سات محرم کی شب کے مصائب
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
محرم کی راتوں کے نام
تعینی طور پر اور وقت گزرنے کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ یہ کام
اہل بیتؑ کے ذاکرین نے مخصوص راتوں جیسے
عاشورا اور
تاسوعا کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیا ہے۔ سات محرم کی شب
حضرت ابا عبد اللہ حسینؑ کے چھ ماہ کے فرزند
حضرت علی اصغرؑ سے منسوب ہے۔
[ترمیم]
حضرت علی اصغرؑ،
امام حسینؑ اور
حضرت رباب بنت امرء القیس کے فرزند ہیں کہ جنہیں
حرملہ بن کاهل اسدی ملعون نے سہ شعبہ تیر مار کر شہید کیا تھا۔ علی اصغرؑ کی مصیبت امام حسینؑ کیلئے طاقت فرسا تھی، چنانچہ گریہ فرمایا اور خدا سے عرض کیا: خدایا! تو خود ہمارے اور اس قوم کے مابین فیصلہ فرما، انہوں نے ہمیں بلایا تاکہ ہماری نصرت کریں مگر ہمارے ہی قتل کیلئے کمر بستہ ہو گئے ہیں۔
اس وقت آسمان سے ایک ندا سنائی دی کہ: اے حسینؑ! اصغر کیلئے فکر نہ کرو، اس وقت ایک دایہ بہشت میں اسے دودھ پلانے کیلئے آمادہ ہے۔
حسینؑ استقامت اور صبر و رضا کیلئے بہترین نمونہ ہیں۔ سب ساتھیوں اور جوانوں کی شہادت کا غم سہنے کے بعد آپؑ اپنا شیر خوار بچہ میدان میں لے آئے۔ جب علی اصغر بھی فدا ہو گئے تو
قضائے الہٰی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور اللہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے خدا! چونکہ تو ان واقعات کو دیکھ رہا ہے؛ اس لیے ان مصیبتوں کو تحمل کرنا، میرے لیے آسان ہے۔
مقاتل میں منقول ہے کہ جب امام حسینؑ کے سب اصحاب و انصار شہید ہو گئے اور
علی زین العابدین اور
عبد اللہ رضیع کے سوا کوئی باقی نہ رہا تو امامؑ کی غریبانہ ندا بلند ہوئی: «هل من ذاب یذبّ عن حرم رسول الله هل من موحّد یخاف اللّه فینا هل من مغیث یرجوا اللّه باغاثتنا هل من معین یرجو ما عند اللّه فی اغاثتنا؛ کیا کوئی ہے جو دشمن کو پیغمبرؐ کے حرم سے دور کرے؟! کیا کوئی خدا پرست ہے جو خدا کا خوف کرے اور ہماری مدد کرے؟! کیا کوئی فریاد رس ہے جو ثواب کیلئے ہماری نصرت کرے؟!
[ترمیم]
شیر خوار بجے کی شہادت کی مصادر میں مذکور تفصیلات کی جمع بندی سے دو قول ملتے ہیں: ایک سے پتہ چلتا ہے کہ شیر خوار بچہ جب خیموں کے دروازے پر امامؑ کے دامن میں تھا تو شہادت کے درجہ پر فائز ہو گیا۔ اکثر مقتل نویسوں اور مورخین نے کچھ اختلاف کے ساتھ یہ قول نقل کیا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ میدان جنگ میں امامؑ کے ہاتھوں پر دشمن کے تیر کا نشانہ بنا اور شہید ہوا۔
