معاویہ کے دور میں امام حسین

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسینؑ کی با برکت زندگی کو مؤرخین نے مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے جن میں سے ایک اہم ترین دور ‌معاویہ بن ابی ‌سفیان کی حکومت کا زمانہ ہے۔ عموما امام حسینؑ کے بچپن کے واقعات اور کربلا کے واقعات کتب میں یا منبر سے بیان ہوتے ہیں لیکن امیر شام کے دور حکومت میں امام حسینؑ کی سیرت اور کردار پر گفتگو نہیں جاتی جبکہ معاویہ کا یہ دور تقریبا ۲۰ سال پر مشتمل ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیز یہی وہ دور تھا جب امام حسینؑ نے اپنی آفاقی و جہانی تحریک کی بنیادیں محکم کیں۔ ‌معاویہ بن ابی‌ سفیان خاندان بنو امیہ کا پہلا خلیفہ ہے۔ معاویہ نے امام حسنؑ سے صلح کے بعد ۶۰ ہجری تک تقریباً بیس سال حکومت کی۔ فتحِ مکہ کے موقع پر معاویہ نے اسلام قبول کیا اور موصوف کا شمار طبقہ طلقاء میں سے ہوتا ہے، معاویہ برسر اقتدار آنے کے بعد اپنے سیاسی حریفوں امام حسنؑ اور امام حسینؑ سے ہمیشہ خوفزدہ رہا اور ان کے اصحاب کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اس زمانے کی حساسیت اور اس کا مطالعہ کرنا اس طور پر بھی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے کہ آج کی نسل کو یہ بات علم ہونی چاہیے کہ کیسے معاویہ نے ایک ایسی قوم تربیت کر لی جو یزید جیسے فاسق کو اپنا خلیفہ بنا بیٹھی اور نواسہ رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے پر تُل گئی۔


امام حسینؑ معاویہ کے دور میں

[ترمیم]

امام حسینؑ نے اپنے بھیا امام حسنؑ کی شہادت کے بعد جب دیکھا کہ معاویہاسلام کے نام پر حکومت جماۓ بیٹھا ہے اور قوانینِ خداوند کو اپنے ہاتھوں کا بازیچہ بناۓ ہوئے ہے تو خاموش نہ بیٹھے البتہ کوئی بھی مسلحانہ اقدام کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ ظاہری طور پر معاویہ حکومت اسلامی‌ کا دعویٰ کرتا تھا اور خود پر بظاہر لباس تقوی تن کیا ہوا تھا، پس ایسے میں صبر اختیار کیا، البتہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مکمل خاموشی اختیار کی، معاویہ کے ہر مشتبہ عمل پر تنقید کی اور مختلف تحرکات انجام دیئے جو اس تحریر میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

معاویہ کے دور میں امام حسینؑ کی سیاسی پالیسی

[ترمیم]

امام حسنؑ کی شہادت کے بعد امام حسینؑ منصب امامت پر فائز ہوئے۔ اگرچہ آپ امام حسنؑ کے بعد امت میں صالح‌ ترین افراد میں سے ایک تھے اور امت کی رہبری و امامت کے حقیقی حقدار تھے، باوجود اس کے آپ نے اپنے بھائی امام حسنؑ کے معاویہ کے ساتھ کیے گئے صلح‌نامہ کا پاس رکھا۔ لیکن دوسری جانب سے معاویہ جیسے شخص کو امت مسلمہ کی رہبری کا حامل نہیں سمجھتے تھے جس طرح سے کہ ان کے بھائی امام حسنؑ نے اپنی پوری عمر معاویہ کی حکومت کو رسمی طور پر قبول نہ کیا اور آخر عمر تک معاویہ کے سیاسی حریف سمجھے جاتے رہے۔ امام حسینؑ نے اس دورانیے میں تبلیغِ دین و تبیینِ احکامِ الہی کا فریضہ سنبھالا، اس کے علاوہ آئمہ معصومینؑ کا حق حکومت اور سلاطینِ جور کی منصب خلافت کے لیے عدمِ صلاحیت کو بھی شجاعانہ طور پر امت پر واضح کیا۔ معاویہ کے پاس اس وقت کی سیاسی قوت ہونا اور معاشرے کا امامت سے دور ہو جانا بھی ایک سبب تھا کہ امام نے مسلحانہ تحریک کی بجائے مصلحانہ امور پر توجہ دی، نظریہ امامت کو بطور عقیدہ امت کے سامنے تبلیغ کیا اور بعض مواقع پر معاویہ کے اقدامات پر سخت تنقید کی۔

