امام علیؑ کی کعبہ میں ولادت (اہل سنت علما کے اقوال کی روشنی میں)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالبؑ تیرہ رجب تیس عام الفیل کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ حضرتؑ کی خانہ کعبہ کے اندر ولادت کی بحث فریقین کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے۔ اس تحریر میں بعض اہل سنت علما کے اقوال کی روشنی میں آپ کے سامنے کعبہ میں ولادت کا اثبات کیا جائے گا۔


حاکم نیشاپوری

[ترمیم]

اہل سنت کے بزرگ عالم حاکم نیشاپوری حضرت امیرؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فقد تواترت الاخبار ان فاطمة بنت اسد ولدت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب کرم الله وجهه فی جوف الکعبة
متواتر روایات وارد ہوئی ہیں کہ فاطمہ بنت اسد سے امیر المومنینؑ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی ہے۔

سبط ابن جوزی

[ترمیم]

یہ ایک اور اہل سنت عالم ہیں جو حضرتؑ کی ولادت با سعادت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وروی ان فاطمة بنت اسد کانت تطوف بالبیت وهی حامل بعلی (علیه‌السّلام) فضربها الطلق ففتح لها باب الکعبة فدخلت فوضتعه فیها
مروی ہے کہ فاطمہ بنت اسد حاملگی کی حالت میں خانہ خدا کا طواف کر رہی تھیں کہ درد زہ شروع ہو گیا اور آپ پر خانہ کعبہ کا دروازہ کھل گیا۔ پس آپ خانہ کعبہ میں داخل ہو گئیں اور وہیں بچے کی ولادت ہوئی۔

حلبی شافعی

[ترمیم]

ایک اور سنی مذہب عالم برھان ‌الدین حلبی حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وفی السنة الثلاثین من مولده صلی الله علیه وسلم ولد علی بن ابی طالب کرم الله وجهه فی الکعبة
پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے تیسویں سال علی بن ابی طالب (کرم‌الله‌وجهه) کعبہ میں پیدا ہوئے۔

فاکھی

[ترمیم]

محمد بن اسحاق فاکھی مکی اپنی کتاب میں اخبار مکہ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
واول من ولد فی الکعبة من بنی ‌هاشم من المهاجرین: علی بن ابی طالب ـ رضی الله عنه ـ
بنی ہاشم اور مہاجرین میں سے پہلی شخصیت جن کی کعبہ میں ولادت ہوئی، علی بن ابی طالب (رضی ‌اللہ ‌عنہ) ہیں۔

ابو زکریا الازدی

[ترمیم]

ازدی بھی کعبہ میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وکان ولد فی الکعبة ولم یولد فیها خلیفة غیر امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیه السلام
حضرتؑ کعبہ میں پیدا ہوئے، امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ کے علاوہ کوئی بھی خلیفہ کعبہ میں پیدا نہیں ہوا ہے۔
[۵] ازدی، ابوزکریا، تاریخ موصل، کتاب الثالث عشر، ص۵۸۔


آلوسی

[ترمیم]

آلوسی نے عبدالباقی عمری افندی جو خلیفہ دوم کی اولاد میں سے ہے؛ کی شرح اشعار عینیہ پر ایک شرح لکھی ہے کہ جس کا نام سرح الخریدہ الغیبیۃ فی شرح القصیدۃ العینیۃ ہے کہ جس میں افندی کے شعر کو ان الفاظ میں نقل کرتا ہے:
انت العلیُ اَلّذی فَوقَ الْعُلَی رُفِعا
آپ وہ علیؑ ہیں کہ آپؑ کا مقام اللہ نے بلند کیا ہے اور آپ انسانی رفعت کے عروج پر ہیں۔
بِبَطْنِ مَکهَ عِندَ البَیتِ اذْ وُضِعا
خدا نے آپؑ کو مکہ میں اور کعبہ کے اندر قرار دیا اور آپ اس مقام پر پیدا ہوئے۔
آلوسی آگے چل کر افندی کے ابیات کی شرح میں لکھتا ہے:
وفی کون الامیر کرم الله وجهه ولد فی البیت، امر مشهور فی الدنیا وذکرفی کتب الفریقین السنه و الشیعه
علی بن ابی طالبؑ کا خانہ خدا میں پیدا ہونا، ایک مشہور امر ہے جو شیعہ اور اہل سنت کتابوں میں وارد ہوا ہے۔
[۶] آلوسی، سرح الخریده، ص۳ و ۱۵۔

آلوسی کے کلام میں دقت کے ساتھ ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ انہوں نے ایک بزرگ اہل سنت عالم ہونے کے عنوان سے کعبہ میں امیر المومنینؑ کی ولادت کو ایک مشہور امر سمجھا ہے اور وہ معترف ہے کہ شیعہ و سنی کتب اس مسئلے کو اہمیت دیتی ہیں۔

ابن ‌صباغ مالکی

[ترمیم]

