسَ هَؤُلَاءِ یَعْرِفُونَ فُلَاناً وفُلَاناً قُلْتُ بَلَی قَالَ اَ تَرَی اَنَّ اللَّهَ هُوَ الَّذِی اَوْقَعَ فِی قُلُوبِهِمْ مَعْرِفَةَ هَؤُلَاءِ واللَّهِ مَا اَوْقَعَ ذَلِکَ فِی قُلُوبِهِمْ اِلَّا الشَّیْطَانُ لَا واللَّهِ مَا اَلْهَمَ الْمُؤْمِنِینَ حَقَّنَا اِلَّا اللَّهُ عَزَّ وجَلَّ".
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور اس کی دلالت بھی واضح و آشکار ہے۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
احمد بن محمد بن عیسی الاشعری؛ وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
وقال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
قال النجاشی: ثقة ثقة۔
[ترمیم]
• ہم تمام لوگوں سے زیادہ کتاب خدا اور اس کے رسول کی نسبت شائستہ تر ہیں؛
"عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیزِ بْنِ الْمُهْتَدِی عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُنْدَبٍ اَنَّهُ کَتَبَ اِلَیْهِ الرِّضَا ع
اَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ مُحَمَّداً صکَانَ اَمِینَ اللَّهِ فِی خَلْقِهِ فَلَمَّا قُبِضَ صکُنَّا اَهْلَ الْبَیْتِ وَرَثَتَهُ فَنَحْنُ اُمَنَاءُ اللَّهِ فِی اَرْضِهِ عِنْدَنَا عِلْمُ الْبَلَایَا والْمَنَایَا واَنْسَابُ الْعَرَبِ ومَوْلِدُ الْاِسْلَامِ واِنَّا لَنَعْرِفُ الرَّجُلَ اِذَا رَاَیْنَاهُ بِحَقِیقَةِ الْاِیمَانِ وحَقِیقَةِ النِّفَاقِ واِنَّ شِیعَتَنَا لَمَکْتُوبُونَ بِاَسْمَائِهِمْ واَسْمَاءِ آبَائِهِمْ اَخَذَ اللَّهُ عَلَیْنَا وعَلَیْهِمُ الْمِیثَاقَ یَرِدُونَ مَوْرِدَنَا ویَدْخُلُونَ مَدْخَلَنَا لَیْسَ عَلَی مِلَّةِ الْاِسْلَامِ غَیْرُنَا وغَیْرُهُمْ نَحْنُ النُّجَبَاءُ النُّجَاةُ ونَحْنُ اَفْرَاطُ الْاَنْبِیَاءِ ونَحْنُ اَبْنَاءُ الْاَوْصِیَاءِ ونَحْنُ الْمَخْصُوصُونَ فِی کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ ونَحْنُ اَوْلَی النَّاسِ بِکِتَابِ اللَّهِ ونَحْنُ اَوْلَی النَّاسِ بِرَسُولِ اللَّهِ صونَحْنُ الَّذِینَ شَرَعَ اللَّهُ لَنَا دِینَهُ فَقَالَ فِی کِتَابِهِ {شَرَعَ لَکُمْ}
یَا آلَ مُحَمَّدٍ {مِنَ الدِّینِ ما وَصَّی بِهِ نُوحاً} قَدْ وَصَّانَا بِمَا وَصَّی بِهِ نُوحاً {وَ الَّذِی اَوْحَیْنا اِلَیْکَ} یَا مُحَمَّدُ- {وَ ما وَصَّیْنا بِهِ اِبْراهِیمَ ومُوسی وعِیسی} فَقَدْ عَلَّمَنَا وبَلَّغَنَا عِلْمَ مَا عَلِمْنَا واسْتَوْدَعَنَا عِلْمَهُمْ نَحْنُ وَرَثَةُ اُولِی الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ {اَنْ اَقِیمُوا الدِّینَ} یَا آلَ مُحَمَّدٍ {وَ لا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ} وکُونُوا عَلَی جَمَاعَةٍ- {کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ} مَنْ اَشْرَکَ بِوَلَایَةِ عَلِیٍ {ما تَدْعُوهُمْ اِلَیْهِ} مِنْ وَلَایَةِ عَلِیٍّ اِنَّ اللَّهَ یَا مُحَمَّدُ {یَهْدِی اِلَیْهِ مَنْ یُنِیبُ} مَنْ یُجِیبُکَ اِلَی وَلَایَةِ عَلِیٍّ ع"...
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
حضرت آیت اللہ خوئی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
اقول: لا ینبغی الشک فی وثاقة ابراهیم بنهاشم، ویدل علی ذلک عدة امور:
۱. انه روی عنه ابنه علی فی تفسیره کثیرا، وقد التزم فی اول کتابه بان ما یذکره فیه قد انتهی الیه بواسطة الثقات. وتقدم ذکر ذلک فی (المدخل) المقدمة الثالثة.
۲. ان السید ابن طاووس ادعی الاتفاق علی وثاقته، حیث قال عند ذکره روایة عن امالی الصدوق فی سندها ابراهیم بنهاشم: " ورواة الحدیث ثقات بالاتفاق ". فلاح السائل: الفصل التاسع عشر، الصفحة ۱۵۸.
۳. انه اول من نشر حدیث الکوفیین بقم. والقمیون قد اعتمدوا علی روایاته، وفیهم من هو مستصعب فی امر الحدیث، فلو کان فیه شائبة الغمز لم یکن یتسالم علی اخذ الروایة عنه، وقبول قوله.
میں کہتا ہوں: شائسہ نہیں کہ ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت میں تردید کی جائے، اس مطلب کے اثبات کی چند ادلہ ہیں:
۱. علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں بہت سی روایات ان سے نقل کی ہیں؛ جبکہ کتاب کے اول میں وہ اس بات کے ملتزم ہوئے ہیں کہ اس کتاب میں جو کچھ نقل کیا ہے ، ثقہ افراد کے واسطے سے ان تک پہنچا ہے۔ اس مطلب کی بحث کتاب المدخل کے تیسرے مقدمے میں گزر چکی ہے۔
۲. سید بن طاؤس نے ان کی وثاقت پر اتفاق کا دعویٰ کیا ہے؛ چنانچہ ایک روایت جس کی سند میں ابراہیم بن ہاشم موجود ہیں؛ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ: اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
۳. آپ وہ پہلے شخص ہیں کہ اہل کوفہ کی احادیث کو قوم میں نشر کیا ہے اور قمیوں نے ان کی روایات پر اعتماد کیا ہے۔ قمیوں کے مابین ایسے لوگ موجود تھےجو روایت کے بارے میں سخت گیر تھے۔ اگر ان میں اشکال کا احتمال ہوتا تو تمام قمی ان کی روایات کو اخذ کرنے اور قبول کرنے پر اتفاق نہ کرتے۔
قال النجاشی: الاشعری القمی، ثقة
قال الشیخ: ثقة۔
عده الشیخ (تارة) فی اصحاب الصادقؑ (۵۴)، قائلا: ... ثقة۔
[ترمیم]
• میں اور میرے اہل بیتؑ زمین کے وارث ہیں اور ہمیشہ ہمارے میں سے ایک امامؑ روئے زمین پر ہے؛
"۱ - مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ عَنْ اَبِی خَالِدٍ الْکَابُلِیِّ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ وَجَدْنَا فِی کِتَابِ عَلِیٍّ ع: (اِنَّ الاَرْضَ لِلَّه یُورِثُها مَنْ یَشاءُ مِنْ عِبادِه والْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ)
اَنَا واَهْلُ بَیْتِیَ الَّذِینَ اَوْرَثَنَا اللَّه الاَرْضَ ونَحْنُ الْمُتَّقُونَ والاَرْضُ کُلُّهَا لَنَا فَمَنْ اَحْیَا اَرْضاً مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَلْیَعْمُرْهَا ولْیُؤَدِّ خَرَاجَهَا اِلَی الاِمَامِ مِنْ اَهْلِ بَیْتِی ولَه مَا اَکَلَ مِنْهَا فَاِنْ تَرَکَهَا اَوْ اَخْرَبَهَا واَخَذَهَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ بَعْدِه فَعَمَرَهَا واَحْیَاهَا فَهُوَ اَحَقُّ بِهَا مِنَ الَّذِی تَرَکَهَا یُؤَدِّی خَرَاجَهَا اِلَی الاِمَامِ مِنْ اَهْلِ بَیْتِی ولَه مَا اَکَلَ مِنْهَا حَتَّی یَظْهَرَ الْقَائِمُ مِنْ اَهْلِ بَیْتِی بِالسَّیْفِ فَیَحْوِیَهَا ویَمْنَعَهَا ویُخْرِجَهُمْ مِنْهَا کَمَا حَوَاهَا رَسُولُ اللَّه صومَنَعَهَا اِلَّا مَا کَانَ فِی اَیْدِی شِیعَتِنَا فَاِنَّه یُقَاطِعُهُمْ عَلَی مَا فِی اَیْدِیهِمْ".
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور اس کی دلالت بھی واضح و آشکار ہے۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه، ثقة، عین، کثیر الحدیث.
احمد بن محمد بن عیسی الاشعری؛ وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
وقال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
قال النجاشی: ثقة ثقة۔
[ترمیم]
• ہم میں سے ہر امام، امامت کے آثار بعد والے امامؑ کے سپرد کرتا ہے؛
محمد بن الحسن صفار، بصائر الدرجات میں لکھتے ہیں:
"۵۵- حَدَّثَنَا یَعْقُوبُ بْنُ یَزِیدَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ عَنْ محمد بْنِ اُذَیْنَةَ عَنْ بُرَیْدِ بْنِ مُعَاوِیَةَ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع فِی قَوْلِ اللَّهِ تَبَارَکَ وتَعَالَی اِنَّ اللَّهَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَماناتِ اِلی اَهْلِها واِذا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِهِ قَالَ اِیَّانَا عَنَی اَنْ یُؤَدِّیَ الْاَوَّلُ مِنَّا اِلَی الْاِمَامِ الَّذِی یَکُونُ بَعْدَهُ السِّلَاحَ والْعِلْمَ والْکُتُب".
حضرت امام باقرؑ نے آیت «اِنَّ اللَّهَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَماناتِ اِلی اَهْلِها وَ اِذا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِهِ»
کے بارے میں فرمایا:
اس سے مراد ہمارا خاندان ہے کہ پہلا امام، بعد والے امام کو کتابیں اور اسلحہ دیتا ہے۔
یہ روایت
سعد بن عبد الله اشعری کی مختصر البصائر میں بھی ذیل کی سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے:
"اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی، عَنْ اَبِیهِ والْحُسَیْنِ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ ومُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ اَبِی الْخَطَّابِ ویَعْقُوبَ بْنِ یَزِیدَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی عُمَیْرٍ، (عن ابن اذینة) عَنْ بُرَیْدِ بْنِ مُعَاوِیَةَ، عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع فِی قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وجَلَّ: ...
یہی روایت کتاب کافی میں بھی ذیل کی سند کے ساتھ نقل ہوئی ہے:
۱ - الحسین بن محمد، عن معلی بن محمد، عن الحسن بن علی الوشاء، عن احمد ابن عائذ، عن ابن اذینة، عن برید العجلی قال: " سالت ابا جعفرؑ عن قول الله عز وجل.
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کے سب راوی ثقہ اور قابل اطمینان ہیں۔
قال النجاشی: وکان ثقة صدوقا...
وقال الشیخ: کثیر الروایة، ثقة۔
قال النجاشی: جلیل القدر، عظیم المنزلة فینا وعند المخالفین...
وقال الشیخ: وکان من اوثق الناس عند الخاصة والعامة، وانسکهم نسکا، واورعهم واعبدهم۔
۸۷۱۴ - عمر بن اذینة: قال الشیخ (۵۰۴): " عمر بن اذینة ثقة.
وقال ثانیا: محمد بن عمر بن اذینة غلب علیه اسم ابیه... ثقة۔
قال النجاشی: وجه من وجوه اصحابنا، وفقیه ایضا، له محل عند الائمة۔
[ترمیم]
• نبوت کی میراث، امیر المومنینؑ کے حوالے کرنا ؛
شیعہ عقائد کے مطابق خدا ک جانب سے منتخب ہونے والے امام کیلئے ضروری ہے کہ علم،
ایمان و۔۔۔ میں نبوت کے سوا؛ رسول خداؐ والی خصوصیات کا حامل ہو اور انہیں خود آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے وراثت میں پایا ہو تاکہ امامت و جانشینی کی شائستگی کا حامل ہو۔ صحیح السند روایت کے مطابق کہ جسے شیخ کلینیؒ نے نقل کیا ہے، رسول خداؐ نے تمام خصوصیات امیر المومنینؑ کو منتقل کر دی ہیں:
"۲ - مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ واَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ ابْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَیْلِ عَنْ اَبِی حَمْزَةَ الثُّمَالِیِّ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ سَمِعْتُه یَقُولُ لَمَّا اَنْ قَضَی مُحَمَّدٌ نُبُوَّتَه واسْتَکْمَلَ اَیَّامَه اَوْحَی اللَّه تَعَالَی اِلَیْه اَنْ یَا مُحَمَّدُ قَدْ قَضَیْتَ نُبُوَّتَکَ واسْتَکْمَلْتَ اَیَّامَکَ فَاجْعَلِ الْعِلْمَ الَّذِی عِنْدَکَ والاِیْمَانَ والِاسْمَ الاَکْبَرَ ومِیرَاثَ الْعِلْمِ وآثَارَ عِلْمِ النُّبُوَّةِ فِی اَهْلِ بَیْتِکَ عِنْدَ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ فَاِنِّی لَنْ اَقْطَعَ الْعِلْمَ والاِیمَانَ والِاسْمَ الاَکْبَرَ ومِیرَاثَ الْعِلْمِ وآثَارَ عِلْمِ النُّبُوَّةِ مِنَ الْعَقِبِ مِنْ ذُرِّیَّتِکَ کَمَا لَمْ اَقْطَعْهَا مِنْ ذُرِّیَّاتِ الاَنْبِیَاءِ".
[ترمیم]
• امام حسنؑ اور امام حسینؑ، کے بعد امامت دو بھائیوں میں نہیں ہو گی؛
شیعہ عقائد کے مطابق امامت ایک الہٰی امر ہے کہ جسے خدا نے رسول خداؐ کی نسل میں قرار دیا ہے اور وہ نسل در نسل ایک دوسرے کو منتقل ہو گی؛ تاہم اس میں ایک استثنا موجود ہے اور وہ امام حسن مجتبیؑ کی امامت کا ہے کہ آپؑ کی امامت، آپؑ کی اولاد میں منتقل نہیں ہو گی؛ بلکہ آپؑ کے برادر گرامی امام حسینؑ کو ملے گی اور اس کے بعد نسل در نسل
حضرت مہدیؑ تک جاری رہے گی۔
اہل بیتؑ کے طریق سے متعدد روایات منقول ہیں کہ امامت، امام حسن و امام حسینؑ کے بعد دو بھائیوں کے پاس نہیں آئے گی بلکہ امام حسینؑ کی نسل میں جاری رہے گی۔
شیخ کلینیؒ نے کتاب کافی میں اس بارے میں کئی روایات نقل کی ہیں کہ جن میں سے ہم تین پر اکتفا کریں گے:
"عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ یُونُسَ عَنِ الْحُسَیْنِ بْنِ ثُوَیْرِ بْنِ اَبِی فَاخِتَةَ عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ لَا تَعُودُ الْاِمَامَةُ فِی اَخَوَیْنِ بَعْدَ الْحَسَنِ والْحُسَیْنِ اَبَداً اِنَّمَا جَرَتْ مِنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ کَمَا قَالَ اللَّهُ تَبَارَکَ وتَعَالَی واُولُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ".
"۳ - مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْمَاعِیلَ بْنِ بَزِیعٍ عَنْ اَبِی الْحَسَنِ الرِّضَاع اَنَّه سُئِلَ اتَکُونُ الاِمَامَةُ فِی عَمٍّ اَوْ خَالٍ فَقَالَ لَا فَقُلْتُ فَفِی اَخٍ قَالَ لَا قُلْتُ فَفِی مَنْ؟ قَالَ فِی وَلَدِی وهُوَ یَوْمَئِذٍ لَا وَلَدَ لَه".