← تقیہ اور معاویہ کی موت کا انتظار


اس دورانیے میں بھی امام حسینؑ کو قیام کی دعوتیں دی گئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ وہ ان حالات میں قیام کے بارے میں نہیں سوچ رہے بلکہ جن لوگوں نے ایسے مشورے دیے ان کو فرمایا کہ تمہارا خدا تم پر رحمت نازل کرے، زمین سے چپکے رہو اور اپنے گھروں میں کمین لگاۓ بیٹھے رہو یہاں تک کہ معاویہ زندہ ہے، ایسا کام کرنے سے پرہیز کرو جس کی بناء پر تم پر بدگمانی کا اندیشہ بڑھ جائے، اگر اللہ نے اس (معاویہ) کے ساتھ کچھ کیا اور میں زندہ ہوا تو اپنی سوچ کے بارے میں تم لوگوں کو لکھ بھیجوں گا۔معاویہ کے افراد نے کئی بار امام حسینؑ پر حکومت کے خلاف کارروائی کرنے کا الزام لگایا اور امام کو متہم کیا کہ وہ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔ اس کے ردعمل کے طور پر معاویہ نے بھی امامؑ کو چند بار خط لکھ بھیجا جس میں کہا کہ آپ اپنے بھائی حسنؑ کے صلح نامے کی پیمان‌ شکنی نہ کریں، امامؑ نے بھی اپنے بھائی کے صلح نامہ پر وفاداری کے ساتھ عہد پورا کرنے کا پیمان کیا۔البتہ ایسا نہ تھا کہ صلح نامے پر وفادار ہونے کی وجہ سے حکومتی مشینری کے ظلم و ستم پر خاموش رہتے امام حسینؑ معاویہ کے گورنروں پر شدید تنقید کرتے تھے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ مروان بن حکم جب تک منبر پر براجمان رہتا آپ اس پر شدید تنقید کیا کرتے۔ تاہم معاشرے کی وحدت کو مدنظر رکھتے ہوئے امام حسینؑ اقامہ نماز جماعت کی خاطر مسجد میں حاضر ہوتے اور مروان کی بظاہر اقتدا کرتے۔
[۱۳] راوندی، فضل الله، النوادر، ص۳۰۔


معاویہ کی حکومت میں امام حسینؑ کے اقدامات

[ترمیم]

امام حسینؑ نے معاویہ کے ساتھ کیے جانے والے صلح نامے کی کبھی بھی مخالفت نہ کی لیکن یہ معاہدہ اس امر کا باعث نہ سبن سکا کہ آپ معاویہ کے ظلم و جور پر خاموشی اختیار کرتے اور دین میں ایجاد ہر نئی بدعت اور بیدادگری پر معاویہ کے خلاف آواز نہ اٹھاتے، حالانکہ معاویہ کا دور اس قدر سخت و استبدادی دور تھا کہ کسی بھی شخص کو حکومت مخالف حرف بولنے کی جرات نہیں تھی۔ ایسے میں امامؑ نے اس استبدادی حکومت کے خلاف اپنی تحریک کو جاری رکھا۔

← ترویج و تبلیغ امامت


اگرچہ امامؑ نے معاویہ کے خلاف مسلحانہ تحریک شروع نہ کی، ہمیشہ تبلیغ اور ترویجِ حق فرمائی، دین کو اسکی قرآنی بنیادوں پر پیش کیا، علنی و غیر علنی ہر روش کو اختیار کرتے ہوئے مقام امامت و خلافت کی تبیین کی اور خلیفہ برحق کی خصوصیات کا ذکر کرتے۔ امام حسینؑ نے بہت سے مواقع پر اهل بیتؑ کے حقِ حاکمیت و ولایت کا اعلانیہ ذکر کیا، معاویہ بھی امام حسینؑ کی اس تبلیغ پر شدید پریشان رہتا لیکن مجبور ہو کر اور ایک نیا دردِ سر اپنے لیے کھڑا کرنے کی بجائے محتاط انداز سے حکومت کو سنبھالے رہا، معاویہ یہ بات بخوبی جانتا تھا کہ اگر امام حسینؑ سے بلاواسطہ ٹکر لے لی تو بنو امیہ کی حکومت گر سکتی ہے، اس لیے اس نے حکومت کو مضبوط کیا اور یزید کی حکومت کے لیے راہ ہموار کرتا رہا۔

