دیوبندیت اور وہابیت میں فرق
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
مکتبِ
دیوبند یا
اہل سنت کا
حنفی مسلک
برطانیہ کی استعماری حکومت کے خلاف جدوجہد ،
دینِ اسلام کے احیا اور دینی حیات کی تجدید کی خاطر وجود میں آیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس کا مرکزی دفتر
مدرسہ دار العلوم حقانی میں منتقل ہو گیا۔ اس مدرسہ نے سلفی جہادیوں کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس مکتب نے
وہابیت کیساتھ بہت قریبی تعلق قائم کیا حالانکہ عقائد کے لحاظ سے ان کے وہابیوں کے ساتھ گہرے اختلافات ہیں حتی یہ لوگ بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کی توہین اور بسا اوقات
تکفیر بھی کر دیتے ہیں۔ وہابیوں اور دیوبندیوں کے عقائد کا اجمالی جائزہ لینے سے با آسانی ان دونوں کے اختلافات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم یہاں اختصار کے ساتھ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے:
[ترمیم]
ابن تیمیہ سے متاثر وہابی افکار میں
عقل کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور صرف نقل پر تاکید کی جاتی ہے۔ وہابی اسلاف کی وسیع پیمانے پر اندھی پیروی کر کے عقل پر ہر قسم کے تفکر اور سوچ بچار کے دروازے بند کر دیتے ہیں؛ جبکہ
شاہ ولی اللہ دہلوی دیوبندی تفکر کے الہام بخش ہونے کے عنوان سے عقل و
اجتہاد کیلئے نسبی اہمیت کے قائل تھے۔ آپ اجتہاد کے عنصر کو ضروری سمجھتے تھے اور زمانہ حاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھے بغیر اسلاف کی پیروی کو قبول نہیں کرتے تھے۔
[ترمیم]
وہابی سلفیت نے اپنے افکار کی بنیاد فرقہ واریت اور مسلمانوں کی
تکفیر پر رکھی۔ شروع سے ہی محمد بن عبد الوہاب نے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر ان کا خون
مباح قرار دیا اور ان کا قتل عام شروع کر دیا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے
امام مالک اور
شافعی کے اصولوں کی ترویج کی اور یوں حنفی ہونے کے باوجود دیگر فقہی مذاہب کے آئمہ کی تقلید کو بھی جائز قرار دیا۔ انہوں نے مزید قرابت پیدا کرنے کی غرض سے
ابن عربی کے فلسفی مشرب
وحدت وجود کو
شیخ احمد سرہندی کے عرفانی مشرب
وحدت شھود کے ساتھ منسلک کرنے کی بھی کوشش کی۔
[ترمیم]
طریقت دیوبندیوں کا ایک اہم اصول ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کے پیروکار سب اہل طریقت ہیں اور طریقت کو
شریعت کا کمال سمجھتے ہیں۔ دیوبندی دینی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ طریقت کے اقطاب کو بھی مانتے ہیں۔ ان میں سے اہم ترین «
حاجی امدادالله مھاجر مکی» ہیں کہ جو دیوبندی طریقت کے رئیس اور مرشد کے عنوان سے معروف ہیں۔
[ترمیم]
دیوبندی مکتب ایک صوفی فرقہ شمار ہوتا ہے جبکہ وہابیت کی تصوف کے خلاف سخت جنگ ہے۔ وہابی تصوف کو مسلمانوں اور صوفی اقطاب کے انحراف کا ایک عامل سمجھتے ہیں اور صوفی
اقطاب کو
کافر اور
مشرک سمجھتے ہیں۔
[ترمیم]
وہابی خود کو نادرست طور پر
احمد بن حنبل کا پیروکار کہتے ہیں، جبکہ دیوبندی
