پیغمبر اکرمؐ کی ولادت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



پیغمبر اکرمؐ، حضرت ابراہیمؑ کی ذریت اور موحدین کی نسل سے ہیں۔ آپؐ ۱۷ ربیع الاول بروز جمعۃ المبارک عام الفیل بمطابق ۵۷۰ء کو مکہ میں پیدا ہوئے۔ عین اس وقت شرک اور بت پرستی کے دنیا بھر میں موجود مظاہر لرزنے لگے اور حضرتؑ کے نور سے پورا عالم امکان روشن و منور ہو گیا۔


پیغمبرؐ کا سلسلہ نسب

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ کا نسب والد کی جانب سے کچھ اس طرح ہے: عبدالله بن عبدالمطلب‌ بن‌ هاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مره بن کعب بـن لوئی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن‌ مضر‌ بن نزار بن معد بن عدنان اور والدہ کی جانب سے «آمنه» بنت «وهب‌ بـن عـبدمناف بن زهره بن‌ کلاب‌» ہے۔
حضرت آمنہ، چاہ زمزم کی کھدائی اور عبد المطلب کی جانب سے عبد اللہ کو سو اونٹ فدیہ دے کر قربان ہونے سے بچانے کے بعد عبد اللہ کے عقد میں آئیں۔

← پدری سلسلہ نسب


نبی اکرمؐ، حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے ہیں۔ ابن بابویہ نے معتبر سند کیساتھ جابر انصاری سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ نے فرمایا: میں لوگوں میں سے آدم کے سب سے زیادہ مشابہہ ہوں اور ابراہیم، شکل و شباہت اور عادات و خصائل کے اعتبار سے لوگوں میں سے میرے ساتھ سب سے زیادہ مشابہہ ہیں۔
رسول خداؐ کے حضرت ابراہیمؑ تک کے اجداد کی تعداد تقریبا تیس اور حضرت نوحؑ تک کے اجداد کی تعداد لگ بھگ چالیس ہے اور حضرت آدم ابو البشر تک انچاس لوگ ہیں۔ اور عدنان سے اوپر کے افراد کے اسما اور تعداد میں اختلاف ہے۔
[۹] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۲ ص۲۷۲۔

عدنان آپؐ کے بیسویں جد ہیں اور مورخین نے متفقہ طور پر آپ کا حضرت تک نسب اس ترتیب سے ذکر کیا ہے: محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب بن‌هاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک بن نضر بن کنانة بن خزیمة بن مدرکة بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان.
پیغمبر اکرمؐ ایک روایت میں اپنے اجداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اذا بلغ نسبی الی عدنان فامسکوا یعنی جب میرا نسب عدنان تک جا پہنچے تو وہاں ٹھہر جاؤ اور ان سے پہلے کے اجداد کا ذکر کرنے سے پرہیز کرو۔ لہٰذا اکثر مورخین نے پیغمبر اکرمؐ کے اجداد آپؐ کے بیسویں جد عدنان تک قلمبند کیا ہے۔
مسعودی، التنبیہ والاشراف میں لکھتے ہیں: یہ جو ہم نے پیغمبرؐ کے نسب کو معد بن عدنان سے آگے ذکر نہیں کیا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرؐ نے اس کام سے منع کیا اور فرمایا: نسب شناسوں نے جھوٹ کہا ہے۔ اسی طرح معد سے اسماعیل بن ابراہیم تک بعض اجداد کی تعداد اور اسما میں بہت اختلاف ہے اور جو کچھ مسلم اور بلا اختلاف ہے وہ آپ کا معد بن عدنان تک کا نسب ہے۔
اس بنا پر عدنان سے اوپر حضرت آدم ابو البشر تک اجداد پیغمبرؐ کے اسماء اور تعداد میں روایات اور تاریخوں میں اختلافات ہیں اور شاید ایک سبب یہی ہو کہ رسول خداؐ نے حکم دیا کہ باقی کے ذکر سے اجتناب کیا جائے۔ آنحضرتؐ سے منقول حدیث میں یہ ہے: کذب النسابون نسب شناسوں نے جھوٹ کہا ہے۔
اور یوں حضرتؐ نے ماہرین انساب کی تکذیب فرمائی۔ ام المومنین ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے سنا کہ فرمایا: عدنان، ادد بن زند بن یری بن اعراق الثری کے فرزند تھے۔ آگے چل کر حدیث میں آیا ہے: زند وہی ہمیسع اور یری وہی نبت اور اعراق الثری وہی اسماعیل بن ابراہیم ہیں۔

