حضرت زینبؑ کا عقد

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حضرت زینبؑ اور حضرت عبد اللہ کا عقد سنہ ۱۷ ہجری کے لگ بھگ ہوا۔ جب حضرت زینبؑ کا سن مبارک گیارہ سال کا تھا؛ اس وقت عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب نے خواستگاری کی اور اسی تاریخ کو آپؑ کا نکاح ہو گیا۔


زینب کا معنی

[ترمیم]

’’زینب‘‘ لغت میں مادہ ’’زیب‘‘ سے ہے جو اصل میں ’’خوشبو، معطر اور اچھے منظر‘‘ کے معنی میں ہے یا مرکب ہے ’’زین اور اب‘‘ سے؛ جس کا معنی ہے ’’باپ کی زینت‘‘۔ اسی معنی کو دیکھتے ہوئے بعض نے «زین ابیها»(باپ کی زینت) کو «ام‌ابیها» کے ردیف میں شمار کیا ہے۔
[۲] مازندرانی، ابن شهرآشوب، المناقب، علمیه، ج۳، ص۳۷۵۔
کہ الف تخفیف کی وجہ سے حذف ہو چکا ہے یا ایک بالاتر حقیقت کی وجہ سے یعنی والد اور فرزند میں فاصلہ نہ ہونے کے سبب۔

حضرتؑ کی ولادت

[ترمیم]

حضرت زینبؑ، امیر المومنینؑ اور حضرت فاطمہؑ کی دختر گرامی ہیں۔ مشہور نقل کے مطابق آپؑ کی ولادت سنہ ۶ھ کے ماہ شعبان کے اوائل میں امام حسینؑ کی ولادت کے دو سال بعد مدینہ میں ہوئیں۔ آپؑ کو پیغمبرؐ کی خدمت اقدس میں لایا گیا۔ آپؐ نے نومولود کو سینے سے لگایا اور گریہ کیا، اسی اثنا میں جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر خدا سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: اے میرے حبیب! اس بچے کا نام زینب رکھو۔
[۳] سپهر، لسان‌الملک، ناسخ التواریخ، اسلامی، تهران ۱۳۴۴ ق، ج۱، ص۴۴۔


زینب عالمہ غیر معلمہ

[ترمیم]

یہ آپ کا ایک لقب ہے جو امام سجادؑ کی طرف سے عطا ہوا۔ جب کربلا کے اسرا کو کوفہ میں داخل کیا گیا تو لوگ انہیں دیکھنے کیلئے گلی کوچوں میں جمع ہو گئے، حضرت زینبؑ نے غمزدہ دل کے ساتھ امیر المومنینؑ کے انداز میں ان کے سامنے انتہائی مؤثر اور فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔
امام سجادؑ نے جب آپؑ کے غم و اندوہ کو دیکھا تو فرمایا:
پھوپھی جان! خاموش ہو جائیں جو کچھ آپ نے فرمایا ہے وہ مایہ عبرت ہے اور آپ بحمد للہ عالمہ غیر معلمہ اور فھیمہ غیر مُفھمہ ہیں۔

زینب کبریٰ کا نکاح

[ترمیم]

جب حضرتؑ نے سن ازدواج میں قدم رکھا تو قبیلہ کندہ کی نمایاں شخصیت اشعث بن قیس نے خواستگاری کی۔ امیر المومنینؑ اس خواہش پر غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ زینبؑ کی خواستگاری کر رہے ہو؟ زینب خدیجہ کی مثل ہے، خاندان عصمت کی پروردہ ہے اور حضرت زہراؑ کی آغوش میں پروان چڑھی ہیں۔
[۵] ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نهج‌البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل، اسلامی، ج۲، ص۲۷۹۔

سنہ ۱۷ھ میں حضرت زینبؑ کا سن مبارک گیارہ سال کا تھا کہ اس دوران عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب نے آپ کی خواستگاری کی اور اسی تاریخ کو عقد کر دیا گیا۔

← عبد الله کا مختصر تعارف


آپ کی ولادت حبشہ میں جعفر بن ابی طالب کی حبشہ سکونت کے ایام میں ہوئی اور آپ کی والدہ اسماء بنت عمیس حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والی مسلمان خواتین میں سے ہیں۔
جنگ موتہ میں جعفر اسلامی سپاہ کے سپہ سالار تھے کہ جنہوں نے رومیوں کی ایک لاکھ پر مشتمل فوج کا سامنا کیا اور پہلے آپ کے دونوں ہاتھ قطع ہوئے پھر آپ کو شہید کر دیا گیا؛ جس پر پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
خدا نے دونوں ہاتھوں کی جگہ انہیں دو پر عطا فرما دئیے ہیں جن سے وہ جنت میں پرواز کریں گے۔
جعفر کی شہادت کے وقت عبد اللہ کم سن تھے۔
عبد اللہ ہمیشہ پیغمبر اکرمؐ اور امیر المومنینؑ کے منظور نظر تھے۔ لہٰذا جب حضرت زینبؑ سن ازدواج کو پہنچ گئیں تو عبد اللہ نے خواستگاری کی اور امیر المومنینؑ نے اسے قبول کر لیا اور حضرت زینبؑ کا عقد کر دیا۔
ان دونوں کے ازدواج سے چار بیٹوں علی، محمد، عباس اور عون اور ایک بیٹی ام‌کلثوم کی ولادت ہوئی۔ عبد اللہ میدان جنگ میں ہمیشہ علیؑ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے اور جنگ صفین میں اسلامی سپاہ کے ایک سردار تھے۔
[۸] بنت‌الشاطی، عایشه، زینب بطله کربلا، ص۸۱۔


