تقلید (اصول)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تقلید کا اطلاق مجتہد کے قول پر عمل کرنے کا عزم رکھنے یا عمل کرنے پر اطلاق ہوتا ہے۔


تعریف

[ترمیم]

تقلید کا لغوی معنی گردن میں زنجیر لٹکانا ہے؛ «هو تعلیق القلادة و نحوها فی العنق» اور اصول کی اصطلاح مین اس کے متعدد معانی بیان کیے گئے ہیں، منجملہ:
۱. دوسرے کے قول پر عمل؛ «العمل بقول الغیر»؛
۲. دوسرے کے فتوے کو حاصل کرنا تاکہ اس پر عمل کر سکے ؛ «الاخذ بفتوی الغیر للعمل به»؛
۳. دوسرے کے فتویٰ پر عمل کا قلبی التزام (عزم و ارادہ) خواہ اس پر عمل نہ کیا ہو یا حتی ابھی اس کا فتویٰ اخذ نہ کیا ہو؛«الالتزام بالعمل بفتوی الغیر و ان لم یعمل بل و ان لم یاخذ...»۔

← آخوند خراسانی کی تعریف


صاحب «کفایه» کہتے ہیں: تقلید کا معنی دوسرے کی رائے اور نظریے کو حاصل کرنا ہے تاکہ اس پر احکام و فروعات میں عمل کر سکے، اس سے تفصیلی دلیل طلب کیے بغیر۔ لہٰذا اگر مکلف کسی مجتہد کا رسالہ عملیہ حاصل کر لے اور اس کے مسائل سیکھ لے اور ضرورت کے وقت اس پر عمل کرے تو اس سے تقلید واقع ہو جاتی ہے۔

← صاحب معالم کی تعریف


صاحب معالم جیسے علما کا خیال ہے کہ تقلید کا معنی دوسرے کے فتویٰ پر عمل کرنا ہے، اس سے تفصیلی دلیل طلب کیے بغیر۔ مگر اس قول پر اشکال ہے کہ تقلید عمل سے پہلے ضروری ہے تاکہ عمل کا اس کی طرف استناد ہو سکے اور اگر تقلید عمل سے ہی واقع ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ عمل کا آغاز تقلید کے بغیر ہے۔

← صاحب «عروة الوثقی» کی تعریف


صاحب «عروة الوثقی» کا خیال ہے کہ تقلید معین مجتہد کے فتویٰ پر عمل کا قلبی التزام ہے، اگرچہ ابھی تک اس پر عمل انجام نہ دیا ہو یا حتی اس کا رسالہ یا فتویٰ آمادہ نہ کیا ہو۔ لہٰذا صرف قلبی عزم و ارادہ تقلید واقع ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔ بعض متاخرین نے کہا ہے کہ تقلید مقام عمل میں مجتہد کے فتویٰ سے استناد کا نام ہے۔

مسئلہ تقلید کا جائزہ

[ترمیم]

جاہل کی جانب سے عالم کی تقلید بدیہی مسائل میں سے ہے؛ کیونکہ عام شخص ایک طرف سے مکلف ہے کہ الہٰی تکالیف انجام دے جنہیں علم اجمالی کہتے ہیں اور دوسری طرف سے ان احکام کا اجتہاد کے تفصیلی منابع سے استخراج اس کیلئے ممکن نہیں ہے؛ اس لیے لازم ہے کہ جو شخص احکام سے آشنا ہو، انہیں مصادر سے استنباط کرنے پر قادر ہو؛ اس کی طرف رجوع کیا جائے اور اپنی شرعی تکالیف پر اس کے مبانی اور فتاویٰ کے مطابق عمل کرے۔

نکتہ

[ترمیم]

بعض قدیم علما ، جیسے حلب کے فقہا عوام پر تقلید کو حرام اور ان کیلئے اجتہاد کو واجب سمجھتے تھے۔
[۶] فاضل لنکرانی، محمد، کفایة الاصول، ج۶، ص (۳۹۰-۳۸۵)۔
[۷] خضری، محمد، اصول الفقه، ص (۴۳۶-۴۳۵)۔
[۸] اسنوی، عبد الرحیم بن حسن، التمهید فی تخریج الفروع علی الاصول، ص۵۲۴۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. علامه حلی، حسن بن یوسف، مبادی الوصول الی علم الاصول، ص۲۴۶۔    
۲. آخوند خراسانی، محمد کاظم بن حسین، کفایة الاصول، ص۴۷۲۔    
۳. صاحب معالم، حسن بن زین الدین، معالم الدین و ملاذ المجتهدین، ص۲۴۲ ۔    
۴. محقق حلی، جعفر بن حسن، معارج الاصول، ص۱۹۷۔    
۵. اصفهانی، محمد حسین، الفصول الغرویة فی الاصول الفقهیة، ص۴۱۰۔    
۶. فاضل لنکرانی، محمد، کفایة الاصول، ج۶، ص (۳۹۰-۳۸۵)۔
۷. خضری، محمد، اصول الفقه، ص (۴۳۶-۴۳۵)۔
۸. اسنوی، عبد الرحیم بن حسن، التمهید فی تخریج الفروع علی الاصول، ص۵۲۴۔
۹. خمینی، روح الله، تهذیب الاصول، ج۲، ص۵۰۸۔    
۱۰. مکارم شیرازی، ناصر، انوار الاصول، ج۳، ص۶۵۹۔    


ماخذ

[ترمیم]

فرهنگ‌نامه اصول فقه، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۳۴۷، ماخوذ از مقالہ «تقلید»۔    



جعبه ابزار