← مادری نسب


ماں کی طرف سے پیغمبرؐ کا نسب یہ ہے: آمنہ بنت وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کہ جو قبیلہ قریش کی شاخ بنی زہرہ سے ہیں۔ پیغمبرؐ کا پدری اور مادری نسب آپؐ کے تیسرے جد عبد مناف اور پانچویں جد کلاب پر پہنچ کر ایک دوسرے سے جا ملتا ہے۔ حضرت آمنہ کے والد یعنی وہب بن عبد مناف بن زہرہ، بنو زہرہ کے رئیس اور سردار تھے۔ اور والدہ برہ بنت عبد العزّی بنو عبد الدار کے خاندان سے تھیں۔ آمنہ شرف اور پاکدامنی کے لحاظ سے بنی زہرہ کی خواتین کی سردار تھیں اور آپ کو سارے قریش کی سب سے بڑی عقیلہ قرار دیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عربوں کیلئے بیٹی کو باعث شرم سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود آمنہ کا اپنی قوم اور خاندان میں خصوصی احترام تھا۔

حضرت آمنہؑ کا حمل

[ترمیم]

آنحضرتؐ کا حمل ٹھہرنے کے بعد حضرت آمنہ کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی اور یہ اس زمانے کے اعتبار سے ایک غیر معمولی واقعہ تھا کیونکہ ان دنوں حجاز اور بالخصوص شہر مکہ کی نامناسب آب و ہوا کے بموجب حمل کا دورانیہ بڑی سختی سے گزرتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق حضرت محمدؐ کے حمل کی مدت آمنہ کیلئے بہت آسان تھی جیسا کہ ابن سعد نے بھی زہری سے نقل کیا ہے کہ آمنہ نے فرمایا: جب مجھے اپنے فرزند کا حمل ٹھہرا، اس وقت سے وضع حمل تک مجھے کسی قسم کی سختی اور دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اسی طرح انہوں نے اس پوری مدت میں تکلیف، شکم درد اور اسی طرح حاملہ خواتین والی کسی بیماری کی شکایت نہیں کی۔ آپ نے اس قدر سبک اور اتنا بابرکت حمل کسی دوسری عورت کا نہ پایا۔
مزید برآں، ابن سعد نے آمنہ سے نقل کرتے ہوئے اس حوالے سے ایک دوسری روایت نقل کی ہے: جب مجھے پیغمبرؐ کا حمل ہوا، تو مجھے پتہ نہیں چلا کہ میں حاملہ ہو چکی ہوں اور نہ کسی قسم کا بوجھ محسوس ہوا جیسا کہ دیگر خواتین کو محسوس ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن میں خواب اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھی تو کوئی (فرشتہ) میرے پاس آیا اور کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم حاملہ ہو چکی ہو؟ گویا میں نے کہا: نہیں معلوم۔ کہنے لگا: تم اس امت کے سرور اور پیغمبرؐ کا حمل اٹھائے ہوئے ہو۔۔۔ تو میں نے اپنے حمل کا یقین کر لیا۔ اس کے بعد وضع حمل تک وہ میرے پاس نہیں آیا اور وضع حمل کے وقت جب وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا: کہو میں اسے حاسدوں کے شر سے خدائے یکتا کی پناہ میں قرار دیتی ہوں اور میں نے یہ ذکر کہنا شروع کر دیا۔

مقام ولادت

[ترمیم]

