حضرت ابودجانہ انصاریؒ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اَبودُجانه، سماک بن (اوس بن) خَرَشَه بن لَوذَان (متوفی ۱۲ہجری/ ۶۳۳ ء)،
پیغمبرؐ کے صحابی ہیں۔
[ترمیم]
ابو دجانہ کی قبل از اسلام زندگی کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
[ترمیم]
سیرت نگاروں نے ان کا سلسلہ
نسب اس طرح لکھا ہے: سماک بن حرشہ بن لوزان بن عبدود بن ثعلبہ بن خزرج۔ اس طرح ان کا نسب
کعب بن خزرج تک پہنچتا ہے۔ وہ
قبیلہ خزرج کی شاخ
بنی ساعدہ سے ہیں۔
یہ قبیلہ
یثرب کے بازار کے مشرقی علاقے میں
شام کے راستے پر اور بئر
بضاعہ کے کنارے رہتا تھا۔
[ترمیم]
آپ رسول اللہ کے
مدینہ میں ورود کے وقت ان کا استقبال کرنے والوں میں سے تھے اور مدینہ کے پہلے مسلمانوں میں شامل تھے کہ جنہوں نے
بنی ساعدہ کے بت توڑنے میں حصہ لیا۔
پیغمبرؐ کی مدینہ آمد کے وقت انہوں نے درخواست کی کہ وہ ان کے گھر قیام پذیر ہوں۔
عقد اخوت میں پیغمبرؐ نے انہیں
عتبۃ بن غزوان کا بھائی بنا دیا کہ جن کا تعلق
قبیلہ مازن سے تھا۔
[ترمیم]
رسول خداؐ کے صحابہ نمایاں
اخلاقی فضائل کے حامل تھے۔ ابودجانہ بھی نیک اخلاقی خصوصیات کے حامل تھے اور مسلمانوں کیلئے ایک مثالی شخصیت سمجھے جاتے تھے۔ ان کی نمایاں ترین خصوصیت، اعتماد بہ نفس اور اپنے عمل و کردار کی درستگی پر اطمینان تھا۔
کہتے ہیں کہ ایک دن ابو دجانہ سخت
بیمار ہو گئے۔
اصحاب ان کی صحت کے حوالے سے پریشانی کی وجہ سے ان کی عیادت کو گئے۔ مگر خلاف توقع انہیں بہت خوش اور ہشاش بشاش پایا۔ انہیں اس پر حیرانگی ہوئی۔ جب انہوں نے اس خوشی کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے، جہاں تک ہو سکا، میں نے اپنے اعمال و کردار کا مراقب رہا۔ اب میری نگاہ میں میرے دو عمل تمام اعمال سے بہتر ہیں: ایک یہ کہ جو میرے ساتھ مربوط نہیں تھا، اس کے بارے میں خاموش رہا اور دوم یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ ہر قسم کے برے سلوک سے اجتناب کرتا تھا اور یہ کوشش کرتا تھا کہ ہمیشہ انہیں خیر پہنچاؤں اور میری طرف سے انہیں بدی اور نقصان نہ پہنچے۔
ابودجانہ کے دوران بیماری یہ الفاظ ان کی نمایاں اخلاقی صفات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
[ترمیم]
وہ ایک شجاع مجاہد تھے اور دو تلواروں کے ساتھ جنگ میں حصہ لیتے تھے۔ اس لیے انہیں «ذوالسیفین» کہا جاتا تھا۔
اسی طرح ’’مشھرہ‘‘ نامی زرہ پہننے کی وجہ سے انہیں ’’ذوالمشهره‘‘ بھی کہتے تھے ۔
[ترمیم]
ابودجانہ کی نمایاں خصوصیت رسول خداؐ کے زمانے میں ہونے والی اکثر جنگوں میں شرکت تھی۔
بدر و
احد میں آپ کی شجاعت کی تفصیلات
سیرت و تاریخ کی زیادہ تر کتابوں میں مذکور ہے۔
ابودجانہ نے پیغمبرؐ کے زمانے میں لڑی جانے والی زیادہ تر جنگوں میں شرکت کی۔
آپ نے ہجرت کے تیسرے سال ہونے والی جنگ احد میں بھی شرکت کی۔
جنگ احد میں پیغمبرؐ نے انہیں شمشیر عطا فرمائی
اس
غزوہ میں پیغمبرؐ نے خواہش کی کہ ان کا کوئی صحابی اپنے شمشیر کا حق ادا کرے۔ ابودجانہ جانتے تھے کہ شمشیر کا حق اس کے خم ہونے تک لڑنا ہے۔ پیغمبرؐ سے درخواست کی کہ یہ کام ان کے سپرد کر دیا جائے اور آپؐ نے قبول کر لیا۔
وہ جنگ کے وقت سرخ رومال جو دستارِ
موت کے نام سے مشہور تھا؛
سر پر باندھتے تھے
اور میدان میں نکلتے وقت
فخر سے قدم رکھتے تھے اور
رجز پڑھتے تھے۔
