امام حسن مجتبیؑ کا زندگی نامہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حسن بن علی بن ابی طالبؑ
اہل تشیع کے دوسرے
امام،
امام علیؑ اور
حضرت فاطمہؑ کے فرزند اور
حضرت محمدؐ کے بڑے نواسے ہیں۔
[ترمیم]
امام حسن بن علی بن ابی طالبؑ
شیعوں کے دوسرے امام اور
امام علیؑ اور
حضرت فاطمہؑ کے بڑے فرزند کی ولادت
ہجرت کے تیسرے سال ماہ
رمضان کے وسط میں ہوئی۔
آپؑ ۳۷ برس کے سن میں
امامت و
خلافت کے مقام پر فائز ہوئے۔ آپؑ نے ۴۱ برس کے سن میں
معاویہ کے ساتھ
صلح کی۔ آپ کا دورِ حکومت چھ ماہ اور تین دن پر محیط ہے۔ امام حسنؑ صلح کے بعد مدینہ تشریف لے گئے اور دس برس تک مدینہ میں رہے یہاں تک کہ سنہ ۵۰ ہجری میں معاویہ کی سازش کے نتیجے میں
زہر سے ۴۸ برس کے سن میں
شہید کر دئیے گئے۔ آپؑ کو
بقیع کے
قبرستان میں دفن کیا گیا۔
[ترمیم]
حسن بن علی بن ابی طالبؑ
شیعوں کے دوسرے
امام ،
امام علیؑ اور
حضرت فاطمہؑ کے بڑے بیٹے اور
رسول اکرمؐ کے بڑے نواسے مشہور قول کی بنا پر ۱۵
رمضان المبارک سنہ تین ہجری
مدینہ شہر
میں پیدا ہوئے۔
البتہ اس بارے میں
شیعہ اور
سنی کتب میں دیگر اقوال بھی نقل ہوئے ہیں جو خلافِ مشہور ہیں۔
مثلا بعض کتب میں آپ کی ولادت سنہ دو ہجری میں قرار دی گئی ہے۔
نومولود کے دائیں کان میں
آذان اور بائیں میں
اقامت سنت ہے۔ رسول خداؐ نے اس عزیز نوزاد کیلئے یہ
سنت خود انجام دی،
جب حضرتؑ کو آپؐ کی گود میں دیا گیا تو آپؐ نے دائیں کان میں آذان اور بائیں میں اقامت کہی۔
ساتویں دن ایک گوسفند کا
عقیقہ کیا اور اس کی ایک ران
دائی کو بھجوا دی۔
اہل سنت کی بعض
روایات میں منقول ہے کہ ساتویں دن نوزاد کا
ختنہ کیا گیا
لیکن اہل تشیع کی روایات میں یہ ہے کہ آئمہ اطہارؑ کے منجملہ خواص میں سے ایک ہے کہ وہ
مختون یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوتے تھے، البتہ
استحباب و سنت کے عنوان سے روایات کے مطابق ’’امرارِ موسیٰ‘‘ کیا جاتا تھا۔
رسول خداؐ نے حکم دیا کہ نوزاد کا سر ساتویں دن تراشا جائے اور اس کے ہم وزن
صدقہ دیا جائے، پھر نوزاد کے سر پر ’’خلوق‘‘ ایک قسم کا عطر ملا، پھر اس زمانے کی رسم کہ نومولود کے سر پر خون ملتے تھے؛ کی مذمت کے عنوان سے
اسماء کو مخاطب کر کے فرمایا: «یا اسماء الدم فعل الجاهلیه؛ اے اسماء! نوزاد کے سر پر خون ملنا زمانہ
جاہلیت کے کاموں میں سے ہے۔!»
