امام حسین خلفاء کے دور میں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسینؑ کی زندگی کے پچیس سال خلفاء ثلاثہ کے دور میں گزرے ہیں۔ آپؑ کے بچپنے سے نوجوانی کے ایام بہت اہمیت کے حامل ہیں جن کا بغور مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ جب خلیفہ اول مسند خلافت پر براجمان ہوۓ تو اس وقت آپؑ کی عمر مبارک سات سال تھی۔ خلیفہ دوم کی آغاز خلافت کے وقت آپ نو سال اور خلیفہ سوم کی خلافت کے موقع پر آپ انیس سال کے خوبرو اور مضبوط جسم رکھنے والے عصمت کی بلندیوں پر فائز جوان تھے۔ خلفاء کے دور میں حکومتِ وقت کا گھرانہِ امام علیؑ پر کڑی نگاہ رکھنا اور ان کو سیاسی فعالیت سے کنارہ کش رہنے پر مجبور کیے رکھنا اور حکومتی مسائل میں کسی قسم کی مداخلت کی فرصت نہ دینا باعث بنا کہ امت کے درمیان اس دور میں ان ہستیوں کی سیرت اور عملی اقدامات کی تاریخ محفوظ نہیں رہ سکی۔ چنانچہ اگر ہم تک تاریخ و احادیث کی کتب میں کچھ واقعات پہنچے بھی ہیں تو وہ انگشت شمار ہیں۔


امام حسینؑ خلفاء ثلاثہ کے دور میں

[ترمیم]

امام حسینؑ اور ان کے برادر بزرگوار امام حسنؑ اپنے شخصی کمالات، اہل بیت طہارت کے الہٰی اعزاز نبی اکرمﷺ کی اولاد ہونے کی وجہ سے امت میں خاص مقام و منزلت کے حامل شمار ہوتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ سے ان دونوں ہستیوں کے بارے میں مسلسل فضائل کا صادر ہونا سبب بنا کہ خلفاء ثلاثہ کے دور میں امت اسلامیہ میں ان کی حرمت کا پاس کیا جاتا۔

← خلیفہ اول کے دور میں


خلافت ابو بکر کا شروع ہونا ہی تھا کہ اہل بیتؑ کے گھرانے پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ایک جانب سے رسول اللہ ﷺ کی رحلت کا غم اور دوسری جانب سے اہل بیتؑ کا حق خلافت، حق ولایت و حق رہبری کا چھن جانا کہ جس کی وجہ سے امت قیامت تک کے لیے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور انحراف کا شکار ہو گئی۔ يہ وہ غم تھا جس نے گھرانہ اہل بیتؑ کو غمزدہ کر دیا۔ ان مشکل ترین ایام میں اگرچہ امام حسینؑ کا سن مبارک بہت کم تھا لیکن کمسنی کی حالت میں اپنے والد گرام علیؑ اور والدہ ماجدہ جناب زہراؑ کا دفاع کیا اور ان کی نصرت کی۔

←← اصحاب بدر سے نصرت کا تقاضا


نقل ہوا ہے کہ حق خلافت کے غصب ہونے کے بعد امام حسینؑ اپنے بھیا امام حسنؑ، اپنے بابا علی مرتضیؑ اور اپنی ماں زہراؑ کے ساتھ مدینہ میں رہنے والے تمام اہل بدر کے گھر گئے ان کو حق خلافت امام علیؑ ياد دلایا اور نصرت کا تقاضا کیا۔آپ حضرات جنگ بدر کے اصحاب، مہاجرین اور انصار میں سے ہر ایک کے گھر تشریف لے گئے اور سب کو دعوت دی کہ خلافت امام علیؑ اور ان کے حق کے قیام کے لیے نصرت کریں لیکن کسی نے اس دعوت پر لبیک نہ کہی سواۓ چار افراد کے۔

