محکم و متشابہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



قرآن کریم آیاتِ محکمات اور متشابہات پر مشتمل ہے۔ محکم سے مراد وہ کلام ہے جس کی دلالت واضح اور صریح ہو اور اس کے ظاہر سے متکلم کی مراد و مقصود کا علم حاصل ہو جاتا ہے۔ محکمات اصل و اساسِ قرآن کو تشکیل دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں متشابہ آتا ہے، متشابہ وہ کلام ہے جو مختلف معانی کا حامل ہوتا ہے اور اس سے مرادِ متکلم واضح و روشن نہیں ہوتی، مگر یہ کہ متشابہ کلام پر تحقیق و دقتِ نظر کی جائے اور اس کو محکمات کی طرف پلٹایا جائے۔

فہرست مندرجات

۱ - محکم اور متشابہ
۲ - قرآن کریم میں متشابہات
۳ - إِحکام اور تشابہ
       ۳.۱ - اِحکام قرآنی آیات کے ذیل میں
              ۳.۱.۱ - پہلا معنی
              ۳.۱.۲ - دوسرا معنی
              ۳.۱.۳ - تیسرا معنی
       ۳.۲ - محکم کے لغوی معانی
              ۳.۲.۱ - راغب اصفہانی کی نگاہ میں
       ۳.۳ - تشابہ قرآنی آیات کے ذیل میں
              ۳.۳.۱ - پہلا معنی
              ۳.۳.۲ - دوسرا معنی
       ۳.۴ - تشابہ کے لغوی معنی
       ۳.۵ - اصطلاحی معنی
۴ - تفسیر سے مراد
       ۴.۱ - تفسیر کے لغوی معنی
       ۴.۲ - تفسیر کی تعریف
۵ - اسلامی نصوص میں تأویل کے معانی
       ۵.۱ - پہلا معنی:اصل کی طرف پلٹانا
       ۵.۲ - دوسرا معنی:باطنِ قرآن
              ۵.۲.۱ - قرآن کا ظاہر اور باطن
       ۵.۳ - تیسرا معنی:خواب کی تعبیر
       ۵.۴ - چوتھا معنی:عاقبت و نتیجہ
       ۵.۵ - پانچواں معنی:خارجی ثابت شدہ حقائق
       ۵.۶ - چھٹا معنی:احکام کے ملاکاتِ واقعی
۶ - تشابہ نوعی یعنی تشابہِ شأنی
۷ - قرآن کریم میں متشابہ
       ۷.۱ - تشابہِ اصلی
              ۷.۱.۱ - بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے سے مراد
              ۷.۱.۲ - کس نوع کی آیات عموما متشابہ ہوتی ہیں
       ۷.۲ - تشابہ عرضی
              ۷.۲.۱ - پہلی آیت
              ۷.۲.۲ - زمخشری کی نگاہ میں
              ۷.۲.۳ - اشعری کی نگاہ میں
       ۷.۳ - دوسری آیت
              ۷.۳.۱ - ابن بطوطہ کا کلام
       ۷.۴ - تیسری آیت
۸ - متشابہ کے بارے مختلف اقوال
       ۸.۱ - پہلا قول
       ۸.۲ - دوسرا قول
       ۸.۳ - تیسرا قول
       ۸.۴ - چوتھا قول
       ۸.۵ - پانچواں قول
       ۸.۶ - چھٹا قول
       ۸.۷ - ساتواں قول
       ۸.۸ - آٹھواں قول
       ۸.۹ - نواں قول
       ۸.۱۰ - دسواں قول
       ۸.۱۱ - گیارہواں قول
       ۸.۱۲ - بارہواں قول
       ۸.۱۳ - تیرہواں قول
       ۸.۱۴ - چودہواں قول
       ۸.۱۵ - پندرہواں قول
۹ - متشابہ کے بارے میں دو جداگانہ نکتہ نظر
       ۹.۱ - پہلا نکتہِ نظر
              ۹.۱.۱ - مرحلہِ اوّل:محکمات
              ۹.۱.۲ - دوسرا مرحلہ:متشابہات
       ۹.۲ - پہلا نکتہِ نظر میں دو اشتباہ
       ۹.۳ - دوسرا نکتہِ نظر
       ۹.۴ - اس شبہ کا جواب
۱۰ - حوالہ جات
۱۱ - مأخذ

محکم اور متشابہ

[ترمیم]

آیات کریمہ کی صحیح تفسیر کرنے اور قرآنی معارف کو سمجھنے کے لیے جن امور کو جاننا ضروری ہے ان میں سے ایک محکم اور متشابہ کی شناخت اور پہچان ہے۔ زیر نظر ان سطور میں ان دو کی تعریف اور ان سے متعلق متعدد نکات کو بیان کیا جا رہا ہے تاکہ قرآن کریم اور اس کی تفسیر کا جانا جا سکے۔

قرآن کریم میں متشابہات

[ترمیم]

قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ کتابِ الہی کو محکمات و متشابہات میں تقسیم کیا گیا ہے، سورہ آل عمران میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:هُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْهُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِهِ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ؛ وہ وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب کو نازل کیا، جس میں سے بعض آیات محکمات ہیں جوکہ ام الکتاب ہیں اور دیگر متشابہات ہیں، وہ لوگ جن کے دلوں میں کج روی و ٹیڑھا پن ہے وہ اس میں سے متشابہ کی اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ کو برپا کریں اور اس کی تأویل کرنے کی کوشش کریں، اور اس کی تاویل فقط اللہ اور راسخون فی العلم جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لائے، ان میں سے ہر ایک ہمارے رب کی طرف سے ہے اور تذکر تو صرف عقل والے کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ کتابِ الہی محکمات اور متشابہات سے تشکیل پائی ہے اور آیاتِ محکمات کے کنارے پر ہی آیاتِ متشابہات ہیں۔ وہ لوگ جن کے دل ٹیڑھے اور قلب کج روی کا شکار ہیں وہ فتنوں کو برپا کرنے کے لیے متشابہات کا سہارا لیتے ہیں اور ان کی من گھڑت تاویلیں کرتے ہیں تاکہ ان آیات سے سوء استفادہ کریں۔ حقیقت میں متشابہات کی حقیقی تأویل اللہ تعالی اور علم میں راسخ ہستیاں جانتی ہیں۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محکمات اور متشابہات ہر دو کا منبع اور سرچشمہ ایک ہے جہاں سے یہ پھوٹی ہیں اور ان کو اس طرح سے قرار دینے میں اللہ تعالی کی حکمت ہے۔ البتہ اس واقعیت اور حقیقت سے اہل عقل و خرد تذکر حاصل کریں گے اور جو اہل عقل نہیں ہیں وہ اس سے تذکر حاصل نہیں کر سکتے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر آیاتِ متشابہات کیوں قرار دی گئی ہیں اور کون کون سی آیات یہ خصوصیت رکھتی ہیں؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں درج ذیل مطالب پر غور کرنا ہو گا:

إِحکام اور تشابہ

[ترمیم]

سب سے پہلے ہمیں اِحکام اور تشابہ کے معنی کی تحقیق کرنا ہو گی تاکہ جان سکیں کہ محکم اور متشابہ کے معنی کیا ہیں:

← اِحکام قرآنی آیات کے ذیل میں


قرآن کریم میں احکام تین معانی میں استعمال ہوا ہے:

←← پہلا معنی


کردار یا گفتار کا صحیح اور درست ہونا جس میں کسی قسم کا خلل اور شبہ نہ پایا جائے۔ اس کے مقابلے میں متشابہ کا معنی بد کردار ہونا اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہونا ہے۔

←← دوسرا معنی


ثابت اور پائیدار ہونا، شریعت میں ایسے اَحکام ہیں جو پائیدار اور ثابت شدہ ہوں، انہیں محکم کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ناپائیدار اور متزلزل احکام آتے ہیں۔ ناسخ اور منسوخ کے باب میں اِحکام کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور غیر منسوخ آیات کو آیاتِ محکم کہا جاتا ہے۔ اسی طرح قول یا عمل میں استحکام و دقت کا مظاہرہ کرنے کو محکم یا مستحکم کہتے ہیں۔ سورہ ہود میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ؛ (یہ قرآن وہ) کتاب جس کی آیات کمالِ دقت کے ساتھ محکم و مستحکم قرار دی گئی ہیں، پھر حکیم خبیر ذات کی طرف سے مفصلا بیان کی گئی ہیں۔

←← تیسرا معنی


اِحکام یعنی قرآن کریم کی تمام آیات کا احاطہ کرنا اور اس کو شامل ہونا۔ پس پہلے معنی کے مطابق آیاتِ متشابہ کے مقابلے میں محکم استعمال ہوتا ہے، دوسرے معنی کے مطابق آیاتِ غیر منسوخ کو محکم کہا جاتا ہے۔ جبکہ تیسرے معنی کے مطابق آیاتِ کریمہ کا احاطہ کرنا محکم کہلاتا ہے۔

← محکم کے لغوی معانی


متشابہ کے مقابلے میں محکم آتا ہے جس کا معنی مستحکم و استوار اور خلل نا پذیر کے ہیں۔ یہ حَکَمَ حُکۡمًا سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی منع کرنے، باز رکھنے اور خلل و رکاوٹ کے ایجاد کرنے سے روکنے کے ہیں۔ اسی لیے گھوڑے کے منہ پر لگام کو عربی لغت میں حَکَمَۃُ اۡلفَرَس کہتے ہیں کیونکہ اس کی لگام اس کو سرکشی اور غیر ضروری حرکات سکنات سے روکے رکھتی ہے۔ حاکم کو اسی لیے حاکم کہتے ہیں کیونکہ وہ ظالم کو اس کے ظلم سے روکتا ہے اور قاضی کی قضاوت کو بھی اسی لیے حکم کہتے ہیں کیونکہ وہ ناانصافی اور ظلم کی راہ کو روک دیتا ہے اور ظلم و زیادتی سے منع کیے رکھتا ہے۔ نیز حکمت کو اس لیے حکمت کہتے ہیں کیونکہ یہ دانائی کی باتیں انسان کو احمق پن، نادانی، جہالت اور غیر صحیح اقدامات سے منع کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

