حضرت زہراؑ کی وصیتیں

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حضرت فاطمہؑ جب بستر بیماری پر دراز ہوئیں اور اپنی موت کا وقت نزدیک پایا تو اپنے امور کو اپنے مہربان ہمسر کے گوش گزار کرنے کے بعد حسب منشا وصیت کر دی اور آپؑ کے ساتھ کچھ عہد و پیمان باندھے۔ امیر المومنینؑ نے بنت پیغمبرؐ کی تمام وصیتیں پوری توجہ سے سنیں اور زوجہ کے فراق میں شکستہ دل اور آزردہ قلب کے ساتھ آپؑ کی بات سنی۔


وصیت نامہ

[ترمیم]

حضرت سیدہؑ کی ایک وصیت ایک قول کے مطابق امام علیؑ کو جناب فاطمہؑ کی رحلت کے بعد آپؑ کے سرہانے کے پاس سے ملی، اس مضمون کی تحریر یہ تھی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ فاطمہ بنت رسول خدا کی وصیت ہے۔ وہ اس حال میں یہ وصیت لکھ رہی ہے کہ خداوند سبحان کی یکتائی کی شہادت دیتی ہے، محمد بن عبد اللہ کو اس کا بندہ و رسول سمجھتی ہے، بہشت و دوزخ پر ایمان رکھتی ہے اور اس کیلئے مسلم ہے کہ قیامت آئے گی اور اس میں کوئی تردید نہیں ہے۔
اے علی! میں فاطمہ بنت محمد ہوں کہ خدا نے مجھے آپ کا ہمسر بنایا تاکہ دنیا و آخرت میں آپ کی خدمت میں رہوں اور آپ میرے کاموں کی انجام دہی کیلئے سب سے زیادہ سزاوار ہیں۔ اس بنا پر خود میرا حنوط ، غسل اور کفن انجام دیں، میرے جنازے پر نماز پڑھیں، مجھے رات کے وقت سپرد خاک کریں اور کسی کو میرے دفن کی خبر نہ دیں۔
اب آپ کو خدا حافظ کہتی ہوں اور اپنے والد پر درود بھیجتی ہوں، جب تک دنیا باقی ہے تا روز قیامت۔

کشف الغمہ کی روایت

[ترمیم]