اہل سنت کے مالکی مذہب کے عالم ابن ‌صباغ، نے حضرت علیؑ کی فضیلت کے بارے میں یہ لکھا ہے:
ولد علی (علیه‌السّلام) بمکة المشرفة بداخل البیت الحرام فی یوم الجمعة الثالث عشر من شهر الله الاصم رجب الفرد سنة ثلاثین من عام الفیل قبل الهجرة بثلاث وعشرین سنة، وقیل بخمس وعشرین، وقبل المبعث باثنی عشرة سنة، وقیل بعشر سنین. ولم یولد فی البیت الحرام قبله احد سواه، وهی فضیلة خصه الله تعالی بها اجلالا له واعلاء لمرتبته واظهارا لتکرمته
علیؑ مکہ شریف میں بیت الحرام کے اندر بروز جمعۃ المبارک شھر اللہ یعنی ماہ رجب کی تیرہ تاریخ بمطابق تیس عام الفیل کو اور ہجرت سے تئیس برس قبل پیدا ہوئے۔۔۔۔ آپؑ سے پہلے کوئی بھی کعبہ میں پیدا نہیں ہوا اور یہ وہ فضیلت ہے جس سے اللہ نے انہیں خاص کیا، ان کی تجلیل، مقام و مرتبے کی بلندی اور ان کی کرامت کے اظہار کیلئے!
ابن صباغ بھی اشارہ کرتا ہے کہ کعبہ میں ولادت حضرت کی خاص فضیلت ہے جو ان کے مقام کی رفعت اور کرامت کے اظہار کیلئے اللہ نے انہیں بخشی ہے۔

گنجی شافعی

[ترمیم]

شافعی مذہب کے عالم حافظ گنجی کفایۃ الطالب میں لکھتے ہیں:
ولد امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب بمکة فی بیت الله الحرام لیلة الجمعة لثلاث عشرة لیلة خلت من رجب سنة ثلاثین من عام الفیل ولم یولد قبله ولا بعده مولود فی بیت الله الحرام سواه اکراما له بذلک، واجلالا لمحله فی التعظیم
امیر المومنینؑ تیرہ رجب کی شب جمعہ تیس عام الفیل کو بیت اللہ کے اندر پیدا ہوئے۔ نہ کوئی حضرتؑ سے پہلے اور نہ ہی کوئی حضرتؑ کے بعد خانہ کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا ہے اور یہ حضرتؑ کے مخصوص فضائل میں سے ہے جو اللہ نے ان کے مقام کی تجلیل کی غرض سے انہیں عطا فرمائے ہیں۔
[۸] حافظ گنجی، محمد بن یوسف، کفایة الطالب، ص۴۰۵-۴۰۶۔

گنجی کے کلمات میں غور و فکر کے بعد ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ بھی حضرتؑ کی کعبہ میں ولادت کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ تصریح کرتے ہیں کہ یہ فضیلت حضرت علیؑ کے علاوہ کسی اور کیلئے واقع نہیں ہوئی ہے۔

صفوری شافعی

[ترمیم]

صفوری شافعی بھی ان سنی علما میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنی دو کتابوں میں حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کو کتاب الفصول المھمۃ سے نقل کرتے ہوئے ان الفاظ میں لکھا ہے:
ورایت فی الفصول المهمة فی معرفة الائمة بمکه المشرفة شرفها الله تعالی لابی الحسن المالکی ان علیا ولدته امه بجوف الکعبة شرفها الله تعالی وهی فضیلة خصه الله تعالی بها وذلک ان فاطمة بنت اسد رضی الله عنها اصابها شدة الطلق فادخلها ابوطالب الی الکعبة فطلقت طلقة واحدة فوضعته یوم الجمعة فی رجب سنة ثلاثین من عام الفیل...
میں نے کتاب ’’فصول المهمه فی معرفة الائمۃ بمکة المشرفة‘‘ کہ جس کا مؤلف ابو الحسن مالکی ہے؛ میں دیکھا کہ علیؑ کی والدہ نے کعبہ کے اندر وضع حمل کیا اور یہ ایسی فضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے صرف انہیں دی ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ فاطمہ بنت اسد کو درد زہ ہو گیا، ابوطالب آپ کو کعبہ کے اندر لے گئے اور وہاں آپ نے بچے کو جنم دے دیا۔ یہ ولادت بروز جمعہ ۱۳ رجب سنہ ۳۰ عام الفیل کو ہوئی۔
اسی طرح وہ کتاب مختصر المحاسن المجتمعه میں مذکورہ بالا متن کے مطابق یہ لکھتے ہیں:
رایت فی الفصول المهمة فی معرفة الائمة لبعض المالکیة ان علیا رضی الله عنه ولدته امه فاطمة بجوف الکعبة، وهی فضیلة خصه الله تعالی بها، وذلک ان امه اشتد بها الطلق، فاتی بها ابو طالب واسمه عبد مناف، وادخلها الکعبة فطلقت طلقة واحدة، فوضعته یوم الجمعة، فی شهر رجب، سنة ثلاثین من عام الفیل، بعد ان تزوج النبی صلی الله وسلم خدیجة رضی الله عنها بثلاث سنین
میں نے ایک مالکی مذہب کے عالم کی کتاب الفصول المھمہ میں دیکھا ہے کہ منقول تھا: فاطمہ بنت اسد نے علیؓ کو کعبہ کے اندر جنم دیا اور یہ ایسی فضیلت ہے جو خدا نے انہیں عنایت کی ہے؛ یہ اس طرح ہوا کہ جب آپؓ کی والدہ پر درد زہ کا غلبہ ہوا تو ابو طالب کہ جن کا نام عبد مناف ہے، انہیں کعبہ کے اندر لے گئے؛ چنانچہ ایک مرتبہ اور درد کا احساس ہوا اور انہوں نے بروز جمعۃ المبارک، تیس عام الفیل اور پیغمبرؐ کے حضرت خدیجہؓ کے ساتھ ازدواج کے تین سال بعد انہیں (حضرت علیؑ) جنم دیا۔
[۱۰] صفوری شافعی، عبدالرحمن بن عبدالسلام، مختصر المحاسن المجتمعه، ص۱۵۶۔


