آیت اللہ خوئیؒ کے علمی مبانی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی (۱۲۷۸-۱۳۷۱ش/ ۱۳۱۷-۱۴۱۳ق)، مایہ ناز شیعہ مرجع تقلید ،
فقیہ،
اصولی اور معروف رجالی تھے۔ آپ کی
فقہ،
اصول،
رجال اور
قرآنیات میں بہت سی تصنیفات ہیں۔ آپ کے بقول نمایاں ترین اساتذہ جنہوں نے ان کی علمی شخصیت سازی میں مؤثر کردار ادا کیا؛ یہ تھے:
ملا فتح اللّه شریعت اصفہانی،
مہدی مازندرانی،
آقاضیاءالدین عراقی،
محمدحسین غروی اصفہانی کمپانی اور
محمدحسین نائینی ۔
نجف کے بہت سے صف اول کے علما منجملہ مذکورہ علما نے خوئی کے
اجتہاد کی تائید کی اور
آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد آپ کی مرجعیت سنجیدگی سے سامنے آئی اور
آیت اللہ حکیم کی رحلت کے بعد آپ کو اعلم مرجع قرار دیا گیا۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی نے
امامیہ اصول فقہ کے مبانی میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انہوں نے اس میدان میں اپنے اساتذہ یا سابقہ اصولیوں کے نظریات کی وضاحت، تقویت اور توسیع کے ساتھ اپنے ابتکار کے ذریعے جدید نظریات بھی پیش کیے، جیسے وضع لغوی میں تعہد کا نظریہ، امر اعتباری کے ابراز سے تفسیرِ انشا کا نظریہ،
شبہات حکمیہ میں
استصحاب کے عدم جریان کا نظریہ اور استصحاب کے
امارہ ہونے کا نظریہ (ان موارد اور اصول فقہ کے دیگر جدید نظریات کیلئے ذیل کے حواشی میں مذکور کتب کی طرف رجوع کریں)
آیت اللہ خوئی کے اہم ترین اصولی معیارات کہ جو ان کی بہت سی فقہی آرا کی بنیاد ہیں؛ میں سے ایک
شہرت فتوائی کی مخالفت ہے کہ جس کے اہم نتائج ہیں۔ مشہور اصولیوں کی نظر کے مطابق
فقہا کے مابین کسی
فتویٰ کی شہرت کی صورت میں معتبر روایت جو اس فتویٰ کے ساتھ ناسازگار ہو، حجت نہیں ہے۔ اسی طرح شہرتِ فتوائی اپنے ساتھ سازگار
ضعیف روایت کے اعتبار کی موجب ہوتی ہے۔ اصطلاحا، شہرت ضعفِ سند کی ’’جابر‘‘ اور اعتبارِ سند کی ’’کاسِر‘‘ ہے۔ اسی طرح مشہور کے نزدیک
شہرتِ روائی دو روایات میں تعارض کے وقت
بابِ تعارض کے مرجحات میں سے شمار ہوتی ہے۔
لیکن آیت اللہ خوئی نے شہرتِ روائی کو
باب تعارض کے مرجحات میں سے شمار نہیں کیا ہے۔ اسی طرح ان کے نزدیک
شہرتِ عملی (مقامِ افتا میں روایت کے ساتھ شہرت کا استناد) کسی صورت ضعفِ خبر کا جبران نہیں کرتی؛ نیز صحیح و موثق خبر سے مشہور کا اعراض اس خبر کی عدم حجیت اور ضعف کا موجب نہیں ہے۔
آیت اللہ خوئی کے نزدیک اولا شہرتِ فتوائی فقط ان موارد میں
حجیت کی حامل ہو سکتی ہے کہ جب قدیم فقہا یعنی جو فقہا اصحاب آئمہؑ سے نزدیک تھے؛ سے منسوب ہو جبکہ ہم آئمہؑ کے اصحاب کی آرا یا آثار تک مکمل دسترس نہیں رکھتے۔
ثانیا، شہرتِ فتوائی خود بخود حجت نہیں ہے بلکہ روایت کے ساتھ سازگاری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ اس روایت کے امام سے صدور کے ظن کی موجب ہے اور روایت کے ساتھ ناسازگاری کی صورت میں زیادہ سے زیادہ اس روایت کے امام سے صادر نہ ہونے کے ظن کی موجب ہے جبکہ اخبار کی حجیت کیلئے ’’وثوق نوعی‘‘ لازم ہے۔
آیت اللہ بروجردیؒ کی اصولی روش کے برخلاف کہ جو
شیخ مفیدؒ اور
شیخ صدوقؒ جیسے قدیم فقہا کے فتاویٰ پر التزام اور ان کے حصول کی ضرورت بہت تاکید کرتے تھے اور ان فتاویٰ کیلئے احادیث کی مانند حجیت کے قائل تھے؛ آیت اللہ خوئی نہ مشہور کی نظر کے ساتھ ہم آہنگ خبرِ ضعیف کو قبول کرتے تھے اور نہ ہی معتبر دلیل کے ساتھ مستند نہ ہونے والے قدما کے فتوے کو قبول کرتے تھے۔ اسی وجہ سے دوسروں کی آرا میں تتبع آیت اللہ خوئی کیلئے زیادہ اہم نہیں تھا بلکہ ان کے نزدیک دلیل اور سند کا قوت و ضعف اہم تھا نہ کہ شہرتِ عملی یا فتوائی؛