صاحب کشف الغمہ کی امام باقرؑ سے روایت کے مطابق حضرت علیؑ کو ایک صندوق سے ایک تحریر ملی ، آپؑ نے اسے پڑھا تو اس میں لکھا تھا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ فاطمہ بنت محمد کی وصیت ہے۔ وہ علی کو اپنے اموال کا وصی قرار دیتی ہے؛ علی کے بعد حسن تک نوبت پہنچتی ہے؛ جب حسن دنیا سے چلے گئے، تو حسین اس امر کا ذمہ اٹھائیں گے اور حسین کے بعد میرے سب سے بڑے فرزند۔
اس وصیت پر مقداد بن اسود اور زبیر بن عوام نے شہادت دی اور علی بن ابی طالب نے اسے لکھا۔
کچھ راویوں نے لکھا ہے کہ جب فاطمہ بیمار ہوئیں تو ام ایمن اور اسماء بنت عمیس کو طلب کیا اور علیؑ کو تین وصیتیں کیں:
پہلی وصیت یہ کہ علی امامہ بنت زینب (حضرت زہراؑ کی منہ بولی بہن کی بیٹی) کے ساتھ ازدواج کریں؛ کیونکہ امامہ اولاد فاطمہ کے ساتھ مہربانی سے پیش آتی تھیں اور ان کیلئے ہمدرد ماں کی طرح تھیں۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ زہراؑ نے فرمایا: میری (منہ بولی) بہن کی بیٹی میرے بچوں کیلئے بہت مہربان اور محبت دینے والی ہے۔
[۱] امامہ ابو العاص کی بیٹی تھیں جو زینب سے متولد ہوئیں
۔ کہتے ہیں کہ رسول خدا نماز کے موقع پر اسے اپنے دوش پر سوار کر لیتے تھے۔ فاطمہ زہراؑ کی رحلت کے بعد آپؑ کی وصیت کے مطابق امیر المومنینؑ نے انہیں اپنی زوجیت میں لے لیا۔(مؤلف)۔
دوسری وصیت یہ کہ آپؑ کے جسد کیلئے لکڑی کا تابوت تیار کریں اور اس صندوق کو بنانے کی کیفیت کو بھی بیان فرمایا۔ جس طرح نقل کیا گیا کہ اسماء نے آنحضرتؐ سے عرض کیا کہ میں نے حبشہ کی سرزمین پر دیکھا کہ لوگ وہاں پر مُردوں کیلئے تابوت بناتے ہیں؛ اگر آپ کو پسند ہو تو میں آپ کیلئے ایک نمونہ تیار کرتی ہوں۔ پھر اسماء نے ایک گدا طلب کیا اور اس کو پھیلا دیا، پھر چند گیلی لکڑیاں منگوائیں اور انہیں خم کر کے پایوں کی صورت گدے کے کنارے رکھ دیا اور کپڑے کے ساتھ اوپر سے ڈھک دیا۔ بنت پیغمبر اس تابوت کو دیکھ کر خوش ہوئیں اور اسماء سے فرمایا: اس طرح کا ایک تابوت میرے لیے بناؤ تاکہ میرا پیکر اس میں مخفی رہے؛ خدا تجھے جہنم کی آگ سے دور فرمائے! یوں مسلمانوں میں پہلا تابوت حضرت زہراؑ کیلئے بنایا گیا۔
کتاب الاستیعاب میں آیا ہے: فاطمہ پہلی مسلمان خاتون تھیں کہ جن کا جنازہ ڈھکے ہوئے تابوت میں اٹھایا گیا اور آپؑ کے بعد زینب بنت جحش (رسول خدا کی زوجہ) کا پیکر بھی تابوت کے ذریعے ڈھکا گیا۔ ایک اور روایت میں یہ منقول ہے کہ جب حضرت زہراؑ کی نگاہ تابوت پر پڑی تو مسکرا دیں اور فقط اس دن حضرت کو شاد و خنداں دیکھا گیا۔ امام صادقؑ نے فرمایا: سب سے پہلی شخصیت جن کا پیکر تابوت میں رکھا گیا، فاطمہؑ تھیں۔
تیسری نصیحت یہ کہ جنہوں نے آپؑ پر جفا کی، ان میں سے کوئی آپؑ کے جنازے میں حاضر نہ ہو اور علی اجازت نہ دیں کہ ان میں سے کوئی بھی آپؑ پر نماز جنازہ ادا کرے۔ پھر یہ کہ آپؑ کا غسل لباس کے اوپر سے انجام دیں اور بدن سے لباس نہ ہٹائیں؛ کیونکہ وفات سے کچھ دیر قبل خود غسل کر چکی ہیں اور پاکیزہ ہونے کے بعد نیا لباس زیب تن کر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ زہرا نے وصیت فرمائی کہ رات کے وقت دفن کیا جائے اور آپؑ کی قبر کو مخفی رکھا جائے۔
بنت پیغمبر کی وصیت کے بارے میں مزید روایات بھی نقل ہوئی ہیں، منجملہ: رسول خدا کی ازواج میں سے ہر ایک کیلئے بارہ اوقیہ
[۲] اوقیہ، وزن کا پیمانہ ہے جو چالیس درہم اور سات مثقال چاندی کے برابر ہے
۔ بعض اسے ۱/۶۶ ۳ درہم کے برابر قرار دیتے ہیں۔ مقرر کیا، بنی ہاشم کی خواتین کیلئے بھی اتنی مقدار کی ہی وصیت فرمائی اور اپنی (منہ بولی) بہن کی بیٹی امامہ کیلئے بھی کچھ حصہ رکھا۔ اسی طرح منقول ہے کہ آپؑ نے اپنے اموال کو بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کو بخش دیا اور علیؑ نے بھی یہی دستور العمل اختیار کیا اور دوسروں کو بھی اپنے اموال میں شریک کیا۔ ۳/۱/۶۶
آخرکار بنت پیغمبر دار ابدی کی طرف رحلت فرما گئیں۔ امیر المومنینؑ نے اپنی زوجہ کی تمام وصیتوں پر عمل درآمد کیا، آپ کو لباس سمیت غسل دیا۔ اسماء بنت عمیس امام کی مدد فرما رہی تھیں اور حسنین حضرتؑ کے کہنے پر پانی بھر کر لا رہے تھے۔ غسل کے موقع پر امام، اسماء بنت عمیس، فضہ گھر کی خادمہ، حسنین، زینب اور ام کلثوم کے سوا کوئی موجود نہیں تھا۔ بنت پیغمبر کے پاک پیکر کو سات کپڑوں میں کفن دیا گیا، امام نے پانچ تکبیر نماز جنازہ ادا کی، رات کے وقت آپؑ کو سپرد خاک کیا، آپؑ کا مزار مخفی کر دیا اور علی، حسن، حسین، بنی ہاشم کے کچھ افراد اور امیر المومنین کے چند خاص اصحاب کے سوا تشییع جنازہ اور دفن میں کسی نے شرکت نہیں کی۔
واقعا، کیوں پیغمبر خدا کی پارہ تن اور آنحضرت کی لخت جگر کو مخفیانہ سپرد خاک کیا گیا اور آپؑ کا مزار مخفی رہا؟!
جی ہاں، زہرا نے ایک ایسی جگہ پر سکونت اختیار کی کہ جس سے برتر جگہ کا سراغ نہیں مل سکتا، اس سے بڑھ کر اس جگہ کی کیا قدر و منزلت ہو سکتی ہے کہ وہاں پر زہراؑ آرام فرما ہیں!

