بیت المال کا ادارہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دین اسلام میں دین اور سیاست میں گہرا ربط پایا جاتا ہے جس کے واضح ثبوت رسول اللہؐ کا اسلامی حکومت کو تشکیل دینا اور معاشرے کے نظم و نسق کو برقرار کرنے کے لیے مختلف حکومتی اداروں کی بنیاد رکھنا ہے۔ رسول اللہؐ نے جن حکومتی اداروں کی بنیاد رکھی اور معاشرے کے مسائل اس کے ذریعے سے حل فرمائے ان میں سے ایک اہم ادارہ بیت المال ہے۔ حکومت کی تشکیل مختلف قسم کے حکومتی اداروں اور دواوین کے وجود سے ممکن ہوتی ہے جن میں سے ایک اساسی ادارہ بیت المال ہے۔ یہ حکومتی ادارہ انسانی معاشرہ میں بسنے والے عوام الناس کے عمومی مالی مسائل کو حل کرتا ہے اور مختلف تجارتوں اور درآمد و برآمد سے حاصل ہونے والے اموال اور مخارج و ٹیکس سے حاصل ہونے والے منافع کو جمع کر کے حکومت اور ریاست کے اقتصاد کو برقرار رکھنے کا وظیفہ انجام دیتا ہے۔ اسلامی حکومت میں خلیفہ کو اختیارات کی قدرت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک ریاست کا یہ اساسی اور طاقت سے بھر ادارہ براہ راست خلیفہ کے ماتحت آتا ہے۔ خلیفہ ہمیشہ بیت المال پر اپنا تسلط قائم رکھتا ہے اور پھر اصول و ضوابط یا عادلانہ طور طریقوں سے اس بیت المال کو مسلمانوں میں تقسیم کرتا ہے۔


اموال کی جمع آوری کی ذمہ داری

[ترمیم]

رسول اللہ صلّی اللّه علیہ و آلہ اور ان کے بعد آنے والی حکومتوں میں خلیفہِ وقت شخصی طور پر خود بیت المال کی جمع آور کی سرپرستی و نگرانی کرتے اور اس کو خرچ کرنے کے مصارف و موارد کا وظیفہ خود ادا کرتے۔ جہاں تک بیت المال کی حفاظت کا تعلق ہے تو اس وظیفہ کو ادا کرنے کے لیے ابتداء اسلام میں مختلف صحابہ کی خدمات لی گئیں جبکہ بعض دیگر صحابہ کے ذریعے بیت المال میں موجود اموال کا حساب کتاب رکھا جاتا تھا۔ رسول اللہؐ کے دور میں حکومت اسلامی کا حدود اربعہ کم اور مسلمانوں کی آبادی کا تناسب قلیل تھا اس لیے بیت المال کو چند صحابہ کرام کے ذریعے سے کنٹرول کرنا ممکن تھا۔ لیکن جیسے جیسے ذرائع درآمد و برآمد میں وسعت آنے لگی اور فتوحات کے سلسلوں کی وجہ سے اموال کی بڑی مقدار حاصل ہونے لگے تو اس ادارہ کو مزید محکم اور وسیع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ رسول اللہؐ کے بعد آنے والے خلفاء نے بیت المال کے ادارہ کو مزید منظم کیا اور ضرورت کے مطابق اس میں متعدد قسم کے امور کا اضافہ کیا۔

خلفاء راشدین کے دور کے متولی

[ترمیم]

تاریخ اسلام میں بالعموم جب لفظِ خلفاء راشدین استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد رسول اللہؐ کے بعد پہلے چار خلفاء اور ان کی حکومت ہے۔ اہل سنت کے نزدیک امام حسن مجتبیؑ کو بھی خلیفہِ راشد شمار کیا جاتا ہے لیکن مختصر مدت حکومت ہونے کی وجہ سے انہیں امام علیؑ کے ساتھ پیوست کر دیا جاتا ہے۔ اگر ہم احادیث مبارکہ کی روشنی میں خلفاء راشدین کی اصطلاح کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا ان کلمات کا حقیقی مصداق بارہ آئمہ اطہار علیہم السلام ہیں جنہیں اللہ تعالی نے انسانی معاشروں پر حاکم بنایا اور لوگوں کی ہدایت کے لیے امامت کے عہدہ پر فائز کیا۔ شیعہ و سنی کتب میں کوئی ایسی صحیح السند روایت موجود نہیں ہے جس میں خلیفہِ راشد کہہ کر پہلے چار خلفاء کے نام لیے گئے ہوں۔ چنانچہ حق یہ ہے کہ یہی بارہ آئمہ معصومینؑ حقیقت میں خلفاء راشدین ہیں اور یہی رسول اللہؐ کے برحق جانشین ہیں۔ ان سطور میں ہم تاریخی اور سیاسی کتب کے مطابق رسول اللہؐ کے بعد آنے والے خلفاء پر اس اصطلاح کا اطلاق کر رہے ہیں۔