پیغمبرؐ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: خدا اس طرح کے چلنے کو اس طرح کے مقام کے سوا دوست نہیں رکھتا۔
انہوں نے
ہند،
زوجہ ابوسفیان جو مشرکین کو
جنگ پر اکسا رہی تھی؛ کو مغلوب کر لیا لیکن اسے
قتل کرنے سے چشم پوشی کر لی اور کہا کہ رسول خداؐ کی شمشیر اس سے زیادہ معزز ہے کہ کسی عورت کے سر پر چلے۔
ابو دجانه نے احد میں پیغمبرؐ کے ساتھ
بیعت کی کہ وہ موت کی حد تک جنگ کریں گے۔
جنگ کے سخت ترین لمحوں میں جب مسلمان پیغمبرؐ کو تنہا چھوڑ جاتے تھے، وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے تھے اور خود کو آنحضورؐ کی ڈھال قرار دیتے اور پیغمبرؐ پر جھک جاتے تاکہ تیر ان کی پشت میں پیوست ہو جائیں اور پیغمبرؐ محفوظ رہیں۔
آپ نے عبد اللہ بن حمید اسدی کہ جس نے ابی بن خلف جمحی کے ساتھ پیغمبرؐ کو قتل کرنے کی قسم اٹھائی تھی؛ کو
ہلاک کیا۔
انہوں نے اس لڑائی میں دشمن کے چند دیگر نامور جنگجوؤں کو بھی قتل کیا اور اسی وجہ سے پیغمبرؐ نے انہیں
دعا دی۔
ابودجانہ سنہ چار ہجری میں ہونے والے
غزوه بنی نضیر میں بھی شریک تھے۔ رسول خداؐ نے ابودجانہ اور
سہل بن جید کو
امام علیؑ کے ہمراہ بھیجا تاکہ کچھ
یہودیوں کو گرفتار کریں۔
امیر المومنین علیؑ کے تحت فرمان انہیں مامور کیا گیا کہ علاقے کو دلیر یہودی کمانڈر غزوک کے جنگجوؤں سے پاک کر دیں اور یہ غزوک بھی حضرت علیؑ کے ہاتھوں قتل ہوا۔
اس جنگ میں کامیابی کے بعد پیغمبرؐ نے بنی نضیر کے اموال کو
مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دیا اور
انصار کے اس میں حصہ نہ پانے کے باوجود ابو دجانہ اور سہل بن حنیف کو ان کی تنگدستی کے باعث ایک حصہ عطا کیا۔
آپ نے ساتویں ہجری کو لڑی جانے والے
غزوہ خیبر میں شرکت کی اور
دشمن کے چند بہادروں کو مارنے میں کردار ادا کیا۔
غزوه خیبر میں دشمن کے لشکر کا ایک آدمی اسلامی فوج کی صفوں کے سامنے آیا اور مقابلے کیلئے للکارا۔ ابو دجانہ اس حال میں نکلے کہ سر پر پیشانی بند باندھے ہوئے تھے اور جا کر بجلی کی طرح حملہ آور ہو کر اسے تہ تیغ کر دیا۔ پیغمبرؐ ابو دجانہ کے عمل سے بہت خوش ہوئے اور
مشرک مرد کی
زرہ اور
شمشیر اسے بخش دی۔ ابودجانہ کے اس کام نے اسلامی لشکر کو ہمت دی اور دشمنوں کے حوصلے پست ہو گئے۔
پھر دوسرے مسلمانوں کے شانہ بشانہ
خیبر کے قلعوں پر حملہ کیا۔
جنگ خیبر کے بعد مسلمانوں کی مدینہ واپسی کے وقت وادی القریٰ کی لڑائی میں یہودیوں نے پیغمبرؐ پر حملہ کر دیا اور ان کے گیارہ افراد مارے گئے کہ جن میں سے دو کو ابو دجانہ نے قتل کیا۔
جنگ حنین میں بھی ہوازن کا ایک مرد سرخ
اونٹ پر سوار تھا اور ایک نیزے پر لپٹے ہوئے سیاہ پرچم کو بلند کیے ہوئے تھا۔ وہ کافروں کی فوج کے آگے آگے چل رہا تھا اور جس مسلمان کے نزدیک پہنچتا، اسے ضرب لگا دیتا۔ اس طرح اس نے بہت سے مسلمانوں کو
شہید کر دیا۔ جب ابو دجانہ نے یہ حالات دیکھے تو ایک شجاعانہ حملہ کر کے اس کے
اونٹ کو گرا دیا۔ وہ شخص اونٹ سے نیچے اتر آیا اور ابو دجانہ کے ساتھ آمنے سامنے لڑنے لگا۔ علیؑ بھی ان کی مدد کو پہنچے اور آخرکار انہیں فتح ملی اور
مشرک مارا گیا۔
ہجرت کے نویں سال پیغمبر اکرمؐ کو خبر ملی کہ رومی فوج
شام کی سرزمین پر نقل و حرکت کی ہے اور اسلامی مملکت کی سرحدی خلاف ورزی کر رہی ہے، گویا ان کا ارادہ ہے کہ اسلامی سرزمینوں پر حملہ کرے۔ پیغمبرؐ نے یہ خبر سننے کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک مسلح فوج کے ہمراہ
