شب پانچ محرم کے مصائب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



محرم کی راتوں کے نام تعینی طور پر اور وقت گزرنے کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ یہ کام اہل بیتؑ کے ذاکرین نے مخصوص راتوں جیسے عاشورا اور تاسوعا کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیا ہے۔پانچویں شب زہیر بن قین اور امام حسن مجتبیٰ کے آٹھ سالہ فرزند حضرت عبد اللہ بن حسن سے منسوب ہے۔ البتہ حبیب بن مظاہر کے مصائب بھی اسی شب سے منسوب ہیں۔


عبد اللہ بن حسن کے مصائب

[ترمیم]
عبد اللہ بن حسن کا شمار ان آخری شہیدوں میں ہوتا ہے کہ جو امام حسینؑ کی شہادت سے پہلے ظہر عاشور کے وقت شہید ہوئے۔ امام حسن مجتبیٰ کے گیارہ سالہ فرزند عبد اللہ بن حسن بن علی، کہ جنہوں نے اپنے عموئے گرامی کو جب زمین پر گرے دیکھا تو اپنے عمو کا دفاع کرنے کیلئے میدان کی طرف لپکے اور اسی دوران جام شہادت نوش کیا۔
مقاتل میں منقول ہے کہ سید الشہدا کی حیات شریفہ کے آخری لمحات میں کوفہ کی سپاہ نے امام کا محاصرہ کر لیا۔ اس حالت میں امامؑ میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں تھے اور آپؑ نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ اس وقت امام حسینؑ کی ندا آسمان کی طرف بلند ہوئی اور آپؑ نے آسمان کی جانب سر بلند کر کے مناجات کرتے ہوئے فرمایا: خدایا! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے نبی کے نواسے کو قتل کریں گے۔۔۔ ان ظالم وحشیوں نے کچھ تامل کیا اور ایک مرتبہ پھر امامؑ پر حملہ آور ہوئے۔ اس وقت عبد اللہ بن حسنؑ جو ابھی حد بلوغ کو نہیں پہنچے تھے، انہوں نے خیمہ گاہ کو ترک کر دیا؛ اور تیزی سے امامؑ کی طرف بھاگے، حضرت امام حسینؑ نے انہیں دیکھ کر اپنی بہن زینبؑ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: بہن! اس بچے کی حفاظت کرو۔ زینب کبریٰ نے خود کو بچے تک پہنچایا اور سعی کی کہ اسے جانے سے روکیں اور خیمے میں واپس لے آئیں، مگر وہ ڈٹ گیا اور واپس آنے سے انکار کر دیا اور یہ فریاد بلند کی کہ: لا افارق عمّی! خدا کی قسم! میں اپنے عمو سے جدا نہیں ہوں گا اور انہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا! پس خود کو اپنی پھوپھی کے ہاتھوں سے چھڑوا کر امام حسینؑ تک پہنچا کہ شاید اپنے عموئے بزرگوار کو شہید ہونے سے بچا سکے۔ اس وقت بحر بن کعب نامی ایک اموی نے امامؑ پر حملہ آور ہونا چاہا؛ مگر عبد اللہ نے فریاد بلند کی: اے بد ذات! کیا تو میرے چچا کو شہید کرنا چاہتا ہے؟ اس ظالم نے بچے پر شمشیر کا وار کیا اور عبد اللہ نے اپنے ہاتھ کو ڈھال بنایا جس کے نتیجے میں ان کا ہاتھ بدن سے جدا ہو گیا! انہوں نے لٹکتے ہوئے بازو کے ساتھ اپنے عمو کو ندا دی کہ میری خبر لیجئے! حسینؑ نے اس بچے کو آغوش میں لے لیا اور اپنے سینے سے چمٹا لیا اور فرمایا: میرے بھائی کی یادگار! راہ خدا میں جو تم پر سختی آئی ہے، اس پر صبر کرو اور اس سے نیک فال لو اور اسے خیر سمجھو کہ خدائے مہربان تمہیں بہت جلد تمہارے آباؤ اجداد کے ساتھ ملحق کر دے گا۔
اسی لمحے حرملہ نے اس پیارے بچے کے گلے کا نشانہ لیا اور اس کا سر تن سے جدا کر دیا! امام حسینؑ نے اپنے بھائی کے نور چشم کی اپنی آغوش میں دردناک شہادت کے بعد آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: خدایا! اگر تو نے اپنے ان ظالم اور گناہگار بندوں کو اب تک اپنی نعمتوں سے بہرہ مند کیا تھا تو اب انہیں درہم برہم کر دے اور دوسروں کیلئے مایہ عبرت قرار دے اور ان سے کبھی راضی نہ ہو!