اس اعتبار سے آیت اللہ خوئی اپنی تدریس کے آخری دوروں میں روایات کی سند اور راویوں کی وثاقت پر تحقیق کو بہت اہمیت دیتے تھے۔
آیت اللہ خوئی شہرت کے علاوہ
اجماع (خواہ
اجماع محصل یا
اجماع منقول) کی حجیت کو بھی قبول نہیں کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ حتی قدیم فقہا کے بہت سے اجماعات
اجماعِ مدرکی ہیں (یعنی ادلہ کی بنیاد پر ہیں؛ لہٰذا ان میں حجت ادلہ ہیں نہ اجماع؛ جبکہ ادلہ خدشہ پذیر ہو سکتی ہیں)۔ البتہ وہ
احتیاط کی رعایت کی بنا پر اپنے فتاویٰ میں اجماع کی طرف توجہ کرتے تھے۔ آیت اللہ خوئی کی اصولی روش میں شہرت و اجماع کی طرف کم توجہ کا منطقی نتیجہ
اصول عملیہ کی طرف رجوع یا عام و مطلق فقہی ادلہ پر اعتماد ہے۔ اسی طرح آیت اللہ خوئی
ادبیات اور
عربی زبان سے عمیق آشنائی کے باعث قرآنی و حدیثی متون و نصوص کے مدلولات اور عرفی لوازم سے آشنا تھے اور اکثر و بیشتر
احکام کے
استنباط میں اس توانائی سے بہرہ مند ہوتے تھے۔
آیت اللہ خوئی فتویٰ دینے میں بہت شجاع واقع ہوئے تھے اور بعض اوقات اپنے مبانی کی بنیاد پر مشہور کے فتاویٰ یا غالب فقہی آرا کی مخالفت کر دیتے تھے اور ان سے ہٹ کر فتویٰ دیتے تھے؛ آپ کے جملہ فتاویٰ میں سے درج ذیل ہیں:
عورت کے گھر سے مرد کی اجازت کے بغیر نکلنے کا جواز سوائے اس صورت کہ کوئی خاص شرائط و حالات ہوں؛ اپنی زندگی پر خوف کی صورت میں عورت کیلئے
سقط جنین کا جواز؛
اہل کتاب عورتوں سے
مسلمان کے
دائمی ازدواج کا جواز؛
جہادِ ابتدائی کا
امام معصومؑ کے حضور سے مشروط نہ ہونا؛
قاضی میں
اجتہاد کی شرط کا نہ ہونا؛
غسل کے دوران دھوتے وقت دائیں بائیں کی ترتیب کی رعایت کا
واجب نہ ہونا؛
باپ اور
بیٹے اور میاں بیوی کے مابین
سودی معاملے کا
احتیاطِ واجب کی بنا پر جائز نہ ہونا؛ ان مچھلیوں کو کھانے کا جواز جو پانی کے اندر یا جال میں مر جائیں؛ ان غیر مسلم ممالک سے وارد ہونے والے چمڑے کی
طہارت کہ جن کا
ذبح شرعی مشکوک ہے (مزید معلومات کیلئے آیت اللہ خوئی کے رسائل عملیہ کی طرف رجوع کریں؛ آپ کے جدید فقہی نظریات سے آگاہی کیلئے ذیل کے حواشی میں مندرج کتب کی طرف رجوع کریں۔
آیت اللہ خوئیؒ کے نزدیک رات کے کسی حصے میں مشترک تمام ممالک میں سے کسی ایک میں
رؤیتِ ہلال دیگر کیلئے بھی کافی ہے۔
آیت اللہ خوئی کی فقہ کے دیگر اہم ضوابط میں سے
خبر صحیح پر اعتماد اور
خبر ثقہ کی
حجیت ہے؛ اس اعتبار سے آپ نے
نجف کے سابقہ فقہا کی نسبت
علم رجال کو خاص اہمیت دی۔ انہوں نے ثقہ و ضعیف راویوں کی شناخت، حدیث کے قواعد اور
صحیح حدیث پر اعتماد کے ضوابط کو منقح کرنے کے بعد فقہی احکام کا استنباط کیا ہے۔
آپ کے اصولی و رجالی نظریات بھی مؤثر واقع ہوئے ہیں۔ آپ شہرت اور اجماع منقول کو حجت نہ سمجھنے کے بعد خبر ثقہ (نہ خبر موثوق) کی حجیت پر اعتقاد رکھتے تھے اور حجیت حدیث کا معیار صرف سند کے رجال کی وثاقت کو قرار دیتے تھے۔ آیت اللہ خوئی چونکہ راویوں کی توثیق پر مبنی رجالی نظریات پر بھی بحث و تنقید کرتے تھے، اس لیے وہ روایات کو قبول کرنے کے حوالے سے سخت گیر تھے۔ مثلا ان کے نزدیک عام توثیقات جیسے
امام صادقؑ کے تمام اصحاب کی وثاقت،
رجال طوسی میں مذکور راویوں کی وثاقت، امام معصومؑ کے وکیل کی وثاقت،
مشایخ اجازہ کی وثاقت، امام معصومؑ سے
کثیر الروایۃ راوی کی وثاقت جیسے اقوال کو قبول نہیں کرتے تھے اور ان کے دلائل کو مخدوش سمجھتے تھے۔
دوسری جانب سے آپ
ابن قولویہ کے قول کہ کتاب
کامل الزیارات کی اسناد کے راوی نیز
تفسیر علی بن ابراہیم قمی کے تمام راوی موثق و معتبر ہیں مگر اپنی زندگی کے آخری عشرے میں وہ اس نظریے کو مسترد قرار دیتے تھے۔