← بیت المال کا متولی


بیت المال کے امور جس کے سپرد ہوتے اور وہ تمام امور کی نگرانی کرتے ہوئے خلیفہ کے سامنے جوابدہ ہوتا اس کو اصطلاحی طور پر بیت المال کا متولی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہؐ کے دور میں یہ منصب ایجاد نہیں ہوا تھا کیونکہ آپؐ شخصی طور پر خود بیت المال کی نگرانی اور سرپرستی فرماتے۔ لیکن بعد کے ایام میں بیت المال کو منظم کرنے کے لیے افراد اور مختلف منصبوں کی ضرورت پیش آئی۔ اس ضرورت کے پیش نظر بیت المال کے نگران کا منصب ایجاد ہوا جسے متولی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا شخص جو بیت المال کا متولی قرار پایا وہ ابو عبیدہ بن جراح ہے۔

←← حضرت ابوبکر


تاریخی اعداد و شمار کے مطابق حضرت ابو بکر کے دور میں متعدد صحابہ بیت المال کے متولی رہے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ ابو عبیده جراح
۲۔ عبد الله بن ارقم بن ابی الارقم مخزومی
۳۔ [[مُعَيْقِيبُ بن ابی فاطمہ دَوۡسِی]]

←← حضرت عمر بن خطاب


عمر بن خطاب کے دور میں درج ذیل افراد بیت المال کے متولی بنے:
۱۔ عبد الله بن ارقم مخزومی، آپ کو خلیفہ اول نے بیت المال کا متولی بنایا تھا جس کے بعد خلیفہ دوم نے اس منصب پر باقی رکھا۔
۲۔ معیقیب بن ابی فاطمہ،
[۱۰] ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، تاریخ عمر بن الخطاب، ج۱، ص۱۲۷، دمشق ۱۹۸۷۔

۳۔ زید بن ارقم

←← حضرت عثمان


عثمان بن عفان کے دور میں بیت المال کے متولی حضرات درج ذیل تھے:
۱۔ عبد الله بن ارقم،
۲۔ معیقیب بن ابی فاطمه، عقبة بن عمرو
[۱۶] محمدبن جریر طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الامم و الملوک، ج۴، ص۴۲۲، چاپ محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت (۱۳۸۲ـ۱۳۸۷/ ۱۹۶۲ـ۱۹۶۷).

۳۔ عُقْبة بن عامر

←← امیر المؤمنین علیؑ


امام علی بن ابی طالبؑ کے عہدِ حکومت میں بیت المال کی تولیت جن کے ہاتھوں میں رہی وہ بزرگ شخصیت عبید الله بن ابی رافع ہیں۔ خلیفہ دفتروں کے افسران پر خود نظارت کا وظیفہ انجام دیتا تھا۔ خلیفہ کے بعد اس امر کو اس کا وزیر انجام دیتا اور اس طرح افسران کی نظارت کی ذمہ داری وزیروں پر عائد ہوتی۔ بلکہ بعض موارد میں پورے بیت المال کا سرپرست وزیر قرار پاتا تھا۔

عباسی دور حکومت میں بیت المال کے مختلف منصب

[ترمیم]

عباسیوں کے دورِ حکومت میں بیت المال کے ادارہ کا نظام مکمل طور پر ایک جدا صورت اختیار کر گیا اور اس ادارہ کے اندر مختلف قسم کے منصب ایجاد کر دیئے گئے۔ بیت المال کے نظام میں مختلف جہات سے جو تغیر و تبدل لایا گیا ان میں سے اہم جوانب درج ذیل ہیں:

← صاحبِ بیت المال


بیت المال کے تمام اخراجات اور درآمدات وغیرہ کی نگرانی کی ذمہ داری صاحب کی ہوتی۔ صاحب ان تمام مصارف کو خصوصی اسناد میں ثبت کرتا اور اس کی مہر اہمیت کی حامل سمجھی جاتی تھی جس کی وجہ سے بیت المال کی اسناد کو اعتبار حاصل ہوتا تھا۔ پس صاحبِ بیت المال کی ذمہ داری تمام بیت المال کے مصارف و اخراجات کو دیکھنا اور اس کے دفتری امور کی انجام دہی کی نگرانی ہوتی۔