"۴ - مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَی عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ اَبِی نَجْرَانَ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ الْجَعْفَرِیِّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِیسَی عَنْ اَبِی عَبْدِ اللَّه ع اَنَّه قَالَ لَا تَجْتَمِعُ الاِمَامَةُ فِی اَخَوَیْنِ بَعْدَ الْحَسَنِ والْحُسَیْنِ اِنَّمَا هِیَ فِی الاَعْقَابِ واَعْقَابِ الاَعْقَابِ".
یہ روایت ثابت کرتی ہے کہ امام حسنؑ و امام حسینؑ امامؑ تھے اور ان کے بعد امامت سید الشہدا کی نسل میں جاری رہے گی۔
سلسله اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور اس کی دلالت بھی واضح و آشکار ہے۔
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
محمد بن عیسی بن عبید بن یقطین؛ قال النجاشی: ابو جعفر: جلیل فی اصحابنا، ثقة، عین، کثیر الروایة، حسن التصانیف۔
البتہ شیخ طوسیؒ نے اہل قم کے اقوال کی طرف استناد کرتے ہوئے ان کی تضعیف کی ہے کہ حضرت آیت اللہ خوئی نے مکمل صورت میں اس کا جواب دیا ہے۔
قال النجاشی: کان وجها فی اصحابنا متقدما، عظیم المنزلة.
قال النجاشی: ثقة۔
[ترمیم]
• اہل بیتؑ کی ولایت، اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے؛
شیع کتب میں متواتر روایات صحیح سند کے ساتھ موجود ہیں کہ اہل بیتؑ کی امامت
اسلام کے ارکان میں سے ایک ہے اور اگر کوئی اس کا حامل نہ ہو تو اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا۔
شیخ کلینیؒ نے بھی کتاب کافی میں صحیح سند کے ساتھ اسے نقل کیا ہے:
"۵- عَلِیُّ بْنُ اِبْرَاهِیمَ عَنْ اَبِیهِ وعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّلْتِ جَمِیعاً عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِیسَی عَنْ حَرِیزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ ع قَالَ: بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلَی خَمْسَةِ اَشْیَاءَ عَلَی الصَّلَاةِ والزَّکَاةِ والْحَجِّ والصَّوْمِ والْوَلَایَةِ...
قَالَ ثُمَّ قَالَ ذِرْوَةُ الْاَمْرِ وسَنَامُهُ ومِفْتَاحُهُ وبَابُ الْاَشْیَاءِ ورِضَا الرَّحْمَنِ الطَّاعَةُ لِلْاِمَامِ بَعْدَ مَعْرِفَتِهِ اِنَّ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ یَقُولُ «مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطاعَ اللَّهَ ومَنْ تَوَلَّی فَما اَرْسَلْناکَ عَلَیْهِمْ حَفِیظاً» اَمَا لَوْ اَنَّ رَجُلًا قَامَ لَیْلَهُ وصَامَ نَهَارَهُ وتَصَدَّقَ بِجَمِیعِ مَالِهِ وحَجَّ جَمِیعَ دَهْرِهِ ولَمْ یَعْرِفْ وَلَایَةَ وَلِیِّ اللَّهِ فَیُوَالِیَهُ ویَکُونَ جَمِیعُ اَعْمَالِهِ بِدَلَالَتِهِ اِلَیْهِ مَا کَانَ لَهُ عَلَی اللَّهِ جَلَّ وعَزَّ حَقٌّ فِی ثَوَابِهِ ولَا کَانَ مِنْ اَهْلِ الْاِیمَانِ ثُمَّ قَالَ اُولَئِکَ الْمُحْسِنُ مِنْهُمْ یُدْخِلُهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ".
اس روایت کی سند سو فیصد صحیح ہے اور اس کی دلالت بھی اہل بیتؑ کی ولایت و امامت پر اتنی واضح ہے کہ اس سے زیادہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
اسی روایت کو شیخ طوسی نے امالی میں ذیل کی سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
"۱۹۲- ۵- اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: اَخْبَرَنِی اَبُو الْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُولَوَیْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِی اَبِی، عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ، عَنْ اَبِی حَمْزَةَ الثُّمَالِیِّ، عَنْ اَبِی جَعْفَرٍ.
شیخ طوسی نے اسی روایت کو مفصل طور پر اس صورت میں نقل کیا ہے:
"۲۹۹- ۱- اَخْبَرَنَا اَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ (رَحِمَهُ اللَّهُ)، قَالَ: اَخْبَرَنَا اَبُو الْحَسَنِ اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ اَبِیهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الصَّفَّارِ، عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ، عَنْ اَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ اِسْمَاعِیلَ الْجُعْفِیِّ، قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ عَلَی اَبِی جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ (عَلَیْهِمَا السَّلَامُ) ومَعَهُ صَحِیفَةُ مَسَائِلَ شِبْهَ الْخُصُومَةِ. فَقَالَ لَهُ اَبُو جَعْفَرٍ (عَلَیْهِ السَّلَامُ): هَذِهِ صَحِیفَةٌ تُخَاصِمُ عَلَی الدِّینِ الَّذِی یَقْبَلُ اللَّهُ فِیهِ الْعَمَلَ فَقَالَ: رَحِمَکَ اللَّهُ، هَذَا الَّذِی اُرِیدُ.
فَقَالَ اَبُو جَعْفَرٍ (عَلَیْهِ السَّلَامُ): اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیکَ لَهُ، واَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ ورَسُولُهُ، وتُقِرُّ بِمَا جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، والْوَلَایَةِ لَنَا اَهْلَ الْبَیْتِ، والْبَرَاءَةِ مِنْ عَدُوِّنَا، والتَّسَلُّمِ لَنَا، والتَّوَاضُعِ والطُّمَاْنِینَةِ، وانْتِظَارِ اَمْرِنَا، فَاِنَّ لَنَا دَوْلَةً اِنْ شَاءَ اللَّهُ (تَعَالَی) جَاءَ بِهَا".
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
علی بن ابراهیم بن هاشم؛ قال النجاشی: القمی، ثقة فی الحدیث، ثبت، معتمد، صحیح المذهب۔
عبد الله بن صلت ابوطالب؛ قال النجاشی: ثقة، مسکون الی روایته.
قال الشیخ: ثقة۔
قال النجاشی: وکان ثقة فی حدیثه، صدوقا.
وقال الشیخ: ثقة۔
حریز بن عبد الله سجستانی؛ وقال الشیخ: ثقة۔
قال النجاشی: شیخ اصحابنا فی زمانه ومتقدمهم، وکان قارئا فقیها متکلما شاعرا ادیبا، قد اجتمعت فیه خلال الفضل والدین، صادقا فیما یرویه.
[ترمیم]
• اہل بیتؑ کی ولایت کے بغیر عبادات کی عدم قبولیت؛
"۸ قَالَ اَخْبَرَنِی اَبُو الْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیهِ عَنْ سَعْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ مُرَازِمٍ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صمَا بَالُ اَقْوَامٍ مِنْ اُمَّتِی اِذَا ذُکِرَ عِنْدَهُمْ اِبْرَاهِیمُ وآلُ اِبْرَاهِیمَ اسْتَبْشَرَتْ قُلُوبُهُمْ وتَهَلَّلَتْ وُجُوهُهُمْ واِذَا ذُکِرْتُ واَهْلَ بَیْتِی اشْمَاَزَّتْ قُلُوبُهُمْ وکَلَحَتْ وُجُوهُهُمْ والَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ نَبِیّاً لَوْ اَنَّ رَجُلًا لَقِیَ اللَّهَ بِعَمَلِ سَبْعِینَ نَبِیّاً ثُمَّ لَمْ یَاْتِ بِوَلَایَةِ اُولِی الْاَمْرِ مِنَّا اَهْلَ الْبَیْتِ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفاً ولَا عَدْلًا".
اس روایت کی سند صحیح ہے اور اس کی حجیت میں کوئی تردید نہیں ہے۔
جعفر بن محمد بن جعفر بن موسی. قال النجاشی: وکان ابو القاسم من ثقات اصحابنا، واجلائهم فی الحدیث والفقه.
وقال الشیخ (۱۴۱): ثقة۔
محمد بن جعفر بن موسی؛ وتقدم عن النجاشی فی ترجمة ابنه جعفر، انه من خیار اصحاب سعد، وقد اکثر الروایة عنه ابنه جعفر فی کامل الزیارات، وقد التزم بان لا یروی فی کتابه هذا الا عن ثقة۔
قال النجاشی: شیخ هذه الطائفة وفقیهها ووجهها....
وقال الشیخ: جلیل القدر، ثقة۔
احمد بن محمد بن عیسی الاشعری؛ وقال الشیخ: شیخ قم، ووجیهها، وفقیهها۔
وقال الشیخ: کوفی، ثقة. وکان جلیل القدر، یعد فی الارکان الاربعة فی عصره۔
۱۲۲۲۵ - مرازم بن حکیم الازدی: قال النجاشی: ثقة.
وقال الشیخ: ثقة۔
[ترمیم]
•
زیارت جامعہ کبیره؛
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الدَّقَّاقُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ وَمُحَمَّدُ بْنُ اَحْمَدَ السِّنَانِیُّ وَعَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَرَّاقُ وَالْحُسَیْنُ بْنُ اِبْرَاهِیمَ بْنِ اَحْمَدَ بْنِ هِشَامٍ الْمُکَتِّبُ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اَبِی عَبْدِ اللَّهِ الْکُوفِیُّ وَاَبُو الْحُسَیْنِ الْاَسَدِیُّ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمَاعِیلَ الْمَکِّیُّ الْبَرْمَکِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ عِمْرَانَ النَّخَعِیُّ قَالَ قُلْتُ لِعَلِیِّ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ مُوسَی بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ ع عَلِّمْنِی یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ قَوْلًا اَقُولُهُ بَلِیغاً کَامِلًا اِذَا زُرْتُ وَاحِداً مِنْکُمْ فَقَالَ اِذَا صِرْتَ اِلَی الْبَابِ فَقِفْ واشْهَدِ الشَّهَادَتَیْنِ واَنْتَ عَلَی غُسْلٍ فَاِذَا دَخَلْتَ ورَاَیْتَ الْقَبْرَ فَقِفْ وقُلِ اللَّهُ اَکْبَرُ ثَلَاثِینَ مَرَّةً ثُمَّ امْشِ قَلِیلًا وعَلَیْکَ السَّکِینَةُ والْوَقَارُ وقَارِبْ بَیْنَ خُطَاکَ ثُمَّ قِفْ وکَبِّرِ اللَّهَ عَزَّ وجَلَّ ثَلَاثِینَ مَرَّةً ثُمَّ ادْنُ مِنَ الْقَبْرِ وکَبِّرِ اللَّهَ اَرْبَعِینَ مَرَّةً تَمَامَ مِائَةِ تَکْبِیرَةٍ ثُمَّ قُلْ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَهْلَ بَیْتِ النُّبُوَّةِ ومَوْضِعَ الرِّسَالَةِ ومُخْتَلَفَ الْمَلَائِکَةِ ومَهْبِطَ الْوَحْیِ ومَعْدِنَ الرِّسَالَةِ وخُزَّانَ الْعِلْمِ ومُنْتَهَی الْحِلْمِ واُصُولَ الْکَرَمِ وقَادَةَ الْاُمَمِ واَوْلِیَاءَ النِّعَم...
السَّلَامُ عَلَی اَئِمَّةِ الْهُدَی ومَصَابِیحِ الدُّجَی واَعْلَامِ التُّقَی وذَوِی النُّهَی واُولِی الْحِجَی وکَهْفِ الْوَرَی ووَرَثَةِ الْاَنْبِیَاءِ والْمَثَلِ الْاَعْلی والدَّعْوَةِ الْحُسْنَی وحُجَجِ اللَّهِ عَلَی اَهْلِ الْآخِرَةِ والْاُولَی ورَحْمَةُ اللَّهِ وبَرَکَاتُهُ السَّلَامُ عَلَی مَحَالِّ مَعْرِفَةِ اللَّهِ ومَسَاکِنِ بَرَکَةِ اللَّهِ ومَعَادِنِ حِکْمَةِ اللَّهِ وحَفَظَةِ سِرِّ اللَّهِ وحَمَلَةِ کِتَابِ اللَّهِ واَوْصِیَاءِ نَبِیِّ اللَّهِ وذُرِّیَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صورَحْمَةُ اللَّهِ وبَرَکَاتُه.
وَاَشْهَدُ اَنَّکُمُ الْاَئِمَّةُ الرَّاشِدُونَ الْمَهْدِیُّونَ الْمَعْصُومُونَ الْمُکَرَّمُونَ الْمُقَرَّبُونَ الْمُتَّقُونَ الصَّادِقُون الْمُصْطَفَوْنَ الْمُطِیعُونَ لِلَّهِ الْقَوَّامُونَ بِاَمْرِهِ الْعَامِلُونَ بِاِرَادَتِهِ الْفَائِزُونَ بِکَرَامَتِهِ اصْطَفَاکُمْ بِعِلْمِهِ وارْتَضَاکُمْ لِدِینِهِ واخْتَارَکُمْ لِسِرِّهِ واجْتَبَاکُمْ بِقُدْرَتِهِ واَعَزَّکُمْ بِهُدَاهُ وخَصَّکُمْ بِبُرْهَانِهِ وانْتَجَبَکُمْ لِنُورِهِ واَیَّدَکُمْ بِرُوحِهِ ورَضِیَکُمْ خُلَفَاءَ فِی اَرْضِهِ وحُجَجاً عَلَی بَرِیَّتِهِ واَنْصَاراً لِدِینِه....
عَصَمَکُمُ اللَّهُ مِنَ الزَّلَلِ وَآمَنَکُمْ مِنَ الْفِتَنِ وَطَهَّرَکُمْ مِنَ الدَّنَسِ وَاَذْهَبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرَکُمْ تَطْهِیراً۔
اس روایت کی صحت میں کوئی تردید نہیں ہے؛ چنانچہ
علامہ مجلسیؒ نے اس زیارت نامہ کی تشریح کے بعد کہا ہے:
اقول: انما بسطت الکلام فی شرح تلک الزیارة قلیلا وان لم استوف حقها حذرا من الاطالة لانها اصح الزیارات سندا، واعمها موردا، وافصحها لفظا وابلغها معنی، واعلاها شانا.
میں (مجلسی) کہتا ہوں؛ میں نے اس زیارت کی شرح میں زیادہ بات نہیں کی اور اگر اس کا حق ادا نہیں کر سکا تو یہ کلام کے طولانی ہونے کے خوف کی وجہ سے تھا؛ کیونکہ یہ زیارت نامہ سند کے اعتبار سے صحیح ترین زیارت، موضوع کے اعتبار سے وسیع ترین، الفاظ کے لحاظ سے فصیح ترین ، معنا کے لحاظ سے بلیغ ترین اور اہمیت کے پیش نظر برترین زیارت نامہ ہے۔
[ترمیم]
•
خطبہ شعبانیہ؛
"۵۳- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرِ بْنِ النَّقَّاشِ واَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ ومُحَمَّدُ بْنُ اَحْمَدَ بْنِ اِبْرَاهِیمَ الْمُعَاذِیُ وَمُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاهِیمَ بْنِ اِسْحَاقَ الْمُکَتِّبُ قَالُوا: حَدَّثَنَا اَبُو الْعَبَّاسِ اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِیدٍ الْهَمْدَانِیُّ مَوْلَی بَنِی هَاشِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ اَبِیهِ عَنْ اَبِی الْحَسَنِ عَلِیِّ بْنِ مُوسَی الرِّضَا ع عَنْ اَبِیهِ مُوسَی بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ اَبِیهِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ اَبِیهِ الْبَاقِرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیهِ زَیْنِ الْعَابِدِینَ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ عَنْ اَبِیهِ سَیِّدِ الشُّهَدَاءِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ اَبِیهِ سَیِّدِ الْوَصِیِّینَ اَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ ع قَالَ: اِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص...
