سیر و سلوک

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



عرفان کی ایک شاخ عرفان عملی ہے جس میں انسان کے خود سے، جہان سے اور خدا سے روابط و وظائف کو بیان کیا جاتا ہے۔ عرفان کی اس شاخ کو سیر و سلوک بھی کہا جاتا ہے۔ عرفان عملی میں انسان کے حالات و مقامات اور وہ سیر جو وہ بہ سوۓ حق انجام دیتا ہے، کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس سیر میں پہلی منزل «یقظہ» سے بحث شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ وصول بہ حق جو آخری منزل ہے سب کا بیان آتا ہے۔


امام خمینی کا نظریہ

[ترمیم]

امام‌ خمینی عرفان عملی کو ریاضت، سلوک، رفع حجاب اور رؤیت ذلّ عبودیت قرار دیتے ہیں۔امام خمینی سلوک عملی اور سیر الی اللہ کی روش کو تبیین کرتے ہوۓ تین مؤلفات کی طرف خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ شریعت، تہذیب اخلاق اور ریاضت۔ آپ کے سلوکی نظریات بھی دو محور یعنی عشق اور ریاضت پر مبنی ہیں۔ عشق انسان کو کمال کی طرف آگے بڑھانے میں محرک کے طور پر اور ریاضت و مجاہدت اس حرکت کے ابزار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ امام کی سلوک سے مربوط ابحاث میں عشق کو بطور خاص و عام فطرت کے ساتھ جوڑ کر تبیین کیا گیا ہے۔
عرفان عملی میں امام خمینی کی چند ابحاث کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے مثلا سرّ ریاضت، نقش ریاضت در رفع تقییدات، خروج انسان از انانیت، نفس و خرق حجاب ظلمانی و نورانی وغیرہ۔ آپ کے آثار میں سیر و سلوک کے مراحل، سیر سالک اور اسفار اربعہ کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ آپ نے اپنی متعدد کتابوں جیسا کہ آداب‌ الصلوة، سر الصلاة، شرح چہل حدیث و حدیث جنود عقل و جہل میں سلوک کے مقامات توبہ، مجاہدہ، خلوت، تقوی، ورع اور زہد وغیرہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ امام خمینی نے اپنی کتابوں میں اعمال اور قلب کے احوال کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ در واقع عرفان عملی میں انسان کے اعمال اور اس کے احوال خود سالک کے قلب سے جڑے ہیں۔ عالم بالا سے ان احوال کا سالک کے قلب پر وارد ہونا آہستہ آہستہ اسے بالاتر مراتب کی طرف لے جاتا ہے اور وہ صعود کرتا ہے در نہایت مقام فنا تک جا پہنچتا ہے۔امام خمینی کا شمار ان عرفاء میں سے ہوتا ہے جو سیر و سلوک کے تمام مراحل میں شریعت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہیں اور عبادت کو نقشہ تجلیات و صور مشاہدات و جمال محبوب تک رسائی کے لیے شرط مانتے ہیں۔ امام خمینی کے نزدیک عرفان عملی شریعت کے مدار پر ہے اور معنوی سیر و سلوک صرف واجبات و محرمات الہی و وحیانی سے حاصل ہوتی ہے درحقیقت اس عرفان کی اصالت کامل طور پر شریعت پر استوار ہے۔
[۱۶] خمینی، روح الله، دانشنامہ امام خمینی، ج۷، ص۳۰۵، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۴۰۰۔


عرفانی مقامات کی تعداد

[ترمیم]

سیر و سلوک کے مقامات کی تعداد میں عرفاء میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ اصولی طور پر تصوف کے آغاز میں ثابت یا محدود مقامات موجود ہی نا تھے بلکہ اس کی تعداد کو ہر طریقت کی تعلیمات اور اس شیخ کی طرف پلٹا دیا جاتا تھا جس کی بنا پر مقامات کی تعداد میں اختلاف سامنے آیا۔ سہروردی نے چار مقام اصلی بیان کیے جن میں ایمان، توجہ، زہد اور عبادت خدا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چار مقام فرعی بھی ذکر کیے ہیں جن میں کم بولنا، کم کھانا، کم سونا اور لوگوں سے کم اختلاط کرنا شامل ہیں۔ کچھ عرفاء نے دس مقامات اور بعض دیگر نے سترہ مقامات ذکر کیے ہیں۔
[۱۷] برنجکار، رضا، آشنایی با علوم اسلامی، همان، ص ۱۵۹۔

خواجہ نصیرالدین طوسی چھ باب اصلی بیان کرتے ہیں اور ہر باب کو چھ فصلوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہر باب کی فصل ایک مقام کا نام ہے سواۓ آخری باب کے جو فناء کے متعلق ہے اور اسے قابل تکثیر نہیں سمجھتے۔ در واقع انہوں نے اکتیس مقامات بیان کیے ہیں۔
عرفان عملی میں سب سے اہم ترین اثر خواجہ عبداللہ انصاری کی کتاب منازل السایرین ہے۔ اس کتاب میں دس مرحلہ بیان ہوۓ ہیں اور ہر مرحلہ نیز دس مراحل میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان دس اصلی ابواب کے نام درج ذیل ہیں؛
۱۔ بدایت‌ہا
۲۔ معاملات
۳۔ اخلاق
۴۔ اصول
۵۔ وادی‌ہا
۶۔ احوال
۷۔ ولایات
۸۔ حقایق
۹۔ نهایات
۱۰۔ اور آخری مرحلہ توحید ہے جو عارف کا ہدف ہوتا ہے۔
[۱۹] خواجہ عبداللہ انصاری، شرح منازل السایرین، بہ شرح عبدالرزاق کاشانی، نگارش علی شیروانی، الزہراء، تہران، ۱۳۷۳۔


