اصل مثبت
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اصلِ مثبت
اصول فقہ کی اصطلاح ہے جو تمام اصولِ عملیہ میں جاری ہوتی ہے لیکن اکثر و بیشتر اس کو استصحاب کے باب میں ذکر کیا جاتا ہے اور اکثر مثالیں بھی بابِ استصحاب سے پیش کی جاتی ہیں۔
اصل مثبت
اس کا اطلاق اس شیء پر ہوتا ہے جس پر اثرِ شرعی کے مترتب ہونے کو کسی عقلی یا عادی امر کے توسط سے ثابت کیا جائے۔
اصل مثبت
اس سے مراد کسی شیء کا
استصحاب کرنا اور اس شیء کے لیے کسی امرِ خارجی کو ثابت کرنا ہے۔
[ترمیم]
اصولِ عملیہ میں استصحاب کی اقسام میں سے ایک اصل مثبت ہے جس کے مقابلے میں
اصل غیر مثبت آتا ہے۔ اصلِ مثبت کا تعارف اصولیوں نے اس طرح سے کرایا ہے:
فالمقصود من الأصل المثبت ترتيب الآثار الشرعية للمستصحب مع الواسطة العقلية أو العادية؛ اصل مثبت سے مقصود استصحاب میں مستصحَب کے لیے عقلی یا عادی واسطے کے ذریعے آثارِ شرعیہ کا مترتب ہونا ہے۔
اصلِ مثبت اس جگہ ہوتا ہے جہاں مستصحب اور اثرِ شرعی کے مابین ایک امرِ عقلی یا امرِ عادی واسطہ بن رہا ہو۔ عادی حالت میں استصحاب اس طرح سے ترتیب پاتا ہے: مستصحب >> اثر شرعی۔ لیکن اصل مثبت کی صورت میں استصحاب اس طرح سے تشکیل پائے گا:
مُسۡتَصۡحَب >>
امر عقلی أو عادی >>
أثر شرعی۔
[ترمیم]
اثر شرعی کے مترتب ہونے کے اعتبار سے اگر استصحاب کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمارے سامنے مختلف صورتیں بنتی ہیں۔ بعض اوقات مستصحب پر اثرِ شرعی براہِ راست مترتب ہوتا ہے اور بعض اوقات استصحاب کرتے ہوئے مستصحَب پر اثرِ شرعی کسی ذریعے اور واسطے سے مترتب ہوتا ہے۔
بعض اوقات استصحاب راہ راست
اثر شرعی رکھتا ہے، اس صورت میں اثرِ شرعی کا مستصحب پر مترتب ہونا ضروری ہے، مثلا زید کی
عدالت کا استصحاب کریں تو اس کا اثرِ شرعی یہ مترتب ہو گا کہ
نماز میں اس کی اقتداء کرنا جائز ہے، یا یہ مثال لے لیں کہ زید کی زندگی کا استصحاب کریں اور اس کے بعض آثار کو اس کے لیے ثابت کریں تو اس پر یہ اثرِ شرعی مترتب ہو گا کہ اس کے اموال کی تقسیم
حرام قرار پائے گااور اس کی زوجہ اس کے
نکاح میں باقی سمجھی جائے گی۔ ان مثالوں سے غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ مستصحب پر براہِ راست چند
شرعی احکام جاری ہو رہے ہیں، جیسے عدالتِ زید مستصحَب ہے جس پر یہ حکمِ شرعی مترتب ہو رہا ہے کہ نماز میں اس کی اقتداء جائز ہے۔
بعض اوقات جب ایک شیء کا استصحاب کیا جاتا ہے تو اثرِ شرعی براہ راست مستصحَب پر مترتب نہیں ہوتا بلکہ ایک امرِ عادی یا
امر عقلی واسطہ بنتا ہے اور اس کی وجہ سے مستصحب پر اثرِ شرعی مترتب ہوتا ہے۔ اگر مستصحب کے لیے اثر شرعی کسی لازمہِ عادی یا لازمہِ عقلی کے ذریعے سے ثابت ہو تو اس استصحاب کو اصلِ مثبت کہا جاتا ہے۔
اگر ایک شیء کا استصحاب کیا جائے اور مستصحَب کے لیے ایک امرِ عادی جوکہ اس مستصحب کے لیے لازمہ بن رہا ہے ثابت تو اس لازمِ عادی کی وجہ سے اثرِ شرعی مستصحب پر مترتب ہو گا، مثلا ایک بچے کی زندگی اگر بیس (۲۰) سال ہو تو اس کی زندگی کا عادی لازمہ ہے کہ اس کے چہرے پر داڑھی کے بال اگ آئیں۔ اگر زید بچپن میں غائب ہو جاتا ہے اور ۲۰ سال گزر جاتے ہیں۔ اب ۲۰ سال بعد یہ شک کرتے ہیں کہ وہ زندہ ہے یا مردہ؟ ہم اس کی زندگی کا استصحاب کرتے ہیں، اس صورت میں حیاتِ زید مستصحب کہلائے گا۔ ۲۰ سال بھی حیاتِ زید کے استصحاب کا عادی لازمہ یہ ہے کہ اس کے چہرے پر داڑھی کے بال اگے ہوں۔ اس عادی لازمہ کی وجہ سے اثرِ شرعی کے مترتب ہونے کی مثال اس طرح سے بنے گی کہ زید کا باپ