قَالَ یَا عَلِیُّ مَنْ قَتَلَکَ فَقَدْ قَتَلَنِی ومَنْ اَبْغَضَکَ فَقَدْ اَبْغَضَنِی ومَنْ سَبَّکَ فَقَدْ سَبَّنِی لِاَنَّکَ مِنِّی کَنَفْسِی رُوحُکَ مِنْ رُوحِی وطِینَتُکَ مِنْ طِینَتِی اِنَّ اللَّهَ تَبَارَکَ وتَعَالَی خَلَقَنِی واِیَّاکَ واصْطَفَانِی واِیَّاکَ واخْتَارَنِی لِلنُّبُوَّةِ واخْتَارَکَ لِلْاِمَامَةِ فَمَنْ اَنْکَرَ اِمَامَتَکَ فَقَدْ اَنْکَرَ نُبُوَّتِی یَا عَلِیُّ اَنْتَ وَصِیِّی واَبُو وُلْدِی وزَوْجُ ابْنَتِی وخَلِیفَتِی عَلَی اُمَّتِی فِی حَیَاتِی وبَعْدَ مَوْتِی اَمْرُکَ اَمْرِی ونَهْیُکَ نَهْیِی اُقْسِمُ بِالَّذِی بَعَثَنِی بِالنُّبُوَّةِ وجَعَلَنِی خَیْرَ الْبَرِیَّةِ اِنَّکَ لَحُجَّةُ اللَّهِ عَلَی خَلْقِهِ واَمِینُهُ عَلَی سِرِّهِ وخَلِیفَتُهُ عَلَی عِبَادِهِ.
اس روایت کی صحت کو ثابت کرنے کیلئے علامہ محمد تقی مجلسی کی گواہی کافی ہے۔ آپ کتاب
روضۃ المتقین میں اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:
وروی ایضا فی الموثق کالصحیح - عن امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب صلوات الله علیه قال: ان رسول الله (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) خطبنا ذات یوم، فقال: ایها الناس انه قد اقبل الیکم شهر الله بالبرکة والرحمة والمغفرة...
ثمَّ قال: یا علی من قتلک فقد قتلنی ومن ابغضک فقد ابغضنی، ومن سبک فقد سبنی لانک منی کنفسی، روحک من روحی وطینتک من طینتی، ان الله تبارک وتعالی خلقنی وایاک، واصطفانی وایاک، واختارنی للنبوة واختارک للامامة، فمن انکر امامتک فقد انکر نبوتی. یا علی انت وصیی وابو ولدی وزوج ابنتی وخلیفتی علی امتی فی حیاتی وبعد موتی، امرک امری، ونهیک نهیی، اقسم بالذی بعثنی بالنبوة وجعلنی خیر البریة انک لحجة الله علی خلقه وامینه علی سره وخلیفته علی عباده۔
[ترمیم]
اہل بیت کی امامت نہ صرف شیعہ کتب بلکہ مخالفین کی کتب سے بھی بڑی وضاحت اور آسانی سے قابل اثبات ہے۔ دسیوں بلکہ سینکڑوں روایات اس موضوع پر موجود ہیں حتی کئی جلدوں پر مشتمل مفصل کتب اس حوالے سے لکھی گئی ہیں کہ جن میں سے بہترین اور مفصل ترین کتاب فخر شیعہ
علامہ میرحامدحسین نقوی کی تالیف
عبقات الانوار ہے۔ اس وسیع سمندر سے ہم صرف پانچ روایات پر اکتفا کریں گے۔
• وَ اَنْتَ خَلِیفَتِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی؛
متعدد روایات اس مضمون کے ساتھ اہل سنت کے مصادر میں معتبر اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہیں کہ ہم اس مقالے میں صرف ایک روایت کی طرف اشارہ کریں گے اور اس کی سند کو صحیح ثابت کریں گے۔
عمرو بن ابی عاصم اپنی کتاب
السنۃ میں لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، حَدَّثَ نَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا اَبُو عَوَانَةَ، عَنْ یَحْیَی بْنِ سُلَیْمٍ اَبِی بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): ...
وَخَرَجَ النَّاسُ فِی غَزْوَةِ تَبُوکَ، فَقَالَ عَلِیٌّ: اَخْرُجُ مَعَکَ، قَالَ: «لا»، قَالَ: فَبَکَی، قَالَ: «اَفَلا تَرْضَی اَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی، اِلا اَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، وَاَنْتَ خَلِیفَتِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی».
نسائی نے
خصائص امیرمؤمنینؑ میں اسی سند کے ساتھ ذیل کے الفاظ میں نقل کیا ہے:
اَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، قَالَ: حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَضَّاحُ، وَهُوَ اَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا یَحْیَی، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ، قَالَ: " اِنِّی لَجَالِسٌ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ....
وَخَرَجَ بِالنَّاسِ فِی غَزْوَةِ تَبُوکَ، فَقَالَ عَلِیٌّ: اَخْرُجُ مَعَکَ؟ فَقَالَ: لا، فَبَکَی، فَقَالَ: اَمَا تَرْضَی اَنْ تَکُونَ مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَی، اِلا اَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ؟ ثُمَّ قَالَ: اَنْتَ خَلِیفَتِی، یَعْنِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی۔
اس روایت کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے؛ اس بنا پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول خداؐ نے امیر المومنینؑ کیلئے جملہ «وَاَنْتَ خَلِیفَتِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی» سے استفادہ کیا ہے۔
کتاب کے مؤلف
عمرو بن ضحاک اگرچہ اپنے فرزند
الآحاد والمثانی) کے مصنف (احمد بن عمرو بن الضحاک) کے برابر مشہور نہیں ہیں؛ مگر وہ
ابن ماجه قزوینی کے اساتذہ میں سے ہیں اور اہل سنت کے بڑے علما نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔
ابن حجر عسقلانی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
عمرو بن الضحاک بن مخلد البصری ولد ابی عاصم النبیل ثقة کان علی قضاء الشام من الحادیة عشرة مات سنة اثنتین واربعین ق؛
عمرو بن الضحاک، ثقہ ہے اور تیسری صدی کے سنہ گیارہ سے شام کا قاضی رہا ہے ۔
ابن حبان شافعی اس کے بارے میں کہتے ہیں:
عمرو بن ابیعاصم النبیل یروی عن ابیه ثنا عنه محمد بن الحسن بن قتیبة وغیره من شیوخنا کان علی قضاء الشام مستقیم الحدیث؛
عمرو بن ابی عاصم کہ جنہوں نے اپنے باپ سے روایت سماعت کی ہے، محمد بن الحسن اور ہمارے دوسرے بزرگوں نے ان سے روایت نقل کی ہے، وہ شام کے قاضی رہے، ان کی احادیث درست ہیں۔
بخاری،
مسلم اور
صحاح ستہ کی دیگر کتب کے راوی ہیں؛
ذهبی ان الفاظ میں ان کی تعریف کرتے ہیں:
محمد بن المثنی ابو موسی العنزی الحافظ عن بن عیینة وعبد العزیز العمی وعنه الجماعة وابو عروبة والمحاملی ثقة ورع مات ۲۵۲ ع؛
محمد بن موسی، حافظ (جسے ایک لاکھ احادیث حفظ ہوں)، ثقہ اور پرہیزگار تھے۔
ابن حجر ان کے بارے میں کہتے ہیں:
محمد بن المثنی بن عبید العنزی بفتح النون والزای ابو موسی البصری المعروف بالزمن مشهور بکنیته وباسمه ثقة ثبت من العاشرة وکان هو وبندار فرسی رهان وماتا فی سنة واحدة ع؛
محمد بن المثنی، ثقہ اور ٹھوس رائے رکھنے والے تھے ۔
بخاری، مسلم اور دیگر صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں؛ ذہبی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
یحیی بن حماد الشیبانی مولاهم ختن ابی عوانة وراویته له عن عکرمة بن عمار وشعبة وعنه البخاری والدارمی والکدیمی ثقة متاله توفی ۲۱۵ خ م ت س ق؛ یحیی بن حماد از عکرمه بن عمار و شعبه روایت شنیده و بخاری، دارمی و کدیمی از او نقل کرده، مورد اعتماد و خدا شناس بود۔
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:
یحیی بن حماد بن ابی زیاد الشیبانی مولاهم البصری ختن ابی عوانة ثقة عابد من صغار التاسعة مات سنة خمس عشرة خ م خد ت س ق؛
یحیی بن حماد، قابل اعتماد اور عابد تھے۔
بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے راویوں میں سے ہیں؛ ذہبی نے انہیں «
ثقه» اور «متقن» قرار دیا ہے:
وضاح بن عبد الله الحافظ ابو عوانة الیشکری مولی یزید بن عطاء سمع قتادة وابن المنکدر وعنه عفان وقتیبة ولوین ثقة متقن لکتابه توفی ۱۷۶ ع۔
ابن حجر یہ بھی لکھتے ہیں:
وضاح بتشدید المعجمة ثم مهملة الیشکری بالمعجمة الواسطی البزاز ابو عوانة مشهور بکنیته ثقة ثبت من السابعة مات سنة خمس او ست وسبعین ع؛
وضاح ثقہ، ثابت الرأی اور راویوں کے ساتویں طبقہ سے تھے۔
مزی ،
تهذیب الکمال میں لکھتے ہیں:
ابو بلج الفزاری الواسطی، ویُقال: الکوفی، وهو الکبیر، اسمه: یحیی بن سلیم بن بلج...
قال اسحاق بن منصور، عن یحیی بن مَعِین: ثقة. وکذلک قال محمد بن سعد، والنَّسَائی، والدار قطنی. وقَال البُخارِیُّ: فیه نظر. وَقَال ابو حاتم: صالح الحدیث، لا باس به.
ابو بلج فزاری کے بارے میں اسحاق بن منصور نے یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ ہے، اسی طرح محمد بن سعد، نسائی اور دار قطنی نے اس کی توثیق کی ہے۔ بخاری نے کہا ہے: اس میں اشکال ہے، ابو حاتم نے کہا ہے: اس کی حدیث صالح ہے اور اس میں اشکال نہیں ہے۔
ذهبی نے کتاب
الکاشف میں اس کے بارے میں لکھا ہے:
ابو بلج الفزاری یحیی بن سلیم او بن ابی سلیم عن ابیه وعمرو بن میمون الاودی وعنه شعبة وهشیم وثقه بن معین والدارقطنی وقال ابو حاتم: لا باس به وقال البخاری فیه نظر؛
یحییٰ بن سلیم، یحیی بن معین اور دارقطنی نے اس کی توثیق کی ہے، ابوحاتم نے کہا ہے: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور بخاری نے کہا ہے کہ اس میں اشکال ہے۔
اور ابن حجر نے
لسان المیزان میں لکھا ہے:
یحیی بن سلیم ان ابو بلج الفزاری عن عمرو بن میمون وعنه شعبة وهشیم وثقه بن معین والنسائی والدارقطنی؛
یحیی بن معین، نسائی اور دارقطنی نے ان کی توثیق کی ہے۔
تقریب التهذیب میں انہیں صدوق قرار دیا گیا ہے؛ تاہم کہا ہے کہ بعض اوقات اشتباہ کرتا تھا:
ابو بلج بفتح اوله وسکون اللام بعدها جیم الفزاری الکوفی ثم الواسطی الکبیر اسمه یحیی بن سلیم او بن ابی سلیم او بن ابی الاسود صدوق ربما اخطا من الخامسة؛
ابو بلج، بہت سچا آدمی ہے؛ مگر کبھی اشتباہ کرتا ہے۔
بخاری، مسلم اور دیگر صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہے:
عمرو بن میمون الاودی عن عمر ومعاذ وعنه زیاد بن علاقة وابو اسحاق وابن سوقة کثیر الحج والعبادة وهو راجم القردة مات ۷۴ ع؛
عمرو بن میمیون، کثیر الحج تھا، یہ وہی ہے جس نے میمون کو
سنگسار کیا۔
عمرو بن میمون الاودی ابو عبد الله ویقال ابو یحیی مخضرم مشهور ثقة عابد نزل الکوفة مات سنة اربع وسبعین وقیل بعدها ع؛
عمرو بن میمون که جسے ابویحییٰ کہا جاتا ہے، مخضرم (جس نے جاہلیت و اسلام کو درک کیا)، مشہور، لائق اعتماد اور عابد تھے۔
ابن عباس بھی پیغمبرؐ کے مشہور صحابی ہیں۔
جب کوئی شیعہ روایتِ منزلت سے استدلال کرتا ہے تو اہل سنت اشکال کرتے ہیں کہ ہارون حضرت موسیٰ کے بعد خلیفہ نہیں ہیں؛ پس علیؑ بھی خلیفہ نہیں ہے!
اس کے جواب میں کہنا چاہئیے: ہاں، رسول خداؐ بھی قطعا جانتے تھے، ہارون موسیٰ کے بعد زندہ اور ان کے بعد خلیفہ نہیں تھے، اس لیے اس روایت میں تصریح کی ہے کہ امیر المومنینؑ حضرت ہارونؑ کے تمام مقامات رکھتے ہیں؛ سوائے یہ کہ ہارون و امیر المومنینؑ میں دو فرق موجود ہیں:
الف: امیر المومنینؑ، پیغمبرؐ نہیں ہیں اور ہارون پیغمبر ہیں؛
ب: ہارون، موسیٰ سے پہلے انتقال کر گئے اور خلیفہ نہ ہوئے؛ تاہم امیر المومنینؑ پیغمبر کے بعد زندہ رہے اور حضرتؑ کے جانشین ہیں۔
اس بنا پر اشکال جملہ «وَاَنْتَ خَلِیفَتِی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِی» کے ساتھ آسانی سے برطرف ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی تردید نہیں ہے کہ رسول خداؐ تمام مومنین بلکہ تمام بشریت پر مطلق ولایت کے حامل ہیں اور حضرت مسلمانوں کے تمام امور میں خود ان کی نسبت سے اولی بالتصرف ہیں، حضرتؑ کی مطلق اور بلا چون و چرا اطاعت واجب ہے اور آپ کی مخالفت مطلق حرام ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے
سورہ احزاب کی چھٹی آیت میں اسی مطلب کو واضح انداز سے ثابت فرما دیا ہے:
«النَّبِیُّ اَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ اَنْفُسِهِم؛
پیغمبر مومنین کی نسبت خود ان کی جانوں سے زیادہ سزاوار ہیں۔
اس بنا پر رسول خداؐ کی تمام انسانوں پر مطلق ولایت میں کوئی تردید نہیں ہے۔ رسول خداؐ نے یہی مطلق ولایت امیر المومنینؑ کیلئے ثابت کی ہے جیسا کہ علمائے اہل سنت سے منقول صحیح السند روایت میں یہی مطلب موجود ہے۔
ابونعیم اصفہانی کتاب
معرفة الصحابة میں
وهب بن حمزه کے بارے میں لکھتے ہیں:
"(۶۰۰۷) ۶۵۴۱ حَدَّثَنَا سُلَیْمَانُ بْنُ اَحْمَدَ، ثنا اَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو الْبَزَّارُ، وَاَحْمَدُ بْنُ یَحْیَی بْنِ زُهَیْرٍ، قَالا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ کَرَامَةَ، ثنا عُبَیْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَی، ثنا یُوسُفُ بْنُ صُهَیْبٍ، عَنْ رُکَیْنٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ جَمْرَةَ (حمزة) قَالَ: صَحِبْتُ عَلِیًّا مِنَ الْمَدِینَةِ اِلَی مَکَّةَ، فَرَاَیْتُ مِنْهُ بَعْضَ مَا اَکْرَهُ، فَقُلْتُ: لَئِنْ رَجَعْتُ اِلَی رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) لاَشْکُوَنَّکَ اِلَیْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ لَقِیتُ رَسُولَ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فَقُلْتُ: رَاَیْتُ مِنْ عَلِیٍّ کَذَا وَکَذَا، فَقَالَ:
«لا تَقُلْ هَذَا، فَهُوَ اَوْلَی النَّاسِ بِکُمْ بَعْدِی»".
اس روایت کی سند بلا تردید مکمل طور پر صحیح ہے اور اس کے تمام راوی اہل سنت کے بڑے علما میں سے ہیں؛ لہٰذا اس پر کوئی اشکال و اعتراض وارد نہیں ہے اور روایت اہل سنت کے نقطہ نظر کے مطابق
حجت ہے۔
ابو نعیم. احمد بن عبد الله بن احمد بن اسحاق بن موسی بن مهران. الامام الحافظ الثقة العلامة شیخ الاسلام ابو نعیم المهرانی الاصبهانی الصوفی الاحول سبط الزاهد محمد بن یوسف البناء وصاحب الحلیة.
