اعلم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



احکام شرعی كو جاننے مىں دوسروں كى نسبت زىادہ فہم و فراست اور شعور و دانائى ركھنے والے كو اعلم كہتے ہىں۔ اعلم كے عنوان سے اجتہاد و تقلید كے باب مىں گفتگو كى جاتى ہے۔


اعلم كى تعریف

[ترمیم]

فقہى احكام مىں اس مجتہد كو اعلم كہا جاتا ہے جو مقام استنباط مىں اصول اور قواعد کلی سے فروع كو استخراج كرنے مىں دىگر مجتہدىن كى نسبت زىادہ قدرت و فہم و فراست كا مالك ہو اور فقہ سے متعلق آىات اور احادىث كا علم دوسروں كى نسبت زىادہ ركھتا ہو۔

اعلمىت كو معتبر قرار دىنا

[ترمیم]

علم فقہ مىں تىن جگہوں مىں اعلم ہونے سے بحث كى جاتى ہے:
۱۔ مقام فتوى مىں اعلمىت كا معتبر ہونا؛
۲۔ مقام قضاوت مىں قاضى كى شرائط مىں سے اعلمىت كا ہونا؛
۳۔ دىگر امور مىں جىسے اوقاف كى تولىت مىں اعلمىت كا شرط ہونا؛

← اعلمىت كا مقام فتوى مىں معتبر ہونا


تقلىد كے واجب ہونے كى بحث مىں ىہ مسئلہ اٹھاىا جاتا ہے كہ آىا اعلم كى تقلىد كرنا واجب ہے ىا نہىں؟ اس بارے مىں فقہاء كے درمىان اختلاف وارد ہوا ہے۔

←← مشہور فقہاء كى نظر


اگر غىر اعلم كا فتوى اعلم كے فتوى كے مطابق نہ ہو تو قول مشہور كے مطابق احتیاط كى بناء پر واجب ہے كہ اعلم كى تقلید كى جائے۔

←← اعلم كى تقلىد مطلقا واجب ہے


اىك قول كے مطابق اعلم كى تقلید مطلقًا واجب ہے حتى اس مورد مىں بھى جب غىر اعلم كا فتوى اس كے فتوى كے موافق ہو۔

←← اعلم كى تقلىد كے احكام


اعلم كى تقلىد كے واجب ہونے كے قول كے مطابق اعلم كى تقلىد تب بھى واجب ہے جب فتوی كے اختلاف كا اجمالی طور پر علم ہو۔ نىز اگر مجتہدىن مىں سے كسى اىك كا اعلم ہونا غىر مشخص ہو تو اعلم مجتہد كى تحقیق كرنا واجب ہے۔
اگر فتوی مىں اختلاف كا علم ہو اور معلوم نہ ہو كہ مجتہدىن مىں سے كون اعلم ہے تو اس صورت مىں اعلم كى تحقىق كرنے كے واجب ہونے مىں اختلاف پاىا جاتا ہے۔
نىز اگر فتوی مىں اختلاف كا علم نہ ہو اور نہ ىہ معلوم ہو كہ كونسا مجتہد اعلم ہے ىا فتوى مىں اختلاف كا علم نہ ہو لىكن غىر مشخص طور پر كسى اىك مجتہد كے اعلم ہونے كا علم ہو تو ان صورتوں مىں اعلم كى تلاش و تحقىق كرنا واجب نہىں ہے۔ البتہ اعلم كى تقلىد كے وجوب كے قول كے مطابق اس صورت مىں بھى اعلم كے بارے مىں فحص و تحقىق واجب ہے جب غىر اعلم كا فتوى اعلم كے ساتھ موافق ہو۔