زہیر بن قین کے مصائب

[ترمیم]
زہیر، امام وقت کے ساتھ عشق و محبت کی مثال ہیں۔ زہیر بن قین قبیلہ بجلیہ کے بزرگ تھے اور کوفہ میں رہائش پذیر تھے۔ زہیر پہلے عثمان بن عفان کے طرفدار تھے یہاں تک کہ سنہ ۶۰ھ میں سفر مکہ سے واپسی کے دوران پر انہوں نے امام حسینؑ کے ساتھ ایک ہی منزل پر پڑاؤ ڈالا۔ امامؑ نے زہیر کے پاس ایک شخص کو بھیجا اور ان سے ملاقات کی خواہش کی۔ زہیر پہلے اس ملاقات سے جی چرا رہے تھے۔ مگر اپنی زوجہ دیلم یا دلھم بنت عمرو کے مشورے پر امام حسینؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے۔ یہ ملاقات بہت بابرکت ثابت ہوئی اور زہیر کی زندگی یکسر تبدیل ہو گئی۔ وہ اس ملاقات کے بعد خوشی خوشی اپنے اہل خانہ اور ساتھیوں کے پاس واپس آ گئے اور حکم دیا کہ ان کا خیمہ اور ساز و سامان امامؑ کے خیمے کیساتھ منتقل کر دیا جائے اپنی زوجہ کو بھی الوداع کیا اور کہا: میں امام حسینؑ کے ساتھ شہادت کا خواہاں ہوں۔ تم اپنے بھائی کے ساتھ مل کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری طرف سے تمہیں اچھائی کے سوا کچھ پہنچے۔
شب عاشور جب امام حسینؑ نے اپنے ساتھیوں کو اپنے اپنے علاقوں میں واپس چلے جانے کی اجازت دی تو ان میں سے ہر ایک نے اپنی وفاداری اور استقامت کا اظہار کیا اور زہیر بن قین نے کہا: خدا کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ قتل کر دیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور دوبارہ قتل کیا جاؤں یہاں تک کہ ہزار مرتبہ اس طرح قتل کیا جاؤں اور خدا تعالیٰ اس طرح آپؑ اور آپ کے خاندان کے جوانوں کی جانیں محفوظ رکھے۔
امام حسینؑ نے عاشور کے دن نماز فجر پڑھنے کے بعد اپنے ساتھیوں کی صف بندی کی اور زہیر بن قین کو میمنہ کی سربراہی دی جس سے ان کی اخلاقی اور عسکری شائستگی اور اہلیت کا پتہ چلتا ہے۔
عاشور کے دن دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ پہلے امام حسینؑ نے دشمن کے لشکر کو نصیحت کی، پھر زہیر نے انہیں نصیحت کی یہاں تک کہ کسی نے زہیر کو صدا دی اور کہا: امامؑ فرما رہے ہیں کہ واپس آ جاؤ۔ مجھے اپنی جان کی قسم! جس طرح مومن آل فرعون نے اپنے لوگوں کو نصیحت کی تھی تو نے بھی انہیں نصیحت کر دی ہے اگر نصیحت فائدہ مند ہوتی!
روز عاشور زہیر کی جنگ کے یادگار لمحات میں سے ایک وہ منظر ہے کہ جب شمر نے چند دیگر دشمنوں کے ساتھ مل کر امام حسینؑ کے خیموں پر حملہ کر کے انہیں نذر آتش کرنے کا ارادہ کیا تو زہیر نے اپنے دس ساتھیوں کے ہمراہ ان کا مقابلہ کیا اور ایک حملہ آور کو قتل کرنے کے بعد انہیں خیموں سے دور کر دیا۔
زہیر اور حر ریاحی نے عاشور کے دن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر زبردست جنگ لڑی اور جب بھی ان میں سے کوئی ایک دشمن پر حملہ آور ہوتا تو اگر وہ محاصرے میں گھر جاتا تو دوسرا اسے نجات دلواتا تھا۔ یہاں تک کہ حر شہید ہو گئے۔ عاشور کے دن زہیر اور سعید بن عبد اللہ حنفی نے خود کو ڈھال قرار دیا تاکہ امام حسینؑ اپنے چند ساتھیوں کی مدد سے نماز خوف ادا کر سکیں۔
زہیر شجاعانہ اور کم نظیر جنگ لڑنے کے بعد آخر کار کثیر بن عبد اللہ شعبی اور مہاجر بن اوس کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ خوارزمی لکھتے ہیں: زہیر جب زمین پر گر پڑے تو امام حسینؑ نے انہیں کہا: خدا تجھے اپنی رحمت سے دور نہ کرے اور تیرے قاتل پر خنزیر اور بندر کی شکل میں مسخ ہونے والوں کی طرح لعنت کرے۔
زیارت ناحیہ مقدسہ میں زہیر کی وفاداری اور ایثار کی ان الفاظ میں تجلیل کی گئی ہے:
السَّلامُ عَلی زُهَیْرِ بْنِ الْقَیْنِ الْبَجَلِیِّ، الْقائِلِ لِلْحُسَیْنِ وَقَدْ اذِنَ لَهُ فِی الانْصِرافِ: لا وَاللَّهِ لا یَکُونُ ذلِکَ ابَداً، اتْرُکُ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ اسیراً فِی یَدِ الَاعْداءِ وَانْجُو! لا ارانِیَ اللَّهُ ذلِکَ الْیَوْمَ