وکان حافظا مبرزا عالی الاسناد تفرد فی الدنیا بشیء کثیر من العوالی وهاجر الی لقیه الحفاظ. قال ابو محمد السمرقندی سمعت ابا بکر الخطیب یقول لم ار احد اطلق علیه اسم الحفظ غیر رجلین ابو نعیم الاصبهانی وابو حازم العبدویی.
ذهبی کتاب
العبر میں ان کے بارے میں کہتے ہیں:
وفیها الطبرانی الحافظ العلم مسند العصر ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب اللخمی فی ذی القعدة باصبهان وله مائة سنة وعشرة اشهر.
وکان ثقة صدوقا واسع الحفظ بصیرا بالعلل والرجال والابواب کثیر التصانیف...
اور
تذکرة الحفاظ میں لکھتے ہیں:
الطبرانی الحافظ الامام العلامة الحجة بقیة الحفاظ ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر اللخمی الشامی الطبرانی مسند الدنیا ولد سنة ستین ومائتین وسمع فی سنة ثلاث وسبعین. وصنف اشیاء کثیرة وکان من فرسان هذا الشان مع الصدق والامانة.
طبرانی، حافظ، پیشوا، علامہ، حجت (جسے تیس ہزار احادیث حفظ ہوں) انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں اور علم حدیث کے ایک شہسوار تھے؛ اس کے علاوہ صادق و امین بھی تھے۔
بزار، مشہور مسند کے مصنف، تعریف و تمجید سے بے نیاز اور اہل سنت کی تاریخ کے بڑے علما میں سے ہیں، ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
البزار. الشیخ الامام الحافظ الکبیر ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق البصری البزار صاحب المسند الکبیر...؛
بزار، شیخ، پیشوا، بڑے حافظ اور مسند کبیر کے مؤلف تھے..
اور اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
البزار الحافظ العلامة ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق البصری.
سیوطی بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
۶۵۱ البزار الحافظ العلامة الشهیر ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق البصری صاحب المسند الکبیر المعلل؛
بزار، حافظ ، مشہور علامہ اور کتاب مسند کبیر کے مؤلف تھے۔
درحقیقت یہ روایت دو اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے، ایک بزار کے طریق سے اور دوسرے
احمد بن زهیر تستری کے طریق سے؛ اگرچہ احمد بن بزار کی وثاقت کا اثبات روایت کی صحت کے اثبات کیلئے کافی ہے؛ تاہم اس کے باوجود ہم احمد بن زھیر تستری کی صورتحال کا بھی جائزہ لیں گے۔
ذھبی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
التستری الحافظ الحجة العلامة الزاهد ابو جعفر احمد بن یحیی بن زهیر احد الاعلام... قال الحافظ ابو عبد الله بن منده ما رایت فی الدنیا احفظ من ابی جعفر التستری؛
تستری، حافظ، حجت (جسے تیس ہزار احادیث حفظ ہوں) علامہ، پرہیزگار اور مشاہیر میں سے ایک تھے۔
عبد الله بن منده نے کہا ہے: میں نے حافظے کے اعتبار سے دنیا بھر میں کسی کو ابو جعفر تستری سے زیادہ قوی نہیں دیکھا ہے۔
سیوطی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
التستری الحافظ الحجة العلامة الزاهد ابو جعفر احمد بن یحیی بن زهیر احد الاعلام مکثر جود وصنف وقوی وضعف وبرع فی هذا الشان حدث عنه ابن حبان والطبرانی. قال ابو عبد الله بن منده ما رایت فی الدنیا احفظ من ابی اسحاق بن حمزة وسمعته یقول ما رایت فی الدنیا احفظ من ابی جعفر التستری؛
تستری، حافظ، حجت، علامہ و زاہد اور ایک مشہور شخصیت ہیں کہ جنہوں نے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ وہ بہت محنتی تھے۔ انہوں نے کتاب لکھی کہ جس میں روایت کی قوت و ضعف کے بارے میں اپنی آرا بیان کیں اور پرہیزگار تھے۔
بخاری اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے راویوں میں سے ہیں؛ مزی نے تھذیب الکمال میں ان کے بارے میں لکھا ہے:
رَوَی عَنه: البخاری، وابو داود، والتِّرْمِذِیّ، وابن ماجة... وابو حاتم الرازی، وَقَال: صدوق. وَقَال ابو العباس بن عقدة: سمعت محمد بن عَبد الله بن سُلَیْمان، وداود بن یحیی یقولان: کان صدوقا.
وَقَال ابو محمد عَبد الله بن علی بن الجارود: ذکرته لمحمد بن یحیی فاحسن القول فیه. وذکره ابنُ حِبَّان فی کتاب الثقات.
ذهبی نے
الکاشف میں لکھا ہے:
محمد بن عثمان بن کرامة العجلی مولاهم عن ابی اسامة وطبقته وعنه البخاری وابو داود والترمذی وابن ماجة وابن صاعد والمحاملی وابن مخلد صاحب حدیث صدوق مات ۲۵۶ فی رجب خ د ت ق؛
محمد بن عثمان بن کرامه، نے ابو اسامہ اور ان کے ہم طبقہ افراد سے روایات نقل کی ہیں، وہ حدیث کے حامل اور بہت ہی سچے تھے۔
اور
سیر اعلام النبلاء میں انہیں «امام، محدث اور ثقہ» کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے:
ابن کرامة خ د ت ق. الامام المحدث الثقة ابو جعفر محمد بن عثمان بن کرامة..
ابن حجر عسقلانی نے بھی انہیں ثقہ قرار دیا ہے:
محمد بن عثمان بن کرامة بفتح الکاف وتخفیف الراء الکوفی ثقة من الحادیة عشرة مات سنة ست وخمسین خ د ت ق۔
اگلے راوی عبید الله بن موسی ہیں کہ جن سے صحیح بخاری، مسلم اور باقی صحاح ستہ میں روایات ہیں۔ مزی
تهذیب الکمال میں لکھتے ہیں:
وَقَال ابو بکر بن اَبی خیثمة، عن یحیی بن مَعِین: ثقة. وَقَال معاویة بن صالح: سالت یحیی بن مَعِین عنه، فقال: اکتب عنه فقد کتبنا عنه. وَقَال ابو حاتم: صدوق، ثقة، حسن الحدیث، وابو نعیم اتقن منه، وعُبَید الله اثبتهم فی اسرائیل، کان اسرائیل یاتیه فیقرا علیه القرآن. وَقَال احمد بن عَبد الله العجلی: ثقة، وکان عالما بالقرآن، راسا فیه.
ابن حجر ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
عبید الله بن موسی بن باذام العبسی الکوفی ابو محمد ثقة کان یتشیع من التاسعة قال ابو حاتم کان اثبت فی اسرائیل من ابی نعیم واستصغر فی سفیان الثوری مات سنة ثلاث عشرة علی الصحیح ع؛
عبید الله بن موسی، لائق اعتماد اور شیعہ کی طرف مائل تھا؛
ابوحاتم نے کہا ہے: روایت میں اسرائیل، ابونعیم سے زیادہ قوی تھا.
اور ذهبی الکاشف میں لکھتے ہیں:
عبید الله بن موسی ابو محمد العبسی الحافظ احد الاعلام علی تشیعه وبدعته سمع هشام بن عروة واسماعیل بن ابی خالد وابن جریج وعنه البخاری والدارمی وعبد والحارث بن محمد ثقة مات فی ذی القعدة سنة ۲۱۳ ع؛
وہ حفاظ و مشاھیر میں سے شمار ہوتے ہیں؛ شیعہ و بدعتی ہونے کے باوجود بخاری، دارمی و... نے ان سے روایات نقل کی ہیں، ثقہ تھے اور ذی القعد سنہ ۲۱۳ ھ میں انتقال کر گئے۔
مزی تهذیب الکمال میں لکھتے ہیں:
قال اسحاق بن منصور عن یحیی بن مَعِین، وابو داود: ثقة. وَقَال ابو حاتم: لا باس به. وَقَال النَّسَائی: لیس به باس. وذکره ابنُ حِبَّان فی کتاب"الثقات"؛ اسحاق بن منصور نے یحیی بن معین و ابوداود سےنقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ثقہ تھے۔ ابوحاتم اور نسائی نے کہا ہے: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ابن حبان نے بھی اس کا نام کتاب ثقات میں ذکر کیا ہے۔
ذہبی کہتے ہیں:
یوسف بن صهیب عن الشعبی وابن بریدة وعنه القطان وابو نعیم ثقة د ت س؛
یوسف بن صهیب نے شعبی و ابن بریده سے روایت نقل کی ہے اور ثقہ تھے۔
ابن حجر تقریب التهذیب میں لکھتے ہیں:
یوسف بن صهیب الکندی الکوفی ثقة من السادسة د ت س؛
یوسف بن صهیب ثقہ اور راویوں کے چھٹے طبقے سے تھے ۔
رکین بن ربیع ثقہ تابعی اور صحیح مسلم و باقی صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔ مزی تهذیب الکمال میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
قال عَبد الله بن احمد بن حنبل، عَن ابیه، وعثمان بن سَعِید الدارمی، عن یحیی بن مَعِین، والنَّسَائی: ثقة. وَقَال ابو حاتم: صالح.
روی له البخاری فی کتاب"الادب"والباقون.
عبد الله بن احمد بن حنبل ، اپنے والد اور عثمان الدارمی یحیی بن معین اور نسائی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ثقہ تھے۔
ابو حاتم نے کہا: صالح تھے۔
بخاری نے کتاب الادب میں ان کی روایت نقل کی ہے اور اسی طرح صحاح ستہ کے دیگر مؤلفین (منجملہ مسلم) نے ان سے روایت کی ہے۔
ذهبی الکاشف میں تصریح کرتے ہیں کہ
احمد بن حنبل نے ان کی توثیق کی ہے:
رکین بن الربیع بن عمیلة الفزاری عن ابیه وابن عمر وعنه حفیده الربیع بن سهل وشعبة ومعتمر وثقه احمد م ع۔
ابن حجر عسقلانی نے بھی انہیں «ثقه» قرار دیا ہے:
رکین بالتصغیر بن الربیع بن عمیلة بفتح المهملة الفزاری ابو الربیع الکوفی ثقة من الرابعة مات سنة احدی وثلاثین بخ م۔
اس روایت کے آخری راوی وهب بن حمزه ہیں جو
رسول خداؐ کے صحابی اور اس واقعے کے ناقل ہیں ۔
"النَّبِیُّ اَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ اَنْفُسِهِم" کی اہل سنت مفسرین کے نقطہ نظر سے تفسیر:
اس امر میں کوئی تردید نہیں ہے کہ رسول خداؐ تمام مومنین بلکہ تمام بشریت پر مطلق ولایت رکھتے ہیں اور آنحضرتؐ تمام امور میں مسلمانوں پر خود ان کی نسبت اولیٰ بالتصرف ہیں، حضرتؐ کی مطلق اور بلا چون و چرا اطاعت واجب اور آپؐ کی مخالفت مطلقا حرام ہے؛ چنانچہ خدا نے سورہ احزاب کی چھٹی آیت اسی مطلب کو وضاحت سے بیان کیا ہے۔
«النَّبِیُّ اَوْلی بِالْمُؤْمِنینَ مِنْ اَنْفُسِهِم؛
نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے!
اس بنا پر رسول خداؐ کی تمام انسانوں پر ولایت مطلق بلاتردید ہے۔ رسول خداؐ نے یہی ولایت امیر المومنینؑ کیلئے صحیح السند روایت کے مطابق کہ جسے علمائے اہل سنت نے نقل کیا ہے۔ ثابت کی ہے۔
اولویت کا اس آیت مین معنی یہ ہے کہ رسول خداؐ جو تصرف چاہیں اور جس تدبیر کو مصلحت سمجھیں، اسے مسلمانوں کے حق میں انجام دے سکتے ہیں اور مسلمانوں کی ایک ذمہ داری ہے کہ تمام امور میں ان کی اطاعت کریں؛ چنانچہ اہل سنت کے بڑے مفسرین نے اس آیت سے اسی مطلب کا استنباط کیا ہے کہ جن میں سے افراد کے ہم نام ذکر کریں گے:
طبری (متوفی ۳۱۰ہجری)، اہل سنت کے مشہور اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
النبی اولی بالمؤمنین... یقول تعالی ذکره النبیُ محمدٌ اولی بالمؤمنینَ یقول: احق بالمؤمنین به من انفسهم ان یَحْکُم فیهم بما یشاء من حکمٍ فیجوز ذلک علیهم.
کما حدثنی یونس قال اخبرنا بن وهب قال قال بن زید النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم کما انت اولی بعبدک ما قضی فیهم من امرٍ جازَ کما کلما قضیتَ علی عبدک جاز.
اس آیت: النبی اولی بالمؤمنین... کی رو سے خدا نے پیغمبرؐ کو مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ سزاوار قرار دیا ہے اور انہیں شائستہ تر قرار دیتا ہے تاکہ جو کچھ ضروری سمجھتے ہیں ان کے حق میں انجام دیں۔
ابن کثیر دمشقی (متوفی۷۷۴ہجری) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
النبی اولی بالمؤمنین... قد علم تعالی شفقة رسوله صلی الله علیه وسلم علی امته ونصحه لهم فجعله اولی بهم من انفسهم وحکمه فیهم کان مقدَّما علی اختیارهم لانفسهم کما قال تعالی «فَلا وَرَبِّکَ لا یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فیما شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لا یَجِدُوا فی اَنْفُسِهِمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ ویُسَلِّمُوا تَسْلیماً».
ظهیر الدین بغوی (متوفی۵۱۶ہجری) کہ جنہیں «محیی السنة» کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
قوله (عزّوجلّ) «النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم» یعنی من بعضهم ببعض فی نفوذ حکمه فیهم ووجوب طاعته علیهم وقال ابن عباس وعطاء یعنی اذا دعاهم النبی صلی الله علیه وسلم ودَعَتْهم انفسُهم الی شیءٍ کانت طاعةُ النبی صلی الله علیه وسلم اولی بهم من انفسهم قال ابن زید «النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم» فیما قضی فیهم کما انت اولی بعبدک فیما قضیت علیه. وقیل هو اولی بهم فی الحمل علی الجهاد وبذل النفس دونه.
قاضی عیاض (متوفی ۵۴۴ہجری)؛ مشہور کتاب الشفاء میں «اولی بالمؤمنین» کی اس طرح تفسیر کرتے ہیں:
قال اهل التفسیر: اولی بالمؤمنین من انفسهم: ای ما انفذه فیهم من امرٍ فهو ماضٍ علیهم کما یمضی حکمُ السید علی عبده؛
اہل تفسیر کا کہنا ہے: اولی بالمؤمنین من انفسهم: یعنی ان پر جو امر نافذ فرمائیں، وہ ان پر لاگو ہو جائے گا جیسے آقا کا اپنے غلام پر حکم نافذ ہو جاتا ہے۔
عبد الرحمن بن جوزی (متوفی ۵۹۷ ہجری)؛ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
قوله تعالی «النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم» ای احق فله ان یحکم فیهم بما یشاء قال ابن عباس اذا دعاهم الی شئ ودعتهم انفسهم الی شئ کانت طاعته اولی من طاعة انفسهم وهذا صحیح فان انفسهم تدعوهم الی ما فیه هلاکَهم والرسولُ یدعوهم الی ما فیه نجاتَهم.
ابوالقاسم زمخشری (متوفی ۵۳۸ہجری)؛ اہل سنت کے کے معروف ادیب و مفسر، آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
«النَّبِیُّ اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ (فی کل شیء من امور الدین والدنیا) منْ اَنفُسِهِمْ» ولهذا اطلق ولم یقید، فیجب علیهم ان یکون احبّ الیهم من انفسهم، وحکمه انفذ علیهم من حکمها، وحقه آثَرَ لدیهم من حقوقها، وشفقتهم علیه اقدم من شفقتهم علیها، وان یبدلوها دونه ویجعلوها فداءه اذا اعضل خطب، ووقاءه اذا لقحت حرب، وان لا یتبعوا ما تدعوهم الیه نفوسهم ولا ما تصرفهم عنه، ویتبعوا کل ما دعاهم الیه رسول الله صلی الله علیه وسلم وصرفهم عنه، لانّ کل ما دعا الیه فهو ارشادٌ لهم الی نیلِ النجاةِ والظفرُ بسعادةِ الدارین وما صَرَفَهم عنه، فاخذ بحجزهم لئلا یتهافتوا فیما یرمی بهم الی الشقاوة وعذاب النار.