←← خلیفہ اول کو منبر رسول ﷺ پر بیٹھنے سے منع کرنا


تاریخ میں امام حسینؑ کی نوجوانی کے واقعات میں سے ایک واقعہ جو بہت سے مصادر میں وارد ہوا ہے اور مشہور بھی ہے وہ آپؑ کا خلیفہ اول کو اپنے نانا کے منبر پر بیٹھنے سے منع کرنا ہے۔ يہ واقعہ روایت میں اس طرح سے وارد ہوا ہے کہ ایک دن روزِ جمعہ خلیفہ اول مسجد نبوی تشریف لاۓ اور خطبہ دینے کے لیے منبر کی جانب بڑھے، جب حسنین کریمینؑ نے ان کو منبر کی جانب بڑھتے ہوۓ دیکھا تو امام حسینؑ نے خلیفہ اول کو مخاطب ہو کر فرمایا: يہ منبر میرے بابا کا ہے نہ کہ تمہارے بابا کا۔ خلیفہ اول رونے لگے اور کہا: سچ کہتے ہیں آپ! يہ منبر آپ کے بابا کا ہے میرے بابا کا نہیں۔يہ واقعہ ایک اور روایت میں اس طرح سے وارد ہوا ہے کہ ایک دن امام حسینؑ خلیفہ اول کے پاس آۓ اس وقت وہ منبر رسول ﷺ پر موجود تھے۔ امام حسینؑ نے ان سے فرمایا: میرے والد کی جگہ سے نیچے اتر آؤ! خلیفہ اول نے کہا: سچ کہتے ہو، يہ جگہ آپؑ کے ہی باپ کی ہے۔ پھر خلیفہ اول نے ان کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور رونے لگے۔

← خلیفہ دوم کے زمانے میں


خلفاء ثلاثہ کی خلافت کا زمانہ دراصل ایک ایسا زمانہ ہے کہ جس میں امیر المومنینؑ اور ان کا خانوادہ معاشرہ میں نمایاں طور پر نظر نہیں آتا اور نہ حکومتی مسائل میں ان کو مداخلت کی فرصت دی جاتی۔ اسی طرح امام علیؑ اور امام حسن و حسین علیہما السلام کی سیاسی فعالیت پر کڑی نگاہ رکھی جاتی تھی۔ ابتداء خلافت میں سقیفہ کے واقعہ کے بعد بالخصوص جناب فاطمہؑ کی شہادت کے بعد امام علیؑ کو معاشرہ والوں نے تنہا کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے تین خلفاء کے دور میں امام علیؑ بالخصوص امام حسنؑ و امام حسینؑ کے بہت کم حالات کتابوں میں وارد ہوئے ہیں۔

←← ظاہری تعظیم بجالانا


تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ خلیفہ اول کی مانند خلیفہ دوم بھی عظمت و مرتبتِ حسنین کریمینؑ کا پاس رکھتے اور کبھی ان کی بے احترامی نہیں کرتے تھے۔ خلیفہ دوم حتی اپنے بچوں پر بھی حسنین کریمینؑ کو فوقیت دیتے اور بیت المال سے ان کا سہم اپنے بچوں سے زیادہ رکھتے۔اس مطلب کو ذیل میں آنے والی روایات سے درک کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ و کتب احادیث کے مطابق خلیفہ دوم کا جناب فاطمہؑ اور امام علیؑ سے شدید ٹکراؤ اور اختلاف تھا یہاں تک خلیفہ دوم نے جناب زہراء علیہا السلام کو شہید کر دیا۔ ایک طرف یہ رویہ تھا جبکہ جناب حسنین کریمینؑ سے اس کے برعکس احترام و الفت کا رویے کا اظہار تھا جوکہ تعجب آور اور باعث حیرت ہے۔ اگر ہم دقت کے ساتھ ان تمام واقعات کا بغور جائزہ لیں اور بصیرت کے ساتھ مطالعہ کریں تو سمجھا آئے گا کہ اس ظاہری احترام کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے جس میں سے ایک اہم عامل اس وقت سیاسی تناظر میں معاشرے کی توجہ جذب کرنا اور اپنی سیرت کو عوام میں مقبول بنانا تھا۔ نیز اس کے علاوہ ایک اور وجہ رسول اللہ ﷺ کی جناب حسنین کریمینؑ سے شدید محبت کرنا اور امت کے سامنے ان کے فضائل اور کمالات کو بیان کرنا تھا جس کی وجہ سے معاشرہ عمومی طور پر ان ہستیوں کو عزت، تعظیم اور محبت کے آئینے میں دیکھتا تھا۔ چنانچہ سیاسی رہبران اپنی عوامی مقبولیت کو زد لگنے سے بچانے کی خاطر بظاہر ان ہستیوں کا احترام کرتے اور محبت کا اظہار کرتے۔

