شرط شرعی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



احکامِ شرعی میں مشروط کی تاثیر جس سے وابستہ اور جس پر موقوف ہو اس کو شرطِ شرعی کہتے ہیں، جیسے نماز کی وضو سے نسبت شرطِ شرعی کہلاتی ہے۔ اصول فقہ میں اس عنوان سے بحث کی جاتی ہے۔


شرط شرعی کی تعریف اور اس کا شرط عقلی سے فرق

[ترمیم]

مشہور قول کے مطابق شرط شرعی کے مقابلے میں شرط عقلی آتی ہے۔ شرطِ شرعی سے مراد وہ شرط ہے جس پر مشروط اپنی تاثیر اور اثر گزاری کے اعتبار سے موقوف ہو نہ کہ اپنے وجود کے اعتبار سے۔ پس مشروط اثر و تاثیر کی خاطر جس پر موقوف ہو اور اس کے بغیر اس کی تاثیر ظاہر نہ ہوتی ہو اس کو شرطِ شرعی سے تعبیر کیا جاتا ہے، مثلا نماز کے لیے وضو؛ کیونکہ صحتِ نماز اس معنی میں اثر انداز ہو کہ نماز حصولِ ثواب اور سقوطِ عقاب کا باعث بنے اور مکلف کا ذمہ جس کی انجام دہی سے بَری ہو جائے، اس اثر گزاری کے لیے نماز وضو پر موقوف ہے، لہذا وضو شرطِ شرعی کہلائے گا۔ اگرچے عقل کے اعتبار سے نماز اس اثر کے بغیر بھی خارج میں متحقق ہو جاتی ہے، برخلافِ شرط عقلی کے، کیونکہ شرطِ عقلی میں مشروط کا وجود شرط پر موقوف ہوتا ہے جبکہ شرطِ شرعی میں مشروط کی تاثیر شرط پر موقوف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرطِ عقلی میں شرط کے مفقود ہونے سے مشروط کا مفقود ہونا لازم آتا ہے، اگرچے شرط کا وجود مشروط کے وجود کو مستلزم نہیں ہے، مثلا نماز ظہر میں نماز کی نیت و قصد کا شرط ہونا، عقل کے اعتبار سے نمازِ ظہر کے عنوان کا متحقق ہونا اس سے وابستہ ہے۔

بعض نے شرطِ شرعی اور شرط عقلی میں یہ فرق بیان کیا ہہے کہ حقیقت میں شرطِ شرعی وہی شرطِ عقلی ہے، دونوں میں صرف یہ فرق ہے کہ شرطِ عقلی کو عقل شرع کی مدد کے بغیر درک لیتی ہے، مثلا حج کا مسافت طے کرنے پر موقوف ہونا، جبکہ شرطِ شرعی کو عقل شرع کی مدد سے درک کر پاتی ہے کیونکہ شرطِ شرعی کی طرف رہنمائی شارع کے بیان سے ہوتی ہے۔ اس بناء پر اسے شرط شرعی کہہ دیا جاتا ہے۔ ورنہ ہر دو شرط کو عقل ہی درک کرتی ہے۔ شرطِ عقلی اور شرط شرعی ہر دو میں وجودِ مشروط خود اس شرط سے وابستہ اور مربوط ہوتا ہے اور شرط کے نہ ہونے کا لازمہ مشروط کا نہ ہونا نکلتا ہے۔ پس ہر دو میں شرط کے مفقود ہونے کی صورت میں مشروط کا مفقود ہونا لازم آتا ہے۔

شرط شرعی کی اقسام

[ترمیم]

شرط شرعی تین قسموں میں تقسیم ہوتا ہے:
۱۔ شرط متقدم
۲۔ شرط متأخر
۳۔ شرط مقارن

← پہلی قسم: شرط متقدم


شرطِ متقدم سے مراد شرط کا زمانے کے اعتبار سے مشروط پر مقدم ہونا ہے، جیسے نماز کی نسبت سے وضو یا غسل کا نماز پر مقدم ہونا ہے، اس فرض کے ساتھ کہ افعالِ وضو و غسل خود شرط ہوں نہ کہ وضو یا غسل کے اثر اور نتیجے میں ایسی طہارت مقصود ہے جو نماز کے وقت تک باقی رہے۔