ابو البرکات نسفی (متوفی ۷۱۰ہجری)؛ کہتے ہیں:
«النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم» ای احق بهم فی کل شیء من امور الدین والدنیا وحکمه انفذ علیهم من حکمها فعلیهم ان یبذلوها دونه ویجعلوها فداءه؛
پیغمبرؐ مومنین پر ان کی اپنی جانوں کی نسبت اولیٰ ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ تمام دنیوی و اخروی امور میں ان پر فضیلت و برتری رکھتے ہیں اور آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا حکم و فیصلہ پوری قوت سے نافذ ہے،
پس مومنین پر واجب ہے کہ اپنی جانوں کو آپ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر فدا کر دیں۔
ابو حیان اندلسی (متوفی ۷۴۵ہجری)؛آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
«اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ: » ای فی کل شیء، ولم یقید. فیجب ان یکون احب الیهم من انفسهم، وحکمه انفذ علیهم من حکمها، وحقوقه آثَرَ، الی غیر ذلک مما یجب علیهم فی حقه؛
پیغمبرؐ مومنین پر تمام چیزوں میں بلا قید و شرط برتری رکھتے ہیں، پس واجب ہے کہ وہ ان کیلئے اپنی جانوں سے زیادہ محبوب ہوں؛ اور آپؐ کا حکم ان پر خود اپنے حکم سے زیادہ نافذ ہے؛ اور آپؐ کے حقوق زیادہ رجحان رکھتے ہیں، اس کے علاوہ دیگر امور جو ان پر آپؐ کے حق میں واجب ہیں۔
ابن قیم جوزی (متوفی ۷۵۱ہجری)، مشہور حنبلی ادیب، مفسر،
فقیہ، متکلم و
محدث ،
ابن تیمیہ کے شاگرد اور ان کے افکار کے مروج شمار ہوتے ہیں، کتاب
زاد المهاجر میں اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں:
وقال تعالی «النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم» وهو دلیلٌ علی ان من لم یکن الرسولُ اولی به من نفسه فلیس من المؤمنین وهذه الاولویة تتضمن امورا:
منها: ان یکون احبَّ الی العبدِ من نفسه لان الاولویة اصلها الحب ونفس العبدِ احبٌ له من غیره ومع هذا یجب ان یکون الرسولُ اولی به منها واحب الیه منها فبذلک یحصل له اسم الایمان.
ویلزم من هذه الاولویةِ والمحبةِ کمالَ الانقیادِ والطاعةِ والرضا والتسلیمِ وسائرَ لوازمِ المحبةِ من الرضا بحکمه والتسلیم لامره وایثاره علی ما سواه.
ومنها: ان لایکون للعبد حکمٌ علی نفسه اصلاً بل الحکمُ علی نفسِه للرسول صلی الله علیه وسلم یَحْکم علیها اعظم من حکمِ السیدِ علی عبدِه او الوالد علی ولده فلیس له فی نفسه تصرف قط الا ما تصرف فیه الرسول الذی هو اولی به منها...
ملا علی قاری هروی (متوفی ۱۰۱۴ہجری) المعروف قاری، کہتے ہیں :
«اولی بالمؤمنین من انفسهم» ای اولی فی کل شیء من امور الدین والدنیا، و لذا اطلق ولم یقید فیجب علیهم ان یکون احب الیهم من انفسهم وحکمه انفذ علیهم من حکمها، وحقه آثر لدیهم من حقوقها وشفقتهم علیه اقدم من شفقتهم علیها.
محمد بن علی شوکانی (متوفی ۱۲۵۰ہجری)، اس آیت کی درج ذیل تفسیر کرتے ہیں:
«النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم» ای هو احقٌ بهم فی کلِ امورِ الدین والدنیا واولی بهم من انفسهم فضلا عن ان یکون اولی بهم من غیرِهم فیجب علیهم ان یؤثروه بما اراده من اموالهم وان کانوا محتاجین الیها ویجب علیهم ان یحبوه زیادة علی حبهم انفسهم ویجب علیهم ان یقدموا حکمه علیهم علی حکمهم لانفسهم.
وبالجملة فاذا دعاهم النبی صلی الله علیه وسلم لشیء ودعتهم انفسهم الی غیره وجب علیهم ان یقدموا مادعاهم الیه ویؤخروا مادعتهم انفسهم الیه ویجب علیهم ان یطیعوه فوق طاعتهم لانفسهم ویقدموا طاعته علی ماتمیل الیه انفسهم وتطلبه خواطرهم.
حسن خان فتوحی (متوفی۱۳۰۷ہجری) کہتے ہیں:
قال تعالی «النبی اولی بالمؤمنین من انفسهم» فاذا دعاهم لشیء ودعتهم انفسهم الی غیره وجب علیهم ان یقدموا ما دعاهم الیه ویؤخروا ما دعتهم انفسهم الیه ویجب علیهم ان یطیعوه فوق طاعتهم لانفسهم ویقدموا طاعته علی ما تمیل الیه انفسهم وتطلبه خواطرهم۔
اہل سنت کے بڑے مفسرین کے مجموعی کلام سے اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ اولویت کا اس آیت میں معنی یہ ہے کہ رسول خدا کی اطاعت و پیروی تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور آنحضرتؐ تمام مسلمانوں کے امور میں تصرف کر سکتے ہیں اور ان کے امور کو چلانے میں خود ان سے زیادہ سزاوار ہیں۔
رسول خداؐ اسی مقام و منزلت کو روایت «فَهُوَ اَوْلَی النَّاسِ بِکُمْ بَعْدِی» کے ذریعے امیر المومنینؑ کیلئے ثابت کیا ہے؛ یعنی امیر المومنینؑ کی ولایت وہی رسول خداؐ والی ہے، جس طرح لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ رسول خداؐ کی بصورت مطلق اطاعت کریں، آنحضرتؐ سب پر مطلق ولایت رکھتے ہیں، وہی ولایت امیر المومنینؑ کیلئے بھی ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اَحْمَدَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِیُّ، ثنا اَبُو بَکْرِ بْنُ اَبِی شَیْبَةَ، ثنا اَحْمَدُ بْنُ مُفَضَّلٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ الاَحْمَرُ، عَنْ هِلالٍ اَبِی اَیُّوبَ الصَّیْرَفِیِّ، عَنْ اَبِی کَثِیرٍ الاَنْصَارِیِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ اَسْعَدَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): انْتَهَیْتُ لَیْلَةَ اُسْرِیَ بِی اِلَی السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَی، فَاُوحِیَ اِلَیَّ فِی عَلِیٍّ بِثَلاثٍ:
«اَنَّهُ اِمَامُ الْمُتَّقِینَ، وَسَیِّدُ الْمُسْلِمِینَ، وَقَائِدُ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِینَ اِلَی جَنَّاتِ النَّعِیمِ».
رَوَاهُ رَبَاحُ بْنُ خَالِدٍ، وَیَحْیَی بْنُ اَبِی کَثِیرٍ، عَنْ جَعْفَرٍ الاَحْمَرِ مِثْلَهُ، وَرَوَاهُ غَسَّانُ، عَنْ اِسْرَائِیلَ، عَنْ هِلالٍ الْوَزَّانِ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الاَنْصَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ اَسْعَدَ، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْحُسَیْنِ، عَنْ یَحْیَی بْنِ الْعَلاءِ، عَنْ هِلالٍ الْوَزَّانِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ اَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، عَنْ اَبِیهِ۔
یہ روایت علمائے اہل سنت کے نقطہ نظر سے صحیح ہے اور حجت ہے۔
۱۲۸۱ محمد بن محمد بن احمد ابو جعفر المقرئ سکن البصرة وحدث بها عن ابی شعیب الحرانی والحسن بن علی المعمری والحسین بن الکمیت الموصلی وخلف بن عمرو العکبری والاحوص بن المفضل الغلابی حدثنا عنه الحسین بن علی النیسابوری ومحمد بن علی بن حبیب المتوثی وعیسی بن غسان ثلاثتهم بالبصرة وابو نعیم الاصبهانی وکان ثقة۔
۶۸۲ مطین الحافظ الکبیر ابو جعفر محمد بن عبد الله بن سلیمان الحضرمی الکوفی رای ابا نعیم... وقد صنف المسند وغیر ذلک وله تاریخ صغیر قال ابو بکر بن ابی دارم الحافظ کتبت عن مطین مائة الف حدیث وسئل عنه الدارقطنی فقال ثقة جبل... وبکل حال فمطین ثقة مطلقا۔
۴۳۹ خ م د س ق ابو بکر بن ابی شیبة الحافظ عدیم النظیر الثبت النحریر عبد الله بن محمد بن ابی شیبة ابراهیم بن عثمان... وعنه ابو زرعة والبخاری ومسلم وابو داود وابن ماجة وابو بکر بن ابی عاصم وبقی بن مخلد والبغوی وجعفر الفریابی
قال احمد ابو بکر صدوق هو احب الی من اخیه عثمان وقال العجلی ثقة حافظ
وقال الفلاس ما رایت احفظ من ابی بکر بن ابی شیبة وکذا قال ابو زرعة الرازی
وقال الخطیب کان ابو بکر متقنا حافظا صنف المسند والاحکام والتفسیر۔
۱۲۱۰۶ احمد بن المفضل الکوفی ابو علی یروی عن اسباط بن محمد ووکیع روی عنه یعقوب بن سفیان واهل بلده وکان قدیم الموت۔
۸۸ احمد بن المفضل الکوفی عن الثوری واسرائیل وعنه الحنینی وابو زرعة وطائفة شیعی صدوق د س۔
ابوعلیّ الکوفیّ. عن: وکیع، واسیاط بن نصر. وعنه: یعقوب الفسویّ، واهل الکوفة.
قال ابن حبّان: ثقة، قدیم الموت.
۹۴۰ جعفر بن زیاد الاحمر الکوفی صدوق یتشیع من السابعة مات سنة سبع وستین ل ت س۔
۶۷ جعفر بن زیاد الاحمر ت س عن بیان بن بشر صدوق شیعی قال ابن حبان هزل عن الثقات باشیاء فی القلب منها وقواه غیره۔
۲۲۰ جعفر بن زیاد الاحمر کوفی ثقة۔
قال عَبد الله بن احمد بن حنبل، عَن ابیه: صالح الحدیث.
وَقَال عَباس الدُّورِیُّ وابو بکر بن اَبی خیثمة ومحمد بن عثمان بن اَبی شَیْبَة، عن یحیی بن مَعِین: ثقة، زاد محمد: وکان من الشیعة۔
۱۱۵۲۷ هلال الصیرفی ابو ایوب یروی عن ابی کثیر روی عنه جعفر الاحمر۔
۲۷۳۰ هلال بن ایوب الصیرفی ولیس بالوزان عن ابی کثیر روی عنه جعفر الاحمر۔
افلح مولی ابی ایوب، ابو کثیر الانصاری:
۵۴۹ افلح مولی ابی ایوب الانصاری ابو عبد الرحمن وقیل ابو کثیر مخضرم ثقة من الثانیة مات سنة ثلاث وستین م۔
پیغمبر اکرمؐ کے صحابی ہیں۔
منجملہ ایک روایت جس سے امیر المومنینؑ کی مطلق ولایت اور بلا فصل جانشینی ثابت ہوتی ہے، وہ روایتِ «ولایت» کے عنوان سے مشہور حدیث «علی ولی کل مؤمن بعدی» ہے۔
یہ روایت مختلف عبارات منجملہ: «علی ولی کل مؤمن بعدی»؛ «هو ولی کل مؤمن من بعدی»؛ «انت ولی کل مؤمن بعدی»؛ «انت ولی کل مؤمن بعدی و مؤمنة»؛ «فانه ولیکم بعدی»؛ «ان علیاً ولیکم بعدی»؛ «انک ولی المؤمنین من بعدی»؛ «انه لا ینبغی ان اذهب الا وانت خلیفتی فی کل مؤمن من بعدی»؛ و.... نقل ہوئی ہیں اور اس کی چند صحیح اسناد ہیں؛ بزرگ علما جیسے
حاکم نیشاپوری،
شمسالدین ذهبی،
علی بن ابوبکر هیثمی اور حتی
محمدناصر البانی نے انہیں صحیح قرار دیا ہے؛ مگر افسوس
ابن تیمیه حرانی اور اس کے ہم فکر اشخاص نے اس روایت کو اپنے مذہب سے متضاد قرار دیا اور اس روایت کے صدور کو
کذب قرار دیا ہے:
قوله «هو ولی کل مؤمن بعدی» کذب علی رسول الله صلی الله علیه وسلم؛
پیغمبر خداؐ کی یہ حدیث کہ فرمایا: «علی میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں» ایک جھوٹ ہے جسے رسول خداؐ سے منسوب کیا گیا ہے۔
ابوداؤد طیالسی اپنی
مسند میں لکھتے ہیں:
حَدَّثَنَا اَبُو عَوَانَةَ، عَنْ اَبِی بَلْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، اَنّ رَسُولَ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) قَالَ لِعَلِیٍّ:
«اَنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی».
ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول خداؐ نے علیؑ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
تو میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے!
بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے روات میں سے ہیں، ذہبی نے انہیں «ثقہ» و «متقن» قرار دیا ہے:
وضاح بن عبد الله الحافظ ابو عوانة الیشکری مولی یزید بن عطاء سمع قتادة وابن المنکدر وعنه عفان وقتیبة ولوین ثقة متقن لکتابه توفی ۱۷۶ ع۔
ابن حجر یہ بھی لکھتے ہیں:
وضاح بتشدید المعجمة ثم مهملة الیشکری بالمعجمة الواسطی البزاز ابو عوانة مشهور بکنیته ثقة ثبت من السابعة مات سنة خمس او ست وسبعین ع؛ وضاح، ثقہ، ثابت الرائے اور راویوں کے ساتویں طبقے میں سے تھے۔
مزی تهذیب الکمال میں لکھتے ہیں:
ابو بلج الفزاری الواسطی، ویُقال: الکوفی، وهو الکبیر، اسمه: یحیی بن سلیم بن بلج...
قال اسحاق بن منصور، عن یحیی بن مَعِین: ثقة. وکذلک قال محمد بن سعد، والنَّسَائی، والدار قطنی. وقَال البُخارِیُّ: فیه نظر. وَقَال ابو حاتم: صالح الحدیث، لا باس به.
ابو بلج فزاری کے بارے میں اسحاق بن منصور نے یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ ہے، اسی طرح محمد بن سعد، نسائی اور دار قطنی نے اس کی توثیق کی ہے۔ بخاری نے کہا ہے: اس میں اشکال ہے، ابو حاتم نے کہا ہے: اس کی حدیث صالح ہے اور خود اس میں اشکال نہیں ہے ۔
ذهبی، کتاب الکاشف میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
ابو بلج الفزاری یحیی بن سلیم او بن ابی سلیم عن ابیه وعمرو بن میمون الاودی وعنه شعبة وهشیم وثقه بن معین والدارقطنی وقال ابو حاتم لا باس به وقال البخاری فیه نظر ؛
یحیی بن سلیم، یحیی بن معین اور دار قطنی نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے، ابو حاتم نے کہا ہے: اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور بخاری نے کہا ہے: اس میں اشکال ہے۔
ابن حجر،
لسان المیزان میں کہتے ہیں:
یحیی بن سلیم ان ابو بلج الفزاری عن عمرو بن میمون وعنه شعبة وهشیم وثقه بن معین والنسائی والدارقطنی؛
یحییٰ بن معین، نسائی اور دارقطنی نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
تقریب التهذیب میں انہیں صدوق قرار دیا گیا ہے؛ تاہم کہا ہے کہ بعض اوقات اشتباہ کرتا تھا:
ابو بلج بفتح اوله وسکون اللام بعدها جیم الفزاری الکوفی ثم الواسطی الکبیر اسمه یحیی بن سلیم او بن ابی سلیم او بن ابی الاسود صدوق ربما اخطا من الخامسة؛
ابو بلج، بہت سچا ہے؛ مگر بعض اوقات اشتباہ کرتا ہے۔
بدیہی ہے کہ بخاری کا جملہ «فیه نظر» اہل سنت علمائے رجال کی توثیقات کے بعد، تضعیف شمار ہو اور روایت کی صحت کیلئے نقصان دہ ہو؛ کیونکہ
یحییٰ بن معین،
دار قطنی،
نسائی،
محمد بن سعد اور
ابن ابیحاتم نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے اور بخاری کی تضعیف ان علما کی توثیقات کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی؛ چنانچہ
بدرالدین عینی نے اس روایت کے بارے میں جو ابو المنیب عبید الله بن عبد الله سے نقل ہوئی ہے، کہتے ہیں:
فان قلت: فی اسناده ابو المنیب عبید الله بن عبد الله، وقد تکلم فیه البخاری وغیره. قلت: قال الحاکم: وثقه ابن معین، وقال ابن ابی حاتم: سمعت ابی یقول: هو صالح الحدیث، وانکر علی البخاری ادخاله فی الضعفاء، فهذا ابن معین امام هذا الشان وکفی به حجة فی توثیقه ایاه.
