سیاست
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
سیاست (فقہ)
سیاست سے مراد ملک کی
سیاسی،
ثقافتی،
اقتصادی اور دیگر مختلف جہات سے
اصلاح و تدبیر (امور کی مدیریت) کرنا ہے۔
[ترمیم]
لغت میں
سیاست کے معنی
تدبیر، اصلاح اور تربیت کرنے کے ہیں۔ اس لحاظ سے سیاست کو
امر و نہی کرنے،
ریاست چلانے، حکمرانی کرنے، مصلحت سے کام لینے، سزا دینے، تربیت و ادب کرنے، حیوانات کو سدھانے، کسی شے کی اصلاح کرنے، کسی شے کی حفاظت کرنے اور کسی شے کو پابند کرنے کے معانی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
[ترمیم]
سیاست کا مفہوم پیچیدہ ترین مفاہیم میں سے ایک ہے۔ اس لیے صاحب نظر مفکرین نے سیاست کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ یہ سب تعریفیں
نسبی ہیں اور ہر تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب نظر نے سیاست کی مختلف جہات و ابعاد کو مدنظر رکھتے ہوۓ اس کی تعریف کی ہے۔ اس مفہوم کے پیچیدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست کے ساتھ بہت سے
موضوعات مرتبط ہو جاتے ہیں اور معاشرے کی تمام افراد اور گروہ اس کے مفہوم میں شامل ہو جاتے ہیں اس لئے تعریف کرنے میں پیچیدگی بڑھ جاتی ہے۔ جب کسی
علم کا موضوع وسیع ہو اور اس کے اجزاء و آحاد منتشر ہوں تو اس علم کی
جامع و مانع تعریف کرنا جو اس کے تمام مصادیق کو شامل ہو جاۓ، بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
ملک کی امور کی مدیریت کو مدنظر رکھتے ہوۓ تعریف کرنا۔
یا ملک کے امور کی مدیریت کرنا اور ان کے باہر کی دنیا سے ارتباط کو سامنے رکھتے ہوۓ تعریف کرنا۔
اس طرح سے مختلف تعریفیں ذکر ہوئی ہیں لیکن ان تعریفوں کی حدود واضح نہیں ہیں اور ہر صاحب نظر نے اپنے طور پر اس کی حدود کو پھیلایا یا کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
[ترمیم]
ہمارے یہاں کتابوں اور فقہی ابواب میں سیاست پر مستقل باب نہیں لکھا جاتا تھا۔ لیکن بعض فقہاء نے سیاست کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھیں ہیں۔ جن میں مشہور کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔
تنبیہ الامۃ و تنزیہ الملۃ (مرزا نائینی مرحوم متوفی ۱۳۵۵ ہجری قمری)
۲۔
قاطعۃ اللجاج (محقق کرکی متوفی ۹۴۰ ہجری قمری)
۳۔
ولایت فقیہ (امام خمینی متوفی ۱۴۰۹ ہجری قمری)
۴۔
الفقہ السیاسۃ (سید محمد شیرازی متوفی ۱۴۲۲ ہجری قمری)
۵۔
دراسات فی ولایۃ الفقیہ (حسینعلی منتظری متوفی ۱۴۳۱ ہجری قمری)
[ترمیم]
فقہ کے بہت سے ابواب سیاست سے مربوط ہیں جن میں قابل ذکر ابواب مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔
قضاء۲۔
اقرار۳۔
شهادات۴۔
صلح۵۔
حدود۶۔
تعزیرات۷۔
قصاص۸۔
دیات۹۔
جہاد۱۰۔
امر به معروف۱۱۔
نهی از منکر۱۲۔
سبق و رمایہ۱۳۔
خمس۱۴۔
زکات۔
[ترمیم]
اقوام عالم کے دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ نظام ہستی کی بقا اور اس کا قوام، زندگی بشر کا استمرار اس بات پر منحصر ہے کہ ان پر حکومت کیسی ہے۔ فرق نہیں پڑتا حکومت حق کی ہو یا باطل کی بہر صورت حکومت کا ہونا بہت ضروری ہے۔
چنانچہ امیرالمومنین امام علی(علیہ السلام) کا ارشاد ہے: لوگوں کے لیے حاکم کا ہونا ضروری ہے چاہے وہ نیک ہو یا بد۔
[ترمیم]
کلی طور پر حکومت کی دو ذمہ داریاں ہیں۔
۱۔
قانون گذاری۲۔
اجراء قانونقانون انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر قانون نا ہو تو انسان آپس کے