اسلام میں نوزاد کیلئے ایک اور سنت اس کیلئے دعا کا
تعویذ ہے، یعنی اس کو نظر بد اور شیاطینِ جن و انس سے محفوظ رکھنے کیلئے
دعا پڑھنے یا لکھنے کے وسیلے سے خدا کی پناہ میں قرار دیتے ہیں۔ شیعہ و اہل سنت کتب میں منقول بہت سی روایات کے مطابق رسول خداؐ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن و حسینؑ کو یہ دعا تعویذ فرمائی: «اعیذ کما بکلمات الله التامه من کل شیطان وهامه و من کل عین لامه؛ تم دونوں کو اللہ کے کامل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں ہر بدخواہ
شیطان سے اور ہر نظر بد سے!۔
[ترمیم]
پیغمبرؐ اور
اہل بیتؑ کی سیرت میں بچوں کیلئے نیک نام کا انتخاب ان کے بنیادی حقوق میں سے شمار کیا گیا ہے۔ رسول خداؐ نے اس کی تلقین فرمائی ہے۔ اس اعتبار سے بڑے نواسے کی ولادت کے وقت پیغمبرؐ اس کیلئے خوبصورت ترین نام انتخاب کرنے کا سوچ رہے تھے۔
شیعہ سنی کتب میں مشہور ہے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے نام کا انتخاب خدا کے حکم سے ہوا اور رسول خداؐ کے حکم سے امام حسنؑ اور امام حسینؑ کیلئے حسنینؑ نام تجویز کیا گیا۔
بعض تاریخی اور روائی منابع کے مطابق:
جزیرۃ العرب کے لوگ اس سے قبل حسن و حسین ناموں سے واقف نہیں تھے کہ اپنے بچوں کا یہ نام رکھتے۔ یہ دونوں نام خدا کی طرف سے پیغمبرؐ پر
وحی ہوئے تاکہ حضرتؐ علیؑ و فاطمہؑ کے بچوں کے یہ نام رکھیں۔
اہل سنت سے منقول بہت سی روایات میں وارد ہے کہ یہ دو باشرافت نام حسن و حسین کا
جاہلیت میں کوئی سابقہ نہیں تھا اور یہ بہشتی نام ہیں۔
طبری کی کتاب
ذخائر العقبیٰ میں عمران بن سلیمان سے منقول ہے: «الحسن و الحسین اسمان من اسماء اهل الجنه، ما سمیت بهما فی الجاهلیه؛
حسن و حسین اہل
بہشت کے نام ہیں اور زمانہ جاہلیت میں ان کا سابقہ نہیں ہے۔
دسویں صدی ہجری کے معروف اہل سنت عالم
جلال الدین سیوطی سے منقول ہے کہ: حسن و حسین اہل بہشت کے دو نام ہیں اور
عرب اس سے پہلے اپنے بچوں کا یہ نام نہیں رکھتے تھے۔
ابن اثیر، کتاب
اسد الغابہ میں لکھتے ہیں: لوگ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی ولادت سے پہلے اس نام سے آشنا نہیں تھے کہ اپنے بچوں کا یہ نام رکھتے کیونکہ یہ دونوں نام حسنینؑ کی ولادت کے وقت خدا کی طرف سے پیغمبرؐ پر وحی ہوئی کہ علیؑ و فاطمہؑ کی اولاد کو ان ناموں سے موسوم کریں۔
کتاب
عبقات الانوار میں منقول ہے: جس دن امام حسنؑ کی ولادت ہوئی تو حضرت
جبرئیلؒ رسول اللہ پر اترے اور کہا: اے محمد! خداوند عالم نے آپ کو
سلام پہنچایا ہے اور فرمایا ہے کہ علی کو آپ سے وہی نسبت ہے جو
ہارون کو
موسیٰ سے ہے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، پس اپنے اس
فرزند کا نام ہارون کے بیٹے کے نام پر رکھو اور ہارونؑ کے فرزندان کے نام شبّر و شبّیر تھے۔
ابن شہر آشوب نے اپنی کتاب
مناقب میں عمران بن سلیمان اور عمرو بن ثابت سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: ان الحسن و الحسین اسمان من اسامی اهل الجنه و لم یکونا فی الدنیا؛
حسن و حسین اہل بہشت کے دو نام ہیں کہ جن کا دنیا میں وجود نہیں تھا۔