مسعودی

[ترمیم]

ایک اور اہل سنت عالم مسعودی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
وروی ان فاطمة بنت اسد لما حملت ب امیرالمؤمنین (علیه‌السّلام) کانت تطوف بالبیت فجاءها المخاض وهی فی الطواف فلما اشتد بها دخلت الکعبة فولدته فی جوف البیت
مروی ہے کہ فاطمہ بنت اسد جب حاملہ تھیں اور خانہ کعبہ کا طواف کر رہی تھیں؛ اچانک ان کا درد بڑھ گیا تو وہ کعبہ میں داخل ہو گئیں اور اپنے بیٹے علیؑ کو کعبہ کے اندر جنم دیا۔
وہ اسی طرح مروج الذھب میں یہ لکھتا ہے:
وکان مولده فی الکَعبة
علیؑ کا مقام ولادت خانہ کعبہ ہے۔
[۱۲] مسعودی، علی بن حسين، مروج الذهب، ج۲، ص۲۷۳۔


زرندی

[ترمیم]

زرندی حنفی بھی اس حوالے سے یہ لکھتے ہیں:
وولد کرم الله وجهه فی جوف الکعبة..
حضرت علی بن ابی طالبؑ خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔
وہ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
وامه فاطمة بنت اسد ابن‌هاشم بن عبد مناف وهی اول‌ هاشمیة ولدت لهاشمی روی انه لما ضربها المخاض ادخلها ابو طالب الکعبة بعد العشاة فولدت فیها علی بن ابی طالب (رض)
آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بنت ہاشم بن عبد مناف پہلی ہاشمی خاتون تھیں کہ جن کے ہاں ہاشمی بچے کی ولادت ہوئی۔ روایت ہے جب انہیں درد زہ ہوا تو ابوطالب نے انہیں رات کے پہلے حصے میں کعبہ میں داخل کر دیا کہ جہاں علی بن ابی طالبؑ کی ولادت ہوئی۔

امیر صنعانی

[ترمیم]

وہ بھی ان اہل سنت علما میں سے ہیں کہ جو حضرتؑ کی خانہ خدا میں ولادت کے بارے میں لکھتے ہیں:
واما مولده فولد بمکة المشرفة فی البیت الحرام سنة ثلاثین من عام الفیل فی الیوم الجمعة الثالث (عشر) من رجب
آپ کی ولادت مکہ مکرمہ اور خانہ خدا میں عام الفیل کے تیسویں سال بروز جمعہ تیرہ رجب کو ہوئی۔
[۱۵] امیر صنعانی، محمد بن اسماعیل، الروضة الندیه، ص۳۶۔


دیار بکری

[ترمیم]

دیار بکری اپنی کتاب تاریخ الخمیس میں بھی اس واقعے کو ان الفاظ میں تحریر کرتا ہے:
و فی السنة الثلاثین من مولده صلی الله علیه وسلم ولد علی بن ابی طالب رضی الله عنه فی الکعبة
پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے تیس سال بعد علی بن ابی طالبؑ کعبہ میں پیدا ہوئے۔

محمد بن عبد الواحد موصلی

[ترمیم]

موصلی امیر المومنینؑ کی کعبہ میں ولادت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
ومولده فی الکعبة المعظمة، ولم یولد بها سواه فی طلقة واحدة
حضرت علیؑ کا مقام ولادت کعبہ شریفہ میں ہے اور کعبہ میں آپؑ کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا۔ پہلے درد زہ کے ساتھ ہی آپؑ کی ولادت ہو گئی تھی۔

بستی

[ترمیم]