←← خلیفہ ثانی کو منبر رسول ﷺ پر بیٹھنے سے منع کرنا


روایت میں وارد ہوا ہے کہ خلیفہ دوم عمر بن خطاب کی خلافت کے ابتدائی ایام تھے۔ ایک دن امام حسینؑ مسجد نبوی میں داخل ہوۓ اور دیکھا کہ خلیفہ ثانی منبر پر خطبہ دے رہے ہیں۔ امامؑ منبر کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: میرے والد کے منبر سے نیچے اتر آؤ اور اپنے باپ کے منبر پر بیٹھو! خلیفہ دوم يہ سن کر مبہوت ہو کر رہ گئے اور جواب دیا: میرے باپ کا تو منبر ہی نہیں تھا، يہ کہہ کر امامؑ کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ جب منبر سے نیچے اترے تو امامؑ کو ان کے گھر لے گئے اور کہا: میرے بیٹے تمہیں یہ سب کس نے کہنے کو کہا ہے؟ امامؑ نے جواب دیا: کسی نے مجھے نہیں سیکھایا۔ خلیفہ دوم نے کہا: کاش آپ ہمارے پاس آیا کرتے اور اپنے نظریات سے ہمیں بھی بہرہ مند فرماتے۔

←← اپنے بیٹے پر فوقیت دینا


ایک دن امام حسینؑ خلیفہ دوم کے گھر تشریف لے جارہے تھے، اس وقت خلیفہ دوم معاویہ کے ساتھ خلوت میں تھے۔ يہ وہ زمانہ تھا کہ جب معاویہ اپنے بھائی يزید کی موت کے بعد شام کا حاکم بنا۔ خلیفہ دوم نے حکم دے رکھا تھا کہ جب تک ہم اندر نشست کررہے ہیں کسی کو بھی اندر نہ آنے دیا جاۓ، اس بنا پر خلیفہ نے اپنے نگہبان کو دروازے پر تعینات کردیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر کے اجازت لینے پر اسے اندر جانے کی اجازت نہ دی گئی يہ دیکھ کر امام حسینؑ بھی واپس ہو گئے۔ بعد میں جب خلیفہ دوم نے امامؑ سے پوچھا کہ آپ ہمارے گھر تشریف کیوں نہ لاۓ؟ امامؑ نے فرمایا: آۓ تھے لیکن آپ معاویہ کے ساتھ تنہائی میں تھے اور جب میں نے دیکھا کہ آپ کے بیٹے کو بھی اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تو میں بھی واپس چلا گیا۔
[۲۷] ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۵، ص۱۰۰۔
خلیفہ دوم نے جواب دیا: آپؑ میرے بیٹے عبد اللہ سے زیادہ اندر داخل ہونے کے لیے شائستہ تھے کيونکہ جو کچھ بھی ہمارے سروں پر موجود ہے اس کا سبب خداوند اور اس کے بعد آپؑ ہیں۔

