سیرت نبوی میں تربیت اولاد کے اصول
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
دین اسلام نے بچوں کی صحیح معنی میں دینی تربیت کے لیے رہنما اصول بیان کیے ہیں۔ روایات میں تربیت کے مختلف مراحل کو بیان کیا گیا۔
آئمہ اہل بیتؑ بالخصوص رسول اللہ ﷺ کے متعدد واقعات کتب احادیث و تاریخ میں وارد ہوئے ہیں جن سے اولاد کی
تربیت کے بنیادی اصول ہمارے سامنے آتے ہیں۔ تربیت سے مراد رشد اور نشوونما ہے۔ انسانی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ اس میں اعلیٰ صفات پیدا ہوں اور بُری عادات اطوار کا خاتمہ ہو جوکہ اسی وقت ممکن ہے جب انسان کی تربیت اصول و ضوابط اور کڑی نگرانی میں ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے بچے کی تربیت کے اہم اصول کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے ایک بچہ سالم
روح و جسم کے ساتھ
جوانی میں قدم رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
[ترمیم]
تربیت
عربی زبان کا لفظ ہے جو ر-ب-ب سے مشتق ہے۔ اس کے
لغوی معنی رُشد و نشوونما اور بچے کی اصلاح کے لیے بہترین اقدام کرنے کے ہیں۔
اصطلاح میں تربیت کا مطلب ایسا ماحول اور زمینہ فراہم کرنا ہے جس سے بچوں کی مخفی صلاحیتیں ظاہر ہو جائیں اور اس میں پائی جانے والی استعداد اور خصائص عملی طور پر نکھر کر سامنے آ جائیں۔ یہ صلاحیتیں اور
استعداد جب تک باطن میں نکھر کر سامنے نہیں آئیں بلکہ پوشیدہ اور مخفی ہیں تو اس کو بالقوۃ استعداد کہتے ہیں لیکن جب تعلیم کے ساتھ ساتھ زحمت و مشقت کے بعد ان صلاحیتوں میں سے جس صلاحیت کو عملی و فعلی طور پر حاصل کر لیا جائے اس کو بالفعل کہتے ہیں۔ بچے کے اندر ان اعلیٰ صفات کو ابھار دینا اور مخفی صلاحیتوں کو مجسم کردینا تربیت کہلاتا ہے۔
[ترمیم]
کتب میں رسول اللہ ﷺ سے وارد ہونے والی احادیث اور مختلف واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ
تربیت کے دو مراحل ہیں: ایک بچے کی ولادت سے پہلے کا مرحلہ ہے اور دوسرا اس کی ولادت کے بعد کا مرحلہ۔ ولادت سے قبل کے مراحل میں اہم تربیتی نکات
زوجہ کا انتخاب،
ہمبستری کے آداب، حمل کے ایام کے مخصوص
آداب سرفہرست ہیں۔
علمی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اکثر و بیشتر موارد میں ماں باپ کی خصوصیات بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔ یہ خصوصیات ظاہری ہوں یا معنوی ہر دو کی گہری تاثیر بچے پر اجاگر ہوتی ہے۔ اس لیے جس بچے کے ماں باپ میں معنوی و ظاہری خوبیاں پائی جاتی ہیں ان کا بچہ معمولا ان کے جیسا ہی ہوگا۔ ضروری نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو کیونکہ بعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے کہ ماں باپ ہر دو
فاسق ہیں لیکن بچہ مومن نکلتا ہے۔ البتہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچہ ماں اور باپ کے نظریات و ان کے ماحول سے متاثر ہو کر ان کے جیسا بن جاتا ہے. پس اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ
مومن بنے تو اس کے لیے ایک مومنہ ماں تلاش کریں اور کسی ایسی خاتون کو زوجہ بنائیں جو بچے کی
دینی تربیت کرے۔ رسول اکرم ﷺ سے منقول ہے کہ یہ ضرور دیکھ کہ اپنے بچے کا