←← امام حسینؑ کا مراسم حج کے موقع پر خطاب


امام حسینؑ کے تبلیغاتی نمونہ جات اور احکام خدا کی تبیین کے طور پر حج کے ایام میں منی کے خطبے کا ذکر کرنا یہاں پر بہت ضروری ہے۔ امام حسینؑ مرگ معاویہ سے ایک سال قبل عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن جعفر کی ہمراہی میں عازم سفر حج ہوۓ۔ امامؑ نے اپنے بھائیوں بھتیجوں، اہل خاندان، بنی ہاشم اور انصار کے چند افراد کو منی کے مقام پر اکٹھا کیا، پھر چند افراد کو یہ کہہ کر بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب جو حج پر تشریف لائے ہیں ان کو میرے پاس لے آئیے۔ اس دعوت پر ایک روایت کے مطابق سات سو کے قریب افراد جن میں سے اکثر تابعین اور دو سو کے قریب اصحاب تھے، جمع ہوئے۔ امامؑ خطبہ ارشاد کرنے کے لیے بلند ہوۓ اور ابتدا میں حمد و ثناء باری تعالیٰ بیان کی اور اس کے بعد فضائل اہلبیتؑ قرآن کریم و رسول اللہ ﷺ احادیث کی روشنی میں بیان فرماۓ، ان فضائل پر اصحاب کا ساتھ ساتھ اقرار بھی لیتے رہے، پھر سب سے تقاضا کیا کہ ان فضائل کو ان سب افراد کے لیے بیان کریں جو ان کے لیے قابل اطمینان ہوں۔

←← امر بالمعروف و نہی عن المنکر


امام حسینؑ نے مکہ میں بظاہر ایک مخفیانہ محفل میں علماء اسلام کو خطبہ ارشاد فرمایا اور ان کو بار بار امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی آیات سناتے اور فرماتے کہ آپ سب کا وظیفہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر اس ہم ترین فریضے کو علماء نے ترک کر دیا تو اس کے بہت برے اثرات پڑیں گے۔ علماء کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگوں کو مجاری امور ہونا چاہیے کیونکہ دین نے حکم دیا ہے کہ: مجاری الأمور والاحکام علی ایدی العلماء بالله الأمناء علی حلاله و حرامه؛ أمور اور احکام کا اجراء دنیا اور آخرت ہر دو میں علماء کے ہاتھوں میں ہے وہ علماء جو اللہ سے ڈرتے ہیں، حلال اور حرام میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے امین ہیں۔ پھر امامؑ نے انکو آپس میں اتحاد، صبر و تحمل و مبارزہ سے اس سلب شدہ حق کو حاصل کرنے کی دعوت دی اور فرمایا: خدایا تو خوب جانتا ہے کہ ہم زخارفِ دنیا یا قدرت کے حصول کے لیے یہ اقدامات نہیں اٹھا رہے بلکہ اس لیے یہ سب انجام دے رہے ہیں کہ دین کے نشان باقی رہ جائیں اور امت کی اصلاح کر سکیں۔ اس کے بعد امامؑ نے فرمایا: اے علماء و بزرگان اگر آپ لوگوں نے امور کی باگ دوڑ کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے امداد نہ کی، اور ہمارے ساتھ انصاف سے کام نہ لیا تو اس کے نتیجے میں ظالم لوگ تم پر قوت پکڑ لیں گے اور کوشش کریں گے کہ انبیاء و رسل کا روشن کردہ نورِ کا یہ سلسلہ اور يہ ہدایت کا چراغ بجھا دیں، جبکہ ہم نے خدا کو کافی جانا ہے اسی پر توکل کرتے ہیں اور اسی کی جانب جانا ہے۔