←← خلیفہ دوم کے خطاب کے دوران امامؑ کا احتجاج


يہ روایت بہت سے منابع میں مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، نقل ہوا ہے کہ ایک دن خلیفہ دوم منبر رسول اللہ ﷺ پر خطاب کررہے تھے اس دوران انہوں نے خود کو اولی بالمومنین قرار دیا۔ امام حسینؑ کا سن مبارک اس وقت دس سال تھا، آپ مسجد میں داخل ہوۓ اور منبر کے سامنے آ کر شہامت و شجاعت کے ساتھ خلیفہ دوم سے مخاطب ہو کر فرمایا: «انزل ایها الکذاب عن منبر ابی رسول الله لا منبر ابیک.» اس کے بعد اپنے بابا علیؑ کے حق امامت کا ذکر کیا اور احتجاج کیا، اور فرمایا کہ میرے بابا کا بھی حق غصب کیا گیا اور میری ماں کو بھی حق نہ دیا گیا، اس پُر جوش احتجاج پر مسجد میں حاضرین رونے لگے۔

←← بیت المال سے عطا


وارد ہوا ہے کہ مسلمانوں میں جب بیت المال کا حصہ بانٹا جاتا تو سب سے زیادہ حصہ اصحاب بدر کو دیا جاتا، نقل ہوا ہے کہ خلیفہ دوم امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو بھی بیت المال سے اتنا حصہ عطا کرتے جتنا اصحاب بدر کو دیتے۔

←← حسنین کریمینؑ کے لیے مخصوص لباس


خلیفہ دوم کے زمانے میں حسنین کریمینؑ کے ساتھ پیش آیا ایک اور واقعہ جو بہت سی اہل سنت کتب میں وارد ہوا ہے وہ يہ کہ ایک دن خلیفہ دوم مسلمانوں میں لباس تقسیم کررہے تھے اور اس سے پہلے کہ حسنین کریمینؑ تک ان کا حصہ پہنچتا لباس ختم ہوگیا، خلیفہ دوم اس پر بہت شرمندہ ہوۓ اور والی یمن کو فوری طور پر خط لکھ بھیجا اور اسے کہا کہ حسنین کریمینؑ کے لیے مخصوص يمنی حِلّہ بھیجی جاۓ، جب لباس پہنچے اور خلیفہ نے وہ لباس آپ حضرات تک پہنچوا دیا تو سجدہ شکر بجا لايا اور کہا: اب میرا نفس راحت میں ہے۔

← خلیفہ سوم کے زمانے میں


جب خلیفہ سوم خلافت کی مسند پر بیٹھے تو اس وقت امام حسینؑ کی عمر مبارک انیس سال تھی، خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران بھی تاریخ میں ہمیں امام حسینؑ کے چند واقعات ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ سوم بھی اپنے سے ماقبل دو خلفاء کی مانند امام حسینؑ کا ظاہری طور پر احترام بجالایا کرتے تھے اور اس عظمت و حرمت کے قائل تھے جو اس وقت کا معاشرہ قائل تھا۔

←← فتوحات میں شرکت


بعض اہل سنت منابع میں وارد ہوا ہے کہ امام حسینؑ نے خلیفہ سوم کے زمانے میں بعض جنگوں میں شرکت کی اور فتوحات میں حصہ لیا۔ ان منابع کے مطابق نا صرف امام حسینؑ بلکہ ان کے برادر بزرگوار امام حسنؑ بھی شریک تھے مثلا جنگ طبرستان میں سعید بن عاص کی فرماندہی میں حسنین کریمینؑ نے شرکت کی۔