نطفہ کس کے رحم میں قرار دے رہے ہو! کیونکہ ریشہ و جڑ تاثیر گزار ہوتی ہے۔
ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ اپنے نطفوں کے لیے بہترین ارحام کا انتخاب کرو کیونکہ عورتیں اپنے ہی بھائیوں اور بہنوں کی مثل بچے جنتی ہیں۔
حلال کی کمائی بچے کی
سعادت و شقاوت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر والدین بچے کو حرام مال سے کھلائیں پلائیں تو یہ بچہ آئندہ
شقی بن سکتا ہے۔ لیکن اگر ماں باپ بچے کو حلال رزق سے کھلائیں تو
حلال رزق کی تاثیر بچے پر نمایاں طور پر آشکار ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے وارد ہوا ہے:
إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ الْجَنَّةَ أَنْ يَدْخُلَهَا جَسَدٌ غُذِّيَ بِحَرَام؛
اللہ نے
جنت پر حرام کیا ہے کہ اس میں ایسا جسم داخل ہو جو
حرام غذا سے تشکیل پایا ہے۔
محدثین نے
ہمبستری کے آداب پر بہت سی روایات نقل کی ہیں جن میں اس عمل کو انجام دینے کے آداب و سنن کو ذکر کیا گیا ہے۔ حتی کہ روایات میں زمان اور مکان کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے اور رہنمائی کی گئی ہے کہ کس دن یا کس مہینے یا کس تاریخ اور کس وقت اس عمل کو انجام دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ اگر ان
آداب کا خیال رکھا جاۓ تو نطفہ کے برقرار ہونے کی نتائج اور اثرات جداگانہ طور پر سامنے آتے ہیں جو ابتدائی
تربیت کے مراحل سے عبارت ہے۔ روایات میں ان آداب کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں جسمانی و روحی مضر اور نقصان دہ اثرات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔
انسان کی ازدواجی زندگی میں اہم ترین مراحل میں سے ایک مرحلہ خاتون کے
حمل کے ایام ہیں۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
السَّعِيدُ مَنْ سَعِدَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَ الشَّقِيُّ مَنْ شَقِيَ فِي بَطْنِ أُمِّه؛ سعادت مند شخص اپنے ماں کے پیٹ میں سعید ہے اور
شقی شخص اپنے ماں کے پیٹ سے ہی بدبخت و شقی ہے۔
حمل کے دورانیے میں والدین خصوصاً ماں خیال رکھے کہ وہ کسی گناہ کی مرتکب نہ ہو۔ بلکہ حمل میں مکروہات سے بھی اجتناب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دین اسلام نے حمل کے مرحلہ کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ متعدد احادیث اس موضوع پر وارد ہوئی ہے کہ دورانِ حمل ماں کیا خوراک کھائے اور کن چیزوں کے تناول کرنے سے احتناب کرے، مثلا روایات میں وارد ہوا ہے کہ ماں کو
لوبان کھانے کے لیے دیا جائے جسے فارسی میں کُندر کہتے ہیں۔ یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے مفید ہے۔
اسی طرح معروف پھل
بہی کے کھانے کی تاکید کی گئی۔
بعض روایات میں کھجور و
خرما کھانے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔
ان احادیث کے مطابق اس خوراک کے اثرات جہاں بچے کی شکل و صورت پر نمایاں ہوتے ہیں وہاں بچے میں شائستہ اور اعلی صفات کے وجود کا بھی باعث بنتے ہیں۔
ولادت کے بعد بچے کی تربیت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر تربیتی حصہ سات سالوں پر مشتمل ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے حدیث میں وارد ہوا ہے:
