انس بن حارث کاہلی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



انس قبیلہ بنی‌اسد کی کاهل نامی شاخ سے منسوب ہیں۔ آپ پیغمبر گرامیؐ کے صحابی اور اپنی قوم کے عمر رسیدہ بزرگ تھے۔ آپ بھی کربلا کے شہدا میں سے ہیں۔
[۱] محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۲۱۱، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔



انس کے نام و نسب میں تحقیق

[ترمیم]

انس بْنِ حَرْث بْنِ نَبیہ بْنِ کاهِلِ بْنِ عَمْرو بْنِ مُصعَب بْنِ اسدِ بنِ خُزیمہ اسدی کاهلی، مختلف مصادر میں انہیں انس بن حارث کاهلی،
[۹] دریاب نجفی، محمود، الخلاصة للعلامة، ج۱، ص۲۲۔
انس بن ابی سحیم، مالک بن مالک بن انس اور انس بن کاهل اسدی کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔

پیغمبرؐ کی صحبت

[ترمیم]

آپ پیغمبرؐ کے بزرگ صحابی تھے اور جنگ بدر و حنین میں شریک تھے۔

کربلا آمد کا سبب

[ترمیم]

انس حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔ انہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے متعدد روایات نقل کی ہیں کہ جنہیں شیعہ و سنی نے اپنی کتابوں میں روایت کیا ہے۔ ان احادیث میں سے ایک رسول خدا کا یہ فرمان ہے: انّ ابنی هذا الحسین یقتل بارضٍ یقال لها کربلا فمن شهد ذلک فلینصره؛ میرا یہ بیٹا (امام حسینؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کربلا نامی سرزمین پر قتل کیا جائے گا، جو بھی اس وقت زندہ ہو اور ان کو دیکھے، اس پر واجب ہے کہ اس کی نصرت کرے۔ راوی کہتا ہے: انس بن حارث کربلا آئے اور امام حسینؑ کی رکاب میں قتل کر دئیے گئے۔

← روایت کا جائزہ


مذکورہ مصادر میں روایت کی سند اور متن اس صورت میں آیا ہے:
سعد( سعید) بن عبدالملك بن واقد الحرانى، عن عطاء بن مسلم الخفاف، عن اشعث بن سحیم( در برخى از منابع به جاى سحیم سُلَیم آمده است) عن ابیه قال: سمعت انس بن حارث یقول: سمعت رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌آله‌وسلم) یقول: انّ ابنی هذا- یعنى الحسین- يُقتل بارض یقال لها كربلا فمن شهد منكم فلینصره.»
قال فخرج انس بن الحارث الى كربلا فقتل مع الحسین (علیه‌السلام).
اسد الغابة میں اس حدیث کا متن اسی سند کے ساتھ منقول ہے: انَّ ابنىّ هذا یقتل بارض العراق فمن ادركه فلینصره» فقتل مع الحسین (علیه‌السلام).
مثیرالاحزان میں حدیث کا متن یہی ہے مگر اس کی سند یہ ہے: « عن اشعث بن عثمان عن ابیه عن انس بن ابی سحیم قال: سمعت النبى یقول ...». كتاب ذخیرة الدارین میں مثیر الاحزان سے نقل کرتے ہوئے سند یہ ہے:« عن اشعث بن ابى سحیم عن ابیه عن انس بن الحرث قال سمعت رسول اللَّه ...» پھر اسی کتاب میں الدر النظیم(خطی نسخے) سے نقل کرتے ہوئے سند روایت یہ نقل کی گئی ہے:« وعن اشعث بن عثمان عن ابیه عن انس بن الحرث بن نبیه الكاهلى قال سمعت رسول اللَّه (صلی‌الله‌علیه‌آله‌وسلم) ...»، سفینة البحار میں الدرالنظیم سے نقل کرتے ہوئے سند یہ ہے: « اشعث بن عثمان عن ابیه عن انس بن سحیم قال ...»
مذکورہ بالا موارد میں حدیث کے متن کی یکسانیت کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انس بن انس بن ابى سحیم اور انس بن سحیم وہی انس بن حارث ہی ہیں۔

کربلا آمد

[ترمیم]