←← جناب ابوذر کو رخصت کرنے کے لیے جانا


امام حسینؑ اپنے بھائی امام حسنؑ اور اپنے والد گرام امام علیؑ کی طرح کسی بھی ظلم پر خاموش نہ رہتے اور ہر مظلوم کی دلجوئی کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے يہی وجہ تھی کہ خلیفہ سوم بعض اوقات ان افعال کی وجہ سے آپ اور آپ کے بابا پر سخت غضبناک ہوتے لیکن ہر حال میں اس باعظمت گھرانے کی حرمت کا پاس رکھتے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ خلیفہ سوم کی بعض سیاسی حرکات پر جناب ابو ذر نے اعتراض بلند کیا جس کی بنا پر خلیفہ نے انہیں ربذہ کی جانب بدر کر دیا اور سب کو حکم دیا کہ ابوذر کو کوئی بھی الوداع کرنے نہیں جاۓ گا۔ خلیفہ کے حکم کے باوجود امام علیؑ اپنے بیٹوں حسنؑ و حسینؑ اور اپنے بھائی عقیل بن ابی طالب کے فرزندان جعفر بن عبد اللہ اور عمار یاسر کو حضرت ابو ذر غفاری کے ہمراہ الوداع کہنے بھیجا۔ اس موقع پر امام حسینؑ نے جناب ابوذر کی استقامت بڑھانے اور تسلی دل کے لیے فرمایا: چچا جان! اللہ ان حالات کو بدل سکتا ہے ... اس جماعت نے اپنی دنیا کو آپ کی وجہ سے خطرے میں ڈال دیا ہے اور آپ نے ان لوگوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اپنے دین کو بچا لیا؛ پس کس قدر آپ ان کی دنیا سے بیزار ہیں اور وہ کس قدر آپ کی دینداری کے محتاج ہیں!! آپ صبر کیجیے! کيونکہ خیر صبر و بردباری میں ہے اور صابر ہونا بلند شخصیت کی علامت ہے۔

