حضرت فاطمہ معصومہؑ کی رحلت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



دس ربیع الثانی حضرت فاطمہ معصومہؑ کا یوم وفات ہے۔


ایران کا سفر

[ترمیم]

حضرت معصومہؑ اپنے بھائی حضرت امام رضاؑ کی ایران تشریف آوری کے ایک سال بعد چند بھائیوں، بہنوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ امام رضاؑ کی زیارت کے قصد سے ایران میں داخل ہوئیں۔
[۱] قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔

جعفر مرتضیٰ عاملی لکھتے ہیں: حضرت معصومہؑ علویوں کے ۲۲ افراد پر مشتمل ایک قافلے کی سربراہی کرتے ہوئے امام رضاؑ کے دیدار کی غرض سے ایران کی طرف روانہ ہوئیں۔

قم روانگی

[ترمیم]

البتہ بعض محققین نے اس کاروان کے افراد کی تعداد ۴۰۰ لکھی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے ۲۳ افراد ساوہ میں شہید ہوئے۔
[۳] محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۱۸، قم، علامه ۱۳۷۵، چاپ اول۔
جب حضرت معصومہؑ اور آپ کے قافلے والے ساوہ پہنچے تو حکومتی کارندوں کے ساتھ ان کا آمنا سامنا ہو گیا اور اس قافلے کے بہت سے افراد کو شہید کر دیا گیا۔ اس دوران حضرت معصومہؑ بھی بیمار ہو گئیں۔ آپؑ نے خادم سے پوچھا کہ یہاں سے قم کتنا دور ہے؟ خادم نے عرض کیا: ۱۰ فرسخ ہے۔ حضرتؑ نے فرمایا: مجھے یہاں سے قم لے چلو۔
[۴] قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔
انہی دنوں موسیٰ بن خزرج جو آل سعد کے بزرگ اور قم کے شیعہ تھے؛ حضرت معصومہؑ کی خدمت میں پہنچے اور اونٹنی کی نکیل کو تھام کر حضرت معصومہؑ کو اپنے گھر میں لے آئے۔
[۵] قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔


بیماری کی وجہ

[ترمیم]

بعض محققین کا خیال ہے کہ حضرت معصومہؑ کو ساوہ میں زہر دیا گیا تھا کہ جس کے بعد آپؑ بیماری کی حالت میں قم پہنچیں اور مختصر مدت کے بعد شہید ہوئیں۔
محمدی اشتہاردی لکھتے ہیں: کچھ لوگوں کی روایت کے مطابق حضرتؑ کو ساوہ میں ایک عورت کے توسط سے زہر دیا گیا۔
[۷] محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۲۳، به نقل از وسیله المعصومین۔
[۸] واعظ تبریزی، میرابوطالبم، وسیله المعصومین، ص۶۸۔


ایک اور قول

[ترمیم]

جب حضرت معصومہؑ نے اپنے بھائیوں اور ان کی اولادوں کے لاشوں کو دیکھا کہ جن کی تعداد ۲۳ تھی؛ تو سخت غمزدہ ہوئیں اور اس کی وجہ سے بیمار ہو گئیں۔
۲۳ ربیع الاول کو حضرت معصومہؑ کے قم میں داخلے کے بعد
[۹] محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۱۹، قم، علامه ۱۳۷۵، چاپ اول۔
حضرتؑ نے ۱۷
[۱۰] قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔
یا ۱۹ دن تک موسی بن خزرج کے گھر پر قیام کیا۔ اس دوران آپؑ بیماری کے باوجود خدا کے ساتھ راز و نیاز اور عبادت میں مشغول رہیں۔

رحلت کی تاریخ

[ترمیم]

مشہور قول یہ ہے کہ حضرت معصومہؑ ۲۳ ربیع الاول کو قم میں تشریف آوری کے بعد ۱۷ دن سے زیادہ زندہ نہ رہیں۔ اس لیے حضرتؑ کی رحلت دس ربیع الثانی کو ہوئی۔
علی اکبر مہدی پور لکھتے ہیں: حضرت معصومہؑ کا یوم وفات دس ربیع الثانی سنہ ۲۰۱ہجری ہے۔
[۱۲] مهدی پور، علی اکبر، کریمه اهل بیت، ص۱۰۹، قم، حاذق۔

بعض محققین نے بارہ ربیع الثانی
[۱۳] منصوری، مهدی، حیات الست، ص۸، قم، صحفی، ۱۳۳۹۔
کو آپؑ کے یوم وفات کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔
محمدی اشتہاردی لکھتے ہیں: جیسا کہ بعض بزرگوں نے کہا ہے، انصاف یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے قول میں سازگاری کی غرض سے ۱۰، ۱۱ اور ۱۲ ربیع الثانی کو ایام معصومیہ کے عنوان سے عزاداری منعقد کی جاتی ہے۔
[۱۴] محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۱۵-۱۱۶، قم، علامه ۱۳۷۵، چاپ اول۔


