اہل

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اہل کے معنی زوج یا زوجہ اور خاندان کے وارد ہوئے ہیں۔ اس کا اطلاق عزیز و اقرباء پر بھی کیا جاتا ہے۔


لغوی معنی

[ترمیم]

اہل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصلی حروف أ - ھ - ل ہیں۔ اس کے لغوی معنی اہل و عیال اور زوج و زوجہ کے ہیں۔ اسی سے کلمہ أَھۡلُ الۡبَیۡت آتا ہے جس کا مطلب گھر کے رہنے والے یا گھر کے افراد ہیں۔ ایک جگہ پر رہنے والوں پر یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ اسی سے ایک دین یا ایک مکان یا ایک علاقہ میں رہنے والوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال کیا جانے لگا، جیسے اہل اسلام، اہل عرب وغیرہ

قرآنی استعمال

[ترمیم]

قرآن کریم کی متعدد آیات میں کلمہِ اہل آیا ہے؛ جس میں اس لفظ کے ذریعے گھر یا قبیلے کے افراد مراد لیے گئے ہیں، جیساکہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہوتا ہے:إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيرا؛ اللہ صرف یہ ارادہ رکھتا ہے کہ تم اہل بیت سے رجس کو دور کر دے اور تمہیں پاک و طاہر کر دے۔ اس آیت کریمہ میں اہل بیت کہہ کر خصوصی گھر والے مراد لیے گئے جس کی نشاندہی رسول اللہؐ کی معتبر اور متواتر احادیث سے ہوتی ہے۔ مسلم نیشاپوری نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں ام المؤمنین عائشہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتی ہیں: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ، فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا، الأحزاب: ۳۳؛ نبی صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم ایک دن دوپہر کے وقت نکلے، آپؐ نے چادر اوڑھی ہوئی تھی جس پر مختلف نقش و نگار منقش تھے جوکہ سیاہ بالوں سے بنی ہوئی تھی، اتنے میں حسن بن علیؑ تشریف لائے، آپؐ نے انہیں چادر کے اندر داخل کر لیا، پھر حسین بن علیؑ تشریف لائے تو آپ نے ان کے ساتھ انہیں بھی چادر کے نیچے داخل کر لیا، پھر جناب فاطمہؑ آئیں تو انہیں بھی چادر کے نیچے داخل کر لیا، پھر امام علیؑ آئے تو انہیں بھی چادر کے نیچے داخل کر لیا، پھر آپؐ نے یہ آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: بے شک اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ تم اہل بیت کو رجس سے دور فرمائے اور تم کو پاک و طاہر کر دے۔ یہ روایت واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ آیت کریمہ میں اہل بیت سے مراد فقط وہ ہستیاں ہیں جنہیں رسول اللہؐ نے اس چادر کے نیچے جمع فرمایا۔ یہ حدیث مبارک مکتب تشیع اور مکتب اہل تسنن میں صحیح اور معتبر طرق سے وارد ہوئی ہے۔ اس آیت کریمہ طہارت کی مناسبت سے آیتِ تطہیر بھی کہا جاتا ہے۔ نیز اس حدیث مبارک کو چادر کی مناسبت سے حدیثِ کساء سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اسی طرح لفطِ اہل قرآن کریم کی دیگر آیات میں ایک مذہب مثلا عیسائیت یا یہودیت کے پیروں کے لیے بھی آیا ہے۔ نیز کلمہِ اہل کہہ کر ایک بستی یا ایک معاشرہ میں رہنے والوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، جیساکہ ارشادِ باری تعالی ہوتا ہے:وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى‌ آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْض‌؛ اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۱، ص ۱۵۰۔    
۲. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص ۲۹۔    
۳. احزاب/سوره۳۳، آیت ۳۳۔    
۴. نیشاپوری، مسلم، صحیح مسلم، ج ۴، ص ۱۸۸۳۔    
۵. بقره/سوره۲، آیت ۱۰۹۔    
۶. اعراف/سوره۷، آیت ۹۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۱، ص۷۶۱۔    
اکثر و بیشتر مطالب محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔


اس صفحے کے زمرہ جات : قرآن شناسی | لفظ شناسی




جعبه ابزار