الْوَلَدُ سَيِّدٌ سَبْعَ سِنِينَ وَ عَبْدٌ سَبْعَ سِنِينَ وَ وَزِيرٌ سَبْعَ سِنِين؛ بچہ پہلے سات سال سید و سردار ہے اور دوسرے سات سال (یعنی سات سے چودہ سال تک) غلام ہے اور بقیہ سات سال ( چودہ سے اکیس سال تک) وزیر ہے۔
پس پہلے سات سال بچے کے کھیل کود کے سال ہیں جس میں اس کا کام کھانا پینا اور کھیل کود میں مشغول رہنا ہے۔ جو بچہ ابتدائی سات سال میں خوب کھیل کود کرتا ہے اس کے اندر کھیل کود کا مادہ پورا ہو جاتا ہے اور اگلے سات سالوں میں رغبت کے ساتھ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتا ہے۔ پہلے سات سال کھیل کود کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بچے کو اچھے برے کی تمیز نہ دی جائے کیونکہ بادشاہ جب غلطی کرتا ہے تو اس کا وزیر اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ پس اگر ان سات سال میں بچہ کوئی غلطی کرے تو اس کو روکا جاۓ۔ سات سال سے چودہ سال تک بچے کی تربیت کے سال ہیں جس میں بچے کو بنیادی عقائد و نظریات کی تعلیم دی جاتی ہے، اس کو آداب و
اخلاق سیکھائے جاتے ہیں، اس کو
اطاعت اور فرمانبردای کے طریقے سیکھائے جاتے ہیں اور بُری صفات کے ترک کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ اس کے بعد بچہ جب پندرہویں سال میں داخل ہو جاۓ تو اسے وزیر بنا لینا چاہیے اور کاموں میں اس سے مشورہ لینا چاہیے اور اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو مختلف امور سپرد کر دیں چاہیں۔
[ترمیم]
اللہ تعالی نے انسان کو محترم اور صاحب عزت بنایا ہے اور تمام مخلوقات پر اس کو احترام دیتے ہوئے اس کے لیے طیبات حلال کیے ہیں جیساکہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے انسانیت کو گمراہی کی ذلتوں سے نکال کر ہدایت کی عزت عنایت کی اور معاشرے میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا احترام برقرار کیا۔ آنحضرت ﷺ کی تعلیمات میں بچے کی شخصیت کا خصوصی خیال رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ آپ ﷺ کے مختلف واقعات وارد ہوئے جن میں آپ ﷺ نے بچے کو سرزنش کرنے یا اس کو خوف زدہ کرنے سے منع فرمایا اور اس کی شخصیت کا خیال رکھتے ہوئے اس پر شفقت و محبت فرمائی۔ جس معاشرے میں بچے کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا اس کی شخصیت کشی مسلسل کی جاتی ہے اس معاشرے میں بچے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر بچے کی
عزت و تکریم کی پاسداری کی جائے اور اس کی شخصیت میں ایک محترم اور با عزت نفس کے وجود کا احساس پیدا کیا جائے وہ بچہ گناہوں اور معصیتوں سے اجتناب کرے گا اور اپنے
نفس کو گناہوں سے آلودہ کر کے نفس کو
ذلیل و خوار نہیں ہونے دے گا۔
امام علیؑ سے روایت میں وارد ہوا ہے:
مَنْ كَرُمَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ لَمْ يُهِنْهَا بِالْمَعْصِيَة؛ جس شخص کا نفس اس کے لیے محترم ہوتا ہے وہ گناہ کے ذریعے نفس کی توہین و تذلیل نہیں کرتا۔
تربیت کے اصول میں سے ہے کہ بچے کے ساتھ محبت کے ساتھ پیش آیا جائے۔