اہل سنت معتزلی عالم بستی حضرتؑ کی ولادت اور بنی ہاشم کی خواتین کی زچگی کے دوران عادات کے حوالے سے لکھتا ہے:
فقد علمنا فی الصحیح من الروایات عند جمیع اهل البیت، ان فاطمة بنت اسد قالت: لما قرب ولادتی بعلی، کانت العادة فی نساء بنی‌هاشم ان یدخلن البیت ویمسحن بطونهن بحیطانه فیخف علیهن الوضع، فخرجت مع جنینی ولیس فی الموضع اشرف من هذا والولد الطاهر مولود فی اشرف البقاء من اکرم الفضائل، ولیس هذا للمشایخ ولا لاحد نعرفه
ثم له فی المسجد خاصیة ومزیة، لا یشارکه فیها احد وهو انه ولد فی الکعبة
تمام اہل بیتؑ کے نزدیک موجود صحیح روایات کی تحقیق سے ہم نے جان لیا کہ فاطمہ بنت اسد نے یہ فرمایا:
جب علیؑ کی ولادت کا وقت نزدیک آیا تو بنی ہاشم کی خواتین کی عادت یہ تھی کہ خانہ خدا میں جا کر اپنا شکم دیوار کعبہ کے ساتھ مس کرتی تھیں تاکہ ان کا وضع حمل آسان ہو جائے۔ (پھر اپنے گھر میں وضع حمل کرتی تھیں) مگر میں اپنے بچے کے ساتھ (خانہ کعبہ) سے باہر آئی۔
کوئی مکان کعبہ سے بالاتر نہیں ہے اور فرزندِ پاک (یعنی حضرت علیؑ) سب سے عظیم مقام پر پیدا ہوئے۔ یہ ایسی فضیلت ہے جو صرف انہی پر انعام ہوئی اور یہ فضیلت اساتذہ اور مشائخ میں سے کسی ایک کو بھی نصیب نہ ہوئی کہ جن کو ہم پہچانتے ہیں۔
پھر آپؑ کیلئے مسجد میں ایک خاص اہمیت اور مقام ہے کہ ان کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں تھا اور یہ آپؑ ہی کا خاصہ ہے۔ آپؑ پہلی شخصیت ہیں جن کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔
بستی معتزلی کے پورے کلام سے چند مطالب کا استفادہ ہوتا ہے:
۱۔ بنی ہاشم کی خواتین وضع حمل سے پہلے اپنا شکم کعبہ کی دیوار سے مس کرتی تھیں۔
۲۔ کعبہ اس زمانے میں لوگوں بالخصوص بنی ہاشم کیلئے ایک مقدس مقام شمار ہوتا تھا۔
۳۔ علیؑ کی ولادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔
۴۔ کعبہ بالاترین مقام ہے اور خواتین تبرک کے طور پر اس گھر کے قریب جاتی تھیں۔
۵۔ کعبہ میں ولادت حضرت علیؑ کیلئے ایک خاص فضیلت شمار ہوتی ہے اور کوئی بھی اس فضیلت میں آپؑ کے ساتھ شریک نہیں ہے۔

ابن مغازلی

[ترمیم]