←← راغب اصفہانی کی نگاہ میں


راغب اصفہانی نے اپنی مفردات میں حکم کا معنی اس طرح تحریر کیا ہے: حكم أصله منع منعا لاصلاح ومنه سميت اللجام حكمة الدابة؛ حکم: اس کا اصلی معنی اصلاح کی خاطر منع کرنا ہے، اسی سے لگام کو حکمت کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ منع کرنا اور روکنا اصلاح کی خاطر ہو نہ کہ فساد برپا کرنے کی جہت سے۔ چنانچہ ہر وہ قول یا عمل یا گفتگو جس کے ذریعے سے شبہات کو روکا جاتا ہے اور کج روی و ٹیڑھے پن کو درست کیا جاتا ہے اس ذریعے کو محکم یعنی مستحکم و استوار کہتے ہیں۔

← تشابہ قرآنی آیات کے ذیل میں


قرآن کریم میں تشابہ بنیادی طور پر دو معنی میں آیا ہے:

←← پہلا معنی


متشابہ یعنی یکساں اور ایک جیسا ہونا۔ سورہ زمر میں تشابہ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ؛ اللہ نے بہترین کلام ایسی کتاب کی صورت میں نازل کیا ہے جس کی بعض آیات دیگر بعض جیسی ہیں (جو تکراراً تلاوت کی جاتی ہیں)، اس سے ان لوگوں کا وجود لرز اٹھتا ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ یہ آیت بہترین دلیل ہے کہ قرآن کریم کسی بشر کا کلام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کی جانب سے نازل کیا گیا کیونکہ اگر یہ بندوں میں سے کسی بندے کا کلام ہوتا یا اللہ تعالی اور بشر ہر دو کا مخلوط کلام ہوتا تو آیات اپنے استحکام، بلندیِ معنی اور اثر و تاثیر کے اعتبار سے یکساں نہ ہوتیں کیونکہ بندوں کا کلام بندوں سے مشابہ ہوتا ہے اور ایک کلام دوسرے کلام کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ کے کلام میں یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس میں کسی قسم کا اختلاف کا نہ ہونا بہترین دلیل ہے کہ یہ بندوں کی جانب سے نہیں ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِیهِ اخْتِلافًا کَثِیرًا؛ اگر یہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی جانب سے ہوتا تو وہ اس میں کثرت سے اختلاف پاتے۔ پس اختلاف کا نہ پایا جانا دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالی کے غیر کی جانب سے نہیں ہے۔

←← دوسرا معنی


شبہ انگیز ہونا، ایسی گفتگو یا ایسا کردار جو شبہ انگیز یا شبہات و احتمالات کا حامل ہو جس کی وجہ سے اصلِ مقصود پنہاں اور پوشیدہ ہو کر رہ جائے، اس کو متشابہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَیْنَا؛ گائے ہمارے لیے مشتبہ ہو گئی ہے۔ اس آیت کریمہ میں تشابہ بمعنی اصل مقصود کا روشن اور واضح نہ ہونا ہے۔ سورہ آل عمران آیت ۷ میں متشابہات اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ بعض آیات ایسی ہیں جن میں مختلف جہات اور مختلف معانی کا احتمال موجود ہے۔ مختلف معانی اور وجوہ کا ہونا شبہ کے ایجاد ہونے کا باعث بنتا ہے اور ٹیڑھے دل اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود ساختہ تأویلیں کر کے فتنوں کو جنم دیتے ہیں۔ سادہ لوح عوام الناس ان شبہات اور فتنوں کا شکار ہو جاتی ہے اور حقیقت تک رسائی سے قاصر رہتی ہے۔ پس ایک لفظ کے متعدد معانی کا ہونا انہیں شبہ میں ڈال دیتا ہے۔ یہاں یہی دوسرا معنی ہمارے موردِ بحث ہے۔

← تشابہ کے لغوی معنی


تشابہ لفظِ شبہ سے مشتق ہے۔ شبہ اسمِ مصدر ہے جس کا معنی مثل اور مانند کے ہیں۔ اگر ہم شبہ کو مصدر قرار دیں تو اس کا معنی مثل ہونا اور مانند ہونا قرار پائے گا۔ مثل اور مانند ہونے کی وجہ سے شبہ ایجاد ہو جاتا ہے کیونکہ جب حقیقت پنہاں ہو جائے اور حق و باطل میں باہمی آمیزش ہو جائے تو حق کا باطل کا ساتھ اشتباہ ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے حق بات باطل کی صورت میں آشکار ہوتی ہے اور یہی مورد عوام الناس کو اشتباہ اور شش و پنج میں مبتلا کر دیتا ہے۔

← اصطلاحی معنی


فقہاء نے متشابہ کی اصطلاحی تعریف اس طرح سے کی ہے: مَا لَا يُنۡبِئ‌ُ ظَاهِرُهُ عَنۡ مُرَادِه‌ِ؛ وہ کلام جس کا معنیِ ظاہری اس کے معنیِ مراد کی خبر نہ دے۔ متشابہ میں لفظ یا عمل سبب بنتا ہے کہ حقیقت و واقعیت آشکار نہیں ہوتی۔ اس تعریف کے مطابق کلام کا ظاہری معنی اور متکلمِ کا معنیِ مقصود و مراد الگ الگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے حقیقی مراد تک رسائی نہیں ہو پاتی۔ البتہ راغب اصفہانی نے فقہاء کی طرف جس تعریف کو منسوب کیا ہے وہ تعریف خود بھی قابل اعتراض ہے کیونکہ یہ تعریف مبہمات و کلامِ مجمل کو بھی شامل ہے جوکہ صحیح نہیں۔ کیونکہ مبہمات میں تفسیر کی ضرورت پیش آتی ہے جبکہ متشابہات میں تأویل کی۔ چنانچہ متشابہ کو ابہام و اجمال سے جدا کرنا چاہیے۔ راغب اصفہانی اس سے بہتر تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں: وَالۡمُتَشَابَه مِنَ الۡقُرۡآنِ مَا أشکل تفسیرُهُ لِمُشَابَهَتِهِ بِغَیۡرِه؛ قرآن میں متشابہ کے ہونے سے مقصود وہ مورد ہے جس کی شباہت اس کے غیر سے ہونے کی وجہ سے اس کی تفسیر میں مشکل پیش آتی ہے۔ وہ معنی اپنے غیر سے شباہت رکھتا ہے ایک ایسے معنی کے ظاہر ہونے کا سبب بنا ہوتا ہے جو متکلم کا مقصود نہیں ہے۔ لہذا قرآن کریم میں ایک لفظ کا اپنے غیر سے مشابہ ہونے کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ قرآن کریم کا غیر فقط ضلالت اور گمراہی ہے جیساکہ فرمانِ الہی ہے: فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلا الضَّلالُ؛ حق کے بعد فقط اور فقط گمراہی ہے۔ پس جہاں اللہ تعالی کا کلام ہے اور قرآن کریم کی صورت میں وہ نمایاں ہوتا ہے وہاں حق کے مقابلے میں فقط باطل رہ جاتا ہے۔ اگر حق اپنے غیر سے مشابہ ہو تو اس کا معنی یہ نکلے گا کہ اس مورد میں حق کی شباہت باطل سے ہے کیونکہ حق کا غیر ہمیشہ باطل ہوتا ہے۔
=====تفسیر اور تأویل میں عام خاص مطلق کی نسبت=====
اس تعریف کے مطابق آیاتِ متشابہات میں تشابہ سے مراد حق و باطل کا مشابہ ہونا ہے، اس طرح سے کہ اللہ تعالی نے حق بات بیان کی ہے جو باطل سے شباہت رکھتی ہے جس کے نتیجے میں حق بات باطل بات کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔ اس اعتبار سے یہ شباہت لفظ یا عمل کے مبہم ہونے کا باعث بنتی ہے جس سے لفظ کے چہرے پر ابہام کا پردہ ڈل جاتا ہے جوکہ شبہ کا باعث بنتا ہے۔ اگر یہ تشریح قبول کر لی جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متشابہات بھی تفسیر کی احتیاج رکھتی ہیں اور ان کے چہرے سے ابہام کا پردہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔ پس متشابہات کو تفسیر کی بھی ضرورت ہے اور تأویل کی بھی۔ تفسیر کے ذریعے پردہِ ابہام دور ہوتا ہے اور تأویل کے ذریعے سے شبہ رفع ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر بذاتِ خود تأویل ایک قسم کی تفسیر ہے جو ابہام کو دور کرتی ہے اور شبہ کو رفع کرتی ہے۔ چنانچہ تأویل کی تفسیر کی طرف نسبت عام خاص مطلق کی ہو گی۔ ہر وہ جگہ جہاں تأویل موجود ہے تفسیر بھی ہے لیکن تفسیر اعم ہے جو مبہات کے مورد میں ہوتی ہے اور ابہام محکم اور متشابہ ہر دو میں قابل تصور ہے۔ چنانچہ تفسیر کا دائرہ عمومی ہے جو متشابہات کے ساتھ ساتھ محکمات کو بھی شامل ہے۔ اس کے برعکس تأویل فقط متشابہ کے مورد کے ساتھ خاص ہے۔