حضرت فاطمہؑ کے آخری ایام

[ترمیم]

کتاب روضۃ الواعظین میں روایت ہے کہ فاطمہؑ پدر کی رحلت کے بعد مسلسل غمگین، افسردہ، رنجیدہ اور گریہ کناں رہیں۔ کچھ مدت کے بعد بیمار ہوئیں، آپؑ کی بیماری چالیس راتوں تک جاری رہی اور آخر کار لقاء اللہ کی منزل پر فائز ہو گئیں۔ جب موت کے آثار دیکھے تو ام ایمن اور اسماء بنت عمیس کو اپنے پاس بلایا اور کسی کو علی کے پاس بھیجا۔ جب امام حاضر ہوئے تو زہرا نے آپؑ کو مخاطب کر کے کہا: اے چچا زاد! میں موت کے آثار محسوس کر رہی ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ جس قدر وقت گزر رہا ہے، میرا اپنے پدر سے الحاق بھی اتنا قریب ہو رہا ہے؛ اس لیے چند نکتے جو میرے دل میں ہیں، آپؑ کے سامنے بیان کرتی ہوں اور آپ کو ان کی انجام دہی کی وصیت کرتی ہوں۔ امام نے فرمایا: اے رسول خدا کی دختر! جس چیز کی طرف مائل ہیں، اس کی وصیت کریں۔ پھر زہراؑ کے پاس بیٹھ گئے اور حجرے میں موجود افراد کو باہر بھیج دیا۔
فاطمہؑ نے لبوں کو جنبش دی: اے میرے چچا زاد! آپ نے مجھ سے جھوٹ اور خیانت نہیں دیکھی اور آپ جانتے ہیں کہ میں نے پوری مشترکہ زندگی کے دوران کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کی ہے۔
امامؑ نے فرمایا: خدا کی پناہ! آپ اس سے کہیں زیادہ نیک ، پرہیزگار ، زاہد اور خدا ترس ہیں کہ آپ کو تنبیہ کروں یا آپ کی نافرمانی سے تکلیف اٹھاؤں؛ مگر میں آج آپ کی جدائی کے باعث مضطرب ہوں اور اس فراق کو بار گراں سمجھتا ہوں؛ مگر کیا کریں کہ امر پورا ہو کر ہی رہے گا اور اس سے گریز ممکن نہیں ہے۔ ہم سب خدا کی طرف سے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ جائیں گے۔ واقعا یہ مصیبت کتنی دردناک، جانسوز اور غم انگیز ہے، آپؑ جیسی زوجہ سے محروم ہونے کی مصیبت۔ ذات حق کی قسم! یہ مصیبت ہرگز فراموش نہیں ہو گی اور اس کی تسلیت و تعزیت ممکن نہیں ہے۔
دونوں مل کر کچھ دیر گریہ کرتے رہے۔ علیؑ نے زہراؑ سے کہا: جو وصیت کرنا چاہتی ہیں، مجھے کریں؛ آپ دیکھیں گی کہ میں اپنے عہد پر کاربند ہوں، آپ کے اوامر کو بجا لاؤں گا اور آپ کے کاموں کو اپنے امور پر مقدم کروں گا۔
حضرت فاطمہؑ نے اپنی وصیت کا آغاز کیا:
خدا آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ میری وصیتیں یہ ہیں: پہلی یہ کہ میں چاہتی ہوں، میرے بعد میری (منہ بولی) بہن امامہ کے ساتھ ازدواج کریں۔ امامہ میرے بچوں کیلئے ایک مہربان ماں کی طرح ہے اور مردوں کے پاس بھی زوجہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا
[۳] اسی وجہ سے امیر المومنینؑ فرماتے تھے: چار افراد کا فرق سنگین ہے اور ان کی یاد ہرگز فراموش نہیں ہوتی، ان میں سے ایک امامہ ہیں، پھر امام نے فرمایا کہ میں نے فاطمہ کی وصیت کی بنا پر امامہ کے ساتھ ازدواج کیا ہے
۔
دوم یہ کہ میرے جنازے کیلئے ایک تابوت تیار کریں؛ میں نے فرشتوں کو اس کی صورت ترسیم کرتے دیکھا ہے۔ اس وقت امام نے اپنی زوجہ سے تابوت کی خصوصیات کے بارے میں پوچھا اور بنا دیا۔
تیسرا یہ کہ ان ظالموں میں سے کوئی میرے جنازے پر حاضر نہ ہو اور آپ انہیں اجازت نہ دیں کہ مجھ پر نماز پڑھیں۔
آخری بات یہ کہ مجھے رات کے وقت جب سکوت کے سائے گہرے ہو جائیں اور لوگوں کی آنکھیں نیند میں ہوں؛ سپرد خاک کریں۔
زہراؑ کی وصیتیں اختتام پذیر ہو گئیں اور اس پاک خاتون نے زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ سلام و درود خدا آپ پر، آپ کے پدر، ہمسر اور دونوں بچوں پر۔