ابن‌مغازلی شافعی بھی حضرت علیؑ کے امر ولادت میں امام سجادؑ سے یہ نقل کرتے ہیں:
اخبرنا ابو طاهر محمد بن علی بن محمد البیع، قال: اخبرنا ابو عبدالله احمد بن محمد بن عبدالله بن خالد الکاتب، قال: حدثنا احمد بن جعفر بن محمد بن سلم الختلی قال: حدثنی عمر بن احمد بن روح، حدثنی ابو طاهر یحیی بن الحسن العلوی، قال: حدثنی محمد بن سعید الدارمی حدثنا موسی بن جعفر، عن ابیه، عن محمد بن علی، عن ابیه علی بن الحسین، قال: کنت جالساً مع ابی ونحن زائرون قبر جدنا علیه السلام، وهناک نسوان کثیرة، اذ اقبلت امراة منهن فقلت لها: من انت یرحمک الله؟ قالت: انا زیدة بنت قریبة بن العجلان من بنی ساعدة. فقلت لها: فهل عندک شیئاً تحدثینا؟ فقالت: ‌ای والله حدثتنی امی‌ام العارة بنت عبادة بن نضلة بن مالک بن عجلان الساعدی. . انها کانت ذات یوم فی نساءٍ من العرب اذ اقبل ابو طالب کئیباً حزیناً، فقلت له: ما شانک یا ابا طالب؟ قال: ان فاطمة بنت اسد فی شدة المخاض، ثم وضع یدیه علی وجهه. فبینا هو کذلک، اذ اقبل محمد صلی الله علیه وسلم فقال له: ((ما شانک یا عم؟) ) فقال: ان فاطمة بنت اسد تشتکی المخاض، فاخذ بیده وجاء وهی معه فجاء بها الی الکعبة فاجلسها فی الکعبة، ثم قال: ((اجلسی علی اسم الله! ) ) قال: فطلقت طلقة فولدت غلاماً مسروراً، نظیفاً، منظفاً لم ار کحسن وجهه، فسماه ابو طالب علیاً وحمله النبی صلی الله علیه وسلم حتی اداه الی منزلها. قال علی بن الحسین علیهم السلام: فوالله ما سمعت بشیء قط الا وهذا احسن منه
موسیٰ بن جعفر اپنے والد امام صادقؑ سے اور وہ امام سجادؑ سے نقل کرتے ہیں:
ایک دن میں اپنے والد کے ہمراہ اپنے نانا رسول خداؐ کی قبر کی زیارت کیلئے گیا، ہم بیٹھے تھے جبکہ وہاں بہت سی خواتین بھی موجود تھیں۔ ان میں سے ایک خاتون ہماری طرف متوجہ ہوئی؛ میں نے ان سے کہا: تم پر خدا کی رحمت ہو، تم کون ہو؟ کہنے لگیں: میں زیدہ بنت قریبہ بن عجلان قبیلہ بنی ساعدہ سے ہوں۔ میں نے اسے کہا: کیا تمہارے پاس کوئی بات ہے جو ہمارے لیے بیان کرو؟ کہنے لگیں: ہاں، خدا کی قسء۔ میری ماں ام العارہ بنت عبادہ بن نضلہ بن مالک بن عجلان الساعدی ۔۔۔ ایک دن عرب کی خواتین کے ہمراہ بیٹھی تھیں کہ ابوطالب گریہ کناں اور غمگین حالت میں آئے۔ میں نے ان سے پوچھا: آپ کو کیا ہوا ہے، اے ابوطالب؟! کہنے لگے: فاطمہ بنت اسد کو شدید درد زہ ہے اور پھر ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اتنے میں پیغمبرؐ تشریف لے آئے اور فرمایا: چچا جان! کیا ہوا ہے؟ ابو طالب نے کہا: فاطمہ بنت اسد وضع حمل کی سختی کی شدت سے گری پڑی ہیں۔ پیغمبرؐ نے ابوطالب کا ہاتھ تھاما جبکہ وہ فاطمہ بنت اسد کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے؛ اور کعبہ میں آ گئے، انہیں کعبہ کے اندر لے گئے اور کہا: اللہ کے نام سے بیٹھ جائیں۔ کہنے لگیں: پھر اسی پہلی درد کے دوران ہی ایک انتہائی خوبصورت، پاک اور پاکیزہ بچے کی ولادت ہوئی؛ میں نے اتنا خوبصورت چہرہ کبھی نہیں دیکھا تھا پس ابوطالب نے اس کا نام علی رکھا اور پیغمبرؐ گھر تک ان کے ہمراہ رہے۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں: خدا کی قسم! میں نے جو بھی خوبصورت بات سنی، یہ اس سے زیادہ خوبصورت بات تھی۔

جوینی

[ترمیم]

جوینی بھی اہل سنت کے شافعی مذہب کے علما میں سے ہیں، وہ یہ لکھتے ہیں:
روی انها لما ضربها المخاض اشتد وجعها فادخلها ابوطالب الکعبة بعد العتمة فولدت فیها علی وقیل لم یولد فی الکعبة الا علی
مروی ہے کہ جب وضع حمل کا وقت ہوا اور آپ کی درد شدید ہو گئی تو ابوطالب نے رات کے پہلے حصے میں انہیں کعبہ میں داخل کیا اور علی وہاں پر پیدا ہوئے۔ اور کہا جاتا ہے کہ علیؑ کے علاوہ کوئی اور کعبہ میں پیدا نہیں ہوا۔

بسنوی

[ترمیم]

بسنوی نے بھی محاضرات الاوائل حضرتؑ کے القاب اور کعبہ میں ولادت کے حوالے سے یہ لکھا ہے:
اول من لقب فی صباه باسم الاسد فی الاسلام من الصحب الکرام وهو الحیدر من اسماء الاسد سیدنا علی بن ابی طالب رضی الله عنه کان ابو امه غائبا حین ولدته أمه داخل الکعبة وهی فاطمة بنت اسد لقبته امه تفاؤلا باسم ابیه وکان من اعیان بنی‌هاشم وهی اول‌هاشمیة ولدت‌هاشمیا وهو اقرب الخلفاء نسبا الی رسول الله صلی الله علیه وسلم ابن عمه وزوج افضل بناته رضی الله عنهن
وہ پہلے مسلمان صحابی کہ بچپن میں جنہیں شیر کا نام دیا گیا؛ وہ ہمارے آقا و مولیٰ علی بن ابی طالبؑ ہیں۔ ولادت کے وقت آپؑ کے نانا موجود نہیں تھے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد ہیں اور انہوں نے آپؑ کا نام حیدر اپنے والد کے نام اسد کی مناسبت سے رکھا؛ آپؑ بنو ہاشم کے بزرگان میں سے تھے؛ فاطمہ بنت اسد پہلی ہاشمی خاتون تھیں کہ جن کے ہاں ہاشمی بچے کی ولادت ہوئی اور حضرت علیؑ نسب کے اعتبار سے پیغمبرؐ کے نزدیکی ترین خلیفہ ہیں اور پیغمبرؐ کی برترین دختر کے شوہر اور آنحضورؐ کے چچا زاد تھے۔
[۲۱] بسنوی، علاء‌الدين علی، محاضرة الاوائل ومسامرة الاواخر، ص۷۹۔

