امر اولی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امر اوّلی سے مراد وہ امر ہے جس کا تعلق موضوعِ حکم سے مکلف کے اختیار اور علم کی صورت میں جڑتا ہے۔


امر اوّلی کی تعریف

[ترمیم]

امر اوّلی کے مقابلے میں امر ثانوی اور امر ظاہری ہے۔ امر اوّلی اس امر کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق عناوینِ اوّلی میں سے کسی عنوان کے ساتھ قائم ہو، اس طرح سے کہ امر کا اوّلا و بالذات موضوع سے ربط قائم ہو جبکہ مکلف نہ جالتِ جہل میں ہو نہ حالتِ شک، نہ مکلف حالتِ اضطرار میں ہو نہ اکراہ مجبوری کی حالت میں اور نہ ہی تقیہ کا مورد ہو، کیونکہ ان تمام موارد میں عنوانِ ثانوی ہو گا اور عنوانِ ثانوی موضوع سے تعلق قائم کرے گا۔

بالفاظ دیگر جب مکلف کو موضوع کا علم ہو اور وہ اس کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہو اور کوئی مانع بھی موجود نہ ہو تو اس وقت امر کا تعلق موضوع سے قائم ہونا امرِ اوّلی کہلاتا ہے، مثلا نماز کے لیے وضو کرنا۔ اس مثال میں غور کریں کہ اگر وضو کے لیے پانی موجود نہیں ہے یا پانی تک دسترس نیہں یا کوئی مانع موجود ہے جس کی وجہ سے پانی استعمال نہیں کر سکتے، مثلا پانی نمازی کے لیے مضر اور نقصان دہ ہے تو اس صورت میں حکمِ اوّلی حکم ثانوی میں بدل جائے گا اور تیمم کرنا عنوانِ ثانوی کے طور مکلف پر واجب ہو گا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، ج۱، ص۲۹۸۔    
۲. نائینی، محمد حسین، اجود التقریرات، ج۱، ص۱۹۴۔    
۳. ولایی، عیسی، فرہنگ تشریحی اصطلاحات اصول، ص۴۰۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۲۵۰، یہ تحریر مقالہ امر اوّلی سے مأخوذ ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصولی اصطلاحات | اوامر | حکم اولی




جعبه ابزار