بکیر بن حر ریاحی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بکیر بن حر ریاحی کا قدیم مصادر میں ذکر نہیں ملتا۔ البتہ بعض نے انہیں شہدائے کربلا میں شمار کیا ہے۔


کربلا میں شرکت

[ترمیم]


← بکیر کی شہادت کے متعلق پہلی روایت


حر نے عاشور کے دن عمر بن سعد کی فوج کو پند و نصیحت کرنے کے بعد اپنے فرزند بکیر کو حکم دیا کہ دشمن کی فوج پر حملہ کرے۔ بکیر نے امام حسینؑ کے سامنے عرض ادب کرنے کے بعد میدان کا رخ کیا اور دشمن کے ستر سپاہیوں کو قتل کرنے کے بعد اپنے والد کے پاس واپس آ گئے۔ ان سے پیاس مٹانے کیلئے کچھ پانی طلب کیا تاکہ تازہ دم ہو کر دشمن پر حملہ کریں۔
حرّ نے کہا: کچھ صبر کرو اور میدان میں واپس چلے جاؤ؛ بکیر میدان میں واپس چلے گئے اور بڑی تعداد میں دشمن کو قتل کرنے کے بعد شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہو گئے۔ جب حر اپنے فرزند بکیر کے سرہانے پر پہنچے اور انہیں خون میں غلطان دیکھا تو کہا: اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے تجھ پر احسان کیا کہ اپنے امام کی راہ میں شہادت پر فائز ہو جاؤ۔

← بکیر کی شہادت سے متعلق دوسری روایت


بعض نے ان کی شہادت کو اس طرح نقل کیا ہے: عاشور کے دن جب بکیر اپنے والد کے حکم پر امام حسینؑ سے وداع کرنا چاہتے تھے تو حضرتؑ سے عرض کیا:
اے فرزند پیغمبرؐ آپ پر درود ہو؛ میں اس وقت آپ کے ساتھ ہوں، خدا سے چاہتا ہوں کہ بہشت برین میں بھی ہمیں آپ کے ساتھ جمع کرے؛ پھر حضرتؑ سے درخواست کی کہ ان کیلئے اور ان کے والد کیلئے دعا کریں، امام حسینؑ نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے فرمایا: ’’خدایا! میں ان سے راضی ہوں؛ تو بھی ان سے راضی ہو جا‘‘۔ پھر بکیر اپنے والد حر کے ہمراہ روانہ میدان جنگ ہوئے اور دشمن کی صفوں کو درہم برہم کر کے دو سو لوگوں کو قتل کرنے کے بعد امامؑ کی خدمت میں واپس آ گئے۔
ایک مرتبہ پھر باپ کے تشویق دلانے پر دشمن پر یہ رجز پڑھتے ہوئے حملہ کیا:
أنَا بُکَیْرِ وَ أَنَا بنِ الحُرِّ • افْدی‌ حُسَیْناً مِن جَمیعِ الْضُّرِّ
أَرْجُو بِذاکَ الْفَوْز یَوْمَ الْحَشْرِ • مَعَ النّبی والأمامِ الطُّهرِ
میں بکیر ہوں اور حر کا بیٹا ہوں؛ اپنی جان کو حسینؑ پر فدا کر رہا ہوں اور ہر گزند سے ان کی حفاظت کر رہا ہوں؛
امیدوار ہوں کہ قیامت کے دن پیغمبر اور پاکیزہ آئمہؑ کے زمرے میں شامل ہو جاؤں؛
پھر انہوں نے دشمن پر حملہ کیا اور ان کے پچاس افراد کو قتل کرنے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا۔ حر ان تک پہنچے اور آیت «یا ایُّهَا الذینَ آمَنُوا اذا لَقِیتُم الذینَ کَفَرُوا زَحْفاً فَلا تُوَلُّوهُمُ الادْبار» (ای کسانی که ایمان آورده ‌اید هنگامی که -در میدان نبرد- با کافران رو به رو گشتید که -به سوی شما- روی می‌آورند به آنان پشت مکنید) تلاوت کی جسے سن کر بکیر نے واپسی کا ارادہ ترک کر دیا۔
بکیر نے تیسری مرتبہ دشمن پر حملہ کر کے ان کی بڑی تعداد کو قتل کر دیا؛ اس وقت عمر بن سعد نے حکم دیا کہ مل کر اس پر حملہ کریں۔ بکیر نے انہیں دیکھ کر اپنے والد کی طرف پلٹے، حر اور امامؑ کے چند ساتھی ان کی مدد کیلئے بڑھے مگر دشمن نے انہیں بکیر تک پہنچنے سے روک دیا۔ میدان میں گرد و غبار چھایا ہوا تھا، اسی دوران دشمن کی تلوار اور نیزے کی ضرب سے بکیر نے شہادتین کہہ کر جام شہادت نوش کیا۔ جب حر نے اپنے فرزند کو خون میں غلطان دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور کہا: اس خدا کا شکر ہے کہ جس نے امام حسینؑ کی راہ میں شہادت تجھے نصیب کی اور جاہل نہیں مرے۔ پھر ان کے بے جان بدن کو امام حسینؑ کی خدمت میں لے آئے۔
[۲] فاضل دربندی، اسرار الشهادة، ج۲، ص۲۷۸۔
[۳] ملا آقا دربندی، جواهر الايقان، ص۸۳۔
[۴] کمره‌ای، میرزاخلیل، عنصر شجاعت، ج۳، ص۱۳۸۔
[۵] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسيلة الدارين، ص۱۱۱۔
[۶] کاشانی، حبیب الله، تذكرة الشهداء، ص۱۷۸۔
[۷] محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهيجاء، ج۱، ص۵۱۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الانفال/سوره۸، آیه۱۵۔    
۲. فاضل دربندی، اسرار الشهادة، ج۲، ص۲۷۸۔
۳. ملا آقا دربندی، جواهر الايقان، ص۸۳۔
۴. کمره‌ای، میرزاخلیل، عنصر شجاعت، ج۳، ص۱۳۸۔
۵. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسيلة الدارين، ص۱۱۱۔
۶. کاشانی، حبیب الله، تذكرة الشهداء، ص۱۷۸۔
۷. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهيجاء، ج۱، ص۵۱۔


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا،ص۱۱۴-۱۱۵۔    






جعبه ابزار