بسنوی کے کلام پر غور کرنے سے چند نکتے سامنے آتے ہیں:
۱۔ حضرت علیؑ کا مخصوص نام اسد بمعنی شیر ہے۔
۲۔ حضرتؑ کی ولادت مکہ میں کعبہ کے اندر ہوئی۔
۳۔ حضرت علیؑ بنو ہاشم کے بزرگ اور ہاشمی ماں باپ سے پیدا ہوئے۔
۴۔ حضرت علیؑ نسب کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ کے سب سے زیادہ نزدیک اور آنحضورؐ کے داماد ہیں۔

شبلنجی

[ترمیم]

مؤمن بن حسن شبلنجی شافعی بھی نورالابصار میں یہ لکھتے ہیں:
ولد رضی الله عنه بمکة داخل البیت الحرام علی قول یوم الجمعة ثالث عشر رجب الحرام سنة ثلاثین من عام الفیل قبل الهجرة بثلاث وعشرین سنة
حضرت علیؑ خانہ کعبہ کے اندر ایک قول کی بنا پر ۱۳ رجب بروز جمعہ تیس عام الفیل کو ہجرت سے تئیس برس قبل پیدا ہوئے۔
[۲۲] شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الابصار، ص۱۵۸۔


خواجہ نصر اللہ ہندی

[ترمیم]

خواجہ نصر اللہ ہندی نے بھی حضرتؑ کی کعبہ میں ولادت کی تصریح کرتے ہوئے لکھا ہے:
والمشهور فی ولادة الامیر عندنا هو ان اهل الجاهلیة کانت عاداتهم ان یفتحوا باب الکعبة فی یوم الخامس عشر من رجب ویدخلونها للزیارة، فممن دخل فاطمة، فوافقت الولادة ذلک الیوم.
ہم اہل سنت کے نزدیک امیر المومنین کی ولادت کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ اہل جاہلیت کے آداب میں سے ایک یہ تھا کہ پندرہ رجب کو کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور لوگ زیارت کے قصد سے اس میں داخل ہوتے تھے اور فاطمہ بنت اسد ان لوگوں میں شامل تھیں جو داخل ہوئیں اور اسی دن آپ کا وضع حمل ہوا۔۔۔

عبد العزیز دہلوی

[ترمیم]

اسی طرح عبد العزیز دہلوی منجملہ ان افراد میں سے ہے جس نے امیر المومنینؑ کی کعبہ میں ولادت کی تصریح کی ہے:
والصحیح فی ذلک ان عادة الجاهلیة ان یفتح باب الکعبة فی الیوم الخامس عشر من رجب ویدخلون جمیعهم للزیارة وکانت العادة ان النساء یدخلن قبل الرجال بیوم او یومین وقد کانت فاطمة قریبة الوضع فاتفق ان ولدت هناک لما اصابها من شدة المزاحمة والمجاذبة
صحیح یہ ہے کہ اہل جاہلیت کی عادت یہ تھی کہ پندرہ رجب کو کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا، تمام لوگ زیارت کے قصد سے داخل ہو جاتے تھے اور خواتین کی یہ عادت تھی کہ مردوں سے ایک یا دو دن قبل وارد ہوتی تھیں اور فاطمہ بنت اسد کا وضع حمل نزدیک تھا اور اتفاق سے بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہیں وضع حمل ہو گیا۔۔۔

ولی ‌اللہ دہلوی

[ترمیم]

دہلوی بھی ان بزرگ اور مشہور اہل سنت علما میں سے ہیں، جنہوں نے حضرتؑ کی کعبہ میں ولادت کا ذکر کیا ہے؛ چنانچہ لکھتے ہیں:
ولادت کے وقت آپؑ سے جو مناقب ظاہر ہوئے؛ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جوف کعبہ میں پیدا ہوئے۔
[۲۵] دهلوی، ولی‌الله، ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، ج۴، ص۲۶۲۔


جنابی

[ترمیم]

دسویں صدی کے اہل سنت عالم ابومصطفیٰ جنابی امیر المومنینؑ کی ولادت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں:ویقال کانت ولادته فی داخل الکعبة
کہا جاتا ہے کہ آپؑ کی ولادت کعبہ میں ہوئی۔
[۲۶] جنابی، مصطفی بن حسن، البحر الزخار والعیلم التیار للجنابی (متوفای ۹۹۹ هـ)، ص۲۵۵، مخطوط۔


صالح الغامدی

[ترمیم]