←← خلیفہ سوم کا دفاع کرنا


خلیفہ سوم کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو جب معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ جو بھی زیادتیاں ہوئیں ان کی وجہ مروان بن حکم تھے تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ مروان کو ان کے حوالے کردیا جاۓ لیکن خلیفہ سوم نے یہ مطالبہ پورا کرنے سے انکار کردیا جس کے ردعمل میں خلیفہ سوم کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔ جب امیرالمومنینؑ کو خبر پہنچی کہ خلیفہ سوم کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا ہے اور بعض افراد خلیفہ کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو آپؑ نے اپنے بیٹوں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو حکم دیا: اپنی شمشیروں کو ساتھ لے جاؤ اور خلیفہ سوم کے گھر کے دروازے پر تعینات ہوجاؤ۔ اور کسی کو خلیفہ تک پہنچنے نہ دینا۔ جب طلحہ و زبیر نے دیکھا کہ علیؑ نے خلیفہ کی محافظت کے لیے اپنے فرزند بھیجے ہیں تو ناچار ہو کر اپنے بیٹوں کو بھی خلیفہ کی حفاظت کے لیے بھیجا، ان کی دیکھا دیکھی چند دیگر اصحاب نے بھی يہی کام کیا۔ اسی دوران مظاہرین میں سے کسی نے تیر پھینکا جو امام حسنؑ کو جا لگا، امام حسنؑ کو زخمی حالت میں وہاں سے نکالا گیا يہاں تک کہ احتجاج کرنے والوں نے مل کر ایک بڑا حملہ کیا اور خلیفہ کے گھر گھس کر ان کو قتل کردیا۔
[۵۵] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۲، ص۳۴۵۔
امام حسنؑ و امام حسینؑ جب واپس ہوۓ تو دیکھا کہ خلیفہ سوم قتل ہوۓ پڑے ہیں۔
[۵۹] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۲، ص۳۴۵۔
[۶۲] قرشی، باقر شریف، حیاة الامام حسنؑ، ج۱، ص۳۰۲۔
البتہ يہاں پر يہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان روایات کو بعض شیعہ علماء کرام نے رد کیا ہے اور اس رد پر دلائل و قرائن پیش کیے ہیں جن کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. دینوری، ابن‌قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۲۹-۳۰۔    
۲. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۱، ص۹۸۔    
۳. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۱، ص۲۸۱۔    
۴. مجلسی، بحار الانوار، ج۲۲، ص۳۲۸۔    
۵. معتزلی، ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۶، ص۱۳۔    
۶. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۱، ص۱۰۸۔    
۷. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۱، ص۲۸۱۔    
۸. ابن‌عساکر، تاریخ مدینه دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵، ج۳۰، ص۳۰۷.    
۹. کوفی، محمد بن محمد، الجعفریات، تهران، مکتبة نینوی الحدیثه، بی‌تا، ص۲۱۲-۲۱۳.    
۱۰. محدث نوری، مستدرک الوسائل، قم، آل البیت (علیه‌السّلام)، ۱۴۰۹، ج۱۵، ص۱۶۵.    
۱۱. ابن‌عساکر، تاریخ مدینه دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵، ج۳۰، ص۳۰۷.    
۱۲. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۳۔    
۱۳. بلاذری، فتوح البلدان، ص۴۳۶۔    
۱۴. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۳، ص۲۳۸۔    
۱۵. نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، ج۳، ص۷۹۹۔    
۱۶. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۴۔    
۱۷. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۵، ص۱۰۰.    
۱۸. ابن شہر آشوب، المناقب، ج۳، ص۲۰۱۔    
۱۹. بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۵۲۔    
۲۰. نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، ج۳، ص۷۹۹۔    
۲۱. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، تج۱، ص۳۹۴-۳۹۵۔    
۲۲. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۵، ص۱۰۰۔    
۲۳. متقی ہندی، علاء الدین علی، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، ج۱۳، ص۶۵۴-۶۵۵۔    
۲۴. بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۵۲۔    
۲۵. نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنوره۔    
۲۶. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۵۔    
۲۷. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۵، ص۱۰۰۔
۲۸. متقی ہندی، علاء الدین علی، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، ج۱۳، ص۶۵۵۔    
۲۹. بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۵۲۔    
۳۰. نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنوره، ج۳، ص۷۹۹۔    
۳۱. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۵۔    
۳۲. ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۵، ص۱۰۰۔    
۳۳. متقی هندی، علاء الدین علی، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، ج۱۳، ص۶۵۵۔    
۳۴. بغدادی، تاریخ بغداد، ج۱، ص۱۵۲۔    
۳۵. طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۱۳۔    
۳۶. مجلسی، بحارالانوار، بیروت، مؤسسه الوفاء، ۱۴۰۴، ج۳۰، ص۴۷-۴۸۔    
۳۷. ذهبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج۵، ص۱۰۰۔    
۳۸. ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۴، ص۱۷۶۔    
۳۹. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۳۔    
۴۰. بلاذری، فتوح البلدان، ص۴۳۶۔    
۴۱. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۳، ص۲۳۸۔    
۴۲. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۳۹۳-۳۹۴۔    
۴۳. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۱۴، ص۱۷۷۔    
۴۴. ابن‌فقیہ، احمد بن محمد، البلدان، ص۵۷۰۔    
۴۵. ابن‌جوزی، المنتظم، ج۵، ص۷۔    
۴۶. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۱۰۹۔    
۴۷. معتزلی، ابن‌ ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج۸، ص۲۵۳-۲۵۴۔    
۴۸. کلینی، الکافی، ج۸، ص۲۰۷۔    
۴۹. دینوری، ابن‌قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ص۵۹۔    
۵۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۵۵۸۔    
۵۱. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۹، ص۴۱۸۔    
۵۲. دینوری، دینوری، ابن‌قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۵۹۔    
۵۳. احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۵۵۸۔    
۵۴. دینوری، ابن‌قتیبه، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۶۲۔    
۵۵. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۲، ص۳۴۵۔
۵۶. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۵۵۸۔    
۵۷. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۹، ص۴۱۸۔    
۵۸. دینوری، ابن‌قتیبۃ، الامامۃ و السیاسۃ، ج۱، ص۶۳۔    
۵۹. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج۲، ص۳۴۵۔
۶۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۵، ص۵۵۹۔    
۶۱. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج۳۹، ص۴۱۸۔    
۶۲. قرشی، باقر شریف، حیاة الامام حسنؑ، ج۱، ص۳۰۲۔


مأخذ

[ترمیم]

سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہِ امام حسین در دوران خلفاء سے مأخوذ ہے۔ مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۱۳۹۵/۳/۱۲۔    






جعبه ابزار