آپ کوفہ میں رہائش پذیر تھے، بعض کے بقول مکہ
[۳۷] شریف قرشی، باقر، حیاة الامام الحسین علیه‌السلام، ج۳، ص۲۳۴۔
اور بعض کے بقول کربلا میں رات کے وقت امامؑ کے ساتھ ملحق ہوئے۔ مگر بلاذری کے بقول انس کوفہ سے باہر آئے اور امامؑ کی عبید الله بن حر جعفی کے ساتھ قصر بنی ‌مقاتل میں گفتگو کو دیکھ کر حضرتؑ کی خدمت میں پہنچے اور قسم کھا کر یہ اظہار خیال کیا کہ کوفہ سے نکلنے کا ہدف یہ تھا کہ عبید اللہ بن حر کی طرح کسی کے حق میں بھی جنگ نہ کروں؛ نہ امامؑ کے حق میں اور نہ دشمنوں کے حق میں؛ پھر کہا: لیکن خدا نے آپ کی نصرت کا جذبہ میرے دل میں پیدا کیا اور مجھے یہ جرات عطا کی کہ اس راہ میں آپ کے نقش قدم پر چلوں۔
امام حسینؑ نے انہیں ہدایت اور امن و امان کی خوشخبری سناتے ہوئے انہیں اپنے ساتھیوں میں شامل کر لیا۔
انس کو کربلا میں امامؑ کا عمر سعد تک پیغام لے جانے پر مامور کیا گیا تاکہ وہ اسے نصیحت کریں۔ جب وہ عمر سعد کے پاس پہنچے تو انہوں نے اسے سلام نہیں کیا۔ اس نے کہا: تم نے سلام کیوں نہیں کیا؟! کیا ہمیں کافر اور منکر خدا سمجھتے ہو؟! کہا: تم کس طرح خدا و پیغمبرؐ کے منکر نہیں ہو جبکہ پیغمبرؐ کے فرزند کا خون بہانے کیلئے تم کمر بستہ ہو چکے ہو! عمر سعد نے سر جھکا لیا اور کہا: خدا کی قسم! جانتا ہوں کہ اس جماعت کا قاتل دوزخ میں ہے مگر عبید اللہ کے حکم کی پیروی ہونی چاہئے۔
عاشور کے دن انس امام حسینؑ کے دیگر اصحاب کی طرح اجازت لینے کے بعد اس عالم میں نکلے کہ جھکی کمر کو سیدھا کرنے کیلئے کمر بند باندھ رکھا تھا اور آنکھوں پر پڑے اپنے سفید آبروؤں کو پیشانی بند سے باندھ رکھا تھا، (یہی مطلب جابر بن عروہ غفاری سے بھی منسوب ہے) میدان میں پہنچے۔ ان کی حالت کو دیکھ کر امام حسینؑ کے آنسو بھی جاری ہو گئے اور فرمایا: خدا تیرے جہاد کو قبول کرے، اے شیخ!
[۴۲] شریف قرشی، باقر، حیاة الامام الحسین علیه‌السلام، ج۳، ص۲۳۴۔


انس کے میدان میں رجز

[ترمیم]

میدان میں اترتے وقت انہوں نے یہ رجز پڑھا:
قَدْ عَلِمَتْ کاهِلُها وَدُودانُ • وَالخَندَفیّونَ وَقَیسُ عَیلانِ‌
بِأنَّ قَوْمی‌ آفَةٌ لِلأقرانِ • یا قَومُ کُونوا کَاسُودِ الجان‌
وَاسْتَقْبِلُوا القَومَ بِضرِّ الآنِ • آلُ علیٍ شیعَةُ الرَّحمنِ‌
وَ آلُ حَرْبٍ شیعَةُ الشَّیطانِ
کاهل،دودان ، خندف اور عیلان کے قیسُ سب جانتے ہیں کہ میری قوم بڑے بڑے جنگجوؤں اور سرداروں کیلئے آفت ہے؛ اے قوم! غرانے والے شیروں کی طرح ہو جاؤ؛ ابھی دشمنوں سے روبرو پیکار کرو؛ کہ آل علیؑ رحمان کے پیروکار ہیں اور آل حرب (ابوسفیان کی اولاد) شیطان کے چیلے ہیں!
بعض کتب میں یہ رجز کچھ اختلاف کے ساتھ ان الفاظ میں نقل ہوا ہے:
قَدْ عَلِمَتْ مالِكُ وَذُودان • وَالخَندَفيّونَ مِنْ قَيسِ عَيلانِ‌
بِأنَّ قَوْمى‌ آفَةٌ لِلأقران • لَدىَ الوغى‌ وَسادَةُ الفرسان‌
فَباشِروا الموتَ بِطعنٍ الان • لَسْنا مَزى العَجزُ عَنِ الطَّعان‌
آلُ علىٍ شیعَةُ الرَّحمن • وَآلُ حربٍ شيعَةُ الشَّيطان‌

شہادت

[ترمیم]

انس سخت معرکے اور چودہ یا اٹھارہ افراد کو مارنے کے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

قبر

[ترمیم]

آپ کی قبر امام حسینؑ کے پائے مبارک کی نچلی جانب شہدا کی ایک اجتماعی یادگار میں واقع ہے۔عرب کے مشہور شاعر کمیت نے آپ اور حبیب بن مظاہر کے سوگ میں یہ کہا ہے:
سِوی عُصْبَةُ فیهِم حَبیبُ مَعفَّرُ
قَضی نَحْبَهُ وَالکاهِلیُ مَرمَّلُ
سوائے اس جماعت کے جن میں حبیب نے جان دی اور ان کا بدن خاک میں غلطاں ہوا اور کاھلی نے شہادت پائی جبکہ ان کا جسم خون آلود ہے۔