جب «هل من ذاب یذبّ عن حرم رسول الله» کی صدا خواتین کے کانوں تک پہنچی تو ان کے رونے اور فریاد کرنے کی آواز بلند ہوئی۔ امامؑ خیمہ کے پاس آئے اور حضرت زینبؑ سے فرمایا: ناوِلُونی عَلیّاً اِبْنی الطِّفْلَ حَتّی اُوَدِّعَهُ؛ میرے فرزند علیؑ کو میری تحویل میں دو تاکہ آخری بار اسے دیکھ لوں اور اس کے ساتھ وداع کروں۔ جب علی اصغر امامؑ کی آغوش میں تھے اور امامؑ نے ان کا بوسہ لینا چاہا تو حرملہ ملعون نے ایک تیر مارا جو بچے کے گلے پر لگا اور وہ باپ کی آغوش میں ہی شہید ہو گیا۔
اس بارے میں
سید حیدر حلی کہتے ہیں: «و منعطفا اهوی لتقبیل طفله فقبل منه قبله السهم منحرا؛ امام حسینؑ شیر خوار بچے کا بوسہ لینے کیلئے جھکے مگر امامؑ سے پہلے تیر بچے کے گلے میں پیوست ہو گیا۔ امامؑ نے وہ بچہ
حضرت زینبؑ کے سپرد فرمایا اور کہا: اسے پکڑو پھر اپنا ہاتھ بچے کے گلے تلے رکھا جو خون سے پر ہو گیا، اس
خون کو
آسمان کی طرف پھینک دیا اور فرمایا: هون ما نزل بی انه بعین الله تعالی؛ کیونکہ خدا یہ منظر دیکھ رہا ہے، اس لیے یہ مصیبت میرے لیے آسان ہے»
پس حسینؑ نے اس کے خون کو جمع کیا اور آسمان کی طرف اچھا دیا کہ جس میں سے ایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرا۔
امام باقرؑ فرماتے ہیں: اگر اس خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر گر جاتا تو
عذاب نازل ہو جاتا۔
بعض مصادر میں منقول ہے کہ: امام حسینؑ گھوڑے سے اترے اور خیمے کے پاس یا خیموں کے پیچھے اپنی شمشیر کے غلاف سے ایک قبر کھودی اور بچے کو اس کے خون سے رنگین کر کے دفن کر دیا»۔
علی اصغرؑ کی شہادت کے بارے میں ایک دوسری روایت یہ ہے کہ: وہ طفل نازنین میدان جنگ میں
سید الشہدا کے مبارک ہاتھوں پر شہید ہوئے، نہ کہ خیمہ گاہ میں:
بعض حدیثی مصادر میں یہ روایت وارد ہوئی ہے کہ: خاندان سے امامؑ کے وداع کے وقت
ام کلثوم نے امام حسینؑ سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو علی اصغرؑ کیلئے پانی کا گھونٹ طلب کریں۔ امامؑ نے چھ ماہ کے بچے کو آغوش میں لیا اور کوفی لشکر کی طرف آئے اور فرمایا: «یا قَوْمِ قَدْ قَتَلْتُمْ اَخی وَ اَوْلادی وَ اَنْصاری، وَ ما بَقِیَ غَیْرِ هذَا الطِّفْل وَ هُوَ یَتَلَظّی عَطَشاً مِنْ غَیْرِ ذَنْبٍ اَتاهُ اِلَیْکُمْ فَاسْقُوُهُ شَرْبَةً مِنَ الْماءِ؛ اے لوگو! تم نے میرے بھائی، میرے بچوں اور ساتھیوں کو قتل کیا اور اس بچے کے سوا کوئی باقی نہیں بچا ہے، وہ پیاس سے تڑپ رہا ہے جبکہ اس کا کوئی گناہ نہیں ہے، اسے پانی کے گھونٹ سے سیراب کر دو.»