← مباشرِ بیت المال


مباشرِ بیت المال کا وظیفہ بیت المال کے تمام اخراجات کو ضبط کرنا اور ہر کام کی سند و کاغذی کاروائی کو منظم مرتب کرنا ہوتی۔ بیت المال میں مختلف قسم کی رسیدیں، درخواستیں اور مختلف چیزوں یا افراد کی تقرری وغیرہ کو ضبط و ثبت کرنا مباشر کا وظیفہ قرار پاتی۔

← ناظر


بیت المال کے حساب کتاب کے وقت دقت کرنا اور اس کی اسناد کی تحقیق کرنا ناظر کا کام ہوتا۔ ناظر کے عنوان کے مترادف مشارف کا عنوان بھی ہے۔

← دفتر کا متولی


بیت المال کے تمام معاملات کی نظارت متولی کی ذمہ داری ہوتی۔ متولی ہی بیت المال سے امانت یا ادائیگی یا اموال کی ضمانت وغیرہ کے معاملات کو انجام دیتا۔ آہستہ آہستہ متولی کا عنوان صاحبِ ادارہ یا صاحبِ دفتر کے عنان سے مشہور ہونے لگا۔

← مستوفی


بیت المال کے عمومی مصالح کی رعایت اور مالی امور کی سیاست و تدبیر کو منظم کرنے کی ذمہ داری مستوفی کی ہوتی۔ یہ منصب انتہائی اہمیت کا حامل شمار ہوتا تھا۔

← معین


مستوفی کے وظائف میں اس کا معاون و مددگار مُعین کہلاتا۔

← ناسخ


ناسخ کا کام مختلف خطوط کا بھیجنا اور لکھی گئی رسیدوں کو جمع کرنا ہوتا۔ ناسخ اس اعتبار سے اہمیت رکھتا تھا کہ بیت المال کی کاغذی کاروائی کا ایک گہرا تعلق ناسخ سے ہوتا، چنانچہ کسی قسم کے مسئلہ یا کرپشن یا خطوط و رسید میں کسی قسم کی تبدیلی وغیرہ کی صورت میں اس سے پوچھ گوچھ کی جاتی۔

← عامل


آغاز میں بیت المال کے امیر اور متولی کو عامل کہا جاتا تھا۔ بعد کے ایام میں عامل کا اطلاق اس شخص پر ہوتا جس کی ذمہ داری بیت المال کا تمام حساب کتاب کرنا ہوتا تھا۔

← کاتب


کاتب منصبِ عامل کا قائم مقام ہوتا۔

← جِہبِذ


منشی کو اصطلاح مین جہبذ کہا جاتا تھا۔ اس کی ذمہ داری مال کو وصول کرنا، رسید دینا اور اس کی کاغذی کاروائی کرنا ہوتی۔

← شاہد


بیت المال کے امور میں جو بھی مشاہدہ کیا جاتا اس کی ثبت کرنا شاہد کی ذمہ داری ہوتی تھی۔
[۲۱] آدام متز، الحضارة الاسلامیۃ فی القرن الرابع الہجری، ج۱، ص۱۳۱ـ۱۳۲، نقلہ الی العربیۃ محمد عبد الہادی ابو ریده، قاہرۃ، ۱۳۷۷/ ۱۹۵۷۔
[۲۲] ابن مماتی، اسعد بن مہذب، کتاب قوانین الدّواوین، ج۱، ص۳۰۱ـ۳۰۵، چاپ عزیز سوریال عطیہ، قاہرۃ، ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔
بیت المال سے تعلق رکھنے والے یہ عناوین اور منصبوں کے القاب عباسی دورِ خلافت کے اختتام تک باقی رہے اور ان میں سے بعض ایسے عناوین ہیں جو بعد میں آنے والی حکومتوں نے اختیار کیے اور دفتری امور میں قائم دائم رہے۔

کام کرنے والا عملہ

[ترمیم]

عرب دنیا میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رسول اللہؐ نے رکھی۔ آپؐ کے بعد امام علیؐ کی حکومت خالصتًا الہی اصولوں پر کاربند ہوئی۔ چنانچہ حکومتِ اسلامی میں انتہائی قلیل ایسے کارمند و کارندے تھے جو غیر مسلم ہوا کرتے۔ حتی خلفاء راشدین کے دور میں بھی حکومت کے تمام کارندے اور عملہ مسلمان ہوا کرتا۔ چنانچہ عالم اسلام میں حکومتی نظام غیر مسلموں کے طور طریقوں اور قیصر و کسری کی آمیزش سے پاک تھا اور تعلیمات اسلامی کی جھلک کسی نہ کسی طور پر عالم اسلام میں دکھائی دیتی تھی جوکہ بعد کے ایام میں کاملا ختم ہو گئی۔