تبوک کیلئے روانہ ہوں مگر منافقین نے عہد شکنی اور سازشیں شروع کر دیں۔ منافقین کی ایک چال یہ تھی کہ انہوں نے خفیہ طور پر (شام کے ایک حصے) دومۃ الجندل کے زمامدار سے رابطہ کیا تاکہ وہ پیغمبرؐ کی غیر موجودگی میں مدینہ پر حملہ آور ہو۔ جب پیغمبرؐ کو یہ خبر ملی تو
زبیر اور ابو دجانہ کو مامور کیا کہ بیس افراد کے ہمراہ اکیدر کے محل پر حملہ کر کے اس کو گرفتار کر لیں۔ انہوں نے پیغمبرؐ کی حکمت عملی کے باعث
اکیدر کو گرفتار کر لیا۔ ابو دجانہ نے اس کام میں بھی
شجاعت کے جوہر دکھائے۔
ایک نقل کے مطابق
جنگ تبوک میں رسول خداؐ نے
قبیلہ اوس کا
پرچم اسید بن خضیر کو اور
قبیلہ خزرج کا پرچم ابو دجانہ انصاری کے سپرد کیا۔ اسی طرح لشکر کے اس دستے کی قیادت ابودجانہ کے حوالے فرمائی۔۔
پیغمبرؐ کی رحلت کے بعد ابو دجانہ کو
جنگ یمامہ میں ایک لشکر کے ہمراہ
مسیلمہ کذاب کے فتنے کی بیخ کنی کیلئے
یمامہ بھیجا گیا۔ مسیلمہ کو قتل کرنے کیلئے وہ اس باغ کے اندر تک چلے گئے کہ جس میں اس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پناہ لے رکھی تھی۔ باغ میں داخل ہوتے ہوئے ان کا پاؤں ٹوٹ گیا
؛ مگر براہ راست مسیلمہ کے قتل میں شرکت کرنے میں کامیاب رہے۔
[ترمیم]
ہجرت کے دسویں سال پیغمبرؐ نے مدینہ سے نکلتے وقت انہیں اپنی جگہ پر مقرر کیا۔
ایک روایت کی بنا پر، پیغمبرؐ نے حضرت علیؑ کو حکم دیا کہ
جنوں اور جادو کو دفع کرنے کیلئے ابودجانہ کو کوئی حرز لکھ دیں۔
؛ اگرچہ اس بات کی ان سے نسبت میں اظہار تردید کیا گیا ہے اور بعض نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
ابن سعد کی روایت کے مطابق ان کے اکلوتے بیٹے خالد ہیں کہ جن کی ماں آمنہ بنت عمرو تھیں اور اسے امیر المومنین علیؑ کے ساتھیوں میں شمار کیا گیا ہے۔
خالد کی اولاد تیسری صدی تک مدینہ اور
بغداد میں تھی۔
بہت سے
سیرت نگاروں کا خیال یہ ہے کہ اس کی نسل اب تک مدینہ و
بغداد کے شہروں میں موجود ہے اور بہت سے معروف خاندان ان سے منسوب ہیں۔
[ترمیم]
ابودجانہ کی
وفات کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک وہ جنگ یمامہ
بمطابق ۱۲ہجری
میں شہید ہوئے۔ بعض نے ان کیلئے
عمر کے دور حکومت میں فتح ہونے والی سرزمینوں کے غنائم کے
خمس کی جمع آوری کی مسئولیت
اور
قادسیہ نیز سنہ ۳۶۔۳۷ ہجری میں ہونے والی جنگ
صفین میں امام علیؑ کے ہم رکاب ان کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔
ابن حجر نے ابن اعثم اور دیگر مورخین سے نقل کرتے ہوئے جنگ قادسیہ اور صفین میں حضرت علیؑ کے ہم رکاب سماک انصاری کو ابو دجانہ ہی قرار دیا ہے۔
ایک نقل کے مطابق پیغمبرؐ کی رحلت کے بعد ابو دجانہ نے سنہ ۱۲ ہجری کو
یرموک کے واقعے میں شرکت کی اور جب
مسیلمہ کذاب کے پیروکاروں نے ایک باغ میں پناہ لے رکھی تھی تو انہوں نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو
جنگ کیلئے آمادہ کیا اور اس کی استقامت اور
شجاعت کے باعث مسلمان باغ کے اندر داخل ہوئے،
اسی طرح کہتے ہیں کہ انہوں نے مسیلمہ کو زخم لگائے اور اس قدر جنگ کی کہ جامِ
شہادت نوش کر گئے۔
ایک قول کے مطابق مسیلمہ نے انہیں شہید کیا۔
[ترمیم]
وَإِذَا وَقَعَ ٱلۡقَوۡلُ عَلَيۡهِمۡ أَخۡرَجۡنَا لَهُمۡ دَآبَّةٗ مِّنَ ٱلۡأَرۡضِ تُكَلِّمُهُمۡ أَنَّ ٱلنَّاسَ كَانُواْ بِـَٔايَٰتِنَا لَا يُوقِنُونَ۞ وَيَوۡمَ نَحۡشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٖ فَوۡجٗا مِّمَّن يُكَذِّبُ بِـَٔايَٰتِنَا فَهُمۡ يُوزَعُونَ ۞ و