سلام ہو زہیر بن قین بجلی پر، وہ کہ جنہیں جب امام حسینؑ نے واپسی کی اجازت دے دی تو حضرتؑ کو عرض کیا: خدا کی قسم! نہیں، ہرگز ایسا نہیں ہو گا۔ کیا رسول خدا کے فرزند کو دشمنوں میں اسیر چھوڑ کر خود کو نجات دوں؟ خدا مجھے وہ دن نہ دکھائے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۱۰۔    
۲. سید ابن طاووس، علی بن موسی، اللهوف فی قتلی الطفوف، ص۷۲۔    
۳. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۴۶۷-۴۶۸۔    
۴. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۲۸، ص۳۱۹۔    
۵. ابوحنیفه دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطوال، ص۲۴۶۔    
۶. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری ج۴، ص۲۹۸۔    
۷. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۶۷۔    
۸. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۶۷-۱۶۸۔    
۹. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۹۸۔    
۱۰. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۲۸، ص۳۲۰۔    
۱۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۱۸۔    
۱۲. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۹۲۔    
۱۳. ابن طاووس، علی بن موسی، الملهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۵۳۔    
۱۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۲۰۔    
۱۵. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۸۷۔    
۱۶. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۹۵۔    
۱۷. ابوحنیفه دینوری، احمد بن داوود، الاخبار الطوال، ص۲۵۶۔    
۱۸. ابن اثیر جزری، ابوالحسن علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۵۹۔    
۱۹. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۶-۷۔    
۲۰. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۲۳-۳۲۴۔    
۲۱. ابن اثیر جزری، ابوالحسن علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۶۳-۶۴۔    
۲۲. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۴۴-۲۴۵۔    
۲۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۸۸-۱۸۹۔    
۲۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۳۴۔    
۲۵. ابن اثیر جزری، ابوالحسن علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۶۹-۷۰۔    
۲۶. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۴۔    
۲۷. شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفه حجج الله علی العباد، ج۲، ص۱۰۵۔    
۲۸. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۳۶۔    
۲۹. ابن اثیر جزری، ابوالحسن علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۱۔    
۳۰. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۵۔    
۳۱. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۲۰۔    
۳۲. ابن طاووس، علی بن موسی، الملهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۶۵۔    
۳۳. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۳، ص۲۲۵۔    
۳۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۴، ص۳۳۶۔    
۳۵. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۶۔    
۳۶. ابن اثیر جزری، ابوالحسن علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۱۔    
۳۷. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین (علیه‌السّلام)، ج۲، ص۲۳۔    
۳۸. ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۷۷-۷۸۔    


ماخذ

[ترمیم]

پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، ماخوذ از مقالہ «شب‌های دهه محرم»، بازنویسی توسط گروه پژوهشی ویکی فقہ۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : عشرہ محرم کے مصائب




جعبه ابزار