حدیث غدیر علماء اہل سنت کی نظر میں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



شیعہ و سنی کتب احادیث میں حدیث غدیر تواتر معنوی کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ امام علیؑ کی امامت و خلافت پر بہترین شاہد اور محکم دلیل یہی حدیث متواتر ہے۔ لیکن عالم اسلام میں بعض لوگوں نے امام علیؑ کی امامت کو چھپانے اور اس کو فراموش کرنے کے لیے اس قدر شبہات ایجاد کیے کہ لوگوں کے ذہنوں میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات جنم لینے لگ گئے۔ یہاں تک کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ حدیث بعد کے زمانے میں ایجاد کی گئی ہے اور اہل سنت کسی محدث یا بزرگ عالم دین نے اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ کثیر صحابہ کرام اور ان کے سلسلہِ سند سے نقل کی جانے والی روایت کو اکابر شیوخ و بزرگان اہل سنت نے اپنی کتب میں تحریر کیا ہے۔ ذیل میں ہم چند برجستہ اہل سنت محدثین کے انظار و اقوال کو نقل کر رہے ہیں تاکہ حدیث غدیر کی جو اہمیت محدثینِ اہل سنت کی نظر میں ہے وہ آشکار ہو جائے۔


ترمذی کی نظر میں

[ترمیم]

ترمذی متوفی ۲۷۹ ھ جوکہ اہل سنت کی معتبر ترین مجموعہِ حدیث صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے ایک ہیں، حدیثِ غدیر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: هذا حَدِیثٌ حَسَنٌ صحیح؛ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ البتہ ابن تیمیہ نے علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے مذکورہ قول میں سے فقط حسن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترمذی نے حدیث غدیر کو حسن قرار دیا ہے جبکہ ابن تیمیہ کو لکھنا چاہیے تھا کہ ترمذی کے نزدیک یہ صحیح حسن ہے۔

طحاوی کی نظر میں

[ترمیم]

ابو جعفر طحاوی متوفی ۳۲۱ ھ جوکہ امام طحاوی کے نام سے معروف ہیں اور ان کی کتاب اہل سنت کے تمام فرقوں حتی وہابیوں کے نزدیک بھی درسی کتاب شمار ہوتی ہے حدیثِ غدیر کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح السند ہے جس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

ابن عبد البر کی نظر میں

[ترمیم]

ابن عبد البر متوفی۴۶۳ ھ جوکہ قرطبہ اندلس سے تعلق رکھتے ہیں نے حدیثِ غدیر نقل کرنے کے بعد تحریر کیا کہے: وهذه کلها آثار ثابتة؛ (غدیر سے متعلق) یہ تمام روایات وہ آثار ہیں جو ثابت ہیں۔

حاکم نیشاپوری کی نظر میں

[ترمیم]

چوتھی صدی ہجری کے اختتام سے تعلق رکھنے والے معروف محدث حاکم نیشاپوری متوفی ۴۰۵ ھ نے حدیثِ غدیر کی متعدد اسناد ذکر کی ہیں جنہیں نقل کرنے کے بعد اس کو روایت صحیح قرار دیا ہے۔

ابن کثیر اور ذہبی کی نظر میں

[ترمیم]

آٹھویں صدی ہجری سے تعلق رکھنے والے معروف مؤرخ و مفسر ابن کثیر متوفی ۷۷۴ ھ نے نقل کیا ہیں: قال شیخنا ابو عبد الله الذهبی و هذا حدیث صحیح؛ ہمارے شیخ ابو عبد اللہ ذہبی کہتے ہیں: یہ (حدیث غدیر) صحیح ہے۔ ابن کثیر مزید لکھتے ہیں: قال شیخنا ابو عبد الله الذهبی الحدیث متواتر اتیقن ان رسول الله قالہ؛ ہمارے استاد ابو عبد اللہ ذہبی نے (حدیث غدیر) کو حدیثِ متواتر کہا ہے، میں پورے وثوق و یقین سے کہتا ہوں کہ رسول اللہؑ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہے۔

ابن حجر عسقلانی کی نظر میں

[ترمیم]

ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ ھ حدیث غدیر کی اسناد اور طرق کے بارے میں لکھتے ہیں: کثیر من أسانیدها صحاح وحسان؛ (حدیث غدیر) کی جتنی اسانید وارد ہوئی ہیں میں میں کثیر اسانید صحیح اور حسن درجے کی ہیں۔

مقبلی کی نظر میں

[ترمیم]