محبّ الدین طبری نے اپنی سند سے اسماء بنت عمیس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: جب حضرت فاطمہؑ کے ہاں ان کے فرزند حسن کی ولادت ہوئی تو پیغمبرؐ ان پر وارد ہوئے اور فرمایا: اے اسماء! میرے فرزند کو میرے پاس لاؤ۔ میں نے ایک زرد کپڑے میں لپیٹ کر حضرتؑ کے ہاتھوں میں دیا۔ حضرتؐ نے وہ کپڑا جدا کر دیا اور فرمایا: کیا میں نے تمہیں نصیحت نہیں کی ہے کہ کبھی کسی مولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹو؟! اسماء کہتی ہیں: میں نے اپنے فرزند کو سفید کپڑے میں لپیٹا۔ حضرتؐ نے اسے ہاتھوں میں لیا اور ان کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ پھر علیؑ سے فرمایا: اس کا کیا نام رکھا ہے؟! حضرتؑ نے عرض کیا: میں نام رکھنے میں آپ پر سبقت نہیں کروں گا۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: میں بھی اس امر میں اپنے پروردگار سے سبقت نہیں لوں گا۔ جبرئیل اس موقع پر نازل ہوئے اور عرض کیا: اے محمدؐ! آپؐ کے پروردگار نے سلام دیا ہے اور فرماتا ہے: آپ سے علی کی نسبت وہی ہے جو ہارون کی موسیٰ کے ساتھ تھی مگر آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ اپنے فرزند کا نام ہارون کے فرزند کے نام پر رکھو۔
شیعہ و اہل سنت کے مابین مشہور
روایت کے مقابلے میں دیگر روایات میں بھی موجود ہیں، جن کے مطابق جب امام حسنؑ کی ولادت ہوئی تو علیؑ نے ان کا نام حرب »
یا «حمزه»
رکھا لیکن جب رسول خداؐ کو اطلاع ملی تو علیؑ کو حکم دیا کہ ان کا نام تبدیل کر کے حسن رکھیں۔
لیکن جیسا کہ
کشف الغمہ کے مصنف نے کہا ہے کہ یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے، مشہور کے خلاف ہے اور ضعیف ہے۔ مشہور وہی ہے جو مذکورہ بالا روایت میں مذکور ہے جبکہ باقر شریف نے کتاب حیاۃ الحسن میں اس طرح کی روایات کو موضوعات اور جعلیات میں سے قرار دیا ہے اور اس مطلب پر دلائل ذکر کیے ہیں۔
[ترمیم]
نوزاد کا نام رکھنے کے بعد منجملہ آداب اور سنتوں میں سے ایک اس کیلئے
کنیت متعین کرنا ہے۔ ایک حدیث کی رو سے
امام باقرؑ نے فرمایا: انا لنکنی اولادنا فی صغرهم مخافه النبز ان یلحق بهم؛ ہم اپنی اولاد کیلئے بچپن میں ہی کنیت قرار دیتے ہیں، اس خوف سے کہ مبادا بڑے ہو کر نا خوش آئند القاب سے دوچار ہو جائیں۔
تمام منابع میں حضرتؑ کی کنیت ’’ابو محمد‘‘ مذکور ہے اور حضرتؑ کی کوئی اور کنیت نہیں ہے۔
فقط
خصیبی نے امام حسنؑ کیلئے ابو محمد کے سوا ابو القاسم کنیت بھی ذکر کی ہے۔
حضرتؑ کے القاب یہ ہیں: کتاب
القاب الرسول و عترتہ کی نقل کے مطابق حسنینؑ کے مشترک القاب یہ ہیں: سبط رسول اللہ، ریحانۃ نبی الله، سیدا شباب اهل الجنه، قرۃ عین البتول، عالم، مُلهَم الحق، و قائد الخلق۔
ابن ابی الثلج نے امام حسنؑ کے مخصوص القاب میں سے امیر، حجہ، کفِی، سبط، اور ولی کا ذکر کیا ہے۔
بعض نے کچھ اور القاب بھی ذکر کیے ہیں، مثلا ابن شہر آشوب نے سبط اول، امام ثانی، مقتدی ثالث، ذکر رابع، اور مباھل خامس کو آپ کے القاب میں سے شمار کیا ہے۔
ان کے سوا شیعہ کتب میں بہت سے دیگر القاب بھی ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ مجتبی، زکی، تقی اور کریم اہل بیت شیعوں کے نزدیک آپ کے معروف القاب میں سے ہیں۔
ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں: امام کا مشہور ترین لقب تقی ہے اور سب سے عظیم لقب وہ ہے جو رسول خداؐ نے آپ کو دیا اور وہ ہے ’’سید‘‘۔
اس کی دلیل ہے کہ پیغمبرؐ نے فرمایا: انَّ ابنی هذا سیدٌ۔
[ترمیم]
پیغمبر خداؐ کے وارث کے چہرے اور بدن کی زیبائی زبان زد خاص و عام تھی۔ جو بھی آپؑ پر نگاہ کرتا، آپؑ کی ذات میں محمدؐ و علیؑ کی جھلک دیکھتا اور آپؑ کے جمال میں محو ہو جاتا۔
ابن صبّاغ مالکی حسن بن علیؑ کے چہرے اور اعضا کی خوبصورتی سے متعلق لکھتا ہے: حسن بن علیؑ کے چہرے کا رنگ سرخی مائل سفید تھا، آنکھیں سیاہ، بڑی اور کشادہ، رخسار سیدھے، سینے کے درمیانی بال نرم، ریش مبارک گھنی، کانوں کے پیچھے گھنے بال، گردن دراز اور چاندی کی تلوار جیسی چمکدار، جوڑ چوڑے، دونوں شانے کھلے اور ایک دوسرے سے دور تھے۔ آپ اپنی ریش کو سیاہ رنگ کے ساتھ خضاب کرتے تھے۔
واصل بن عطا نے کہا ہے: حسن بن علیؑ کا چہرہ