←← معاویہ کی موجودگی میں امامؑ کا خطبہ


ایک دن معاویہ نے اپنے ساتھیوں کے اصرار کرنے پر امام حسینؑ سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے خطبہ ارشاد کریں، امام حسینؑ منبر پر تشریف لے گئے حمد و ثناء خدا بیان کی، رسول اللہ ﷺ پر صلوات بھیجی، اور ایک شخص کے سوال پر فرمایا کہ جس نے پوچھا تھا کہ یہ خطبہ دینے والا شخص کون ہے کہ ہم حزب و گروه غالبِ خدا و مقرّبین عترت رسولِ خدا ﷺ ہیں، اور ان کے طیّب و طاہر اہل بیت ہیں۔ ہم ہی وہ گران بہا قیمتی ارث رسول اللہ ﷺ ہیں جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ان کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دینا، ان میں سے ایک قرآن ہے جس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے، اس میں کسی بھی قسم کا باطل حرف موجود نہیں، اس قرآن کی تفسیر ہمارے ذمہ لگائی گئی اور اس کی تاویل سے ہم واقف ہیں ہم اس کے اندر حقائق کے درپے ہیں پس ہماری اطاعت کیجیے کہ ہماری اطاعت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ کہیں ایسی ندا پر لبیک مت کہہ دینا کہ جو شیطان کی جانب سے ہو کیونکہ شیطان تم لوگوں کا دشمن ہے آشکار و مبین۔ خطبہ اتنا مفصل اور سخت تھا کہ معاویہ سے یہ سب نہ سنا گیا کیونکہ امام حسینؑ قرآن کریم و احادیث رسول اللہ ﷺ سے بار بار استناد پیش کر کے لوگوں کو اپنی جانب جذب کررہے تھے، معاویہ خطبہ کے دوران کھڑے ہوئے اور کہا: اے ابا عبد اللہ کافی ہے، آپ نے اپنی بات پہنچا دی ہے۔

← معاویہ کے نام خطوط


امام حسینؑ کی امامت کے دس سالہ دور میں معاویہ اور امامؑ کے درمیان بہت سے خطوط کا رد و بدل ہوا جس میں معاویہ کی سیاست اور اس کی غلط پالیسیوں پر امامؑ نے سخت رد عمل و تشویش کا اظہار کیا، اور اپنے انقلابی موقف کو ڈٹ کر بیان کیا۔

←← صحابہ کی شہادت پر اعتراض


حجر بن عدی جیسے با عظمت صحابی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر امام حسینؑ نے سخت اعتراضات کیے، جس کے جواب میں معاویہ نے امام حسینؑ کے نام خط لکھا اور اس میں لکھا کہ آپ اپنے بھائی کے ہمارے ساتھ طے شدہ معاہدے کی پاسداری کریں اور کسی قسم کے حکومت مخالف اقدامات اٹھانے سے گریز کریں، جس کے جواب میں امام نے ایک مفصل جواب تحریر فرمایا اور معاویہ کو مخاطب قرار دیا کہ اس کے ناشائستہ اور ناقابلِ قبول کام جیسا کہ حجر بن عدی اور عمرو بن حمق خزاعی و حضرمی‌ کے شہید کردیے جانے کے مصیبت آور واقعات ہیں، ان مظالم پر خاموش نہیں بیٹھا جا سکتا۔

