حدیثِ عامی روایتِ عامی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حديثِ عامى وہ ہے جسے مخالفين كے طريق و سند سے نقل كيا گيا ہو۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

حدیثِ عامی سے مراد عقائد و افکار میں اختلاف رکھنے والوں کی نقل کردہ حدیث ہے۔ عموما اس کا اطلاق اہل سنت پر کیا جاتا ہے۔ اہل سنت کو عامی یا عامہ کہنے کی وجہ عالم اسلام میں ان کی عمومی تعداد کا کثیر ہونا ہے۔ نیز اصطلاحی علوم میں خاصہ کے مقابلے میں عامہ کو قرار دیا گیا۔ جو مکتب اہل بیتؑ کا حامل ہے اس کو خاصہ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو ان کے مدمقابل اہل سنت مکتب سے تعلق رکھتا ہے اس کو عامہ یا عامی کہا جاتا ہے۔
حدیثِ عامی یا روایتِ عامہ کا اطلاق درج ذیل احادیث پر ہوتا ہے:
۱۔ اہل سنت کتب میں وارد ہونے والی حدیث
۲۔ اہل سنت محدثین کی نقل کردہ حدیث
۳۔ حدیث کا ایسے راویوں پر مشتمل ہونا جو مکتب اہل سنت یا اہل بیت ؑ کے مخالف مکتب سے تعلق رکھتے ہیں

حدیث عامی کا حکم

[ترمیم]

مکتبِ اہل بیتؑ سے تعلق رکھنے والے اکثر و بیشتر علماء و فقہاء و محدثین کے نزدیک چند شرائط کے ساتھ حدیثِ عامی قبول ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
۱۔ اہل سنت طرق سے جو روایت آئی ہے وہ مکتبِ اہل بیتؑ سے ٹکراتی نہ ہو۔
۲۔ اہل سنت طرق سے آنے والی حدیث مکتبِ اہل بیتؑ سے موافق ہو۔
۳۔ حدیث کی سند میں موجود اہل سنت رواۃ جس حدیث کو بیان کریں وہ نہ مکتبِ اہل بیتؑ کے موافق ہو اور نہ مخالف۔
مکتب تشیع کی ایک بڑی تعداد ان شرائط کی مانند دیگر جوانب کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل سنت راویوں سے احادیث کو نقل کرتے رہے اور ان احادیث پر عمل پیرا ہوئے۔ بعض اہل سنت راوی جیسے حفص بن غیاث، غیاث بن کلوب، نوح بن درّاج، سکونی وغیرہ نے آئمہ اہل بیتؑ سے کثیر تعداد میں روایات نقل کی ہیں جن پر فقہاء و علماءِ تشیع عمل پیرا ہوتے رہے ہیں۔
اسی طرح علم رجال اور علم اصول میں وثاقتِ راوی سے بحث کرتے ہوئے وثاقت کا معنی بیان کیا جاتا ہے تو وہاں ذکر کیا جاتا ہے کہ وثاقت سے مراد راوی کا قابل اعتماد ہونا ہے اگرچے وہ مخالفِ مذہبِ اہل بیتؑ ہو۔ اس اعتبار سے اہل سنت روایات جو مکتب اہل بیتؑ کے موافق ہیں یا ان سے نہیں ٹکراتی یا کسی اور صورت میں تائید کرتی ہیں علم حدیث و اصول کے ضابطوں کے تحت قابل قبول ہیں۔ نیز توجہ رہے کہ وثاقت کے معنی میں علماء رجال و اصول میں اختلاف واقع ہوا ہے جیساکہ کلباسی نے اپنے رسائل رجالیہ میں ذکر کیا ہے کہ متعدد علماء نے وثاقت کو عدالت کے مترادف قرار دیا ہے۔ اس صورت میں بلا شک و شبہ وثاقت کا لفظ مخالفِ مکتبِ اہل بیتؑ کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ نیز اہل سنت کے نزدیک بھی وثاقت کا معنی عدالت کے مترادف ہے۔ لیکن متأخر علماءِ تشیع نے جس رائے کو تحقیقی طور پر اختیار کیا وہ وثاقت و ثقہ کا اعم ہونا ہے جو شیعہ و اہل سنت ہر دو کو شامل ہے بشرطیکہ اعتماد کی شرائط ان میں پائی جائیں۔
[۶] گرجی، ابو القاسم، ادوار اصول الفقہ، ص ۱۳۷، ناشر: ميزان، طہران، اولی، ۱۴۲۷ھ۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طوسی، محمد بن حسن، العدۃ فی اصول الفقہ، ج ۱، ص ۱۴۹۔    
۲. عبد المطلب، رفعت بن فوزی، توثیق السنۃ فی القرن الثانی الھجری اسسہ واتجاہتہ، ص ۲۱۔    
۳. صنقور، محمد، المجعم الاصولی، ج ۲، ص ۹۱۔    
۴. کلباسی، محمد بن محمد بن ابراہیم، الرسائل الرجالیۃ، ج ۱، ص ۶۲، ناشر:مؤسسہ دار الحدیث، قم۔    
۵. تنکابنی، سید محمد، ایضاح الفرائد، ج ۲، ص ۹۴۹۔    
۶. گرجی، ابو القاسم، ادوار اصول الفقہ، ص ۱۳۷، ناشر: ميزان، طہران، اولی، ۱۴۲۷ھ۔


ماخذ

[ترمیم]
یہ مقالہ ویکی فقہ اردو محققین کی جانب سے تالیف کیا گیا ہے۔
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام ج۴، ص۱۵۳۔    






جعبه ابزار