عرفان عملی اور اخلاق میں تفاوت

[ترمیم]

علم اخلاق کا موضوع انسان کا نفس ہے۔ اس میں حیثیت سے بحث ہوتی ہے کہ انسان کن مختلف صفات سے متصف ہے اور کون کون سے مذموم و ممدوح ملکات اس میں پاۓ جاتے ہیں۔ اس علم کے مسائل بھی انہیں صفات و ملکات کی تبیین کے متعلق ہیں۔ صفات کے ایک دوسرے پر کیا اثرات ہیں؟ ملکات کو حاصل کیسے کرنا ہے؟ مذموم صفات کو خود سے کیسے زائل کرنا ہے وغیرہ؟
جبکہ عرفان عملی کا موضوع اور اس کے مسائل ایک اور جہت سے ہیں جس میں انسان کے خود سے روابط، اس کے جہان اور خدا سے روابط کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ عرفان عملی میں انسان کے خدا سے روابط کو مدنظر رکھا جاتا ہے جبکہ اخلاقی مکاتب میں ایسی ابحاث شامل نہیں ہوتیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ اخلاق ساکن ہے جبکہ عرفان ایک نوع حرکت اور نشو و نما ہے جس کا ایک نقطہ آغاز ہے اور دوسری طرف نقطہ انتہاء۔ عرفان عملی میں صراط وجود رکھتی ہے جسے منزل بمنزل طے کرنا ہے اور ہر منزل پہلی منزل طے کیے بغیر شروع نہیں ہوتی۔ لیکن اخلاق میں اس طرح کی اخلاقی فضائل کی ترتیب اور اس کا اتصاف ضروری نہیں ہوتا۔ اخلاق میں محدود روحی و اخلاقی عناصر ہیں اور ایسے مفاہیم و معانی ہیں جو شناختہ شدہ ہیں جبکہ عرفانی روحی عناصر بہت زیادہ پھیلے ہوۓ ہیں جو طولانی مجاہدت سے حاصل ہوتے ہیں اور عوام ان سے بے خبر ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خمینی، روح اللہ، آداب الصلاة، ص۱۱، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۲. خمینی، روح اللہ، آداب الصلاة، ص۱۳، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۳. خمینی، روح اللہ، آداب الصلاة، ص۲۴، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۴. خمینی، روح اللہ، تقریرات فلسفہ امام خمینی، ج۲، ص۵۵، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۵۔    
۵. خمینی، روح اللہ، سرّ الصلاة، ص۳۷، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۶. خمینی، روح الله، آداب الصلاة، ص۵۷-۵۹، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۷. خمینی، روح اللہ، شرح حدیث جنود عقل و جہل، ص۴۱۵-۴۱۶، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۲۔    
۸. خمینی، روح اللہ، شرح چہل حدیث، ص۳۸۷، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۹. خمینی، روح اللہ، شرح دعاء السحر، ص۱۳-۱۴، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۶۔    
۱۰. خمینی، روح اللہ، شرح دعاء السحر، ص۲۸، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۶۔    
۱۱. خمینی، روح اللہ، آداب الصلاة، ص۱۰، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۱۲. خمینی، روح اللہ، آداب الصلاة، ص۲۸۹، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۱۳. خمینی، روح الله، سرّ الصلاة، ص۱۰-۱۱، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۱۴. خمینی، روح الله، آداب الصلاة، ص۸۰، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۸۔    
۱۵. خمینی، روح الله، مصباح الہدایہ، ص۵۳، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۸۶۔    
۱۶. خمینی، روح الله، دانشنامہ امام خمینی، ج۷، ص۳۰۵، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۴۰۰۔
۱۷. برنجکار، رضا، آشنایی با علوم اسلامی، همان، ص ۱۵۹۔
۱۸. طوسی، نصیر الدین، اوصاف الاشراف، ص۹۹-۷۔    
۱۹. خواجہ عبداللہ انصاری، شرح منازل السایرین، بہ شرح عبدالرزاق کاشانی، نگارش علی شیروانی، الزہراء، تہران، ۱۳۷۳۔
۲۰. مشکینی، علی، دروس فی الاخلاق، نشر الہادی، قم، ۱۳۷۴، ص ۸۔    
۲۱. مطهری، مرتضی، آشنایی با علوم اسلامی، ص ۸۶ ۸۸۔    


ماخذ

[ترمیم]

سایٹ اندیشہ قم    
• دانشنامہ امام خمینی، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۴۰۰ شمسی۔






جعبه ابزار