تمام تاریخی منابع کا اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ مکہ شہر میں متولد ہوئے مگر تولد کے دقیق مقام کی تعیین میں دو قول ہیں:
۱۔ مشہور مصدقہ روایت کے مطابق آمنہ ازدواج کے بعد شعب بنی ہاشم میں واقع عبد اللہ کے گھر میں منتقل ہو گئی تھیں۔ یہی جگہ بعد میں شعب ابی طالب یا شعب علی کے نام سے معروف ہوئی۔
[۴۱] صفری‌، نعمت‌الله، مکه در بستر تاریخ، ص۶۳۔
اسی مقام پر نبی کریمؐ کی ولادت ہوئی کہ جسے بعد میں مولد النبی کا نام دیا گیا۔ بعد میں رسول خداؐ نے یہ مکان عقیل بن ابی طالب کو بخش دیا اور عقیل کی اولاد نے اسے محمد بن یوسف ثقفی کو فروخت کر دیا اور محمد بن یوسف نے اسے اپنے گھر میں شامل کر لیا اور یہ اس کے نام پر مشہور ہو گیا۔ ہارون کے زمانے میں اس کی ماں خیزران نے وہ جگہ لے لی اور اسے محمد بن یوسف کے گھر سے جدا کر دیا اور وہاں ایک مسجد تعمیر کی جو بعد میں زیارت گاہ کی حیثیت اختیار کر گئی۔ مگر جب وہابیوں نے حجاز پر قبضہ کیا اور مکہ پر مسلط ہو گئے اور آئمہ دین اور بزرگان اسلام کی قبور کو منہدم کر دیا تو اس مقام کو بھی گرا دیا اور اسے ملبے اور گندگی کا ڈھیر بنا دیا۔ مکہ کے سابق مئیر شیخ عباس قطان کے اصرار سے اور ملک عبد العزیز کے نام اس کی درخواست کے سبب یہ طے پایا کہ وہاں ایک کتاب خانہ تعمیر کر دیا جائے کہ جو آج «مکتبة مکة المکرمه» کے نام سے معروف ہے۔
۲۔ ایک دوسرا غیر مشہور قول موجود ہے کہ جس کی رو سے آنحضرتؐ کی ولادت کوہ صفا کے نزدیک واقع ایک گھر میں قرار دی گئی ہے۔

تاریخ ولادت

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے بارے میں تاریخ کے اختلافی ترین مسائل میں سے ایک آپؐ کی تاریخ ولادت سے متعلق اختلاف ہے کہ اگر کوئی اس حوالے سے سب اقوال کو جمع کرنا چاہے تو ان کی تعداد بیس سے زیادہ ہے۔ مقریزی نے اس بارے میں بہت سے اقوال کو جمع کیا ہے اور انہیں امتاع الاسماع میں ذکر کیا ہے۔ تاہم شیعہ محدثین کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ آنحضرتؐ بروز جمعۃ المبارک ۱۷ ربیع الاول عام الفیل (جس سال ابرھہ نے خانہ کعبہ کو منہدم کرنے کے قصد سے لشکرکشی کی مگر ناکام ہوا اور عذاب الہٰی سے دوچار ہوا) کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ البتہ اکثر علمائے اہل سنت نے پیغمبرؐ کی ولادت کی تاریخ ۱۲ ربیع الاول بروز سوموار کو قرار دیا ہے۔ اسی طرح مشہور یہ ہے کہ آنحضرتؐ کی ولادت جمعۃ المبارک کے دن طلوع صبح کے وقت ہوئی ہے۔ مرحوم ثقۃ الاسلام کلینیؒ رسول خداؐ کی تاریخ ولادت کے حوالے سے اہل سنت کے ہم خیال ہیں اور انہوں نے بھی ۱۲ ربیع الاول کا قول اختیار کیا ہے کہ جس کے بارے میں مرحوم مجلسیؒ نے تقیہ کا احتمال دیا ہے۔ بہرحال حضرت محمدؐ کی ولادت کا دقیق سال معلوم نہیں ہے۔ ابن ہشام اور بعض دوسرے لوگوں نے آپؐ کی ولادت کو عام الفیل میں لکھا ہے۔ مگر مشخص نہیں ہے کہ عام الفیل حتمی طور پر کون سا سال تھا؛ چونکہ مورخین نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کا سال سنہ ۶۳۲ء قرار دیا ہے اور وصال کے وقت آپؐ ۶۳ برس کے تھے، اس لیے ممکنہ طور پر پیغمبرؐ کی ولادت کا سال ۵۶۹ء یا ۵۷۰ء ہے۔
[۵۴] شهیدی، جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، ص۳۷.