سیرت رسول اللہ ﷺ میں بچوں کے ساتھ رحمدلی اور محبت سے پیش آنے کے متعدد واقعات کتب میں وارد ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے جہاں بچے کے ساتھ
محبت اور نرمی سے پیش آنے کی تلقین کی ہے وہاں بچے کو ضدی اور ہٹ دھرم بنانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ بچے سے محبت کی تشویق دلاتے ہوئے آنحضرت ﷺ سے نقل ہوا ہے:
مَن بَكى صَبِيٌ لَهُ فَأرضاهُ حَتّى يُسَكِّنَهُ ، أعطاهُ اللّه ُ عز وجل مِنَ الجَنَّةِ حَتّى يَرضى؛ جس شخص کا بچہ رو رہا ہو اور وہ اس کو راضی کر کے خاموش کرا دے اللہ عز و جل اس کو اس قدر جنت عطا کرے گا یہاں تک کہ وہ راضی ہو جائے گا۔
ایک اور مقام میں آنحضرت ﷺ سے وارد ہوا ہے :
من دخل السوق فاشترى تحفة فحملها إلى عياله، كان كحامل صدقة إلى قوم محاويج، وليبدأ بالاناث قبل الذكور، فإن من فرح ابنة فكأنما أعتق رقبة من ولد إسماعيل، ومن أقر بعين ابن فكأنما بكى من خشية الله عز وجل، ومن بكى من خشية الله عز وجل أدخله الله جنات النعيم؛ جو شخص بازار جائے اور وہاں سے اپنے اہل و عیال کے لیے ایک ہدیہ خریدے تو وہ اس شخص کی مانند ہے جو محتاج لوگوں کے لیے صدقہ لایا ہو، اس شخص کو چاہیے کہ وہ جنسِ مذکر سے پہلے جنسِ نسواں سے آغاز کرے، اور جس نے اپنی بیٹی کو خوش کیا گویا کہ اس نے اولادِ
اسماعیلؑ میں سے ایک
غلام کو آزاد کیا اور جس نے اپنے فرزند کی خواہش کو پورا کیا وہ اس شخص کی مانند ہے جو اللہ عز و جل کے خوف سے گریہ کرتا ہے اور جو اللہ عز و جل کے خوف سے گریہ کرتا ہے
اللہ اس کو جناتِ نعیم میں داخل فرمائے گا۔
رسول اللہ ﷺ بچوں سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ مسلمان اپنے بچوں کے نام رکھوانے یا ان کو رسول اللہ ﷺ کی
زیارت کروانے کے لیے لاتے تو
رسول اللہ ﷺ بچے کو گود میں بٹھاتے اور شفقت فرماتے۔ اس اثناء میں اگر کوئی بچہ پیشاب کردیتا اور اس کے والدین بچے پر غضبناک ہوتے ہوئے رسول اللہ ﷺ سے دور کرنے کی کوشش کرتے تو آپ ﷺ انہیں روک دیتے یہاں تک بچہ فارغ ہو جائے اور اس کے بعد بچے کو والدین کے حوالے کر دیتے اور اٹھ کر اپنا لباس پاک کرتے۔ رسول اللہ ﷺ سے جو بچے کے نام کی درخواست کرتا آپ ﷺ اس کا نام رکھتے اور اس بچے کے لیے دعا فرماتے تھے۔
آنحضرت ﷺ سے منقول ہے:
أَكْرِمُوا أَوْلَادَكُمْ وَ أَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ يُغْفَرْ لَكُم؛ اپنے بچوں کا احترام کرو اور انہیں بہترین ادب سیکھاؤ اللہ تمہاری
مغفرت فرمائے گا۔
روایات میں وارد ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بچوں کے ساتھ بہت زیادہ گھل مل جاتے اور ان کے ساتھ محوِ گفتگو ہو جاتے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرت تھی کہ آپ ﷺ جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان کو سلام کرتے۔
شیخ صدوق نے نقل کیا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بچوں کو سلام کرنا میری
سنت میں سے ہے اور میرے بعد تم لوگ اس کو زندہ رکھنا اور قائم رکھنا۔
رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے اپنے گھر کے پجوں سے ملتے خصوصا
امام حسنؑ اور
امام حسینؑ سے ملاقات کرتے۔ نیز وارد ہوا ہے کہ آنحضرتﷺ سفر سے واپسی پر
انصار کے بچوں سے ملتے۔