ابو حنیفہ کے پیروکار ہیں۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ دہلوی کا کلامی مکتب ’’ماتریدی‘‘ تھا؛ مگر وہابی خود کو کسی کلامی مکتب کا پیروکار نہیں سمجھتے۔
علم کلام کو صرف نقلی سمجھتے ہیں اور کلامی مباحث کو کفر قرار دیتے ہیں۔
ان حالات کے باعث دیوبندیوں نے وہابیت کے عقائد کے رد میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ان آثار میں سے ایک کتاب ’’اہل سنت وجماعت کے عقائد رد وہابیت میں ‘‘ کے نام سے ہے کہ جس کی تالیف دیوبند کے بزرگ عالم مولانا
خلیل احمد سھارنپوری نے کی ہے اور
اہل سنت کے ایک معروف عالم شیخ
رحمان سربازی نے اس کا
فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
وہابیت کا امریکی استعمار کے ساتھ اچھا تعلق تھا اور ہے لیکن دیوبندی مکتب کا نہ امریکہ سے اچھا تعلق ہے اور نہ ہی ان کے اعمال و عقائد کو قبول نہ کرنے والے مسلمانوں سے ہی تعلقات رکھتے ہیں بلکہ ان کے خلاف سخت رد عمل دکھاتے ہیں۔
وہابیت بنیادی طور پر فقہی و کلامی مذاہب سے تضاد رکھتی ہے اور انہیں
بدعت سمجھتی ہے جبکہ دیوبند مکتب ابھی تک خود کو فقہی اعتبار سے حنفی اور کلامی لحاظ سے
ماتریدی مذہب کا پابند سمجھتا ہے۔ طریقت دیوبندیت کا ایک اہم اصول ہے۔ شاہ ولی اللہ اور ان کے پیروکار طریقت کے پیروکار ہیں اور طریقت کو شریعت کیلئے مایہ کمال سمجھتے ہیں؛ جبکہ وہابیت
تصوف اور طریقت کو بنیادی طور پر باطل سمجھتی ہے۔ لہٰذا وہابی فرقہ اور
دیوبندی مکتب اہداف، منہج اور عقائد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔
[ترمیم]
شمس سلفی نے دیوبندیوں کی جانب سے
وہابیت کی مذمت کے موارد بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ دیوبندیوں نے اہل توحید کہ جنہیں وہابیت کا نام دیا جاتا ہے؛ کے ساتھ حد سے زیادہ دشمنی کی ہے اور اس طرح انہیں برا بھلا کہا ہے کہ جسے بیان کرنے سے
حیا آتی ہے اور ایسی توہین خدا کا خوف رکھنے والا انسان نہیں کر سکتا۔ اس نے دو کتابوں
المهند علی المفند تالیف
خلیل احمد سہارنپوری اور
الشهاب الثاقب فی الرد علی المستشرق الکاذب تالیف
سید حسین احمد مدنی کو ان کی وہابیوں کے ساتھ عداوت کی روشن دلیل قرار دیا ہے۔
کتاب المهند اس وقت لکھی گئی کہ جب
حجاز میں
مذاہب اربعہ کے علما نے علمائے دیوبند سے سوال کیا کہ آیا آپ وہابی ہیں یا سنی؟! تو اس سلسلے میں انہوں نے ان کے سامنے ۲۴ عقائدی سوالات پیش کیے۔
سہارنپوری نے ان سوالات کا جواب دیا اور لکھا کہ ہم اہل سنت و جماعت ہیں اور ہمارا ان بعض موارد سے اختلاف ہے کہ جنہیں آپ نے وہابیت کے عقائد شمار کیا ہے۔ انہوں نے اس جواب پر علمائے ہندوستان کے دستخط کر کے اسے حجاز بھیج دیا اور اسے دریافت کرنے کے بعد
سعودی عرب ، مصر کے
جامعہ الازہر ،
شام اور
عراق سے تعلق رکھنے والے چاروں اہل سنت مذاہب کے علما نے بھی اس کی تصدیق اور تائید کی۔
دیوبندیوں کی وہابیوں کے ساتھ براہ راست نشستوں میں
مکہ و
مدینہ میں متبرک مقامات کو مسمار کرنے پر سخت تنقید کی گئی۔ سنہ ۱۳۴۳شمسی میں حجاز پر سلطان بن سعود کے قبضے اور دینی مقامات منجملہ