معاصر سلفی عالم صالح بن عبد اللہ الغامدی بھی امیر المومنینؑ اور آپؑ کی ولادت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں:
امه فاطمة بنت اسد بن‌هاشم بن عبد مناف. ولدته فی جوف الکعبة وهی اول‌هاشمیة ولدت لهاشمی
آپؑ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔ انہوں نے امیر المومنینؑ کو کعبہ کے اندر جنم دیا اور آپ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جن سے ہاشمی بچے کی ولادت ہوئی۔
[۲۷] غامدی، صالح بن عبدالله، الاکتفاء فی اخبار الخلفاء، ج۱، ص۴۸۰۔


عباس محمود عقاد

[ترمیم]

یہ ایک معاصر اہل سنت مصنف ہیں جو امیر المومنینؑ کی ولادت کے بارے میں یہ لکھتے ہیں:
ولد علی فی داخل الکعبة
حضرت علیؑ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔
[۲۸] عباس محمود عقاد، عبقریة الامام علی، ص۴۳۔


اهل سنت معاصرین

[ترمیم]

اہل سنت علما، بزرگان اور معاصرین نے بھی آنحضرتؐ کی کعبہ میں ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے؛ بطور نمونہ چند موارد پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

← محمد عمر سربازی


یہ بلوچستان کے علاقے کے بزرگ اہل سنت عالم تھے؛ حضرتؑ کی فضیلت کے بارے میں لکھتے ہیں:
حضرت علی المرتضیؑ جو رسول اکرمؐ کے چچا زاد تھے؛ تیرہ رجب کو اور امام جعفر صادقؑ کی روایت کے مطابق ہجرت سے ۲۳ برس قبل سات شعبان کو بیت الحرام میں پیدا ہوئے۔
[۲۹] سربازی، محمد عمر، پرسش و پاسخ‌های ارزشمند برای جوانان، ص۱۰۴۔

نکتہ: البتہ سات شعبان کا قول مشہور کے برخلاف ہے۔

← مصطفی سباعی


یہ معاصر اہل سنت مؤلفین میں سے ہیں، انہوں نے "زندگانی حضرت علی (رضی‌الله‌عنه)" کے نام سے اپنی کتاب میں اہل سنت منابع کی بنیاد پر حضرتؑ کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے کہ: رسول خداؐ کی ولادت کے بتیس سال بعد حضرت علیؓ کعبہ میں پیدا ہوئے۔
[۳۰] سباعی، مصطفی، زندگانی حضرت علی رضی‌الله‌عنه، ص۸۔


← سیف‌ الله مدرس گرجی


یہ بھی ایک اور معاصر اہل سنت مؤلف ہیں؛ انہوں نے ’’مختصری از باور‌های اهل سنت‘‘ نامی کتاب میں حضرت علیؑ کی کعبہ میں ولادت کے بارے میں یہ لکھا ہے:
آپؑ پیغمبرؐ کی ولادت کے تیس سال بعد ۱۳ رجب (۶۰۱ء) کو بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔
[۳۱] مدرس گرجی، سیف‌الله، مختصری از باور‌های اهل سنت، ص۹۸۔


← محمد حسیب قادری


یہ بھی معاصر اہل سنت علما اور مولفین میں سے ہیں۔ ان کی کتاب اردو زبان میں ہی ہے؛ جس میں یہ رقمطراز ہیں:
ولادت با سعادت
حضرت سیدنا علی المرتضیؓ حضور نبی کریمؐ کی ولادت کے ۲۳ سال بعد پیدا ہوئے۔ یوں حضرت علیؑ سن و سال کے اعتبار سے حضور نبی کریم سے ۲۳ برس چھوٹے تھے۔ حضرت علیؑ خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت علیؓ کی ولادت کے وقت نبی کریمؐ نے اپنا لعاب دہن حضرت علیؑ کے دہان مبارک میں قرار دیا اور آپؓ کا نام علی رکھا۔ جب حضور نبی کریمؐ نے اعلان نبوت کیا، اس وقت حضرت علیؑ کا سن مبارک دس برس کا تھا۔
[۳۲] قادری، محمد حسیب، سیرت حضرت سیدنا علی المرتضی رضی‌الله‌عنه، ص۲۷۔


← عبد الرحمن محبی


مولوی محمد زکریا کی تالیف کردہ کتاب فضائل حج جو عبد الرحمٰن محبی کے ترجمے اور مولوی عبد الحمید کی تقریظ کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس کے حاشیے میں مصنف نے شیعہ و سنی علما سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت علیؑ کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہے جبکہ اکثر شیعہ و سنی علما نے حضرت علیؓ کی ولادت جوف کعبہ میں ذکر کی ہے۔
[۳۳] محبی، عبدالرحمن، فضائل حج، ص۱۱۲۔


نتیجہ

[ترمیم]