رسول اللہ ﷺ کی بچوں کے ساتھ يہ رحمدلی اور پیار سبب تھا کہ جب بھی آپ کہیں سفر سے واپس تشریف لاتے تو مدینہ کے بچے آپ کا پرتپاک استقبال کرتے۔
بچے آپ ﷺ کے ساتھ گھل مل جاتے اور آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ کھیلنے لگ جاتے، کبھی بچوں کو اپنے اوپر سوار کرتے اور اصحاب سے کہتے کہ آپ سب بھی بچوں کو گود میں لیں اور ان کے ساتھ کھیلیں، بچے بھی بعد میں فخر سے ایک دوسرے کو کہتے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے گود میں لیا اور ہمارے ساتھ وقت گزارا۔
اسی طرح نقل ہوا ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ وارد ہوۓ، يہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب يہ دونوں حضرات بچپن میں تھے،
حسنین کریمینؑ کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے ان کو پیار کیا، وہ دونوں بھی آپ ﷺ کے ساتھ کھیلنے لگے، کبھی آپ ﷺ کے اوپر سے چھلانگ لگاتے اور کبھی قریب سے گزر جاتے، رسول اللہ ﷺ بھی ان کی خاطر کبھی گردن جھکا لیتے اور کبھی گود میں بٹھا لیتے، اس ماجر کو دیکھ کر حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا کہ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں نے آخری بار اپنے بچوں کو کب پیار کیا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے سنا تو آپ ﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: جو بچوں کے ساتھ رحمدلی سے پیش نہیں آتا اور بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ
امام حسینؑ کو پیار کررہے تھے اور ان کا بوسہ لے رہے تھے ایک صحابی نے دیکھ کر کہا: «میرے دس بچے ہیں اور میں نے آج تک کسی ایک کو بھی بوسہ نہیں دیا۔» رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر بھی
رحم نہیں کیا جاۓ گا۔»
ایک روایت میں امام جعفر صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: ایک شخص
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور کہا کہ میں نے زندگی میں کبھی کسی بچے کو بوسہ نہیں کیا، جب وہ شخص چلا گیا تو رسول اللہﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ: يہ وہ شخص ہے جو میرے نزدیک اہل دوزخ میں سے ہے۔»
[ترمیم]
رسول اللہ ﷺ والدین کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ اپنے سب بچوں میں عدالت کو برقرار رکھنے کی کوشش کیا کریں اور بچوں میں فرق نہ کیا کریں، خصوصا جب بچوں کو کچھ دے رہے ہوں تو سب کے ساتھ عدالت سے کام لیں کسی کو کم یا زیادہ نہ دیں کیونکہ بعد میں يہ باعث بن سکتا ہے کہ بچے ایک دوسرے
حسد کرنے لگیں۔ نقل ہوا ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ اصحاب کے ساتھ موجود تھے اسی دوران ایک
صحابی کا بیٹا آیا اس صحابی نے اسے پیار کیا اور اسے زانو پر بٹھایا، کچھ دیر بعد اسی صحابی کی بیٹی آئی تو اس نے بیٹی کو پیار کیا اور اسے زمین پر بٹھا دیا، گویا رسول اللہ ﷺ اس ماجرا کو غور سے دیکھ رہے تھے آپ ﷺ نے اس شخص کو فرمایا کہ تم نے اپنے بیٹے کو تو پیار کیا اور اسے زانو پر بٹھایا لیکن اپنی بیٹی کو پیار کیا اور اسے زمین پر بٹھا دیا، اس شخص نے اپنی بیٹی کو زانو پر بٹھایا تو آپ ﷺ نے رضایت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب
عدالت قائم ہوئی۔
روایت میں وارد ہوا ہے کہ ایک دن
ام المومنین عائشہ کے گھر ایک خاتون آئی اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے، ام المومنین نے رسم مہمانی کے طور پر اس خاتون کے آگے خرما کے تین دانے رکھے۔ اس خاتون نے ایک ایک دانہ اپنے دونوں بچوں کو دیا اور پھر تیسرا دانہ بھی دو حصوں میں تقسیم کیا اور دونوں بچوں میں بانٹ دیا، جب وہ خاتون چلی گئیں تو ام المومنین نے سب ماجرا
رسول اللہ ﷺ کو بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: کچھ عجیب نہیں کہ اس لطف کی وجہ سے جو اس نے اپنے بچوں پر کیا اللہ تعالی اسے اپنی
رحمت سے نواز دے۔
[ترمیم]
رسول اللہ ﷺ والدین کو بچوں پر جسمانی تشدد کرنے سے منع کرتے اور فرماتے کہ بچوں کو مار پیٹ سے تربیت نہیں کیا جاسکتا، رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے ہمیں ایک واقعہ بھی نہیں ملتا کہ انہوں نے کسی بڑے یا چھوٹے کو مارا ہو۔ آپ ﷺ نے سواۓ میدان جنگ کے کبھی کسی کو مارنے یا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کی۔
[ترمیم]
وعده وفا كرنا مومن كي علامت ہے، ہم لوگ عموما بچوں کو راضی کرنے کے لیے ان سے وعدہ کرلیتے ہیں کہ مثلا اگر وہ خاموش ہو جائیں تو ان کو فلاں چیز لے کر دیں گے لیکن اپنے وعدے کو وفا نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے کہ جب بھی بچوں سے وعدہ کرو تو اس کو وفا کرو۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمانا ہے: بچوں سے محبت کرو اور ان سے مہربانی سے پیش آؤ۔ جب ان سے وعدہ کرو تو وفا کرو کیونکہ ان کا یقین اور ایمان ہوتا ہے کہ آپ ہی ان کے روزی رسان ہیں۔
عبد اللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ان کے گھر تشریف لاۓ میں اس وقت بچہ تھا تو کھیل کود میں مشغول تھا میری والدہ نے مجھے صدا دی، رسول اللہ ﷺ ںے میری والدہ سے پوچھا کہ اسے کیوں بلانا چاہتی ہیں تو میری والدہ نے کہا کہ اسے کھجور دینے کے لیے بلایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اسے کھجور دینے کا تمہارا ارادہ نہ ہوتا اور کھجور کا لالچ دے کر بچے کو بلاتی تو يہ جھوٹ شمار ہوتا»
[ترمیم]
زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹے کی ولادت پر تو فخر کرتے لیکن بیٹی کی ولادت پر سر شرم سے جھکا لیتے، رسول اللہ ﷺ نے اس سوچ کو بدلا اور خواتین کے حقوق بیان کیے ماں باپ کو احساس دلایا کہ بیٹیاں بھی تمہارے لیے اسی طرح سے مفید ہیں جس طرح سے بیٹوں کو تم فائدہ مند سمجھتے ہو۔ يہی وجہ تھی کہ اس وقت کے معاشرے میں بیٹی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے آپ ﷺ بیٹیوں کو زیادہ
محبت و پیار کرتے اور فرماتے کہ بیٹیاں بیٹوں کی نسبت زیادہ دلسوز، مددگار، بابرکت اور اہل نظافت ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے بیٹیوں کے والدین کو خوشخبری سناتے ہوۓ ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی ایک بیٹی ہوگی وہ ایک اس کے باپ کو
جہنم میں داخل ہونے سے بچاۓ گی، جس شخص کی دو بیٹیاں ہوئیں تو وہ دو سبب بنیں گی کہ ان کا باپ بہشت میں داخل ہو، اور جس شخص کی تین بیٹیاں ہوئیں تو اس کے والد پر جہاد اور مستحبی روزہ رکھنا ساقط ہوگا۔