اس جدید نظریے کی وجہ سے مذکورہ توثیق کے وسیع استعمال کے پیش نظر آیت اللہ خوئی کے فقہی و استدلالی آثار اور فقہی فتاویٰ میں بنیادی نوعیت کی تغییرات ایجاد ہوئیں۔
فقہ ،
اصول و
رجال کے علاوہ آیت اللہ خوئی کی اہم ترین فعالیت
علم تفسیر اور
قرآنیات میں تھی۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ
حوزہ نجف قرآنیات اور تفسیری مسائل سے دور رہ گیا ہے تو سنہ ۱۳۳۰ شمسی سے حوزہ علمیہ کی تعطیلات کے دوران انہوں نے تفسیر و علوم قرآن کے عنوان سے ایک درس کی بنیاد رکھی جو
البیان فی تفسیر القرآن کی تالیف پر منتہی ہوا۔
آیت اللہ خوئی کے اس اقدام کی بدولت قرآنیات و تفسیر کے مکتب میں جدید روش سامنے آئی اور اس کو آپ نے حوزہ علمیہ نجف میں رائج کیا مگر کچھ وجوہات کے باعث وہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ البیان کا زیادہ تر حصہ تفسیر کی مقدماتی مباحث پر مشتمل ہے کہ جس میں تفسیر و قرآنیات کے حوالے سے بہت دقیق علمی نکات موجود ہیں۔ اس مقدمے میں آپ کا اصل نقطہ نظر شبہہ شناسی اور منتقدین کے اشکالات کے جواب پر مشتمل ہے۔ آیت اللہ خوئی نے اس اثر میں
قرآن کے متن اور منزلت کے دفاع میں مفصل تحلیلی دلائل پر مشتمل بحث کے علاوہ
وحی کی عظمت اور تشریعی اعجاز کو بیان کیا ہے۔ آپ نے اس سے قبل بھی اپنی ایک اور کتاب
نفحات الاعجاز میں
اعجاز قرآن کے بارے میں ہونے والے بعض شبہات کا جواب دیا تھا۔ آیت اللہ خوئی کا اس حوالے سے ایک نہایت اہم نظریہ
قرآن کی عدم تحریف نہ بالزیادۃ اور نہ بالنقصان کا ہے۔
آیت اللہ خوئی اسی طرح
نسخ کے اہم موضوع پر بھی خاص انداز سے روشنی ڈالتے ہیں اور متعدد آیات کا جائزہ لینے کے بعد فقط
آیتِ نجویٰ کے منسوخ ہونے کو قبول کرتے ہیں۔ آپ نے
قرائات سبع کو بھی
پیغمبر تک معتبر اسناد کا حامل تسلیم نہیں کیا ہے اگرچہ ان سات قرائات میں سے کسی ایک کی نماز میں قرائت کو
جائز قرار دیا ہے۔ آپ کی اجتہادی اور نقادانہ روش نے بعد میں آپ کے چند مایہ ناز شاگردوں کو متاثر کیا اور انہوں نے اس مکتب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔
آیت اللہ خوئی اگرچہ
فلسفہ و
کلام کی وادی میں زیادہ مشہور نہیں تھے مگر ان علوم پر بھی تبحر رکھتے تھے۔
اس کے باوجود، ایک دو رسالوں کے سوا آپ کی کوئی مستقل کلامی تالیف نہیں ہے؛ البتہ اصولی مسائل کے قالب میں کلام پر بھی بحث کرتے ہیں اور امامیہ کے مشہور عقائد پر کاربند اور ان کے ساتھ وفادار تھے۔
آیت اللہ خوئی کو
شعر سے بھی شغف تھا اور بعض اوقات شعر کہتے تھے۔
آپ کو معماری میں بھی صاحبِ ذوق قرار دیا گیا ہے۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی کی شخصیت نجف کے قدیم حوزہ علمیہ کی حفاظت، اس میں علمی تحریک کی توسیع و استمرار نیز درسی نظام کی اصلاح اور قدیم طریقہ کار میں تبدیلی کے حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہوئی۔ آپ کا ایک اہم کام تقریر نویسی کی ترویج تھا۔ شاگردوں کی کثرت اور علمی زعامت سبب بنی کہ نجف کے دوسرے دروس اور دیگر حوزات علمیہ میں بھی یہ طریقہ رائج ہو جائے۔ حوزہ علمیہ کیلئے تعطیلات کی منظوری دی۔ پہلے گرمیوں میں حوزہ نجف کے رسمی دروس جاری رہتے تھے لیکن آیت اللہ خوئی نے گرمیوں کی ۴۵ روزہ تعطیلات کا آغاز کیا جبکہ سال بھر کی باقی چھٹیوں کو کم کر دیا
آیت اللہ خوئی کی مرجعیت کے دوران
عراق کا ایک اہم واقعہ عراق میں مقیم ایرانی علما کا اخراج تھا کہ جسے ۱۳۴۰ شمسی کے آخری عشرے میں باقاعدہ طور پر لاگو کیا گیا۔ اگرچہ آیت اللہ خوئی ان معدودے افراد میں سے تھے جنہیں عراق کو ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا لیکن آپ کے بہت سے شاگردوں کو ملک بدر کیے جانے کی وجہ سے آپ کے علمی حلقے کی رونق کم ہو گئی نیز اس غیر انسان اقدام پر آپ کو شدید صدمہ ہوا۔