←← یزید کے ولیعہد بننے پر اعتراض


یزید جیسے ہوس باز اور فاسق شخص کے مملکت اسلامی پر مسلط کیے جانے اور اس کے ولہیعد بناۓ جانے پر امام حسینؑ نے شدید ردعمل کا اظہار فرمایا، معاویہ نے اپنی زندگی میں ہی اس نام نہاد خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر لینے کا ٹھان لیا تھا اس لیے حکومت اپنے بعد اپنے بیٹے کو منتقل کرنے کے لیے مختلف علاقوں کے دورے کیے اور یزید کے لیے بیعت لیتا رہا۔ انہیں دوروں میں سے ایک دورہ شہر مدینہ کا ہے جس میں معاویہ نے مدینہ کے بزرگان سے ملاقاتیں کیں اور ان سے چاہا کہ وہ میرے بعد یزید کو خلیفہ مانیں گے اس لیے ابھی سے اس کی بیعت کریں تاکہ بعد میں اس سے روگردانی نہ کر سکیں۔ معاویہ نے جہاں پر شرفاءِ شہر سے ملاقاتیں کیں وہیں پر امام حسینؑ سے بھی ملاقات کی اور یزید کی ولیعہدی کا بھی اشارہ کردیا، جب امام نے سنا تو شدید اعتراض کیا اور فرمایا کہ یزید جیسا بے لیاقت ترین و ہوس باز شخص اس منصب پر فائز ہونے کے لائق نہیں۔ وارد ہوا ہے کہ جتنے دن معاویہ مدینہ میں موجود رہا، لوگوں سے ملاقاتیں کرتا رہا اور یزید کی حکومت کے لیے راہ ہموار کرتا رہا امام حسینؑ اسے شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے اور معاویہ کے اس عمل کی مخالفت کرتے رہے، معاویہ نے بھی جب ان کا رد عمل دیکھا تو ان سے یزید کے لیے بیعت لینے کا اصرار نہ کیا۔

امام کے خلاف معاویہ کی سیاسی پالیسی

[ترمیم]

خلفاء ثلاثہ کی مانند (بظاہر) معاویہ بھی امام حسینؑ کا احترام بجا لاتا تھا اس لیے کہ جانتا تھا امام کا مکہ اور مدینہ میں اثر و رسوخ ہے اور کسی بھی اہل بیتؑ کے گھراںے کے فرد کے ساتھ خصوصا امام حسینؑ سے مستقیم طور پر اپنے بظاہر اچھے تعلقات کو خراب کرنا مناسب نہیں۔ دوسری جانب سے اپنا سیاسی حریف بھی سمجھتا تھا اور یزید کی حکومت کے لیے بھی امام کی ذات کو خطر سمجھتا اس لیے امام حسینؑ اور معاویہ کے درمیان سیاست ہمیشہ پیچ و خم کا شکار رہی۔

← معاویہ کی امام حسینؑ سے بظاہر دلجوئی


تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ معاویہ بظاہر امام حسینؑ کے تقدس کا پاس رکھتا اور امامؑ کی شخصیت و مقام کی وجہ سے کبھی ان کی مستقیم طور پر بے احترامی کا مرتکب نہ ہوا۔ اپنے کارندوں کو بھی حکم دیتا تھا کہ فرزند رسول خدا ﷺ کے لیے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہ بنیں اور ان کا احترام بجا لائیں۔ یہ امامؑ کی شخصیت و عظمت کا مقام تھا کہ معاویہ جیسا شخص ان کا اکرام کرنے پہ مجبور تھا۔ ایک بار معاویہ نے دو لاکھ ۲۰۰۰۰۰ درہم حضرتؑ کے پاس بھجواۓ اور کہا: یہ لے لیجیے کہ خدا کی قسم آج تک کبھی کسی کو اتنا عطا نہیں کیا۔ امامؑ نے جواب میں فرمایا: جان لو! تجھ سے پہلے اور نہ تمہارے بعد کوئی بھی مجھ سے افضل نہیں۔ معاویہ کا امامؑ سے بظاہر نرم رویہ اور ان کی تکریم کرنا بھی یزید کے لیے حکومت کی راہ ہموار کرنے میں کارگر ثابت نہ ہو سکا اور آخر دم تک امام نے یزید کی ولیعہدی کو قبول نہ فرمایا۔