دوسری طرف بعض منابع نے حمل ٹھہرنے کی تاریخ ایام تشریق یعنی گیارہ یا بارہ یا تیرہ ذی الحج قرار دی ہے اس قول کی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ: چونکہ حمل کی مدت طبیعی طور پر مکمل ہوئی تھی اور اس کے بارے میں کوئی معجزہ منقول نہیں ہے، اس لیے آپؐ کی ماہ رمضان میں ولادت کا قول ربیع الاول کی نسبت صحیح تر ہے!
اس اشکال کا جواب علامہ مجلسیؒ نے ان الفاظ میں دیا ہے: یہ تاریخ نسیء کے حساب سے ہے جو زمانہ جاہلیت میں مرسوم تھا۔ ’’نسیء‘‘ کا معنی یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب اپنی مرضی سے حرام مہینوں کہ جن میں سے ایک ماہ ذی الحج بھی ہے؛ کو جا بجا کر دیا کرتے تھے اور اصل ماہ حرام کو ماننے کی بجائے اپنے فرض کردہ ماہ حرام کے مطابق چلتے تھے اور مناسک حج کی ادائیگی ذی الحج کی بجائے اپنی مرضی کے کسی مہینے میں کر لیتے تھے؛ قرآن کریم نے اس عمل کو کفر میں زیادتی کا نام دیا ہے اور اس سے منع کیا ہے۔اِنَّمَا النَّسی‌ءُ زِیادَةٌ فِی الْکُفْرِ نسیء (جا بجا کرنا اور ماہ حرام کو مؤخر کرنا) مشرکین کے کفر میں اضافہ ہے۔ اس اعتبار سے اس سال کا حج جمادی الثانی کے مہینے میں انجام پایا تھا اور حمل بھی اسی مہینے تھا جیسا کہ بعض روایات میں منقول ہے۔

ولادت کے وقت حوادث

[ترمیم]