ضیاء الدین مقبلی متوفی ۱۱۰۸ ھ اہل سنت کے معروف بزرگ علماء و مشایخ میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے علومِ قرآن اور علومِ حدیث میں بلند پایہ تألیفات تحریر کیں جو تمام کی تمام قابل قبول ہیں۔ اہل سنت ضیاء الدین مقبلی کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور انہیں انتہائی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں محمد بن علی شوکانی متوفی ۱۲۵۰ ھ لکھتے ہیں: وهو ممن برع فی جمیع علوم الکتاب و السنۃ ... وفاق فی جمیع ذلک وله مؤلفات مقبولۃ کلها عند العلماء؛ مقبلی کا شمار ان علماء میں ہوتا ہے کتاب و سنت کے تمام علوم میں مہارت رکھتے ہیں ... اور ان تمام علوم میں غیر معمولی دسترس کے حامل ہیں، ان کی تمام تألیفات علماء کی نظر میں قابل قبول ہیں۔ حدیث غدیر کے بارے ضیاء الدین مقبلی اپنے خاص انداز میں اظہار نظر کیا ہے جس سے حدیث غدیر کی سندی حیثیت معلوم ہو جاتی ہے، آپ تحریر کرتے ہیں: فإن لم یکن هذا معلوما فما فی الدین معلوم؛ اگر یہ (حدیث غدیر) غیر معلوم اور غیر یقینی ہے تو بھر دین میں کوئی بھی شیء معلوم نہیں ہے۔
[۹] مقبلی، ضیاء الدین، ابحاث مسددة، ص۱۲۲۔
مقبلی درحقیقت یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک ایسی حدیث جسے صحابہ میں سے ۱۳۰ اصحاب نے مختلف اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے اور بعض محققین کے مطابق اس حدیث کی ۲۵۰ اسانید ہیں کو اگر ردّ کیا جا سکتا ہے اور اس کو قبول کرنا مشکل ہے تو پھر دین اسلام میں کون سی ایسی قطعی روایت ہو گی جو قابل عمل ہو !!

بدخشانی کی نظر میں

[ترمیم]

محمد بدخشانی متوفی ۱۱۲۶ھ لکھتے ہیں: وهذا حدیث صحیح مشهور، ولم یتکلم فی صحتہ الا متعصب جاحد؛ یہ (حدیث غدیر) حدیثِ صحیح مشہور ہے، اس کی صحت میں جس سوائے متعصب و ہٹ دھرم کے کسی نے کلام نہیں کیا ہے۔
[۱۰] بدخشانی، محمد بن معتمد، نزل الابرار بما صح فی مناقب اہل البیت الاطہار، ص۲۱۔
اس کے بعد بدخشی لکھتے ہیں: لا اعتبار بقولہ؛ ایسے ہٹ دھرم و متعصب و متشدد کے کسی قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

آلوسی کی نظرمیں

[ترمیم]

آلوسی توفی ۱۲۷۰ ھ اپنی معروف تفسیر روح المعانی میں رقمطراز ہیں: نعم ثبت عندنا انه (صلی الله تعالی علیه وسلم) قال فی حق الامیر کرم الله تعالی وجهه هناک: من کنت مولاه فعلی مولاه؛ ہمارے نزدیک ثابت ہے کہ رسول خداؐ نے حضرت علیؑ کے حق میں فرمایا تھا جس جس کا میں مولا ہوں اس کا علیؑ بھی مولا ہے۔

ابو حامد غزالی کی نظر میں

[ترمیم]

ابو حامد غزالی متوفی ۵۰۵ ھ جوکہ امام غزالی کے نام سے معروف ہیں، تحریر کرتے ہیں: وأجمع الجماهیر علی متن الحدیث من خطبته فی یوم غدیر خم باتفاق الجمیع؛ جمہورِ اہل سنت کا حدیث غدیر کے متن پر اتفاق ہے، وہ سب اس پر بھی متفق ہیں کہ یہ حدیث (غدیر) رسول اللہؐ کے اس خطبہ کا حصہ ہے جو آپؐ نے غدیرِ خم کے مقام پر ارشاد فرمایا تھا۔
[۱۲] غزالی، محمد بن محمد، سر العالمین، ص۹۔


سمنانی اور جزری کی نظر میں

[ترمیم]