← دوسری قسم: شرط متأخر


شرطِ متأخر سے مراد شرط کا وقت اور زمانہ مشروط سے مؤخر ہونا ہے، جیسے بعض فقہاء کے قول کے مطابق استحاضہ کثیرہ میں مستحاضہ خاتون کا دن کے وقت روزہ رکھںا اس شرط کے ساتھ صحیح قرار پائے گا بشرطیکہ وہ مغرب کے بعد رات کے وقت غسل کرے۔

← تیسری قسم: شرط مقارن


شرطِ مقارن سے مراد شرط اور مشروط کے زمانے کا یکجا اور ملا ہوا ہونا ہے، مثلا نماز میں لباس کا پاک ہونا اور رخ با قبلہ ہونا، کہ ہر دو شرطیں ایک نماز میں یکجا ہیں۔

← موردِ نزاع


شرطِ مقارن میں کسی قسم کا اختلاف و نزاع نہیں پایا جاتا ہے کیوکہ بلا شک و شبہ شرطِ مقارن کے واقع ہونے کا امکان موجود ہے، فرق نہیں پڑتا کہ شرطِ مقارن شرطِ شرعی ہو یا شرطِ عقلی۔ اسی طرح بلا شک و شبہ شرطِ عقلی میں شرط کا مشروط سے مؤخر ہونا محال اور ممتنع ہے۔ شرطِ عقلی چونکہ فاعل کی فاعلیت یا قابل کی قابلیت کے لیے متمم ہے اس لیے شرطِ عقلی کا مشروط سے مقدم غیر معقول اور ممتنع ہے، اگرچے شرط رتبہ کے اعتبار سے مشروط پر مقدم ہوتی ہے۔

شرط کا مشروط سے مؤخر ہونے کے امکان پر اختلاف

[ترمیم]

علماءِ اصول میں اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا شرطِ شرعی میں شرط کا شرطِ عقلی کی مانند مشروط سے مؤخر ہونا ممکن ہے یا ممکن نہیں؟ اس بارے میں مختلف نکتہِ نظر سامنے آتا ہے:
۱۔ بعض علماء اصول قائل ہیں کہ شرطِ شرعی کا مشروط سے مؤخر ہونا بھی ممتنع اور محال ہے، کیونکہ شرط کا شمار ایک علتِ تامہ کے اجزاء میں ہوتا ہے اور ایک معلول کا وجود تب تک ممکن نہیں ہے جب تک علتِ تامہ کے تمام اجزاء وجود میں نہ آ جائیں۔ پس علتِ تامہ کے تمام اجزاء کے وجود میں آنے سے پہلے معلول کا وجود عقلًا ممتنع اور محال ہے۔ چنانچہ شرطِ شرعی کے تحقق کے بعد ہی مشروط متحقق ہو سکتا ہے کیونکہ شرطِ شرعی علتِ تامہ کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔ اسی جگہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس نظریہ کے مطابق کیا یہ ممکن ہے کہ شرط کو مشروط پر مقدم کیا جائے؟ کیونکہ جب شرط علتِ تامہ کے اجزاء میں سے ہے تو کیا علت اور معلول کے درمیان فاصلہ جائز ہے؟ اس نظریہ کے حامل علماء اصول کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے:
- بعض یہ کہتے ہیں جس طرح شرطِ شرعی کا مشروط سے مؤخر ہونا ممتنع ہے اسی طرح سے شرطِ شرعی کا مقدم ہونا بھی ممتنع ہے۔ یہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شرطِ شرعی کو علتِ تامہ کے اجزاء میں سے قرار دینے والوں کی نظر میں شرطِ حقیقی ہمیشہ مشروط کے ساتھ مقارن اور ہم زمان ہو گی۔ شرط کا امورِ متأخرہ اور امورِ متقدمہ بلکہ امورِ مقارنہ پر اطلاق ان کے درمیان اور جو شرط واقع میں حقیقت اور تاثیر رکھتی کے درمیان ایک نوعِ تعلق و ارتباط ہے۔

