ابو بکر احمد بن محمد بن ابی دارمپی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریںابن ابی دارم اہل سنت کے معروف محدث، حافظِ حدیث اور متعدد اکابر محدثین کے شیخ ہیں۔ علماء جرح و تعدیل نے شدت کے ساتھ ابن ابی دارم پر نقد کی ہے جس کی بنیادی وجہ ابن ابی دارم سے ایسے امور کا صادر ہونا ہے جو اہل بیتؑ کے حق میں جاتے ہیں اور ان سے خلیفہ اول اور خلیفہ دوم پر تنقید ہوتی ہے۔ علماءِ رجال نے حدیث میں محکم اور قوی ہونے کا اعتراف کیا ہے لیکن اہل بیتؑ کا شدت سے طرفدار ہونا ابن ابی دارم پر سب و شتم اور طعن و تشنیع کا باعث بن گیا۔ فہرست مندرجات۲ - ابن ابی دارم کا ۱۵۰ ہزار احادیث نقل کرنا ۳ - جناب فاطمہؑ کو لات مارنے اور جناب محسن کی شہادت کا اعتراف ۴ - آیت کریمہ میں فرعون سے مراد خلیفہ دوم کے ہونا کا اعتراف ۵ - آذان میں حی علی خیر العمل کے جزء ہونے کا اعتراف ۶ - فدک کے ہبہ ہونے کو معتبر سند سے بیان کرنا ۷ - حقائق کے اعتراف کے نتیجہ میں طعن و تشنیع ۸ - حوالہ جات ۹ - مأخذ اجمالی تعارف[ترمیم]ابن ابی دارم کا نام احمد بن محمد السَّرِیّ بن یحیی بن السَّرِی ہے۔ آپ کی کنیت ابو بکر، تمیمی قبیلہ سے اور کوفہ کے رہنے والے ہیں۔ ابن ابی دارم کے نام سے معروف ہیں اور کوفہ میں اہل سنت کے معروف محدث شمار ہوتے ہیں۔ علماءِ جرح و تعدیل نے علم رجال کی اصطلاح میں انہیں شیعہ قرار دیا ہے۔ آپ نے محمد بن عبد اللہ مطین، ابراہیم بن عبد اللہ عبسی، موسی بن ہارون وغیرہ سے احادیث کسب کی ہیں اور آپ سے حاکم نیشاپوری، ابو بکر بن مردویہ، یحیی بن ابراہیم مزکی وغیرہ نے حدیث نقل کی ہیں۔ آپ احادیث کے حفظ کرنے اور اس کی جان پہچان میں معروف تھے۔ آپ کی وفات محرم الحرام کے مہینے میں ۳۵۲ ھ کو ہوئی۔ ذہبی نے اپنی دوسری کتاب میزان الاعتدال میں ابن ابی دارم کی تاریخ وفات ۳۵۷ ھ رقم کی ہے۔ ابن ابی دارم کا ۱۵۰ ہزار احادیث نقل کرنا[ترمیم]ابن ابی دارم کا تعلق اہل سنت محدثین سے ہے اور انہوں کی تمام زندگی اہل سنت حلقہ احباب میں گزری۔ شیعہِ علم رجال و حدیث میں کسی جگہ ابن ابی دارم کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ابن ابی دارم نے جن شخصیات سے احادیث نقل کی ہیں ان میں ایک اہم شخصیت محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی متوفی ۲۹۷ھ جن کی وثاقت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے۔ ابن ابی دارم خود کہتے ہیں میں نے حضرمی سے ۱۵۰ ہزار احادیث لکھی ہیں۔ امام حاکم نے اپنے شیخ متعدد احادیث اپنی کتاب المستدرک فی الصحیحین میں نقل کی ہیں۔ جناب فاطمہؑ کو لات مارنے اور جناب محسن کی شہادت کا اعتراف[ترمیم]ابن ابی دارم پر تنقید اور غیر ثقہ کہنے کی اصل وجہ ابن ابی دارم کا معتقد ہونا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے دختر رسولؐ جناب فاطمہ علیہا السلام کو شہید کیا اور ان کے بیٹے جناب محسن کو شکمِ مادر میں سقط کر دیا۔ اس بارے میں ذہبی نے تصریح کی ہے: آیت کریمہ میں فرعون سے مراد خلیفہ دوم کے ہونا کا اعتراف[ترمیم]ذہبی نے نقل کیا ہے کہ ابن ابی دارم کے سامنے سورۃ الحاقۃ آیت ۹ کی تلاوت کی گئی ہے اور اس میں فرعون سے مراد خلیفہ دوم کو لیا گیا۔ ذہبی نے اس کو اس طرح سے نقل کیا ہے: آذان میں حی علی خیر العمل کے جزء ہونے کا اعتراف[ترمیم]ابن ابی دارم نے حدیث نقل کی ہے جس کی وجہ سے وہ معتقد تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے آذان کے آخر میں حی علی خیر العمل کو قرار دیا ہے۔ فدک کے ہبہ ہونے کو معتبر سند سے بیان کرنا[ترمیم]ابن ابی دارم کے بڑے جرائم میں سے ایک جرم یہ ہے کہ معروف تاریخی حقیقت کہ رسول اللہؐ نے فدک جناب فاطمہ علیہا السلام کو ہبہ کر دیا۔ اس حقیقت کو اہل سنت کتب میں مخدوش کرنے کی بہت کوشش کی گئی ہے لیکن ابن ابی دارم نے قوی اور صحیح سند سے اس حدیث مبارک کو نقل کیا جسے امام حاکم نے اپنی کتاب فضائل فاطمہ الزہراءؑ میں نقل کیا ہے۔ اس حدیث کی سند میں آئمہ اہل بیتؑ موجود ہیں جس کا اختتام امام حسینؑ پر ہوتا ہے کہ امام حسینؑ فرماتے ہیں کہ جب سورہ اسراء آیت ۲۶ نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے فاطمہؑ کو بلایا اور انہیں فدک عطا کر دیا۔ حقائق کے اعتراف کے نتیجہ میں طعن و تشنیع[ترمیم]ابن ابی دارم کو ان حقائق کے اعتراف میں شدید لعن طعن اور سخت الفاظ میں جرح کو برداشت کرنا پڑا۔ جیساکہ ذہبی نے امام حاکم کی نظر یہ بیان کی ہے کہ ابن ابی دارم رافضی اور غیر ثقہ ہیں۔ ذہبی نے اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے حکم لگایا: حوالہ جات[ترمیم]مأخذ[ترمیم]ویکی فقہ اردو سے مربوط گروہِ محققین کی جانب سے یہ مقالہ تحریر کیا گیا ہے۔ |