اہل مدینہ کی آہ و بکا

[ترمیم]

اہل مدینہ دختر رسول کی رحلت کا سن کر آہ و فریاد کرنے لگے اور پورا شہر سوگوار ہو گیا۔ بنی ہاشم کی خواتین آپؑ کے گھر میں جمع ہو گئیں اور گریہ و زاری کرتے ہوئے فرش عزا پر بیٹھ گئیں اور ’’یا ویلتاہ! یا بنت رسول اللہ‘‘ کی فریادیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ رونے کی آواز اس قدر اونچی تھی گویا شہر لرز رہا تھا۔ امام علیؑ ایک گوشے میں تشریف فرما تھے اور حسن و حسین بھی آپ کے سامنے بیٹھے تھے اور اشک بہا رہے تھے۔ مرد ٹولیوں کی شکل میں تعزیت کیلئے آ رہے تھے اور پیغمبرؐ کے دو عزیز بیٹوں کو دیکھ کر آنسو بہا رہے تھے۔ ام کلثوم چادر اوڑھے ہوئے اور چہرے پر نقاب ڈال کر گھر سے باہر نکلیں اور کہتی ہوئی جا رہی تھیں: اے رسول خدا! اب واقعا ہم آپ سے محروم ہو گئے ہیں اور اس کے بعد ہرگز آپ کو نہیں دیکھیں گے۔
لمحہ بہ لمحہ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا اور ہجوم کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔ سب انتظار کر رہے تھے کہ زہرا کا جنازہ باہر آئے تاکہ اس پر نماز ادا کریں۔ اس ہنگامے کے دوران ابوذر لوگوں کے پاس آئے اور ان سے درخواست کی کہ منتشر ہو جائیں؛ کیونکہ تشییع جنازہ کو موخر کر دیا گیا ہے۔ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ رات ہو گئی، شہر پر سکون ہو گیا اور خاموشی و تاریکی کا دور دورہ ہو گیا۔ رات کا کچھ حصہ گزرا تھا کہ امام نے حسن و حسین، عمار ، مقداد ، عقیل ، زبیر ، ابوذر ، سلمان ، بریدہ اور بنی ہازم کے چند افراد اور کچھ خاص ساتھیوں کے ساتھ مل کر جنازہ لائے، اس پر نماز پڑھی اور رات کے وقت ہی سپرد خاک کر دیا۔ امام نے فاطمہ کے مزار کے پاس سات فرضی قبریں بنائیں تاکہ کوئی زہرا کی قبر کو نہ پہچان سکے۔ بعض نے کہا ہے: امیر المومنینؑ نے اپنی زوجہ کی قبر کو زمین کے برابر کر دیا تاکہ اس کا نشان کسی کو معلوم نہ سکے۔
روایت ہے کہ جب علیؑ دفن کے کام سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ کی ملکوتی بارگاہ میں عرض کیا:

اَلسَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اَللَّهِ عَنِّي وَ عَنْ اِبْنَتِكَ وَ زَائِرَتِكَ النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ وَ اَلْبَائِتَةِ فِي اَلثَّرَى بِبُقْعَتِكَ اَلْمُخْتَارِ اَللَّهُ لَهَا سُرْعَةَ اَللَّحَاقِ بِكَ قَلَّ يَا رَسُولَ اَللَّهِ عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي وَ رقَّ عَنْھَا تَجَلُّدِي إِلَّا أَنَّ فِي التَّأَسِّي بِعَظِيمِ فُرْقَتِكَ وَ فَادِحِ مُصِيبَتِكَ مَوْضِعَ تَعَزٍّ؛ فَلَقَدْ وَسَّدْتُكَ فِي مَلْحُودِ قَبْرِكَ وَ فَاضَتْ بَيْنَ نَحْرِي وَ صَدْرِي نَفْسُك.‌
بلی، وَ فِي كِتَابِ اَللَّهِ أَنْعَمَ اَلْقَبُولَ وَ إِنّٰا لِلّٰهِ وَ إِنّٰا إِلَيْهِ رٰاجِعُونَ قَدِ اُسْتُرْجِعَتِ اَلْوَدِيعَةُ وَ أُخِذَتِ اَلرَّهِينَةُ وَ اُخْتُلِسَتِ اَلزَّهْرَاءُ فَمَا أَقْبَحَ اَلْخَضْرَاءَ وَ اَلْغَبْرَاءَ يَا رَسُولَ اَللَّهِ! أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ الی أنْ يَخْتَارَ اَللَّهُ لِي دَارَكَ اَلَّتِي فِيهَا مُقِيمٌ كَمَدٌ مُقَيِّحٌ وَ هَمٌّ مُهَيِّجٌ. سَرْعَانَ مَا فَرَّقَ بَيْنَنَا وَ إِلَى اَللَّهِ أَشْكُو! سَتُنْبِئُكَ ابْنَتُكَ بِتَظَافُرِ أُمَّتِكَ عَلَى هَضْمِهَا فَأَحْفِّهَا السُّؤَالَ وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ فَكَمْ مِنْ غَلِيلٍ مُعْتَلِجٍ بِصَدْرِهَا لَمْ تَجِدْ إِلَى بَثِّهِ سَبِيلًا. وَ سَتَقُولُ وَ يَحْكُمُ اللَّهُ وَ هُوَ خَيْرُ الْحاكِمِينَ.
والسلام علیکما سلام مُوَدِّعٍ لاَ قَالٍ وَلاَ سَئِمٍ. فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلاَ عَنْ مَلاَلَةٍ وَ إِنْ أُقُمْ فَلاَ عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اَللَّهُ اَلصَّابِرِينَ. وَاھاً وَاھاً وَ اَلصَّبْرُ أَيْمَنُ وَ أَجْمَلُ. وَ لَوْ لاَ غَلَبَةُ اَلْمُسْتَوْلِينَ، لَجَعَلْتُ اَلْمُقَامَ واللَّبْثَ عِنْدَكَ لِزَاماً مَعْكُوفاً وَ لَأَعْوَلْتُ إِعْوَالَ اَلثَّكْلَى عَلَى جَلِيلِ اَلرَّزِيَّةِ فَبِعَيْنِ اَللَّهِ تُدْفَنُ اِبْنَتُكَ سِرّاً وَ تُهْضَمُ حَقّاً وَ یُمْنَعُ ارْثُھا وَلَمْ یَطُلِ الْعَھْد وَلَمْ یَخْلُقْ مِنْکَ الذِّکر.
إِلَى اَللَّهِ يَا رَسُولَ اَللَّهِ اَلْمُشْتَكَى وَ فِيكَ يَا رَسُولَ اَللَّهِ أَحْسَنُ اَلْعَزَاءِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْكَ وَ عَلَيْهَا اَلسَّلاَمُ وَ اَلرِّضْوَانُ.