انس کا زیارت ناموں میں نام

[ترمیم]

زیارت ناحیہ مقدسہ اور رجبیّہ میں آپ کو ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے: السَّلامُ عَلی‌ انَسِ بْنِ الکاهِلِ الْأَسَدی‌

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. محلی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیه فی مناقب الائمة الزیدیه، ج۱، ص۲۱۱، صنعاء، مکتبة بدر، چاپ اول، ۱۴۲۳۔
۲. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۹۹، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۳. مقرم، عبد الرزاق موسوی، مقتل الحسین (علیه‌السّلام)، ص۲۵۲، بیروت، دارالکتاب الاسلامیه، چاپ پنجم، ۱۹۷۹    
۴. سماوی، محمد بن طاهر، ابصار العین، ص۹۹۔    
۵. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۱۱، ص۲۲۷۔    
۶. حسینی جلالی، محمدرضا، تسمیة من قتل، ج۱، ص۲۶۔    
۷. بخاری، محمد بن اسماعیل، تاریخ الکبیر، ج۲، ص۳۰۔    
۸. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۹۹۔    
۹. دریاب نجفی، محمود، الخلاصة للعلامة، ج۱، ص۲۲۔
۱۰. حلی، ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۳۔    
۱۱. حلی، ابن نما، مثیر الاحزان، ص۸۔    
۱۲. کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۰۷۔    
۱۳. ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص ۳۴۶۔    
۱۴. ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص ۷۸۔    
۱۵. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۴۵، ص۷۱۔    
۱۶. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۹۸، ص۲۷۲۔    
۱۷. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۱۱، ص۲۳۰۔    
۱۸. موسوی مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین علیه‌السلام،ص۲۵۳۔    
۱۹. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین، ص۳۷۷۔    
۲۰. ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، ج۱، ص۱۱۲، بیروت، دارالجیل، چاپ اول، ۱۹۹۲۔    
۲۱. ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسدالغابه فی معرفة الصحابه، ج۱، ص۱۴۶، بیروت، دارالفکر، ۱۹۸۹۔    
۲۲. عسقلانی، ابن حجر، الاصابه فی تمییز الصحابه، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، ج۱، ص۲۷۱، بیروت، دارالکتب العلمیه، چاپ اول، ۱۹۹۵۔    
۲۳. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۹۹، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۲۴. بخاری، محمد بن اسماعیل، تاریخ کبیر بخاری، ج۲، ص۳۰۔    
۲۵. ابن حیان، الثقات، ج۴، ص۴۹۔    
۲۶. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۱، ص۱۱۲۔    
۲۷. ابن عساکر، علی بن حسین، تاریخ مدینة دمشق، ج۱۴، ص۲۲۳۔    
۲۸. ابن اثیر، ابوالحسن، اسدالغابة، ج۱، ص۱۲۲۔    
۲۹. صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، ج۹، ص۲۳۹۔    
۳۰. عسقلانی، ابن حجر، الاصابة، ج۱، ص۲۷۰۔    
۳۱. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین (علیه‌السّلام)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۹۹، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۳۲. مقرم، عبد الرزاق موسوی، مقتل الحسین (علیه‌السّلام)، ص۲۵۲-۲۵۳، بیروت، دارالکتاب الاسلامیه، چاپ پنجم، ۱۹۷۹۔    
۳۳. حلی، ابن نما، مثیر الاحزان، ص۸۔    
۳۴. جمعی از نویسندگان، ذخیره الدارین، ص۳۷۷۔    
۳۵. قمی، عباس، سفینة البحار، ج۱، ص۱۷۹۔    
۳۶. ابن اثیر، کوفی، اسدالغابه، ج۱، ص۱۲۳۔    
۳۷. شریف قرشی، باقر، حیاة الامام الحسین علیه‌السلام، ج۳، ص۲۳۴۔
۳۸. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین، ص۳۷۷۔    
۳۹. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۱۱، ص۲۳۱۔    
۴۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۷۵۔    
۴۱. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۶۰۔    
۴۲. شریف قرشی، باقر، حیاة الامام الحسین علیه‌السلام، ج۳، ص۲۳۴۔
۴۳. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص۲۲۴-۲۲۵۔    
۴۴. کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۰۷۔    
۴۵. ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیهم‌السلام، ج۳، ص۲۵۱۔    
۴۶. صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص۲۲۵۔    
۴۷. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین، ص۳۷۸۔    
۴۸. سماوی، محمد بن طاهر، ابصار العین، ص۱۰۰۔    
۴۹. ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۳۴۶۔    
۵۰. ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۷۸۔    


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا،ص۱۰۱-۱۰۴۔    
سایت پژوهه، ماخوذ از مقالہ «یاران امام حسین (علیه‌السلام)»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۵/۴/۱۔    






جعبه ابزار