تدفین

[ترمیم]
حضرت معصومہؑ کی رحلت کے بعد آل سعد کی خواتین نے حضرت معصومہؑ کو غسل دیا اور کفن پہنایا۔
[۱۵] فیض، عباس، گنجینه آثار قم، ج۱، ص۳۹۰، مهر، ۱۳۴۹۔
پھر حضرتؑ کے پاکیزہ جسد کو موسیٰ بن خزرج کے باغ میں لے جایا گیا۔ اس موقع پر اشعریوں (آل سعد) میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ کون اس پاکیزہ بدن کو کو دفن کرنے کی شائستگی رکھتا ہے۔۔۔۔ اچانک قم کی نہر کی جانب سے دو نقاب پوش سوار آگے بڑھے اور جب وہ بدن کے پاس پہنچے تو گھوڑے سے نیچے اترے۔ انہوں نے پہلے نماز جنازہ ادا کی۔ پھر تدفین کیلئے تیار کیے گئے سرداب میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے کی مدد سے آپؑ کو سپرد خاک کر دیا اور کسی سے بات چیت کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ وہ کون لوگ تھے؟!
[۱۶] قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳-۲۱۴، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔

بعض محققین نے احتمال دیا ہے کہ وہ دونوں سوار امام رضاؑ اور امام جوادؑ تھے
[۱۷] جمعی از نویسندگان، مجموعه مقالات، ص۱۱۸، به نقل از گنجینه دانشمندان، قم، زائر، ۱۳۸۴۔
[۱۸] رازی، محمد شریف، گنجینه دانشمندان، ج۱، ص۱۴-۱۵۔

اگر یہ دیکھا جائے کہ حضرت معصومہؑ کی ولادت سنہ ۱۷۳ھ کے ماہ ذیقعدہ کے اوائل میں ہوئی تھیاور آپؑ کی رحلت سنہ ۲۰۱ھ میں ہوئی تھی؛ تو اس حساب سے آپؑ کی وفات ۲۸ برس کے سن میں ہوئی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔
۲. عاملی، جعفرمرتضی، الحیاة السیاسه للامام الرضا، ص۴۲۸، دارالتبلیغ الاسلامی، ۱۳۹۸۔    
۳. محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۱۸، قم، علامه ۱۳۷۵، چاپ اول۔
۴. قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔
۵. قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔
۶. عاملی، جعفرمرتضی، الحیاة السیاسه للامام الرضا، ص۴۲۸، دارالتبلیغ الاسلامی، ۱۳۹۸۔    
۷. محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۲۳، به نقل از وسیله المعصومین۔
۸. واعظ تبریزی، میرابوطالبم، وسیله المعصومین، ص۶۸۔
۹. محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۱۹، قم، علامه ۱۳۷۵، چاپ اول۔
۱۰. قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔
۱۱. مجلسی، محدباقر، بحارالانوار، ج۶۰، ص۲۱۹، تهران، مکتب الاسلامیه۔    
۱۲. مهدی پور، علی اکبر، کریمه اهل بیت، ص۱۰۹، قم، حاذق۔
۱۳. منصوری، مهدی، حیات الست، ص۸، قم، صحفی، ۱۳۳۹۔
۱۴. محمدی اشتهاردی، محمد، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص۱۱۵-۱۱۶، قم، علامه ۱۳۷۵، چاپ اول۔
۱۵. فیض، عباس، گنجینه آثار قم، ج۱، ص۳۹۰، مهر، ۱۳۴۹۔
۱۶. قمی، حسن بن محمد، تاریخ قم، ص۲۱۳-۲۱۴، ترجمه حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تهران، طوس، ۱۳۶۱۔
۱۷. جمعی از نویسندگان، مجموعه مقالات، ص۱۱۸، به نقل از گنجینه دانشمندان، قم، زائر، ۱۳۸۴۔
۱۸. رازی، محمد شریف، گنجینه دانشمندان، ج۱، ص۱۴-۱۵۔
۱۹. نمازی، شیخ علی، مستدرک سفینة البحار، ج۸، ص۲۶۱، مشهد، چاپخانه خراسان۔    


ماخذ

[ترمیم]

سائٹ پژوهہ، ماخوذ از مقالہ «وفات حضرت معصومه»، نظر ثانی ۹۵/۰۱/۱۴۔    






جعبه ابزار