نذر مانتا ہے کہ اگر اس کے بیٹے کے چہرے پر داڑھی آ جائے تو وہ ۱۰۰۰ روپے
صدقہ دے گا۔ پس حیاتِ زید کا استصحاب کرنے کی صورت میں نذر کا
وفا کرنے کا
وجوب مستصحب پر مترتب ہو گا۔ یہ اثرِ شرعی یعنی نذر پر عمل کرنا ایک عادی لازمہ کے توسط سے مستصحب پر عائد ہوا ہے اور وہ لازمہِ عادی زندہ شخص کے چہرے پر داڑھی اگنے کو ثابت کرنا ہے۔
بعض اوقات مستصحب پر اثرِ شرعی ایک عقلی لازمہ کے توسط سے مترتب ہوتا ہے، مثلا
ارث کے احکام میں
فقہاء نے درج کیا ہے کہ اگر بیٹا باپ کی زندگی میں مر جائے تو بیٹے کو باپ کی
میراث نہیں ملے گی اور نتیجے میں بیٹے کی اولاد میں دادا کی میراث تقسیم نہیں ہو گی۔ لیکن اگر باپ پہلے مر جائے اور تو بیٹا میراث کا حقدار ہو گا اور بیٹے کی وفات پر اس کے بچوں میں اس کا
مال تقسیم ہو گا۔ اس مسئلہ کے مطابق اگر کسی شخص کا باپ
فروری کے مہینے میں مر جاتا ہے اور اس کا بیٹا
جنوری کے مہینے میں جوکہ فروری سے پہلے آتا ہے غائب ہو جاتا ہے۔ اب باپ کی میراث کے وقت بچہ موجود نہیں ہے اور کچھ عرصہ بعد اس بچے کی لاش ملتی ہے۔ اب اگر فروری کے مہینے میں بیٹے کی زندگی کا استصحاب کیا جائے تو اس صورت میں بیٹا میراث کا حقدار ہو گا۔ کیونکہ فروری میں فرزند کی حیات کے استصحاب کا لازمہ یہ ہے کہ بچہ اپنے باپ کی وفات کے بعد مرا ہے۔ بعد میں مرنا ایک لازمہِ عقلی ہے اور اس کے توسط سے مستصحب یعنی حیاتِ فرزند پر اثر شرعی مترتب ہو رہا ہے جوکہ بچے کے لیے باپ کی میراث کا ثابت ہونا ہے۔
[ترمیم]
مستصحب کی نسبت سے امرِ خارجی کی تین حالتیں ہوتی ہیں:
۱۔
لازم: امر خارجی لازمِ مستصحَب ہو، مثلا زید کی زندگی کا استصحاب کیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کے بال بڑھ گئے ہیں یا چہرے پر داڑھی نکل آئی ہے۔
۲۔
ملزوم: امر خارجی ملزومِ مستصحب ہو، مثلا آگ کا استصحاب کیا جائے جس کا نتیجہ دھواں کا وجود ہے۔
۳۔ ملازم: امر خارجی ملازمِ مستصحب ہو، مثلا: زید کی زندگی کا استصحاب کیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زید کے دل میں گرمائش موجود ہے۔
[ترمیم]
اصولیوں کے درمیان اصل مثبت کی
حجیت پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر معاصر محققین اصلِ مثبت کی عدمِ حجیت کے قائل ہیں۔ البتہ انہوں نے چند موارد استثناء کیے ہیں اور ان موارد میں وہ معتقد ہیں کہ اصلِ مثبت حجیت رکھتا ہے۔
:
اصل مثبت اس وقت ہوتا ہے جب مستصحب پر اثرِ شرعی کسی عقلی یا عادی امر کے ذریعے مترتب ہو۔ یا واسطہ کبھی مخفی ہوتا ہے اور کبھی آشکار۔ ہر دو صورتوں کو عرفِ عام قابل اعتناء قرار نہیں دیتے۔
علماءِ اصول بیان کرتے ہیں کہ اگر اصل مثبت میں عقلی یا عادی واسطہ اس قدر مخفی اور پوشیدہ ہو کہ
عرفِ عام اس کو شمار ہی نہیں کرتے تو اس صورت میں واسطہ کا اثر خود مستصحب کے اثر سے پہچانا جائے گا، مثلا