حضرت زینبؑ کی کاروان کربلا میں موجودگی

[ترمیم]

جب امام حسینؑ عازم مکہ تھے تو حضرت زینبؑ نے عبد اللہ سے اجازت طلب کی کہ امام حسینؑ کے ساتھ رہیں گی؛ اس پر عبد اللہ نے بھی آپؑ کو اختیار دے دیا۔ عبد اللہ نے خیر خواہی کے جذبے سے امام حسینؑ کو سمجھانا چاہا مگر جب دیکھا کہ آپؑ اس راستے سے نہیں پلٹیں گے تو اپنے دو بیٹوں عون و محمد کو امام حسینؑ کے ساتھ روانہ کر دیا اور تلقین کی کہ امام حسینؑ کی راہ میں کسی قسم کی جانبازی سے دریغ نہ کریں۔
[۹] محمد بن نعمان، شیخ مفید، الارشاد، انتشارات علمیه اسلامیه، ترجمه سید‌هاشم رسولی محلاتی، ص۲۰۹۔
جب اپنے بیٹوں کی شہادت کی خبر کو سنا تو فرمایا: «انا لله و انا الیه راجعون».
جب عبد اللہ کے غلام نے ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر سنی تو کہنے لگا: ہمارے اوپر یہ مصیبت حسین بن علیؑ سے پہنچی ہے۔ عبد اللہ اس بات پر ناراض ہو گئے اور فرمایا: کیا امام حسینؑ کے بارے میں ایسا کہہ رہے ہو۔ خدا کی قسم! اگر میں ان کے ساتھ ہوتا تو اس وقت تک ان سے جدا نہ ہوتا جب تک شہید نہ ہو جاتا۔ خدا کی قسم اپنے بیٹوں کی شہادت کو افسوسناک نہیں سمجھتا کیونکہ یہ میرے بھائی اور ابن عم کی رکاب میں شہید ہوئے ہیں۔
[۱۰] محمد بن نعمان، شیخ مفید، الارشاد، انتشارات علمیه اسلامیه، ترجمه سید‌هاشم رسولی محلاتی، ۲، ص۷۱۔
اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی شہادت کے عاشق تھے۔

حضرت زینبؑ کی وفات

[ترمیم]

شام سے واپسی پر حضرت زینبؑ مدینے میں لشکر یزید کی شقاوت اور اہل بیتؑ کی مظلومیت کے ذکر میں مصروف رہتیں۔ مدینے کے حاکم عمر بن سعید الاشراق نے یزید کو خبر دی اور یزید نے حکم دیا کہ انہیں مصر بھیج دیا جائے۔ آپؑ گیارہ ماہ اور پندرہ دن تک مصر میں رہیں اور اتوار کی شب بمطابق ۵ رجب سنہ ۶۲ھ کو رحلت فرما گئیں۔
آپ کے مقام دفن کے بارے میں مختلف روایات ہیں؛ لہٰذا بعض نے آپ کا مقام دفن مدینہ، بعض نے شام اور بعض نے مصر میں قرار دیا ہے۔ تاہم زیادہ قوی احتمال یہی ہے کہ آپ کا مقام دفن مصر میں ہے۔
[۱۱] عودی، شیخ حسن، مشارق الانوار، ص۱۰۰۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ ق، چاپ اول ج۱، ص۴۵۳۔    
۲. مازندرانی، ابن شهرآشوب، المناقب، علمیه، ج۳، ص۳۷۵۔
۳. سپهر، لسان‌الملک، ناسخ التواریخ، اسلامی، تهران ۱۳۴۴ ق، ج۱، ص۴۴۔
۴. طبرسی، احمد بن علی، احتجاج، انتشارات اسوه چاپ دوم، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۳۱۔    
۵. ابن ابی الحدید، عبدالحمید، شرح نهج‌البلاغه، تحقیق محمد ابوالفضل، اسلامی، ج۲، ص۲۷۹۔
۶. ابن عبد البر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب، چاپ دوم، ۱۳۳۶ق، حیدر آیاد هند.ج۳، ص۸۸۰۔    
۷. دینوری، ابن قتیبه، المعارف، ص۲۰۵۔    
۸. بنت‌الشاطی، عایشه، زینب بطله کربلا، ص۸۱۔
۹. محمد بن نعمان، شیخ مفید، الارشاد، انتشارات علمیه اسلامیه، ترجمه سید‌هاشم رسولی محلاتی، ص۲۰۹۔
۱۰. محمد بن نعمان، شیخ مفید، الارشاد، انتشارات علمیه اسلامیه، ترجمه سید‌هاشم رسولی محلاتی، ۲، ص۷۱۔
۱۱. عودی، شیخ حسن، مشارق الانوار، ص۱۰۰۔


ماخذ

[ترمیم]

تاریخ اسلام ائمه-علیهم-السلام عبدالله-و-زینب-کبری-سلام-الله-علیها a-۱۳۳۱-۴۶۳۴۶-۹۴۶۱-۹۴۶۲-۳۳۷۰۲-۳۰۳۰۳.aspx سائٹ پژوهہ، ماخوذ از مقالہ «ازدواج زینب و عبدالله»، لنک پر نظر ثانی ۹۵/۱۰/۱۱۔    






جعبه ابزار