اور جب ان پر وعدہ (عذاب) پورا ہونے والا ہو گا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک چلنے پھرنے والا نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا، درحقیقت لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے اور اس دن ہم ہر امت میں سے وہ گروہ اکٹھا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے اور پھر الگ الگ تقسیم کردیئے جائیں گے۔
یہ آیت
رجعت کے حوالے سے مشہور ترین آیت ہے جو
رجعت پر دلالت کر رہی ہے؛ کیونکہ ظاہرِ آیت اس مطلب کو بیان کر رہا ہے کہ ہر امت میں سے ایک گروہ کا حشر
قیامت کے دن والا
حشر نہیں ہے، کیونکہ مذکورہ بالا آیت میں حشر ہمہ گیر نہیں ہے جبکہ قیامت کے دن کا حشر تمام انسانوں کو شامل ہے۔
ابودجانہ خالص
ایمان اور رسول خداؐ کی رکاب میں کم نظیر فداکاری کی وجہ سے ایسے مقام پر فائز ہو گئے کہ انہیں
امام مہدیؑ کی نصرت اور ہمراہی کی بشارت دی گئی۔
اہل بیتؑ کی روایات میں کئی بار
رجعت اور خالص
مومنین کی رجعت کا کہا گیا ہے تاکہ حضرتؑ کی عالمی حکومت کی برکات اور اس زمانے میں اسلام کی
عظمت کا مشاہدہ کریں۔ قرآنی آیات سے بھی اس موضوع کی تائید ہوتی ہے۔
بعض روایات کے مطابق
امام عصرؑ کے ظہور کے بعد
مالک اشتر ،
اصحاب کہف ،
سلمان اور ابو دجانہ ایک مرتبہ پھر دنیا میں آئیں گے اور حضرتؑ کے ساتھ لشکر کے سربراہ یا خاص
اصحاب کی حیثیت سے مصروف عمل ہوں گے۔
امام صادقؑ نے اپنے شاگرد
مفضل سے فرمایا:
کوفہ کی پشت (
نجف اشرف) سے ۲۷ افراد
حضرت قائمؑ کے ساتھ ظہور کریں گے۔ ان میں سے پندرہ حضرت موسیؑ کی قوم سے ہیں کہ جو راہ حق پر ثابت قدم تھے؛ ان میں سے سات اصحاب کہف ہیں اور باقی پانچ افراد یہ ہیں:
یوشع بن نون، سلمان، ابودجانہ انصاری،
مقداد اور مالک اشتر۔ یہ افراد امام زمانہؑ کے ہم رکاب اور لشکر کے سپہ سالار ہوں گے۔۔
[ترمیم]
مفسرین نے بعض آیات کی
شان نزول میں ان کا نام ذکر کیا ہے۔
ابودجانہ کے دور میں
مسلمانوں کی مالی حالت اتنی مناسب نہیں تھی۔ معاشی دباؤ، دشمنوں کی اذیتیں، نو مسلموں کی خالی ہاتھ مدینہ
ہجرت ،
مشرکین کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ تجارت پر پابندی، پے در پے جنگیں اور ۔۔۔ سبب بنے کہ مسلمانوں کی مناسب مالی حالت نہ ہو۔ اس وجہ سے
انصار کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے
مہاجرین ، فقرا اور محروموں کے ساتھ تقسیم کر لیا تاکہ وہ بھی زندگی کے مختصر ساز و سامان کے مالک بن سکیں۔ مہاجرین
مسجد کے نزدیک
صفہ نامی مقام پر انتہائی
قناعت اور
زہد کے ساتھ اپنی گزر بسر کرتے تھے۔ ابودجانہ کے بھی مالی حالات اگرچہ بہت اچھے نہیں تھے مگر اس کے باوجود بہت زیادہ سخی تھے اور جب انہیں کوئی چیز ملتی، وہ اسے مہاجرین میں تقسیم کر دیتے جبکہ خود تنگدستی میں رہتے۔ اس لیے رسول خداؐ جب دوسرے انصار کو اپنے مخصوص
غنائم سے حصہ نہیں دیتے تھے تو ایک حصہ ابودجانہ کو بخش دیتے تھے۔
لِلۡفُقَرَآءِ ٱلۡمُهَٰجِرِينَ ٱلَّذِينَ أُخۡرِجُواْ مِن دِيَٰرِهِمۡ وَأَمۡوَٰلِهِمۡ يَبۡتَغُونَ فَضۡلٗا مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَٰنٗا وَيَنصُرُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓۚ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلصَّـٰدِقُونَ (یہ مال فئے) ان غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔
مفسرین
سورہ حشر کی آٹھویں آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: للفقراء المهاجرین فے کے مصداق کا بیان ہے بلکہ اس معنی میں ہے کہ اگر ان کے مورد میں خرچ ہو تو راہ خدا میں خرچ ہوا ہے۔ رسول خداؐ نے
بنی نضیر کے فے کو مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا سوائے ان کے تین فقیر افراد کے: ابو دجانہ سماك ابن خرشہ، سہل بن حنيف اور حارث ابن صمہ۔ پیغمبرؐ کے اس کام کی وجہ ان تینوں کی تنگ دستی تھی جس کی وجہ ان تینوں کی کم نظیر بخشش اور
ایثار تھا۔
سورہ قمر کی آیات ۵۴ و ۵۵ کو پیغمبرؐ کی ہم نشینی کے مورد میں قرار دیا گیا ہے۔
إِنَّ ٱلۡمُتَّقِينَ فِي جَنَّـٰتٖ وَنَهَر بیشک صاحبان تقویٰ باغات اور نہروں کے درمیان ہوں گے۔
فِي مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِندَ مَلِيكٖ مُّقۡتَدِرِۭ سچے مقام (ایمان اور سچے عمل کے بدلے یا سچے عقائد اور کردار کا تجسم) میں قادر مطلق سلطان کے پاس۔
سیوطی نے
در المنثور میں اس آیت کے ذیل میں ایک روایت نقل کی ہے: «بينما رسول الله (صلیاللهعلیهوالهوسلّم) يوما في مسجد المدينة فذكر بعض أصحابه الجنة فقال النبي صلى الله عليه و سلم يا أبا دجانة أما علمت ان من أحبنا و ابتلى بمحبتنا أسكنه الله تعالى معنا ثم تلا فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر.»
جابر کہتا ہے: میں ایک دن پیغمبرؐ کے ساتھ
مسجدِ مدینہ میں تھا، بعض اصحاب نے
بہشت کو یاد کیا۔ پھر پیغمبرؐ نے فرمایا: اے ابا دجانہ! جو بھی ہم سے محبت کرے اور ہماری دوستی کی وجہ سے کسی گرفتاری میں مبتلا ہو،
خدا تعالیٰ اسے ہمارے ساتھ بہشت میں سکونت دیتا ہے اور پھر اس آیت
فِي مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِندَ مَلِيكٖ مُّقۡتَدِرِۭکی
تلاوت فرمائی۔
رسول اکرمؐ کی بابرکت زندگی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ قرآن کی زیادہ تر آیات لوگوں کے عمل و کردار کی مناسبت سے نازل ہوتی تھیں۔ اس طرح افراد کے بہت سے اعمال کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یا تائید ہوتی تھی یا انہیں مسترد کر دیا جاتا تھا۔
سورہ مائدہ کی آیت ۹۰ ابودجانہ اور چند دیگر صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّمَا ٱلۡخَمۡرُ وَٱلۡمَيۡسِرُ وَٱلۡأَنصَابُ وَٱلۡأَزۡلَٰمُ رِجۡسٞ مِّنۡ عَمَلِ ٱلشَّيۡطَٰنِ فَٱجۡتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ اے ایمان والو شراب اور جوا اور بت اور فال کے تیر سب شیطان کے گندے کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔
اس آیت کے شان نزول میں کہا گیا ہے کہ
امام علیؑ اور صحابہ کی ایک جماعت بشمول عثمان بن مظعون، أبو طلحہ، أبو عبيده، معاذ بن جبل، سہل بن بيضاء، أبو دجانه أنصاری؛
سعد بن ابی وقاص کے گھر پر جمع تھے اور کچھ کھا رہے تھے کہ اتنے میں ان کیلئے
انگور کی شراب لائی گئی۔ اس موقع پر امام علیؑ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: لعن الله الخمر، و الله لا أشرب شيئا يذهب بعقلي،...؛ خدا شراب پر
لعنت کرے اور
خدا کی قسم! میں ہرگز ایسی چیز نہیں پیوں گا کہ جس سے میری عقل زائل ہو جائے اور اس اجتماع کو ترک کر کے
مسجد تشریف لے گئے۔ اس وقت
جبرئیل امین یہ آیت لے کر اترے!
