دیوبندی مشاہیر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
دیوبندی مکتب یا فرقہ
اہل سنت سے ہے اور
برصغیر میں
حنفی مذہب کا پیروکار ہے۔ اس کی تشکیل
دین اسلام کا احیا اور انگریز استعمار کے خلاف جدوجہد کی غرض سے وجود میں آیا اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ
دار العلوم حقانیہ کی مرکزیت کے ساتھ
پاکستان منتقل ہو گیا۔ اس دار العلوم نے سلفی جہادی گروہوں کی تربیت اور پرورش میں اہم کردار ادا کیا۔ مدرسہ دار العلوم دیوبند سے بہت سی نمایاں شخصیات فارغ التحصیل ہوئیں کہ جن میں سے بعض کے زندگی نامہ کی طرف اشارہ کریں گے۔
[ترمیم]
دار العلوم دیوبند کے نزدیک جو شخصیات امام ملت، نمونہ علم و عمل، خاص و عام کی ہدایت کے محور اور حدیث ،
روایت ،
تفسیر اور فقہی درایت میں فہم و فکر کے حامل اور مصلح شمار ہوتے ہیں؛ ان کی تعداد ۵۲ ہے کہ جنہیں خود دار العلوم نے منتخب کیا ہے اور ان میں سے چند لوگ یہ ہیں:
مولانا محمد قاسم نانوتوی دارالعلوم دیوبند کے بانی اور
شاہ ولی اللہ دہلوی کے خط کے پیروکار تھے۔
فارسی زبان میں لکھتے تھے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے اور انہوں نے سنہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں بذات خود ایک فوجی کی حیثیت سے شرکت کی۔ ان کا زندگی نامہ کتاب
مسلک دار العلوم دیوبند میں منقول ہے۔
قطبِ ارشاد
مولانا رشید احمد ﮔﻨﮕﻮهی، حدیث،
فقہ اور
تصوّف میں ممتاز تھے۔ انہوں نے بھی سنہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں شرکت کی اور نو ماہ تک انگریزوں کی قید میں رہے۔
شیخ الہند
مولانا محمود الحسن دیوبندی کی شخصیت ناتوتوی کے بعد علمی اعتبار سے دیوبند کی محافل میں زبان زد خاص و عام ہے۔ انہوں نے نانوتوی کو حجۃ الاسلام کا لقب دیا اور ان کی کتابوں پر حاشیہ لگایا ہے۔ یہ حواشی متعدد بار شائع ہوئے ہیں۔
قرآن مجید کا ترجمہ کیا اور
صحیح بخاری کے ابواب اور تراجم پر بہت سے رسالے لکھے، حدیث کی تدریس کرتے تھے اور ان کے آٹھ سو ساٹھ شاگرد تھے۔ ان کے معاصرین انہیں ایک محدث قرار دیتے تھے۔
افغانستان میں ان کا بہت اثر و رسوخ تھا۔
برطانیہ کے خلاف خفیہ طور پر سرگرم تھے اور ایک تنظیم ’’ریشمی رومال کی تحریک‘‘ چلاتے رہے۔ انہیں انگریزوں نے پانچ سال تک قید میں رکھا۔
مولانا عبدالله امبیتوی نانوتوی کے داماد اور علی گڑھ یونیورسٹی میں سرسید احمد خان کے ساتھ دینی مضامین کے مسئول تھے۔
مولانا سید احمد حسن امروہوی محدث تھے اور انہوں نے دیوبندی افکار (بالخصوص نانوتوی کے خط یعنی قاسمیت) کی ترقی کیلئے بہت کوششیں کیں۔
مولانا مفتی
عزیزالرحمان عثمانی ہی وہ شخصیت ہیں کہ جن کے توسط سے دار الافتاء دیوبند میں رونق ہوئی۔ وہ
نقشبندی طریقت کے پیروکار تھے اور درسی مسائل پر بھی عبور رکھتے تھے۔ دیوبندی حلقے ان کی تعریف کرتے ہیں۔
مولانا اشرف علی تهانوی کو حکیم الامت، محدث ، عارف بالله اور بزرگ فقیہ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ پیر طریقت تھے اور چند کتابوں کے مصنف تھے۔ قرآن مجید کے اردو زبان میں مترجم تھے۔ اس ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی پر بھی مکمل دسترس رکھتے تھے۔ ایک خیال یہ ہے کہ انہوں نے فارسی تفاسیر سے اپنے اردو ترجمہ میں بہت فائدہ اٹھایا ہے۔