آنحضرت ﷺ ہمیشہ تاکید سے فرماتے کہ جب بازار سے کوئی پھل لے کر جاؤ تو پہلے بیٹیوں کو عطا کرو اور اس کے بعد بیٹوں کو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنی بیٹی کو خوش کیا وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے فرزندان اسماعیلؑ میں سے کسی غلام کو آزاد کروایا، اور جس نے اپنے بیٹے کو خوش کیا وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے خوف خدا میں آنسو بہاۓ ہوں۔
[ترمیم]
انسان کے جسم میں موجود جنسی غریزے مخفی ہوتے ہیں جو چھ یا سات کی عمر میں فعال اور متحرک ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماں اور باپ بچے کی جنسی تربیت کا اہتمام کریں اس سے پہلے کہ وہ کسی انحراف کا شکار ہوں۔
دین اسلام جہاں پر بچوں کی جسمانی سلامتی کا خواہاں ہے وہاں پر بچوں کی جنسی سلامت و
عفت کا بھی طلبگار ہے۔
بچوں کو
جنسی انحراف سے بچانے کے لیے دین اسلام نے تاکید کی ہے کہ ماں باپ ہمبستری کے لیے الگ جگہ کا انتخاب کریں، جس جگہ بچے موجود ہوں چاہے وہ
نیند میں بھی ہوں ماں باپ وہاں ہمبستر ہونے سے پرہیز کریں، اگر ایسا نہ کیا گیا تو يہ امر بچوں کے جنسی انحراف کا باعث بن سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ بچوں کو سکھایا جاۓ جب وہ والدین کے کمرے میں داخل ہونا چاہیں تو اجازت لے کر داخل ہوں۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر کوئی شخص اپنی
زوجہ سے قربت اختیار کرے اور اسی جگہ ان کا بچہ بیدار ہو اور وہ دیکھ رہا ہو، ان کے بولنے کی آواز سن رہا ہو یا ان کے سانس لینے کی صدا محسوس کر رہا ہو ایسا بچہ ہرگز اہل
تقوی میں سے نہیں ہو سکے گا، اگر وہ بیٹا ہے تو
زنا کا مرتکب ہو گااور اگر بیٹی ہے تو زانیہ بنے گی۔
رسول اللہ ﷺ ہمیشہ تاکید فرماتے تھے کہ بچوں کی شرمگاہ کو چھپایا جاۓ۔ يہ امر درست نہیں کہ بچہ کسی بڑے کی شرمگاہ کو دیکھے يا بڑے اس کی شرمگاہ کو دیکھیں۔ آپ ﷺ سے منقول ہے:
لَيْسَ لِلْوَالِدَيْنِ أَنْ يَنْظُرَا إِلَى عَوْرَةِ الْوَلَدِ وَ لَيْسَ لِلْوَلَدِ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى عَوْرَةِ الْوَالد؛
ماں باپ کے لیے يہ درست نہیں کہ وہ اپنے بچے کی شرمگاہ دیکھیں، اور بچے کے لیے بھی يہ روا نہیں کہ وہ ماں باپ کی شرمگاہ کی جانب دیکھے۔
روايت ميں وارد ہوا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسے بچے کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا جبکہ اس کی شرمگاہ ڈھنپی ہوئی نہیں ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اس کی
شرمگاہ کو چھپا دیں، کیونکہ ایک بچے کی شرمگاہ کی حرمت بھی ویسی ہے جیسے ایک بڑے کی شرمگاہ کی حرمت ہے۔
رسول اللہ ﷺ چھ سال کی عمر کے بچوں کو بوسہ دینے سے منع فرماتے اور والدین کو تاکید کرتے کہ وہ کسی بھی نامحرم کو بچوں کا بوسہ لینے سے منع کریں۔ کیونکہ يہ امر باعث بن سکتا ہے کہ بچہ مستقبل میں جنسی انحراف کا شکار ہو جائے۔
اس سلسلے میں روایت میں وارد ہوا ہے: «جب بچی چھ سال کی ہوجاۓ تو اسے بوسہ نہ دیا جاۓ اور بچہ سات سال کا ہو جاۓ تو اسے بوسہ نہ دیا جاۓ۔»