کہا جا تا ہے کہ
سورہ صف کی چوتھی آیت حضرت علیؑ، ابودجانہ انصاری اور ۔۔ جیسے افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ آیت ابودجانہ کو امام علیؑ اور حضرت
حمزہ جیسی عظیم شخصیات کے ہمراہ
شجاع ،
مومن اور کم نظیر مجاہد قرار دیتی ہے۔
إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلَّذِينَ يُقَٰتِلُونَ فِي سَبِيلِهِۦ صَفّٗا كَأَنَّهُم بُنۡيَٰنٞ مَّرۡصُوصٞ اللہ یقینا ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف بستہ ہو کر اس طرح لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں
ابن اثیر، کتاب
اسد الغابۃ میں لکھتے ہیں: ابو دجانہ نے جنگ بدر، احد اور پیغمبر اکرمؐ کے زمانے کی ساری جنگوں میں شرکت کی۔ آپ جنگ بدر میں اسلام کی ۳۱۳ نفری فوج میں شامل تھے۔ انہوں نے اس جنگ میں دشمن پر خطرناک وار کیے اور
زمعہ بن اسود نامی دشمن کے ایک دلاور کا خاتمہ کیا۔
عبدالرحمن بن عوف بھی کہتے ہیں: جنگ بدر کے بعد میں مال غنیمت جمع کرنے لگا۔ اچانک
امیہ بن خلف (مشرکین کے ایک معروف سردار) کو میدان کے ایک طرف دیکھا جو اپنے بیٹے سمیت بھاگنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر کہا: ’’میں اس مال غنیمت سے زیادہ تمہارے لیے قیمتی ہوں، اگر مجھے اور میرے بیٹے کو اس معرکے سے باہر نکال دو تو میں اس کا بدلہ دوں گا۔ میں اس کو اور اس کے بیٹے کو معرکے سے باہر لے گیا۔ اچانک
بلال حبشی نے اسے دیکھا لیا اور کہا: اے مسلمانو! وہ ابن امیہ
کفر کا سردار ہے۔ مسلمانوں نے اس پر حملہ کر کے اسے بیٹے سمیت قتل کر دیا۔ امیہ نے قتل سے پہلے مجھے کہا: اس نے ہم پر سخت حملے کیے ہیں۔ پھر پوچھا: وہ چھوٹے قد کا مرد کہ جس نے پیشانی پر سرخ رومال باندھ رکھا تھا اور تمہارے لشکر میں لڑ رہا تھا، کون تھا؟! میں نے کہا: وہ انصار میں سے ایک مرد ہے اور اس کا نام سماک بن خرشہ(ابو دجانہ) ہے۔ امیہ نے کہا: ہم اس مرد کے حملوں کی وجہ سے تمہارے سامنے سر کٹے
حیوانات کی طرح شکست کھا گئے ہیں۔
بعض مفسرین نے سورہ آل عمران کی آیات ۱۵۲ تا ۱۵۵
کو جنگ احد میں امیر المومنین علیؑ اور ابو دجانہ کی شجاعت کیلئے قرار دیا ہے۔
وَلَقَدۡ صَدَقَكُمُ ٱللَّهُ وَعۡدَهُۥٓ إِذۡ تَحُسُّونَهُم بِإِذۡنِهِۦۖ حَتَّىٰٓ إِذَا فَشِلۡتُمۡ وَتَنَٰزَعۡتُمۡ فِي ٱلۡأَمۡرِ وَعَصَيۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ مَآ أَرَىٰكُم مَّا تُحِبُّونَۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ ٱلدُّنۡيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ ٱلۡأٓخِرَةَۚ ثُمَّ صَرَفَكُمۡ عَنۡهُمۡ لِيَبۡتَلِيَكُمۡۖ وَلَقَدۡ عَفَا عَنكُمۡۗ وَٱللَّهُ ذُو فَضۡلٍ عَلَى ٱلۡمُؤۡمِنِينَ اور خدا نے اپنا وعدہ سچا کر دیا (یعنی) اس وقت جبکہ تم کافروں کو اس کے حکم سے قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ جو تم چاہتے تھے خدا نے تم کو دکھا دیا اس کے بعد تم نے ہمت ہار دی اور حکم (پیغمبر) میں جھگڑا کرنے لگے اور اس کی نافرمانی کی بعض تو تم میں سے دنیا کے خواستگار تھے اور بعض آخرت کے طالب اس وقت خدا نے تم کو ان (کے مقابلے) سے پھیر (کر بھگا) دیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے اور اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور خدا مومنو پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔
إِذۡ تُصۡعِدُونَ وَلَا تَلۡوُۥنَ عَلَىٰٓ أَحَدٖ وَٱلرَّسُولُ يَدۡعُوكُمۡ فِيٓ أُخۡرَىٰكُمۡ فَأَثَٰبَكُمۡ غَمَّۢا بِغَمّٖ لِّكَيۡلَا تَحۡزَنُواْ عَلَىٰ مَا فَاتَكُمۡ وَلَا مَآ أَصَٰبَكُمۡۗ وَٱللَّهُ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ جس وقت تم چڑھے جاتے تھے اور کسی کو مڑ کر نہ دیکھتے تھے اور رسول تمہیں تمہارےپیچھے سے پکار رہا تھا سو الله نے تمہیں اس کی پاداش میں غم دیا بسبب غم دینے کے تاکہ تم مغموم نہ ہو اس پر جو ہاتھ سے نکل گئی اور نہ اس پر جو تمہیں پیش آئی اور الله خبردار ہے اس چیز سے جو تم کرتے ہو۔
ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيۡكُم مِّنۢ بَعۡدِ ٱلۡغَمِّ أَمَنَةٗ نُّعَاسٗا يَغۡشَىٰ طَآئِفَةٗ مِّنكُمۡۖ وَطَآئِفَةٞ قَدۡ أَهَمَّتۡهُمۡ أَنفُسُهُمۡ يَظُنُّونَ بِٱللَّهِ غَيۡرَ ٱلۡحَقِّ ظَنَّ ٱلۡجَٰهِلِيَّةِۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ ٱلۡأَمۡرِ مِن شَيۡءٖۗ قُلۡ إِنَّ ٱلۡأَمۡرَ كُلَّهُۥ لِلَّهِۗ يُخۡفُونَ فِيٓ أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبۡدُونَ لَكَۖ يَقُولُونَ لَوۡ كَانَ لَنَا مِنَ ٱلۡأَمۡرِ شَيۡءٞ مَّا قُتِلۡنَا هَٰهُنَاۗ قُل لَّوۡ كُنتُمۡ فِي بُيُوتِكُمۡ لَبَرَزَ ٱلَّذِينَ كُتِبَ عَلَيۡهِمُ ٱلۡقَتۡلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمۡۖ وَلِيَبۡتَلِيَ ٱللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمۡ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمۡۚ وَٱللَّهُ عَلِيمُۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ اس کے بعد خدا نے ایک گروہ پرپُر سکون نیند طاری کردی اور ایک کو نیند بھی نہ آئی کہ اسے صرف اپنی جان کی فکر تھی اور ان کے ذہن میں خلاف حق جاہلیت جیسے خیالات تھے اور وہ یہ کہہ رہے تھے کہ جنگ کے معاملات میں ہمارا کیا اختیار ہے پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اختیار صرف خدا کا ہے- یہ اپنے دل میں وہ باتیں چھپائے ہوئے ہیں جن کا آپ سے اظہار نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر اختیار ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم گھروں میں بھی رہ جاتے تو جن کے لئے شہادت لکھ دی گئی ہے وہ اپنے مقتل تک بہرحال جاتے اور خدا تمہارے دلوں کے حال کو آزمانا چاہتا ہے اور تمہارے ضمیر کی حقیقت کو واضح کرنا چاہتا ہے اور وہ خود ہر دل کا حال جانتا ہے۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَوَلَّوۡاْ مِنكُمۡ يَوۡمَ ٱلۡتَقَى ٱلۡجَمۡعَانِ إِنَّمَا ٱسۡتَزَلَّهُمُ ٱلشَّيۡطَٰنُ بِبَعۡضِ مَا كَسَبُواْۖ وَلَقَدۡ عَفَا ٱللَّهُ عَنۡهُمۡۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٞ جن لوگوں نے دونوں لشکروں کے ٹکراؤ کے دن پیٹھ پھیرلی یہ وہی ہیں جنہیں شیطان نے ان کے کئے دھرے کی بنائ پر بہکا دیاہے اور خدا نے ان کو معاف کردیا کہ وہ غفور اور حلیم ہے۔
[ترمیم]