تفسیر سے مراد

[ترمیم]

علوم اسلامی کا ایک اہم اور اساسی ترین شعبہ علم تفسیر اور علومِ قرآنی ہیں۔ قرآن کریم کی تفسیر کا اہتمام صدرِ اسلام سے مسلمانوں میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفظِ تفسیر نزول قرآن کے ساتھ مسلمانوں میں رائج ہونے لگا اور آہستہ آہستہ خاص معنی اختیار کر گیا۔

← تفسیر کے لغوی معنی


تفسیر مصدر ہے جس کے اصلی حروف ف - س - ر ہیں۔ اس کے معنی واضح اور آشکار کرنے کے ہیں۔ عربی زبان میں کہا جاتا ہے: فَسَرَ الأمرَ أی أوۡضَحَہ وَکَشَفَ عَنۡہ؛ فَسَرَ الأمر یعنی اس نے امر کو واضح اور آشکار کر دیا۔ فَسَرَ یعنی کَشَفَ جوکہ ثلاثی مجرد ہے اور ثلاثی مزید کے معنی میں بھی آتا ہے یعنی اِکتَشَفَ۔ مجرد اور مزید فیہ ہر دو ایک معنی دے رہں ہیں اور دونوں ایک مفعول کی طرف متعدی ہو رہے ہیں۔ اگر اس ضابطہ کی رعایت کریں کہ زیادة المبانی تدل علی زیادة المعانی؛ الفاظ کا مواد اور مبانی کا زیادہ ہونا معانی کے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے، تو مزید فیہ یعنی فسر بمعنی اکتشف کی مفہوم میں زیادتی پر دلالت ہو گی اور اس طرح یہ مبالغہ کے معنی میں آئے گا۔ یعنی مزید فیہ واضح و آشکار ہونے کی زیادتی پر دلالت کرے گا۔ پس کشف کی دلالت اکتشف سے عمومی تر ہے کیونکہ کشف مطلق طور پر ظاہر اور آشکار کرنے پر دلالت کرتا ہے جبکہ اکتشف ایک امر میں وضوح اور آشکار پن کی زیادتی پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح سے فَسَرَ کا اصلی معنی روشن، واضح اور آشکار کرنا ہیں لیکن باب تفعیل میں تبیین و تفسیر کے الفاظ کی دلالت مبالغہ کی صورت میں ہو گی اور تفسیر کا لفظ زیادہ روشن، واضح اور انتہائی آشکار کرنے کا معنی دے گا۔

← تفسیر کی تعریف


تفسیر کی معروف تعریف یہ کی گئی ہے: التفسیر: کَشۡفُ الۡقِنَاعِ عَنِ اللَّفۡظِ المُشۡکِل؛ تفسیر یعنی مشکل لفظ کو بے نقاب کر دینا، یعنی لفظِ مشکل کے چہرہ سے ابہام کا نقاب اتار دینا تفسیر کہلاتا ہے۔ پس تفسیر سے مراد لفظ سے ابہام کا پردہ اٹھانا ہے تاکہ اس کے ماوراء جو معنی موجود ہے وہ روشن اور عیاں ہو سکے۔ ایک مفسر یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ اپنے وسائل و آلات کے ذریعے ابہام کا پردہ چاک کر کے معنی کو واضح اور آشکار کرے۔ یہاں سے یہ بحث شروع ہوتی ہے کہ مفسر کے پاس کون كون سے ایسے قواعد یا اصول و وسائل ہیں جن کے ذریعے سے وہ لفظ پر پڑے ہوئے ابہام کے پردہ کو چاک کر سکتا ہے؟ یہ بحث عمومًا روشِ تفسیر اور منابعِ تفسیر کے ذیل میں کی جاتی ہے جہاں یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ مفسر کس راہ اور طریق سے کن کن اصولوں اور ضابطوں کو استعمال کر کے لفظ کے معنی کو روشن کر سکتا ہے اور تفسیر کرتے ہوئے وہ کن کن منابع کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس کی تفصیل کے لیے باقاعدہ جدا تحریر کی ضرورت ہے۔

اسلامی نصوص میں تأویل کے معانی

[ترمیم]

تأویل کے متعدد معانی وارد ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کا تذکرہ درج ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے:

← پہلا معنی: اصل کی طرف پلٹانا


تأویل باب تفعیل سے مصدر ہے جس کے اصلی حروف أ - و - ل ہیں۔ یہ اول سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی اصل کی طرف رجوع کرنے یا اصل کی طرف پلٹانے کے ہیں۔ لفظِ تأویل وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں شبہ لاحق ہو جائے اور انسان حیرت و سرگرداں ہو جائے۔ چنانچہ متشابہ کی تعریف میں تأویل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جہاں شبہ دور کرنے کی ضرورت و حاجت پیش آتی ہے۔ تأویل گر یعنی صحیح طریقے سے تأویل جاننے والا جوکہ شبہ کو دور کر کے رکھ دے اور جانتا ہوں کہ صحیح صورت اس کی کیا بنتی ہے۔ قرآن کریم میں لفظِ تأویل متعدد آیات کریمہ میں وارد ہوا ہے۔ سورہ کہف میں جناب موسیؑ کا واقعہ نقل ہوا ہے جس میں ان کا ہمسفر اختتامِ سفر پر اپنے اعمال کی تأویل کو ذکر کرتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: سَأُنَبِّئُکَ بِتَأْوِیلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَیْهِ صَبْرًا؛ میں تمہیں عنقریب اس کی تأویل بتاوں گا جس پر تم صبر نہیں کر سکے۔

← دوسرا معنی : باطنِ قرآن


تأویل کا ایک معنی سورہ آل عمران آیت ۷ میں آیاتِ محکمات اور آیات متشابہات کے ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ دوسرا معنی تأویل بمعنی باطنِ قرآن ہے۔ باطن کی دلالت ظاہر کے مقابل پر ہوتی ہے۔ اس صورت میں قرآن کریم دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے: ایک ظاہرِ قرآن اور دوسرا باطنِ قرآن۔ اس معنی کے مطابق قرآن کریم کا جہاں ظاہری معنی ہے وہاں اس کا باطنی معنی بھی ہے۔

←← قرآن کا ظاہر اور باطن


رسول اللہؐ سے روایت منقول ہے جس میں آپؐ فرماتے ہیں:مَا فِی الۡقُرۡآنِ آیَةٌ إِلَّا وَلَهَا ظَهۡرٌ وَبَطۡنٌ؛ قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے مگر اس آیت کے لیے ظہر اور بطن ہے۔ امام محمد باقرؑ سے پوچھا گیا: ظہر اور بطن سے کیا مراد ہے؟ امامؑ نے فرمایا: ظَهۡرُهُ تَنۡزِیۡلُهُ وَبَطۡنُهُ تَأۡوِیۡلُهُ، مِنۡهُ مَا قَدۡ مَضَی، وَمِنۡهُ مَا لَمۡ یَکُنۡ، یَجۡرِی کَمَا تَجۡرِی الشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ؛ اس کے ظہر سے مراد قرآن کی تنزیل ہے اور اس کے بطن سے مراد تأویلِ قرآن ہے، اس میں سے کچھ وہ ہے جو ماضی میں گزر چکا ہے اور کچھ وہ ہے جو ابھی تک واقع نہیں ہوا، وہ اسی طرح جاری ہے جیسے سورج اور چاند جاری ہیں۔ ظہرِ قرآن کی دلالت قرآن کے ظاہر پر ہے جوکہ مختلف قرائن مثلا آیت کا نازل ہونا سے آشکار ہوتا ہے۔

اس کے مقابلے میں بطنِ قرآن ہے جس کی دلالت باطنِ قرآن پر ہے جو ہمارے پاس موجود قرائن سے واضح نہیں ہوتا بلکہ اس کو کلی طور پر متنِ قرآن سے سمجھا جاتا ہے جو تمام جہات اور ہمہ گیر طور پر جہان کو شامل ہے۔ اسی لیے امام باقرؑ سے منقول روایت میں سورج اور چاند کے جاری ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پس باطنِ قرآن متنِ قرآن سے کلی طور پر سمجھا جاتا ہے جو خصوصی قرائن سے اجتناب کرتے ہوئے ہمارے سامنے آشکار ہوتا ہے اور اس سے مناسبت کی بناء پر مختلف زمان اور مکان میں قابل تطبیق ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر قرآن کریم سے ہمیشہ استفادہ نہیں کیا جا سکتا اور اس سے استفادہ ساقط ہو جائے گا۔ لہذا قرآن کریم سے کلی معانی اور مطالب کا لینا جو ہمہ گیر جہات رکھتا ہو قرآن کے دوام کا باعث بنتا ہے اور اس کو ہمیشہ قابل استفادہ قرار دیتا ہے۔

← تیسرا معنی: خواب کی تعبیر


تأویل کا تیسرا معنی رؤیا اور خواب کی تعبیر ہے۔ لفظِ تأویل آٹھ مرتبہ سورہ یوسف میں استعمال ہوا ہے۔ سورہ یوسف میں مذکور ہے کہ زندان میں جب جناب یوسفؑ سے دو افراد نے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے، جیساکہ قرآن کریم بیان کرتا ہے: نَبِّئْنَا بِتَأْوِیلِهِ؛ ہمیں اس کی تأویل بیان کریں۔ اسی طرح لفظِ تأویل اس معنی میں اسی سورہ میں دیگر آیات میں وارد ہوا ہے۔