انبیاء کی مثل اور قد و قامت بادشاہوں اور امرا کی طرح ہے۔
امام حسنؑ اخلاق، رفتار اور سیادت میں سب سے زیادہ رسول خداؐ کے مشابہہ تھے۔
پیغمبرؐ سے منقول ہے کہ فرمایا: اے حسن! تو خلقت (چہرے) اور اخلاق (سیرت) میں میرے مشابہہ ہے۔
آپ کا قد میانہ اور ریش مبارک گھنی تھی
آپ سیاہ رنگ سے خضاب کرتے تھے۔
انس بن مالک امام حسنؑ کے بارے میں کہتے ہیں: لم یکن احد اشبه برسول اللّه من الحسن بن علی؛
کوئی شخص امام حسنؑ سے زیادہ پیغمبرؐ کے مشابہہ نہیں تھا۔
احمدبن حنبل علی بن ابی طالبؑ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کان الحسن اشبه برسول اللّه مابین الصدر الی الراس والحسین اشبه فیما کان اسفل من ذلک؛ حسنؑ سینے سے سر تا نبی کریمؐ کے سب سے زیادہ مشابہہ تھے اور حسینؑ سینے سے قدموں تک آنحضورؐ کے مشابہہ تھے۔
ابن شہر آشوب ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ جس میں امام مجتبیؑ کو حضرت خدیجہ کبریٰ کا سب سے زیادہ مشابہہ قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں: حسن بن علی بن ابی طالبؑ نے آیت شریفہ: فی ایّ صوره ما شاءَ رکّبک؛
(اس نے جس صورت میں چاہا ہے تیرے اجزاء کی ترکیب کی ہے) کے بارے میں فرمایا ہے: خدائے سبحان نے علی بن ابی طالبؑ کو ابو طالب کی
صلب میں محمدؐ کی شکل پر خلق کیا، اس لیے رسول خداؐ کے سب سے زیادہ مشابہہ علیؑ تھے اور حسن بن علیؑ لوگوں میں فاطمہؑ کے سب سے زیادہ مشابہہ ہیں اور میں لوگوں میں سے خدیجہ کبریؑ کے سب سے زیادہ مشابہہ ہوں۔
[ترمیم]
پیغمبر اکرمؐ کے بے نظیر بڑے نواسے امام حسن مجتبیؑ کی شخصیت کے پہلو اس قدر وسیع ہیں کہ جن کے آثار حدیث
تراجم،
سیرت،
تاریخ اور
مناقب کی تمام کتابوں میں نظر آتے ہیں۔ امام حسنؑ
اصحاب کساء اور
آل عبا میں سے ایک ہیں اور پیغمبرؐ کی
اہل بیت کے ایک فرد ہیں؛ وہ اہل بیتؑ کہ جن کے بارے میں بہت سی
آیات نازل ہوئی ہیں۔
پیغمبرؐ
مباہلے کے وقت آپؑ اور آپ کے بھائی امام حسینؑ اور حضرت علیؑ و فاطمہؑ کو خدا کے حکم سے اپنے ساتھ لے گئے۔
آیہ تطہیر، آیت ذوی القربیٰ، آیت اولی الامر اور بقیہ آیات جو آئمہ اطہار اور امام مجتبیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہیں؛ آپ اور دیگر اہل بیتؑ کیلئے بہت بڑی فضیلت شمار ہوتی ہیں۔
اہل سنت کی کتب بھی رسول خداؐ کی زبانی بہت سے فضائل و مناقب سے سرشار ہیں اور آگے چل کر ہم ان
فضائل میں سے کچھ کی طرف اشارہ کریں گے۔
حسن بن علی بن
ابی طالب بن
عبد المطلب بن
ہاشم،
ہاشمی اور
قریشی ہیں۔
اس عظیم امام کی
فضیلت اور
نسب کی شرافت کیلئے یہی کافی ہے کہ آپؑ کے جد ارجمند حضرت محمد مصطفیؐ تمام اولاد
آدم کے سرور و سردار ہیں، آپؑ کے والد علی مرتضیؑ اوصیاء کے سید و سردار اور آپؑ کی والدہ
فاطمہ زہراؑ پیغمبرؐ کی لخت جگر اور
دنیا بھر کی خواتین کی سردار ہیں، آپؑ کی دادی حضرت خدیجہ بنت خویلدؑ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے
اسلام قبول کیا اور پہلی خاتون تھیں کہ جنہوں نے اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کیا اور تبلیغ
رسالت کی راہ میں پیغمبرؐ کا ساتھ دیا اور قریش کی جانب سے پہنچنے والے اذیت و آزار کو کم کرنے میں کردار ادا کیا۔ آپؑ کے عمو
جعفر طیار اور آپؑ کے والد گرامی کے عمو
حمزه، شیر خدا و سید الشهدا اور آپ کے جد بزرگوار حضرت ابو طالبؑ تھے کہ جنہوں نے مختلف مقامات پر رسول اللہ کا دفاع کیا اور حضرتؑ کے
دفاع کی راہ میں ہر قسم کی رنج و تکلیف کا سامنا کیا۔ آپ کے پدر گرامی کے جد عبد المطلب سرزمین
بطحا کے سید و دردار اور آپ کے جد الاجداد حضرت ہاشم تھے جو