بہرحال آپ کے بہت سے شاگردوں کی ایران کے حوزات علمیہ میں آمد اس امر کا سبب بنی کہ آپ کے افکار دیکھتے ہی دیکھتے ان حوزات میں سرایت کر جائیں۔ حوزہ علمیہ قم جو بہت حد تک اپنے مؤسس
شیخ عبد الکریم حائری اور
آیت اللہ بروجردی جیسے بزرگان سے متاثر تھا؛ ان شاگردوں کی ایک جماعت کا میزبان بن گیا کہ جن کی فکری و اصولی بنیادیں
میرزا نائینی ،
محقق اصفہانی اور
آقا ضیاء الدین عراقی کے فکری مکاتب میں تھیں۔ کچھ مہاجر اساتذہ نے اس حوالے سے ناقابل تردید اثرات مرتب کیے اور بڑے درسی جلسات کا اہتمام کر کے قم کے فقہی مکتب کو بدل دیا۔
میرزا جواد تبریزی،
میرزا کاظم تبریزی،
سید محمد روحانی،
سید ابو القاسم کوکبی اور
حسین وحید خراسانی جیسے اساتذہ نے اس حوالے سے بنیادی کردار ادا کیا۔ ان کے علاوہ آیت اللہ خوئی کے استدلالات اور نظریات ان اساتذہ کے دروس میں بھی موردِ تحقیق و تنقید قرار پاتے تھے کہ جنہیں نجف میں تحصیل علم کا موقع نہیں ملا تھا؛ ان اساتذہ میں سے
سید محمدرضا گلپایگانی،
حسین علی منتظری اور
محمد فاضل لنکرانی کے نام قابل ذکر ہیں۔
[ترمیم]
(۱) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، چاپ علینقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۲) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابععشر، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
(۳) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج۱، تهران: ۱۳۷۴ش۔
(۴) امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فیالنجف خلالالف عام، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۵) انصاری، مرتضی، زندگانی و شخصیت شیخانصاریقدسسره، قم۱۳۷۳ش۔
(۶) انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضواناللّهعلیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۷) ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیتاللّه خوئی شدند؟»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۸) ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدسسره) : السمات و المعالم»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۹) ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۰) بحرالعلوم، محمد، «الامام الخوئی: و انجازاته العلمیة و مشاریعه العامة»، در یادنامه حضرت آیتاللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، (قم) : مؤسسه خیریه آیتاللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۱۱) بروجردی، محمدتقی، نهایة الافکار، تقریرات درس آیتاللّه عراقی، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، (۱۳۶۴ش)۔
(۱۲) توحیدی، محمدعلی، مصباحالفقا هة فی المعاملات، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۳) جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۴) جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیتاللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۱۵) حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۶) حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیتاللّه حسینی همدانی (نجفی)»، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
(۱۷) حکمی، مرتضی، «الامام الخوئی و انطلاقةالعلامة الجعفری الفلسفیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۸) حکمی، مرتضی، «حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی : پیشوای حوزه علمیه و مرجع عظیمالشأن»، مسجد، سال ۱، ش ۵ (شهریور ـ مهر ۱۳۷۱)۔