بچوں کے بستر جدا نہ کرنا باعث بن سکتا ہے کہ بچے جلد
سن بلوغ کو پہنچ جائیں یا ممکن ہے جنسی تحریک کو جلد محسوس کرنے لگیں۔ دین اسلام نے بچے کو اس ممکنہ تحریف کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے تدبیر بیان کی۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: جب تمہارے بچے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر جدا کر دو۔
[ترمیم]
بچوں کا کھیل کود میں مشغول رہنا ان کے رشد و تکامل کے لیے بہت ضروری ہے۔ يہ عمر دراصل بچوں کے اندر پوشیدہ استعدادوں کو نکھارنے کی ہے اور يہ تب ہی ممکن ہے جب بچہ کھیلے کودے، دین اسلام نے حکم دیا ہے کہ بچوں کو بچپن کے ابتدائی ایام میں کھیلنے کودنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
يہ امر اتنا اہم ہے کہ
سیرت رسول اللہ ﷺ میں بھی ملتا ہے کہ آپ ﷺ بچوں کو کھیلنے کودنے کی اجازت دیتے بلکہ خود بھی ان کے ساتھ کھیل میں مشغول ہو جاتے۔
[ترمیم]
کھیل کود کے ساتھ ساتھ بچوں کی دینی تربیت کرنا ضروری ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے کہ جب تمہارے بچے الفاظ بولنا شروع کر دیں تو انہیں کلمہ [[
لا الہ الا اللہ]] سیکھاؤ اور جب وہ بولنے کے عادی ہو جائیں تو انہیں نماز سیکھاؤ اور
نماز کا حکم دو۔
آنحضرت ﷺ سے دریافت گیا کہ بچہ کس عمر میں نماز پڑھنا شروع کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
إذا عرف الغلام يمينه من شماله فمروه بالصلاة؛ جب اسے دائیں ہاتھ اور بائیں ہاتھ کی تمیز ہو جاۓ تو اسے نماز پڑھنے کا حکم دو۔
جامع الاخبار میں آنحضرت ﷺ سے روایت منقول ہے جس میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے بعض بچوں کو دیکھا تو فرمایا:
فَقَالَ: وَيْلٌ لِأَوْلَادِ آخِرِ الزَّمَانِ مِنْ آبَائِهِمْ؟ فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ آبَائِهِمُ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: لَا مِنْ آبَائِهِمُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يُعَلِّمُونَهُمْ شَيْئاً مِنَ الْفَرَائِضِ وَإِذَا تَعَلَّمُوا أَوْلَادُهُمْ مَنَعُوهُمْ وَرَضُوا عَنْهُمْ بِعَرَضٍ يَسِيرٍ مِنَ الدُّنْيَا فَأَنَا مِنْهُمْ بَرِيءٌ وَهُمْ مِنِّي بِرَاء؛
آخر الزمان کے بچوں کے والدین پر افسوس ہے، پوچھا گیا: یا رسول اللہ ﷺ اس زمانے کے
مشرک والدین پر افسوس ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! ان
مومن والدین پر افسوس ہے کہ جو اپنے بچوں کو فرائض و دینی واجبات نہیں سیکھاتے بلکہ دین پر عمل کرنے سے منع کرتے ہیں اور ان کے لیے
دنیا کی تھوڑی سی مقدار کے لیے راضی ہو جاتے ہیں پس میں ان والدین سے بیزار ہوں اور وہ مجھ سے بیزار ہیں۔
[ترمیم]
تربیت؛
قرآنی تربیت؛
بچے کے حقوق؛
اسلام میں بچے کے حقوق؛
سیرت نبوی میں بچوں سے محبت کرنا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہ اصول تربیت کودک در سیره نبوی (ص) (۱) سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ لنک کی تاریخ:۹۵/۰۵/۰۵۔ سایت پژوہہ، یہ تحریر مقالہ اصول تربیت کودک در سیره و گفتار پیامبر اعظم(ص) (۲) سے مأخوذ ہے، مشاہدہِ سائٹ کی تاریخ:۹۵/۰۵/۰۵۔