بیت اللہ کے حاجیوں کے مہماندار اور ضرورت مندوں کیلئے کھانے کا اہتمام فرماتے تھے اور
قریش کے سردار تھے۔
ابن شهر آشوب نے کتاب مناقب میں امام کی شرافت کے بارے میں یہ نقل کیا ہے: ما بلغ احد من الشرف بعد رسول الله (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) ما بلغ الحسن؛ رسول خداؐ کے بعد شرافتِ مقام میں کوئی حسن بن علیؑ تک نہیں پہنچا۔ پھر کہتے ہیں: رسم یہ تھی کہ حضرتؑ کیلئے گھر کے دروازے پر ایک
فرش بچھا دیا جاتا، جب امامؑ آتے تو اس پر تشریف فرما ہو جاتے۔ اس دوران راستہ بند ہو جاتا کیونکہ جو شخص بھی وہاں سے گزرتا، حضرتؑ کے جلالتِ مقام کی وجہ سے کھڑا ہو جاتا اور آگے نہیں جاتا تھا۔ جب امامؑ مطلع ہوتے تو کھڑے ہو جاتے اور گھر میں چلے جاتے۔ پھر لوگ بھی آمد و رفت شروع کر دیتے اور راستہ کھل جاتا تھا۔
امام حسنؑ پیغمبر اکرمؐ کے سب سے بڑے نواسے ہیں۔ رسول خداؐ نے فرمایا: إنّ اللّه تعالی جعل ذریة کل نبیّ مِن صلبه و جعل ذرّیتی فی صلب علی بن ابی طالب؛ خدا تعالیٰ نے پیغمبروں میں سے ہر ایک نسل کو خود ان پیغمبروں کی صلب سے قرار دیا، تاہم میری نسل کو علی بن ابی طالبؑ کی اولاد سے قرار دیا ہے۔ لہٰذا پیغمبر اکرمؐ کی نسل حسنؑ و حسینؑ اور ان کی اولاد میں منحصر ہے۔
آیت مباہلہ واضح طور پر
دلالت کرتی ہے کہ حسن و حسینؑ دونوں رسول خداؐ کے فرزند ہیں؛ کیونکہ حضرتؑ نے
وعدہ دیا کہ اپنے فرزندوں کو مباہلے کیلئے لے جائیں گے اور حسنؑ و حسینؑ کو لائے، پس یہ دونوں ان کے فرزن ہیں۔ ایک مورد جو اس مطلب کا مؤید ہے کہ
نواسہ انسان کی اولاد شمار ہوتا ہے)
سورہ انعام میں اللہ کا کلام ہے: وَ مِن ذُرِّیَّتِهِ دَاوُودَ وَ سُلَیَْمانَ؛ یہاں تک کہ فرماتا ہے: وَ یَحْیَی وَ عِیسَی»
کیونکہ معلوم ہے کہ
عیسیؑ کی نسبت
ابراہیم تک
ماں کے وسیلے سے ہے؛ پس ثابت ہوا کہ بعض اوقات نواسے کو بھی فرزند کہا جاتا ہے۔ والله اعلم۔
اس امر پر دوسرا
شاہد کہ نواسہ بیٹی کے باپ کا بیٹا ہے؛ یہ ہے کہ رسول خداؐ سے منقول ہے: ابنی هذا سیّد؛ میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے۔
اسی طرح پیغمبرؐ نے علیؑ سے فرمایا: انت اخی و ابو وُلدی؛ تو میرا بھائی اور میرے بیٹوں کا باپ ہے۔
نبی کریم ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: هذان ابنای من احبّهما فقد احبّنی؛ یہ (حسن و حسین) دونوں میرے بیٹے ہیں، جو ان سے محبت کرے، اس نے مجھ سے محبت کی۔
امام حسینؑ بھی ایک خطبے میں اپنا تعارف اس انداز میں پیش کرتے ہیں: ایّها الناس! من عرفنی فقد عرفنی و من لم یعرفنی فانا الحسن بن علی بن ابیطالب، انا ابن رسول الله، انا ابن البشیر، انا ابن النذیر، انا ابن السراج المنیر، انا ابن مزنه السماء، انا ابن من بُعِث رحمه للعالمین، انا ابن من بُعِث الی الجنّ و الانس، انا ابن من قاتلت معه الملائکه، انا ابن من جعلت له الارض مسجداً و طهوراً، انا ابن من اذهب الله عنهم الرجس و طهّرهم تطهیراً...؛
اے لوگو! جس مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو مجھے نہیں پہچانتا تو جان لے میں حسن بن علی بن ابیطالب ہوں؛ میں رسول خداؐ کا فرزند ہوں؛ میں بشارت دینے والے کا فرزند ہوں؛ میں ڈرانے والے کا فرزند ہوں؛ میں نور افشاں چراغ کا فرزند ہوں؛ میں آسمانوں کی
زینت کا فرزند ہوں؛ میں اس کا فرزند ہوں جنہیں رحمۃ للعالمین کے عنوان سے مبعوث کیا گیا؛ میں اس کا بیٹا ہوں جنہیں
جن و
انس کی طرف مبعوث کیا گیا؛ میں اس کا بیٹا ہوں جس کیلئے زمین کو جائے
سجدہ اور طاہر و مطہر قرار دیا گیا؛ میں اس کا فرزند ہوں جنہیں خدا نے رجس سے دور رکھا ہے اور انہیں مکمل پاک قرار دیا ہے؛ میں اس خاندان سے ہوں کہ جن پر جبرئیلؑ نازل ہوتے تھے اور ان کے گھر سے