(۱۹) حباللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیتاللّه خوئی»، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۲۰) خانمحمدی، یوسف، اندیشه سیاسی شیخعبدالکریم زنجانی، قم ۱۳۸۸ش۔
(۲۱) خوئی ، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیرالقرآن، قم ۱۳۹۴/۱۹۷۴۔
(۲۲) خوئی ، سید ابوالقاسم، «(پاسخ به استفتائی درباره حزب کمونیست)»، الموسم، ش۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۲۳) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۴) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی نفحات الاعجاز فی رد الکتاب المسمی حُسن الایجاز، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۵) خوئی ، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، تقریرات درس آیتاللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بیتا)۔
(۲۶) خوئی ، سید ابوالقاسم، مبانی تکملة المنهاج، نجف (۱۹۷۵ـ ۱۹۷۶)۔
(۲۷) خوئی ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳، چاپ افست قم (بیتا)۔
(۲۸) خوئی ، سید ابوالقاسم، منهاج الصالحین، نجف ۱۳۹۷۔
(۲۹) خوئی ، سید ابوالقاسم و جواد تبریزی، صراةالنجاة: استفتاءات لآیتاللّه العظمی الخوئی مع تعلیقة و ملحق لآیتاللّه العظمی التبریزی، قم ۱۴۱۶ـ۱۴۱۸۔
(۳۰) داوری، مسلم، «الامام الخوئی زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۱) روحانی، حمید، نهضت امام خمینی، ج۲، تهران ۱۳۷۶ش۔
(۳۲) «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۳) ساعدی، محمدرضا، «خاطراتی از شیخ محمدرضا ساعدی از اعضای هیأت آیتاللّه خوئی در ماجرای انتفاضه ۱۹۹۱ عراق»، شهروند امروز، سال ۴، ش۳ (۲۵ تیر ۱۳۹۰)۔
(۳۴) سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، در یادنامه حضرت آیتاللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیتاللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۳۵) شریف، سعید، «تلامذة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۶) شریف، سعید، «قبس من نور: تلامذة السید الخوئی دامظله»، الموسم، ش ۷ (۱۹۹۰)۔
(۳۷) سودانی، عبدالفلاح، «الامام الخوئی مدرسة فی التفسیر و الحدیث»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۸) شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۹) شاکری، حسین، ذکریاتی، قم ۱۴۱۸ـ۱۴۲۴۔
(۴۰) شبیری زنجانی، سید موسی، جرعهای از دریا، قم ۱۳۸۹ش۔
(۴۱) شریف رازی، محمد، آثار الحجة، یا، تاریخ و دائرةالمعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
(۴۲) شریف رازی، محمد، گنجینه دانشمندان، تهران ۱۳۵۲ـ۱۳۵۴ش۔
(۴۳) شهابی، سعیدمحمد، «رحیل الامام الخوئی: فصل آخر من فصول معاناة العراق»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۴) شیرازی، رضی، «مصاحبه با آیتاللّه سیدرضی شیرازی»، حوزه، سال ۹، ش ۲ و ۳ (خرداد ـ شهریور ۱۳۷۱)۔
(۴۵) صدرایی خویی، علی، سیمای خوی، تهران ۱۳۷۳ش۔
(۴۶) صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
(۴۷) حماده، طراد، «فکر الامام الخوئی (قدسسره) فیالتراث الاسلامی الشیعی المعاصر»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۸) طریحی، محمد سعید، «الامام الخوئی: سیرة مشرقیة و آثار خالدة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴الف)۔
(۴۹) طریحی، محمد سعید، «السید جمالالدین الخوئی: ۱۳۳۷ـ۱۴۰۴ه»، الموسم (۱۴۱۴ب)۔
(۵۰) عارفی، محمداکرم، اندیشه سیاسی آیتاللّه خوئی، قم ۱۳۸۶ش۔