خلفاء راشدین کے بعد قیصر و کسری کے طور طریقے اسلامی معاشرہ میں داخل ہو گئے اور اس طرح بعد میں آنے والی اموی و عباسی حکومتوں نے اسلام کو خیر باد کہہ کر بادشاہت کو اختیار کر لیا۔ عرب حکومتوں کو چونکہ دفتری طور طریقوں سے وافقیت حاصل نہیں تھی اس لیے اموی عباسی حکومتوں نے اکثر عملہ اور کارمند ایرانی و رومی رکھے۔ اموی خلافت نے دفتری لکھت پڑت کے طور طریقے اور کاغذی حساب کتاب ایرانیوں سے سیکھا۔ حکومتی اداروں میں بالخصوص بیت المال کے ادارہ میں کام کرنے والا اکثر عملہ ایرانی ہوتا تھا اور شام کے علاقوں کی فتوحات کے بعد رومی بھی حکومتی عملہ میں شامل ہو گئے۔ ایران چونکہ خلیفہ دوم کے دور میں ہی آزاد ہو گیا تھا اس لیے عالم اسلام میں ایرانیوں کا عمل دخل بقیہ اقوام کی نسبت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ خصوصا اموی حکومت تک پہنچتے پہنچتے ایرانی اسلامی ریاست میں اپنا مقام بنانے میں بڑے پیمانے پر کامیاب ہو گئے تھے۔ چنانچہ دفتری اور خط و کتابت کی زبان فارسی ہوا کرتی۔ شام کی فتوحات کے بعد شامی علاقوں کے نظم و نسق کو سنبھالنے کے لیے دفتری زبان رومی اختیار کی گئی اور اس طرح اموی حکومت میں عربی کی بجائے فارسی اور یونانی زبان دفتری زبان قرار پائی۔ عالم اسلام میں پہلی مرتبہ ۸۱ ھ میں عبد الملک بن مروان کے عہدِ حکومت میں دفتری زبان عربی کر دی گئی اور اس طرح اکیاسی (۸۱) ہجری کے حکومت کے تمام دفتری امور اور خط و کتابت عربی زبان میں کی جانے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ معاویۃ بن ابی سفیان پہلا بادشاہ تھا جس نے ایک عیسائی کو بیت المال میں بطور کاتب رکھا۔ یہی روش بقیہ اموی بادشاہوں نے اختیار یہاں تک کہ عباسی حکومت آ گئی اور منصور عباسی نے مالی امور سے تمام غیر مسلموں کو خارج کر دیا اور ان کا داخلہ مالی امور میں ممنوع قرار دے دیا۔ اس کے بعد مہدی عباسی اور ہارون الرشید نے اسی روش کو قائم دائم رکھا اور بیت المال کے امور سے غیر مسلموں کو بے دخل کر دیا۔ لیکن یہ حکومتی دستورات تبدیل ہوتے رہتے تثے اور کبھی کسی حکم کو جاری کر دیا جاتا اور کبھی کسی دستور کو لغو قرار دے دیا جاتا۔ چنانچہ عباسی حکومت میں بھی بیت المال سے مربوط امور میں غیر مسلم کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہے۔
[۲۷] قدامۃ بن جعفر، صلۃ تاریخ الطبری، ج۱، ص۱۲۵، لیدن ۱۸۹۷۔


بیت المال کی سرپرستی کے مختلف طریقے

[ترمیم]