یا رسول اللہ! آپ کو میری جانب سے اور آپ کی زیارت کرنے والی، آپ کے پڑوس میں اترنے والی، آپ کے قطعہ ارضی کی مٹی سے مختص ہونے والی اور آپ سے جلد ملحق ہونے والی آپ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو ۔یارسول اللہ آپ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت) سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا میری ہمت و طاقت نے ساتھ چھو ڑ دیا لیکن آپ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کرلینے کے بعد مجھے اس مصیبت سے بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا ہو گا۔ جب کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپ کی روح نے پرواز کی جب آپ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا۔
ہاں، یہ خدا کا قرآن میں روح بخش کلام ہے کہ فرماتا ہے: ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں؛ اب یہ امانت پلٹائی گئی؛ گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی؛ زہرا چلی گئیں تو واقعا ان کے بعد آسمان و زمین کتنے بدنما لگ رہے ہیں؛ لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی ۔یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اس گھر کو منتخب کرے جس میں آپ رونق افروز ہیں۔ افسوس! کتنی جلدی ہم جدا ہو گئے اور اللہ ہی سے اپنے غم و اندوہ کی فریاد کرتا ہوں! وہ وقت آ گیا کہ آپ کی بیٹی آپ کو بتائیں کہ کس طرح آپ کی امت نے ان پر ظلم ڈھانے کے لئے ایکا کر لیا آپ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں؛ تاکہ اپنے دل کی بات کھولیں؛ سینے میں محفوظ عقدوں کو بیان کریں اور جس خون جگر کے اظہار کی راہ انہیں نہیں ملتی تھی، وہ آپ کے سامنے رکھ دیں۔ اس مقام پر آپ فرمائیں گے: افسوس ہے تم پر (اے قومِ جفاکار)، تمہارے بارے میں خدا سے انصاف مانگتا ہوں کہ وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
آپ دونوں پر میرا اسلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف ہوتا ہے اب اگر میں (اس جگہ سے )پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔ آہ آہ، صبر با برکت ترین اور خوبصورت ترین ہے۔ اگر ستمکاروں کے غلبے کا خوف نہ ہوتا تو ہمیشہ آپ کے مزار کے پاس رہتا اور آپ کی سخت ترین مصیبت پر ایسی عورت کی طرح فریاد کرتا جس کا بیٹا مر چکا ہو۔ خدا گواہ ہے کہ زہرا کو مخفیانہ سپرد خاک کیا جا رہا ہے، آپ کا مسلمہ حق پائمال ہو رہا ہے اور آپ کی میراث کو لوٹا جا رہا ہے اور ابھی آپؐ کی رحلت کو زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں اور آپ کا نام زبانوں سے محو نہیں ہوا ہے۔
اے رسول خدا! میں خدا کی بارگاہ میں (ان لوگوں کی) شکایت کرتا ہوں اور آپؐ کے نام سے خود کو تسلی دیتا ہوں۔ آپ پر اور آپ کی مظلومہ و معصومہ دختر پر خدا کا سلام ہو اور اس کی برکات کا نزول ہو!
دفن کے امور اختتام پذیر ہو گئے۔ امام قبر کے کنارے کھڑے ہوئے اور یہ دو شعر پڑھے:
ہر دو دوستوں کے اجتماع میں جدائی پڑے گی،
فراق کے علاوہ ہر مصیبت، کم ہوتی ہے،
یہ جو میں نے احمد اور آپ کے بعد فاطمہ کو کھو دیا ہے،
اس بات کی علامت ہے کہ کوئی دوستی ہمیشہ نہیں رہتی۔
[۴] لِكُلِّ اِجْتِمَاعٍ مِنْ خَلِيلَيْنِ فُرْقَةٌ
وَ كُلٌّ اَلَّذِي دُونَ اَلْفِرَاقِ قَلِيلٌ
وَ إِنَّ اِفْتِقَادِي فَاطِمَا بَعْدَ أَحْمَدَ
دَلِيلٌ عَلَى أَنْ لاَ يَدُومَ خَلِيلٌ
۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. امامہ ابو العاص کی بیٹی تھیں جو زینب سے متولد ہوئیں
۲. اوقیہ، وزن کا پیمانہ ہے جو چالیس درہم اور سات مثقال چاندی کے برابر ہے
۳. اسی وجہ سے امیر المومنینؑ فرماتے تھے: چار افراد کا فرق سنگین ہے اور ان کی یاد ہرگز فراموش نہیں ہوتی، ان میں سے ایک امامہ ہیں، پھر امام نے فرمایا کہ میں نے فاطمہ کی وصیت کی بنا پر امامہ کے ساتھ ازدواج کیا ہے
۴. لِكُلِّ اِجْتِمَاعٍ مِنْ خَلِيلَيْنِ فُرْقَةٌ
وَ كُلٌّ اَلَّذِي دُونَ اَلْفِرَاقِ قَلِيلٌ
وَ إِنَّ اِفْتِقَادِي فَاطِمَا بَعْدَ أَحْمَدَ
دَلِيلٌ عَلَى أَنْ لاَ يَدُومَ خَلِيلٌ


ماخذ

[ترمیم]

از کتاب ’’وفاة الصدیقة الزهراء علیها السلام‘‘، عبد الرزاق المقرم۔    






جعبه ابزار