(۵۱) جاویدان، شذی، العراق بین الماضی و الحاضر و المستقبل، بیروت: مؤسسة الفکر الاسلامی، (بیتا)۔
(۵۲) علیدوست، ابوالقاسم، «گفتوگو با حجتالاسلام و المسلمین ابوالقاسم علیدوست»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۳) غروی، محمد، الحوزة العلمیة فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴۔
(۵۴) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی: التقلید، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۱، قم: مؤسسة احیاء الآثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰الف۔
(۵۵) غروی تبریزی، علی، الطهارة، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۲، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ب۔
(۵۶) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح المکاسب: البیع، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، (ج ۲)، در موسوعة الامام الخوئی، ج۳۷، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ج۔
(۵۷) فضلی، عبدالهادی، «معالم الشخصیة العلمیة عند الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۵۸) قائینی، محمد، «گفتوگو با حجتالاسلام و المسلمین محمد قائینی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۹) قطری، منصور عبدالجلیل، «ادب الاختلاف فی حیاة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۰) کاظمی خراسانی، محمدعلی، فوائدالاصول، تقریرات درس آیتاللّه نائینی، قم ۱۴۰۴ـ۱۴۰۹۔
(۶۱) گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیتاللّه العظمی خوئی »، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
(۶۲) فیّاض، محمداسحاق، «ابداعات الامام الخوئی فی الابحاث الاصولیة و الفقهیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۳) فیّاض، محمداسحاق، «نوآوریهای اصولی و فقهی آیتاللّه خوئی »، فقه، ش ۱۷ و ۱۸ (پاییز ـ زمستان ۱۳۷۷)۔
(۶۴) مغنیه، محمدجواد، «زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۶۵) مددی، احمد، «گفتوگو با آیتاللّه سیداحمد مددی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۶۶) مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمهای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
(۶۷) مرقاتی، جعفر، «الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۸) مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
(۶۹) خباز، منیر، «ملمح فی شخصیة الامام الخوئی (قدسسره) : ملکات فکریة لاتتوفر الا للعباقرة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۰) «مؤسسة الامام الخوئی الخیریة: فکرتها و مشاریعها»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۷۱) موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدسسره) لاساتذته»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۲) موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۳) نصیراوی، ابراهیم، «الامام الراحل: مشاهدات و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۴) واعظ حسینی، محمدسرور، مصباح الاصول، تقریرات درس آیتاللّه خوئی، (قم) ۱۳۸۰ش۔
(۷۵) یثربی، میرمحمد، «سرانجام مکتب دوگانه علامه وحید بهبهانی و شیخ مرتضی انصاری چه شد؟» (مصاحبه)، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
[ترمیم]
[ترمیم]
•
دانشنامه جهان اسلام، ماخوذ از مقالہ «خوئی ابوالقاسم »، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔ •
«سائٹ اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