اجتماعی تعاملات میں اختلافات کا شکار ہو جائیں گے۔ اگر قانون موجود ہو تو انسان اپنی ضرورتوں اور اپنے حقوق و ذمہ داریوں کے متعلق آگاہ ہوگا اور کسی دوسرے کے حق کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاۓ گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ قانون گذاری اور قانون سازی کا حق صرف
اللہ تعالی کی ذات کو حاصل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالی کی ذات
بشر کو خلق کرنے والا اور اس کو مادی و معنوی طور پر
رزق دینے والا ہے۔ اور جو خالق و رازق ہو وہ سب سے زیادہ بشر کے
مصالح و مفاسد کو بہتر جانتا ہے۔ اس بنا پر سب انسانوں پر
امر و نہی کے متعلق سب سے زیادہ حق جس کو حاصل ہے وہ سواۓ خداوند متعال کے کوئی نہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق قوانین دو طرح کے ہیں۔
۱۔ وہ قوانین جو
کتاب و
سنت معتبرہ میں وارد ہوۓ ہیں۔ یہ قوانین
ثابت اور تغییر ناپذیر ہیں۔ خود اس قسم کی مزید دو اقسام ہیں۔ وہ قوانین جو مستقیم طور پر از جانب خداوند متعال وضع ہوۓ ہیں۔ اور وہ قوانین جن کو وضع کرنے کا اذن خود خدا نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ) اور آئمہ معصومین(علیہم السلام) کو عطا کیا ہے۔
۲۔ وہ قوانین جو کتاب و سنت معتبرہ میں وارد نہیں ہوۓ اور
جزئی، یا
موقتی ہیں۔ ان قوانین کو
احکام حکومتی و ولائی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ کوئی شک نہیں ہے کہ ان قوانین کو وضع کرنے کا حق
معصومین(علیہم السلام) کو حاصل ہے۔ لیکن آیا یہ حق غیر معصوم
جامع الشرائط فقیہ کو بھی حاصل ہے یا نہیں اس بارے میں نظریات مختلف ہیں۔
[ترمیم]
اصولی شیعہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ قانون گذاری کے لیے ہمارے پاس چار منابع موجود ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔
کتاب۲۔
سنت۳۔
اجماع۴۔
عقل[ترمیم]
کوئی شک نہیں ہے کہ
علی الاطلاق اس عالم کا
حقیقی حاکم اللہ تعالی ہے۔ تمام ہستی اس کی
قدرت کے آگے
مقہور اور اس کی مشیت و ارادہ کے آگے سر تسلیم خم ہے۔ عالم ہستی میں ایک پتہ بھی اس کے اذن کے بغیر ہل نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالی کی ذات انسانی ادراک سے بالاتر ہے، انسان کا وہم و گمان بھی اللہ تعالی کی ذات تک نہیں پہنچ سکتا نیز الہی قوانین کو بھی انسان بغیر وحی کے دریافت نہیں کر سکتا اس لیے اللہ تعالی نے اپنے اور اپنی مخلوق کے درمیان جانشین قرار دیے ہیں جو الہی قوانین کی تبیین کرتے ہیں اور بشر پر ان قوانین کو جاری کرنے کے بھی ذمہ دار ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور ان کے اوصیاء ہی حقیقی جانشینان الہی ہیں۔ اجراء قانون، اور معاشرے کی رہبری ہر دو انبیاء کے وظائف ہیں۔
امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «حکومت کرنے کا حق صرف نبی یا ان کے وصی کو حاصل ہے۔»
امیرالمومنین (علیہ السّلام) نے قاضی شریح کو فرمایا: «اے
شریح تو ایک ایسے مقام پر بیٹھا ہے جس پر سواۓ نبی، نبی کے وصی اور یا شقی فرد کے کوئی نہیں بیٹھتا۔»
[ترمیم]
متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ
قضاوت کا منصب صرف
جامع الشرائط فقیہ کے لئے ثابت ہے۔ تاہم
عصر غیبت میں معاشرے کی مدیریت کے متعلق مختلف نظریات موجود ہیں جن کی طرف مخصوص ابحاث میں اشارہ کیا جاۓ گا۔ اس بنا پر جو بات واضحات میں سے ہے یہ کہ حاکم یا قاضی کو صرف
منصوب یا
ماذون من اللہ ہونا چاہیے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۴، ص۵۶۷-۵۷۰۔ رده:اندیشه سیاسی