صحابی رسولؐ ابو دجانہؓ کے نام کی
سماک بن مخرمہ اسدی جو عثمانیوں میں سے تھا اور
امام علیؑ سے کنارہ کشی کر چکا تھا؛
یا
سماک بن خرشہ جعفی کے نام کے ساتھ مشابہت
اس امر کی سبب بنی کہ بعض نے گمان کر لیا کہ وہ
جنگ صفین میں موجود تھے۔
طبری نے بھی
سیف بن عمر تمیمی سے زمانہ عمر کی فتوحات کے حوالے سے جن واقعات کو نقل کیا ہے؛ ان میں
سماک بن خرشہ انصاری کا نام ذکر کیا ہے کہ وہ
ایران کے بعض علاقوں کو فتح کرنے میں شریک تھے، مگر اس شخص کی کنیت ابودجانہ نہیں ہے۔
بعض محققین
کے مطابق سماک بن خرشہ انصاری بنیادی طور پر سیف بن عمر تمیمی کی گھڑی ہوئی شخصیت ہے۔
بعض نے ابودجانہ کو شہدائے کربلا میں سے قرار دیا ہے۔
صاحب ریاض الشهادۃ نے
روضۃ الشهداء سے نقل کرتے ہوئے ابودجانہ کا شمار شہدائے کربلا میں کیا ہے۔
حالانکہ
روضۃ الشهداء میں
عبد الله بن ابودجانہ کو
شہید کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
(۱) ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابه، قاهره ۱۲۸۰ہجری۔
(۲) ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، به کوشش سهیل زکار، بیروت، ۱۳۹۸ہجری/۱۹۷۸ء۔
(۳) ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابه فی تمییز الصاحبه، قاهره، ۱۳۲۷ ہجری۔
(۴) ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر۔
(۵) ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، به کوشش علی محمد بجاوی، قاهره، ۱۳۸۰ ہجری/ ۱۹۶۰ء۔
(۶) ابن هشام، عبدالملک، السیره النبویه، به کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاهره، ۱۳۵۵ ہجری/ ۱۹۳۶ء۔
(۷) ابو علی مسکویه، احمد بن محمد، تجارب الامم، به کوشش ابوالقاسم امامی، تهران، ۱۳۶۶ شمسی۔
(۸) بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، به کوشش محمد حمید الله، قاهره، ۱۹۵۹ء۔
(۹) بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، به کوشش صلاح الدین منجد، قاهره، ۱۹۵۶ ـ ۱۹۶۰ء۔
(۱۰) ثقفی، ابراهیم بن محمد، الغارات، به کوشش جلال الدین محدث، تهران، ۱۳۵۵شمسی۔
(۱۱) دارقطنی، علی بن عمر، المؤتلف و المختلف، به کوشش موفق بن عبدالله، بیروت، ۱۴۰۶ ہجری/ ۱۹۸۶ء۔
(۱۲) سهمی، حمزه بن یوسف، تاریخ جرجان، حیدرآباد دکن، ۱۳۸۷ہجری/۱۹۶۷ء۔
(۱۳) طبری، تاریخ۔
(۱۴) عسکری، مرتضی، خمسون و مائه صحابی مختلق، بیروت، ۱۳۹۴ہجری/۱۹۷۴ء۔
(۱۵) نصر بن مزاحم منقری، وقعه صفین، به کوشش عبدالسلام محمد هارون، قاهره، ۱۳۸۲ہجری۔
(۱۶) واقدی، محمد بن عمر، الرده به روایت ابن اعثم کوفی، به کوشش محمد حمیدالله، پاریس، ۱۴۰۹ ہجری/ ۱۹۸۹ء۔
(۱۷) واقدی، محمد بن عمر، المغاری، به کوشش مارسدن جوئز، لندن، ۱۹۶۶ء۔
(۱۸) یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ، بیروت، ۱۳۷۹ہجری/ ۱۹۶۰ء۔
[ترمیم]
[ترمیم]
مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، دانشنامه بزرگ اسلامی، ماخوذ از مقالہ «ابودجانه»، ج۵، ص۲۱۵۴۔ جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، ص۸۵۔ مرکز فرهنگ و معارف قرآن، فرهنگ قرآن، ج۲، ص۲۰۳، ماخوذ از مقالہ «ابودجانه انصاری»، از سر نو تحریر توسط گروه پژوهشی ویکی فقه۔