- ان کے مقابلے میں دوسرا گروہ معتقد ہے کہ شرطِ متأخر ممتنع ہے لیکن شرطِ متقدم ممکن ہے۔ اس گروہِ علماء کا کہنا ہے کہ شرطِ متقدم مشروط کے وجود کی علت نہیں ہے کہ اس کا مشروط کے ساتھ مقارن اور ہم زمان ہونا لازم آئے بلکہ یہ شرطِ متقدم حقیقیت میں مشروط کے لیے معد اور زمینہ فراہم کرنے کا باعث ہے۔ اس معنی میں کہ معلول اور مشروط کی علت سے مشروط کے صدور کا زمینہ شرطِ متقدم فراہم کرتا ہے اور زمینہ فراہم کرنے والے عنصر کا مقدم ہونا کوئی اشکال نہیں رکھتا۔

۲۔ پہلے گروہِ علماء جوکہ شرط کے مشروط سے مؤخر یا مقدم ہونے کے ممتنع ہونے کے معتقد ہیں کے مقابلے میں دیگر علماءِ اصول آتے ہیں جو قائل ہیں کہ شرط کو مشروط پر مقدم یا اس کے مقارن کیا جا سکتا ہے اور اسی طرح شرط کو مشروط سے مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق شرطِ شرعی کا مشروط پر تقدم یا تأخر ممتنع نہیں ہے، کیونکہ ان کے نزدیک شرطِ شرعی یعنی شرطِ حقیقی معلول کے وجود کے لیے علتِ تامہ کے جزء کے طور پر نہیں ہے بلکہ موضوعِ حکم کی قید کے طور پر ہے جس کا بذاتِ خود حکم پر کسی قسم کی تاثیر و اثر نہیں ہے۔ موضوعِ حکم کی قید پر شرط کا اطلاق صرف ایک اصطلاح ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. خوانساری، حسین بن جمال الدین، مشارق الشموس ج۱، ص۸۔    
۲. الجزائری، سید عبد اللہ، التحفۃ السنیۃ فی شرح النخبۃ المحسنیۃ، ص۱۹۰۔    
۳. موسوی بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہیۃ، ج۱، ص ۳۳۹-۳۴۰۔    
۴. خوئی، سید ابو القاسم، مصباح الفقاہۃ، ج۷، ص۲۹۸۔    
۵. خوانساری، حسین بن جمال الدین، مشارق الشموس ج۱، ص۸۔    
۶. آشتیانی، میرزا محمد حسن، تقریرات آیة اللَّه المجدد الشیرازی، ج۲، ص۴۲۶۔    
۷. اخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الأصول، ص۱۲۸۔    
۸. اردکانی، فاضل، غایۃ المسئول، ص ۲۳۸۔    
۹. بروجردی، حسین، لمحات الأصول، ص۱۵۸۔    
۱۰. مروج جزائری، سید محمد جعفر، منتہی الدرایۃ، ج۲، ص۴۱۱۔    
۱۱. ہاشمی شاہرودی، سید محمود، بحوث فی علم الأصول للشہید الصدر، ج۲، ص۱۷۹-۱۸۶۔    
۱۲. اخوند خراسانی، محمد کاظم، کفایۃ الأصول، ص۹۲-۹۳۔    
۱۳. ہاشمی شاہرودی، سید محمود، بحوث فی علم الأصول للشہید الصدر، ج۲، ص۱۸۴-۱۸۶۔    
۱۴. حکیم، سید عبد الصاحب، منتقی الأصول، ج۲، ص۱۱۱۔    
۱۵. مروج جزائری، سید محمد جعفر، منتہی الدرایۃ، ج۲، ص۱۳۳۔    
۱۶. منتظری، حسین علی، نہایۃ الأصول، ص۱۶۴-۱۶۷۔    
۱۷. فیاض، محمد اسحاق، محاضرات فی أصول الفقہ، ج۲، ص۳۰۹-۳۱۷۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۴، ص۶۴۲-۶۴۴۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصولی اصطلاحات | شرط | مقدمہ واجب




جعبه ابزار