رافعیت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



رافعیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کو اصطلاح کے طور پر علم فقہ اور اصول فقہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ رافع ہونا یعنی شیء کا دوسری شیء کو برطرف کرنا ہے۔ علم فقہ میں بحث کی جاتی ہے کہ ایک مأمور بہ کے ایک چیز کب رافع بن سکتی ہے؟ یا ایک چیز کسی مأمور بہ کے لیے رافع ہے یا نہیں؟


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

عربی لغت میں رفع کا مطلب شیء کے رکھنے کے برخلاف یعنی اٹھا لینا ہے۔ عربی میں وَضۡع کا مطلب رکھنا اور رَفۡع کا مطلب اٹھا لینا ہے۔ یہیں سے یہ لفظ علم فقہ میں دئیے گئے حکم یعنی مأمور بہ کے برطرف کرنے کے معنی میں استعمال کیا گیا۔ اصول فقہ میں احکام شرعیہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
۱. احکام تکلیفی
۲. احکام وضعی
رافعیت کا تعلق احکام وضعی کی اقسام میں سے ہے۔ رافعیت یعنی وہ چیز جو مقتضی کو ختم کر دیتی ہے، جیسے نماز کے وقت کے داخل ہونے کے بعد حیض کا آنا وجوب نماز کے لئے رافع ہے۔ مقتضی سے مراد حکم کا سبب ہے۔ رافع آ کر اس شیء کو برطرف کر دیتا ہے جو حکم کے جاری ہونے کا تقاضا کر رہا تھا، مثلا نماز خاتون پر واجب ہے۔ خاتون کا پاکی کی حالت میں ہونا تقاضا کرتا ہے وجوبِ نماز کا حکم اس پر لاگو ہو۔ پس اس مثال میں خاتون کا پاکی میں ہونا مقتضی ہو گا جو موجود ہو تو خاتون کے لیے نماز کو ادا کرنا واجب ہے۔ اس کے برخلاف اگر خاتون حائض ہو تو حیض کا آنا مقتضی کو ختم کر دے گا اور نماز کا وجوب خاتون کے لیے اس حالت میں باقی نہیں رہے گا۔ پس حیض کا آنا رافع کہلائے گا جو وجوبِ نماز کو رفع کر رہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رافع ہمیشہ مقتضی کے بعد ہی آتا ہے۔ اگر مقتضی نہ ہو تو رافع کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کیونکہ رافع مقتضی کی بقاء کی صلاحیت کو ختم کرتا ہے ۔،

رافعیت کی اقسام

[ترمیم]

رافعیت شرعی بھی ہو سکتی ہے اور عقلی بھی۔ شرعی طور پر رافعیت، جیسے حرج اور ضرر کا رافع قرار پانا۔ عقلی طور پر رافعیت کے متعدد موارد ہیں:
۱. عذر ہو، عذر کا ہونا ایک حکم کو برطرف کر دیتا ہے۔
۲. یا ایک کام انجام دینا محال اور مکلف کی قدرت سے باہر ہو۔
۳. یا یہ کہ مکلف کے لیے تزاحم کی وجہ سے دو کام ایک ساتھ انجام دینا ممکن نہ ہو۔
[۵] الاستصحاب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، کوثرانی، محمود، ص ۱۶۷-۱۶۸۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. معجم مقاییس اللغۃ، ابن فارس، احمد، ج ۲، ص ۴۲۳۔    
۲. المحکم فی اصول الفقہ، حکیم، محمد سعید، ج ۱، ص ۷۵۔    
۳. اجود التقریرات، نائینی، محمد حسین، ج ۲، ص ۱۷۰۔    
۴. مصباح الاصول، خوئی، ابو القاسم، ج ۲، ص ۲۵۷۔    
۵. الاستصحاب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، کوثرانی، محمود، ص ۱۶۷-۱۶۸۔
۶. المحکم فی اصول الفقہ، حکیم، محمد سعید، ج ۴، ص ۲۹۰۔    
۷. ایضاح الکفایۃ، فاضل لنکرانی، محمد، ج ۵، ص ۳۱۸۔    
۸. ایضاح الکفایۃ، فاضل لنکرانی، محمد، ج ۵، ص ۳۲۰۔    


مآخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۴۸۰، یہ تحریر مقالہ رافعیت سے مأخوذ ہے۔    






جعبه ابزار