وضو یا
غسل کے مورد میں اگر کوئی شخص
شک کرے کہ بدن پر کوئی ایسی شیء تھی جو پانی پہنچنے سے مانع ہو یا ایسی شیء موجود نہیں تھی؟ اگر اس مورد میں عدمِ مانع کا استصحاب کیا جائے تو اگرچے حکمِ شرعی کا موضوع رکاوٹ و مانع کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ موضوع تمام اعضاءِ بدن تک پانی پہنچنا یا اعضاءِ وضو تک پانی کا پہنچنا ہے، لیکن اس کے باوجود استصحاب یعنی مانع کا نہ ہونا کا لازمہِ عقلی پانی تمام
اعضاء تک پہنچنا نکلتا ہے۔ پس اس مورد میں پانی کا مطلوبہ اعضاء تک پہنچنا مستصحب کا لازمہِ عقلی ہے لیکن عرف اس مخفی واسطہ کو قابل اعتناء قرار نہیں دیتا۔
اگر مستصحب کے لیے اثر شرعی کسی امر کے توسط سے ثابت ہو اور وہ واسطہ آشکار اور جلی ہو تو عرف یہاں حکم لگاتا ہے کہ واسطہ اور ذی واسطہ کے درمیان قریبی تعلق اور ربط موجود ہے۔ جس طرح
عالمِ تکوین میں واسطہ اور ذی الواسطہ کے درمیان جدائی نہیں کر سکتے اسی طرح
عالم اعتبار میں بھی ان دونوں کے درمیان جدائی کا
امکان موجود نہیں ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ واسطہ اور ذی واسطہ کے درمیان یہ شدید تعلق اور ارتباط دونوں کا آپس میں
لازم ملزوم ہونے کی بناء پر ہے یا کسی اور وجہ سے ہے۔ اس صورت میں عرف کہتا ہے کہ ایک موضوع کے
تعبد کا مطلب لازم و ملزوم کا تعبد ہے۔ پس دونوں میں شدید اتصال و تعلق باعث بنتا ہے کہ واسطہ کے اثر کو ہی ذی واسطہ کا اثر شمار کر لیا جائے، مثلا اگر تیس (۳۰)
رمضان کو شک ہو جاتا ہے کہ آج ۳۰ رمضان المبارک ہے یا یکم
شوال، یہاں اگر
یومِ شک کے مورد میں ماہِ رمضان کا استصحاب کیا جائے تو کل کا دن روزِ
عید شمار ہو گا اور اس پر احکامِ عید مترتب ہوں گے۔ کل کے دن جوکہ یومِ شک ہے کو عید کا دن قرار دینا اور اس پر احکامِ عید کا مترتب ہونا ۳۰ رمضان المبارک کے استصحاب کے لوازمِ عقلی میں سے ہے۔ عرفِ عام اس کو لازم و ملزوم شمار کرتے ہیں اس لیے وہ اس واسطہ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
[ترمیم]
اگرچے اصلِ مثبت کی بحث تمام اصولِ عملیہ سے مربوط بنتی ہے لیکن اصولیوں نے اس بحث کو باب استصحاب میں مطرح کیا ہے اور اکثر و بیشتر مثالیں استصحاب کے باب سے ذکر کی ہیں۔
[ترمیم]
وہ علماءِ اصول جو اصلِ مثبت کی حجیت کے قائل نہیں اور صراحتًا عدمِ
حجیت کو بیان کرتے ہیں وہ اپنے موقف پر چند دلائل پیش کرتے ہیں:
شیخ انصاری بیان کرتے ہیں کہ آثار دو قسم کے ہوتے ہیں:
:
۱۔ قابل جعل کے آثار
۲۔ غیر قابل جعل کے آثار
عقلی اور عادی آثار جعل ہونے کی قابلیت نہیں رکھتے کیونکہ وہ خودِ متیقن کا اثر نہیں ہیں۔
شیخ مرتضی انصاری پر یہ اشکال کیا جاتا ہے:
• تمام علماء اصلِ مثبت کے واقع ہونے کو
ممکن قرار دیتے ہیں اور اس کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے مورد میں بحث کرتے ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے اصلِ مثبت کے وقوع کے امکان کا انکار کیا ہو۔
• شیخ انصاری قائل ہیں کہ اصلًا اصلِ مثبت کا واقع ہونا
محال ہے نہ کہ ممکن۔ جب