بالفاظ دیگر فرمایا: اِنْ لَمْ تَرْحَمُونی فَارْحَمُوا هذَا الطِّفْل؛ اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے تو بے گناہ بچے پر رحم کر دو»
جب امامؑ بات کر رہے تھے تو عمر سعد کے حکم پر حرملہ بن کاھل اسدی نے ایک تیر کے ساتھ علی اصغر کے گلے کا نشانہ لیا اور ایک کان سے دوسرے کان تک بچے کا گلا شکافتہ کر دیا۔ امامؑ نے اپنی ہتھیلی پر علیؑ کا خون جمع کیا اور آسمان کی طرف پھینک کر فرمایا: اَللّهمَّ اِنّی اُشْهِدُکَ عَلی هؤُلاءِ الْقَوْمِ فَاِنَّهُمْ نَذَرُوا اَنْ لایَتْرُکُوا اَحَداً مِنْ ذُریَّةِ نَبیِّکَ؛ خدایا! تجھے گواہ بناتا ہوں کہ یہ لوگ قصدر کر چکے ہیں کہ تیرے پیغمبرؐ کی اولاد میں سے حتی ایک نفر کو بھی زندہ نہ رہنے دیں۔
یہ مصیبت اس قدر سخت تھی کہ امامؑ نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں عرض کیا: اَللّهُمَّ احْکُم بَیْنَنا وَ بَیْنَ قَوْمٍ دَعَوْنا لِیَنْصُرُونا فَقَتَلُونا؛ خدایا! ہمارے اور اس قوم میں خود فیصلہ فرما کہ انہوں نے ہماری نصرت کیلئے دعوت دی مگر ہمیں قتل کیا! »
[ترمیم]
امام حسینؑ نے علی اصغر کو تیر لگنے کے بعد ان کے گلے کے نیچے ہاتھ رکھا اور جب ہاتھ خون سے پر ہو گیا تو اسے آسمان کی طرف پھینک دیا؛ امام باقرؑ فرماتے ہیں: اس کا قطرہ بھی زمین پر نہیں گرا۔
اور جو مصیبت مجھ پر آئی، میرے لیے آسان ہے کیونکہ راہ خدا میں ہے اور وہ دیکھ رہا ہے۔
بعض نے لکھا ہے کہ فرمایا: خدایا! اس بچے کی شہادت تیرے نزدیک
صالح پیغمبر کی ناقہ کو مارنے سے کم نہیں ہے۔
خدایا! اگر آج تو نے ہمارے لیے فتح و نصرت نہیں لکھی ہے تو اسے اس کیلئے قرار دے جو ہمارے لیے بہتر ہے۔
اس وقت آسمان سے ایک ندا بلند ہوئی کہ اے حسینؑ! اپنے شیر خوار کو چھوڑ دے کہ ابھی اس کیلئے بہشت میں دایہ آمادہ ہے۔
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ حسینؑ نے بچے کا خون آلود کرتہ خیمے میں واپس لا کر حضرت زینبؑ کے سپرد کر دیا۔
بعض دیگر نے نقل کیا ہے کہ امامؑ نے اس کی شہادت کے بعد ایک قبر کھودی اور ان کا بدن ایک کپڑے میں لپیٹ کر اس پر نماز پڑھی۔
بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے بدن کو لا کر دیگر شہدا کے ساتھ رکھ دیا
[ترمیم]
علی اصغر کو باب الحوائج کہتے ہیں کیونکہ اگر شیرخوار تھے مگر ان کا مقام خدا کے نزدیک بلند و بالا ہے۔
امام زمانؑہ [زیارت ناحیہ مقدسہ]] میں فرماتے ہیں: اَلسَّلامُ عَلی عَبْدِاللّه ِ بْنِ الْحُسَینِؑ اَلطِّفْلِ الرَّضیعِ اَلْمَرْمِیِّ الصَّریعِ اَلْمُتَشَحَّطِ دَمَاً، اَلْمُصَعَّدِ دَمُهُ فِی السَّماءِ، اَلْمَذْبُوحِ بِالسَّهْمِ فی حِجْرِ اَبیهِ، لَعَنَ اللّه ُ رامِیَهُ حَرْمَلَةَ بْنَ کاهِلِ الْاَسَدِیَّ؛ سلام ہو عبد اللہ بن حسینؑ پر؛ وہی شیر خوار بچہ جو دشمن کے تیرِ ستم کا نشانہ بنا اور اپنے خون میں غلطان ہوا اور اس کا
خون آسمان کی طرف صعود کر گیا اور والد کی آغوش میں تیر کے ساتھ ذبح ہو گیا۔ خدا اس کے قاتل
حرملہ بن کاھل اسدی پر لعنت فرمائے۔
امام حسینؑ کے زیارت نامے میں حضرت علی اصغرؑ کے بارے میں یہ جملے ہیں: صَلّی الله عَلَیک وَ عَلَیهِمْ وَ عَلی وَلَدِک عَلی الاصْغَرِ الّذی فُجِعْتَ بِهِ؛ خدا کا درود ہو آپ پر اور ان (شہدا) پر اور آپ کے فرزند علی اصغر پر جن کا آپؑ نے غم دیکھا»
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه اطلاعرسانی حوزه، ماخوذ از مقالہ «شبهای دهه محرم»، بازنویسی توسط گروه پژوهشی ویکی فقه۔