آیت اللہ خوئیؒ کی تعلیم
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
سید ابو القاسم خوئی، شیعہ مرجع تقلید ، مایہ ناز
فقیہ ،
اصولی اور عصر حاضر کے نمایاں رجالی تھے۔ آپ کی فقہ، اصول، رجال اور قرآنیات کے موضوعات پر متعدد تصانیف ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ میری ولادت
۱۵
رجب ۱۳۱۷ھ (۱۲۷۸شمسی) کو
خوی کے ایک عالم گھرانے میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب
امام موسی بن جعفرؑ تک پہنچتا ہے؛ اس لیے
معجم رجال الحدیث،
میں خود کو موسوی خوئی کے نام سے متعارف کروایا اور دیگر مقامات پر بھی اسی عنوان سے امضا کیا۔ بعض منابع نے نجفی کا بھی اضافہ کیا ہے۔
آپ کے والد
سید علیاکبر، بن سید ہاشم (اس خاندان کے پہلے فرد تھے کہ جنہوں نے خوی میں قیام کیا) ۱۲۸۵ھ کو خوی میں پیدا ہوئے اور ۱۳۰۷ھ میں دینی تعلیم کی غرض سے
عتبات عالیات عراق تشریف لے گئے۔
[ترمیم]
آپ نے
نجف میں
محمد بن فضلعلی شرابیانی اور
محمدحسن مامقانی جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ ۱۳۱۵ کو خوی واپس آ گئے۔
مشروطہ کے بعد کے واقعات کی وجہ سے ۱۳۲۸ کو
نجف ہجرت کر گئے اور
سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے۔ سید علیاکبر خوئی ۱۳۴۶ھ میں
ایران واپس آ گئے اور
مسجد جامع گوہر شاد مشہد میں امامت کے فرائض ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔ ۱۳۱۴شمسی میں مشہد کے عوام نے حجاب پر پابندی کے حکومتی فیصلے پر احتجاج شروع کیا تو آپ بھی اس تحریک کے روح رواں تھے، اسی کی پاداش میں انہیں جلا وطن کر دیا گیا۔
رضا شاہ کی برطرفی کے بعد آپ دوبارہ مسجد گوہر شاد کے امام جماعت مقرر ہوئے۔ سید علی اکبر ۱۳۳۱شمسی، میں
زیارت کی غرض سے نجف تشریف لے گئے؛ اسی دوران آپ کا انتقال ہو گیا اور آپ کو وہیں پر سپرد خاک کیا گیا۔ استاد شرابیانی کے درسِ اصول کی تقریرات آپ کے آثار میں سے ہے۔
سید ابو القاسم خوئی کے سب سے مشہور شاگرد جو عالم دین بھی تھے؛ یہ ہیں: سید جمالالدین، سید محمدتقی، سید عبدالمجید اور سید علی۔
[ترمیم]
سید ابو القاسم نے خوی میں ابتدائی دروس کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنے بھائی سید عبد اللہ (عالم دین اور
کربلا میں مقیم مدرّس) اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ ۱۳۳۰ میں نجف تشریف لے گئے۔
نجف میں مقدماتی دروس اور
ادبیات عرب کے بعد فقہ و اصول اور
فلسفہ کی تعلیم بہت سے اساتذہ منجملہ اپنے والد
میرزا علی آقا شیرازی،
اور
عبدالکریم زنجانی سے حاصل کی۔ ۱۳۳۸ میں فقہ و اصول کے
دروس خارج کا آغاز کیا اور نجف کے ممتاز اساتذہ کے دروس میں شرکت کی۔ آپ نے معجم رجال الحدیث میں رقم کردہ اپنی سوانح حیات میں
ملا فتح اللّه شریعت اصفہانی (المعروف شیخ الشریعہ)،
مہدی مازندرانی،
آقا ضیاء الدین عراقی،
محمدحسین اصفہانی (المعروف محقق اصفهانی) اور
محمد حسین نائینی کو درس خارج کے دوران اپنے نمایاں اور مؤثر ترین اساتذہ قرار دیا ہے اور ان میں سے آخری دو علما کے پاس آپ نے سب سے زیادہ کسب فیض کیا اور ان دونوں سے ایک مکمل اصول فقہ کا دورہ اور متعدد فقہی مباحث کی تعلیم حاصل کی ہے۔
خوئی نے فقہ و اصول کے علاوہ دیگر علوم پر بھی دسترس حاصل کی۔ انہوں نے اپنے مذکورہ زندگی نامے میں اپنے فقہ و اصول کے ممتاز اساتذہ کا ذکر کیا ہے لیکن قطعا آپ کے
کلام ،
تفسیر ،
قرآنیات اور
فن مناظرہ کے استاد
محمد جواد بلاغی بھی آپ کیلئے بہت موثر ثابت ہوئے؛ یہاں تک کہ آپ کی دو کتابوں
البیان اور
نفحات الاعجاز کے ایک حصے کو خوئی کی بلاغی سے حاصل کردہ معلومات کا خلاصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ نے البیان
اور نفحات الاعجاز
میں کئی مرتبہ بلاغی اور ان کی اہم تالیف
الهدی الی دین المصطفی، کا نام لیا ہے۔ آپ کی البیان میں بعض تعبیرات
سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بلاغی کے شاگرد رہے ہیں۔ آیت اللہ خوئی کے دیگر اساتذہ یہ ہیں:
سید ابو تراب خوانساری رجال و
درایہ میں؛
سیدحسین بادکوبی حکمت و
فلسفہ میں؛
سید علی قاضی ،
شیخ مرتضی طالقانی اور
سید عبدالغفار مازندرانی اخلاق و
سیر و سلوک میں اور
سید ابوالقاسم خوانساری قدیم ریاضیات میں۔
[ترمیم]
کہا جاتا ہے کہ خوئی کی علم ہندسہ میں صلاحیت غیر معمولی تھی۔
خوئی
کے بقول ان کے پاس
کتب اربعہ اور دیگر حدیثی جوامع سے
اجازہ روایت چند طریق سے ہے کہ جن میں سے ایک طریق ان کے استاد نائینی سے شروع ہوتا ہے۔ دیگر روائی مشایخ میں سے
سیدعبدالحسین شرفالدینِ عاملی ہیں کہ جن کے طریق سے انہوں نے
اہل سنت علما کے آثار کی بھی روایت کی ہے۔
سنہ ۱۳۱۰شمسی تا ۱۳۱۲شمسی کے دوران نجف کے سرفہرست علما منجملہ نائینی، محمدحسین اصفهانی، آقا ضیاء الدین عراقی، محمدجواد بلاغی، میرزا علی شیرازی اور
سیدابوالحسن اصفهانی نے خوئی کے
اجتہاد کی تأیید کی۔
[ترمیم]
(۱) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، چاپ علینقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۲) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابععشر، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
(۳) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج۱، تهران: ۱۳۷۴ش۔
(۴) امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فیالنجف خلالالف عام، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۵) انصاری، مرتضی، زندگانی و شخصیت شیخانصاریقدسسره، قم۱۳۷۳ش۔
(۶) انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضواناللّهعلیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۷) ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیتاللّه خوئی شدند؟»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۸) ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدسسره) : السمات و المعالم»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۹) ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۰) بحرالعلوم، محمد، «الامام الخوئی: و انجازاته العلمیة و مشاریعه العامة»، در یادنامه حضرت آیتاللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، (قم) : مؤسسه خیریه آیتاللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۱۱) بروجردی، محمدتقی، نهایة الافکار، تقریرات درس آیتاللّه عراقی، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، (۱۳۶۴ش)۔
(۱۲) توحیدی، محمدعلی، مصباحالفقا هة فی المعاملات، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۳) جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۴) جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیتاللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۱۵) حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۶) حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیتاللّه حسینی همدانی (نجفی)»، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
(۱۷) حکمی، مرتضی، «الامام الخوئی و انطلاقةالعلامة الجعفری الفلسفیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۸) حکمی، مرتضی، «حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی : پیشوای حوزه علمیه و مرجع عظیمالشأن»، مسجد، سال ۱، ش ۵ (شهریور ـ مهر ۱۳۷۱)۔
(۱۹) حباللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیتاللّه خوئی»، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۲۰) خانمحمدی، یوسف، اندیشه سیاسی شیخعبدالکریم زنجانی، قم ۱۳۸۸ش۔
[ترمیم]
[ترمیم]
•
دانشنامه جهان اسلام، ماخوذ از مقالہ «خوئی ابوالقاسم »، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔ •
«سائٹ اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