← چوتھا معنی: عاقبت و نتیجہ


قرآن کریم میں لفظِ تأویل انجام اور ایک امر کی عاقبت کے معنی میں بھی آیا ہے۔ اس صورت میں تأویل سے مراد انجامِ کار اور عاقبتِ امر ہے۔ سورہ اسراء میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: وَ أَوْفُوا الْکَیْلَ إِذا کِلْتُمْ وَ زِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقیمِ ذلِکَ خَیْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْویلا؛ اور جب تم شیء کو ناپو تو ناپ تول کو پورا کرو اور ترازو کو سیدھا رکھ کر وزن کرو، یہ خیر ہے اور اس کا انجام بہترین ہے۔

← پانچواں معنی: خارجی ثابت شدہ حقائق


ابن تیمیہ نے تأویل کا ایک اور معنی کیا ہے جس کو ہم پانچواں معنی قرار دے سکتے ہین۔ اس کے مطابق تأویل سے مراد خارجی وجود اور عینی حقائق ہیں۔ ابن تیمیہ کے مطابق تأویل وجودِ ذہنی، وجودِ لفظی اور وجود خطی ہر ایک کو شامل ہے۔ کیونکہ ہر شیء وجودی طور پر چار مراحل کا حامل ہوتا ہے: اس کا ذہن میں وجود ہونا، لفظی وجود، کتبی وجود اور خارجی و عینی وجود۔ ابن تیمیہ کا کہنا ہے:فَتَأْوِيلُ الْكَلَامِ هُوَ الْحَقَائِقُ الثَّابِتَةُ فِي الْخَارِجِ بِمَا هِيَ عَلَيْهِ مِنْ صِفَاتِهَا وَشُؤُونِهَا وَأَحْوَالِهَا؛ پس تأویل کلام سے مراد خارج میں موجود ثابت شدہ حقائق ہیں جیساکہ وہ ثابت حقائق اپنی صفات، شوؤن اور احوال کے لحاظ سے خارج میں موجود ہیں ۔ البتہ ابن تیمیہ نے جس کو تأویل نام دیا ہے اس کو دیگر علماء و محققین عینی اور خارجی مصداق قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ابن تیمیہ نے جو ذکر کیا ہے وہ فقط نام کی تبدیلی ہے نہ کہ کوئی جدا اصطلاح ذکر کی ہے۔ پس یہ مناقشہ ظاہری اور لفظ ہے جس کا اصطلاحی معنی کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔

← چھٹا معنی: احکام کے ملاکاتِ واقعی


علامہ طباطبائی نے بھی تأویل کا معنی عینی اور خارجی وجود قرار دیا ہے۔ البتہ علامہ طباطبائی نے جو معنی ذکر کیا ہے وہ اس معنی سے جدا ہے جو ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے۔ ابن تیمیہ نے خارجی و عینی حقائق کو تأویل کہا اور اشتباہ کرتے ہوئے مصداق کو تأویل سے موسوم کیا۔ جبکہ علامہ طباطبائی کی نظر میں احکام اور تکالیفِ شرعیہ کی تأویل سے مراد احکام و تکالیف شرعیہ کے ملاکات ہیں۔ کیونکہ تمام احکام و تکالیف حقیقی اور واقعی ملاکات سے ناشئ ہیں اور یہی واقعی مصالح ان احکام کے وجود اور ایجاد کا سبب ہیں۔ یہاں ہمارا سروکار تأویل سے ہے جوکہ متشابہات کے مورد میں ہماری ضرورت ہے جبکہ بقیہ اس بحث کے معانی ہماری بحث سے خارج ہے۔

تشابہ نوعی یعنی تشابہِ شأنی

[ترمیم]

متشابہات کی بحث میں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا قرآنی آیات میں تشابہ نسبی ہے یا مطلق ہے؟ یعنی آیات کا متشابہ ہونا قرآنی آیات کی ذاتی حقیقت و واقعیت ہے اور آیات ذاتی طور پر فی نفسہ متشابہ ہوتی ہیں!! اگرچے اہل علم و تحقیق کے لیے متشابہ کا دور کرنا ممکن ہو تب بھی متشابہ کی صفت آیات کے لیے ذاتی قرار پائے گی؟! یا ایسا نہیں ہے بلکہ صاحبانِ شعور و بصیرت کے لیے آیات میں کسی قسم کا تشابہ وجود نہیں رکھتا بلکہ یہ تشابہ عوام الناس کے لیے ہوتا ہے جوکہ وافی و شافی علم نہیں رکھتے؟

اس کے جواب میں علماء و محققین نے تحریر کیا ہے کہ بعض آیات میں تشابہ نہ نسبی ہے اور نہ ذاتی و واقعی بلکہ ان آیات میں شأنی و نوعی ہے۔ شأنی اور نوعی سے مراد یہ ہے کہ بعض آیات میں معنی اور موادِ علمی کے اعتبار سے لفظ کا قالب تنگ اور کوتاہ ہوتا ہے جو متشابہ ہونے کا زمینہ فراہم کرتا ہے۔ یعنی بعض آیات میں ایسا زمینہ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے تشابہ ایجاد ہو جائے کیونکہ معانی اور معارفِ قرآنی انتہائی بلند اور عمیق ہیں جن کو ایسی زبان میں ڈھالنا جسے عام فہم انسان سمجھ سکے اور ایسے الفاظ میں پرونا جس کا پڑھنا سمجھنا کسی قسم کی دشواری کا باعث نہ بنے بذاتِ خود عالی ترین معجزہ اور اہم ترین پہلوِ اعجاز ہے۔ قرآن کریم میں الہی معارف کو جب الفاظ کا جامہ پہنایا گیا تو متعدد آیات میں الفاظ کے قالب کی تنگی سبب بنی کہ متشابہ ہونے کا میدان فراہم ہو جائے۔ ممکن یہاں یہ کہا جائے کہ یہاں الفاظ تبدیل کیے جا سکتے تھے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس مورد میں کلام کا اسلوب اور معانی کی بلندی کا تقاضا یہ تھا کہ ان الفاظ کو لایا جائے اور ان الفاظ سے بہتر کوئی اور لفظ اصلا وجود نہیں رکھتا۔ پس یہ مشکل الفاظ اور کلام کی جانب سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات کا حقیقی فہم تفکر و تدبر اور نفس کی پاکیزگی پر موقوف ہے جس کی وجہ سے انسان کے لیے عمق میں جانا ممکن ہوتا ہے اور انسان تفکر و تدبر کے ذریعے ان معارفِ قرآنی کو حسب استطاعت و ظرفیت سمجھ لیتا ہے۔

پس لفظ کے قالب کی تنگی متشابہات کی زمین فراہم کرتی ہیں اور افراد جب ان آیات سے روبرو ہوتے ہیں تو اشتباہ اور تردید کا شکار ہو جاتے ہیں اور کاملا معنی کو سمجھنے عاجز نظر آتے ہیں۔ لیکن ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو وسیع معلومات رکھنے، عمق اور دقت میں جانے اور معانی و الفاظ کے رموز و ملازمات سے واقف ہونے کی بناء پر ان مقامات پر تشابہ سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں تشابہ شأنی اور نوعی ہے نہ کہ شخصی و نسبی و واقعی۔

قرآن کریم میں متشابہ

[ترمیم]

قرآنی آیات میں تشابہ اساسی و بنیادی طور پر دو طرح سے ہے: ۱) اصلی، ۲) عرضی

← تشابہِ اصلی


تشابہ اصلی طبیعی طور پر اس وقت وجود میں آتا ہے جب لفظ کا قالب تنگ اور کوتاہ اور معنی بلند و وسیع ہو۔ عربی زبان میں دیگر زبانوں کی طرج الفاظ جن معانی کے لیے وضع کیے گئے ہیں وہ معانی خود محدود اور سطحی نوعیت کے ہیں۔ چنانچہ جب وسیع اور عمیق معانی و مطالب کے لیے ان الفاظ کا انتخاب کیا گیا تو الفاظ میں تنگی کا مسئلہ سامنے آیا۔ قرآن کریم نے بلند الہی معارف اور حقائق کو سمجھانے کے لیے جس زبان کا انتخاب کیا وہ عربی زبان ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ؛ بے شک ہم نے اس کو قرآنِ عربی قرار دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو۔ لہذا ان بلند معانی اور حقائق کو بیان کرنے کے لیے چار ناچار کنابہ، مجاز، تشیبہ اور استعارہ کا اسلوب اختیار کرنا پڑا اور عربی کلمات کے سہارے بلند معارف خود اہل عرب کے لیے بھی نئی اور تعجب آور شیء تھی، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ رَمَی؛ (اے رسولؐ) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے تو آپ نہیں بھینک رہے تھے بلکہ اللہ پھینک رہا تھا۔ اس آیت کریمہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ انسان ایک نا چیز مخلوق ہے جس کے پاس جو قدرت و طاقت ہے وہ اذنِ الہی سے ہے، انسان جو انجام دیتا ہے اور جن افعال کا اختیار رکھتا ہے اور مؤثر عوامل کے مقابلے میں جو رد عمل دکھاتا ہے وہ سب اللہ تعالی کے اذن اور اس کی دی ہوئی قدرت و اختیار سے ہے۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو عربوں کے لیے اس آیت کا معنی سمجھنا دشوار تھا اور طرح طرح کے شبہات ان کے ذہن میں ابھرتے تھے جن میں سے ایک شبہ نظریہِ جبر کا ہے۔