مولانا حافظ
عبدالرحمن امروہوی علم
کلام کے عالم تھے اور سنہ ۱۳۶۲ھ میں
مولانا سید حسین مدنی کی گرفتاری کے دوران دار العلوم دیوبند میں درس حدیث کے رئیس تھے۔
مولانا حکیم
عبدالوهّاب یوسف پوری المعروف حکیم نابینا
دینی علوم کی تعلیم کے علاوہ طریقت کے پیرو تھے۔ جب نابینا ہوئے تو اپنے استاد طریقت سے کہا کہ ان کیلئے
دعا کریں تاکہ ہاتھوں کی نبض دیکھ کر بیماری کی تشخیص دیں اور ایسا ہی ہوا۔
مولانا مفتی
محمد کفایتالله فقیہ، محدث،
مفتی اور نکتہ دان تھے۔ سیاسی طور پر سرگرم تھے اور جمیعت العلماء ہند کے وہ تنہا سربراہ تھے جو گاندھی کی کانگریس کے رکن تھے۔
مولانا سید حسین احمد مدنی سنہ ۱۳۱۶ھ میں
مدینہ گئے اور ۱۸ برس تک وہاں تدریس میں مشغول رہے اور سیاسی سرگرمیوں میں شریک رہے۔
انہیں انگریزوں نے قید کیا۔ جمیعت العلماء کے رہنما تھے۔ سیاست و تصوف میں بہت سی کتابیں لکھیں۔ شیخ الحدیث تھے اور کئی مرتبہ جمیعت العلماء کے سربراہ مقرر ہوئے۔
مولانا مفتی محمد شفیع ادیب، مفتی، فقیہ، شاعر، مصنف، اہل طریقت اور بذات خود خلیفہ اور وقت کے پیر تھے۔
عربی، اردو، فارسی اور دری لہجے میں شعر کہتے تھے اور مصنف بھی تھے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد پاکستان آ گئے اور دار العلوم کی بنیاد رکھی۔
مولانا محمد طیّب شاعر اور مصنف ہیں۔ ان کی ایک سو سے زائد کتابیں ہیں۔ ان کی مشہور کتاب «حجةالله البالغه» ہے۔ خطیب تھے اور اہل طریقت بھی تھے۔ انہوں نے بہت سے ممالک کا سفر کیا۔ آپ کے اوپر علمی ذوق غالب تھا۔
مولانا محمد یوسف بنوری کا تعلق افغانستان کے صوبہ لغمان سے ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد انہوں نے کراچی میں دار العلوم کی بنیاد رکھی۔ مختلف علوم میں ماہر تھے۔
مصر میں
تفسیر طنطاوی کے مصنف
علامہ طنطاوی کے ساتھ مباحثہ کرتے تھے اور ان کی تفسیر پر نقد و تبصرہ کرتے رہے۔ بعد میں طنطاوی نے انہیں اپنے استاد کے عنوان سے یاد کیا اور مولانا محمد یوسف کے اشکالات کو قبول کیا۔ ان کی بہت سی کتابیں اور انہوں نے
ترمذی کی شرح لکھی۔ فارسی و عربی میں مہارت رکھتے تھے اور بہت سے ممالک کا سفر کیا۔
مولانا
مفتی محمد محمود کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد سے ہے۔ وہ فارسی میں شعر کہتے تھے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد تک بقید حیات رہے اور ان کا خیال تھا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی حمایت کرنی چاہئے کیونکہ انقلاب کی رہبری علمائے دین کے ہاتھوں میں ہے اور پہلی مرتبہ علما کی حکومت قائم ہوئی ہے۔ وہ سیاسی امور میں فعال تھے۔
[ترمیم]
دیوبندی؛
دیو بندیوں کے دینی افکار؛
دیوبندی عقائد؛
دیوبندی مشاہیر؛
دارالعلوم دیوبندیہ؛
مکتب دیوبندیہ و سلفیت؛
تفاوتهای دیوبندیه با وهابیت؛
[ترمیم]
•
مجله مطالعات راهبردی جهان اسلام، زمستان ۱۳۹۶ - شماره ۷۲ (۲۸ صفحه - از ۱۴۹ تا ۱۷۶ )، ماخوذ از مقالہ «ساختار دیوبندیه در شبه قاره هند»، تاریخ نظرثانی ۱۴۰۰/۰۹/۱۴۔