عروج کرتے تھے؛ میں اس خاندان سے ہوں کہ خدا نے جن کی
محبت اور
ولایت کو واجب کیا ہے اور حضرت محمدؐ پر نازل کردہ ایک آیت میں فرماتا ہے: قل لا اسئلکم علیه اجراً الاّ الموده فی القربی؛
آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔
و به دست آوردن نیکی محبّت ماست مراجعہ۔
ایک انسان کی عظمت و برتری کی شناخت کا ایک راستہ یہ ہے کہ وہ برتر اور افضل انسانوں کا محبوب ہو۔ کائنات میں خاتم النبیینؐ سے افضل کوئی نہیں ہے اور حسن بن علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے بہت محبوب تھے۔ یہ محبت و انس
اصحاب کے سامنے ظاہر و عیاں تھا۔
بخاری ابو بکر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: رایت النبی (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) علی المنبر والحسن بن علی معه و هو یقبل علی الناس مره و ینظر الیه مره و یقول: ابنی هذا سید؛
میں نے نبی کریمؐ کو
منبر پر جلوہ فگن دیکھا اور حسن بن علیؑ بھی آپؑ کے ہمراہ تھے۔ آپؐ کبھی لوگوں کو دیکھتے تھے اور کبھی حسنؑ کو اور فرما رہے تھے: یہ میرا فرزند اور سید و سردار ہے.»
مسلم اپنی صحیح میں
ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ نے امام حسنؑ کے بارے میں فرمایا: اللّهم انّی اُحبّه فاحبّه و احبب من یحبّه؛
خدایا! بے شک میں ان سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی ان سے محبت فرما اور جو بھی ان سے محبت کرتا ہے تو اس سے محبت فرما۔
اسی طرح براء بن عاذب نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: حسن بن علیؑ کو پیغمبرؐ کے دوش مبارک پر سوار دیکھا اور اس حال میں آنحضرتؐ فرما رہے تھے: اللّهم انّی اُحبّه فاحبّه؛
خدایا! بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما!
.»
ایک اور روایت پیغمبر اکرمؐ امام حسنؑ کے ساتھ محبت کو اپنے ساتھ محبت قرار دیتے ہیں: من احب الحسن و الحسین فقد احبنی و من ابغضهما فقد ابغضنی؛
جو بھی حسن و حسین سے محبت کرے، اس نے مجھ سے محبت کی اور جو بھی ان دونوں سے دشمنی کرے، اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے۔
البانی کتاب
السلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں لکھتے ہیں: من احبهما فقد احبنی و من ابغضهما فقد ابغضنی. یعنی الحسن و الحسین رضی الله عنهما؛
جو بھی حسن و حسینؑ سے محبت رکھے، اس نے مجھ سے محبت کی اور جو بھی ان دونوں سے دشمنی کرے، اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں: حسن منّی و انا منهُ، احبَّ اللّهُ مَن احبّهُ...؛
حسن مجھ سے ہے اور میں حسن سے ہوں؛
جس سے میں محبت کرتا ہوں، اس سے خدا بھی محبت کرتا ہے۔
متقی ہندی نے اپنی سند کے ساتھ
عائشہ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبرؐ ہمیشہ حسنؑ کو پکڑ کر ان سے لپٹ جاتے تھے، پھر فرماتے تھے:
اللّهم انّ هذا ابنی و انا احبّه فاحبّه و احبّ من یحبّه؛
خدایا! بے شک یہ میرا فرزند ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما اور جس سے میں محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما!۔
اس حدیث میں امام حسنؑ کی رسول خداؐ کے نزدیک محبوبیت جو خود فضیلت کی علامت ہے؛ کے علاوہ آپؐ کے بھائی حسینؑ کی محبت کو بھی فضیلت اور خوبیوں کا معیار قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ان دونوں کی دشمنی رسول خداؐ کے نزدیک مبغوضیت کی علامت ہے۔ امام حسن مجتبیؑ کے بچپن میں پیغمبر اکرمؐ ان کی تمجید فرماتے تھے۔ بالیقین یہ محبت آمیز سلوک اس لیے تھا تاکہ امام حسنؑ کی عظیم شخصیت کا مسلمانوں کا مسلمانوں کے سامنے تعارف کروا سکیں۔