←← اس كى تقلىد جس كى اعلمىّت كا احتمال ہو


۱) اگر مجتہدىن مىں سے كسى اىك كے اعلم ہونے كا علم نہ ہو سكے اور نہ اعلم كے وجود پر كوئى بیّنہ و عادل گواہ موجود ہو، نيز اسى طرح اگر مجتہدىن مىں كسى اىك كے اعلم ہونے كا ظن ىا احتمال ہو ىعنى اىسے مجتہد كى تقلىد جس كى اعلمىت كے بارے مىں ظن اور احتمال ہے، ان موارد كے بارے مىں فقہاء مىں اختلاف پاىا جاتا ہے كہ ہر دو مورد مىں بطور مطلق (ىعنى احتىاط ممكن ہے ىا نہىں) اعلم كى تحقىق و جستجو كرنا واجب ہے ىا نہىں بلكہ فقط اس صورت مىں واجب ہے جب احتیاط كرنا ممكن نہ ہو۔
۲) وہ مجتہد جس كى اعلمىت كا ظن ىا احتمال ہو غىر معىن اور نا مشخص ہے تو مکلَّف كو اختیار حاصل ہے كہ دو مجتہدوں مىں جس كے قول كے مطابق عمل كرنا چاہے عمل كر سكتا ہے۔ اگرچے بعض نے اس مسئلہ مىں فقہاء كے اتفاق كے باوجود مخالفت كرتے ہوئے اس كو احتىاط واجب قرار دىا ہے۔

← مقام قضاوت مىں اعلمىت كا اعتبار


قضاوت كے باب مىں قاضی كے اعلم ہونے كى شرط كے بارے مىں اختلاف پاىا جاتا ہے۔ مشہور كى طرف نسبت دى گئى ہے كہ قاضى ہونے كے لىے شرط ہے كہ وہ اعلم ہو۔

← مقام ولاىت مىں اعلمىت كا اعتبار


قول مشہور ىہ ہے كہ فتوى اور قضاوت كے مورد كے علاوہ دىگر موارد جىسے متولی كے بغىر اوقاف كى تولىت جوكہ مجتہد كے ساتھ مربوط ہے مىں اعلمىت شرط نہىں ہے۔

اعلمىت كو جاننے كے طريقے

[ترمیم]

مجتہد كے اعلم ہونے كو درج ذىل تىن طريقوں مىں سے كسى اىك كے ذريعے جانا جا سكتا ہے:
۱. اعلم ہونا كا علم حاصل ہو جائے
۲. شہادت ىعنى دو عادل (بیّنہ) كى گواہى دىنا۔
۳. شہرت، كسى كے اعلم ہونے كى اىسى شہرت ہو جس سے علم حاصل ہو جائے كہ وہ اعلم ہے۔
اس بارے مىں اختلاف پاىا جاتا ہے كہ اعلمىت كو ثابت كرنے كے لىے اىك عادل كى خبر ىا گواہى ہونا ضرورى ہے ىا نہىں بلكہ اگر كوئى ثقہ قابل اطمىنان فرد ہے تو اس كى گواہى بھى كفاىت كرے گى؟ البتہ اعلمىت كو ثابت كرنے كے لىے ىہ شرط ہے كہ دو عادل حضرات كى گواہى ىا اىك عادل ىا ثقہ كى خبر وہ دىگر عادل ىا ثقہ كى گواہى ىا خبر سے ٹكراتى نہ ہو۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. یزدی، سید محمد کاظم، ج۱، ص ۲۱، مسئلہ:۱۷۔    
۲. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی،ج ۱، ص ۲۶۔    
۳. خوئی، سید ابو القاسم، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، ج۱، ص ۱۳۴۔    
۴. سبزواری، سید عبد الاعلی، ج۱، ص۲۵۔    
۵. یزدی، سید محمد کاظم، ج۱، ص ۲۲، مسئلہ:۱۷۔    
۶. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی،ج ۱، ص ۲۹۔    
۷. خوئی، سید ابو القاسم، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، ج۱، ص ۱۶۳۔    
۸. سبزواری، سید عبد الاعلی، ج۱، ص۲۹۔    
۹. یزدی، سید محمد کاظم، ج۱، ص ۲۳، مسئلہ:۲۱۔    
۱۰. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی،ج ۱، ص ۳۹۔    
۱۱. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی،ج ۱، ص ۶۶۔    
۱۲. خوئی، سید ابو القاسم، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، ج۱، ص ۲۱۳۔    
۱۳. سبزواری، سید عبد الاعلی، ج۱، ص۳۷۔    
۱۴. خوئی، سید ابو القاسم، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، ج۱، ص ۲۹۷۔    
۱۵. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی،ج ۱، ص ۱۰۶۔    
۱۶. حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی،ج ۱، ص ۳۸۔    
۱۷. سبزواری، سید عبد الاعلی، ج۱، ص۳۶۔    


مأخذ

[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج‌۱، ص۵۷۸‌ تا ۵۷۹‌۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : تقلید و اجتہاد | فقہ




جعبه ابزار