سورہ فلق

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



سورۃ فلق قرآن کریم کی ایک سو تیرہویں سورہ (۱۱۳) ہے جو کہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور تیسویں (۳۰) جزء (پارے) میں ہے۔ یہ سورہ اور سورۃ الناس ایک ساتھ نازل ہوئی ہیں۔ ان دونوں صورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے۔


فلق کے معنی

[ترمیم]

صاحب مفردات لکھتے ہیں کہ فلق کے معنی دراڑ ڈالنے یا کسی شیء میں شگاف ڈالنے کے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: إِنَّ اللَّـهَ فالِقُ الحَبِّ وَالنَّوى؛ بے شک اللہ دانے اور گٹھلی کو شگافتہ کرنے والا ہے۔ عربی زبان میں صبح کو بھی فلق کہا گبا ہے۔ سورہ فلق کی پہلی آيت میں لفظ فلق آیا ہے اس لیے اس کا نام فلق رکھا گیا ہے۔

سورہ فلق کا محل نزول

[ترمیم]

اس سورہ میں رسول اللہ ﷺ کو رات کی تاریکی، گرہوں میں پھونکنے والوں، اور حسد کرنے والوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک قول کے مطابق يہ مدنی سورہ ہے کیونکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ يہ سورہ مدینہ میں نازل ہوئی۔

سوره فلق کی خصوصیات

[ترمیم]

۱. اس سورہ کی پانچ آیات، ۲۳ کلمات اور ۷۳ یا ۷۴ حرف ہیں۔
۲. قرآن کریم کی ترتیب نزول کے اعتبار سے يہ سورہ بیس نمبر سورہ بنتی ہے جبکہ قرآن کریم کے موجودہ مصحف کے مطابق ۱۱۳ نمبر سورہ ہے۔
۳. سورہ فیل کے بعد اور سورۃ الناس سے پہلے مکہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ بعض مفسرین نے اس سورہ کو مدنی قرار دیا ہے۔
۴. کمیت کے اعتبار سے اس سورہ کا شمار سور مفصل میں ہوتا ہے۔ خود سور مفصل کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے ایک قسم مختصر سورتیں ہیں۔ اس کے مطابق سورہ فلق مفصل لیکن مختصر سورتوں میں سے ہے۔
۵. سورہ فلق کا شمار ان سورتوں میں ہوتا ہے جو سور جمعی النزول ہیں۔ یعنی جن سورتوں کی سب آیات ایک ساتھ نازل ہوئیں۔
۶. سورہ فلق ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جو فعل امر قُلۡ سے شروع ہوتی ہیں اور ان کو سورہ قل کہا جاتا ہے۔
۷. کہا جاتا ہے کہ اس سورہ میں کسی قسم کا نسخ موجود نہیں ہے۔

سورہ فلق کے دیگر نام

[ترمیم]

اس سورہ کو معوذہ، مشقشقہ اور مقشقشہ بھی کہا جاتا ہے۔ سورہ الناس اور سورہ فلق کو معوذتان اور مشقشقتان بھی کہا جاتا ہے۔ ایک قول کی بنا پر سورہ کافرون، سورہ توبہ اور ان دو سورتوں کا مشترکہ نام مقشقشہ ہے۔
[۳] سخاوی، علی بن محمد، جمال القراء و کمال الاقراء، ج۱، ص۱۸۶۔
[۶] ہاشم زاده ہریسی، ہاشم، ۱۳۱۷، شناخت سوره‌ہای قرآن، ص۶۳۲۔
[۷] رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۹۱۔
[۸] جمعی از محققان، علوم القرآن عندالمفسرین، ج۱، ص۳۱۵۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ج۱، ص۶۴۵۔    
۲. انعام/سوره۶، آیت ۹۵۔    
۳. سخاوی، علی بن محمد، جمال القراء و کمال الاقراء، ج۱، ص۱۸۶۔
۴. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۲۰، ص۳۹۲۔    
۵. فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، بصائرذوی التمییزفی لطائف الکتاب العزیز، ج۱، ص۵۵۶۔    
۶. ہاشم زاده ہریسی، ہاشم، ۱۳۱۷، شناخت سوره‌ہای قرآن، ص۶۳۲۔
۷. رامیار، محمود، تاریخ قرآن، ص۵۹۱۔
۸. جمعی از محققان، علوم القرآن عندالمفسرین، ج۱، ص۳۱۵۔
۹. سیوطی، عبد الرحمان بن ابی بکر، الاتقان فی علوم القرآن، ج۱، ص۱۹۷۔    
۱۰. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج۲۷، ص۴۵۳۔    
۱۱. زرکشی، محمد بن بہادر، البرہان فی علوم القرآن، ج۱، ص۱۹۳۔    


مأخذ

[ترمیم]
فرہنگ نامہ علوم قرآنی، اس تحریر کو مقالہ سوره فلق سے لیا گیا ہے۔    






جعبه ابزار