ابو المکارم علاء الدین سمنانی رقمطراز ہیں: هذا حدیث متفق علی صحتہ؛ اس حدیث کے صحیح ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ اسی طرح جزری متوفی۸۳۳ ھ کا کہنا ہے کہ یہ روایت متواتر ہے جسے روایوں کی ایک بڑی تعداد نے نقل کیا ہے۔ جو لوگ اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ در حقیقت (علم حدیث) سے ناآشنائی اور لا علم ہیں۔ ۔

مناوی، ملا علی قاری اور عجلونی کی نظر

[ترمیم]

مناوی متوفی ۱۰۳۱ ھ نقل کرتے ہیں کہ حدیث غدیر متواتر ہے۔ ملاّ علی قاری متوفی ۱۰۱۴ ھ رقمطراز ہیں کہ اس حدیث کے متواتر ہونے میں کوئی شک نہیں اور صحابہ میں سے ۳۰ افراد نے اس حدیث کی صحت کی گواہی اس وقت دی تھی جب خلافت علیؑ کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ۔ عجلونی متوفی ۹۶۲ ھ لکھتے ہیں: فالحدیث متواتر او مشهور؛ یہ حدیث متواتر ہے یا (کم از کم) مشہور ہے۔

البانی کی نظر میں

[ترمیم]

ناصر الدین البانی جنہیں عصر حاضر کا بخاری کہا جاتا ہے لکھتے ہیں: حدیث الترجمہ حدیث صحیح بشطریه، بل الاول منه متواتر عنه (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) کما ظهر لمن تتبع اسانیده و طرقه؛ مورد نظر حدیث اپنے دونوں جملوں من کنت مولاه فعلی مولاه اور اللهم وال من والاه و عاد من عاداه کے لحاظ سے صحیح ہے؛ بلکہ اس حدیث کا پہلا حصہ متواتر ہے جیساکہ اس کی اسناد اور طرق سے واضح ہوتا ہے۔

شعیب ارنؤوط کی نظر میں

[ترمیم]

اہل سنت کے مشہور محقق شعیب ارنؤوط لکھتے ہیں: حدیث غدیر کے شواہد اتنے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے یہ حدِ تواتر تک پہنچ جاتے ہیں۔ علامہ امینی اور آیت اللہ میلانی نے نفحات الازہار میں اہل سنت کے ۶۳ بزرگ علماء کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے حدیث غدیر کے صحیح ہونے کی شہادت و گواہی دی ہے اور اس کو متواتر قرار دیا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت بزرگ محدثین میں سے قدماء نے حدیث غدیر کو صحیح اور معتبر قرار دیا ہے اور متأخرین محدثین خصوصا معاصر علماء نے اس کو متواترِ معنوی قرار دیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، ج۵، ص۶۳۳۔    
۲. ابن تیمیہ، احمد بن عبد الحلیم، منہاج السنۃ النبویۃ، ج۷، ص۳۲۰۔    
۳. طحاوی، احمد بن محمد، شرح مشکل الاثار، ج۵، ص۱۸۔    
۴. ابن‌ عبد البر، یوسف‌ بن‌ عبد الله، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۰۰۔    
۵. ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج۵، ص۲۲۸-۲۲۹۔    
۶. ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج۵، ص۲۳۳۔    
۷. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، ج۷، ص۷۴۔    
۸. شوکانی، محمد بن علی البدر الطالع، ج۱، ص۲۸۸۔    
۹. مقبلی، ضیاء الدین، ابحاث مسددة، ص۱۲۲۔
۱۰. بدخشانی، محمد بن معتمد، نزل الابرار بما صح فی مناقب اہل البیت الاطہار، ص۲۱۔
۱۱. آلوسی، سید محمود، روح المعانی، ج۶، ص۶۱۔    
۱۲. غزالی، محمد بن محمد، سر العالمین، ص۹۔
۱۳. امینی، عبد الحسین، الغدیر، ج۱، ص۳۱۵۔    
۱۴. مناوی، عبد الرؤوف، فیض القدیر، ج۶، ص۲۱۷.    
۱۵. عجلونی جراحی، اسماعیل بن محمد، کشف الخفاء، ج۲، ص۳۶۱۔    
۱۶. البانی، ناصر الدین، سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ و شیء من فقہہا وفوائدہا، ج۴، ص۳۴۳۔    


مأخذ

[ترمیم]

مؤسسہ تحقیقاتی حضرت ولی‌عصر (عجل‌ الله‌ تعالی‌فرجہ الشریف)، یہ مقالہ آیا علماء اہل سنت میں سے کسی نے حدیث غدیر کی صحت کا اعتراف کیا ہے؟ سے مأخوذ ہے۔    






جعبه ابزار