اگر تم کہو کہ اس کی سند میں ابو المنیب عبید الله بن عبد الله ہے کہ بخاری اور دوسروں نے اس پر اشکال کیا ہے، تو میں کہوں گا: حاکم نے کہا ہے کہ ابن معین نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے، ابو حاتم نے کہا ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا ہے جو کہتے تھے: وہ صالح الحدیث ہے؛ مگر بخاری نے انکار کیا ہے اور انہیں ضعفاء کے زمرے میں شامل کیا ہے؛ مگر یحیٰ بن معین
علم رجال کے پیشوا ہیں، روایت کی حجیت کیلئے یحییٰ بن معین کی جانب سے اس کی توثیق کافی ہے۔
وہ بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے راویوں میں سے ہیں:
عمرو بن میمون الاودی عن عمر ومعاذ وعنه زیاد بن علاقة وابو اسحاق وابن سوقة کثیر الحج والعبادة وهو راجم القردة مات ۷۴ ع؛
عمرو بن میمیون، بکثرت
حج پر جاتے تھے اور اہل عبادت تھے؛ یہ وہی ہیں جنہوں نے میمون کو
سنگسار کیا تھا۔
عمرو بن میمون الاودی ابو عبد الله ویقال ابو یحیی مخضرم مشهور ثقة عابد نزل الکوفة مات سنة اربع وسبعین وقیل بعدها ع؛
عمرو بن میمون که جسے ابویحییٰ کہا جاتا ہے، مخضرم (جس نے جاہلیت و اسلام کو درک کیا)، مشہور، لائق اعتماد اور عابد تھے۔
ابن عباس مشہور صحابی ہیں۔
روایت «اَنْتَ وَلِیِّی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی» حاکم نیشاپوری، شمسالدین ذهبی و علی بن ابی بکر هیثمی، محمد ناصر البانی اور... دیگر بزرگ علما کے نزدیک صحیح اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
مثلا یہی روایت
احمد بن حنبل اور حاکم نیشاپوری سے مفصل صورت میں نقل کیا ہے:
"حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا اَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا اَبُو بَلْجٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَیْمُونٍ، قَالَ: اِنِّی لَجَالِسٌ اِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، اِذْ اَتَاهُ تِسْعَةُ رَهْطٍ، فَقَالُوا: یَا اَبَا عَبَّاسٍ، اِمَّا اَنْ تَقُومَ مَعَنَا، وَاِمَّا اَنْ یُخْلُونَا هَؤُلَاءِ، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بَلْ اَقُومُ مَعَکُمْ، قَالَ: وَهُوَ یَوْمَئِذٍ صَحِیحٌ قَبْلَ اَنْ یَعْمَی، قَالَ: فَابْتَدَءُوا فَتَحَدَّثُوا، فَلَا نَدْرِی مَا قَالُوا، قَالَ: فَجَاءَ یَنْفُضُ ثَوْبَهُ، وَیَقُولُ: اُفْ وَتُفْ، وَقَعُوا فِی رَجُلٍ لَهُ عَشْرٌ، وَقَعُوا فِی رَجُلٍ، قَالَ لَهُ النَّبِیُّ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): "لَاَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا یُخْزِیهِ اللَّهُ اَبَدًا، یُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ "...
اِنَّهُ لَا یَنْبَغِی اَنْ اَذْهَبَ اِلَّا وَاَنْتَ خَلِیفَتِی ". قَالَ: وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: "اَنْتَ وَلِیِّی فِی کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی".
عمرو بن میمون کہتے ہیں: میں عبد اللہ بن عباس کے ساتھ بیٹھا تھا، اتنے میں نو گروہوں پر مشتمل افراد ان کے پاس آئے اور کہا: یا اٹھو ہمارے ساتھ چلو! یا پھر تم ابن عباس کے ساتھ تنہا چھوڑ دو۔ یہ اس وقت کا ماجرا ہے جب ابن عباس کی بینائی تھی اور ابھی نابینا نہیں ہوئے تھے۔ ابن عباس نے کہا: میں تمہارے ساتھ آتا ہوں، وہ ایک گوشے میں چلے گئے اور ابن عباس کے ساتھ بات چیت میں مشغول ہو گئے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ کچھ مدت کے بعد عبد اللہ بن عباس اپنے لباس کو جھاڑتے ہوئے آئے اور کہا: تم پر افسوس ہو، اس مرد کو گالی دے رہے ہو اور اس کی عیب جوئی کر رہے ہو کہ جس کے دس امتیازات ہیں:
ایک۔ رسول خداؐ نے فرمایا: میں اس مرد کو روانہ میدان کر رہا ہوں جو خدا و رسولؐ سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسولؐ باس سے محبت رکھتے ہیں؛ ہرگز خدا اسے خوار نہیں کرے گا۔۔۔ ۔
شائستہ نہیں ہے کہ میں چلا جاؤں؛ مگر یہ کہ تو میرا جانشین ہو۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خداؐ نے علیؑ سے فرمایا: تو میرے بعد ہر مومن پر ولی ہے۔
حاکم نیشاپوری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه بهذه السیاقة؛
اس روایت کی سند صحیح ہے؛ مگر بخاری متوفی ۲۵۶هـ اور مسلم نے اس صورت میں نقل کیا ہے۔
ذهبی نے بھی تلخیص المستدرک میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے: صحیح۔
ابن عبد البر قرطبی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: قال ابو عمر رحمه الله هذا اسناد لا مَطْعَنٌ فیه لاحد لصحته وثقة نَقَلَتِه....؛
ابو عمر (ابن عبد البر) نے کہا ہے: یہ وہ سند ہے کہ جس پر کوئی اشکال کا حق نہیں رکھتا؛ کیونکہ اس کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
ابوعیسی ترمذی نے اپنی سنن میں، احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ میں اور نسائی نے خصائص امیر المؤمنینؑ میں لکھا ہے:
"(۳۶۷۴) ۳۷۱۲ حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَیْمَانَ الضُّبَعِیُّ، عَنْ یَزِیدَ الرِّشْکِ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) جَیْشًا، وَاسْتَعْمَلَ عَلَیْهِمْ عَلِیَّ بْنَ اَبِی طَالِبٍ فَمَضَی فِی السَّرِیَّةِ، فَاَصَابَ جَارِیَةً، فَاَنْکَرُوا عَلَیْهِ، وَتَعَاقَدَ اَرْبَعَةٌ مِنْ اَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فَقَالُوا: اِذَا لَقِینَا رَسُولَ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) اَخْبَرْنَاهُ بِمَا صَنَعَ عَلِیٌّ، وَکَانَ الْمُسْلِمُونَ اِذَا رَجَعُوا مِنَ السَّفَرِ بَدَءُوا بِرَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فَسَلَّمُوا عَلَیْهِ، ثُمَّ انْصَرَفُوا اِلَی رِحَالِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَتِ السَّرِیَّةُ سَلَّمُوا عَلَی النَّبِیِّ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فَقَامَ اَحَدُ الْاَرْبَعَةِ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّهِ اَلَمْ تَرَ اِلَی عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ صَنَعَ کَذَا وَکَذَا، فَاَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) ثُمَّ قَامَ الثَّانِی فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَاَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الثَّالِثُ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِهِ، فَاَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ قَامَ الرَّابِعُ فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالُوا، فَاَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) وَالْغَضَبُ یُعْرَفُ فِی وَجْهِهِ فَقَالَ:
«مَا تُرِیدُونَ مِنْ عَلِیٍّ، مَا تُرِیدُونَ مِنْ عَلِیٍّ، مَا تُرِیدُونَ مِنْ عَلِیٍّ، اِنَّ عَلِیًّا مِنِّی وَاَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی»۔
متعدد علمائے اہل سنت نے اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے؛ منجملہ ذھبی نے
میزان الاعتدال میں لکھا ہے:
قال ابن عدی ادخله النسائی فی صحاحه؛
ابن عدی نے کہا ہے کہ نسائی اس روایت کو اپنی صحیح روایات کے زمرے میں وارد کیا ہے۔
اور تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں:
اخرجه النسائی، والترمذی وقال: حدیث حسن غریب. ورواه الامام احمد فی مسنده عن عبد الرزاق، وعفان عنه. واسناده علی شرط مسلم وانما لم یخرجه فی صحیحه لنکارته؛ ۔
ابن حجر عسقلانی تصریح کرتے ہیں کہ اس روایت کی سند «قوی» ہے۔
واخرج الترمذی باسناد قوی عن عمران بن حصین فی قصة قال فیها قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما تریدون من علی ان علیا منی وانا من علی وهو ولی کل مؤمن بعدی؛
ترمذی نے قوی سند کیساتھ عمران بن حصین سے ایک قصہ نقل کرنے کے ضمن میں لکھا ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: علیؑ سے کیا چاہتے ہو، بتحقیق علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں۔
جلال الدین سیوطی اور
علاء الدین هندی نے کہا ہے کہ ابن جریر طبری نے اسی روایت کو نقل اور پھر اس کو صحیح قرار دیا ہے:
(ش وابن جریر وصحَّحَهُ)؛ ابن ابیشیبہ اور ابن جریر نے بھی اسے نقل کیا ہے اور انہیں صحیح ثابت کیا ہے ۔
سیوطی نے ایک دوسرے مقام پر کتاب جامع الاحادیث میں صراحت سے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے:
عَلِیٌّ مِنی وَاَنَا مِنْ عَلِیَ، وَعَلِیٌّ وَلِیُّ کُل مُؤْمِنٍ بَعْدِی (ش) عن عمران بن حصین، صحیح؛
علیؑ مجھ سے اور میں علیؑ سے ہوں اور علیؑ میرے بعد ہر مومن کے ولی ہیں۔
یہ روایت ابن ابی شیبہ نے کتاب
المصنف میں نقل کی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
متقی هندی نے بھی
کنز العمال میں اسی بات کی تکرار کی ہے:
علی منی وانا من علی، وعلی ولی کل مؤمن بعدی. ش عن عمران بن حصین؛ صحیح۔
بخاری و مسلم کے راویوں میں سے ہیں؛ ذھبی اس بارے میں کہتے ہیں:
قتیبة بن سعید ابو رجاء البلخی عن مالک واللیث وعنه الجماعة سوی بن ماجة والفریابی والسراج مات عن اثنتین وتسعین سنة فی شعبان ۲۴ ع؛ قتیبة بن سعید؛
مالک و لیث سے اور ان سے ابن ماجہ کے سوا تمام صحاح ستہ نے روایات نقل کی ہیں۔
ابن حجر اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
قتیبة بن سعید بن جمیل بفتح الجیم بن طریف الثقفی ابو رجاء البغلانی بفتح الموحدة وسکون المعجمة یقال اسمه یحیی وقیل علی ثقة ثبت من العاشرة مات سنة اربعین عن تسعین سنة ع؛
قتیبة بن سعید، ثقہ و ثابت قدم تھے۔
مسلم اور دیگر صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں، ابن حجر نے ان کے بارے میں کہا ہے:
جعفر بن سلیمان الضبعی بضم المعجمة وفتح الموحدة ابو سلیمان البصری صدوق زاهد لکنه کان یتشیع من الثامنة مات سنة ثمان وسبعین بخ م ؛ جعفر بن سلیمان، بہت ہی صادق و زاهد تھے؛ مگر شیعیت کی طرف رجحان رکھتے تھے۔
اور ذهبی، تذکرة الحفاظ میں اس بارے میں لکھتے ہیں:
م ۴ جعفر بن سلیمان الامام ابو سلیمان الضبعی البصری من ثقات الشیعة وزهادهم حدث عن ثابت البنانی....؛
جعفر بن سلیمان، شیعہ کے ثقہ اور زاہد راویوں میں سے تھے۔
البانی انہیں ’’بخاری زمانہ‘‘ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں اور ان کی توثیق میں جعفر بن سلیمان لکھتے ہیں:
و کان جعفر بن سلیمان من الثقات المتقنین فی الروایات غیر انه کان ینتحل المیل الی اهل البیت ولم یکن بداعیة الی مذهبه ولیس بین اهل الحدیث من ائمتنا خلاف ان الصدوق المتقن اذا کان فیه بدعة ولم یکن یدعو الیها، ان الاحتجاج باخباره جائز.
جعفر بن سلیمان، لائق اعتماد راوی اور نقلِ روایت میں صائب ہیں؛ البتہ اہل بیتؑ کی طرف مائل تھے، مگر اپنے مذہب کی دعوت نہیں کرتے تھے اور ہمارے اہل حدیث پیشواؤں میں اس مطلب کے بارے میں کئئی اختلاف موجود نہیں ہے کہ اگر سچا اور مضبوط راوی اہل بدعت ہو مگر اپنے مذہب کی طرف دعوت نہ کرے تو اس کی احادیث سے استدلال صحیح و مجاز ہے۔
بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے راویوں میں سے ہیں، ذهبی اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
یزید الرشک هو بن ابی یزید الضبعی عن مطرف ومعاذة وعنه شعبة وابن علیة ثقة متعبد توفی ۱۳ ع؛
یزید الرشک، قابل اعتماد اور عابد تھے۔
مزی ان کے حوالے سے توثیقات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
روی له الجماعة؛ صحاح ستہ کے تمام مؤلفین نے ان سے روایت نقل کی ہے ۔
از روات بخاری، مسلم و سایر صحاح سته، ذهبی او را یکی از مشاهیر معرفی کرده است:
مطرف بن عبد الله بن الشخیر الحرشی العامری ابو عبد الله احد الاعلام عن ابیه وابی وعلی وعنه اخوه یزید وقتادة وابو التیاح مات ۹۵ ع۔
ابن حجر نے انہیں ثقہ، عابد اور فاضل قرار دیا ہے:
مطرف بن عبد الله بن الشخیر بکسر الشین المعجمة وتشدید المعجمة المکسورة بعدها تحتانیة ساکنة ثم راء العامری الحرشی بمهملتین مفتوحتین ثم معجمة ابو عبد الله البصری ثقة عابد فاضل من الثانیة مات سنة خمس وتسعین ع۔
رسول خداؐ کے صحابی تھے۔
ابن شاہین اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
تَفَرَّدَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ بِهَذِهِ الْفَضِیلَةِ، لَمْ یَشْرَکْهُ فِیهَا اَحَدٌ؛ علی بن ابی طالبؑ؛
علی بن ابی طالبؑ تن و تنہا اس فضیلت کے حامل ہیں اور کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے۔
اس بنا پر، روایت کی سند مکمل طور پر صحیح ہے اور اس کے تمام راوی یا بخاری کے راوی ہیں یا مسلم کے راوی ہیں۔
احمد بن حنبل، فضائل الصحابہ اور اپنی مسند میں لکھتے ہیں:
"(۲۲۴۰۹) ۲۵۰۲ حَدَّثَنَا ابنُ نُمَیْرٍ، حَدَّثَنِی اَجْلَحُ الْکِنْدِیُّ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَیْدَةَ، عَنْ اَبیهِ برَیْدَةَ، قَالَ: بعَثَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) بعْثَیْنِ اِلَی الْیَمَنِ، عَلَی اَحَدِهِمَا عَلِیُّ بنُ اَبی طَالِب، وَعَلَی الْآخَرِ خَالِدُ بنُ الْوَلِیدِ، فَقَالَ: " اِذَا الْتَقَیْتُمْ فَعَلِیٌّ عَلَی النَّاسِ، وَاِنْ افْتَرَقْتُمَا، فَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمَا عَلَی جُنْدِهِ "، قَالَ: فَلَقِینَا بنِی زَیْدٍ مِنْ اَهْلِ الْیَمَنِ، فَاقْتَتَلْنَا، فَظَهَرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ، فَقَتَلْنَا الْمُقَاتِلَةَ، وَسَبیْنَا الذُّرِّیَّةَ، فَاصْطَفَی عَلِیٌّ امْرَاَةً مِنَ السَّبیِ لِنَفْسِهِ، قَالَ برَیْدَةُ: فَکَتَب مَعِی خَالِدُ بنُ الْوَلِیدِ اِلَی رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) یُخْبرُهُ بذَلِکَ، فَلَمَّا اَتَیْتُ النَّبیَّ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) دَفَعْتُ الْکِتَاب، فَقُرِئَ عَلَیْهِ، فَرَاَیْتُ الْغَضَب فِی وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا مَکَانُ الْعَائِذِ، بعَثْتَنِی مَعَ رَجُلٍ وَاَمَرْتَنِی اَنْ اُطِیعَهُ، فَفَعَلْتُ مَا اُرْسِلْتُ بهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم): "لَا تَقَعْ فِی عَلِیٍّ، فَاِنَّهُ مِنِّی وَاَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِیُّکُمْ بعْدِی، وَاِنَّهُ مِنِّی وَاَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِیُّکُمْ بعْدِی".
بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتابوں کے راوی ہیں:
عبد الله بن نمیر الهمدانی ابو هشام عن هشام بن عروة والاعمش وعنه ابنه واحمد وابن معین حجة توفی ۱۹۹ ع؛
عبد الله بن نمیر، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین کے استاد اور حجت (جسے تیس ہزار احادیث حفظ ہوں) ہیں۔
اجلح بن عبد الله، اگرچہ کہا جاتا ہے کہ
شیعہ تھے؛ مگر نہ اس معنی میں کہ امیر المومنینؑ اور ان کے معصوم فرزندان کی ولایت کو قبول کرتے ہوں؛ بلکہ اس معنی میں کہا گیا کہ وہ ابوبکر و عمر کو برا بھلا کہتے تھے؛ اگرچہ یہ تہمت بھی بعض سنی علما سے ثابت نہیں ہوئی ہے؛ تاہم اس کے باوجود ان کی وثاقت و صداقت میں کوئی تردید نہیں ہے؛ چنانچہ ذھبی لکھتے ہیں:
اجلح بن عبد الله ابو حجیة الکندی عن الشعبی وعکرمة وعنه القطان وابن نمیر وخلق وثقه بن معین وغیره وضعفه النسائی وهو شیعی مع انه روی عنه شریک انه قال سمعنا انه ما سب ابا بکر وعمر احد الا افتقر او قتل مات ۱۴۵ ۴.
اجلح بن عبد الله کو یحییٰ معین اور دوسروں نے ثقہ قرار دیا ہے؛ مگر نسائی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور شیعہ تھا؛ مگر اس کے باوجود شریک نے اس سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتا تھا: ابوبکر و عمر کو کسی نے برا بھلا نہیں کہا مگر یہ کہ وہ فقیر ہوا یا قتل کر دیا گیا۔
ابن حجر عسقلانی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
اجلح بن عبد الله بن حجیة بالمهملة والجیم مصغر یکنی ابا حجیة الکندی یقال اسمه یحیی صدوق شیعی من السابعة مات سنة خمس واربعین بخ ۴؛
اجلح بن عبد الله سچا اور شیعہ تھا۔
مناوی فیض القدیر میں اپنے نانا سے اس روایت کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
قال جدنا للام، الزین العراقی: الاجلح الکندی وثقه الجمهور وباقیهم رجاله رجال الصحیح؛
میرے نانا زین العراقی نے کہا ہے کہ اجلح کندی کی اکثر علما نے توثیق کی ہے۔
ذهبی، الکاشف میں لکھتے ہیں:
عبد الله بن بریدة قاضی مرو وعالمها عن ابیه وعمران بن حصین وعائشة وعنه مالک بن مغول وحسین بن واقد وابو هلال ثقة ولد عام الیرموک وعاش مائة توفی ۱۱۵ ع؛
عبد الله بن بریده جو مرو کا قاضی اور وہاں کا عالم تھا، ثقہ ہے۔
اور ابن حجر کہتا ہے:
عبد الله بن بریدة بن الخصیب الاسلمی ابو سهل المروزی قاضیها ثقة من الثالثة مات سنة خمس ومائة وقیل بل خمس عشرة وله مائة سنة ع؛
عبد الله بن بریده، مرو کا رہنے والا اور وہاں قاضی تھا، ثقہ اور راویوں کے تیسرے طبقے سے تھا ۔
صحابی ہے۔
نتیجہ یہ کہ اس روایت کی سند بھی اشکال سے خالی ہے اور اہل سنت کے نقطہ نظر سے حجت ہے۔
ابوبکر العنبری اپنی مجلسان میں لکھتے ہیں:
(۱۴) ۱۴ حَدَّثَنَا زَکَرِیَّا بْنُ یَحْیَی السَّاجِیُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِیبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّازِقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ، اَنّ النَّبِیَّ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) قَالَ: " اَلَسْتُ اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ؟ " قَالُوا: بَلَی، قَالَ: " اَلَسْتُ اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ اَزْوَاجِهِمْ؟ " قَالُوا: بَلَی، قَالَ: " اَلَسْتُ اَوْلَی بِهِمْ مِنْ اَوْلادِهِمْ؟ " قَالُوا: بَلَی، قَالَ: " اَلَسْتُ اَلَسْتُ؟ " قَالُوا: بَلَی، قَالَ: " فَهَذَا وَلِیُّکُمْ مِنْ بَعْدِی، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ".
فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: یَهْنُکَ یَا ابْنَ اَبِی طَالِبٍ، اَصْبَحْتَ الْیَوْمَ وَلِیَّ کُلِّ مُسْلِمٍ.
اس روایت کی امیر المومنینؑ کی مطلق ولایت پر دلالت دیگر روایات سے زیادہ آشکار ہے؛ کیونکہ رسول خداؐ «فهذا ولیکم بعدی» کہنے سے پہلے مومنین کی جان، ناموس اور فرزندان کی نسبت اپنی اولویت کو ثابت کرتے ہیں اور اعتراف لیتے ہیں؛ پھر اسی اولویت کی امیر المومنینؑ کیلئے تاکید فرماتے ہیں؛ یعنی میرے بعد علی بن ابی طالبؑ بھی تمہاری جان، ناموس، اولاد و ۔۔۔ کی نسبت اولویت رکھتے ہیں؛ اسی طرح جیسے میں رکھتا ہوں۔
اس کے ضمن میں ابن عمر نے امیر المومنینؑ کو مبارکباد دی کہ آپ آج اس نئے منصب پر فائز ہوئے ہیں اور تمام مومنین کے ولی قرار پائے ہیں۔ اگر مقصود دوستی اور نصرت اور ۔۔۔ ہو تو مبارکباد کہنے کا کوئی معنی نہیں ہے؛ کیونکہ امیر المومنینؑ اس سے پہلے بھی لوگوں کے دوست اور ناصر تھے اور مومنین میں سے کسی کے ساتھ دشمنی نہیں رکھتے تھے؛ اس بنا پر اگر دوستی ۔۔۔ کا معنی ہو، تو کسی نئے منصب پر فائز نہیں ہوئے کہ ابن عمر مبارکباد دیں۔
ذهبی تاریخ الاسلام میں ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
زکریا بن یحیی... ابو یحیی الساجی البصری الحافظ. وکان من الثقات الائمة. سمع منه: الاشعری واخذ عنه مذهب اهل الحدیث. ولزکریا الساجی کتاب جلیل فی العلل یدل علی تبحره وامامته؛
زکریا بن یحییٰ ساجی، حافظ اور ثقہ امام ہیں۔ اشعری ان کے شاگرد تھے اور اہل حدیث کے مذہب کی ان سے تعلیم حاصل کی۔ ان کی کتاب علل (حدیث صحیح کی ضعیف سے شناخت) کے بارے میں ہے جو ان کی مہارت و امامت پر دلالت کرتی ہے۔
ابن حجر، تقریب التهذیب میں لکھتے ہیں:
زکریا بن یحیی الساجی البصری ثقة فقیه من الثانیة عشرة مات سنة سبع وثلاثمائة؛
زکریا بن یحییٰ، ثقہ اور فقیہ تھے۔
از روات صحیح مسلم، ذھبی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:
سلمة بن شبیب ابو عبد الرحمن النیسابوری الحافظ بمکة عن ابی اسامة ویزید وعبد الرزاق وعنه مسلم والاربعة والرویانی حجة مات ۲۴۷ م ؛
سلمۃ بن شبیب، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے راوی تھے؛ حافظ اور حجت تھے۔
ابن حجر لکھتے ہیں:
سلمة بن شبیب المسمعی النیسابوری نزیل مکة ثقة من کبار الحادیة عشرة مات سنة بضع واربعین م ؛
سلمۃ بن شبیب، مکہ کے مقیم ، قابل اعتماد اور راویوں کے گیارہویں طبقے سے تھے۔
بخاری، مسلم اور صحاح ستہ کی دیگر کتب کے راوی ہیں؛ ذهبی اس کے بارے میں کہتے ہیں:
عبد الرزاق بن همام بن نافع الحافظ ابو بکر الصنعانی احد الاعلام عن بن جریج ومعمر وثور وعنه احمد واسحاق والرمادی والدبری صنف التصانیف مات عن خمس وثمانین سنة فی ۲۱۱ ع؛
عبد الرزاق بن همام، حافظ اور مشاہیر میں سے ایک تھے۔
بخاری، مسلم اور صحاح ستہ، کے راوی ہیں؛ ذهبی ان کی ان الفاظ میں تعریف کرتے ہیں:
معمر بن راشد ابو عروة الازدی مولاهم عالم الیمن عن الزهری وهمام وعنه غندر وابن المبارک وعبد الرزاق قال معمر طلبت العلم سنة مات الحسن ولی اربع عشرة سنة وقال احمد لا تضم معمرا الی احد الا وجدته یتقدمه کان من اطلب اهل زمانه للعلم وقال عبد الرزاق سمعت منه عشرة آلاف توفی فی رمضان ۱۵۳ع۔
ابن حجر کہتے ہیں:
معمر بن راشد الازدی مولاهم ابو عروة البصری نزیل الیمن ثقة ثبت فاضل الا ان فی روایته عن ثابت والاعمش وهشام بن عروة شیئا وکذا فیما حدث به بالبصرة من کبار السابعة مات سنة اربع وخمسین وهو بن ثمان وخمسین سنة ع؛ معمر بن راشد، یمن میں سکونت پذیر، ثقہ، ثابت قدم اور فاضل تھے؛ البتہ ان کی ثابت ، اعمش اور ہشام سے روایت میں بہت سے اشکالات ہیں۔
مسلم و صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں۔ البتہ بعض نے شیعہ ہونے کی وجہ سے ان کی تضعیف کی ہے؛ مگر صحیح مسلم کا راوی ہونے کی وجہ سے ان کی تضعیف بے فائدہ ہے، اسی وجہ سے ذہبی نے ان کی تضعیفات کو غیر معتبر قرار دیا ہے اور ان کا نام کتاب «ذکر اسماء من تکلم فیه وهو موثق» میں نقل کیا ہے:
علی بن زید بن جدعان علی م مقرونا صویلح الحدیث قال احمد ویحیی لیس بشیء وقواه غیرهما۔
بخاری، مسلم اور دیگر صحاح ستہ کے راوی ہیں، ذهبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
عدی بن ثابت الانصاری عن ابیه والبراء وابن ابی اوفی وعنه شعبة ومسعر وخلق ثقة لکنه قاص الشیعة وامام مسجدهم بالکوفة توفی ۱۱۶ ع؛ عدی بن ثابت، ثقہ ہے؛ مگر شیعہ کا قصہ گو اور
کوفہ میں ان کی مسجد کا امام تھا۔
ابن حجر کہتے ہیں
عدی بن ثابت، کوفی و ثقہ ہے؛ مگر اس پر شیعہ ہونے کی تہمت ہے۔
عدی بن ثابت الانصاری الکوفی ثقة رمی بالتشیع من الرابعة مات سنة ست عشرة ع۔
پیغمبر اکرمؐ کے ایک صحابی ہیں
حدیث غدیر، شیعہ کی امیر المومنینؑ کی ولایت پر سب سے عمدہ دلیل ہے جو صحیح اسناد کے ساتھ اور متواتر صورت میں شیعہ و سنی طرق سے نقل ہوئی ہے۔
حدیث غدیر امیر المومنین کی ولایت پر شیعہ کی سب سے اعلیٰ دلیل ہے کہ صحیح اسناد اور متواتر صورت میں شیعہ و سنی طرق سے نقل ہوئی ہے اور بہت سے اہل سنت علما نے اس کے تواتر کو قبول کیا ہے کہ ہم ان میں سے چند کی طرف اشارہ کریں گے:
حدثنا محمد بن بَشَّارٍ حدثنا محمد بن جَعْفَرٍ حدثنا شُعْبَةُ عن سَلَمَةَ بن کُهَیْلٍ قَال سمعت اَبَا الطُّفَیْلِ یحدث عن ابی سَرِیحَةَ او زَیْدِ بن اَرْقَمَ شَکَّ شُعْبَةُ عن النبی صلی الله علیه وسلم قال: «من کنت مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ».
قال: ابو عِیسَی هذا حَدِیثٌ حَسَنٌ صحیح وقد رَوَی شُعْبَةُ هذا الحدیث عن مَیْمُونٍ ابی عبد اللَّهِ عن زَیْدِ بن اَرْقَمَ عن النبی صلی الله علیه وسلم وابو سَرِیحَةَ هو حُذَیْفَةُ بن اَسِیدٍ الْغِفَارِیُّ صَاحِبُ النبی۔
محمد ناصر البانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
اخرجه الترمذی وقال: «حدیث حسن صحیح».
قلت: واسناده صحیح علی شرط الشیخین۔
حدثنا عَلِیُّ بن مُحَمَّدٍ ثنا ابو مُعَاوِیَةَ ثنا مُوسَی بن مُسْلِمٍ عن بن سَابِطٍ وهو عبد الرحمن عن سَعْدِ بن ابی وَقَّاصٍ قال قَدِمَ مُعَاوِیَةُ فی بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ علیه سَعْدٌ فَذَکَرُوا عَلِیًّا فَنَالَ منه فَغَضِبَ سَعْدٌ وقال تَقُولُ هذا لِرَجُلٍ سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یقول من کنت مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ وَسَمِعْتُهُ یقول انت مِنِّی بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ من مُوسَی الا اَنَّهُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی وَسَمِعْتُهُ یقول لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَةَ الْیَوْمَ رَجُلًا یُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ۔
محمدناصر البانی نیز روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
اخرجه ابن ماجة (۱۲۱). قلت: واسناده صحیح۔
حدثنا عَلِیُّ بن مُحَمَّدٍ ثنا ابو الْحُسَیْنِ اخبرنی حَمَّادُ بن سَلَمَةَ عن عَلِیِّ بن زَیْدِ بن جُدْعَانَ عن عَدِیِّ بن ثَابِتٍ عن الْبَرَاءِ بن عَازِبٍ قال اَقْبَلْنَا مع رسول اللَّهِ صلی الله علیه وسلم فی حَجَّتِهِ التی حَجَّ فَنَزَلَ فی بَعْضِ الطَّرِیقِ فَاَمَرَ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ فقال اَلَسْتُ اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ من اَنْفُسِهِمْ قالوا بَلَی قال اَلَسْتُ اَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ من نَفْسِهِ قالوا بَلَی قال فَهَذَا وَلِیُّ من انا مَوْلَاهُ اللهم وَالِ من وَالَاهُ اللهم عَادِ من عَادَاهُ۔
البانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
صحیح۔
وقال اسحاق: اخبرنا ابو عامر العقدی، عن کثیر بن زید، عن محمد بن
[۳۷۲] بن علی عن ابیه، عن علی رضی الله عنه قال: ان النبی صلی الله علیه وسلم حضر الشجرة بخم، ثم خرج آخذا بید علی رضی الله عنه قال: «الستم تشهدون ان الله تبارک وتعالی ربکم؟ » قالوا: بلی. قال صلی الله علیه وسلم: «الستم تشهدون ان الله ورسوله اولی بکم من انفسکم وان الله تعالی ورسوله اولیاؤکم؟». فقالوا: بلی. قال: فمن کان الله ورسوله مولاه فان هذا مولاه، وقد ترکت فیکم ما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب الله تعالی، سببه بیدی، وسببه بایدیکم، واهل بیتی».