اسی طرح ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے: یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ؛ اے ایمان لانے والو! اللہ اور اس کے رسول کو اس وقت لبیک کہو جب وہ تمہیں زندگی و حیات کے لیے بلائیں اور تمہارے علم میں ہونا چاہیے کہ اللہ بندے اور اس کے دل کے مابین حائل ہے اور اسی کی طرف تم لوگ محشور کیے جاؤ گے۔ اس آیت میں بندے اور اس کے دل کے مابین اللہ تعالی کا حائل ہونا یہ باور کرانے کے لیے ہے کہ اللہ تعالی خود انسان کے اپنے وجود سے قریب تر اور اس کی ذات پر قدرت و تسلط رکھنے والا ہے جس کی وجہ سے انسان اصلا اللہ تعالی کے سامنے کسی قسم کی بغاوت و سرکشی نہیں کر سکتا۔ اگر اس محدود مدت دنیا میں انسان کو فرصت اور اختیار کے لمحات میسر ہیں تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اب اللہ تعالی کے قبضہِ قدرت سے باہر ہو گیا ہے۔ بالآخر ہم نے اللہ تعالی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اسی طرف محشور کیے جائیں گے۔ چنانچہ جب اللہ اور اس کا رسول تمہیں زندگی عطا کرے اور تمہیں حق راہ کی طرف بلائے تو اسے لبیک کہو اور جواب دو۔ اس آیت کریمہ میں بندے اور اس کے دل کے درمیان اللہ کا حائل ہونا فہم کے اعتبار سے ایک دشوار گزار معنی ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ میں حائل ہونے کو سمجھنا ضروری ہے۔

←← بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے سے مراد


ابو الحسن اشعری اور اس کے پیرو سورہ انفال آیت ۲۴ سے نظریہ جبر مراد لیتے ہیں اور اس سے ایمان و کفر کا غیر ارادی ہونے کا استفادہ کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس آیت کریمہ سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کافر کی تقدیر کفر مقرر کی ہے، اگر کافر ارادہ کرے کہ وہ ایمان لے آئے اور اللہ کی اطاعت کرے تو اللہ تعالی اس کے لیے مانع بن جائے گا، اسی طرح اللہ سبحانہ نے مومن کی تقدیر ایمان مقرر کی ہے، اگر مومن کفر کا قصد و ارادہ کرے تو اللہ تعالی اس کے لیے مانع بن جائے گا۔ فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں اس بات کی تائید کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ یہ آیت مکتبِ معتزلہ کے برخلاف ہے جوکہ جبر کے قائل نہیں ہیں۔

اگر آیت کریمہ میں غور وفکر کو بروئے کار لایا جائے تو معلوم ہو گا اس آیت کا نظریہِ جبر سے کسی قسم کا کوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔ یہ آیت کریمہ کائنات میں ایک ثابت شدہ حقیقت کو بیان کر رہی ہے، ایسی حقیقت جو نہ قابل تغیر و تبدل ہے اور نہ اس سے احتناب ممکن ہے اور وہ اللہ تعالی کا ہر شیء میں محتاج ہونا ہے اور انسان حقیقی زندگی کا احساس فقط اس صورت میں کر سکتا ہے جب وہ قوانینِ شریعت کا احترام بجالائے اور دین الہی کے سائے میں زندگی بسر کرے، جو حقوق اس کی گردن پر عائد ہوتے ہیں ان حقوق کو ادا کرے اور اپنے شرعی وظیفہ کے مطابق زندگی بسر کرے۔ ایک معاشرہ اگر ان اصولوں اور ضوابط کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے تو وہ نعمات اور آسائشوں میں زندگی بسر کرے گا۔ شریعت کی اتباع میں ہی اللہ تعالی نے انسان کی زندگی کی رونقیں رکھی ہیں اور اللہ و رسولؐ کی اتباع کرنے سے ایک معاشرے پر انسانیت حاکم ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان سرکش و باغی بن جائے اور حیوانات و چوپاؤں کی پست زندگی کا انتخاب کر بیٹھے۔ ایسی صورت میں معاشرہ سے انسانیت نکل جائے گی اور انسان اپنی راہ گم کر بیٹھے گا۔ پھر معاشرے پر شہوات، مفادات یا درندگی کا غلبہ ہو گا۔ ایسی صورت میں انسان کا انسانیت کو فراموش کر دینا اس کے اپنے ہی ہاتھوں سے جنم لے گا اور انسان بدترین عذاب و عقاب میں گرفتار ہو کر رہ جائے گا اور وہ انسان کا اپنے آپ کو کھو دینا ہے اور حیوانیت و بہیمیت کے درجہ پر گر جانا ہے۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ؛ انہیں نے اللہ کو فراموش کیا پس اس نے انہیں ان کا اپنا آپ بھولا دیا۔ ایسے معاشرے پر پھر اللہ تعالی کا یہ فرمان صدق کرے گا: وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ؛ اور ہم نے ان کے دلوں اور ان کی آنکھوں کو اس طرح پلٹ دیں گے جیساکہ وہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہیں لائے تھے۔ قرآن کریم کی یہ آیات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اللہ تعالی کا بندے اور اس کے دل میں حائل ہونے سے مراد کیا ہے۔ اللہ تعالی کے حائل ہونے سے ہر گز مراد جبر نہیں ہے بلکہ یہ آیت انسان کے کردار سے وابستہ ہے کہ اگر انسان نے اللہ تعالی کو فراموش کیا تو اللہ تعالی انہیں اپنا آپ فراموش کر کے انسانیت سے بے بہرہ کر دے گا اور اگر انہوں نے اللہ تعالی اور اس کے رسولؐ کو جواب دیا اور ان کی آواز پر لبیک کہی تو اللہ تعالی انہیں انسانیت سے بھر پور زندگی عنایت فرمائے گا اور حیوانیت کی ظلمتوں سے نجات عطا کر دے گا۔

←← کس نوع کی آیات عموما متشابہ ہوتی ہیں


عموما وہ آیات کریمہ متشابہ ہوتی ہے جو مبدأ اور معاد کے موضوع سے مربوط ہیں یا انسان کے اختیار و قدرت و استطاعت سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح ان آیات کریمہ میں بھی متشابہات کے نمونے مل جاتے ہیں جن انسان کا جہان میں تصرف کرنے کی مقدار، کائنات کی خلقت اور اس کی وجوہات کا بیان اور اللہ تعالی کا جہان میں فقط جن و انس کو مکلف بنانے کا بیان ہے۔ کیونکہ ان آیات میں معانی دقیق، عمیق اور بلندی و وسعت رکھتے ہیں جن کے بیان کے لیے الفاظ کا قالب تنگ اور مختصر پڑ جاتا ہے، مثلا مشیت و علم و ارادہ سے متعلق آیات کریمہ، آیتِ امانت و خلافت، آیتِ تسخیرِ آسمان و زمین، آیاتِ اذن، آیاتِ ہدایت و گمراہی اور ان جیسی دیگر آیات میں نشابہ نظر آتا ہے۔ یہ آیات کریمہ صحیح تأویل کی محتاج ہیں۔

← تشابہ عرضی


تشابہِ عرضی سے مراد وہ آیات کریمہ ہیں جو آغازِ اسلامی میں کسی قسم کا تشابہ نہیں رکھتی تھیں اور مسلمان خلوصِ نیت کے ساتھ ان آیات پر عمل پیرا ہوتے تھے۔ اس اعتبار سے ان آیات کا معنی اور مراد واضح، آشکار اور روشن تھا اور کسی قسم کا شبہ نہیں پایا جاتا تھا، لیکن جب عالم اسلام میں کلامی اور جدلی مسائل نے سر اٹھایا اور بعض فلسفی آراء و افکار اسلامی دنیا میں رائج ہو گئے تو اس کی وجہ سے بہت سی آیات پر ابہام کا غبار پڑنے لگا اور طرح طرح کے شبہات جنم لینے لگے۔ وہ آیات کریمہ جو ابتداء اسلام میں محکمات میں سے تھیں لیکن بعد میں متشابہات کے زمرے میں شمار ہونے لگیں انہیں تشابہِ عرضی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ذیل میں چند آیات کریمہ ذکر کی جاتی ہیں جوکہ آغازِ اسلام میں واضح اور محکم شمار ہوتی تھیں لیکن بعد میں فلسفہ اور دیگر اجنبی علوم کے رائج ہونے کے سبب اور کلامی و عقائدی مسائل میں نت نئے نظریات و اقوال کی بھرمار کی وجہ سے ابہام کا حجاب پڑنے لگا اور اس طرح وہ محکم آیات بھی متشابہ نظر آنے لگیں:

←← پہلی آیت


قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے: وُجُوهٌ یَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَی رَبِّهَا نَاظِرَةٌ؛ اس دن چہرے خوش و خرم ہوں گے، اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ اس آیت کریمہ میں دیکھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالی معاذ اللہ ان ظاہری آنکھوں سے دکھائی دے سکتا ہے بلکہ اس دور میں عرب معاشرے میں یہ الفاظ بلند و بالا مقام کی طرف نگاہ کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ چناںجہ یہاں بھی یہی مطلب ہو گا کہ وہ اپنے رب کے بلند و عالی مقام کی طرف نگاہیں کیے ہوئے ہوں گے۔