رسول خداؐ نے کچھ مقامات پر حسنؑ اور ان کے بھائی حسینؑ کو
ریحانۃ سے تعبیر کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں: و ریحانتای: الحسن والحسین؛ حسن و حسین میرے دو ریحانہ ہیں۔
نیز فرمایا: الحسن والحسین ریحانتای من الدنیا؛ حسن و حسینؑ دنیا میں میرے دو ریحانہ ہیں۔
کبھی امام مجتبیؑ کے مورد میں فرماتے ہیں: انّ هذا ریحانتی و انّ ابنی هذا سید و سیصلح اللّه به بین فئتین من المسلمین؛ بے شک حسنؑ میرے ریحانہ ہیں اور یہ میرا بیٹا سید و سردار ہے اور عنقریب خدا اس کے ہاتھ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح برقرار کرے گا۔
پیغمبر اکرمؐ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: هما سیدا شباب اهل الجنه و هما ریحانتی؛ یہ دونوں (حسن و حسینؑ)
بہشت کے جوانوں کے سردار اور میرے ریحانہ ہیں۔
علامہ
طریحی ریحانہ کے لفظ کی وضاحت میں فرماتے ہیں: کل نبت طیب الرائحه؛ ہر بوٹی جو خوشبو دار اور لذت بخش ہو، اسے ریحانہ کہتے ہیں۔ پھر مذکورہ بالا احادیث کے بارے میں مزید فرماتے ہین: رسول خداؐ کے نزدیک سب سے زیادہ خوشبو دار اور جذاب پھول اور نبات ان کے دونوں فرزند حسنؑ و حسینؑ ہیں اور یہ زیبا ترین تشبیہ ہے۔
اسی طرح کلمہ سید جو
صفت مشبہہ ہے اور ثبات و دوام پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ کہ جس کے پورے وجود کے ساتھ
سیادت اور سرداری عجیب ہو اور اس سے جدا نہ ہو اور
عظمت و بزرگواری اس کے پورے وجود میں مجسم ہے۔
رسول خداؐ ایک حدیث میں ان دو طاہر اماموں یعنی حسن و حسینؑ کی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں: الحسن والحسین سیّدا شباب اهل الجنّه؛ حسن و حسین اہل بہشت کے سید و سردار ہیں۔
سیوطی نے سولہ طرق سے یہ حدیث نقل کی ہے۔
ترمذی اپنی سند کے ساتھ ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ نے فرمایا: الحسن والحسین سیّدا شباب اهل الجنّه؛ حسن و حسین اہل بہشت کے سردار ہیں۔
ابن ماجہ نے بھی اپنی سند کے ساتھ
عبداللَّه بن عمر سے یوں روایت کی ہے: ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول خداؐ نے فرمایا: الحسن والحسین سیّدا شباب اهل الجنّه، وابوهما خیرٌ منهما؛ حسن و حسین اہل بہشت کے سید و سردار ہیں اور ان کے والد ان دونوں سے بہتر ہیں۔
احمد بن حنبل حدیثِ سیادت کو ایک دوسری سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول خداؐ نے فرمایا: ایک آسمانی فرشتہ جو اس رات سے قبل
زمین پر نہیں اترا تھا، اس نے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھ پر درود بھیجے اور مجھے یہ بشارت دے کہ: انّ الحسن و الحسین سیّدا شباب اهل الجنّه، و انّ فاطمه سیّده نساء اهل الجنّه؛ حسنؑ و حسینؑ دونوں اہل بہشت کے سید و سردار ہیں اور فاطمہؑ بہشتی خواتین کی سردار ہیں۔
حاکم نیشابوری بھی اپنی سند سے رسول خداؐ سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے فرمایا: اتانی جبرییل (علیهالسّلام) فقال: انّ الحسن و الحسین سیّدا شباب اهل الجنّه؛ جبرئیل میرے نزدیک آئے اور عرض کیا: حسن و حسینؑ دونوں اہل بہشت کے سردار ہیں۔
ذہبی کتاب تلخیص المستدرک میں اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔
ابن کثیر اپنی سند کے ساتھ
جابر بن عبد اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خداؐ نے فرمایا: من سرّه ان ینظر الی سیّد شباب اهل الجنّه فلینظر الی الحسن بن علی؛ جو اہل بہشت کے سید و سردار کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ حسن بن علیؑ کی طرف نگاہ کرے۔
[ترمیم]