مختلف حکومتوں میں بیت المال کی نگرانی اور اس کے اہتمام کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔ بعض اوقات بیت المال حکومت کے سربراہ یا امیر و خلیفہ کے براہ راست ماتحت ہوتا اور بعض اوقات خلیفہ کے ہمراہ ایک خصوصی مسئول قرار دیا جاتا جسے خلیفہ نامزد کرتا اور خلیفہ یا امیر اس خصوصی شخص کے سپرد بیت المال کی نگرانی اور انتظام و انصرام کر دیتا۔ ابتداء اسلام میں بھی ہمیں اس طرح کے متعدد نمونے مل جاتے ہیں، مثلا رسول اللہؐ بیت المال کا تمام اہتمام خود سبنھالا کرتے اور چند افراد کے ذریعے اس کی نگرانی و حساب کتاب رکھتے۔ جب حدودِ اسلامی میں اضافہ ہو گیا اور اموال کی کثرت بیت المال میں آئی تو اس کے لیے وسعت کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ خلیفہ دوم کے دور میں بیت المال کی تولیت اور مسئوولیت جدا فرد کے سپرد کی جاتی جوکہ والی یا خلیفہ کے ہمراہ ہوتا۔ خلیفہ دوم نے جب جناب عمار یاسر کو کوفہ کی ولایت دی اور انہیں وہاں کا امیر بنایا تو اس کے ہمراہ عبد اللہ بن مسعود کو بیت المال کا متولی بنا کر بھیجا۔ بعض اوقات دار الخلافہ سے حکومتی دستورات میں شہروں کے گورنر اور بیت المال کے متولی دونوں کو ایک ہی مکتوب میں مخاطب کیا جاتا۔ ایک حکومت میں مختلف شہروں اور صوبوں پر نامزد حکام اور ان کے حکومتی دفاتر میں بیت المال اور ان کے مسئولین کے دفتر ہمراہ ہوتے۔
[۲۹] آدام متز، الحضارة الاسلامیۃ فی القرن الرابع الہجری، ج۱، ص۱۳۰، نقلہ الی العربیۃ محمد عبد الہادی ابوریده، قاہره ۱۳۷۷/ ۱۹۵۷۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۶۴۔    
۲. عصقری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن الخیاط، ج۱، ص۸۲۔    
۳. سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۶۴۔    
۴. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ فی التاریخ، ج۸، ص۳۴۵۔    
۵. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ فی التاریخ، ج۸، ص۳۵۷۔    
۶. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۴۰۳۔    
۷. ابن عبدربّہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، ج۵، ص۲۶۔    
۸. عصقری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن الخیاط، ج۱، ص۱۱۲۔    
۹. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ فی التاریخ، ج ۸، ص۳۴۵۔    
۱۰. ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، تاریخ عمر بن الخطاب، ج۱، ص۱۲۷، دمشق ۱۹۸۷۔
۱۱. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۴۰۳۔    
۱۲. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ فی التاریخ، ج۸، ص۳۴۵۔    
۱۳. قلقشندی، احمد بن علی، مآثر الإنافۃ فی معالم الخلافۃ، ج۱، ص۸۹۔    
۱۴. ابن عبد ربّہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، ج۵، ص۳۷۔    
۱۵. عصقری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن الخیاط، ج۱، ص۱۳۳۔    
۱۶. محمدبن جریر طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الامم و الملوک، ج۴، ص۴۲۲، چاپ محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت (۱۳۸۲ـ۱۳۸۷/ ۱۹۶۲ـ۱۹۶۷).
۱۷. ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۱۸۷۔    
۱۸. طبری، محمدبن جریر تاریخ الطبری، ج۵، ص۱۵۶۔    
۱۹. نجاشی، احمد بن علی، رجال، ج۱، ص۴۔    
۲۰. قلفشندی، احمد بن علی، صبح الاعشی، ج۵، ص۴۳۸۔    
۲۱. آدام متز، الحضارة الاسلامیۃ فی القرن الرابع الہجری، ج۱، ص۱۳۱ـ۱۳۲، نقلہ الی العربیۃ محمد عبد الہادی ابو ریده، قاہرۃ، ۱۳۷۷/ ۱۹۵۷۔
۲۲. ابن مماتی، اسعد بن مہذب، کتاب قوانین الدّواوین، ج۱، ص۳۰۱ـ۳۰۵، چاپ عزیز سوریال عطیہ، قاہرۃ، ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔
۲۳. نویری، احمد بن عبد الوہاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، ج۸، ص۱۹۹۔    
۲۴. بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، ج۱، ص۱۹۲۔    
۲۵. ماوردی، علی بن محمد، الاحکام السلطانیۃ والولایات الدینیۃ، ج۱، ص۳۴۱، بیروت ۱۴۱۰/۱۹۹۰.    
۲۶. ابن قیم جوزیۃ، محمد بن ابی بکر، احکام اہل الذمّۃ، ج۱، ص۴۶۵۔    
۲۷. قدامۃ بن جعفر، صلۃ تاریخ الطبری، ج۱، ص۱۲۵، لیدن ۱۸۹۷۔
۲۸. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۵۵، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵.    
۲۹. آدام متز، الحضارة الاسلامیۃ فی القرن الرابع الہجری، ج۱، ص۱۳۰، نقلہ الی العربیۃ محمد عبد الہادی ابوریده، قاہره ۱۳۷۷/ ۱۹۵۷۔


مأخذ

[ترمیم]

دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، یہ تحریر مقالہ بیت المال سے ماخوذ ہے، شماره ۲۳۷۸ ۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اسلامی حکومت | اسلامی معاشرہ | اقتصاد




جعبه ابزار