←← زمخشری کی نگاہ میں


زمخشری اپنی کتاب الکشاف میں مکہ کے قریب ایک پسماندہ علاقہ جسے سرو کہا جاتا ہے سے تعلق رکھنے والی ایک بچی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ فقر و غربت سے مجبور ہو کر دوپہر کے وقت لوگوں سے مانگنے نکلی: سَمِعۡتُ سرویة مستجدیة بمکة وقت الظهر، حین یغلق الناس أبوابهم ویاوون إلی مقائلهم، تقول: عیینتی نویظرة إلی اللّه وإلیکم؛ میں نے مکہ میں ظہر کے وقت ایک بچی سرویہ مستجدیہ کے یہ الفاظ سنے جبکہ لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے تھے اور اپنے گھروں میں چلے گئے، وہ کہتی ہے: میری دونوں حقیر نظریں اللہ اور تم لوگوں پر جمی ہوئی ہیں (یعنی اللہ اور تم سے امید باندھے ہوئے ہیں)۔ اس جملہ میں آنکھوں کے جمے ہوئے ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ میری آنکھیں تمہیں دیکھ رہی ہیں اور تم اپنے گھروں میں آرام کر رہے ہو !! بلکہ یہاں آنکھیں اٹھے یا جمے ہوئے ہونے سے مراد امید اور توقع کا بندھا ہوا ہونا ہے۔ یعنی میری دونوں حقیر نظریں اللہ اور تم سے امید باندھے ہوئے ہیں۔ پس سورہ قیامت آیت ۲۲ اور ۲۳ میں بھی اپنے ربّ کی طرف دیکھنے سے مراد اس سے توقع اور امید باندھنا ہے جیساکہ یہ عرب بچی نظریں جمانے کو امید اور توقع کے معنی میں استعمال کر رہی ہے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ جب عرب بلیغ زبان میں نظروں کا کسی کی طرف اٹھنا امید اور توقع کے معنی میں آتا ہے و آخر پھر کیوں اشاعرہ کے رئیسِ مذہب ابو الحسن اشعری متوفی ۳۲۴ ھ اور ان کے پیرو اس آیت سے اللہ تعالی کو دیکھنے کا معنی لیتے ہیں اور آیت کو آنکھوں سے دیکھنے پر اطلاق کرتے ہیں؟!!

←← اشعری کی نگاہ میں


سورہ قیامت کی اس آیت کے متعلق اشاعرہ کہتے ہیں کہ نظر تین قسم کی ہوتی ہے:
۱۔ نظرِ اعتبار
۲۔ نظرِ انتظار
۳۔ نظرِ رؤیت
پھر کلام کو جاری کرتے ہوئے اس مطلب پر پہنچتے ہیں کہ قیامت میں نظر اعتبار یعنی عبرت حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے اور نظرِ انتظار حرف إِلَی کے ساتھ متصل نہیں آتی، جیساکہ آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے: فَنَاظِرَةٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ؛ پس میں دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا لے کر واپس آتا ہے۔ پس یہاں نظر سے مراد رؤیت نہیں ہے۔ یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر ہم آیت کریمہ إِلَی رَبِّهَا نَاظِرَةٌ کی تقدیر میں إِلَی ثَوَابِ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ مان لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟

اس کے جواب میں اشاعرہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں ان بریکٹوں اور تقدیروں سے خالی ہے، لہذا ضروری ہے کہ ظاہرِ کلام کو مراد لیا جائے (نہ کہ خود سے اضافے کر کے)۔ اسی طرح وہ اس آیت کریمہ لَا تُدۡرِکُهُ الأَبۡصَارُ؛ آنکھیں اس کو درک نہیں کر سکتیں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں نگاہوں سے درک کرنے سے مقصود اس جہان میں درک کرنا ہے نہ کہ جہانِ آخرت، کیونکہ کفار اللہ تعالی کی رؤیت سے اس دنیا اور آخرت ہر دو جہانوں میں محروم رہیں گے۔
[۳۴] ابن جنی، عثمان بن جنی، اللمع في العربيۃ، ص۶۸ ـ ۶۱۔
[۳۵] ابن ابی طالب، مکی بن ابی‌ طالب، الابانۃ عن معاني القراءات، ص۱۹ ـ ۱۰۔
البتہ محسوس یہ ہوتا ہے کہ انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ کلامِ عرب میں نظرِ امید و توقع حرف إِلَی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے؛ جیساکہ عرب شاعر کہتا ہے: إِنِّی إِلَیۡکَ لِمَا وَعَدۡتَ لَنَاظِر نَظَرَ الفَقِیۡرِ إِلَی الۡغِنَی الۡمُوسِر؛ چونکہ تم نے وعدہ کیا تھا اس لیے میں تم سے ویسی ہی توقع رکھے ہوئے ہوں جیسے فقیر غنی اور مالدار سے امید باندھے ہوئے ہوتا ہے۔
اسی طرح سے زمخشری نے الکشاف میں سرویہ کی ایک بچی کا کلام ذکر کیا جس میں وہ اللہ اور لوگوں سے امید باندھے ہوئے تھی اور حرف إلی کے ساتھ نظر کے مادہ کو اس نے استعمال کیا۔ اسی طرح آیت کریمہ میں حرف جر إِلَی کو نظر کے مادہ کے ساتھ توقع و امید باندھنے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

← دوسری آیت


اسی طرح قرآن کریم کی یہ آیت ہے:الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی؛ رحمن عرش پر مستوی ہے۔ واضح ہے کہ اس آیت میں عرش پر استواء سے مراد کسی تخت پر بیٹھنا نہیں ہے بلکہ مراد عرشِ تدبیر پر مکمل قدرت و تسلط کا ہونا ہے۔ عرش اللہ تعالی کا جہان کی تدبیر کرن تکے علم سے کنایہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کرسی اللہ تعالی کی حکومت، سلطنت اور وسیع و عریض تسلط سے کنایہ ہے۔ عرش سے مراد تدبیر اور استواء سے مراد تسلط و قدرت ہے پس استواء علی العرش یعنی عرشِ تدبیر پر مسلط ہونا ہے۔ اس معنی سے کسی قسم کا شبہ ایجاد نہیں ہوتا اور مختلف قسم کے قیل قال سے انسان بچ جاتا ہے۔ بعض اربابِ جدل نے اس کا ظاہری معنی لیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ اللہ تعالی سلطنت کے تخت پر براجمان ہے۔ اگر اس کو مان لیں تو اس سے اللہ سبحانہ کا جسم ہونا لازم آتا ہے۔

←← ابن بطوطہ کا کلام


ابن بطوطہ اپنے سفر نامہ میں تحریر کرتا ہے کہ میں دمشق میں مسجدِ دمشق میں داخل ہوا تو دیکھا ابن تیمیہ منبر پر براجمان ہے اور اللہ تعالی کی جسمانیت کے موضوع پر گفتگو کر رہا ہے۔ دورانِ گفتگو عرش پر استواء تک بات پہنچی تو ابن تیمیہ نے اللہ تعالی کا عرش پر بیٹھنے اور براجمان ہونے کو بیان کیا اور اس کے بعد کہا کہ وہ اسی طرح سے عرش سے اترتا ہے جیساکہ میں منبر سے نیچے آتا ہوں، یہ کہہ کر وہ اٹھا اور منبر کے چند پلے نیچے اترا۔ ابن تیمیہ کا ایسا کرنا تھا کہ مسجد میں ایک شور اور غوغا مچ گیا۔ اگر کلامِ عرب کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح ایسے شواہد نظر آتے ہیں جن میں استواء بمعنی استیلاء اور تسلط و اقتدار کے معنی میں آتا ہے، جیساکہ ایک عرب شاعر کہتا ہے: قد استوی بشر علی العراق من غیر سیف ودم مهراق؛ عراق پر ایک انسان مسلط اور براجمان ہے جس نے نہ تلوار چلائی اور نہ خون بہایا۔

← تیسری آیت


قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَیُدْعَوْنَ إِلَی السُّجُودِ فَلا یَسْتَطِیعُونَ؛ وہ دن جب وہ ساق کو ظاہر کرے گا اور انہیں سجدہ کے لیے پکارا جائے گا تو وہ اس کو انجام نہیں دے سکیں گے۔ اس آیت کریمہ میں لفظِ ساق کنایہ کے طور پر استعمال ہوا ہے جس سے مراد کسی امر کا شدید اور مشکل ہونا ہے۔ بعض ظاہر بین افراد نے اس سے مراد پنڈلی لی ہے اور پھر اللہ تعالی کے لیے پنڈلی کے ہونے کو ثابت کیا ہے۔ ایسا مطلب جہاں قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے وہاں کلامِ عرب سے بھی سازگار نہیں ہے۔ کلامِ عرب میں یہ جملہ وارد ہوا ہے: وقامت الحرب علی ساق؛ اور جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی۔ یعنی جنگ شدت پکڑ گئی اور انتہائی سخت جنگ ہونے لگی۔ کشفِ ساق یہاں پر سخت کام کو کامل آمادگی اور کسی مشکل امر کو انجام دینے کے لیے کمر کس لینے کے معنی میں بطورِ کنایہ استعمال ہوۃا ہے۔

اس آیت کریمہ میں ساق کلامِ عرب میں موجود متعارف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لہذا آیت کی دلالت اس معنی پر ہو گی کہ روزِ قیامت حالات انتہائی شدید ہوں گے اور کفار بری حالت میں ہوں گے۔ کشاف میں زمخشری نے تحریر کیا ہے:لیکن اشاعرہ اور اہل تجسیم لفظ کا ظاہری معنی لیتے ہوئے کہتے ہین: اللہ تعالی کے پاؤں کی پنڈلی ہے جو اس دن برہنہ اور آشکار ہو گی اور کفار کو سجدہ کا حکم دیا جائے گا لیکن اس کی استطاعت نہیں رکھتے ہوں گے۔

متشابہ کے بارے مختلف اقوال

[ترمیم]

کتبِ تفاسیر میں محکم اور متشابہ کے بارے میں کثیر اقوال وارد ہوئے ہیں۔ ان میں اکثر اقوال متداخل اور ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ البتہ کچھ ایسے اقوال ہیں جو آپس میں اختلاف اور واضح فرق رکھتے ہیں۔ بعض نے محکم اور متشابہ میں معنی اور مصداق میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے اشتباہ کیا ہے اور مصداق کو بھی معنی قرار دیا ہے اور بعض نے اشتباہ کرتے ہوئے مبہمات کو متشابہ قرار دیا ہے۔ علامہ طباطبائی نے اپنی تفسیر میں سولہ (۱۶) اقوال ذکر کیے ہیں جن کی طرف مندرجہ ذیل سطور میں اشارہ کیا جاتا ہے:

← پہلا قول


ابن عباس سے روایت وارد ہوئی ہے کہ آیات محکمہ کی قبیل سے یہ آیت ہے: قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ أَلا تُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا؛ کہہ دیجیے آؤ میں تمہیں وہ بیان کرتا ہوں جو تمہارے ربّ نے تمہارے اوپر حرام کیا ہے کہ تم اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک مت بناؤ۔ اس کے مقابلے میں متشابہات کی قبیل سے حروف مقطعات ہیں جو بعض سورتوں کے آغاز میں وارد ہوئے ہیں۔

← دوسرا قول


بعض قائل ہیں کہ آیات منسوخ متشابہات ہیں اور آیات ناسخ محکمات ہیں۔

← تیسرا قول


آیات الأحکام محکم ہیں اور بقیہ دیگر آیات کریمہ متشابہات ہیں۔

← چوتھا قول


قصص انبیاء اور گذشتہ امتوں کے حالات و واقعات محکم ہیں اور ان آیات میں جو ابہامات پائے جاتے ہیں وہ متشابہات ہیں۔

← پانچواں قول


صفاتِ الہی سے متعلق آیات کریم متشابہ ہیں۔ یہ قول ابن تیمیہ کی طرف منسوب ہے۔

← چھٹا قول


روزِ قیامت کے احوال اور ہولناکیوں پر مشتمل آیات اور آخرت سے مربوط آیات کریمہ متشابہات ہیں۔

← ساتواں قول


مجمل، مبہم اور جس کا معنی روشن نہ ہو اس کو متشابہ کہتے ہیں۔

← آٹھواں قول


وہ آیات جن کا معنی و مفہوم پیچیدہ، مشکل اور الجھا ہوا ہو وہ متشابہات کہلاتی ہیں اور جن کا معنی روشن اور دلیل واضح ہے وہ آیات محکمات کہلاتی ہیں۔

← نواں قول


جس آیت کے معنی تک رسائی کے تمام راستے بند ہوں اس کو متشابہ کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جس کے معنی تک رسائی ہو سکتی ہے اور اس تک پہنچنے کی راہ کھلی ہے اسے محکم کہتے ہیں۔

← دسواں قول


وہ آیات جن میں ایک سے زائد معنی کا احتمال دیا جائے متشابہ کہلاتا ہے اور جن میں ایک سے زائد معنی کا احتمال نہ دیا جا سکے اسے محکم کہتے ہیں۔

← گیارہواں قول


وہ آیات جن کے بیان اور وضاحت کی ضرورت محسوس ہو متشابہات کہلاتی ہیں اور جن کے بیان کی حاجت محسوس نہیں ہوتی محکمات کہلاتی ہیں۔

← بارہواں قول


عقل کے لیے جس کی کنہِ حقیقت تک پہنچنے کی راہ کھلی نہ ہو اسے متشابہ کہتے ہیں اور جس کے کنہِ حقیقت تک پہنچنے کی راہ کھلی ہو اس کو محکم کہا جاتا ہے۔

← تیرہواں قول


ظاہر عبارت سے جو آشکار ہو وہ مراد و مقصود نہ ہو تو اس کو متشابہ کہتے ہیں اور اگر ظاہری معنی ہی مراد و مقصود ہو تو اس کو محکم کہتے ہیں۔

← چودہواں قول


وہ آیات جن کی تفسیر میں تمام متفق نظر آئیں محکمات کہلاتی ہیں اور جن میں اتفاقِ نظر نہ ہو وہ متشابہات کہلاتی ہیں۔

← پندرہواں قول


جس کی مشکل سے تفسیر ہوتی ہو اس کو متشابہ کہتے ہیں اور جس کی تفسیر میں کسی قسم کی دشواری اور مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے اسے محکم کہتے ہیں۔

متشابہ کے بارے میں دو جداگانہ نکتہ نظر

[ترمیم]

آخر سطور میں ہم محکم اور متشابہ کے بارے میں دو جداگانہ نکتہِ نظر ملاحظہ کرتے ہیں جو اہل علم کے درمیان غیر مانوس اور اجنبی ہیں:

← پہلا نکتہِ نظر


محمود طالقانی قرآن کے بارے میں دو حالتوں کو فرض کرتے ہیں:
۱۔ نزول سے پہلی والی حالت، یہ محکم کہلاتی ہے۔ اس حالت میں قرآن لوح محفوظ اور مکنون تھا۔
۲۔ نزول کے بعد والی حالت، یہ متشابہ کہلاتی ہے۔ یہ اس وقت ہے جب وہ الفاظ و کلام کے قالب میں ڈھلا۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن دو قسم کے وجود اور مرحلے رکھتا ہے:

←← مرحلہِ اوّل: محکمات


پہلا مرحلہ نزول و تنزیل سے پہلے والا ہے۔ نزولِ قرآن سے پہلے والا مرحلہ محکم، ثابت، کلی و غیر متغیر ہے، نزول سے قبل وہ محکم اور مکنون ہے۔ ام الکتاب ہمارے حواس اور عقل کی رسائی سے بالاتر ہے اور اس مرحلہ میں وہ عربی زبان میں بھی نہیں ہے۔ وہ اصول جو ٹھوس اور ثابت ہیں، جہان اور انسان کے ثابت غیر متغیر قوانین، مبدأ و توحید کی معرفت، صفاتِ عالیہ، مخلوق کا خالق سے رابطہ، قیامت کے مراحل، تکامل، ذمہ داری و مسئولیت، انسان کا عہد و پیمان باندھنا، عقلی و عملی طور پر کلی احکام، فروعِ نظری، فکر و عمل یہ تمام کے تمام ام الکتاب سے سامنے آتے ہیں اور اسی سے جنم لیتے ہیں۔ قرآن کریم نزول سے پہلے جب الفاظ و کلام کے سانچے میں نہیں ڈھلا تھا تو محکم تھا۔ چنانچہ یہ کتاب نزول سے پہلے محکم، حکیم، ام الکتاب، محفوظ اور مکنون تھی اور مختلف قسم کے معارف و زمان و مکان اور شرائط و استعداد کو لیے ہوئے متفرق و مفصل کلمات و آیات کی صورت میں آشکار اور قابل قراءت تھی۔

←← دوسرا مرحلہ: متشابہات


دوسرا مرحلہ نزولِ قرآن کے بعد والا مرحلہ ہے۔ نزول کے نتیجے میں یہ مفصل روشن آیاتِ محکمات اور امّ الکتاب کے مرحلہ سے تنزل کر کے کلام و عبارات و کلمات کے قالب میں اتر آیا جس کی وجہ سے تشابہ پیدا ہو گیا، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِهًا؛ اللہ نے بہترین کلام متشابہ کتاب کی صورت میں نازل کیا۔ متشابہ فقط یہ نہیں ہے کہ مقصود اور معنی میں تشابہ پایا جائے بلکہ محکمات سے تشابہ کی جہت سے یہ متشابہ ہیں۔
[۴۹] علائی طالقانی، سید محمود، پرتوی از قرآن، ج۳، ص۲۰ ـ ۱۹۔


← پہلا نکتہِ نظر میں دو اشتباہ


محمود طالقانی نے محکم اور متشابہ کا جو معنی ذکر کیا ہے اس میں دو اشتباہ پائے جاتے ہیں جوکہ اس قول کو اختیار کرنے کا سبب بنے ہیں۔
=====پہلا اشتباہ=====
متشابہ ہونے کی وجہ آیت کے معنی کا شبہ انگیز ہونا، فتنہ پرور لوگوں کے فتنہ کے لیے استعمال ہونا اور مشتبہ معانی سے اس کا سازگار اور ہم آہنگ ہونا ہے۔ سورہ آل عمران آیت ۷ میں وارد ہوا ہے کہ بعض آیات کریمہ متشابہ ہیں جن کی اتباع ٹیڑھے دل فتنہ فساد بربا کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ نیز قرآن کریم میں بالعموم وہ آیت متشابہ ہیں جو صفاتِ باری تعالی، معاد، خلقت اور شناختِ جہان و انسان سے مربوط ہیں کیونکہ ان کے معانی عمیق جبکہ فہمِ بشری تنگ اور کوتاہ ہے۔ دوسری طرف سے اگر قرآن کریم میں مثلا سورہ زمر آیت ۲۳ میں وارد ہوا ہے کہ پوری کتابِ الہی اور اس کی آیات و سورتیں زیبا، بہترین، بلند و باعظمت معانی و معارف پر مشتمل ہیں اور انہی اوصاف کے ساتھ کلام میں جلوہ گر ہیں۔ اس لیے قرآن کریم میں کسی قسم کا اختلاف اور تفاوت نہیں ہے کیونکہ اللہ کا کلام صادق اور برحق ہے۔ ان دو مفہوموں کو آپس میں خلط ملط کر کے خود ساختہ معانی پیش کرنا ایک قسم کی تفسیر بالرائے کے زمرے میں آتا ہے۔
=====دوسرا اشتباہ=====
صرف دو مراحل فرض کرنے کی وجہ روشن نہیں ہے۔ آخر کیوں پورے قرآن کو دو وجود وجودِ عرشی اور وجودِ فرشی میں تقسیم کیا گیا ہے؟ یا علامہ طباطبائی قرآن میں محکم اور متشابہ کے ذیل میں نزولِ دفعی اور نزول تدریجی کی تقسیم کو لے کر آئے ہیں؟! بلکہ اس سوال کا اٹھانا صحیح بھی ہے یا نہیں کیونکہ قرآن کریم خود فرما رہا ہے کہ پورا قرآن متشابہ نہیں بلکہ اس کی بعض آیات متشابہ ہیں:مِنْهُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ۔ وہ قرآن جس کی بعض آیات محکمات اور بعض متشابہات ہیں اس سے مراد یہی ہمارے ہاتھوں میں موجود قرآن ہے۔ لیکن کہنے والے نہ تمام قرآن کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا اور ایک مرحلہ کو علیاء، محکم اور محفوظ قرار دیا اور دوسرے مرحلہ کو سفلی اور متشابہ قرار دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورہ آل عمران آیت نمبر ۷ کے مطابق متشابہات جسے مرحلہِ سفلی کا عنوان دیا گیا ہے سے تمسک حاصل کرنا ممنوع ہے تو آخر کیسے لوگ اس مرحلہِ علیاء تک رسائی حاصل کریں؟!