ایک اہم مسئلہ جو ہمیشہ انسان کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے؛
اخلاق حسنہ ہے کہ جس سے انسان کامل آراستہ ہوتا ہے۔ اہل بیتؑ وہ انسان ہیں جو اس فضیلت کے اوج پر فائز ہیں اور دوسرے افراد کیلئے
اسوہ ہیں۔
تواضع،
عاجزی، خدا خوفی، اچھے تعلقات، باہمی احترام، بے نواؤں کی امداد اہل بہشت کے سید و سردار کی زندگی کے برجستہ پہلو ہیں۔
سیوطی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں: کان الحسن رضی الله عنه له مناقب کثیره، سیدا حلیما، ذا سکینه و وقار و حشمه، جوادا، ممدوحا؛ حسن بن علیؑ بہت سے اخلاقی امتیازات و فضائل کے حامل تھے، وہ ایک بزرگ شخصیت،
بردبار، با وقار، متین، سخی اور نیک خو تھے۔
پیغمبر اکرمؐ ایک حدیث میں فرماتے ہیں: انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق»
جالب یہ ہے کہ امام حسنؑ نے مکارمِ اخلاق کی ایک حدیث کے ضمن میں اس طرح تفسیر کی ہے اور فرمایا ہے: ثلاث من مکارم الاخلاق: تعطی من حرمک، و تصل من قطعک و تعفو عمن ظلمک؛ تین چیزیں مکارمِ اخلاق میں سے ہیں: اسے عطا کرو جس نے تمہیں محروم کیا ہے، اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو جس نے تیرے ساتھ قطع تعلقی کی ہے اور اس کو معاف کر دو جس نے تم پر ظلم کیا ہے!»
مرحوم
شیخ صدوق اپنی کتاب
امالی میں اپنی سند کے ساتھ
امام صادقؑ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرتؑ نے فرمایا: حسن بن علیؑ اپنے زمانے کے عابد ترین، زاہد ترین اور ان میں سے برترین تھے اور جب
حج بجا لاتے تھے تو پیادہ حج پر جاتے تھے اور بعض اوقات پائے برہنہ بھی چلتے تھے اور یہ عالم تھا کہ جب
موت کو یاد کرتے تھے تو گریہ کرتے تھے اور جب
قبر کو یاد کرتے تھے تو گریہ کرتے تھے اور جب
قیامت اور حشر و نشر کو یاد کرتے تھے تو گریہ کرتے تھے، جب قیامت میں
صراط سے عبور اور گزرنے کو یاد کرتے تھے تو گریہ کرتے تھے اور جب خدائے تعالیٰ کے سامنے
محشر میں حاضری کو یاد کرتے تھے تو فریاد بلند کر کے زمین پر گر پڑتے تھے ۔۔ اور جب
نماز کیلئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ کے بدن کا جوڑ جوڑ لرزتا تھا، جب
بہشت اور
جہنم کا نام آپ کے سامنے لیا جاتا تو مضطرب اور پریشان ہو جاتے تھے اور خدا تعالیٰ سے بہشت میں جانے اور جہنم سے دوری کی درخواست کرتے تھے۔۔ جب بھی قرآن پڑھتے وقت جملہ (یاایها الذین آمنوا) پر پہنچتے تھے تو کہتے تھے: لبیک اللهم لبیک...؛ جب بھی کوئی حضرتؑ کو دیکھتا تو انہیں ذکر
خدا میں مشغول پاتا، آپ لوگوں میں سب سے سچے تھے اور
نطق و بیان میں سب سے فصیح تھے۔
یہاں پر ہم امام کی اخلاقی و عملی سیرت کی مختصر جھلک پیش کریں گے۔
انسان کا دیگر موجودات حتی
ملائکہ کی نسبت سب سے اہم امتیاز
دانش و
بینش ہے۔ قرآن کریم میں منقول ہے: و علم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علی الملائکه فقال انبئونی باسماء هؤلاء ان کنتم صادقین قالوا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا؛
علم اسماء (اسرار کائنات اور موجودات کے ناموں کا علم) سب آدم کو سکھا دیا، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر سچے ہو تو ان اسما کی مجھے خبر دو۔ انہوں نے عرض کیا: تو منزہ ہے، ہم صرف اسی چیز کا علم رکھتے ہیں جو تو نے ہمیں دی ہے۔
علوم میں سے برترین وہ علم ہے جو براہ راست
ذات الہٰی سے حاصل ہو کہ جسے
علم لدنی کہا جاتا ہے۔ خدا
خضر کے بارے میں فرماتا ہے: و علمناه من لدنا علما؛
ہم نے اپنی طرف سے اسے
علم عطا کیا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه اطلاعرسانی حوزه، برگرفته از مقاله «امام حسن مجتبی»، بازنویسی توسط گروه پژوهشی ویکی فقه.