مقامِ ثبوت میں ہی اشکال ہے تو پھر بحث اثباتِ حجیت و عدمِ حجیت تک نہیں پہنچتی کہ کہا جائے کہ شیخ حجیت کو قبول کرتے ہیں یا اس کی عدمِ حجیت کو۔
اخوند خراسانی اصلِ مثبت کے وقوع پر اس طرح سے استدلال قائم کرتے ہیں:
اصل مثبت --- واسطہ کے ساتھ اثرِ شرعی کا ہونا ہے۔
واسطہ کے ساتھ اثر شرعی کا ہونا خارج از قدرِ متیقن لا تنقض۔
نتیجہ: اصل مثبت --- خارج از قدر متیقن لا تنقض۔
اخوند خراسانی نے جو
دلیل پیش کی ہے اس کے کبری پر اشکال بنتا ہے۔ وہ اشکال یہ ہے:
واسطہ کے ذریعے اثرِ شرعی کا ہونا ---
زرارہ کے ساتھ تخاطبِ امام کے مورد میں نہیں ہے۔
ہر وہ جو تخاطبِ
امام کے مورد میں نہیں ہے--- قدر متیقن کے لیے مضر نہیں ہے۔
نتیجہ: واسطہ کے ذریعے اثر شرعی کا ہونا ---
قدر متیقن کے لیے مضر نہیں ہے۔
کتاب الددر میں
علامہ حائری بیان کرتے ہیں:
اصل مثبت --- واسطہ کے ساتھ اثر شرعی کا ہونا ہے۔
واسطہ کے ساتھ اثر شرعی کا ہونا --- خارج از انصراف لاتنقض ہے۔
نتیجہ: اصل مثبت --- خارج از انصراف لاتنقض ہے۔
انصراف اس جگہ ہوتا ہے کہ جہاں
کثرت استعمال ہو۔ یہاں چونکہ کثرتِ استعمال
وجود نہیں رکھتا اس لیے یہ بات کہ خارج از انصراف لا تنقض درست نہیں ہے۔
صاحب کفایہ کہتے ہیں: لا تنقض الیقین متیقن کے آثار کے مترتب ہونے پر
دلالت کرتا ہے اور غیر متیقن کے آثار پر دلالت نہیں کرتا۔
اگر یہی اثرِ شرعی ایک اور اثرِ شرعی بھی رکھتا تو محقق خراسانی کے مبنی کے تحت یہ اس اثر کو نہیں اٹھائے گا۔
لازم دو کی قسمیں ہیں:
•
لازم بیّن: اگر ملزوم اور لازم کے درمیان ایسی ملازمت پائی جائے کہ ملزوم کے تصور سے لازم کا تصور آ جائے تو اس کو لازم بیّن کہتے ہین، مثلا جیسے سورج کا لفظ ہم سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کی کرنوں اور روشنی کا
تصور آ جاتا ہے۔
•
لازم غیر بیّن: اگر
ملزوم کے تصور سے لازم کا تصور
ذہن میں نہ آئے بلکہ ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان ملازمت کا بھی تصور کیا جائے تو اس کو لازم غیر بیّن کہتے ہیں۔ پس اگر ہم تفصیل کے قائل ہو جائیں تو کہیں گے:
•اگر لازم بیّن ہو >> تو لا تنقض کا اثر اس پر آئے گا۔
•اگر لازم غیر بیّن ہو >> تو لا تنقض کا اثر اس پر نہیں آئے گا۔
استصحاب ہر دو جگہ کار آمد ہے:
•
احکام میں استصحاب
• موضوعات میں استصحاب
موضوعات میں استصحاب اس وقت مفید و فائدہ مند ہے جب وہ کبریِ شرعی کے ہمراہ ہو، مثلا ہم استصحاب کرتے ہیں کہ لوٹے میں پانی پاک ہے تو یہاں سے مسئلہِ شرعی کا صغری اور اس کے ذیل میں کبری یہ بنے گا:
(صغری): یہ پانی پاک ہے۔
(کبری):
کل نجس غسل بماء طاهر فهو طاهر؛ ہر وہ نجس جسے پاک پانی سے دھویا جائے تو وہ پاک و طاہر ہے۔
(نتیجہ): اس پانی سے جو لباس میں نے دھویا ہے وہ پاک ہے۔
پس اگر مستصحَب کے لیے عقلی یا عرفی واسطہ بنے تو
کبری شرعی اثر نہیں رکھے گا۔
[ترمیم]
امارات و اصول عملیہ میں فرق یہ ہے کہ
امارات کے لوازم حجت ہیں جبکہ اصولِ عملیہ کے
لوازم حجت نہیں ہیں۔
محقق خراسانی بیان کرتے ہیں کہ امارہ واقع سے خبر دیتا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۱، ص۵۶۲ - ۵۶۳۔ فرہنگ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۲۱۲، یہ تحریر مقالہِ اصل مثبت سے مأخوذ ہے۔