ابن حجر اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
(هذا اسناد صحیح)، وحدیث غدیر خم قد اخرج النسائیمن روایة ابی الطفیل عن زید بن ارقم، وعلی، وجماعة من الصحابة رضی الله عنهم، وفی هذا زیادة لیست هناک، واصل الحدیث اخرجه الترمذی ایضا۔
حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی ابی ثنا یحیی بن آدَمَ ثنا حَنَشُ بن الحرث بن لَقِیطٍ النخعی الاشجعی عن رِیَاحِ بن الحرث قال جاء رَهْطٌ الی عَلِیٍّ بِالرَّحْبَةِ فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَیْکَ یا مَوْلاَنَا قال کَیْفَ اَکُونُ مَوْلاَکُمْ وَاَنْتُمْ قَوْمٌ عَرَبٌ قالوا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یوم غد یرخم یقول من کنت مَوْلاَهُ فان هذا مَوْلاَهُ قال رِیَاحٌ فلما مَضَوْا تَبِعْتُهُمْ فَسَاَلْتُ من هَؤُلاَءِ قالوا نَفَرٌ مِنَ الاَنْصَارِ فِیهِمْ ابو اَیُّوبَ الانصاری.
نخعی از
ریاح بن حارث روایت کرده است که گروهی در
رحبه حضور مبارک حضرت علیؑ شرفیاب شدند، سلام بر آن حضرت کرده گفتند: «السّلام علیک یا مولانا» حضرت علیؑ نے ان سے پوچھا: میں کس طرح تمہارا مولا ہوں جبکہ تم عربوں کا گروہ ہو؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: کیونکہ ہم نے غدیر خم میں رسول خداؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا:«من کنت فانّ هذا مولاه»۔
البانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
اخرجه احمد و الطبرانی من طریق حنش بن الحارث بن لقیط النخعی الاشجعی عن ریاح بن الحارث.
قلت: وهذا اسناد جید رجاله ثقات. وقال الهیثمی: «رواه احمد والطبرانی، ورجال احمد ثقات»۔
حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی ابی ثنا حُسَیْنُ بن مُحَمَّدٍ وابو نُعَیْمٍ الْمَعْنَی قَالاَ ثنا فِطْرٌ عن ابی الطُّفَیْلِ قال جَمَعَ علی رضی الله عنه الناس فی الرَّحَبَةِ ثُمَّ قال لهم اَنْشُدُ اللَّهَ کُلَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ سمع رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یقول یوم غَدِیرِ خُمٍّ ما سمع لَمَّا قام فَقَامَ ثَلاَثُونَ مِنَ الناس وقال ابو نُعَیْمٍ فَقَامَ نَاسٌ کَثِیرٌ فَشَهِدُوا حین اَخَذَهُ بیده فقال لِلنَّاسِ اَتَعْلَمُونَ انی اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ من اَنْفُسِهِمْ قالوا نعم یا رَسُولَ اللَّهِ قال من کنت مَوْلاَهُ فَهَذَا مَوْلاَهُ اللهم وَالِ من وَالاَهُ وَعَادِ من عَادَاهُ قال فَخَرَجْتُ وَکَاَنَّ فی نفسی شَیْئاً فَلَقِیتُ زَیْدَ بن اَرْقَمَ فقلت له انی سمعت عَلِیًّا رضی الله عنه یقول کَذَا وَکَذَا قال فما تُنْکِرُ قد سمعت رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یقول ذلک له۔
البانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
اخرجه احمد (۴/ ۳۷۰) وابن حبان فی " صحیحه " (۲۲۰۵ - موارد الظمآن) وابن ابی عاصم (۱۳۶۷ و۱۳۶۸) والطبرانی (۴۹۶۸) والضیاء فی " المختارة " (رقم -۵۲۷ بتحقیقی).
قلت: واسناده صحیح علی شرط البخاری. وقال الهیثمی فی " المجمع " (۹/ ۱۰۴): " رواه احمد ورجاله رجال الصحیح غیر فطر بن خلیفة وهو ثقة "۔
حدثنا عبد اللَّهِ ثنا عَلِیُّ بن حَکِیمٍ الاودی اَنْبَاَنَا شَرِیکٌ عن ابی اِسْحَاقَ عن سَعِیدِ بن وَهْبٍ وَعَنْ زَیْدِ بن یُثَیْعٍ قَالاَ نَشَدَ عَلِیٌّ الناس فی الرَّحَبَةِ من سمع رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یقول یوم غَدِیرِ خُمٍّ الا قام قال فَقَامَ من قِبَلِ سَعِیدٍ سِتَّةٌ وَمِنْ قِبَلِ زَیْدٍ سِتَّةٌ فَشَهِدُوا انهم سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم یقول لعلی رضی الله عنه یوم غَدِیرِ خُمٍّ اَلَیْسَ الله اَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ قالوا بَلَی قال اللهم من کنت مَوْلاَهُ فعلی مَوْلاَهُ اللهم وَالِ من وَالاَهُ وَعَادِ من عَادَاهُ۔
محمد ناصر البانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:
و قد مضی فی الحدیث الرابع - الطریق الثانیة والثالثة. واسناده حسن، واخرجه البزار بنحوه واتم منه. وللحدیث طرق اخری کثیرة جمع طائفة کبیرة منها الهیثمی فی " المجمع " (۹/ ۱۰۳ - ۱۰۸).
و قد ذکرت وخرجت ما تیسر لی منها مما یقطع الواقف علیها بعد تحقیق الکلام علیاسانیدها بصحة الحدیث یقینا، والا فهی کثیرة جدا، وقد استوعبها ابن عقدة فی کتاب مفرد، قال الحافظ ابن حجر: منها صحاح ومنها حسان.
و جملة القول انحدیث الترجمة حدیث صحیح بشطریه، بل الاول منه متواتر عنه صلی الله علیه وسلمکما ظهر لمن تتبع اسانیده وطرقه، وما ذکرت منها کفایة۔
اخبرنا محمد بن المثنی قال حدثنی یحیی بن حماد قال حدثنا ابو عوانة عن سلیمان قال حدثنا حبیب بن ابی ثابت عن ابی الطفیل عن زید بن ارقم قال لما رجع رسول الله صلی الله علیه وسلم عن حجة الوداع ونزل غدیر خم امر بدوحات فقممن ثم قال کانی قد دعیت فاجبت وانی قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر کتاب الله وعترتی اهل بیتی فانظروا کیف تخلفونی فیهما فانهما لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ثم قال ان الله مولای وانا ولی کل مؤمن ثم اخذ بید علی فقال من کنت ولیه فهذا ولیه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه فقلت لزید سمعته من رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال ما کان فی الدوحات احد الا رآه بعینیه وسمعه باذنیه.
پھر علیؑ کا ہاتھ تھام کر فرمایا: «من کنت ولیّه فهذا ولیّه اللّهم وال من والاه وعاد من عاداه».
ابو طفیل کہتے ہیں کہ میں نے زید سے پوچھا: آیا تم نے رسول خداؐ سے یہ جملات سنے ہیں؟! زید نے جواب میں کہا: ہاں! تمام لوگ جو درختوں کے آس پاس تھے، انہوں نے حضرتؐ کو دیکھا ہے اور آپؐ کے کلام کو سنا ہے۔
حاکم نیشاپوری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه بطوله؛ یہ حدیث بخاری و مسلم کی صحتِ روایت کے حوالے سے شرائط کے مطابق صحیح ہے؛ مگر انہوں نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔
ابن کثیر دمشقی سلفی (متوفی۷۷۴ہجری) روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
قال شیخنا ابو عبدالله الذهبی وهذا حدیث صحیح؛ ہمارے استاد ابو عبد اللہ ذھبی نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
۸۳ اخبرنی زکریا بن یحیی قال حدثنا نصر بن علی قال اخبرنا عبدالله ابن داود عن عبد الواحد بن ایمن عن ابیه ان سعدا قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم من کنت مولاه فعلی مولاه.
سعد بن ابی وقاص نے کہا ہے کہ رسول خداؐ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، اس کا علیؑ مولا ہے۔
البانی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
الثانیة من طریق سعد بن ابی وقاص: عن عبد الواحد بن ایمن عن ابیه به. اخرجه النسائی فی " الخصائص " واسناده صحیح ایضا، رجاله ثقات رجال البخاری غیر ایمن والد عبد الواحد وهو ثقة کما فی " التقریب ".
دوسری روایت سعد بن ابی وقاص کی
عبدالواحد بن ایمن نے اپنے باپ سے نقل کی ہے۔ اس روایت کو نسائی نے خصائص میں نقل کیا ہے اور اس کی سند صحیح اور اس کے راوی صحیح بخاری والے ہیں؛ سوائے عبد الواحد کے باپ کے کہ وہ بھی قابل اعتماد ہے؛ چنانچہ ابن حجر کی تقریب التھذیب میں آیا ہے۔
اخبرنی محمد بن علی الشیبانی بالکوفة ثنا احمد بن حازم الغفاری ثنا ابو نعیم ثنا کامل ابو العلاء قال سمعت حبیب بن ابی ثابت یخبر عن یحیی بن جعدة عن زید بن ارقم رضی الله عنه قال خرجنا مع رسول الله صلی الله علیه وسلم حتی انتهینا الی غدیر خم فامر بدوح فکسح فی یوم ما اتی علینا یوم کان اشد حرا منه فحمد الله واثنی علیه وقال یا ایها الناس انه لم یبعث نبی قط الا ما عاش نصف ما عاش الذی کان قبله وانی اوشک ان ادعی فاجیب وانی تارک فیکم ما لن تضلوا بعده کتاب الله (عزّوجلّ) ثم قام فاخذ بید علی رضی الله عنه فقال یا ایها الناس من اولی بکم من انفسکم؟ قالوا الله ورسوله اعلم.
[۳۸۱] : الست اولی بکم من انفسکم؟ قالوا: بلی قال من کنت مولاه فعلی مولاه.
حاکم نیشاپوری روایت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه.
اور ذهبی نے بھی تلخیص المستدرک میں اس کی بات کی تائید کی ہے۔
حدثنا یوسف بن موسی قال نا عبید الله بن موسی عن فطر بن خلیفة عن ابی اسحاق عن عمرو ذی مر وعن سعید بن وهب وعن زید بن یثیع قالوا سمعنا علیا یقول نشدت الله رجلا سمع رسول الله صلی الله علیه وسلم یقول یوم غدیر خم لما قام فقام الیه ثلاثة عشر رجلا فشهدوا ان رسول الله صلی الله علیه وسلم قال الست اولی بالمؤمنین من انفسهم قالوا بلی یا رسول الله قال فاخذ بید علی فقال من کنت مولاه فهذا مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه واحب من احبه وابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله.
هیثمی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
رواه البزار ورجاله رجال الصحیح غیر فطر بن خلیفة وهو ثقة؛ اس روایت کو بزار نے نقل کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری والے ہیں، سوائے فطر بن خلیفہ کہ وہ بھی قابل اعتماد ہے۔
حدثنا هلال بن بشر قال نا محمد بن خالد بن عثمة قال نا موسی بن یعقوب قال نا مهاجر بن مسمار عن عائشة بنت سعد عن ابیها ان رسول الله اخذ بید علی فقال (الست اولی بالمؤمنین من انفسهم؟ من کنت ولیه فان علیا ولیه۔
ہیثمی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
رواه البزار ورجاله ثقات؛ اس روایت کو بزار نےنقل کیا ہے اور اس کے راوی موردِ اعتماد ہیں۔
حدثنا سلیمان بن عبید الله الغیلانی ثنا ابو عامر ثنا کثیر بن زید عن محمد بن عمر بن علی عن ابیه عن علی ان النبی صلی الله علیه وسلم قام بحفرة الشجرة بخم وهو آخذ بید علی فقال ایها الناس الستم تشهدون ان الله ربکم قالوا بلی قال الستم تشهدون ان الله ورسوله اولی بکم من انفسکم قالوا بلی وان الله ورسوله مولاکم قالوا بلی قال فمن کنت مولاه فان هذا مولاه.
البانی ذیل کی حدیث کے بارے میں کہتے ہیں:
حسن۔
۴۹۸۶ حدثنا عَلِیُّ بن عبد الْعَزِیزِ ثنا ابو نُعَیْمٍ ثنا کَامِلُ ابو الْعَلاءِ قال سمعت حَبِیبَ بن ابی ثَابِتٍ یحدث عن یحیی بن جَعْدَةَ عن زَیْدِ بن اَرْقَمَ قال خَرَجْنَا مع رسول اللَّهِ صلی اللَّهُ علیه وسلم حتی انْتَهَیْنَا الی غَدِیرِ خُمٍّ اَمَرَ بِدُوحٍ فَکُسِحَ فی یَوْمٍ ما اتی عَلَیْنَا یَوْمٌ کان اَشَدَّ حُرًّا منه فَحَمِدَ اللَّهَ وَاَثْنَی علیه وقال یا اَیُّهَا الناس انه لم یُبْعَثْ نَبِیٌّ قَطُّ اِلا عَاشَ نِصْفَ ما عَاشَ الذی کان قَبْلَهُ وَاِنِّی اُوشَکُ اَنْ اُدْعَی فَاُجِیبَ وَاِنِّی تَارِکٌ فِیکُمْ ما لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ کِتَابَ اللَّهِ ثُمَّ قام وَاَخَذَ بِیَدِ عَلِیٍّ رضی اللَّهُ عنه فقال یا اَیُّهَا الناس من اَوْلَی بِکُمْ من اَنْفُسِکُمْ قالوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ اَعْلَمُ قال من کنت مَوْلاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلاهُ.
یحییٰ بن جعدہ نے زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ رسول خداؐ کے ہمراہ ہم آگے بڑھ رہے تھے یہاں تک کہ غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ وہاں ایک درخت تھا کہ جس کی طرف رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے اشارہ کیا اور اصحاب اس درخت کے نیچے کی جگہ کو صاف ستھرا کر دیا اور اس دن موسم اتنا گرم تھا کہ ہم نے ایسا گرم دن نہیں دیکھا تھا۔
وہاں رسول خداؐ نے خطبہ دیا۔ حمد و ثنائے الہٰی کے بعد فرمایا: کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا مگر یہ کہ اپنے سے پہلے والے پیغمبرؐ کی نسبت آدھی زندگی بسر کرتا ہے؛ زیادہ دیر نہیں ہو گی کہ میں الہٰی دعوت کو قبول کر لوں گا اور دو بھاری (یا گراں بہا) چیزیں تمہارے درمیان چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر ان کی منشا کے مطابق چلو گے تو ہرگز گمراہی میں گرفتار نہیں ہو گے: ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری عترت ہے۔
پھر علیؑ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: اے لوگو! کون تمہارے جان و مال سے زیادہ تمہارے اوپر زیادہ سزاوار ہے؟! کہنے لگے: خدا و رسولؐ زیادہ بہتر جانتے ہیں؛ پھر فرمایا: من کنت مولاه فعلیّ مولاه جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔
البانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
اخرجه الطبرانی (۴۹۸۶) ورجاله ثقات؛ طبرانی نے اسے نقل کیا ہے اور اس کے راوی موردِ اعتماد ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
موسسه ولیعصر، ماخوذ از مقالہ " شیعہ و سنی کتب کی چالیس صحیح احادیث سے امامت کا اثبات "۔