← امام حسینؑ کی حرکات و سکنات پر نظر


ایک طرف بظاہر امامؑ کی ذاتِ والا کا احترام بجالانا اور ان کی تکریم کا حکم دینا اور دوسری طرف سے مسلسل امامؑ کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش، معاویہ کسی بھی سیاسی اقدام پر امام حسینؑ کی جانب سے کی جانے والی تنقید کا جواب خود امام پر دباؤ ڈال کر دیتا اور ان سے کہتا کہ وہ اپنے بھائی امام حسنؑ کے طے پاۓ معاہدے پر پابند رہیں اور کسی قسم کا حکومت مخالف قیام یا تحریک چلانے سے باز رہیں لیکن خود صلح نامے کی ایک شق پر بھی عمل نہ کرتا الٹا امام کی جانب خطوط پہ خطوط بھیجتا اور ان کو حکومت مخالف اظہارات نہ کرنے کی تلقین کرتا۔ معاویہ نے شدت سے امامؑ کے تمام تحرکات کو اپنی نظروں میں رکھا ہوا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ حجر بن عدی کی شہادت کے بعد چند کوفی مدینہ گئے اور حجر بن عدی کی شہادت کی خبر امام حسینؑ کو پہنچائی، وہ آۓ روز امام کے گھر آتے جاتے جس کی خبر حاکم مدینہ مروان حکم کو ہوئی، اس نے معاویہ کو اس ماجرا سے مطلع کیا تو معاویہ نے اسے جواب دیا: حسینؑ کے لیے کسی بھی قسم کی پریشانی کا باعث مت بنو، انہوں نے ہماری بیعت کر رکھی ہے اور وہ اپنی بیعت کو کبھی نہیں توڑیں گے اور اس پیمان پر پابند رہیں گے جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا۔ دوسری طرف امام حسینؑ کی طرف بھی خط بھیجا جس میں لکھا کہ وہ صلح نامہ کے پابند رہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، ج۲، ص۳۲۔    
۲. ابن‌شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل‌ ابی‌ طالب، ج۳، ص۲۳۹۔    
۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۵۲۔    
۴. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۲۲۲۔    
۵. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۲۲۴-۲۲۵۔    
۶. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۱۲۰-۱۲۱۔    
۷. ابن‌قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۲۰۲-۲۰۴۔    
۸. ابن‌ سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری،ج۱، ص۴۰۸۔    
۹. ابن‌ عساکر، علی ین حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۵۴، ص۲۹۰۔    
۱۰. ابن‌ سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۲۹۳۔    
۱۱. شافعی، محمد بن ادریس، کتاب المسند، ص۵۵۔    
۱۲. کوفی، محمد بن محمد، الجعفریات، ص۵۲۔    
۱۳. راوندی، فضل الله، النوادر، ص۳۰۔
۱۴. ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۵۴، ص۲۹۰۔    
۱۵. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۱۸-۱۹۔    
۱۶. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۴۴، ص۱۲۷۔    
۱۷. حرانی، حسن بن شعبۃ، تحف العقول، ص۲۳۷-۲۳۹۔    
۱۸. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۰، ص۷۹-۸۱۔    
۱۹. نساء/سوره۴، آیت۵۹۔    
۲۰. بقره/سوره۲، آیت۱۶۸۔    
۲۱. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۲-۲۳۔    
۲۲. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۲۲۴-۲۲۵۔    
۲۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۱۲۰-۱۲۱۔    
۲۴. ابن‌قتیبۃ، عبد اللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۲۰۲-۲۰۴۔    
۲۵. ابن‌قتیبہ، عبد اللہ بن مسلم، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۲۰۸-۲۰۹۔    
۲۶. کوفی، ابن‌ اعثم، الفتوح، ج۴، ص۳۳۹۔    
۲۷. یعقوبی، احمد بن ابی‌ یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۲۸-۲۲۹۔    
۲۸. ذہبی، محمد ین احمد، سیر اعلام النبلاء، ج۳، ص۲۹۱۔    
۲۹. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۲۲۴۔    
۳۰. کشّی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص۴۸۔    
۳۱. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۷۔    
۳۲. ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج۸، ص۱۵۱۔    
۳۳. طوسی، محمدبن حسن، تہذیب الاحکام، ج۶، ص۳۳۷۔    
۳۴. تمیمی ‌مغربی، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، ج۲، ص۳۲۴۔    
۳۵. ابن‌کثیر، اسماعیل ین عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج۸، ص۱۵۱۔    
۳۶. ابن‌ عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۴، ص۱۱۳۔    
۳۷. دینوری، احمد بن داود، الاخبار الطوال، ص۲۲۴-۲۲۵۔    
۳۸. کشّی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص۴۵-۵۰۔    
۳۹. عاملی، ابن‌حاتم، الدر النظیم، ص۵۳۳-۵۳۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہ امام حسین در دوران معاویہ سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ سایٹ کی تاریخ:۱۳۹۵/۳/۱۰۔    






جعبه ابزار