آئمہ بقیع کے حرم کو گرانے کے بعد وہابیوں نے اپنی قابل نفرت حرکت کی توجیہ کرنے کیلئے سنہ ۱۳۴۴شمسی میں کانفرنسیں منعقد کیں۔ اس نشست میں ہندوستانی علما کی جانب سے
مفتی محمد کفایت اللہ ،
شبیر احمد عثمانی اور بعض دیگر افراد نے شرکت کی تھی۔ پہلے سلطان نے
آیات و
روایات اور بعض خلفا کی جانب سے شرکت و بدعت کے مظاہر کے خلاف ردعمل سے استناد کرتے ہوئے نیز توحید کو عقیدے کا بنیادی ترین اصول قرار دیتے ہوئے اس ناقابل معافی حرکت کی تاویلیں کیں۔ اس کی تقریر کے بعد دیوبند کے بزرگ عالم شبیر احمد عثمانی نے سلطان مسعود کے جواب میں
کتاب و
سنت اور توحید کے احیا کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کتاب و سنت کا صحیح ادراک میرے اور تمہارے جیسے ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے بلکہ ان موارد میں اظہار رائے کیلئے عمیق تفقہ اور مجتہدانہ بصیرت کی ضرورت ہے تاکہ درست تشخیص ہو کہ کس نص پر کہاں اور کس کیفیت سے عمل کیا جائے گا۔
شبیر احمد عثمانی نے ان مسائل کو ایک ایک کر کے نقد کیا کہ جنہیں سلطان مسعود نے شرک کے عنوان سے ذکر کیا تھا۔ منجملہ:
الف)
بیعت رضوان کے درخت کو
خلیفہ دوم کی جانب سے کاٹنے کو مقدس مزارات کو مسمار کرنے کے عمل کی توجیہ کیلئے کافی دلیل قرار نہیں دیا جا سکتا؛ کیونکہ یہ درخت زمانہ بیعت کے بعد سے خلافتِ
عمر کے اوائل تک موجود تھا اور اس دور تک نہ
پیغمبر اکرمؐ اور نہ ہی کسی مسلمان نے اسے
شرک کا باعث سمجھا؛ یہاں تک کہ عمر نے خیال کیا کہ ممکن ہے یہ آگے چل کر مسئلہ بن جائے اور اسے کاٹ دیا۔
ب) متبرک مقامات میں
نماز کی ادائیگی بھی شرک کی باعث نہیں ہے؛ کیونکہ
حدیثِ معراج میں وارد ہوا ہے کہ
جبرئیل نے چار مقامات پر پیغمبرؐ کو یہ تجویز دی کہ
براق سے اتر آئیں اور نماز پڑھیں: مدینہ،
کوہ طور ، شعیبؑ کا گھر اور
بیت اللحم؛ اس کے باوجود کوئی دلیل نہیں کہ
جبل النور (جہاں پہلی وحی ہوئی) ،
حضرت خدیجہؑ کے گھر (جہاں رسول اکرمؐ نے زندگی کے ۲۸ برس گزارے) یا آنحضرتؐ کی جائے ولادت پر نماز ادا کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
ج) سجده تعظیمی کا سجدہ عبادی سے فرق ہے۔ حقیقی شرک اور جان و مال کے مباح ہونے کا موجب سجدہ عبادی ہے؛ تاہم بزرگان کے حرم میں تعظیمی سجدہ کرنے والا شخص صرف گنہگار ہو گا نہ
مشرک و
کافر ۔
ان موارد سے قطع نظر بھی تمہارا کام غلط ہے؛ کیونکہ عظیم شخصیات کی قبور کا لوگوں کے دلوں پر مثبت اثر ہوتا ہے؛ چنانچہ
عالم اسلام کے مسلمانوں کی آپ کے اس کام سے ناراضگی اس مطلب کو واضح کر رہی ہے۔ آخرکار سلطان مسعود کو کہنا پڑا کہ میں ان دلائل کا جواب دینے سے عاجز ہوں اور ان کا جواب اپنے علما کے ذمہ لگاتا ہوں۔
[ترمیم]
پاکستان کی دیوبندی شخصیات اور مراکز؛
دیوبندی؛
دیوبندیت کے دینی افکار؛
دیوبندی علما کے عقائد؛
دیوبندی مشہور شخصیات؛
دارالعلوم دیوبند؛
دیوبندیت کا وہابیت سے امتیاز[ترمیم]
[ترمیم]
•
مجله مطالعات راهبردی جهان اسلام، زمستان ۱۳۹۶ - شماره ۷۲ (۲۸ صفحه - از ۱۴۹ تا ۱۷۶)، ماخوذ از مقالہ «ساختار دیوبندیه در شبه قاره هند»، تاریخ بازیابی ۱۴۰۰/۰۹/۱۴۔