امیر المومنین، مولائے متقیان، صدیق اکبر، فاروق اعظم، اسد اللہ الغالب، حضرت علی بن ابی‌طالب (سلام‌اللہ علیہ) کی ولادت کعبہ معظمہ میں ہوئی اور علمائے اہل سنت کی تصریحات کے مطابق کہ جن میں سے چھبیس سے زیادہ موارد کی طرف اشارہ کیا گیا؛ یہ بات مسلمہ اور ناقابل انکار و تردید ہے۔ اسی طرح یہ مطلب بھی روشن ہوا کہ کعبہ میں ولادت وہ فضیلت ہے کہ جس کا افتخار صرف اور صرف حضرت علیؑ کو حاصل ہوا اور اس امر میں حضرتؑ کا کوئی بھی شریک نہیں ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۵۵۰۔    
۲. سبط ابن جوزی، یوسف بن فرغلی، تذکرة الخواص، ص۱۰۔    
۳. برهان‌الدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیرة الحلبیه، ج۳، ص۵۲۰۔    
۴. فاکهی، محمد بن اسحاق، اخبار مکه، ج۳ ص۲۲۶۔    
۵. ازدی، ابوزکریا، تاریخ موصل، کتاب الثالث عشر، ص۵۸۔
۶. آلوسی، سرح الخریده، ص۳ و ۱۵۔
۷. ابن‌صباغ، علی‌ بن‌ محمد، الفصول المهمه، ص۲۹۔    
۸. حافظ گنجی، محمد بن یوسف، کفایة الطالب، ص۴۰۵-۴۰۶۔
۹. صفوری شافعی، عبدالرحمن بن عبدالسلام، نزهة المجالس، ج۲، ص۱۵۹۔    
۱۰. صفوری شافعی، عبدالرحمن بن عبدالسلام، مختصر المحاسن المجتمعه، ص۱۵۶۔
۱۱. مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیه، ص۱۴۲۔    
۱۲. مسعودی، علی بن حسين، مروج الذهب، ج۲، ص۲۷۳۔
۱۳. زرندی حنفی، محمد بن یوسف، معارج الوصول، ص۴۹۔    
۱۴. زرندی حنفی، محمد بن یوسف، نظم درر السمطین، ص۷۶۔    
۱۵. امیر صنعانی، محمد بن اسماعیل، الروضة الندیه، ص۳۶۔
۱۶. دیار بکری، حسین بن محمد، تاریخ الخمیس، ج۱، ص۳۷۹۔    
۱۷. موصلی، محمد بن عبدالواحد، النعیم المقیم لعترة النبا العظیم، ص۵۵۔    
۱۸. بستی، ابوالقاسم، المراتب، ص۱۵۱۔    
۱۹. ابن‌مغازلی، مناقب حضرت علی (علیه‌السّلام) لابن مغازلی شافعی، ص۵۸-۵۹۔    
۲۰. جوینی، ابراهیم بن محمد، فرائد السمطین، ج۱، ص۴۲۵-۴۲۶۔    
۲۱. بسنوی، علاء‌الدين علی، محاضرة الاوائل ومسامرة الاواخر، ص۷۹۔
۲۲. شبلنجی، مؤمن بن حسن، نور الابصار، ص۱۵۸۔
۲۳. خواجه نصرالله هندی، نصیرالدین، السیوف المشرقة ومختصر الصواقع المحرقة، ص۲۰۴۔    
۲۴. دهلوی، عبدالعزیز، مختصر التحفة الاثنی عشریة، ص۴۴۔    
۲۵. دهلوی، ولی‌الله، ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، ج۴، ص۲۶۲۔
۲۶. جنابی، مصطفی بن حسن، البحر الزخار والعیلم التیار للجنابی (متوفای ۹۹۹ هـ)، ص۲۵۵، مخطوط۔
۲۷. غامدی، صالح بن عبدالله، الاکتفاء فی اخبار الخلفاء، ج۱، ص۴۸۰۔
۲۸. عباس محمود عقاد، عبقریة الامام علی، ص۴۳۔
۲۹. سربازی، محمد عمر، پرسش و پاسخ‌های ارزشمند برای جوانان، ص۱۰۴۔
۳۰. سباعی، مصطفی، زندگانی حضرت علی رضی‌الله‌عنه، ص۸۔
۳۱. مدرس گرجی، سیف‌الله، مختصری از باور‌های اهل سنت، ص۹۸۔
۳۲. قادری، محمد حسیب، سیرت حضرت سیدنا علی المرتضی رضی‌الله‌عنه، ص۲۷۔
۳۳. محبی، عبدالرحمن، فضائل حج، ص۱۱۲۔


ماخذ

[ترمیم]

موسسہ ولی‌ عصر، ماخوذ از مقالہ آیا بر اساس منابع شیعه و اهل سنت امیرمؤمنان (علیه‌السلام) در کعبه به دنیا آمده‌اند؟!    


اس صفحے کے زمرہ جات : مؤسسہ ولی عصر کے مقالات




جعبه ابزار