روایات میں ہے کہ آنحضرتؐ کی شب ولادت کو دنیا بھر میں اہم حوادث اور واقعات رونما ہوئے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ شاید اس بارے میں جامع ترین حدیث وہ ہے جو مرحوم صدوقؒ نے کتاب امالی میں اپنی سند سے امام صادقؑ سے روایت کی ہے اور اس سے ملتی جلتی دیگر روایات بھی منابع میں موجود ہیں۔
ولادت کے وقت رونما ہونے والے حوادث کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ سارے بت منہ کے بل گر گئے۔
۲۔ مدائن میں کسریٰ کا ایوان لرز اٹھا اور اس کے ۱۳ یا ۱۴ کنگرے گر گئے۔
۳۔ فارس کا آتشکدہ ہزار سال کے بعد خاموش ہو گیا۔
۴۔ ساوہ میں واقع دریاچہ خشک ہو گیا۔
۵۔ مکہ کی فضا میں ایک نور چمکا جس سے ہر طرف روشنی ہو گئی۔
۶۔ شیاطین اور جنات کا آسمانوں سے دھتکارا جانا اور انہیں آسمانی خبروں اور وحی کو سننے سے روکا جانا۔ شیاطین اس وقت تک عالم بالا کی طرف جا سکتے تھے اور ملائکہ کی آوازیں سنتے تھے؛ مگر اس کے بعد انہیں ہمیشہ کیلئے دھتکار دیا گیا۔ اس حوالے سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے: لم یرم بنجم منذ رفع عیسیٰ حتی بعث رسول ‌الله امام صادقؑ اس بارے میں فرماتے ہیں: شیاطین پہلے آسمانوں کی طرف آمد و رفت رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عیسیؑ کی ولادت کے بعد تین آسمانوں سے اور نبی کریمؐ کی ولادت کے بعد ساتوں آسمانوں سے راندے گئے۔ فخر رازی آیت شریفہ: وَ اَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْها مَقاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَهُ شِهاباً رَصَدا (اور یہ کہ پہلے ہم وہاں بہت سے مقامات میں (خبریں) سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔ اب کوئی سننا چاہے تو اپنے لئے انگارا تیار پائے) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ آسمانوں سے شیاطین کو دھتکارنے کے بارے میں ہے۔
۷۔ تمام جادوگروں کا سحر اس موقع پر باطل ہو گیا اور کاہنوں کی کہانت جاتی رہی۔
ابن شہر آشوب امام صادقؑ کا یہ قول نقل فرماتے ہیں: پیغمبرؐ کی ولادت کے وقت بت زمین پر منہ کے بل گر گئے۔ کوئی ایسا بادشاہ نہیں تھا کہ جس کا تاج سرنگوں نہ ہوا ہو اور اس کی زبان اس دن گنگ نہ ہوئی ہو۔ کاہن اپنی کہانت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس رات حجاز کی سرزمین سے ایک نور ساطع ہوا اور مشرق تک پھیل گیا۔ ان میں سے بعض واقعات اہل سنت کے منابع میں بھی ذکر ہوئے ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۴۲۵۔    
۲. شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج۱، ص۱۲۸۔    
۳. فیض کاشانی، ملا محسن، المحجه البیضاء، ج۴، ص۱۵۷۔    
۴. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۱، ص۱۳۵۔    
۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۷۔    
۶. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۱، ص۱۳۴۔    
۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۴۔    
۸. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۔    
۹. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۲ ص۲۷۲۔
۱۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۲۹۔    
۱۱. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۵۔    
۱۲. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۱ ص۱۳۴۔    
۱۳. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۲۴۷۔    
۱۴. مسعودی، علی بن حسین، التنبیه و الاشراف، ص۱۹۶۔    
۱۵. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۱ ص۱۳۴۔    
۱۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۵۔    
۱۷. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۲۴۶۔    
۱۸. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۱، ص۱۳۵۔    
۱۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج‌۲، ص۲۸۔    
۲۰. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۵۔    
۲۱. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۲۴۵۔    
۲۲. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۴۹۔    
۲۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۱۔    
۲۴. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۰۷۔    
۲۵. شمس شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی والرشاد فی سیره خیر العباد، ج۱، ص۳۲۶۔    
۲۶. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۱۰۔    
۲۷. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۴۹۔    
۲۸. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۹۱۔    
۲۹. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۱۰۔    
۳۰. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۴۹۔    
۳۱. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۶۔    
۳۲. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳۶۹۔    
۳۳. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج۱، ص۱۳۵۔    
۳۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۵۔    
۳۵. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۲۲۔    
۳۶. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۶۔    
۳۷. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۲۲۔    
۳۸. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۸۔    
۳۹. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۸۔    
۴۰. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۸۔    
۴۱. صفری‌، نعمت‌الله، مکه در بستر تاریخ، ص۶۳۔
۴۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۳۹۔    
۴۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج‌۱، ص۴۳۹۔    
۴۴. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالبؑ، ج‌۱، ص۱۴۹۔    
۴۵. عاملی، جعفرمرتضی، الصحیح من السیرة النبی الاعظم، ج‌۲، ص۱۴۶۔    
۴۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۰۔    
۴۷. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۶۔    
۴۸. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۸۔    
۴۹. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۶.    
۵۰. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۴۹.    
۵۱. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۷.    
۵۲. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۳۹.    
۵۳. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۰.    
۵۴. شهیدی، جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، ص۳۷.
۵۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۱.    
۵۶. توبه/سوره۹، آیه۳۷.    
۵۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۲.    
۵۸. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، الامالی، ص۳۶۰.    
۵۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۱۶۶.    
۶۰. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، کمال الدّین وتمام النّعمه، ص۱۹۲.    
۶۱. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۶۳.    
۶۲. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۵۶.    
۶۳. قطب راوندی، سعید بن عبدالله، قصص الانبیاء، ج۱، ص۲۸۰.    
۶۴. حویزی، عبدعلی بن جمعه، تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۵.    
۶۵. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۹.    
۶۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۷.    
۶۷. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۸.    
۶۸. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۷.    
۶۹. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۹.    
۷۰. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۸.    
۷۱. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۲۸.    
۷۲. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۸.    
۷۳. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۹.    
۷۴. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۸.    
۷۵. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۶، ص۲۹۸.    
۷۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۷.    
۷۷. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۹.    
۷۸. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۲۸.    
۷۹. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۰.    
۸۰. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۸.    
۸۱. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۰.    
۸۲. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۵۷.    
۸۳. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳۳۱.    
۸۴. فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، ج۳۰، ص۱۵۸.    
۸۵. آلوسی، شهاب الدین، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۱۰، ص۱۳۸.    
۸۶. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۶، ص۱۰۷.    
۸۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۵۸، ص۶۸.    
۸۸. جن/سوره۷۲، آیه۹.    
۸۹. فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، ج۳۰، ص۱۵۷.    
۹۰. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۲۹.    
۹۱. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۸.    
۹۲. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۰.    
۹۳. ابن هشام، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۷.    
۹۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۸۰.    
۹۵. شمس شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی والرشاد فی سیره خیر العباد، ج۱، ص۳۴۵.    
۹۶. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۳، ص۳۹۵.    
۹۷. ابوبکر بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۱۲۶.    
۹۸. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۴، ص۶۰.    
۹۹. شمس الدین ذهبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج۱، ص۱۵۵.    
۱۰۰. ابوالحسن ماوردی، علی بن محمد، اعلام النبوّه، ج۱، ص۱۸۲.    


ماخذ

[ترمیم]







جعبه ابزار