← دوسرا نکتہِ نظر


دوسرا نکتہِ بعض ان گروہوں کا نظریہ ہے جو التقاطی اور الحادی افکار و نظریات کے مالک ہے اور اسلام کی آڑ میں اپنے باطل نظریات پیش کرتے ہیں جیساکہ گروهِ منافقین جسے مجاہدین خلق سے موسوم کیا جاتا ہے کہ پیش کردہ نظریات ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
محکم آیات وہ آیات ہیں جو مکتب کے اساسی اصول اور کلی افکار کو بیان کرتے ہیں۔ یہ اصول ثابت اور استوار رہنے والے ہیں جو پائیدار اور ٹھوس ثابت شدہ حقائق کی طرح ہیں، اصلِ ہدایت، باطل کا زوال، مستضعفین و محروم طبقہ کی کامیابی وغیرہ۔ ان آیات کے مقابلے آیات متشابہات آتی ہیں جو ایسے مطالب پر متشمل ہوتی ہیں جو خود اصل نہیں ہیں بلکہ وہ اصول سے نکلی ہیں۔ اس لیے آیاتِ متشابہات ثبات اور پائیداری کی صفت سے عاری ہوتی ہیں۔ آیات محکمات اسٹراٹیجی حیثیت رکھتی ہیں اور متشابہات اس اسٹرٹیجی کو عملی کرنے کے لیے مختلف ٹیکنیک کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ لہذا متشابہات ہر زمانے میں متغیر اور تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ متشابہات کا تعلق معاشرے میں موجود مختلف علوم، علومِ طبیعی میں ترقی و پیشرفت، سیاسی و اقتصادی شعبہ جات سے وابستہ ہوتے ہیں۔ پس قرآن کریم میں موجود تمام آیاتِ احکام چاہے وہ ناسخ منسوخ ہوں یا نہ ہوں ان کا تعلق متشابہات سے ہے اور وہ ٹیکنیکلی طور پر استعمال کی جائیں گی۔ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآنی احکام میں ابھی نسخ کا دروازہ کھلا ہے۔

← اس شبہ کا جواب


گروہِ منافقین کے مقاصد بلا شک و شبہ باطل اور گمراہی ہے۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح قرآن کریم کی حقانیت کو تحریف کا شکار کر کے استفادہ کے قابل نہ رہنے دیں اور اس میں موجود شرعی احکام سے متعلق شبہات جنم دے کر شریعت کو معطل کر دیں۔ قرآن کریم میں نسخ کے استمرار کا اعتقاد خود ان کے لیے مزید مشکلات اور دشواریوں کا باعث بنتا ہے۔
[۵۱] چگونہ قرآن بیاموزیم (دین امیدم قرآن)، ص۵۶ -۲۱۔
کیونکہ نسخ کلی احکام میں ہوتا ہے نہ جزئیات و فرعیات میں۔ نیز تغیر و تبدل کبھی بھی قرآنی احکام میں نہیں ہوتا کیونکہ قرآن میں وارد ہونے والے تمام احکام کلی، ثابت شدہ اور محکم اصول ہیں جن میں تبدل و تغیر نہیں آ سکتا۔ پس قرآن میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں ہے جو متغیر و قابل تبدیل ہو بلکہ قرآن کریم اپنے تمام احکام و معارف و بلند معانی سمیت محکم اور جاویدانہ ہے۔

شریعتِ اسلام کے اصول ثابت اور غیر متغیر ہیں جنہیں قواعد کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ تمام فرعی اور جزوی احکام خاص شرائط کی موجودگی میں زمان اور مکان کی مناسبت سے قابل تغیر و تبدل ہیں جو انہیں اصول و قواعد سے نکلتے ہیں۔ ایک فقیہ اپنے زمانے کے احوال و حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی میدان میں حاضر ہوتے ہوئے ان قواعد و اصولوں کی بنیاد پر اپنی نظر پیش کرتا ہے۔ ایک فقیہ ان اصول و قواعد کے عین مطابق صحت و سقم اور سالم و فاسد کی تحقیق و جستجو کرتا ہے اور اجتہاد کے ذریعے سے اپنے زمانے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح و سالم اور سقیم و فاسد کی تشخیص دیتا ہے۔ ان سب امور کا آیات کے نسخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. آل‌عمران/سوره۳، آیت ۷۔    
۲. طریحی، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، ج ۱، ص ۵۵۶۔    
۳. ہود/سوره۱۱، آیت۱۔    
۴. فیومی، احمد بن علی، المصباح المنیر، ج ۱، ص ۷۸۔    
۵. ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، ج ۱۲، ص ۱۴۴۔    
۶. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۲۶۔    
۷. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۵۴۔    
۸. زمر/سوره۳۹، آیت ۲۳۔    
۹. نساء/سوره۴، آیت ۸۲۔    
۱۰. بقره/سوره۲، آیت ۷۰۔    
۱۱. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی الفاظ القرآن، ص ۲۵۴۔    
۱۲. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی الفاظ القرآن، ص ۲۵۴۔    
۱۳. یونس/سوره۱۰، آیت ۳۲۔    
۱۴. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۴، ص ۵۰۴۔    
۱۵. معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج ۳، ص ۱۰۔    
۱۶. فاضل لنکرانی، محمد، مدخل التفسیر، ص ۱۷۷۔    
۱۷. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۱، ص ۱۵۹۔    
۱۸. کہف/سوره۱۸، آیت ۲۴۔    
۱۹. صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، ص‌۲۱۶۔    
۲۰. یوسف/سوره۱۲، آیت ۳۶۔    
۲۱. اسراء/سوره۱۷، آیت ۳۵۔    
۲۲. ابن تیمیۃ، احمد بن عبد الحلیم، مجموع الفتاوی، ج ۱۳، ص ۲۸۹۔    
۲۳. سبزواری، سید عبد الاعلی، مواہب الرحمن فی تفسیر القرآن، ج ۵، ص ۷۶۔    
۲۴. زخرف/سوره۴۳، آیت ۳۔    
۲۵. انفال/سوره۸، آیت ۱۷۔    
۲۶. انفال/سوره۸، آیت ۲۴۔    
۲۷. رازی، فخر الدین، تفسیر کبیر، ج۱۵، ص۴۷۳۔    
۲۸. حشر/سوره۵۹، آیت ۱۹۔    
۲۹. انعام/سوره۶، آیت ۱۱۰۔    
۳۰. قیامة/سوره۷۵، آیت ۲۳ ۲۲۔    
۳۱. زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۴، ص۶۶۲۔    
۳۲. نمل/سوره۲۷، آیت ۳۵۔    
۳۳. انعام/سوره۶، آیت ۱۰۳۔    
۳۴. ابن جنی، عثمان بن جنی، اللمع في العربيۃ، ص۶۸ ـ ۶۱۔
۳۵. ابن ابی طالب، مکی بن ابی‌ طالب، الابانۃ عن معاني القراءات، ص۱۹ ـ ۱۰۔
۳۶. معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج۳، ص۹۸۔    
۳۷. طہ/سوره۲۰، آیت ۵۔    
۳۸. ابن بطوطہ، محمد بن عبد اللہ، رحلۃ ابن بطوطہ، ج ۱، ص ۱۲۸۔    
۳۹. قلم/سوره۶۸، آیت ۴۲۔    
۴۰. زمخشری، جار اللہ، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۴، ص۵۹۴ ۵۹۳۔    
۴۱. معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج۳، ص۱۵۳۔    
۴۲. معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، ج۳، ص۱۴۵۔    
۴۳. انعام/سوره۶، آیت۱۵۱۔    
۴۴. رشید رضا، محمد، تفسیر المنار، ج۳، ص۱۳۷۔    
۴۵. رشید رضا، محمد، تفسیر المنار، ج۳، ص۱۳۷۔    
۴۶. رشید رضا، محمد، تفسیر المنار، ج۳، ص۱۳۵-۱۳۷۔    
۴۷. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۳، ص۴۲ ۳۱۔    
۴۸. زمر/سوره۳۹، آیت ۲۳۔    
۴۹. علائی طالقانی، سید محمود، پرتوی از قرآن، ج۳، ص۲۰ ـ ۱۹۔
۵۰. آل‌عمران/سوره۳، آیت ۷۔    
۵۱. چگونہ قرآن بیاموزیم (دین امیدم قرآن)، ص۵۶ -۲۱۔


مأخذ

[ترمیم]

سایت اندیشہ قم، مقالہِ محکم و متشابہ سے یہ تحریر لی گئی ہے، تاریخ مشاہدہ:۱۳۹۴/۱۱/۲۲۔    






جعبه ابزار